حدیث کو رد کرنے کےلیےوضع کردہ اصولوں کا رد،محدث نور پوری رحمہ اللہ

آزاد نے 'حدیث - شریعت کا دوسرا اہم ستون' میں ‏مارچ 6, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    حدیث کو رد کرنے کےلیے وضع کردہ اصول:

    اصول نمبر۱:
    ہر وہ حدیث جو کسی معروف ومحقق فقیہ امام کے عمل یا فتویٰ کے خلاف ہو، وہ ضعیف ہے۔
    جواب نمبر ۱:
    اس قاعدہ کا پہلا رد یہ ہے کہ یہ قاعدہ اصول کے خلاف ہے۔ اصول حدیث میں تو یہ ہے :
    [font="al_mushaf"]عمل العالم أو فتیاہ علی وفق الحدیث الذی رواہ لیس حکما منہ بصحتہ۔

    اگر کسی عالم کا فتویٰ یا عمل کسی حدیث کے مطابق ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث اس کے نزدیک صحیح ہو۔
    اسی طرح کسی عالم کا عمل کسی حدیث کے خلاف ہو تو ضعف حدیث کےلیے حجت نہیں۔ یعنی موافقت امام للحدیث صحت حدیث کی علامت نہیں اور مخالفت امام للحدیث ضعف حدیث کےلیے علامت نہیں۔
    جواب نمبر۲:
    امام جس حدیث کی موافقت یا مخالفت کرے، ضروری نہیں کہ وہ حدیث اس کے علم میں بھی ہو۔ جب وہ حدیث اس کے علم میں ہی نہیں تو موافقت یا مخالفت اس کے ہاں صحت وضعف کی دلیل کیسے ہوگی؟
    جواب نمبر ۳:
    وہ حدیث جس کی امام صاحب موافقت یا مخالفت کررہے ہیں، ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ وہ امام صاحب کے علم میں بھی ہے، پھر بھی صحت یا عدم صحت کےلیے حجت نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ دلائل اور بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً: قرآن، اجماع اور قیاس دلائل ہی ہیں۔ ہوسکتا کہ امام صاحب نے قیاس کے مطابق عمل کرلیا ہو تو عمل حدیث کے موافق نکل آیا ، یا کسی اور وجہ سے اس نے عمل کیا تو وہ حدیث کے مخالف ہوگیا، یا کسی دوسری حدیث سے مسئلہ استنباط کیا ہو، اس لیے ان کا عمل صحت وضعف حدیث کےلیے میزان قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ دلائل اس کے پاس ہیں، جن کا دوسروں کو علم نہیں۔
    جواب نمبر۴:
    اس کا چوتھا رد یہ ہے کہ ہم مان لیتے ہیں کہ اس کے عمل کی دلیل حدیث ہی ہے، دوسرے دلائل نہیں، تو پھر بھی امام صاحب کا عمل یا ان کا فتویٰ صحت حدیث کی دلیل نہیں کیونکہ امام صاحب نے احتیاط سے عمل کیا اور فتویٰ دیا، حالانکہ وہ اپنے عمل اور فتویٰ کو ضعیف سمجھتے ہیں۔
    جواب نمبر ۵:
    ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ امام صاحب کو اس کا علم بھی نہیں اور احتیاط کی صورت بھی نہیں تو پھر انہوں نے ترہیب وترغیب کی خاطر کیا ہوگا، کیونکہ علماء ترغیب وترہیب میں نرمی کرلیتے ہیں۔
    جواب نمبر ۶:
    اوپر والی تمام صورتیں نہیں اور امام صاحب عمل کررہے ہیں تو پھر بھی صحت حدیث کےلیے حجت نہیں، کیونکہ ضعف کا جو سبب ہے، وہ اس کو سبب ضعف سمجھتے ہی نہیں۔ مثلاً: انقطاع اور ارسال کو وہ سبب ضعف شمار ہی نہیں کرتے، اس لیے وہ اس پر عمل پیرا ہیں۔ ہاں امام صاحب کے نزدیک ہے، واقع میں صحیح نہیں۔ لیکن یہاں تو بات واقع میں حجت کی ہے۔
    جواب نمبر ۷:
    اس قاعدے کا ساتواں رد یہ ہے کہ ہوسکتا ہے امام صاحب کا مذہب یہ ہو کہ ضعیف حدیث پر عمل کرلینا ٹھیک ہے۔ تو پھر یہ کیسے ثابت ہوا کہ اس کا عمل صحت حدیث کی دلیل ہے۔
    جواب نمبر ۸:
    اس کا آٹھواں رد یہ ہے کہ اگر اس قاعدے کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر تحقیق حدیث کا مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا کیونکہ ہر شخص اپنے امام کو سامنے رکھے گا۔ اگرچہ باقی اس کو ضعیف کہتے ہیں، اس طرح تو صحت حدیث والا قاعدہ ہی ختم ہوجائے گا۔ قاعدہ وہ ہوتا ہے جو سب کے نزدیک مسلم ہو۔ موافقت حدیث کے یہ آٹھ رد ہیں۔ مخالفت حدیث کے بھی یہ آٹھ رد بن سکتے ہیں۔
    اصول نمبر ۲:
    یہ قاعدہ صوفی لوگوں کا ہے کہ خواب یا الہام سے نبیﷺ خودکہہ دیں کہ یہ بات غلط ہے یا صحیح ہے تو یہ معتبر ہوگا کیونکہ اگر محدثین کی بات مانیں تو رسول اللہﷺ کے حکم پر عمل نہیں ہوگا۔ ابن عربی نے قرآن مجید کی ایک تفسیر لکھی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبیﷺ سے خبر پہنچی:
    [font="al_mushaf"]من قال لا الہ الا اللہ سبعین الفا غفرلہ

    جو آدمی ستر ہزار مرتبہ لا الہ الا اللہ پڑھے، اسے بخش دیا جاتا ہے۔
    میں نے ستر ہزار مرتبہ پڑھا لیکن میں نے توثیق نہ کی، پھر میں ایک دعوت میں شریک ہوا تو ایک نوجوان کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ جب پوچھا تو اس نے بتایا: میری والدہ اس وقت عذاب میں ہے جو فوت ہوگئی ہے۔ ابن عربی کہتے ہیں کہ میں نے دل ہی دل میں وہ وظیفہ اس کی ماں کو بخش دیا تو اچانک اس کا چہرہ ہشاش بشاش نظر آنے لگا۔ جب پوچھا تو اس نے بتایا کہ میری ماں ٹھیک ہوگئی ہے۔ اب ابن عربی کہتے ہیں:
    [font="al_mushaf"]عرفت صحۃ الحدیث بصحۃ کشفہ وصحۃ کشفہ بصحۃ الحدیث۔[/font]
    میں نے حدیث کا صحیح ہونا اس کے کشف سے معلوم کیا اور اس کے کشف کا صحیح ہونا حدیث سے معلوم کیا۔
    ابن عربی نے فتوحات میں لکھا ہے کہ اگر نبیﷺ خواب میں ملیں اور چلنے کو کہیں تو اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ اور یہ بھی ایک قاعدہ ہے کہ
    [font="al_mushaf"]رب حدیث صحیح عند اہل الفن لا یثبت عندنا۔[/font]
    بہت سی احادیث صحیحہ ہمارے نزدیک ثابت نہیں۔
    ابن عربی نے فصوص الحکم میں فرعون کو مؤمن کہا ہے، تو پھر قرآن بھی حجت نہیں رہے گا۔ اسی لیے تو وہ کہتے ہیں:
    [font="al_mushaf"]ورب حدیث موضوع عندہم یصح بقولہ ﷺ ہذا حدیث قلتہ[/font]
    صوفیوں نے یہ طریقہ حدیث کو رد کرنے کےلیے بنایا ہے۔
    جواب نمبر۱:
    اس قاعدے کا رد عقائد کی کتابوں میں موجود ہے کہ نبیﷺ کے کشف والہام کے علاوہ کسی کا کشف والہام اور خواب شریعت کے اندر حجت نہیں ہوسکتا۔ یہ بات شرح عقائد میں ہے:
    [font="al_mushaf"]والالہام لیس من اسباب المعرفۃ بصحۃ الشیئ عند اہل الحق۔[/font]
    اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے علاوہ کسی دوسرے کے کشف والہام میں خطاء کا امکان موجود ہے، پھر اپنے اندر عدم ضبط کا بھی امکان ہے۔
    صوفیوں کا اعتراض:
    صوفی لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے مجھے خواب میں دیکھا ، اس نے مجھے دیکھا ”[font="al_mushaf"]لأن الشیطان لا یتمثل بی[/font]“ (صحیح البخاری: ۶۹۹۳)
    اب خطاء کا امکان کیسے ہوسکتا ہے؟
    جواب نمبر۱:
    اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی نے نبیﷺ کو خواب کے اندر دیکھا ہے تو اس کو صحابی ہونا چاہیے، تب یہ لوگ اپنے آپ کو صحابی کہلائیں۔ معلوم ہوا کہ نوم ویقظہ (نیند اور بیداری) میں دیکھنا، دونوں میں فرق ہے۔ علامہ عینی سے کسی نے پوچھا کہ کوئی آدمی خواب میں رسول اللہﷺ کو دیکھے تو وہ صحابی ہوجائے گا؟ تو انہوں نے فرمایا: نہیں ہوگا۔
    جواب نمبر۲:
    اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ شیطان رسول اللہﷺ کی شکل میں نہیں آسکتا، مگر کسی دوسری شکل میں آکر صوفی صاحب کو دھوکا دے دے کہ میں رسول اللہ ہوں۔ مثلاً: صوفی محمد عبداللہ صاحب کو کسی نے کہا کہ مجھے ہر روز صبح کے وقت علی ہجویری ملتے ہیں۔۔۔آخر تک۔
    اصول نمبر ۳:
    صحیح احادیث کو رد کرنے کا تیسرا قاعدہ یہ بنایا ہے کہ ممکن ہے وہ حدیث پرانے زمانے میں صحیح ہو۔ مثلاً: ایک حدیث امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کے زمانہ میں بالکل صحیح ہو، اس کے بعد جو سند کا سلسلہ شروع ہوگیا، اس کی وجہ سے حدیث موضوع یا ضعیف ہوجائے۔ اس لیے ائمہ کے نزدیک جو صحیح ہے، وہ صحیح ہے۔ یہ ضعف تو بعد میں نکل آیاہے۔ ملا علی قاری نے اس کی مثال یہ دی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی حدیث ہے کہ جنازے کے پیچھے ہی چلنا چاہیے، جو آگے چلے گا، وہ جنازے میں شامل ہی نہیں۔
    یہ حدیث امام صاحب کے نزدیک صحیح ہے اور امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے، کیونکہ عبداللہ بن مسعود کے نیچے ابوماجد ضعیف ہے۔(سنن الترمذی: ۱۰۱۱)
    اسی طرح ایک دوسری حدیث ہے کہ نبیﷺ جلسہ استراحت نہیں کرتے تھے۔ (سنن الترمذی: ۲۸۸)
    یہ حدیث امام صاحب کے نزدیک صحیح ہے اور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ چونکہ ضعف بعد میں پیدا ہوا ہے، پہلے نہیں تھا، اس لیے کہ انہوں نے ان پر عمل کیا ہوا ہے۔
    رد نمبر ۱:
    اس قاعدے کی بنیاد یہ ہے کہ امام صاحب کے عمل کو صحت حدیث یا عدم صحت کےلیے دلیل بنانا کہ ابتدا میں صحت سند کا احتمال ہے، واقع میں ایسا نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پیش کرو۔ اگر ایسا ہو کہ امام صاحب سے اوپر صحیح ہوں تو کوئی محدث اس حدیث کو ضعیف نہیں کہے گا۔ اگر کوئی محدث حدیث کو صحیح کہہ دے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ کسی سند کے مطابق صحیح ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ تمام سندیں صحیح ہیں۔ احتمال صحیح وسقیم دونوں ہوسکتے ہیں، اس لیے احتمال پر بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔
    رد نمبر۲:
    اس قاعدہ سے لازم آتا ہے کہ موضوع اور ضعیف احادیث بھی صحیح ہوجائیں ، تویہ بات باطل ہے۔ کیونکہ موضوع احادیث والے کہہ سکتے ہیں کہ بیان کرنے والے صحابہ کرام ہیں، جنہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے، ان میں ضعف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ضعف تو بعد میں آیا ہے، اس لیے اس قاعدہ کے مطابق تمام احادیث صحیح ہیں۔ پھر یہ کہنا کہ امام صاحب کسی ضعیف قرار دیں، یہ بھی غلط ہے کیونکہ صحابہ کرام کے زمانہ میں تو ضعف نہیں تھا، اس لیے یہ قاعدہ ہی غلط ہے، جو صحیح احادیث کو رد کرنے کےلیے بنایا گیا ہے۔ جس سے تمام احادیث ایک ہی صف میں شمار ہوجائیں۔ جو حدیث سند سے ضعیف ثابت ہو، وہ ضعیف ہوگی، جو سند سے ضعیف نہ ہو، دیگر شروط صحت اس میں موجود ہوں، وہ صحیح ہوگی۔
    اصول نمبر۴:
    احادیث کو رد کرنے کےلیے چوتھا قاعدہ یہ بنایا گیا ہے کہ اگر ایک راوی فقیہ ہے، اس سے معارض حدیث والا غیرفقیہ ہے تو فقیہ کو ماننا پڑے گا اور غیر فقیہ کو چھوڑ دیا جائے گا، بلکہ غیر فقیہ کی روایت اگر قیاس کے معارض ہوجائے تو اس کی روایت کو رد کردیتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ امام اوزاعی اور امام ابوحنیفہ کے درمیان مناظرہ والی روایت ابن عیینہ سے ہے کہ ابوحنیفہ اور اوزاعی دار الحناطین میں جمع ہوئے۔ امام اوزاعی نے سوال کیا کہ تم نماز میں رفع الیدین کیوں نہیں کرتے؟ تو ابوحنیفہ نے جواب دیا کہ نبیﷺ سے کوئی صحیح حدیث ہی نہیں۔ تو امام اوزاعی نے جواب دیا کہ مجھے زہری نے سالم سے حدیث سنائی، سالم عبداللہ بن عمر سے بیان کرتے ہیں۔ عبداللہ بن عمر رسول اللہﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ رفع الیدین کرتے تھے۔ اس پر امام ابوحنیفہ بولے:
    [font="al_mushaf"]حدثنی حماد عن ابراہیم عن علقمۃ عن ابن مسعود لم یکن یرفع یدیہ فی الصلاۃ۔[/font]
    کہ ابن مسعود نماز میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ اوزاعی کی روایت میں واسطے بہت کم ہیں، اس لیے سند عالی ہے۔ امام صاحب کی سند میں واسطے زیادہ ہیں، اس لیے نازل ہے لیکن حماد زہری سے زیادہ فقیہ ہے اور ابراہیم سالم سے زیادہ فقیہ ہے۔ فرماتے ہیں: اگرچہ علقمہ صحابی نہیں مگر عبداللہ بن عمر کے مقابلے میں کیا کہنا اور عبداللہ بن مسعود کا تو کہنا ہی کیا۔ ابن ہمام کہتے ہیں:
    [font="al_mushaf"]فرجح ابوحنیفہ بفقہ الحدیث ورجح الاوزاعی بعلو الاسناد۔[/font]
    اس واقعہ سے یہ قاعدہ بناتے ہیں کہ فقیہ کی روایت غیرہ فقیہ سے افضل ہے۔
    رد نمبر۱:
    اس کا پہلا رد یہ ہے کہ یہ حکایت ثابت نہیں، کیونکہ اس کی سند میں حارثی ہے ، دوسرا سلیمان بن داؤد شاذکونی ہے۔ دونوں قابل اعتماد نہیں، بلکہ دونوں وضاع ہیں، پھر قابل اعتماد کیسے ہوسکتے ہیں؟
    ابن ہمام کی بات کا اندازہ لگائیے ۔ ایک طرف بخاری ومسلم پر برس رہے ہیں اور خود بغیر سند کے ابن عیینہ سے مناظرہ نقل کرنا شروع کردیا ہے۔ نیچے سند بیان ہی نہیں کی، اس سے یہ راز ظاہر ہوجاتا تھا کہ حارثی کذاب ہے۔مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں کہ اسناد حذف کرکے کسی نے یہ بہت بڑا کام کیا ہے۔
    رد نمبر۲:
    اس قاعدہ کا دوسرا رد یہ ہے کہ صحیح کا مدار ضبط راوی اور عدالت راوی پر ہے، فقہ راوی پر نہیں ہوتا۔ نبیﷺ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”خود کئی راوی ایسے ہوتے ہیں جو اتنے فقیہ نہیں ہوتے جتنے ان کے بعد والے ہوتے ہیں۔“ (سنن الترمذی: ۲۶۵۶)
    اور وہ مسائل اخذ کرسکتے ہیں، ان راویوں کی بات معتبر ہوگی کیونکہ صحت کا دارومدار ضبط وعدالت پر ہے۔ دونوں صورتوں میں روایت صحیح سمجھی جائے گی۔ امام بخاری اور دیگر محدثین تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ پانچ چھ سال کا بچہ بھی حدیث بتا دے تو وہ معتبر ہوگی۔ (صحیح البخاری، ج:۱، ص: ۲۶، شاملہ)
    اس عمر میں بچہ فقیہ تو نہیں ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ بچہ دائیں بائیں کی تمییز کرسکتا ہو تو اس کی بیان کردہ حدیث معتبر ہوگی۔ حجۃ اللہ البالغۃ میں شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں: اصول فقہ کے یہ اصول بعد کے بنائے ہوئے ہیں۔ امام کی طرف منسوب کردیے گئے ہیں۔
    اصول نمبر۵:
    بعض لوگوں نے یہ اصول بنا رکھا ہے کہ جمہور علماء کا مذہب اگر کسی حدیث کے مطابق ہو تو جمہور علماء کی وجہ سے اس حدیث کو معارض حدیث پر ترجیح دی جائے گی۔
    رد:
    جمہوریت کوئی شرعی دلیل نہیں۔ اصول فقہ کی کتابوں میں بیان کردہ شرعی دلائل چار ہیں:
    ۱: کتاب ۲: سنت ۳: اجماع ۴: قیاس
    اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تنازع کی صورت میں قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرو۔ (سورۃ النساء: ۵۹)
    تو پھر جمہوریت کوئی چیز نہ ہوئی۔ پھر بعض لوگ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ”[font="al_mushaf"]اتبعوا السواد الاعظم۔[/font]“ کہ بڑی جماعت کی پیروی کرو۔ (سنن ابن ماجہ: ۳۹۵۰)
    اس سے معلوم ہوا کہ جمہوریت ہے۔
    سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حدیث سنن ابن ماجہ کی انتہائی ضعیف حدیث ہے۔
    دوسری بات یہ ہے کہ سواد اعظم کا معنیٰ جمہوریت غلط ہے۔ اعظم اسم تفضیل کا صیغہ ہے، کثرت اسے اسم تفضیل کا صیغہ اکثر آئے گا۔ اعظم کی ضد احقر ہوتی ہے اور اکثر کی ضد اقل آتی ہے۔ تو سواد اعظم کا معنیٰ ہوگا: زیادہ عظمت والے لوگ۔ اعظم کا معنیٰ اکثریت کرنا عقل ونقل کے خلاف ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ” [font="al_mushaf"]لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ[/font] “ (صحیح مسلم: ۱۹۲۰)
    کہ ہمیشہ میری امت کی ایک جماعت حق پر قائم رہے گی۔
    قرآن مجید میں ہے: ایمان والے تھوڑے ہیں۔ (سورۃ صٓ: ۲۴)
    پھر رسول اللہﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ اکثر کے پیچھے چلو۔
    محدثین نے صحت حدیث کےلیے جو شرائط قائم کی ہیں، ان میں اکثریت کوئی شرط نہیں، لہٰذا جمہوریت کا عمل کسی حدیث کے ضعف یا صحت کا سبب نہیں بن سکتا۔
    مرآۃ البخاری، از حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ
    ص: 78 تا 87
    کمپوزنگ: آزاد
    [/font]
    [/FONT]
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001
    اے اللہ، رحمن و رحیم، حافظ صاحب ممدوح رحمہ اللہ پر اپنی رحمتوں کی برکھا برسا دے۔ اور ہمیں ہر طرح کے فتنوں سے اور اپنے نفسوں کے شر سمیت تمام شرور سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچا لے آمین یارب العالمین

    آزاد بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ
     
  3. نصر اللہ

    نصر اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2011
    پیغامات:
    1,845
    ما شاء اللہ جزاکم اللہ خیرا بہترین علم ہے۔
     
  4. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    جزاکم اللہ خیر
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں