الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- ابن تیمیہ رحمہ اللہ

نعمت اللہ نے 'اردو یونیکوڈ کتب' میں ‏نومبر 21, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​


    ترجمہ مقدمة الکتاب​


    سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کو سزاوار ہے، ہم اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے ہدیت اور مغفرت کے طالب ہیں اور ہم اپنے نفس کے شر اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ تعالیٰ کے پاس پناہ لیتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت فرما دے اسے گمراہ کرنے والا کوئی نہیں اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کو کوئی راستے پر لگانے والا نہیں۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ جنہیں اس نے ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب رکھے اور اس دین کی سچائی کے لئے اللہ کافی گواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربِ قیامت میں انعاماتِ الٰہی کی بشارت دینے اور عذاب قہاری سے ڈرانے کے لئے بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم سے مخلوقات کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں۔ الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ چراغِ عالم افروز ہیں جن کے وجودِ مسعود کی بدولت کائنات کا گوشہ گوشہ روشن ہو گیا۔ سو اس کے ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو غلط راستے سے بچا کر صحیح راستے پر چلایا۔ اندھے پن سے نجات دلا کر بینا کر دیا اور برائی کے گڑھوں سے نکال کر بھلائی کی مبارک بلندیوں پر پہنچایا۔ اندھی آنکھیں کھلنے لگیں۔ بہرے کان سننے لگے، جن دلوں پر پردے پڑے ہوئے تھے وہ حقائق کی بصیرت افروز اور نورانی فضا میں جلوہ افروز ہو گئے۔ اسی دین کے ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق اور باطل کو جدا کر کے دکھا دیا، ہدایت اور گمراہی، نیکی اور برائی، مومنین اور کفار نیک بخت اہل جنت اور بدبخت اہل دوزخ میں امتیاز پیدا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے دوستوں اور اس کے دشمنوں میں فرق بتا دیا چنانچہ جس کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ گواہی دے دیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں سے ہے تو وہ بے شک رحمٰن کے دوستوں میں سے ہے اور جس کے لئے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دے دیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں میں سے ہے تو وہ شیطان کا دوست ہے۔
     
  2. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    اولیاء اللہ اور اولیاء الشیطان میں تمیز /آیات شریفہ سے

    اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بیان فرما دیا ہے کہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے دوست بھی ہیں اور شیطان کے بھی نیز اولیاء رحمن اور اولیاء شیطان کے مابین جو فرق ہے وہ بھی ظاہر کر دیا۔ فرمایا

    أأَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٦٢﴾ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴿٦٣﴾ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿٦٤﴾
    یونس


    ’’یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ آزردہ خاطر ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ کی زندگی بسر کرتے رہے۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کی باتیں بدلتی نہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘

    اور فرمایا


    اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢٥٧﴾
    البقرہ



    ’’اللہ ایمان والوں کا دوست ہے۔ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور جو لوگ کافر ہیں، ان کے ولی شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر تاریکیوں میں دھکیلتے ہیں۔ وہی دوزخی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔‘‘
    اور فرمایا


    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٥١﴾ فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّـهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ ﴿٥٢﴾ وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۚ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ ﴿٥٣﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٥٤﴾ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ﴿٥٥﴾ وَمَن يَتَوَلَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ﴿٥٦﴾
    المائدہ


    ’’مسلمانو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنائو۔ یہ لوگ باہم ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی ان کو دوست بنائے گا تو بے شک وہ بھی انہی میں سے ہے کیونکہ اللہ جل شانہ ایسے ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا۔ تو اے پیغمبر جن لوگوں کے دلوں میں بے ایمانی کا روگ ہے تم ان کو دیکھو گے کہ ان کے دوست بنانے میں بڑی جلدی کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم کو تو اس بات کا ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیٹھے بٹھائے ہم کسی مصیبت کے پھیر میں آجائیں، سو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی فتح یا کوئی امر اپنی طرف سے ظاہرکرے گا تو اس وقت یہ منافق اس بدگمانی پر جو اسلام کے غلبے اور اس کی صداقت کی نسبت اپنے دلوں میں چھپاتے تھے، پشیمان ہوں گے(اور اس سے مسلمانوں پر ان کا نفاق کھل جائے گا تو) مسلمان ان کے حال پر افسوس کرتے ہوئے آپس میں کہیں گے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو ظاہر میں بڑے زور سے اللہ کی قسمیں کھاتے اور ہم سے کہا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اندر اندر یہود کی تائید میں کوشش کرتے تھے تو ان کا سارا کیا دھرا ضائع ہوا اور سراسر نقصان میں آگئے۔ مسلمانو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں۔ وہ ایسے لوگ لائے گا، جن کو وہ دوست رکھتا ہوگا اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے۔ مسلمانوں کے ساتھ نرم، کافروں کے ساتھ کڑے، اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑا دیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ بھی اللہ رب العزت کا ایک فضل ہے، جس کو چاہے دے اور اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے اور وہ سب کے حال سے واقف ہے۔ مسلمانو! بس تمہارے یہی دوست ہیں، اللہ اور اللہ کا رسول اور وہ مسلمان جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہر وقت اللہ رب العالمین کے آگے جھکے رہتے ہیں اور جو اللہ کے رسول اور مسلمانوں کا دوست بنا رہے گا۔ (تو وہ اللہ کی جماعت میں داخل ہو گا) اور اللہ کی جماعت ہی غلبہ پانے والی ہے۔‘‘
    اور فرمایا:


    هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّـهِ الْحَقِّ ۚ هُوَ خَيْرٌ ثَوَابًا وَخَيْرٌ عُقْبًا ﴿٤٤﴾
    الکہف


    ’’اس سے ثابت ہوا کہ سب اختیار اللہ برحق ہی کو حاصل ہے، وہی اچھا ثواب دینے والا اور آخر کار وہی اچھا بدلہ دینے والا ہے۔‘‘
    شیطان کے دوستوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

    فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴿٩٨﴾ إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٩٩﴾ إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُم بِهِ مُشْرِكُونَ ﴿١٠٠﴾
    النحل


    ’’جب قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ ایمان والوں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھنے والوں پر اس کا قابو نہیں چلتا، اس کا قابو صرف ان لوگوں پر چلتا ہے جو اس سے دوستی رکھتے ہیں اور جواس (کے وسوسے) کے سبب اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘
    اور فرمایا:


    الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا ﴿٧٦﴾
    النساء


    ’’جو لوگ ایمان والے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کافر شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں، اس لیے شیطان کے دوستوں کے ساتھ خوب لڑو۔ شیطان کی تدبیریں بودی ہیں۔‘‘
    اور فرمایا:


    وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا ﴿٥٠﴾
    الکہف


    ’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سبھی نے سجدہ کیا، ابلیس جنات کی قسم سے تھا، اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی۔کیا مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی نسل کو اپنے دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں۔ ظالموں کو برا ہی بدل ملتا ہے۔‘‘
    اور فرمایا:


    وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّـهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا ﴿١١٩﴾
    النساء



    ’’اور جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے وہ صریح گھاٹے میں آگیا۔‘‘
    اور فرمایا:


    لَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ﴿١٧٣﴾فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ ﴿١٧٤﴾ إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٧٥﴾
    آل عمران


    ’’جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگ تمہارے ساتھ لڑنے کے لیے جمع ہورہے ہیں اور ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور بھی زیادہ ہوگیااور کہنے لگے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔ پس یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے فضل سے واپس آئے۔ انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہی کی جستجو کی اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔ شیطان ہی تمہیں اپنے دوستوں کا ڈراوا دکھاتا ہے۔ اگر تم مومن ہو تو ان سے نہ ڈرو اور مجھی سے ڈرو۔‘‘
    اور فرمایا:


    إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٧﴾ وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّـهُ أَمَرَنَا بِهَا ۗ قُلْ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٢٨﴾ قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ ﴿٢٩﴾ فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّـهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٣٠﴾
    الاعراف


    ’’ہم نے شیطانوں کو انہی لوگوں کا یار بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے اور جب کبھی کسی بری حرکت کے مرتکب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بڑوں کو اسی طریقے پر چلتے پایا اور اللہ نے ہم کو اس کا حکم دیا ہے۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! ان لوگوں سے کہو کہ اللہ تو برے کام کا حکم نہیں دیتا۔ تم اللہ کے بارے میں وہ کچھ کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں؟ اے پیغمبر ان لوگوں سے کہو کہ میرے پروردگار نے تو ہمیشہ انصاف کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہر ایک نماز کے وقت تم سب اللہ کی طرف متوجہ ہوجایا کرو اور خالص اسی کی تابعداری میں نظر رکھ کر اس کو پکارو جس طرح تم کو پہلے پیدا کیا تھا۔ اسی طرح تم دوبارہ بھی پیدا ہوگے۔ اسی نے ایک فریق کو ہدایت دی اور ایک فریق ہے کہ گمراہی ان کے حق میں ثابت ہوچکی ہے، ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑکر شیطانوں کو اپنا دوست بنایا اور بایں ہمہ سمجھتے ہیں کہ وہ راہ راست پر ہیں۔‘‘
    اور فرمایا:


    وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُم
    الانعام


    ’’شیطان تو اپنے اولیاء کی طرف وحی کرتے ہی رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے کج بحثی کریں۔‘‘
    ابراہیم خلیل علیہ السلام نے فرمایا:


    يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَـٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا ﴿٤٥﴾
    سورہ مریم



    ’’اے میرے باپ ! مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمن کی طرف سے عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں اور شیطان کے ولی (دوست) نہ بن جائیں۔‘‘
    اور فرمایا:


    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴿١﴾ إِن يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُم بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ ﴿٢﴾ لَن تَنفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ ۚ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴿٣﴾ قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۖ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ﴿٤﴾ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٥﴾
    الممتحنہ


    ’’مسلمانو! اگر تم ہماری راہ میں جہاد کرنے اور ہماری رضا مندی ڈھونڈنے کی غرض سے اپنے وطن چھوڑ کر نکلے ہو تو ہمارے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائو کہ ان کی طرف دوستی کے نامہ و پیام دوڑانے لگو، حالانکہ تمہارے پاس جو اللہ کی طرف سے دینِ حق ہے وہ اس سے انکار ہی کرچکے ہیں، وہ تو صرف اتنی بات پر کہ تم اپنا پروردگار اللہ ہی کو مانتے ہو۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور تم کو (گھروں سے) نکال رہے ہیں اور تم چپکے چپکے ان کی طرف دوستی کے پیغام دوڑا رہے ہو اور جو تم چھپا چھپا کر کرتے ہو اور جو ظاہر ظہور کرتے ہو ہم سب کو خوب جانتے ہیں اور جو تم میں سے ایسا کرے گا تو سمجھ لو کہ وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا یہ کافر اگر کہیں تم پر قابو پا جائیں تو کھلم کھلا تمہارے دشمن ہوجائیں اور ہاتھ اور زبان دونوں سے تمہارے ساتھ برائی کرنے میں کوتاہی نہ کریں اور ان کی اصلی تمنا یہ ہے کہ کاش تم بھی انہی کی طرح کافر ہوجائو۔ قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں ہی تمہارے کچھ کام آئیں گی اور نہ تمہاری اولاد ہی کچھ کام آئے گی، اس دن اللہ ہی تم میں(حق و باطل کا) فیصلہ کرے گا اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ مسلمانو! ابراہیم علیہ السلام اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے، تمہارے لیے ان کا ایک اچھا نمونہ ہو گزرا ہے جب کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم کو تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو، لاتعلق اور بیزار ہیں، ہم تم لوگوں کے عقیدوں کو بالکل نہیں مانتے اور ہم میں اور تم میں کھلم کھلا عداوت اور دشمنی ہمیشہ قائم ہوگئی ہے اور یہ دشمنی ہمیشہ کے لیے رہے گی، جب تک کہ تم اکیلے اللہ پر ایمان نہ لائو مگر ہاں ابراہیم علیہ السلام کی اپنے باپ سے اتنی بات کہ میں تمہارے لیے ضرور مغفرت کی دعا کروں گا اور یوں تمہارے لیے اللہ کے آگے میرا کچھ زور تو چلتا نہیں اے پروردگار! ہم تجھی پر بھروسہ رکھتے ہیں اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے، اے ہمارے پروردگار! ہم کو کافروں کے زور و ظلم کا تختہِ مشق نہ بنا اور اے ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ معاف کر، بے شک تو زبردست اور حکمت والا ہے۔‘‘


    فصل


    مذکورہ بالا آیات سے جب یہ معلوم ہوگیا کہ لوگوں میں رحمن کے ولی (دوست) بھی ہوتے ہیں اور شیطان کے بھی، تو ضروری ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں فرق بتایا ہے، اسی طرح ان میں امتیاز کیا جائے اور فرق ملحوظ رکھا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ولی وہ ہیں جو مومن ہوں اور متقی ہوں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

    أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٦٢﴾ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴿٦٣﴾
    یونس


    ’’یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کے دوستوں پر نہ تو کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ آزردہ خاطر ہوں گے یہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ پر کاربند رہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    اولیاء اللہ کے اوصاف احادیث سے

    اور صحیح حدیث میں، جسے بخاری وغیرہ نے سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وارد ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    یَقُوْلُ اللہُ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ بَارَزَنِیْ بِالْمُحَارَبَۃِ اَوْ فَقَدْ اٰذَنْتُہ بِالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِمِثْلِ اَدَا ئِ مَا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَلَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّہ فَاِذَا اَحْبَبْتُہ کُنْتُ سَمْعَہ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِہِ وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا فَبِیْ یَسْمَعُ وَبِیْ یُبْصِرُ وَبِیْ یَبْطِشُ وَبِیْ یَمْشِیْ وَلَئِنْ سَاَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّہ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیِذَنَّہ وَمَا تَرَدَّدْتُّ عَنْ شَیْءٍ اَنَا فَاعِلُہ تَرَدُّدِیْ عَنْ قَبْضِ نَفْسِ عَبْدِیَ الْمُوْمِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَاَکْرَہُ مُسَاءَتَہ وَلَا بُدَّلَہ مِنْہُ
    (بخاری کتاب الرقاق، باب التواضع رقم حدیث: ۶۵۰۲۔ تاہم فقد بارزنی بالمحاربۃکے الفاظ طبرانی کے ہیں۔ (ازہر))


    ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جس نے میرے ولی سے دشمنی کی وہ مجھ سے جنگ کے لیے میدان میں نکل آیا ہے۔ یا فرمایا کہ میں نے اس سے جنگ کا اعلان کر دیا، میرا بندہ جتنا میرا قرب میری فرض کردہ چیزوں کے ادا کرنے سے حاصل کرتا ہے اتنا کسی دوسری چیز کے ساتھ حاصل نہیں کر سکتا۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت آجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے کہ وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پائوں بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے چنانچہ وہ مجھی سے سنتا ہے، مجھی سے دیکھتا ہے، مجھی سے پکڑتا ہے اور مجھی سے چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں ضرور دیتا ہوں، اگر مجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیتا ہوں، میں نے کبھی کسی ایسے فعل سے جسے کہ مجھ کو کرنا ہو اس درجہ تردد نہیں کیا جتنا کہ اپنے اس بندے کی روح قبض کرنے سے تردد کرتا ہوں، اسے موت ناپسند ہے اور مجھے اس کی ناگواری ناپسند ہے جبکہ موت سے اسے چارا بھی نہیں۔‘‘
    یہ حدیث صحیح ترین ہے جو اولیاء کے بارے میں وارد ہوئی ہے، سو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے، جس نے میرے دوست سے دشمنی کی وہ مجھ سے جنگ کے لیے میدان میں نکلا ایک اور حدیث میں ہے:


    وَاِنِّیْ لَاَثأَرُ لِاَوْلِالیَائِیْ کَمَا یَثْاَرُ اللَّیْثُ الَحَرِبُ
    (ابن کثیرسورۃ البقرہ:۹۸۔ الزھد امام احمد ۳۴۷۔ حلیۃ الاولیاء موقوفا علی ابن عباس رضی اللہ عنہما)


    ’’میں اپنے دوستوں کا بدلہ اس طرح لیتا ہوں جس طرح ایک جنگجو شیر بدلہ لیتا ہے۔‘‘

    یعنی جو شخص ان سے دشمنی کرتا ہے۔ اس سے میں ان کا بدلہ اس طرح لیتا ہوں جس طرح شیر حملہ آور اپنا بدلہ لیتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء وہ ہوتے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس سے دوستی کرتے ہیں۔

    چنانچہ اسی بات کو پسند کرتے ہیں جسے وہ پسند کرے اور اس بات کو ناپسند کرتے ہیں، جو اسے ناپسند ہو۔ جس چیز سے وہ راضی ہو اس سے وہ بھی راضی اور جس پر وہ ناراض ہو اس پر وہ بھی ناراض ہوتے ہیں۔ اسی بات کا حکم کرتے ہیں، جس کا حکم وہ کرے اور اس بات سے منع کرتے ہیں، جو اس نے منع کر دی ہو۔ اسی کو دیتے ہیں جسے دینا اس کو پسند ہو اور اس کو دینے سے باز رہتے ہیں جسے نہ دینا ہی اسے پسند ہو۔ جیسا کہ ترمذی وغیرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول مروی ہے:

    اَوْثَقُ الْعُرٰی فِی الْاِیْمَانِ الْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ
    (ترمذی میںنہیںملی۔رواہ ابن ابی شیبہ ۱۱۴۱ و راجع الصحیحۃ، ۹۹۸۔ (ازہر))

    ’’ایمان کا سب سے زیادہ مضبوط حلقہ اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرنا اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے بغض رکھنا ہے۔‘‘

    ایک دوسری حدیث میں جسے ابوداود نے روایت کیا ہے فرمایا:


    مَنْ اَحَبَّ لِلہِ وَاَبْغَضَ لِلہِ وَاَعْطٰی لِلہِ وَمَنَعَ لِلہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ
    (سنن ابوداؤد ، کتاب السنۃ ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ عن ابی امامہ (حدیث ۴۶۸۱) والترمذی کتاب صفۃ القیمۃ باب (۶۰) حدیث ۲۵۲۱، عن معاذ بن انس، مسند احمد ، ج ۳، ص ۴۳۸، سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ، حدیث ۳۸۰)۔)


    ’’جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کی اور اس کے لیے خفگی کی ، کچھ دیا تو اللہ ہی کے لیے اور کسی کو دینے سے روکا تو اللہ تعالیٰ ہی کی خوشنودی کو ملحوظ رکھتے ہوئے تو اس شخص نے اپنا ایمان کامل کر لیا۔‘‘
     
  4. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    ولی کا لغوی اور اصطلاحی معنی

    ولایت عداوت کی ضد ہے۔ ولایت کی بنیاد محبت اور قرب پر ہے اور عداوت کی بنیاد غصے اور دوری پر ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ ولی کو اس لیے ولی کہا جاتا ہے کہ وہ اطاعات کی موالات کرتا ہے یعنی پے در پے عبادت کرتا ہے لیکن پہلا معنی زیادہ درست ہے۔

    ولی وہ ہوتا ہے جو قریب ہو چنانچہ کہا جاتا ہے کہ {ھٰذَا یَلِیْ ھٰذَا} یعنی یہ چیز اس چیز کے قریب ہے اور اسی سے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مروی ہے

    اَلْحِقُوالْفَرَآئِضَ بِاَھْلِھَا فَمَا اَبْقَتِ الْفَرَائِضُ فِلِاَوْلیٰ رَجُلٍ ذَکَرٍ
    (بخاری ، کتاب الفرائض۔ باب میراث ابن الابن اذالم یکن ابن ۔ رقم ۶۷۳۵۔ مسلم، کتاب الفرائض۔ باب الحقوا الفرائض باھلھا… الخ) رقم الحدیث: ۱۶۱۵۔ ابوداؤد کتاب الذکاۃ۔ باب فی ذکاۃ السائمۃ حدیث ۱۵۶۷۔)


    ’’میراث پہلے اصحاب الفروض کو دو جو باقی رہے وہ اس مرد کے لیے ہوگا جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہو۔‘‘

    رَجُل کا لفظ مرد ہی کے لیے آتا ہے لیکن پھر بھی اس کے ساتھ تاکید کے لیے ذکر (مرد) کا لفظ زیادہ فرمایا تاکہ یہ بات کھل کر بیان ہوجائے کہ یہ حکم مردوں کے ساتھ مختص ہے اور اس میں مرد اور عورتیں ہر دو شریک نہیں ہیں جیسا کہ زکوٰۃ کے بارے میں فرمایا


    {فَاِبْنُ لَبُوْنٍ ذَکرٌ}
    (ابوداؤد کتاب الذکاۃ۔ باب فی ذکاۃ السائمۃ حدیث ۱۵۶۷۔)


    ابنِ لبون کا لفظ خود مذکر ہے۔ تاہم تاکید کے لیے پھر ذکر کا لفظ زیادہ کر دیا ۔
    چونکہ اللہ کا ولی وہ ہوتا ہے جو خود کو اللہ کی محبت و رضا کے مطابق ڈھال لے اور محبت و رضا، بغض و ناراضی اور اوامر و نواہی میں اس کی مکمل متابعت اور فرمانبرداری کرے۔ اس لئے اللہ کے ولی کا دشمن، خود اللہ کا دشمن قرار پاتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:


    لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ
    (الممتحنہ)


    ’’میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائو کہ ان کی طرف دوستی کے پیغام دوڑانے لگو۔‘‘

    لہٰذا جس نے اللہ تعالیٰ کے دوستوں سے دشمنی کی، اس نے اللہ تعالیٰ سے دشمنی کی اور جس نے اس سے دشمنی کی وہ اس سے برسرِ پیکار ہوا۔ اس لیے فرمایا:


    ’’مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ بَارَزَنِیْ بِالْمُحَارَبَۃِ‘‘
    (بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، رقم الحدیث: ۶۵۰۲۔)


    جس نے میرے دوست سے دشمنی کی اس نے میرے خلاف اعلانِ جنگ کیا
     
  5. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    اولیاء اللہ میں سے افضل کون

    اولیاء اللہ میں سب سے زیادہ فضیلت انبیاء کو حاصل ہے اور انبیاءعلیہم السلام میں سب سے زیادہ فضیلت انہیں حاصل ہے جو مرسل ہوں اور مرسل نبیوں میں سب سے زیادہ فضیلت والے اولوالعزم رسول نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

    اللہ تعالیٰ نے فرمایا:


    شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّـهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ ﴿١٣﴾
    (الشوریٰ)


    ’’اس نے تمہارے لیے دین کا وہی راستہ ٹھہرایا ہے جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور تمہاری طرف بھی ہم نے اسی رستے کی وحی کی ہے اور اسی کا ہم نے ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو بھی حکم دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔‘‘

    اور فرمایا:

    وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۖ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا ﴿٧﴾ لِّيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ ۚ وَأَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٨﴾
    (الاحزاب)


    ’’جب ہم نے پیغمبروں سے تبلیغِ رسالت کا عہد لیا اور خاص کر تم سے اور نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام اور مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام سے اور ان سب سے پکا عہد لیا تاکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سچے لوگوں سے ان کے سچ کا حال دریافت کرے اور اس نے کافروں کے لیے عذاب درد ناک تیار کر رکھا ہے۔‘‘

    اولوالعزم رسولوں میں سب سے افضل محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین اور امام المتقین ہیں جو اولادِ آدم علیہ السلام کے سردار ہیں۔ قیامت کے دن جب انبیاء اکٹھے ہوں گے تو جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ان کے امام ہوں گے۔ جب ان کا وفد بنے گا تو جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خطیب ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام محمود والے ہیں جس کی وجہ سے پہلے اور پچھلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رشک کریں گے۔ الحمد کے جھنڈے والے، حوض کوثر کے ساقی، قیامت کے دن لوگوں کی شفاعت کرنے والے اور صاحب ِ وسیلہ و فضیلت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ فضیلت والی کتاب دے کر بھیجا اور جن کے لیے سب سے افضل احکام و شریعت مقرر فرمائے، جن کی امت کو بہترین امت قرار دیا جو لوگوں کے لیے مبعوث کی گئی ہے، ان میں اور ان کی امت میں وہ فضائل و محاسن جمع کر دئیے جو ان سے پہلے لوگوں کو الگ الگ عطا ہوتے تھے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پیدا تو سب سے آخر میں ہوئی لیکن قیامت کے روز اٹھنے میں سب سے پہلے ہو گی، چنانچہ صحیح حدیث میں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکا یہ قول مبارک ہے:


    نَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بَیْدَ اَنَّھُمْ اُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَاُوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِھِمْ فَھٰذَا یَوْمُھُمُ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ یَعْنِی الْجُمُعَۃَ فَھَدَانَا اللہُ لَہُ النَّاسُ لَنَا تَبَعٌ فِیْہِ غَدًا لِلْیَھُوْدِ وَبَعْدَ غَدٍ لِلنَّصَارٰی
    (بخاری کتاب الجمعۃ باب فرض الجمعۃ۔مسلم کتاب الجمعۃ باب ہدایۃ ہذہ الامۃ لیوم الجمعۃ رقم:۸۷۶۔ نسائی کتاب الجمعۃ باب ایجاب الجمعۃ، رقم۱۳۶۸۔ مسند احمد ج۲، ص۲۴۲وغیرہ۔)


    ’’(دنیا میں) ہم آخر میں آنے والے قیامت کے دن آگے ہوں گے، فرق صرف اس قدر ہے کہ انہیں کتاب ہم سے پہلے دی گئی ہے اور ہمیں ان کے بعد دی گئی یہ ان کا دن ہے جس میں ان کا اختلاف پڑگیا (مُراد جمعۃ المبارک ہے) اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دن کی ہدایت کر دی۔ اب لوگ اس بات میں بھی ہم سے پیچھے ہیں(ہمارا جمعہ ہے) ان کا ہفتہ جو جمعہ کے دوسرے دن آتا ہے اور نصاریٰ کا اتوار ہے، جو جمعہ کے تیسرے دن آتاہے۔‘‘

    نیز فرمایا:


    اَنَا اَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْاَرْضُ
    (ترمذی،رقم: ۳۶۹۲، کتاب المناقب باب مناقب عمر۔ ابوداؤد کتاب السنۃ، باب فی التخیرین الانبیآء رقم: ۳۶۷۳)


    ’’قیامت کے دن جس پر سے زمین سب سے پہلے کھلے گی میں ہوں۔‘‘
    نیز فرمایا:


    اٰتِیْ بَابَ الْجَنَّۃِ فَاَسْتَفْتِحُ فَیَقُوْلُ الْخَازِنُ مَنْ اَنْتَ فَاقُوْلُ اَنَا مُحَمَّدٌ فَیقُوْلُ بِکَ اُمِرْتُ اَنْ لَّا اَفْتَحَ لِاَحَدٍ قَبْلَکَ
    (مسلم کتاب الایمان باب قول النبی انا اول الناس یشفع فی الجنۃ رقم: ۴۸۶، مسند احمد ج۳، ص ۱۳۶۔)


    ’’میں جنت کے دروازے پر آکر دروازہ کھولنے کو کہوں گا۔ دربان کہے گا کہ آپ کون ہیں ؟میںکہوں گا کہ میں محمد ہوں۔ وہ کہے گا کہ آپ ہی کے متعلق مجھے حکم دیا گیا کہ آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولوں۔’’
     
  6. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    ولایت کے لیے اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضروری ہے

    جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے فضائل بہت ہیں اور جب سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپ کو اپنے دوستوں اور دشمنوں کے درمیان فرق اور مابہ الامتیاز بنایا۔ چنانچہ کوئی شخص اس وقت تک اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ وہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور جو کچھ وہ لائے ہیں، اس پرایمان نہ لائے اور ظاہر و باطن میں ان کی اتباع نہ کرے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی محبت اور ولایت کا دعویٰ کرے اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہ کرے۔ وہ اولیاء اللہ میں سے نہیں ہے بلکہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف ہو وہ تو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور شیطان کے دوستوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾
    آل عمران


    ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘

    ولی کی تعریف حسن بصری رحمہ اللہ کی زبان سے​


    حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے مذکور بالا آیت کریمہ ان کے امتحان کے لیے نازل فرمائی اور اس میں یہ بیان کر دیا کہ جو شخص رسول اللہ کی اتباع کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی محبت کا مدعی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ کرے تو وہ اولیاء اللہ سے نہیں ہے اور نہ ہوسکتاہے۔ اگرچہ بہت سے لوگ دل میں اپنے متعلق یا کسی اور کے متعلق یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اولیاء اللہ میں سے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اولیاء اللہ نہیں ہوتے۔ یہود و نصاریٰ بھی تو اس کے مدعی ہیں کہ وہ اللہ کے دوست اور محبوب ہیں اور جنت میں صرف وہی داخل ہوگا جو ان میں سے ہوگا۔بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں۔

    اللہ تعالیٰ نے فرمایا :


    وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ۖ بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۚ وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴿١٨﴾
    المائدہ


    ’’یہودیوں اور نصرانیوں نے کہا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، ان سے کہہ دوکہ پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں پر عذاب کیوں کرتا ہے(ایسا ہرگز نہیں) بلکہ تم بھی اس کی مخلوق میں ایک نوع یعنی بشر ہو۔ اس کی شان یہ ہے کہ جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب کرے۔ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے۔ سب کی بادشاہت اسی کے پاس ہے اور اسی کی طرف جانا ہے۔‘‘
    نیز فرمایا:

    وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١١١﴾ بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿١١٢﴾
    البقرہ


    ’’اور اہل کتاب کہتے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کے سوا، جنت میں کوئی نہیں جانے پائے گا۔ یہ ان کی تمنائیں ہیں۔ اے پیغمبر ان سے کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو اپنی دلیل لائو (بلکہ واقعی بات تو یہ ہے کہ) جس نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور وہ نیکوکار بھی ہے تو اس کے لیے اس کا اجر اس کے پروردگار کے ہاں موجود ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کسی قسم کا خوف طاری ہوگا اور نہ وہ کسی طرح آزردہ خاطر ہوں گے۔‘‘

    مشرکینِ عرب کا یہ دعویٰ تھا کہ مکہ مکرمہ میں رہنے اور بیت اللہ کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے ہم اللہ کا کنبہ ہیں اور اس کی وجہ سے دوسروں پر اپنی بڑائی جتایا کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :


    قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فَكُنتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ تَنكِصُونَ ﴿٦٦﴾ مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ ﴿٦٧﴾
    المومنون


    ’’ہماری آیتیں تم کو پڑھ کرسنائی جاتی تھیں اورتم اکڑے اکڑے قرآن کا مشغلہ بناتے ہوئے بیہودہ باتیں کرتے، الٹے پائوں بھاگتے تھے۔‘‘

    نیز ارشاد فرمایا:


    وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ﴿٣٠﴾ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَـٰذَا ۙ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴿٣١﴾ وَإِذْ قَالُوا اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٢﴾ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّـهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿٣٣﴾ وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّـهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٤﴾
    الانفال


    ’’اے پیغمبر! وہ وقت یاد کرو جب کافر تمہارے بارے میں تدبیر کر رہے تھے تاکہ تم کو باندھ رکھیں یا تم کو مار ڈالیں یا تم کو جلا وطن کر دیں اور حال یہ تھا کہ کافر اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے اور جب ہماری آیات اُن کافروں کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں۔ ہم نے سن تو لیا اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس طرح کا قرآن کہہ لیں۔ یہ اگلے لوگوں کی کہانیاں ہی تو ہیں اور اے پیغمبر! وہ وقت یاد کرو جب ان کافروں نے دعائیں مانگیں کہ یااللہ اگر یہ دین اسلام یہی دین حق ہے اور تیری طرف سے اترا ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی اور عذاب درد ناک لا نازل کر اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ تم ان لوگوں میں موجود رہو اور وہ تمہارے رہتے ان لوگوں کو عذاب دے اور اللہ ایسا بھی نہیں کہ بعض لوگ گناہوں کی معافی اللہ سے مانگتے رہیں اور وہ ان سب کو عذاب دے اور (اب کہ تم مدینے ہجرت کر کے چلے آئے) تو ان کفارِ مکہ کا کیا استحقاق رہا کہ یہ تو خانہ کعبہ کے جانے سے مسلمانوں کو روکیں اور اللہ ان کو عذاب نہ دے حالانکہ یہ لوگ اللہ کے ولی (دوست) نہیں ہیں۔ اللہ کے ولی (دوست) صرف وہ ہیں جو اس سے ڈرتے ہیں لیکن ان میں بہت سے لوگ نہیں جانتے۔‘‘

    سو اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بیان فرما دیا کہ مشرکین میرے ولی (دوست ) نہیں ہیں اور نہ ہی کعبۃ اللہ کے متولی اور مختار ہیں۔ میرے ولی (دوست) تو صرف متقی لوگ ہیں۔
    صحیحین میں سیدناعمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ نہیں بلکہ علانیہ اور بلند آواز سے فرما رہے تھے:

    ’’ان اٰل فلان لیسوا لی بأولیاء (یعنی طائفہ من اقاربہ) انما ولیی اللہ و صالح المؤمنین‘‘

    کہ آل فلاں (جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقارب و اعزہ کی ایک جماعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) میرے دوست نہیںہیں، میرا ولی (دوست) تو اللہ ہے اور نیکوکار اہل ایمان ہیں
    (بخاری کتاب الادب باب تبل الرحم ببلالھا رقم:۵۹۹۰ ، مسلم کتاب الایمان باب موالات المؤمنین و مقاطعۃ غیرھم برقم: ۲۱۵)

    یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے کہ:


    فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ ﴿٤﴾
    التحریم


    ’’تو اللہ تعالیٰ اس کا دوست ہے۔ جبریل اور نیک مومن اس کے دوست ہیں ۔‘‘
    صالح المومنین سے مراد وہ شخص ہے جو اہل ایمان میں سے ہو اور نیک کام کرنے والا ہو اور مومن و متقی ہو یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں۔ ان لوگوں میں سیدناابوبکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم اور وہ تمام لوگ داخل ہیں، جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت رضوان کا فخر حاصل کیا۔ یہ لوگ تعداد میں چودہ سو تھے اور وہ سب جنتی ہیں۔ جیسا کہ حدیثِ صحیح سے ثابت ہے۔
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


    لَا یَدْخُلُ النَّارَ اَحَدٌ بَا یَعَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ
    (مسلم کتاب الفضائل باب فضائل اصحاب الشجرۃ۔ رقم ۶۴۰۴ ابوداؤد کتاب السنۃ باب فی الخلفاء رقم ۳۶۵۳۔ ترمذی کتاب المناقب باب ماجاء فی فضل من بایع تحت الشجرۃ ، رقم: ۳۸۶۰)


    ’’درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے ایک بھی دوزخ میں نہ جائے گا۔‘‘
    اسی طرح ایک اور حدیث ہے:


    اِنَّ اَوْلِیَائَ اللہِ الْمُتَّقُوْنَ اَیْنَ کَانُوْا وَحَیْثُ کَانُوْا
    (فتح الباری۱۱۱۶۰۔طبرانی۵۳۹۔رواہ احمد عن معاذ بن جبل و لفظہ ان اولی الناس بی المتقون من کانوا وحیث کانوا ، ۵۲۳۵ (ازھر))


    ’’اللہ کے دوست متقی لوگ ہیں، چاہے وہ کوئی بھی ہوں یا کہیں بھی ہوں۔‘‘
     
  7. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی شخص مستثنیٰ نہیں

    کفار میں سے بھی بعض آدمی اس کے مدعی ہوتے ہیں کہ وہ اللہ کے ولی ہیں۔حالانکہ وہ اس کے ولی نہیں بلکہ اس کے دشمن ہیں۔ اسی طرح منافقین میں سے بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں، جو اسلام ظاہر کرتے ہیں اور بظاہر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت کا اقرار بھی کرتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں بلکہ انسان و جن دونوں کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ حالانکہ باطن میں ان کا عقیدہ اس کے خلاف ہوتا ہے۔ مثلاً وہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا رسول نہیں سمجھتے بلکہ انہیں دوسرے بادشاہوں کی طرح ایک بادشاہ سمجھتے ہیں، جن کی لوگ اطاعت کرتے تھے یا وہ کہتے ہیں کہ وہ لوگوں پر اپنی غیر معمولی عقل سے دبدبہ جماتا تھا، یا یہ کہتے ہیں کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول تو ہیں لیکن اَن پڑھ لوگوں کی طرف نہ کہ اہل کتاب کی طرف، بہت سے یہود و نصاریٰ بھی ایسا ہی کہتے ہیں۔ یا یوں کہتے ہیں کہ وہ عام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے جو خاص دوست ہیں، ان کی طرف نہیں بھیجے گئے اور نہ اولیاء اللہ انکی رسالت کے محتاج ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کا جو رستہ معلوم ہے، وہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جہت سے علیحدہ ہے جیسا کہ خضر علیہ السلام کی راہ موسیٰ علیہ السلام سے علیحدہ تھی۔ یا یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے وہ تمام چیزیں بلاواسطہ حاصل کر لیتے ہیں، جن کی انہیں ضرورت ہو اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یا یہ کہتے ہیں کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری احکام دے کر بھیجے گئے ہیں۔ ان ظاہری احکام میں تو ہم ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ رہے باطنی حقائق تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے ساتھ مبعوث نہیں کیے گئے یا کہتے ہیں کہ آپ ان سے آگاہ نہ تھے۔ یا یہ کہتے کہ ہم رسول اللہ کی بہ نسبت ان حقائق کے زیادہ واقف ہیں، یا اتنے ہی واقف ہیں جتنے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں اور انہیں یہ حقائق آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مانند معلوم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور واسطہ سے معلوم ہوگئے ہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  8. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    اصحاب ِ صُفہّ کے متعلق غلط فہمیاں

    ان میں سے بعض لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ اہل صفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مستغنی تھے اور ان کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے ہی نہیں گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے باطنی طور پر اہل صُفہّ کو وہ سب کچھ وحی کے ذریعے سے بتا دیا تھا جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی رات کو وحی کے ذریعے سے بتایا گیا تھا۔ اس لیے اہل صُفہّ ان کے ہم رتبہ ہوگئے۔ان لوگوں کو فرطِ جہالت سے یہ سمجھنے کی بھی توفیق نہ ہوئی کہ واقعہ اسراء تو مکہ میں ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    ِ
    سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ ۔۔۔' ﴿١﴾
    ِبنی اسرائیل


    ’’(عجز و درماندگی کے عیب سے) پاک ہے وہ جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے اس مسجد اقصیٰ تک لے گیا، جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کر رکھی تھیں۔‘‘

    اور صُفہّ مدینے میں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے شمال کی طرف تھا۔ اس میں وہ مسافر اترا کرتے جن کا نہ کوئی گھر ہوتا تھا اور نہ کوئی دوست ہوتے تھے، جن کے ہاں وہ مہمان ٹھہریں۔ مومنین ہجرت کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آیا کرتے تھے۔ جو شخص کسی مکان میں فروکش ہوسکتا، ہوجاتا اور جس کی کوئی جگہ نہ ہوئی تھی وہ مسجد میں ٹھہرتا تھا اور جب تک اسے کوئی جگہ نہ ملتی تھی، وہیں ٹھہرا رہتا تھا۔ اہل صفہ کوئی معین آدمی نہ تھے، جو ہمیشہ صفہ ہی پر رہتے ہوں بلکہ وہ کبھی تھوڑے ہوجاتے تھے، کبھی زیادہ ہوجاتے تھے۔ ایک شخص کچھ مدت کے لیے وہاں رہتا تھا پھر وہاں سے چلا جاتا تھا اور جو لوگ صُفہّ میں اترتے تھے، وہ عام مسلمانوں کی مانند ہوتے تھے۔ انہیں علم یا دین میں کوئی امتیازی حیثیت حاصل نہیں ہوتی تھی بلکہ ان میں تو ایسے لوگ بھی تھے جو بعد میں اسلام سے مرتد ہو گئے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل کیا تھا۔ عرینہ قبیلہ کے آدمی مدینہ میں اترے آب و ہوا ناموافق آئی اور بیمار ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دودھ دینے والی اونٹنیاں منگوائیں اور فرمایا کہ ’’ان کا دودھ اور پیشاب پیا کرو‘‘ (چنانچہ اس علاج سے وہ تندرست ہوگئے) اور جب تندرست ہوگئے تو چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹنیوں کو ہانک لے گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش کے لیے آدمی بھیجے چنانچہ وہ لائے گئے، ان کے ہاتھ پائوں کاٹ دئیے گئے، ان کی آنکھوں میں لوہے کی دہکتی ہوئی سلاخیں پھیری گئیں اور انہیں تپتے ہوئے ریگستان میںچھوڑ دیا گیا، پانی مانگتے تھے تو نہیں دیاجاتا تھا، ان کا قصہ صحیحین میں سیدناانس رضی اللہ عنہ کی روایت سے موجود ہے

    (بخاری کتاب الوضوء ، باب ابوال الابل رقم: ۲۳۲ مسلم کتاب القسامۃ باب حکم المحاربین والمرتدین رقم: ۴۳۵۳، ترمذی کتاب الطہارۃ باب ماجاء فی بول مایوکل لحمہ رقم: ۷۲۔)

    اور اسی حدیث میں ہے کہ وہ صُفّہ میں آکر ٹھہرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صُفہّ میں ان کی طرح کے لوگ بھی اترتے تھے اور ان میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جیسے اچھے مسلمان بھی ٹھہرے تھے۔ سعد بن ابی وقاص صُفّہ میں اترنے والوں میں سب سے زیادہ افضل تھے، بعد ازاں وہ چلے گئے تھے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات علیہم الرضوان بھی اترے تھے۔ ابوعبدالرحمن سلمی نے اصحاب صُفہّ کی تاریخ مرتب کی ہے، جس میں اس موضوع پر تفصیلی بحث موجود ہے۔
     
  9. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    انصار اہلِ صُفہّ میں سے نہیں تھے

    جہاں تک انصار کا تعلق ہے تو وہ اصحاب صُفہّ میں سے نہیں تھے اور نہ بڑے بڑے مہاجرین مثلاً ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف، ابوعبیدہ وغیرہم علیہم الرضوان صُفہّ پر کبھی فروکش ہوئے۔ ایک روایت ہے کہ مغیرہ بن شعبہ کا ایک غلام صُفہّ میں اترا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ لڑکا سات اکابر اقطاب میں سے ہے مگر اس حدیث کے جھوٹے ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے گو ابونعیم نے اسے حلیۃ الاولیاء میں روایت کیاہے۔ اسی طرح جتنی احادیث بھی اولیاء ، ابدال، نقباء، نجباء، اوتاد اور اقطاب کی تعداد کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہیں اور جن میں ان کی تعداد چار، یا سات، یا بارہ، یا چالیس، یا ستر، یا تین سو یا تین سو تیرہ بتائی گئی ہے یا یہ بتایا گیا ہے کہ قطب ایک ہے یا یہ کہ غوث ایک ہے، ان میں کوئی بھی ایسی بات نہیں جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہونا ثابت ہو۔ اور ان الفاظ میں سے کوئی بھی بجز لفظ ابدال کے سلف صالحین کی زبان پر نہیں آیا، ان کے متعلق یہ بھی مروی ہے کہ وہ چالیس آدمی ہیں اور وہ شام میں ہیں۔ یہ مسند میں سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے اور یہ منقطع ہے، اس کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہوا حالانکہ یہ مسلّم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء جو کہ صحابہ میں سے تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں سے افضل تھے۔ یہ تو ہونہیں سکتا کہ تمام لوگوں میں جو آدمی افضل ہوں وہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے کیمپ میں نہ ہوں اور سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے کیمپ میں ہوں۔ صحیحین میں ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث منقول ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

    تَمْرُقُ مَارِقَۃٌ مِّنَ الدِّیْنِ عَلٰی حِیْنِ فُرْقَۃٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ یَقْتُلُھُمْ اَوْلَی الطَّائِفَتَیْنِ بِالْحَقِّ

    ’’جب مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوگا تو ایک گروہ دین سے اس طرح خارج ہو جائے گا جس طرح تیرکمان سے نکل جاتا ہے، ان دین سے نکلنے والوں کو وہ جماعت قتل کرے گی جو حق سے قریب تر ہوگی۔‘‘
    (مسلم کتاب الزکوٰۃ باب ذکر الخوارج و صفاتھم رقم: ۲۴۵۸ ، مسند احمد ج ۳، ص ۷۳، ۴۸ ابوداؤد کتاب السنۃ باب مایدل علی ترک الکلام فی الفتنۃ رقم: ۴۶۶۷، بخاری میںان لفظوں سے منقول نہیں ہے، دیکھیں حدیث نمبر ۳۳۴۴)

    یہ مارقین فرقہ حروریہ کے خوارج تھے۔ جب سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں مسلمانوں کے مابین اختلاف پیدا ہوا تو یہ دین سے نکل گئے۔ سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ، اور ان کے رُفقاء نے انہیں قتل کر دیا، یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ ، معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے حامیوں کی بہ نسبت حق سے زیادہ قریب تھے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ابدال، اعلیٰ کیمپ کو چھوڑ کر ادنیٰ کیمپ میں ملک شام میں شامل ہوجائیں۔ اسی طرح وہ حدیث ہے، جسے بعض نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے یعنی یہ کہ کسی شخص نے یہ شعر پڑھے:


    لَقَدْ لَسَعَتْ حَیَّۃُ الْھَوٰی کَبِدِیْ
    فَلاَ طَبِیْبَ لَھَا وَلاَ رَاقٍ
    اِلاَّ الْحَبِیْبُ الَّذِیْ شَغَفْتُ بِہ
    فَعِنْدَہ رُقْیَتِیْ وَ تَرْیَاقِیْ​


    ’’عشق کے سانپ نے میرے جگر کو ڈس لیا ہے۔ اس کا کوئی طبیب معالج ہے اور نہ کوئی دم کرنے والا۔ ہاں اگر اس کا علاج کرنے والا کوئی ہے تو وہ محبوب ہے، جس پر میں شیدا ہوں۔ اسی کے پاس مجھے کیا جانے والا دم ہے اور اسی کے پاس میرے زہر کا تریاق ہے۔ ‘‘

    یہ اشعار سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وجد طاری ہوگیا حتیٰ کہ چادر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش مبارک سے گر پڑی۔

    علم حدیث کے جاننے والوں نے بالاتفاق اس حدیث کو جھوٹا کہا ہے اور اس سے بھی زیادہ جھوٹی روایت یہ ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کپڑا پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور ان میں سے ایک ٹکڑا جبریل علیہ السلام نے اٹھا کر عرش پر لٹکا دیا۔ یہ اور اس طرح کی روایات ایسی ہیں جو حدیث کا علم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت رکھنے والوں کے نزدیک واضح ترین جھوٹ ہیں
    میزان الاعتدال ترجمہ عمار بن اسحاق نیز ازالۃ االخفاء ۲؍۱۴۱۔اسے السہروردی نے عوارف المعارف میں اپنی سند کے ساتھ روایت کرنے کے بعد لکھا ہے:’’ہم نے یہ حدیث جیسے سنی وارد کر دی اور سند کے ساتھ بیان کر دی، محدثین اس کی صحت میں کلام کرتے ہیں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہم نے کوئی روایت اس سے بڑھ کر نہیں دیکھی جو ہمارے زمانے کے لوگوں کے سماع، اجتماع اور ’’حال‘‘ سے مشابہت رکھتی ہو۔اور یہ صوفیاء اور ہمارے زمانے کے سماع کے قائلین کے لیے کس قدر خوبصورت دلیل ہے، سماع اور اپنے خرقے پھاڑنے اور پھر انہیں (بطور تبرک) تقسیم کرنے کے حق میں اگر یہ درجۂ صحت کو پہنچ جائے۔ واللہ اعلم۔اور میرے ضمیر میں یہی بات کھٹکتی ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے اور اس میں مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے صحابہ کے ساتھ اجتماع کا ذوق محسوس نہیں ہوا اور وہ ایسا نہیں کیا کرتے تھے جیسا اس حدیث میں ہمیں ملتا ہے اور دل اسے قبول کرنے سے اباکرتا ہے۔ واللہ اعلم
    (عوارف المعارف ۲؍۲۹۵، برحاشیہ احیاء علوم الدین ) (ازھر عفی عنہ)

    اسی طرح ایک اور روایت سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ باہم باتیں کرتے تھے اور میں ان دونوں میں زنگی کی طرح ہوتا تھا۔‘‘ یہ جھوٹ اور بناوٹی حدیث ہے علماء حدیث اس کے جھوٹا ہونے پر متفق ہیں۔

    مقصود اس کلام سے یہ ہے کہ جو شخص رسالت عامہ کا ظاہر میں اقرار کرے اور باطن میں اس کے برعکس کا اعتقاد رکھتا ہو تو وہ اس اعتقاد کی بنا پر منافق ہوگا جب کہ وہ خود اپنے اور اپنے جیسوں کے بارے میں اولیاء اللہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ وہ اپنے باطن میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین و شریعت سے جہالت یا عناد کی بنا پر کفر چھپائے ہوتے ہیں۔
     
  10. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یہودونصاریٰ کا جزوی ایمان

    یہود و نصاریٰ میں سے بہت سوں کا عقیدہ ہے کہ وہ اولیاء اللہ ہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں لیکن کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف غیر اہل کتاب کی طرف مبعوث ہوئے ہیں اور ہم پر ان کی اتباع واجب نہیں۔ اس لیے کہ ہماری طرف ان سے پہلے رسول آچکے ہیں۔سو یہ تمام لوگ اپنے اور اپنی جماعت کے متعلق اولیاء اللہ ہونے کے مدعی ہونے کے باوجود سب کے سب کفار ہیں۔ اولیاء اللہ صرف وہ ہیںجن کی توصیف اللہ تعالیٰ نے خود اپنے اس قول سے فرما دی ہے:

    أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٦٢﴾ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴿٦٣﴾
    یونس


    ’’یاد رکھو! کہ اللہ کے دوست ایسے ہیں کہ نہ ان پر خوف طاری ہوگا اور نہ وہ کسی طرح آزردہ خاطر ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔‘‘
     
  11. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    ایمان کی شرطیں

    ایمان کے معتبر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان ہو۔ جو رسول بھی اللہ کا بھیجا ہوا ہو اور جو کتاب بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی نازل کی ہوئی ہو، سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    قُولُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٦﴾ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿١٣٧﴾ صِبْغَةَ اللَّـهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ ﴿١٣٨﴾
    البقرۃ


    ’’کہو ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور کتاب و شریعت جو ہم پر اتارا گیا اس پر اور جو کچھ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولادِ یعقوب پر اتارا گیا اس پر اور موسیٰ علیہ السلام و عیسیٰ علیہ السلام کو جو کچھ دیا گیا، اس پر اور جو دوسرے پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے دیا گیا اس پر ہم ان پیغمبروں میں سے کسی ایک میں بھی تفریق نہیں کرتے اور ہم اسی ایک اللہ کے فرمانبردار ہیں تو اگر تمہاری طرح یہ لوگ بھی ان ہی چیزوں پر ایمان لے آئیں، جن پر تم ایمان لائے ہو تو بس راہِ راست پر آگئے اور اگر انحراف کریں تو سمجھو کہ بس وہ ضد پر ہیں تو اے پیغمبر ان کے شر سے اللہ تعالیٰ کا حفظ و امان تمہارے لیے کافی ہوگا اور وہ سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔‘‘
    اور فرمایا:

    آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ﴿٢٨٥﴾ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿٢٨٦﴾
    البقرہ


    ’’ہمارے یہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کتاب و شریعت کو مانتے ہیں جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی اور اہل ایمان بھی مانتے ہیں، یہ سب کے سب اللہ، اس کے فرشتوں اس کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں کو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے پیغمبروں میں سے کسی ایک کو بھی جدا نہیں سمجھتے نیز کہتے ہیںکہ ہم نے سنا اور تسلیم کیا۔ اے ہمارے پروردگار تیری مغفرت درکار ہے اور تیری ہی طرف پھر کر جانا ہے، اللہ تعالیٰ کسی کو ذمہ دار نہیں بناتا مگر اس کی طاقت کے مطابق اچھے کام کرے گا تو اسی کا فائدہ ہے اور برے کام کرے گا تو ان کا وبال اسی پر آئے گا اے ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں تو ہمارا اس پر مواخذہ نہ کر۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جیسا کہ تو نے ان لوگوں پر ڈالا تھا جو ہم سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اتنا بوجھ بھی نہ ڈال جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو، ہمیں معاف کر، ہمارے گناہ بخش دے اور ہم پر رحمت کر۔ تو ہمارا آقا ہے تو ان لوگوں کے مقابلے میں جو کہ کافر ہیں، ہماری مدد کر۔‘‘

    اور سورہ کے اوّل حصے میں فرمایا:


    الم ﴿١﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴿٤﴾ أُولَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٥﴾
    البقرہ


    ’’الم! یہ وہ کتاب ہے جس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ پرہیز گاروں کی راہنما ہے، جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دے رکھا ہے، اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور اے پیغمبر! صلی اللہ علیہ وسلم جو کتاب تم پر اتری اور جو تم سے پہلے اتریں۔ ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور وہ آخرت کا بھی یقین رکھتے ہیں، یہی لوگ اپنے پروردگار کے سیدھے راستے پر ہیں اور یہی آخرت میں من مانی مرادیں پائیں گے۔‘‘

    پس ایمان کے لیے یہ ماننا ضروری ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام گروہوں جنوں اور آدمیوں کی طرف بھیجا ہے، جو شخص ان کے لائے ہوئے شرائع و احکام پر ایمان نہ لائے۔ وہ سرے سے مومن نہیں ہے، چہ جائے کہ اللہ تعالیٰ کے متقی اولیاء میں سے ہو اور جو شخص ان کی لائی ہوئی شریعت کے بعض حصے پر ایمان لائے اور بعض سے انکار کرے وہ بھی کافر ہے مومن نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے:


    إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١٥٠﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿١٥١﴾ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُولَـٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿١٥٢﴾
    النساء


    ’’جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبروں کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے پیغمبروں میں جدائی ڈال دیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ ان کے درمیان کی کوئی راہ اختیار کریں۔ وہ لوگ یقینا کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے اور جو لوگ اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں سے کسی کو جدا نہیں سمجھتے۔ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ جلد ان کا اجر دے گا اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
     
  12. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    اللہ تعالیٰ اور مخلوق کےدرمیان واسطہ

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احکام الٰہی کی تبلیغ کے لئے اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں​


    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ بندہ انہیں اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے مابین اوامر و نواہی، وعد و وعید اور حلال و حرام کی تبلیغ کا وسیلہ سمجھے۔ حلال وہی ہے، جسے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم حلال قرار دیں اور حرام وہی ہے جس کو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم حرام ٹھہرائیں، دین وہی ہے، جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروع کیا ہو، جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ کسی ولی کے پاس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کے بغیر اللہ تعالیٰ تک رسائی کا راستہ ہے تو وہ کافر ہے اور شیطان کے اولیاء میں سے ہے۔
    رہا اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوقات کو پیدا کرنا، انہیں روزی دینا، ان کی دعائیں قبول کرنا، ان کے دلوں کو ہدایت کرنا، دشمنوں پر انہیں فتح دینااور دیگر تمام امور جو منافع حاصل کرنے اور تکالیف دور کرنے سے تعلق رکھتے ہیں، سو یہ تمام باتیں ایک اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہی کے تصرف میں ہیں۔ ان کو جن اسباب سے چاہے مہیا کر ڈالتا ہے، اس طرح کی چیزوں میں پیغمبروں کی وساطت کوکوئی دخل حاصل نہیں ہے۔
     
  13. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    سکندر بن فیلپس اور ذوالقرنین

    پھر خواہ کوئی شخص زہد، عبادت اور علم میں خواہ کتنی ہی بلندی پر کیوں نہ پہنچ جائے لیکن جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ساری شریعت پر ایمان نہ لائے، وہ مومن نہیں ہوسکتا اور نہ اللہ تعالیٰ کا ولی ہوسکتا ہے جیسا کہ علماء یہود و نصاریٰ میں احبار و رہبان (علماء و درویش) اور عبادت گزار ہیں، اسی طرح مشرکوں میں سے علم و عبادت میں شغف رکھنے والے لوگ ہیں یعنی عرب، ترک اور ہندوستان کے مشرکین وغیرہ۔
    تو ہند اور ترک کے حکماء و فلاسفہ میں سے جو بھی ایسا ہو کہ علم و زہد سے حظ وافر رکھتا ہو اور اپنے کیش اور مذہب کے مطابق عبادت گزار بھی ہو لیکن جو کتاب و سنت اور دین و شریعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اس سب کچھ پر ایمان نہ لائے تو وہ کافر، اللہ کا دشمن ہے خواہ اسے کچھ لوگ اللہ کا ولی سمجھتے ہوں۔
    جس طرح فارس کے حکماء کفار مجوس تھے۔ یونان کے حکماء ارسطو وغیرہ مشرک اور بتوں اور ستاروں کے پوجنے والے تھے۔
    ارسطو مسیح علیہ السلام سے تین سو سال پہلے ہو گزرا ہے اور سکندر بن فیلپس مقدونی کا وزیر تھا۔ رومیوں اور یونانیوں کے اسی کے زمانہ سے تاریخ لکھی جاتی ہے۔ یہود و نصاریٰ بھی اسی کے حساب سے تاریخ لکھتے ہیں: یہ وہ ذوالقرنین نہیں ہے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے جیسا کہ بعض لوگوں کو گمان ہوا کہ ارسطو ذوالقرنین کا وزیر تھا۔ چونکہ ذوالقرنین کو بھی کبھی کبھی سکندر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس لیے ان لوگوں کو دھوکا لگا کہ سکندر مقدونی ہی ذوالقرنین ہے۔ چنانچہ ابن سینا اور اس کے ساتھ ایک جماعت اسی رائے پر ہے۔ یہ رائے غلط ہے، یہ سکندر جس کا وزیر ارسطو تھا، مشرک تھا اور ذوالقرنین سے بعد کے زمانے کا ہے۔ اس نے نہ دیوار دیکھی اور نہ یاجوج و ماجوج کے ملک میں پہنچا، یہ وہ اسکندر ہے کہ ارسطو اس کے وزراء میں سے تھا، رومیوں کے ہاں رائج تاریخ اسی سے شروع ہوتی ہے۔ (بعد ازاں یہ تاریخ بدل دی گئی اور متروک ہو گئی (ازہر)۔
     
  14. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    ایمان کے بغیر اجتہاد موجب فلاح نہیں ہوسکتا

    عرب، ہند، ترک اور یونان وغیرہ کے بعض مشرکین علم، زہد اور عبادت میں اجتہاد کے درجے تک پہنچے ہوئے ہیں لیکن پیغمبروں کے متبع نہیں اور نہ ان کی لائی ہوئی شریعتوں کو مانتے ہیں اور ان کی دی ہوئی خبروں میں ان کی تصدیق نہیں کرتے۔ جو حکم انہیں دیا جاتا ہے، اس کی اطاعت نہیں کرتے۔ یہ لوگ مومن نہیں ہیں اور نہ اولیاء اللہ ہیں۔
     
  15. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    شیطانی شعبدے

    سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ ایماندار بھی نہیں ہیں تو پھر ان سے وہ خارقِ عادت افعال کس طرح صادر ہوجاتے ہیں، جنہیں لوگ کرامات کہتے ہیں۔ سو اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان ان کے ساتھ یارانہ گانٹھ لیتے ہیں اور ان پر نازل ہو ہو کر بعض ایسی باتیں بتاتے ہیں جنہیں وہ لوگوں کے سامنے ظاہر کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے یہ خارق عادت تصرفات سحر کی جنس سے ہیں اور وہ خود ان کاہنوں اور ساحروں کی جنس سے ہیں، جن پر شیاطین نازل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

    هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَىٰ مَن تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ ﴿٢٢١﴾ تَنَزَّلُ عَلَىٰ كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ﴿٢٢٢﴾ يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ ﴿٢٢٣﴾
    الشعرا


    ’’اے پیغمبر ! ان لوگوں سے کہو کہ کیا میں تمہیں بتائوں کہ کس پر شیطان اترا کرتے ہیں وہ ہر جھوٹے بدکار پر اترا کرتے ہیں۔ سنی سنائی بات کانوں میں ڈال دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر تو نرے جھوٹے ہی ہیں۔‘‘

    اور وہ تمام لوگ جو مکاشفات اور خوارق عادات کے مدعی ہیں جب پیغمبروں کے متبع نہ ہوں تو ضروری ہے کہ وہ جھوٹ بولا کریں اور ان کے شیطان ان سے جھوٹی باتیں کہا کریں۔ اس لیے ان کے اعمال کا شرک، ظلم، فواحش، غلو اور بدعت فی العبادت اور ایسے فسق و فجور سے آلودہ ہونا لازمی ہے۔ اسی وجہ سے ان پر شیطان اترتے ہیںاور ان کے دوست بن جاتے ہیں۔ سو وہ شیطان کے اولیاء میں سے ہوئے نہ کہ رحمن کے اولیاء میں سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:


    وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَـٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ﴿٣٦﴾
    الزخرف


    ’’اور جو شخص رحمٰن کے ذکر سے اغماض کیا کرتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان تعینات کر دیتے ہیں اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔‘‘
     
  16. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    ذکر الرحمن سے مراد

    ذکر الرحمٰن اسی ذکر کا نام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو کر لائے ہیں مثلاً قرآن کریم ہے۔ جو شخص قرآن کو نہ مانے، اس کی باتوں کو سچا نہ سمجھے اور اس کے حکم کو واجب نہ سمجھے، وہ اس سے روگردانی کا مرتکب ہے۔ اس لیے اس پر شیطان تعینات ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

    وَهَـٰذَا ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ ﴿٥٠﴾
    الانبیاء


    ’’اور یہ مبارک ذکر ہے جسے ہم نے نازل کیا۔‘‘
    اور فرمایا:


    وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ﴿١٢٥﴾ قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ ﴿١٢٦﴾
    طہ

    ’’اور جس نے میرے ذکر (یعنی قرآن) سے روگردانی کی تو اس کی زندگی تنگی میں گزرے گی اور قیامت کے دن میں بھی ہم اس کو اندھا کر کے اٹھائیں گے، وہ کہے گا اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا اور میں تو دنیامیں اچھا خاصا دیکھتا بھالتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اس طرح ہونا چاہیے تھا۔ دنیا میں تیرے پاس ہماری آیتیں آئیں مگر تو نے ان کی کچھ خبر نہ لی اور اسی طرح آج تیری بھی خبر نہ لی جائے گی‘‘۔

    اس سے معلوم ہوا کہ ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی آیتیں ہیں۔ اسی لیے اگر کوئی شخص اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا رات دن ہمیشہ ذکر کرتا رہے اور ساتھ ہی انتہا درجہ کا زاہد اور عابد بھی ہو اور عبادت میں مجتہد بھی بن جائے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے اس ذکر کا اتباع نہ کرے جو کہ اس نے نازل فرمایا ہے اور وہ قرآن کریم ہے تو وہ شخص شیطان کے دوستوں میں سے ہے، خواہ وہ ہوا میں اڑتا پھرے اور پانی پر چلاکرے کیونکہ ہوا میں بھی تو اسے شیطان ہی اڑا کر لے جاتا ہے اور اس موضوع پر کسی دوسری جگہ مفصل بحث کی گئی ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  17. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    مومن کے جسم میں نفاق کے جراثیم

    بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں ایمان تو ہوتا ہے لیکن ان میں ایک شعبہ نفاق کا بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ صحیحین میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    اَرْبَعٌ مَّنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنْھُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خَصَلَۃٌ مِّنَ النِّفَاقَ حَتّٰی یَدَعَھَا اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَائْتُمِنَ خَانَ وَاِذَا عَاھَدَ غَدَرَ
    (بخاری کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق رقم: ۳۴، کتاب المظالم باب اذا خاصم فجر ۲۴۵۹، کتاب الجہاد باب اثم من عاھد ثم غدر۔ مسلم کتاب الایمان باب بیان خصال المنافق۔ رقم: ۲۱۰۔ ابوداؤد، کتاب السنۃ باب فی الدلیل علی زیادۃ الایمان رقم: ۴۶۸۸۔)


    ’’جس آدمی میں یہ چار خصلتیں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تاآنکہ اسے ترک کر دے جب بات کرے تو جھوٹی کرے اور جب وعدہ کرے تو عمل اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے اور جب معاہدہ کرے تو توڑ ڈالے۔‘‘

    اور صحیحین میں یہ بھی ہے کہ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَّ سِتُّوْنَ اَوْ بِضْعٌ وَّ سَبْعُوْنَ شُعْبَۃً اَعْلَاھَا قَوْلُ لاَ اِلَہٰ اِلاَّ اللہُ وَاَدْنَاھَا اِمَاطَۃُ الْاَذَی عَنِ الطَّرِیْقِ وَالْحَیَائُ شَعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِ
    (بخاری کتاب الایمان باب امور الایمان رقم: ۹۔ مسلم کتاب الایمان، رقم: ۱۵۲ باب عدد شعب الایمان۔ ابوداؤد کتاب السنۃ باب فی ردالارجاء ، رقم: ۴۶۷۶۔ ترمذی کتاب الایمان باب فی استکمال الایمان ، رقم: ۲۶۱۴ وغیرہ)


    ’’ایمان کی ساٹھ سے کچھ زیادہ یا فرمایا ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، سب سے زیادہ بلند لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف کی چیز کو دُور کر دینا ہے اور حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔

    اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ جس شخص میں ان میں سے کوئی خصلت ہوئی، اس میں نفاق کی خصلت ہے تاآنکہ اسے ترک کر دے ،صحیحین میں ثابت ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناابوذر رضی اللہ عنہ سے جو کہ بہترین مومنوں میں سے تھے فرمایا:

    ’’انک امرؤ فیک جاھلیة‘‘
    ’’تم ایسے شخص ہو جس میں جاہلیت کا اثر ہے‘‘۔

    اس پر سیدناابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ! کیا اس درجہ عمر رسیدہ ہونے کے بعد بھی میں جاہلیت کا اثر باقی ہے۔
    جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں

    (بخاری کتاب الایمان باب المعاصی من امرالجاھلیۃ۔ مسلم کتاب الایمان باب اطعام المملکوک )


    اور صحیح (مسلم) میں ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    اَرْبَعٌ فِیْ اُمَّتِیْ مِنْ اَمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ الْفَخْرُفِیْ الْاَحْسَابِ وَالطَّعْنُ فِیْ الْاَنْسَابِ وَالنِّیَاحَۃُ عَلَی الْمَیِّتِ وَالْاِسْتِسْقَائُ بِالنُّجُوْمِ۔
    (مسلم کتاب الجنائز باب التشدید فی النیاحۃ، رقم: ۲۱۶۰)


    ’’میری امت میں چار کام جاہلیت کے ہیں، مناصب پر فخر کرنا، نسب کا طعنہ دینا، میت پر نوحہ کرنا اور ستاروں کو سبب بارش سمجھنا۔‘‘

    اور صحیحین میں سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


    اٰیَۃُالْمُنَافِقِ ثَلٰثٌ اِذَاحَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَاوَعَدَاَخْلَفَ وَاِذَائْتُمِنَ خَان
    (صحیح بخاری کتاب الایمان باب علامات المنافق،رقم۳۳۔ مسلم کتاب الایمان باب خصال المنافق۔رقم۲۱۱)


    ’’ منافق کی تین علامتیں ہیں، جب بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا، جب وعدہ کرے گا تو اس کے خلاف کرے گا اور جب امین بنایا جائے گا تو خیانت کرے گا۔‘‘

    اور صحیح مسلم میں اس حدیث کے ساتھ اس ٹکڑے کا بھی اضافہ ہے :


    وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّـہ مُسْلِمٌ
    (مسلم کتاب الایمان باب خصال المنافق۔رقم۲۱۳)


    ’’اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور مدعی اس امر کا ہو کہ وہ مسلم ہے۔‘‘

    بخاری میں ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول مذکور ہے


    اَدْرَکْتُ ثَلَاثِیْنَ مِنْ اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم کُلُّھُمْ یَخَافُ النِّفَاقَ عَلٰی نَفْسِہ
    (بخاری نے اس حدیث کو معلق بیان کیا ہے:کتاب الایمان باب خوف المومن ان یحبط عملہ وھولایشعر۔)


    ’’یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تیس کے ساتھ مجھے ملنے کا شرف حاصل ہوا ہے اور ان میں سے ہر ایک خائف رہتا تھا کہ کہیں مجھ میں نفاق نہ ہو۔‘‘

    اللہ تعالیٰ نے فرمایا
    :


    وَمَا أَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللَّـهِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٦٦﴾ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ ﴿١٦٧﴾
    آل عمران


    ’’اور دو فوجوں میں مڈبھیڑ کے دن تمہیں جو مصیبت پہنچی تو اللہ کے حکم سے تھی اور یہ بھی غرض تھی کہ اللہ ایمان والوں کو معلوم کرے اور منافقوں کو بھی معلوم کرے اور منافقوں سے کہا گیا کہ آئو اللہ کے راستے میں لڑو یا دفاع ہی کرو۔ تو وہ کہنے لگے کہ اگر ہمیں جنگ ہونی معلوم ہوتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ ہو لیتے۔ یہ لوگ اس روز بہ نسبت ایمان کے کفر سے نزدیک تر تھے۔ منہ سے وہ باتیں کہتےہیں جو ان کے دلوں میں نہیں اور جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے‘‘

    سو ان لوگوں کو بہ نسبت ایمان کے کفر سے قریب تر قرار دیا گیا ہے معلوم ہوا کہ ان میں کفر اور ایمان ملا جلا تھا اور ان کا کفر قوی تر تھا اور بعض لوگوں میں کفر و ایمان ملا جلا ہوتا ہے لیکن ان کا ایمان قوی تر ہوتا ہے اور جب اولیاء اللہ مومنین متقین ہی ٹھہرے (اور تقویٰ ہی معیارِ ولایت ہے) تو ظاہر ہے کہ بندے کا ایمان اور تقویٰ جس قدر زیادہ ہوگااتنی ہی اللہ تعالیٰ سے اس کی ولایت بڑھے گی۔ پس جو شخص ایمان و تقویٰ میں کامل تر ہوگا، اللہ تعالیٰ سے اُس کی دوستی اور ولایت کامل تر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی دوستی میںبعض لوگ دوسرے لوگوں پر اتنی ہی فضیلت رکھتے ہیں، جتنی فضیلت انہیں ایمان و تقویٰ میں حاصل ہو۔ اسی طرح لوگ ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ سے دشمنی رکھنے میں بھی اتنے ہی بڑھے ہوئے ہوتے ہیں جتنے کہ وہ کفر اور نفاق میں بڑھے ہوئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:


    وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ﴿١٢٤﴾ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَىٰ رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ ﴿١٢٥﴾
    التوبۃ


    ’’اور جس وقت کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو منافقوں میں سے بعض لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگتے ہیں کہ بھلا اس سورت نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا۔ سو جو پہلے سے ایمان رکھتے ہیں، اس سورت نے ان کا تو ایمان بڑھا دیا اور وہ اپنی جگہ خوشیاں مناتے ہیں اور جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا روگ ہے۔ اس سورت نے ان کی پچھلی خباثت پر ایک خباثت اور بڑھائی اور یہ لوگ کفر ہی کی حالت میںمرگئے۔‘‘

    اور فرمایا:


    إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ﴿٣٧﴾
    التوبۃ

    ’’مہینوں کا سرکا دینا مزید کفر ہے۔‘‘
    اور فرمایا:


    وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ ﴿١٧﴾
    محمد


    ’’اور جو لوگ راہ یافتہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت میں بڑھا دیا اور تقویٰ کی توفیق عطا فرما دی۔‘‘

    اور منافقوں کے بارے میں فرمایا:


    فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضًا ﴿١٠﴾
    البقرہ

    ’’ان کے دلوں میں بیماری (پہلے سے) تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری کو زیادہ کر دیا۔‘‘

    اس طرح اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے کہ ایک ہی شخص میں اس کے ایمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ولایت کا حصہ پایا جاتا ہے اور اسی میں اس کے کفر و نفاق کے تناسب سے اللہ تعالیٰ کی دشمنی بھی موجود ہوتی ہے۔

    نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا:


    وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ﴿٣١﴾
    المدثر


    ’’(ان باتوں سے) اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ایمان بڑھاتا ہے، جن میں پہلے سے ایمان ہو۔‘‘
    اور فرمایا:

    لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ ﴿٤﴾
    الفتح

    ’’تاکہ اپنے پہلے ایمان کے ساتھ اورایمان زیادہ کر لیں۔‘‘
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  18. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    اولیاء اللہ کے طبقات

    اولیاء اللہ کے دو طبقے ہیں۔ سابقین مقربین (نیکیوں میں سبقت کرنے والے، اللہ کے جناب محمد رسول اللہ مقرب) اور اصحاب یمین (دائیں جانب والے میانہ رو) مقتصدین۔ ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں متعدد مقامات پر فرمایا۔ سورہ واقعہ کے اوّل میں اور اس کے آخر میں۔

    سورہ دہر میں ، سورہ مطففین میں اور سورہ فاطر میں۔ چنانچہ سورہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کبریٰ کا ذکر اس کے آغاز میں فرمایا اور قیامت صغریٰ کا ذکر آخر میں فرمایا۔ اس کے آغاز میں فرمایا:


    إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ ﴿١﴾ لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ ﴿٢﴾ خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ ﴿٣﴾ إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا ﴿٤﴾ وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا ﴿٥﴾ فَكَانَتْ هَبَاءً مُّنبَثًّا ﴿٦﴾ وَكُنتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً ﴿٧﴾ فَأَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ ﴿٨﴾ وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ ﴿٩﴾ وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ ﴿١٠﴾ أُولَـٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ ﴿١١﴾ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴿١٢﴾ ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ ﴿١٣﴾
    الواقعۃ


    ’’جب قیامت جو ضرور ہونے والی ہے واقع ہوگی۔ اور اس کے وقوع کو کوئی روکنے والا نہیں (اس وقت لوگوںکا فرق مراتب ظاہرہوگا)۔بعضوںکو نیچا کرنے والی اور بعضوں کو بلند کرنے والی جب کہ زمین بڑے زور سے ہلنے لگے گی اور پہاڑ ٹوٹ کر اڑتی ہوئی دھول ہوجائیں گے اور اس وقت تم تین قسمیں ہو جائو گے ایک تو داہنے ہاتھ والے سو داہنے ہاتھ والوں کا کیا کہنا ہے اور ایک بائیں ہاتھ والے سو بائیں ہاتھ والوں کا کیا ہی برا حال ہے اور تیسرے جو سب سے آگے سامنے بٹھائے گئے ہیں۔ سو یہ آگے بٹھانے کے قابل ہیں۔ یہ بارگاہِ الٰہی کے مقرب ہیں۔ ان کو بہشت کے آرام و آسائش کے باغوں میں جگہ دی جائے گی۔ اس گروہ میں بہت تو اگلے لوگوں سے ہوں گے اور تھوڑے پچھلوں سے بھی۔‘‘

    یہ تقسیم قیامت کبریٰ کے قائم ہونے پر ہوگی جس میں اللہ تعالیٰ پہلے لوگوں اور پچھلے لوگوں کو جمع کر دے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں کئی مقامات پر فرما دیا ہے۔

    پھر اللہ تعالیٰ نے سورہ کے آخر میں فرمایا:


    فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ ﴿٨٣﴾ وَأَنتُمْ حِينَئِذٍ تَنظُرُونَ ﴿٨٤﴾ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ ﴿٨٥﴾ فَلَوْلَا إِن كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ ﴿٨٦﴾ تَرْجِعُونَهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٨٧﴾ فَأَمَّا إِن كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ ﴿٨٨﴾ فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّتُ نَعِيمٍ ﴿٨٩﴾ وَأَمَّا إِن كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ ﴿٩٠﴾ فَسَلَامٌ لَّكَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ ﴿٩١﴾ وَأَمَّا إِن كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِينَ الضَّالِّينَ ﴿٩٢﴾ فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِيمٍ ﴿٩٣﴾ وَتَصْلِيَةُ جَحِيمٍ ﴿٩٤﴾ إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ ﴿٩٥﴾ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ ﴿٩٦﴾
    الواقعہ


    ’’تو کیا جب جان بدن سے کھچ کر گلے میں آپہنچے اور تم اس وقت ٹکر ٹکر پڑے دیکھتے ہو اور ہم، تم (تیمارداروں) سے اس (بیمار جاں بلب) کے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں مگر تم دیکھتے نہیں۔ ہاں! اگر تم کسی کو حساب دینے والے نہیں تو کیوں اس کو لوٹا نہیں لیتے؟ اگر اپنے دعویٰ میں سچے ہو۔ اگر وہ بارگاہ الٰہی کے مقربوں میں سے ہے۔ تو اس کے لیے آرام اور خوشبود ار پھول، اور نعمتوں بھری بہشت ہے اور اگر وہ داہنے ہاتھ والوں میں سے ہے، تو اس سے کہا جائے گا کہ اے شخص جو داہنے ہاتھ والوں میں ہے۔ تجھ پر سلام اور اگر وہ جھٹلانے والے ، گمراہوں میں سے ہے تو اس کے لیے کھولتے پانی کی ضیافت ہے اور جہنم میں دھکیلا جانا بے شک آخرت کا حال جو بیان کیا گیا ہے بالکل سچ اور یقینی ہے۔ پس اپنے عظیم رب کے نام کی تسبیح کرتے رہو۔‘‘

    سورۃ دہر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:


    إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ﴿٣﴾ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَاسِلَ وَأَغْلَالًا وَسَعِيرًا ﴿٤﴾ إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا ﴿٥﴾عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّـهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا ﴿٦﴾ يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا ﴿٧﴾ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّـهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿٩﴾ إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا ﴿١٠﴾ فَوَقَاهُمُ اللَّـهُ شَرَّ ذَٰلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا ﴿١١﴾ وَجَزَاهُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا ﴿١٢﴾
    الدھر


    ’’ہم نے اس کو راستہ دکھایا (پھر اب دو قسم کے آدمی ہیں)۔ یا تو شکر گزار ہے (یعنی مسلمان) یا ناشکرا اور احسان فراموش (یعنی کافر) ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں اور طوق اور دہکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ بے شک جو لوگ نیکوکار ہیں، آخرت میں ایسی شراب کے جام پئیں گے، جس میں کافور کے پانی کی آمیزش ہوگی اور یہ ایک چشمہ ہے۔ جس کا پانی اللہ کے خاص بندے پئیں گے۔ اور اس میں سے نہریں نکال لیں گے اور وہ لوگ ہیں جو اپنی منتیں پوری کرتے ہیں اور اس روزِ قیامت سے ڈرتے ہیں جس کی مصیبتِ عام، سب طرف پھیلی ہوئی ہوگی اور خود کو خواہش اور ضرورت کے باوجود اپنا کھانا محتاج اور یتیم اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو تم کو صرف لوجہ اللہ کھلاتے ہیں، تم سے نہ کچھ بدلہ درکار ہے نہ شکر گزاری ہم کو اپنے پروردگار سے اداس، سخت دن کا ڈر لگ رہا ہے۔نتیجتاً اللہ نے بھی اُس دن کی مصیبت سے ان کو بچا لیا اور ان کو تازگی اور مسرت سے لا ملایا۔ اور ان کے صبر کے بدلے میں رہنے کو بہشت اور پہننے کو ریشمی پوشاک عنایت کی۔‘‘

    اسی طرح سورہ مطففین میں فرمایا:


    كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ ﴿٧﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ ﴿٨﴾ كِتَابٌ مَّرْقُومٌ ﴿٩﴾ وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ ﴿١٠﴾ الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ ﴿١١﴾ وَمَا يُكَذِّبُ بِهِ إِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿١٢﴾ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴿١٣﴾ كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿١٤﴾ كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ ﴿١٥﴾ ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُو الْجَحِيمِ ﴿١٦﴾ ثُمَّ يُقَالُ هَـٰذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ ﴿١٧﴾ كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ ﴿١٨﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ ﴿١٩﴾ كِتَابٌ مَّرْقُومٌ ﴿٢٠﴾ يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ ﴿٢١﴾ إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ ﴿٢٢﴾ عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ ﴿٢٣﴾ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ ﴿٢٤﴾ يُسْقَوْنَ مِن رَّحِيقٍ مَّخْتُومٍ ﴿٢٥﴾ خِتَامُهُ مِسْكٌ ۚ وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ ﴿٢٦﴾ وَمِزَاجُهُ مِن تَسْنِيمٍ ﴿٢٧﴾ عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ ﴿٢٨﴾
    المطففین


    ’’سن لو! بدکار لوگوں کے نامہ اعمال سجین میںہیں اور تم کیا سمجھے کہ سجین کیا ہے؟ وہ ایک کتاب ہے جس میں لکھا جاتا ہے اس دن جھٹلانے والوں کی تباہی ہے۔ جو روز جزا کو جھوٹ جانتے ہیں اور اس کو وہی جھوٹ جانتا ہے جو حد سے نکل جانے والا بد ہو۔ جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جائیں تو کہے کہ اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔ نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان ہی کے اعمال بد کے زنگ بیٹھ گئے ہیں، سنو! یہی لوگ ہیں جو اس دن اپنے پروردگار (کے دیدار سے محروم) اوٹ میں ہوں گے پھر یہ لوگ ضرور جہنم میں داخل ہوں گے۔ پھر ان سے کہا جائے گا کہ یہی تو وہ چیز ہے جس کو تم دنیا میں جھوٹ جانتے تھے۔ سنو! نیک لوگوں کے نامہ اعمال علیین میں ہیں اور تم کیا سمجھے کہ علییون کیا ہے؟ وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے۔ اس پر مقرب فرشتے تعینات ہیں۔ بے شک نیک لوگ بڑے آرام میں ہوں گے۔ تختوں پر بیٹھے (بہشت کے نظارے) دیکھ رہے ہوں گے تو ان کے چہروں سے خوشحالی کی تازگی صاف پہچان لے گا۔ ان کو شرابِ خالص سربند پلائی جائے گی۔ جس کی بوتل کی مہر مشک کی ہوگی اور ریس کرنے والوں کو چاہیے کہ ان کی ریس کیا کریں اور اس شراب میں تسنیم کے پانی کی آمیزش ہوگی۔ تسنیم بہشت کا ایک چشمہ ہے۔ جس میں سے خاص کر مقرب لوگ پئیں گے۔‘‘

    اسی طرح ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور دوسرے سلف صالحین سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ تسنیم کا پانی اصحاب یمین کے لیے ملایا جائے گا اور مقربین اسے خالص پئیں گے اور واقع بھی یہی ہے
    (تفسیر ابن جریر، تفسیر ابن کثیر سورہ دہر اور سورہ مطففین۔)

    اللہ تعالیٰ نے {یَشْرَبُ بِھَا} فرمایا اور {یَشْرَبُ مِنْھَا} نہیں فرمایا۔ اس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے قول یشرب کے ساتھ یَرْوَی بِھَا(سیر ہو کرپیئے گا) کا معنی بھی ملا دیا کیونکہ شارب (پینے والا) کبھی پیتا تو ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اور جب {یَشْرَبُ مِنْھَا} کہا جائے تو اس سے سیر ہونے پر دلالت نہیں ہوتی اور جب {یَشْرَبُ بِھَا} کہا جائے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اسے سیر ہو کر پیتے ہیں۔ سو مقربین اسے سیر ہو کر پیتے ہیں اور اس کے ہوتے ہوئے انہیں کسی اور مشروب کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ اسے بغیر آمیزش کے پیتے ہیں۔ اس کے خلاف اصحاب یمین کے لیے اس شراب میں آمیزش کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ دہر میں فرمایا:

    إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا ﴿٥﴾عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّـهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا ﴿٦﴾
    الدھ
    ر

    ’’وہ چشمہ جس میں کافور ملی ہوئی ہے۔ اس سے اللہ کے بندے سیر ہو کر پئیں گے اس سے نہریں نکالیں گے۔‘‘

    عباداللہ سے مراد مقربین ہیں، جن کا ذکر اسی سورت میں آیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بدلہ خیر و شر کا عمل کی جنس کے مطابق ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    مَنْ نَّفَّسَ عَنْ مُوْمِنٍ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ الدُّنْیَا نَفَّسَ اللہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَمَنْ یَّسَّرَ عَلٰی مُعْسَرٍ یَسَّرَ اللہُ عَلَیْہِ فِی الدُّنْیَا وَالْاَخِرَۃِ و مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاللہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ اَخِیْہِ وَمَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَّلْتَمِسُ فِیھَا عِلْمًا سَھَّلَ اللہُ لَہ بِہ طَرِیْقًا اِلٰی الْجَنَّۃِ وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِّنْ بُیُوْتِ اللہِ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللہِ وَیَتَدَارَسُوْنَہ بَیْنَھُمْ اِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ وَ غشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَ حَفَّتْھُمُ الْمَلَائِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللہُ فِیْمَنْ عِنْدَہ وَمَنْ بَطَّاَ بِہ عَمَلُہ لَمْ یُسْرِعْ بِہ نَسَبُہ
    (مسلم کتاب الذکر والدعا باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن، رقم: ۲۶۹۹۔ ابوداؤد کتاب الادب باب فی المعونۃ للمسلم، رقم: ۴۹۴۔ ترمذی کتاب الحدود باب ماجاء فی الستر علی المسلم، رقم: ۱۴۳۵)


    ’’جس نے کسی مومن کی کوئی دنیوی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ اس کی ایک اخروی تکلیف دور کرے گا اور جس نے کسی تنگدست کی مشکل آسان کی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس پر آسانی فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے اور جو شخص طلب علم کے لیے کچھ راستہ طے کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے اور جب کبھی لوگ اللہ کے کسی گھر میں اکٹھے ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کی درس و تدریسِ باہمی کرتے ہیں تو ان پر تسکین نازل ہوتی ہے اور ان پر رحمت ِ الٰہی چھا جاتی ہے۔ فرشتے ان کے گرد حلقہ بنا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے درباریوں میں ان کا ذکر خیر کرتا ہے اور جسے اس کا عمل پیچھے ڈال دے، اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھاتا ، اسے مسلم نے صحیح میں روایت کیا۔‘‘

    اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


    اَلرَّاحِمُوْنَ یَرْحَمُھُمُ الرَّحْمٰنُ اِرْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَّنْ فِی السَّمَائِ۔
    (ترمذی کتاب البروالصلۃ باب فی رحمۃ الناس رقم: ۱۹۲۴۔ ابوداؤد کتاب الادب باب فی الرحمۃ ۴۹۴۱ اور مجمع الزوائد ج ۸ ص ۱۸۷ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ حدیث ۹۳۵)


    ’’رحم کرنے والوں پر خدا رحم کرتا ہے۔ رحم کرو تم اہل زمین پر تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے‘‘ ترمذی کا قول ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
    سنن میں ایک دوسری صحیح حدیث ہے۔

    یَقُوْلُ اللہُ تَعَالٰی اَنَا الرَّحْمٰنُ خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَشَقَقْتُ لَھَا اِسْمًا مِّنْ اِسْمِیْ فَمَنْ وَصَلَھَا وَصَلْتُہ وَمَنْ قَطَعَھَا بَتَتُّہ۔
    (الادب المفرد حدیث ۵۳ ابوداؤد کتاب الزکوٰۃ باب فی صلۃ الرحم، رقم: ۱۷۹۴۔ ترمذی کتاب البروالصلۃ باب فی قطیعۃ الرحم۔ ۱۹۰۷، مسند احمد ج ۱، ص ۱۹۴)


    ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں رحمن ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اس کا نام اپنے نام سے مشتق کر کے رکھا ہے، جو شخص صلہ رحمی کرے گا میں اس کو ملائے رکھوں گا اور جو قطع رحمی کرے گا اسے کاٹ دوں گا۔‘‘

    اورفرمایا:

    مَنْ وَصَلَھَا وَصَلَہُ اللہُ وَمَنْ قَطَعَھَا قَطَعَہُ اللہ
    (بخاری کتاب التفسیر باب وتقطعوا ارحامکم و کتاب الادب باب من وصل وصلہ اللہ حدیث ۵۹۸۹، باب من وصل وصلہ اللہ۔ مسلم کتاب البروالصلۃ باب صلۃ الرحم ، رقم ۲۵۵۵۔)

    ’’جس نے ان (رشتوں) کو ملایا۔ اللہ تعالیٰ اسے ملاتا ہے اور جو ان کو توڑتا ہے اللہ تعالیٰ اسے توڑ دیتا ہے۔‘‘

    اور اس کی مثالیں بہت ہیں:

    اولیاء اللہ کی دو قسمیں ہیں۔ مقربین اور اصحاب یمین جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں ہر دو قسم اولیاء کے اعمال کی تشریح کر دی ہے۔ فرمایا:

    یَقُوْلُ اللہُ تَعَالٰی مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ بَارَزَنِیْ بِالْمُحَارَبَۃِ وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِمِثْلِ اَدَاء مَا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَلَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّہ فَاِذَا اَحْبَبْتُہ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَ رِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا۔
    (تخریج کے لئے دیکھیے ص:۱۷)


    ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی اس نے میرے ساتھ جنگ کا اعلان کیا اور کوئی بندہ فرائض ادا کرنے سے جس قدر میرے قریب ہوتا ہے، اتنا کسی اور ذریعہ سے نہیں ہوتا اور میرا بندہ نوافل ادا کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں نوافل کے ذریعہ سے اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں ، جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پائوں بن جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔‘‘

    ابرار یا اصحاب الیمین نیکوکاروں میں سے وہ لوگ ہوتے ہیں۔ جو فرائض ادا کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام کر دیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے آپ کو مستحبات کی زحمت نہیں دیتے اور نہ غیر ضروری مباحات اور جائز امور سے باز رہتے ہیں۔
     
  19. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    مقربین

    سابقین مقربین وہ لوگ ہیں جو فرائض ادا کرنے کے بعد نوافل کے ذریعہ سے قرب حاصل کرتے ہیں۔ واجب اور مستحب کام کرتے ہیں۔ حرام اور مکروہ کاموں کو چھوڑتے ہیں۔ جب وہ ان محبوبات الٰہی میں سے ان تمام اعمال کے ذریعہ سے جن پر انہیں قدرت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں تو پروردگار ان سے کامل محبت کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

    ولَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّہ۔

    ’’میرا بندہ اس وقت تک نوافل کے ذریعے سے میرے قرب کا جویا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔‘‘

    اس محبت سے مراد مطلق محبت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:


    اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
    فاتحہ


    ’’ ہمیں سیدھا راستہ بتا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کا جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ گمراہوں کا راستہ۔‘‘

    یہاں انعام سے مراد وہی مطلق اور کامل انعام ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول مبارک میں ذکر فرمایا:

    وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا ﴿٦٩﴾
    النساء


    ’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ۔ یعنی نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور نیکوکاروں کے ساتھ ہوگا یہ لوگ کیا ہی خوب رفیق ہیں۔‘‘

    ان مقربین کے حق میں مباحات وہ اطاعت بن جاتی ہیںجن کے ذریعے سے وہ اللہ عزوجل سے قرب حاصل کرتے ہیں اور ان کے تمام اعمال اللہ تعالیٰ کے لیے عبادت ہوتے ہیں، بس یہ لوگ چشمۂ تسنیم کی خالص شراب پئیں گے، اس لیے کہ اس کے عمل بھی خالص اور کھرے ہیں۔
     
  20. نعمت اللہ

    نعمت اللہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 25, 2012
    پیغامات:
    261
    مقتصدین

    اور جو درمیانہ درجہ کے لوگ ہیں، ان کے اعمال میں بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو وہ اپنے حظ نفس کے لیے کرتے ہیں چونکہ وہ اعمال مباح ہوتے ہیں، اس لیے نہ توان کو ان اعمال پر سزا ملتی ہے اور نہ جزا۔ ان لوگوں کو خالص شراب نہ ملے گی بلکہ مقربین کی شراب میں سے ان کے لیے اسی قدر آمیزش ہوگی، جس قدر کہ وہ دنیا میں مقربین کے اعمال کی طرح کے اعمال اپنے نامۂ اعمال میں شامل کرچکے ہوں گے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں