نورِ بصارت

ساجد تاج نے 'مثالی معاشرہ' میں ‏مئی 11, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    نورِ بصارت​



    شبوبی بچپن سے ہی سارے بچوں میں زیادہ معتبر اور صدّیقہ مانی جاتی تھیں۔ بیچاری سینکڑوں بار پٹیں ، ہزاروں بار ڈانٹیں کھائیں، بہتیروں کی دشمنی مولی لی اور دسیوں مرتبہ نقصان میں رہیں، مگر اپنی سچ بولنے کی عادت انہوں نے نہ چھوڑی۔ہم حیران ہوتے تھے کہ لوبھئی سچائی نہ ہوئی جان کی دشمن ہوگئی کہ سچ بولو خواہ بڑے سے بڑا نقصان ہوجائے اس کی پرواہ نہ کرو۔عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی سچائی کاقصہ دادی اماں کی زبانی ہزاروں مرتبہ سن رکھاتھا ، سچی بات ہے تھوڑی دیر کے لئے توہم عہد کرتے تھے کہ سچ بولیں گے خواہ کوئی ہماری جان ہی لے لے۔ مگر صاحب جان تو بڑی چیز ہے ہم تو ایک لڈو ، دوٹافیوں اور چند سکوّں پر ہی ایمان اُڑا جایا کرتے تھے۔غرضیکہ اپنی سمجھ سے بالاتر تھی شبو بی کی پالیسی۔اور شبو بی ایسے لوہے کی چٹان کہ کسی چیز کا ان پر اثر نہیں ہوتاتھا۔ لگتا ہے پل بھر میں وہ معصوم اور حسین زمانہ گزر گیا جوجون جولائی کی دوپہروں کی طرح بڑا طویل لگتا تھا۔ جس کے گزرنے اور بڑے ہونے کی دعائیں مانگ مانگ کر اس وقت ہم تھکتے نہ تھے۔بڑے ہونے کا ارمان صرف اس وجہ سے تھا کہ خوب اچھے اچھے کپڑے پہن کر خوب بنا سنورا کریں گے اور وہ ساری چیزیں جو امی تالوں میں مقفل رکھتی تھیں خوب آرام سے کھایا کریں گے۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہوگا۔یقین جانیئے عبدالحنان اور عبدالخالق کی مٹھائی کے وہ ڈبے جو ’’نعمت خانے‘‘ میں تالے کے پیچھے چھپے جالیوں میں سے ہمیں مسکراتے ہوئے تاکاکرتے تھے ،ان کو تالہ کھول کر نکالنے کے کیسے کیسے پلان ہم بنایا کرتے تھے؟۔ اور اس سارے مرحلے میں شبوبی ہمارے ساتھ ہوتیںمگر جیسے ہی اس سے پوچھا جاتا مٹھائی کہاں گئی اور گاجر کا حلوہ کس نے کھایا، وہ پٹ سے پوری تفصیل بتا دیاکرتیں اور ہم دانت کچکچا کررہ جاتے۔خود کو توپٹنے کاشوق ہے، ہمیں بھی مارکھلواتی ہیں۔ حالانکہ جھوٹا بیان مع قسموں کے دے کر ہم معصوم ثابت ہوسکتے تھے۔چنانچہ پھر ہماری کوشش یہ ہوتی کہ ان کو ہمارے پلان کی ہوا نہ لگے۔مگر تھیں بھی بہت ہمدرد۔ہماری رال بھی ان سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ویسے ہمیں بھی ان پر بہت اعتماد تھا۔

    پھر جب سے شبو بی نے چشمہ لگایا تھا ان کااحترام زیادہ ہی بڑھ گیا تھاایک تو سیدھی اور سچی، اوپر سے بڑے بڑے گلاسس کاچشمہ۔اس چشمے نے پورے گھر کی کایا پلٹ دی تھی۔جہاں ان کے چشمے کاہم سب بچوں پر رعب پڑا تھا وہاں پورا گھر بھی تبدیل ہورہاتھا۔ اور بقول دادی اماں نگوڑے مارے چشمے نے جینا عذاب کردیاہے۔کیونکہ شبوبی کوہرچیز اس قدر صاف نظر آنے لگی تھی کہ وہ حیران ہوتی تھیں کہ ہائے اللہ اتنی گندگی میں ہم لوگ رہتے تھے؟۔ نہ صرف گھر کی ہی گندگی انہیں نظر آتی تھی بلکہ سب کے چہروں کے مسّے ، مہاسے،تل اور چھائیاں بھی ہر وقت انہیں بے چین کئے رہتے تھے۔ ہائے اللہ تائی اماں آپ کے دانت بہت کالے ہوگئے ہیں، پلیز خوب منجن رگڑا کریں۔ اور امی جان آپ کوتو اپنے چہرے کی پرواہ ہی نہیں۔ بالائی اور لیموں سے کیوں نہیں دھوتی ہیں۔ میں نے رسالے میں پڑھا ہے اس سے چہرہ بہت صاف ہوجاتا ہے اور بھائی جان آپ کی آنکھوں کے نیچے کیسی لکیریں ہوگئی ہیں؟۔ پہلے تو نظر نہیں آتی تھیں۔ وہ بڑے بھولپن سے کہتیں اور امی جان کادل جل کررہ جاتا۔اے بی تم چشمہ اتار کررکھو مواچشمہ نہ ہوگیا حوالدار ہوگیا۔ ہر ایک پرگرفت ہے۔ اُف فوہ امی جان سارے فرنیچر پر کتنی گرد چڑھی ہوئی ہے کوئی صاف نہیں کرتا سوائے میرے۔ ویسے بھی اس زمانے میں فرنیچر کیاتھا ہمارے گھر میں نہایت بھدے ڈبو قسم کاصوفہ، بیچ میں گول میز، دیوار میں بنی الماریوں میں گلدان اور کتابوں کے ساتھ بیچ میں دبی دادا ابا اور پردادا مرحوم کی فوجی وردی میں تصویریں جنہیں ہم بچپن میں دیکھ کر ڈر جایا کرتے تھے۔کیونکہ ان کے لحیم و شحیم قدوقامت بڑی بڑی مونچھیں نجانے ہم چھوئی موئی جیسے لوگوں کو کیوں خوف زدہ کردیاکرتی تھیں۔ خیر یہ بھی شبو بی کے چونچلے تھے جوہر وقت گول کمرے کی صفائی میں مصروف رہتی تھیں کیونکہ چشمہ لگنے کے بعد سے انہیں اس کمرے میں خاص طور پر گرد نظر آیاکرتی تھی۔ دوسرے کمروں میں فرق کرنا مشکل تھا کہ گرد کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوئی کیونکہ بستر ہر وقت جھڑتے رہتے تھے اور ہم سب پر ہرو قت پھٹکار پڑتی رہتی تھی کہ گندے پیر اور مٹی لے کر گھر نہ آیاکرو۔بستروں پر نہ کودا کرو۔بستروں پر کیوں چڑھ کربیٹھے ہو وغیرہ وغیرہ۔غرضیکہ گھر میں ایک کشمکش شروع ہوگئی تھی ویسے بھی شبو بی گھر کی بڑی لڑکی تھیں، ذمہ داریاں بھی زیادہ تر ان پر ہی تھیں اور وہ غریب ذمہ داریوں سے زیادہ خود کو ذمہ داریوں کااہل ثابت کئے ہوئی تھیں۔دادی اماں کی چوکی اور بستر بھی اجلارہاکرے، کتھے چونے کے داغ دھبے ادھر ادھر نظر نہ آیاکریں۔کیونکہ چشمہ لگنے کے بعد سے وہ انہیں بہت واضح نظر آنے لگے تھے۔

    اور ہم سب شبوبی کی ذمہ داریوں اور غموں سے بے نیاز موجیں اڑاتے تھے کیونکہ ہمارے نزدیک اپنے فائدے عیش و تفریح سے بڑھ کر دوسری کوئی چیز اہمیت نہ رکھتی تھیں۔ بچپن میں کھانے اور کھیلنے،اور جوانی میں بننے سنورنے کے علاوہ کسی بات سے دلچسپی نہ تھی۔ہمیں کیاپرواہ تھی اگر بھابھی جان کی جھریاں سارے چہرے کو ڈھانپ لیں یاتائی اماں کے دانت ہی نہیں سارامنہ ہی کالا ہوجائے یا دادی اماں کابستر اور چوکی ہی نہیں ان کے کپڑے بھی گندے ہوجائیں۔ ہاں امی جان کے چہرے کی ذرا فکر کرتے تھے کیونکہ اپنی سہیلیوں کے سامنے اپنی امی کو اسمارٹ اور خوبصورت دیکھنا چاہتے تھے باقی سب خیرتھی۔

    خیر جناب وہ دن بھی پر لگا کر گزر گئے۔دادی اماں اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ان کاکمرہ تائی اماں نے سنبھال لیا۔تائی اماں کی جگہ امی جان نے اور امی جان کی جگہ بھابھی جان نے۔ اور شبو بی ہمارے گھر کے دھندوں سے آزا د ہوکر اپنے سسرال کے دھندوں میں ایسے گرفتار ہوئیں کہ غریب برسوں میکے نہ آئیں۔سسرال بھی ان کابقول تائی اماں کے کالے کوسوں تھا۔کراچی سے لاہور اور بے چاری پر پورے خاندان کی ذمہ داری۔ اس پر ہرسال نئے مہمان کی آمد۔ وہ غریب کہاں اس لائق تھیں کہ ہرسال میکے آیاکریں۔غرض امی جان اپنی ممتا سے مجبور ہوکر دودفعہ ان سے مل آئیں تھیںاور ہم سب تڑپ تڑپ کر ہی رہ جاتے۔ ہائے کتنا ارمان تھا،دولہے بھائی سے اپنی خاطریں کرانے کا ،شبو بی کے کمرے میں گھس کر ان کی ساری میک اپ کی چیزوں اور زیورات پہننے کا ،سوائے اللہ کے کوئی نہ جانتا تھا۔ اورپھر جب عامر کی شادی پر شبو بی کے آنے کا ہم نے سنا تو لگتا تھا کہ شادی کی خوشی دوبالا ہوگئی ہے کیونکہ اس سے پہلے نویدہ اور فرزانہ کی شادی پر وہ شریک نہ ہوسکی تھیں۔

    ہم سب بہن بھائیوں اور بزرگوں کی خوشی قابل دید تھی جب شبوبی گھر آکر اتریں تائی اماں نے اتنی بلائیں لیں کہ ہمیں ڈر لگا کہ کہیں ان کی انگلیاں نہ ٹوٹ جائیں۔امی جان کے آنسو ہی نہ تھمتے تھے او ربھابی جان نے اپنی ناک رگڑ رگڑ کر لال کر دی تھی مگر اللہ غارت کرے ہمارے دل کو نجانے کیوں اندر سے بجھ گیا تھا رات کو بستر پر لیٹ کر بہت غور کیاتو پتہ چلا کہ شبوبی کے حلیے نے ہمیں مغموم کردیا ہے ہمارے ذہن میں تو وہ فریدہ کی بہن سائرہ کی طرح جھلملایا کرتی تھیں۔خوبصورت فرنیچ کی ساڑھی میں ملبوس لمبے بالوں کا ڈھیلا ساجوڑا لمبے لمبے نیل پالش سے آراستہ ناخن اورگوری گوری بانہوں میں دو دو سونے کی چوڑیاں اور چاروں انگلیوں میں نازک سی انگوٹھیاں۔مگر یہ۔ یہ کیالگ رہی تھیں بڑا سا کاٹن کادوپٹہ ڈھیلے ڈھالے سادہ سے کپڑے مسکراتا ہواچہرہ۔ چہرہ تو ویسے بھی پیاراہے مگر اتنی سپاٹ کیوں ہو گئی ہیں ؟۔پہلے تو ایسی نہیں تھیں؟ کتنا بناسنورا کرتی تھیں ؟ہروقت اپنے حسن کی فکر رہاکرتی تھی۔ ہائے اللہ کتنی اسمارٹ لگا کرتی تھیں ان دنوں! دولہا بھائی بھی کتنے ہینڈسم اور مشہور ڈاکٹر ہیں مگر انہیں کیاہوگیا ہے۔ بالکل ہی پینڈو لگ رہی ہیں۔ اونہہ ہم نے خیالات کو جھٹکا دیا۔ کیاپتہ سفر کے کپڑے ہوں ویسے بھی ہوائی جہاز سے آئی ہیں اور رات بھی ہوگئی تھی اس وجہ سے تبدیل نہیں کئے۔ مگر پھرتو دوسرا دن اور تیسرا دن اور جناب پوراشادی کامرحلہ۔ شبوبی کاوجود تو ان کاماضی کاچشمہ ہوگیا تھا۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگاکہ چشمے سے بدتر ہوگیا تھا اس وقت ان کے چشمے نے تو گھر کے گرد کوڑے کرکٹ ااور چہروں کے نشان و نقائص ہی دکھائے اب تو ان کی ذات پورے خاندان کو ادھیڑے ڈال رہی تھی۔

    شادی کی وہ کونسی تقریب تھی جو شبوبی کو غمزدہ نہ کئے ہوئے تھی۔ وہ کونسی رسم تھی جس پر ان کے آنسو نہ بہہ رہے تھے او رلوگوں کی وہ کونسی ادا تھی جو انہیں نہ مارمار ڈال رہی تھی۔ امی جان یہ سب غلط اور بیہودہ رسمیں اور طریقے ہیں یہ ہمیں نہیں کرناچاہئیں۔اب آپ یہ دیکھیئے جوان لڑکیاں طرح طرح سے بن سنور کر مراثیوں کی طرح ناچ گارہی ہیں اورافسوس کا مقام ہے کہ یہ بزرگ خواتین بیٹھی داد دے رہی ہیں۔ اُف اللہ سارے مرد اور جوان لڑکے بھی کھڑے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ مہندی کے وقت جب پارٹی اپنے عروج پر تھی اور فریقین ڈٹے ہوئے تھے کہ مقابلہ ہم جیت کررہیں گے۔شبو بی نے زار زار روتے ہوئے امی جان کو کھینچتے ہوئے کمرے میں لے جاکر کہا، خدارا مجھے بتائیے کہ یہ کیالغویات ہیں ؟یہ کسی مسلمان کاگھرہے؟اور امی جان منہ کھولے انہیں تکنے لگیں۔ اے بی لو میں کوئی نرالا کام کررہی ہوں جوتم نے خوشی کے موقع پر رونا دھونا شروع کردیاہے۔ لو اور سنو اب ہم کیاکافروں کے سے کام کرنے لگے ہیں؟۔ تمہیں ہمارا گھر ہی مسلمان کاگھر نہیں لگ رہا ہے۔ بیٹی یہ تو آج کل کی رسمیں ہیں انہوں نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے نرمی سے کہا۔اور پھر اگلے تین چار دن میں سارا خاندان حیران اور نالاں تھا شبو بی سے۔ ’’اے بی لو!بولی ہوگئی ہیں بنّو۔ لگتا ہے کہ انسانوں میں نہیں رہتی تھیں‘‘۔ تائی امی نے پھپھو جان کے کان میںسرگوشی کی۔اے او رکیامولویوں کے خاندان میں بھابی نے شادی کی تھی یہ تو بننا ہی تھا۔ پھوپھی جان کی آرزو تھی کہ عارف بھائی کو شبو بی ہوتیں۔ممانی جان مجھے تو لگتا ہے یہ بھی کوئی مولوی بن گئی ہیں پھر پھوپھی جان نے پھپھولے پھوڑے۔ اے ہائے کیسی نیک بچی تھی کیاجوانی خراب کی ہے۔ تائی امی نے آہ بھری۔اور امی جان تو فکروں میں غرق ہوگئیں۔ واقعی کوئی اثر وثر ہوگیا ہے اس پر ،ابھی دوسال پہلے تک جب لاہور گئی تھی ایسی تو نہ تھی۔اب تو دوپٹہ اس کے سر سے کھسکتا ہی نہیں ہے۔بھابی جان آپ نے دیکھا ہے میک اپ۔ میک اپ تو بڑی چیز موئی سرخی بھی نہیں لگاتی ہے اورپھر اس خاک پڑے پردے نے وہ جان آفت میں کی ہے کہ اب پورا خاندان اس کے لئے نامحرم ہوکررہ گیا ہے۔ اے بی ہمارا گھر سب کے لئے کھلارہا ہے۔ سارے بھتیجے بھانجے محبت سے آزادی سے آتے جاتے رہے ہیں۔ کبھی کسی نے نہیں ٹوکا ہم بھی دین پڑھے ہوئے او ر سمجھے ہوئے ہیں ساری عمر نمازیں اور قرآن پڑھنے میں گزاری ہے۔ اب یہ مفتن آئی ہے فتوی دینے کے لئے۔ تائی اماں کوغصہ آگیا۔اور تواور باپ اور تایا سے بھی کھنچی کھنچی ہیں۔ ’’بھئی انہیںمکہ مدینہ بھجوا دو‘‘۔عارف بھائی بھونڈے قسم کے مذاق کے شوقین تھے۔

    ہم ان باتوں پر جو ہروقت ہمارے کانوں میں پڑتی رہتی تھیں کبھی تو ہنس پڑتے اور کبھی بے حد غصہ آجاتا۔شبوبی پر بھی اور سب رشتے داروں پر بھی مگر یہ سب کیا ہے ، یہ سب کیاہورہا ہے یہ کیاتبدیلی آئی ہے شبو بی میں۔اور اس تبدیلی سے لوگ اتنے متنفر کیوں ہیں۔ کیونکہ بظاہر تو کوئی بات وہ ایسی نہیں کرتی ہیں جو کسی کو بری لگے۔ حالانکہ دوسرے لوگ کیسی کیسی باتیں انہیں کہتے ہیں اگر وہ سنیں تو انہیں کتنا دکھ ہو۔وہ میری بہن ہیں آخر انہوں نے کسی کاکیابگاڑا ہے۔ صرف چند باتیں کرنے سے ہی روکا ہے کہ یہ غلط ہیں بس اتنی سے بات پر سب ان سے بیزار ہوگئے ہیں۔ نہیں نہیں شبوبی میں آپ کو تنہا نہیں چھوڑونگی۔میں آپ کاساتھ دوں گی۔ بستر پر لیٹنا میرے لئے دوبھر ہوگیا تھا۔کروٹیں بدلتے ہوئے میں تھک گئی تھی۔ اچانک فیصلہ کن انداز سے میں بستر پر سے اٹھی اوررات کے سناٹے میں جبکہ پورا گھر گہری نیند میں ڈوباہواتھا میں آہستگی سے اپنے کمرے سے نکل کر شبو بی کے کمرے کے پاس پہنچی،اندر ہلکی سی لائٹ جل رہی تھی کھڑکی کھلی ہوئی تھی اور اندر سے کسی کی سسکیوں اور دبے دبے رونے کی آواز آرہی تھی۔میں کھڑکی سے چپک گئی۔ شبو بی روتے ہوئے گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہی تھیں میں گناہگار و سیاہ کار ہوں۔ آپ بڑے مہربان اور غفور الرحیم ہیں میرے گناہ بخش دیجئے۔ مالک میرے والدین بہن بھائیوں اور رشتے داروں پررحم کیجئے۔یہ نادان بے خبر اور خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ آپ اپنے لطف و کرم سے ان کو ہوشیار کردیجئے۔ان کے سینے کھول دیجئے ، انہیں اپنے دین کی صحیح سمجھ عطاکر دیجئے،انہیں فہم قرآن سے نواز دیجئے،مالک ان کے اعمال اور حرکتوں پر میں آپ کے غضب ، عذاب اور غصے سے ڈرتی ہوں آقا ان پر رحم کیجئے ان کے گناہ معاف کردیجئے۔آہ و زاری سے ان کی ہچکی بندھ گئی اور میرا پورا چہرہ آنسوؤں سے تر ہوگیا۔شبوبی شبوبی میں آپ کے ساتھ ہوں آپ کیاچاہتی ہیں آپ نے ہمیشہ سچ ہی بولا ہے۔ مجھے بتائیں آپ کو کیاہوگیا ہے ؟۔اور شبوبی گھبرائی ہوئی بوکھلائی بڑی حیرت سے اور محبت سے مجھے دیکھ رہی تھیں نشو!نشاط میری بہن تم واقعی سچ کہہ رہی ہو میراساتھ دوگی؟ میری بہن مجھے کچھ نہیں ہوا ہے بس مجھ پر میرا مالک کامیرے آقا کا کرم ہوگیاہے۔اس نے مجھے سیدھے راستے کی سمجھ عطا کر دی ہے اس نے مجھے وہ ’’برہان‘‘ اور ’’کسوٹی‘‘ عطا کردی ہے جس میں کھرے کھوٹے کو پرکھ سکتی ہوں انہوں نے آہستگی سے کہا’’کیاہے وہ کسوٹی، کیاہے وہ برہان؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔قرآن۔ قرآن عظیم ، اللہ رب العالمین کا نازل کردہ فرمان۔ بھٹکے ہوؤں کاراہبر۔ تڑپتی ہوئی انسانیت کامرہم ،ظلم و جبر اور تاریکیوں میں پسے ہوئے لوگوں کی نجات کاپیغام ’’قرآن عظیم‘‘۔ میری بہن وہ بڑی وارفتگی سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔شبوبی میرے بھی اندھیرے دور کیجئے۔قرآن کے ذریعے مجھے بھی راستہ دکھائیے۔میں ان سے لپٹی ہوئی کہہ رہی تھی۔اور صبح مسکراتی ہوئی رات کی ظلمتوں کوکاٹ رہی تھی۔

    شہناز احمد (آٹووا)
     
  2. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    شیرنگ کا شکریہ
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں