بعض خدشات كى حقيقت از کتاب مقام صحابہ

آزاد نے 'سیرتِ سلف الصالحین' میں ‏مارچ 23, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    بعض خدشات كى حقيقت​

    ائمہَ سلف کی ان تصریحات کے برعکس بعض حضرات صحابی کرام رضی اللہ عنہ کے زلات اور ان کی لغزشوں‌کی بیان کرنا شاید اپنا فرضِ سمجھتے ہیں‌ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر نقد و تبصرہ کے لیے قرآن پاک میں‌ان کی زلّات کے بعض واقعات سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں‌ کہ جب اللہ تعالی نے خود ان کی غلطیوں‌ کا ذکر کیا ہے، تو ان کو بیان کرنے سے روکنا صحابہ رضی اللہ کی عقیدت میں‌“غلو“ ہے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی لغزشوں کو بیان کرنے میں‌تتبع و تلاش سے انھیں‌ جمع کر کے نشر کرنے اور اپنے خطبات میں‌انھیں‌ ہدفِ تنقید بنانے کا یہ استدلال بالکل اسی طرح‌کا ہے جس طرح‌کرامیہ انبیائے کرام علیہ السلام کے بارے میں‌یہ خیال رکھتے ہیں کہ (معاذ اللہ) ان سے صغیرہ و کبیرہ گناہ سر زرد ہوتے ہیں‌۔ کیونکہ قرآن مجید میں‌ان کے بارے میں‌ یہ اور یہ واقعات بیان ہوئے ہیں‌، وہ انھیں بیان بھی کرتے ہیں‌ اور بڑی دلیری سے اپنے غلط موقف پر ان سے استدلال بھی کرتے ہیں۔ اگر کرامیہ کا یہ استدلال غلط اور بہرحال غلط ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے بارے میں‌قرآنِ مجید میں‌ان کی خطاؤں کے تذکرہ کی بنا ان کی حکایت پر استدلال بھی غلط ہے، بالخصوص جبکہ اللہ تعالی نے ان کی خطاؤں‌ کو معاف فرمایا اور ہمیں‌ان کے لیے بخشش کی دعا کا حکم دیا، رسول اللہ صلی اللہ نے بھی ان سے درگزر کرنے کا حکم فرمایا اور انھیں‌ سبَ و شتم کا نشانہ بنانے سے منع کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واضح حکم کے برعکس اس قسم کی جسارت محض بغضِ صحابہ کا نتیجہ ہے۔ [font="al_mushaf"]اعاذنا اللہ منہ۔

    صحابه كرام معصوم نہيں مغفور ہيں
    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معصوم نہیں‌ ان سے خطاؤں کا ارتکاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں‌ہوا، احادیث مبارکہ میں‌بھی بعض صحابہ کرام کی خطاؤں‌ کا تذکرہ موجود ہے مگر اس کے باوجود بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تحسین کی بلکہ ان کی ایسی خطاؤں میں‌بھی ان کے ایمان کی پختگی کی دلیل اور ہمارے لیے عبرت کا سامان ہے جیسا کہ حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ وغیرہ کی غلطی کے حوالے سے ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔

    عدالت صحابہ اور علامہ ابن الوزير وغيره
    غامدیہ خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں‌ حاضر ہوتی ہے اور عرض کرتی ہے کہ میں‌بدکاری کے نتیجہ میں‌حاملہ ہوں مجھ پر حد لگائی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی نہیں‌، تمھیں‌رجم کر دیا گیا ہے تو بچے کو دودھ کون پلائے گا؟ وہ پھر دوبارہ حاضرِ خدمت ہوئی اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! ابن اس نے دودھ پینا چھوڑ دیاہے اور کھانا کھانے لگا ہے، بچے کے ہاتھ میں‌روٹی کا ٹکڑا تھا۔ آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، رجم کرتے ہوئے اس کا خون حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے چہرہ پر پڑا تو انھوں‌نے اسے برا کہا اور اس کی خدمت کی، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «مَهْلًا يَا خَالِدُ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ لَغُفِرَ لَهُ» “ (مسلم: 1695 (23))
    "باز رہو اے خالد! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں‌میری جان ہے بے شک اس نے ایسی توبہ کی کہ محصول لینے والا ایسی توبہ کرے تو اسے بخش دیا جائے۔"
    علامہ محمد ابن ابراہیم الوزیر الیمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس صحابیہ کا دیکھو، قتل کی شیدی ترین صورت کو اس نے خود اپنے لیے قبول کیا اور طویل مدت اس کا عزم کیے رکھا اور بلا اکراہ خود رجم کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ ” وهي من النّساء الموصوفات بنقصان العقول والأديان, فكيف برجالهم رضي الله عنهم!؟ “ (الروض الباسم: 56/1)
    "یہ انھیں‌عورتوں میں‌سے ہے جو ناقصات العقل والدین سے موصوف ہیں، جب اس کا یہ حال ہے تو ان کے مردوں (صحابہ) کا کیا حال ہو گا۔ رضی اللہ عنہم"
    نیز فرماتے ہیں‌ کہ ایک صاظبی کو چوری کے نتیجہ میں‌رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ نے اس کے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم فرمایا۔ جب ہاتھ کاٹ دیا گیا تو وہ صحابی ہاتھ کو
    مخاطب ہو کر کہنے لگے : ” الحمد لله الذي خلّصني منك، أردت أن تدخليني النّار “ (الروض الباسم56/1)
    اللہ کا شکر ہے جس نے تجھ سے میری خلاصی کر دی تو چاہتا تھا میں‌ جہنم میں‌داخل ہو جاؤں
    یہ اور ایسے ہی صحابی کرام رضی اللہ عنہ کے دیگر واقعات سے ان کے ایمان کی پختگی ہی ظاہر ہوتی ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے: ﴿ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُوْلَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ﴾ [الحجرات : 7]
    "لیکن اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی ہے اور اس کو تمارے دلوں‌میں‌مزین کر دیا اور کفروفسوق و عصیان سے تم کو نفرت دی ، یہی ہیں‌جو راہِ ہدایت پر ہیں۔"
    مفسرین کرام کا بیان ہے کہ یہ اور اس سے قبل کی آیت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی، اس دور میں‌صحابی کرام رضی اللہ عنہ کے بارے میں‌رب عرشِ عظیم نے فرمایا ہے کہ کفر اور فسق و فجور سے ان کے دلوں‌ میں‌نفرت پیدا کر دی گئی ہے۔ حافط ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتےہیں۔ "فسوق" سے کبیرہ گناہ، عصیان سے تمام گناہ مراد ہیں۔ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ صغیرہ و کبیرہ گناہوں‌سے متنفر تھے اور یہ نفرت ان کے دلوں‌میں‌اللہ تعالی نے پیدا کر دی تھی۔ اس وضاحت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے بارے میں‌یہ تاثر قائم کرنا کہ انھوں نے قصداً و ارادۃ محض دینوی اغراض کی بنا پر غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ اپنی آخرت برباد کرنے کا مترادف ہے۔ [font="al_mushaf"]اعاذنا اللہ منہ۔
    [/font]صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اعتراض کے جواز میں‌یہ بھی کہا گیا کہ علامہ محمد بن ابراہیم الوزیر الیمانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں‌مگر جن سے فسق ثابت ہے وہ اس عام حکم سے مستثنی ہیں، محدثین اور اہلِ سنت یہ استثنا اس لیے ذکر نہیں‌کرتے کہ ان سے فسق نادر ہے، نادر اور قلیل کا حکم بمنز معدوم کے ہے، ان میں‌سے ایک ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ ہیں‌اور صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ انھوں نے شراب پی، اس پر گواہوں نے گواہی دی اور ان پر حدِ شربِ خمر نافذ کی گئی۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ان کے شربِ خمر کا واقعہ بیان کیا ہے بلکہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر ولید رضی اللہ عنہ کو فاسق کہا ہے اور اسی پسِ منظر میں‌یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿أَفَمَن كَانَ مُؤْمِناً كَمَن كَانَ فَاسِقاً لَّا يَسْتَوُونَ ﴾ [السجدة : 18]
    علامہ ذہبی رحمہ نے کہا ہے: کہ اس کی سند قوی ہے۔
    تفسیر الواحدی ، قرطبی تفسیر رازی وغیرہ میں‌ہے کہ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا ﴾[الحجرات : 6] کا سبب نزول بھی ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ ہیں۔
    اسی طرح ائمہ حدیث نے بسربن ارطاۃکو بھی فاسق قرار دیا ہے، علامی یمانی رحمہ اللہ نے یہ بات تنقیح الانظار مع توضیح الافکار (443،436/2)، الروض الباسم (130،127/1)اور العواصم و القواصم (678،677/1)میں‌کہی ہے بلکہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے بھی بسرین ارطاۃ کی حدیث پر بحث کے دوران میں‌کہا ہے: ” فَثُبُوتُ صُحْبَتِهِ لَا يَرْفَعُ الْقَدْحَ عَنْهُ عَلَى مَا هُوَ الْمَذْهَبُ الرَّاجِحُ، بَلْ هُوَ إجْمَاعٌ لَا يَخْتَلِفُ فِيهِ أَهْلُ الْعِلْمِ كَمَا حَقَقْنَا ذَلِكَ فِي غَيْرِ هَذَا الْمَوْضِعِ، وَحَقَّقَهُ الْعَلَّامَةُ مُحَمَّدُ بْنُ إبْرَاهِيمَ الْوَزِيرُ فِي تَنْقِيحِهِ “ (نیل الاوطار: 137/7، كِتَابُ الْقَطْعِ فِي السَّرِقَةِ، بَابٌ فِي حَدِّ الْقَطْعِ وَغَيْرِهِ هَلْ يُسْتَوْفَى فِي دَارِ الْحَرْبِ أَمْ لَا)
    "اس کے صحابی ہونے کے ثبوت سے اس سے جرح و قدح ختم نہیں‌ہوتی، راجح مذہب کے مطابق بلکہ اس پر اہلِ علم کا اجماع ہے جیسا کہ ہم نے اس کے علاوہ اور موقع پر اور علامہ محمد بن ابراہیم الوزیر رحمہ اللہ نے اپنی تنقیح الانظار میں‌اس کی تحقیق کی ہے۔ "
    علامہ ابن الوزیر رحمہ اللہ نے تنقیح الانظار میں ان ہی دو صحابہ کے بارے میں کہا ہے کہ وہ عدالتِ صحابہ کے عمومی حکم مشتنی ہیں مگر امر واقعی یہ ہے کہ ان دو صحابہ کے بارے میں‌بھی ان کا دعوی محلِ نظر ہے۔
    بلاشبہ حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ پر شراب پینے کی بنا پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حد نافذ کی تھی مگر قابل ِ غور یہ بات ہے کہ شرب ِ خمر کا یہ جرم عظیم ان کے ”فاسق“ ہونے کی دلیل ہے؟ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں حضرت عبداللہ بن نعمان الحمار رضی اللہ عنہ صحابی نے ایک دو بار نہیں بلکہ چار بار شراب نوشی کی، ان پر حد نافذ کی گئی اس کے باوجود رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا: میں اس کے بارے میں یہی جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ “ علاوہ ازیں حضرت ولید رضی اللہ عنہ پر جب حد جاری کردی گئی تو یہ حد ان کے گناہ کا کفارہ بن گئی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: «وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ» (صحیح البخاری: 18 وغیرہ)
    اور جو کوئی ان گناہوں میں سے کچھ کر بیٹھے اس کو دنیا میں اس کی سزامل جائے تو وہ سزا اس گناہ کا کفارہ ہے۔
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس پر تفصیلاً بحث کی اور اس موضوع کی دیگر روایات بیان کرکے فرمایا ہے کہ جمہور کا یہی مؤقف ہے کہ حد نافذ ہوجانے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے۔ علامہ الوزیر رحمہ اللہ کی طرح جناب ولید رضی اللہ عنہ پر بعض دیگر حضرات کے اسی نوعیت کے اعتراض کے جواب میں علامہ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «وَأَمَّا الْوَلِيدُ وَغَيْرُهُ مِمَّنْ ذُكِرَ بِمَا أَشَارَ إِلَيْهِ فَقَدْ كَفَّ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْ لَعْنِ بَعْضِهِمْ بِقَوْلِهِ: ( «لَا تَلْعَنْهُ ; فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِلَّا أَنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ» ) . كَمَا كَفَّ عُمَرَ عَنْ حَاطِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَائِلًا لَهُ: ( «إِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ; فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ» ) . لَا سِيَّمَا وَهُمْ مُخْلِصُونَ فِي التَّوْبَةِ فِيمَا لَعَلَّهُ صَدَرَ مِنْهُمْ، وَالْحُدُودُ كَفَّارَاتٌ. بَلْ قِيلَ فِي الْوَلِيدِ بِخُصُوصِهِ: إِنَّ بَعْضَ أَهْلِ الْكُوفَةِ تَعَصَّبُوا عَلَيْهِ فَشَهِدُوا عَلَيْهِ بِغَيْرِ الْحَقِّ.
    وَبِالْجُمْلَةِ، فَتَرْكُ الْخَوْضِ فِي هَذَا وَنَحْوِهِ مُتَعَيِّنٌ»
    (فتح المغیث: 37،36/4)
    رہے ولید رضی اللہ عنہ وغیرہ جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تو رسول اللہﷺ نے اسے لعنت کرنے سے روکا تھا جس نے بعض پر (شرب ِ خمر کی وجہ سے ) لعنت کی کہ اس پر لعنت نہ کرو اللہ کی قسم میں یہی جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ جیسے عمر رضی اللہ عنہ کو حاطب رضی اللہ عنہ کے بارے میں لب کشائی سے یہ کہتے ہوئے روکا کہ وہ بدر میں شریک ہوا ہے اور تمہیں کیا معلوم اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو دیکھا تو فرمایا: تم جو چاہو عمل کرو بے شک میں نے تمہیں معاف کردیا ہے۔ بالخصوص جو ان سے صادر ہوا اس سے توبہ میں وہ مخلص تھے اور حدود گناہ کا کفارہ ہیں بلکہ ولید رضی اللہ عنہ کے بارے میں بالخصوص کہا گیا ہے کہ بعض اہل کوفہ نے عصبیت میں ان کے خلاف شراب نوشی کی ناحق گواہی دی تھی۔ خلاصہ ٔ کلام یہ کہ اس جیسے واقعات میں بحث وتکرار نہ کرنا ہی طے شدہ فیصلہ ہے۔
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی طبری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ بعض اہل کوفہ نے تعصباً ان کے خلاف گواہی دی تھی۔ (الاصابۃ: 322/6)
    اسی بات کی طرف اشارہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ (155/7) میں بھی کیا ہے۔ اور یہ بات اہل کوفہ سے بعید بھی نہیں جنہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ پر ناروا اعتراض کرکے انہیں معزول کروا دیا تھا، ان سے ولید رضی اللہ عنہ پر شراب نوشی کا الزام ناممکن نہیں۔
    رہی یہ بات کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ولید رضی اللہ عنہ کو فاسق کہا تھا اور اسی پس منظر میں سورۃ السجدۃ کی یہ آیت نازل ہوئی: ﴿أَفَمَن كَانَ مُؤْمِناً كَمَن كَانَ فَاسِقاً لَّا يَسْتَوُونَ ﴾ [السجدة : 18] اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو قوی کہا ہے، لیکن یہ قصہ بھی درست نہیں کیونکہ اسے بیان کرنے والا محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ہے جو اگرچہ صدوق ہے مگر سیئ الحفظ ہے بلکہ امام یحییٰ القطان رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:[font="al_mushaf"] «سیئ الحفظ جداً» [/font]اس کا حافظہ بہت خراب تھا۔ امام احمد رحمہ اللہ نے مضطرب الحدیث اور امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے لیس بذاک کہا ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: «ردیء الحفظ کثیر الوہم»۔ امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ما رأیت أسوأ من حفظہ» اس سے کمزور حافظے والا میں نے نہیں دیکھا۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے: «کان ردیء الحفظ فاحش الخطأ فکثرت المناکیر فی حدیثہ» اس کا حافظہ ردی، بہت زیادہ خطا کرنے والا، اس کی زیادہ احادیث منکر ہیں۔ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ، امام ابو حاتم رحمہ اللہ، امام الساجی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اس پر سوء حفظ کی بنا پر جرح کی ہے۔ (میزان: 114/3، تہذیب: 303،302/9)
    بلکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: ابن ابی لیلیٰ صدوق ہے اور اس کی صحیح حدیث کی ضعیف سے تمیز نہیں، انہوں نے اس کی حدیث کو بہت ضعیف قرار دیا۔ ان کے الفاظ ہیں: «صَدُوقٌ إِلَّا أَنَّهُ لَا يُدْرَى صَحِيحُ حَدِيثِهِ مِنْ سَقِيمِهِ , وَضَعَّفَ حَدِيثَهُ جِدًّا» (العلل الکبیر: 973/2)
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے:[font="al_mushaf"] «صدوق سیء الحفظ جداً» [/font](تقریب: 308)
    اس لیے جب اس قصہ کا راوی ابن ابی لیلیٰ ہی ردیء الحفظ ہے تو اس کی سند کو ”قوی “ کہنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے؟ یہاں تلک لکھ چکا تھا کہ شیخ سلیم الہلالی اور شیخ محمد موسیٰ رحمہم اللہ کی کتاب ”الاستیعاب فی بیان سبب الاختلاف“ کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے بھی اس روایت کو بلکہ اس موضوع کی دیگر سب روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (الاستیعاب: 74،73/3)
    مزید براں علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے اس کے برعکس یہ قول بھی ذکر کیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ولید رضی اللہ عنہ کے باپ عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے، چنانچہ ان کے الفاظ ہیں: «وَذَكَرَ الزَّجَّاجُ وَالنَّحَّاسُ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي عَلِيٍّ وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ» (تفسیر القرطبی: 105/4)
    بلکہ اس قول کے ساتھ ہی انہوں نے علامہ ابن عطیہ رحمہ اللہ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ اس قول کی بنا پر یہ آیت بھی مکی ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی خطیب بغدادی ، ابن مردویہ اور ابن عساکر کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس آیت کا مصداق حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عقبہ بن ابی معیط ہیں۔ (الدر المنثور: 178/5)
    یہ روایت بھی بلاشبہ ضعیف ہے مگر ہمارا مقصد صرف اتنا تھا کہ سابقہ قول کے مقابلے میں ایک اور قول بھی منقول ہے بلکہ قرآن مجید کے سیاق کو دیکھا جائے تو یہی دوسرا قول قرین ِ انصاف معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس آیت مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ مؤمن اور فاسق یکساں نہیں۔ اس کے بعد مؤمنوں کےلیے جنت کی بشارت اور فاسقوں کےلیے جہنم کی وعیدبیان ہوئی ہے۔ جس میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ وہ فسّاق جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو انہیں جہنم میں لوٹا دیاجائے گا اور انہیں کہا جائے گاکہ آگ کی یہ سزا تمہاری تکذیب کا نتیجہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں مکذبین سے مراد کفار ہیں اور فاسقین سے مراد بھی وہی ہیں۔ اور اس کا مصداق عقبہ بن ابی معیط تو ہے حضرت ولید رضی اللہ عنہ نہیں ، اس کا مصداق یقیناً علامہ الوزیر رحمہ اللہ بھی حضرت ولید رضی اللہ عنہ کو قرار نہیں دیں گے کیونکہ وہ بھی ان کے صحابی ہونے کا انکار نہیں کرتے، وہ گناہ گار سہی لیکن ان آیات میں فاسقین کی جو سزا بیان ہوئی ہے اس کے وہ بہر نوع مصداق نہیں ہیں۔
    رہی سورۃ الحجرات کی آیت جس کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ اس کا بھی شان ِ نزول ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں رسول اللہﷺ نے بنی المصطلق سے صدقات وصول کرنے کےلیے بھیجا لیکن انہوں نے وہاں جائے بغیر آکر یہ اطلاع دی کہ انہوں نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا ہے، اس پر آپ نے بنی المصطلق کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ کیا، ادھر قبیلے کے لوگوں کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے حاضر خدمت ہوکر صورت حال سے آگاہ کیا کہ ہمارے پاس تو کوئی آیا ہی نہیں، اس پس ِ منظر میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر تمہارے پاس کوئی فاسق آکر خبر دے تو تحقیق کرلیا کرو۔ یہ واقعہ گو مختلف اسانید سے منقول ہے مگر ان میں کوئی بھی قابل ِ استناد نہیں ہے، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے جس کی سند کو سب سے حسن قرار دیا ہے وہ مسند احمد وغیرہ میں حضرت حارث بن ضرار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: 666/4)
    علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی اس کی سند کو جید اور اس کے راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے۔ (الدر المنثور: 87/6، لباب النقول، ص: 197،196)
    مگر امر واقع یہ ہے کہ اس کی سند میں دینار جو الحارث رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور عیسیٰ کے باپ ہیں، انہیں سوائے امام بن حبان رحمہ اللہ کے کسی نے ثقہ نہیں کہا اور ان سے سوائے ان کے بیٹے عیسیٰ کے کوئی روایت نہیں کرتا۔ (تہذیب: 217/3)
    حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان (31/2)میں اسے ذکر کیا اور اس کے بارے میں کوئی تعدیل یا جرح ذکر نہیں کی، بس اتنا فرمایا ہے کہ اس سے صرف اس کا بیٹا روایت کرتا ہے، ایسے راوی کو تنہا امام ابن حبان رحمہ اللہ کا ثقات میں ذکر کرنا قابل اعتبار نہیں، جس کی تفصیل لسان المیزان (14/1)وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب (ص: 98) میں اسے ”مقبول“کہا ہے اور ایسے راوی کی روایت خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک متابعت کے بغیر قابل قبول نہیں ہوتی ، جیسا کہ مقدمہ تقریب میں انہوں نے وضاحت کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الاستیعاب کے مصنفین نے بھی اسے ضعیف ہی قرار دیا ہے۔ (الاستیعاب: 272،270/3)
    الاستیعاب کے مصنفین نے اس حوالے کی دیگر روایات کو بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ البتہ علقمہ بن ناجیہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت جسے امام طبرانی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے، اس کی سند کو انہوں نے حسن قرار دیا ہے ۔(الاستیعاب: 275،274/3) بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے الصحیحہ (377) میں ذکر کیا ہے مگر ان کی یہ رائے محل ِ نظر ہے کیونکہ اس کا مرکزی راوی یعقوب بن حمید بن کاسب متکلم فیہ ہے۔ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد کہا ہے: [font="al_mushaf"]«وثقہ ابن حبان وضعہ الجمہور»[/font] کہ ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے مگر جمہور نے اسے ضعیف کہا ہے۔ (مجمع الزوائد: 110/7)
    عباس دوری فرماتے ہیں کہ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے اسے لیس بشیء کہا ہے ۔ ایک او رمقام پر لیس بثقۃ کہا ہے۔ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے امام ابوزرعہ رحمہ اللہ سے کہا کہ یعقوب بن حمید ثقہ ہے؟ تو انہوں نے سرہلا دیا۔ میں نے کہا: حدیث میں صدوق ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اس کی کچھ شرطیں ہیں، نیز یہ بھی فرمایا کہ میرا دل اس پر مطمئن نہیں ہے۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے بھی ضعیف الحدیث کہا ہے۔ امام نسائی نے کہا ہے:[font="al_mushaf"]«لیس بشیء، لیس بثقۃ» [/font] امام عقیلی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعفاء میں ذکر کیا ہے بلکہ امام ابوداؤد سجستانی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ ہم نے اس کی سند سے کئی احادیث منکر دیکھیں تو ہم نے ان سے ان کے اصول کا مطالبہ کیا تو انہوں نے اس سے انکار کردیا، کچھ دیر بعد وہ اصول لائے تو ہم نے ان میں بہت سی احادیث ایسی دیکھیں جو مرسل تھیں اور جدید خط سے انہیں مسند بنایا ہوا تھا اور اس میں اضافہ بھی تھا۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے صاحب مناکیر وغرائب کہا ہے اور میزان الاعتدال کے علاوہ المغنی (258/2) اور دیوان الضعفاء (ص: 345) میں اس کا ذکر کیا ہے بلکہ المغنی میں امام یحییٰ ، نسائی اور ابوحاتم رحمہم اللہ کی جرح نقل کرکے کہا ہے:[font="al_mushaf"] «وقال غیرہ لیس بحجۃ» [/font]اور دیوان میں امام ابو حاتم رحمہ اللہ کی جرح ذکر کی ہے۔
    امام حاکم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یعقوب پر کسی دلیل کی بنا پر کلام نہیں، مگر علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے وہاں پر تعاقب کرکے لکھا ہے: [font="al_mushaf"]«ضعفہ غیر واحد»[/font] ایک اور مقام پر امام حاکم رحمہ اللہ نے س کی بیان کردہ روایت کو صحیح الاسناد کہا مگر علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے وہاں بھی تعاقب کیا کہ [font="al_mushaf"]«یعقوب ضعیف»[/font] (تلخیص المستدرک: 196/3)
    امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: [font="al_mushaf"]«لم نر الا خیرا ہو فی الاصل صدوق»[/font] مگر امام صاحب کی تاریخ الاوسط کے راوی امام ابو محمد عبداللہ بن احمد الخفاف رحمہ اللہ یہ قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : [font="al_mushaf"]«قال محمد بن یحییٰ لیس بصدوق فی الاصل»[/font] کہ محمد بن یحییٰ الذہلی رحمہ اللہ نے کہا ہے: وہ دراصل صدوق نہیں ہے۔ (التاریخ الاوسط بروایۃ الخفاف: 263/2، تاریخ الاوسط کی ایک دوسری روایت کے حاشیہ رقم: 1667 میں بھی یہ الفاظ مذکور ہیں۔ مزید دیکھیے: التذییل علی کتاب تہذیب التہذیب، ص: 477)
    بلاشبہ مسلمہ بن قاسم، مصعب الزبیری، حاکم ، ابن حبان رحمہم اللہ نے اسے ثقہ اور ابن عدی نے لا باس بہ کہا ہے(تہذیب: 384،383/11، میزان: 450/4، الثقات لابن حبان: 285/9 وغیرہ)
    مگر کبار اور جمہور ائمہ جرح وتعدیل نے اس کی تضعیف کی ہے حتی کہ امام یحییٰ رحمہ اللہ اور نسائی رحمہ اللہ کی اس پر شدید ترین جرح ہے بلکہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کا اس کے اصول پر تبصرہ اس پر مستزاد ہے۔ ان کی سند کے بارے میں اسی سے ملتی جلتی رائے امام ابن عدی رحمہ اللہ کی بھی ہے کہ اس میں بہت سی غرائب، عزیز روایات ہیں اور اس میں تبدیلی بھی پائی جاتی ہے، اس لیے یعقوب بن حمید کی یہ روایت، جس میں وہ منفرد ہے اس قابل نہیں کہ اس سے استدلال کیا جائے، امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح پر علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے تعاقب سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے ۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی ان روایات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ فرماتے ہیں :[font="al_mushaf"]«ذکر ذلک غیر واحد من المفسرین واللہ اعلم بصحۃ ذلک»[/font] (البدایۃ: 214/8)
    کہ یہ قصہ تو بہت سے مفسرین نے ذکر کیا ہے مگر اللہ تعالیٰ ہی کو اس کی صحت کا علم ہے۔
    ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ تہذیب میں امام ابو احمد الحاکم رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ یعقوب بن حمید صحیح بخاری کا راوی ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ابواسحاق الحمال رحمہ اللہ اور ابن مندہ رحمہ اللہ نے بھی یہی کہا ہے، اس لیے وہ ضعیف کیونکر ہوسکتا ہے؟ مگر صحیح یہ ہے کہ ابن حمید صحیح بخاری کا قطعاً راوی نہیں، خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (301/5، 308/7، حدیث: 3988،2697) میں اس پر تفصیلاً بحث کی ہے کہ صحیح بخاری کا راوی یا تو یعقوب بن محمد الزہری ہے یا یعقوب بن ابراہیم الدورقی ہے اور یہی دوسرا قول زیادہ راجح ہے اور امام البرقانی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے ابن حمید شرط بخاری پر نہیں ہے، اس لیے ابن حمید کی توثیق کا یہ سہارا بھی درست نہیں ہے، پھر اگر اس موضوع کی مجموعہ روایات کے تناظر میں یہ تسلیم بھی کیا جائے کہ اس کا شان ِ نزول ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ تھے تو انہیں روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولید رضی اللہ عنہ جب گئے اور بنو المصطلق کے افراد نے ان کا استقبال کیا، انہوں نے غلط فہمی میں یہ سمجھا کہ وہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں، اسی پر وہ بھاگ نکلے اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کی شکایت کردی بلکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ [font="al_mushaf"]«فحدثہ الشیطان أنہم یریدون قتلہ»[/font] کہ شیطان نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ انہیں قتل کرنا چاہتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے: [font="al_mushaf"]«فخرجوا یتلقونہ فظن أنہم إنما خرجوا لقتالہ فرجع» [/font](البدایۃ: 214/8)
    وہ ولید رضی اللہ عنہ کے استقبال کےلیے نکلے تو انہوں نے خیال کیا کہ وہ ان کے قتل کےلیے آرہے ہیں، یوں وہ واپس پلٹ آئے۔
    اس لیے حضرت ولید رضی اللہ عنہ سے جو ہوا غلط فہمی میں ہوا، لہٰذا اس بنا پر ان کے فاسق ہوجانے اور ان کی عدالت کے ختم ہوجانے کا حکم لگانا سراسر تحکم اور سینہ زوری ہے۔
    اگر ولید رضی اللہ عنہ واقعتاً ایسے ہوتے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ قضاعہ قبیلے کے صدقات وصول کرنے پر مامور نہ کرتے اور جہادی محاذ پر بھی ان پر اعتماد نہ کرتے۔ اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے مردم شناس انہیں بنو تغلب سے صدقات وصول کرنے کےلیے مقرر نہ کرتے جیسا کہ علامہ طبری رحمہ اللہ اور علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔
    علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اپنے روایتی اسلوب میں ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بہت کچھ نقل کیا ہے اور وہی اس حوالے سے علامہ ابن الوزیر کا بڑا ماخذ ہے، علامہ المزی رحمہ اللہ نے بھی تہذیب الکمال میں علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ سے بہت کچھ نقل کردیا مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: [font="al_mushaf"]«قد طول الشيخ ترجمته ولا طائل فيها من كتاب بن عبد البر وفيها خطأ وشناعة والرجل فقد نبئت صحبته وله ذنوب أمرها إلى الله تعالى والصواب للسكوت والله تعالى أعلم»[/font] (تہذیب: 144/11)
    اور شیخ المزی رحمہ اللہ نے ولید رضی اللہ عنہ کا طویل ترجمہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس میں خطا اور شناعت ہے اور ولید رضی اللہ عنہ کا صحابی ہونا ثابت ہے ان سے گناہ سرزد ہوئے جن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے ، درست یہی ہے ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے۔
    یہی بات علامہ سخاوی رحمہ اللہ کے حوالے سے ہم پہلے نقل کرآئے ہیں، بلاشبہ تمام انسانوں کے معاملات اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کے سپرد ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ﴿وَكُلّاً وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى ﴾[الحديد : 10] فرمایا ہے اور اللہ کا وعدہ بہرحال سچا ہے۔
    [/FONT]
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں