قتلِ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ

ابوعکاشہ نے 'تاریخ اسلام / اسلامی واقعات' میں ‏اگست 15, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,950
    قتلِ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ
    تحریر/محمود احمد عباسی
    مودودی صاحب نے بڑی تحدی سے علی رضی اللہ عنہ کو حق پر اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو باطل پر قرار دیا ہے اور یہ وہ موقف ہے جو آج تک کسی ایسے شخص نے اختیار نہ کیا جو دین کا علم رکھتا ہو اور سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جماعت صحابہ سے اپنے کو وابستہ سمجھتا ہو
    مودودی صاحب فرماتے ہیں۔ (جولائی ص 324۔ 325)
    "اس جنگ کے دوران میں ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس نے نص صریح سے یہ بات کھول دی کہ فریقین میں سے حق پر کون ہے اورباطل پر کون وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمار بن یاسر جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں شامل تھے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ حضرت عمار کے متعلق نبیﷺ کا یہ ارشاد صحابہ میں مشہور و معروف تھا اور بہت سے صحابیوں نے اس کو حضورﷺ کی زبان مبارک سے سنا تھا کہ
    ''رقتلک الفئة البازیة (تم کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا)''

    مسند احمد بخاری ، مسلم ، ترمذی، نسائی، طبرانی بیہقی، مسند ابوداؤد طیالسی وغیرہ کتب حدیث میں حضرات ابو سعید خدری، ابوقتادہ، انصاری، ام سلمہ، عبدالله بن مسعود، عبدالله بن عمرو بن العاص، ابوہریرہ، عثمان بن عفان، حذیفہ، ابو ایوب انصاری، ابورافع خزیمہ بن ثابت، عمرو بن العاص، ابوالیسر، عمار بن یاسر رضی الله عنہم اور معتدد دوسرے صحابہ سے اس مضمون کی روایات نقل کی ہے۔ ابن سعد نے بھی بھی یہ حدیث کئي سندوں سے منقول ہے -
    متعدد صحابہ و تابعین نے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جنگ میں مذبذب تھے۔ حضرت عمار کی شہادت کو یہ معلوم کرنے کے لئے ایک علامت قرار دے دیا تھا کہ فریقین میں سے حق پر کون ہے اور باطل پر کون علامہ ابن عبدالبر الاسیتعاب میں لکھتے ہیں کہ ''نبیﷺ سے بتواتر آثاریہ بات منقول ہے کہ عمار بن یاسر کو باغی گروہ قتل کرے گااور یہ صحیح ترین احادیث میں ہیں یہی بات حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں لکھی ہے دوسری جگہ حافظ ابن حجر کہتے ہیں قتل عمار کے بعد یہ بات ظاہر ہوگئی کہ حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اوراہل السنتہ اس بات پر متفق ہوگئے درانحالیکہ پہلے اس میں اختلاف تھا۔"


    یہ طویل بیان محض یہ بات ثابت کرنے کے لئے دیاگیا ہے کہ صفین میں حضرت علی کی طرف سے عمار کا قتل ہونا بتایا جاتا ہے اس لئے حضرت معاویہ باغی قرار پائے ظاہر ہے کہ نص قرآنی کے مطابق باغی گروہ سے قتال واجب ہے حتیٰ تفئی الیٰ امر الله (یہاں تک کہ وہ الله کے حکم کے سامنے جھک جائے) مودودی صاحب نے قتل عمار کو حق و باطل کا معیار تو قرار دیدیا اور حدیث کو نص صریح بھی بتادیا
    لیکن وہ اس کی کیا توجیہ کریں گے کہ۔

    1)۔ حضرت عمار کے قتل کے بعد حضرت علی نے اپنا موقف بدل دیا اور جنگ سے ہاتھ روک لیا حالانکہ باغی گروہ سے جنگ کی ابتدا انہوں نے کی تھی۔ ایک روایت بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی جس سے ادنیٰ ثبوت اس کا دیا جاسکے کہ جنگ کے لئے حضرت معاویہ کی طرف سے کوئی پیش قدمی ہوئی تھی۔
    حسب فرمان خداوندی حضرت علی کا فرض تھا کہ بہر طور جنگ جاری رکھتے اور تمام صحابہ کا یہ فرض تھا کہ وہ اس بارے میں حضرت علی کا ساتھ دیتے۔
    2)۔صحابہ کرام کے جو مواقف حضرت عمار کے قتل سےپہلے تھے ان میں جو غیر جانبدار تھے مثلاً حضرت سعد اور حضرت ابن عمر وغیرہما وہ اپنی غیر جانبداری پر قائم رہے۔ جو حضرات حضرت علی کے مخالف تھے جیسے حضرت عقیل بن ابی طالب، حضرت عمرو بن العاص وغیرہما وہ بدستور حضرت معاویہ کے ساتھ رہے۔
    3) جو حضرات حضرت علی کے ساتھ تھے انہوں نے جنگ سے ہاتھ روک لیا علاوہ ازیں یہ نص صریح۔ اور حق و باطل۔ کی بات کرنے والے اس کی کیا توجیہ کریں گے کہ:۔
    (الف) حضرت ابوایوب انصاری جنگ جمل تک حضرت علی کے ساتھ تھے لیکن صفین میں شریک نہیں ہوئے اور مدینہ جابیٹھے (الاصابہ بذیل عنوان خالد زید)

    (ب) اور حضرت جریر بن عبدالله جنگ جمل کے بعد تک حضرت علی کے ساتھ تھے پھر آپ کو حضرت معاویہ کے پاس بیعت لینے کے لئے شام بھیجا گیا وہاں کے احوال دیکھنے کے لئے انہیں حضرت معاویہ نے روک لیا۔ یہاں اشتر نے ان کے خلاف محاذ بنالیا کہ معاویہ سے مل گئے آپ نے آکر وہاں کے احوال بیان کئے اور یہ بھی سنا کہ آپ کے متعلق کیا کیا باتیں کہی گئیں۔ لہذا آپ بد دل ہوکر مدینہ چلےگئے اور پھر وہاں سے شام آپ صورت حال اچھی طرح سمجھ گئے تھے اور امت کی نجات حضرت معاویہ کا ساتھ دینے میں سمجھ لی۔
    (ج) حضرت قیس بن سعدانصاری کو حضرت علی نے مصر کا والی بنایا اور آپ نے وہاں کا نظم و نسق خوبی کے ساتھ سنبھال لیا حضرت معاویہ بن خدیج وغیرہ اکابر کی قیادت میں وہاں بھی ایک بڑی جماعت جن کی تعداد دس ہزار بتائی جاتی ہے بیعت علی سے منحرف تھی اور ان کا موقف تھا کہ اگر اس خلافت پر اجماع امت ہوگیا تو ہم بھی بیعت کرلیں گے ورنہ نہیں حضرت قیس نے ان سے فرمادیا کہ اگر آپ امن سے رہیں تو ہمیں آپ سے کوئی شکایت نہ ہوگی اور آپ سب کے حقوق وہی ہوں گے جو اور مسلمانوں کے ہیں۔ اس طرح وہاں کی فضا پر امن تھی۔ مگر یہاں ان کے خلاف بھی محاذ بنالیا گیا کہ معاویہ سے مل گئے ہیں جو بیعت نہ کرنے والوں سے جنگ نہیں کرتے حضرت قیس نے باربار لکھا کہ میرا عمل تعمیری ہے صحیح سیاست پر منبی اس طرز عمل کو بدلنا نہیں چاہیے مگر اشتر وغیرہ نہ مانے اور انہیں معزولی کا حکم بھیجدیاگیا اور ان کی جگہ محمدبن ابی بکر والی بنائے گئے جنہوں نے جا کے جنگ چھیڑ دی اور پھر ان حضرات نے حضرت معاویہ سے مدد مانگی چناچہ حضرت عمرو بن العاص نے وہاں جا کر حالت پر قابو پایا اور یوں مصر حضرت علی کے ہاتھ سے جاتا رہا حضرت قیس اس صورت حال سے بد دل ہوکر مدینہ جابیٹھے یہ روایات نہیں ہیں تاریخی حقائق ہیں اب سوال ہے یہ کہ کیا ان سب نے الله کا کلام پس پشت ڈال دیا اور اس حدیث کو بھی اہمیت نہیں دی؟


    صحابہ کرام میں سے اس حدیث کو جتنے راویوں کے نام مودودی صاحب نے دئے ہیں ان کے مواقف حسب ذیل ہیں:۔

    1)۔ حضرت عثمان حضرت خذیفہ اور حضرت ابو رافع حضرت ابن مسعود تو اس وقت وفات پاچکے تھے لہذا ان کے مواقف کا کیا ذکر اور حضرت عمار کا تو خود یہ قصہ ہی ہے حضرت خزیمہ بن ثابت بھی حضرت علی کے ساتھ تھے اور مقتول ہوگئے۔
    2)حضرت ابو سعید خذری جن سے صحیح بخاری کی روایت ہے نیز ابوہریرہ اپنی غیر جانب دار پر قائم رہے حضرت ابو قتادہ حضرت علی کے ساتھ تھے اور یہ قطعی ہے کہ ان سب نے حضرت معاویہ سے بعد میں بیعت کر لی، اور سب نے امیر یزیر کی ولایت عہد کی بھی بیعت کی۔
    3)حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص مودودی صاحب کی خیالی باتوں کے باوجود حضرت معاویہ کے ساتھ رہے اور پھربعد میں ان کی طرف سے والی بھی رہے حضرت عمرو بن العاص بدستور حضرت معاویہ کے ساتھ رہے ان کی طرف سے ثالث بنے اور حضرت علی کے خلاف فیصلہ دیا۔
    اب تین ہی صورتیں رہ جاتی ہیں۔ (۱) تمام صحابہ معہ حضرت علی کے خدا ورسول کے احکام سے بےپروا تھے۔ (۲) یہ حدیث غلط ہے اور ایسی کوئی بات آنحضرتﷺ نے نہیں فرمائی۔ (۳) حضرت معاویہ باغی نہیں تھے اور حضرت عمار کے قتل کا وہ مفہوم نہ تھا جو لیا جاتا ہے۔ ان کا جنگ صفین میں شریک ہوکر مقتول ہونا بہت مشتبہ ہے۔

    پہلی بات کسی مومن کے ذہن میں بھی نہیں آسکتی، دوسری بات کوئی علم حدیث رکھنے والا نہیں کہہ سکتا لہذا سوائے تیسری بات کہنے کے کوئی چارہ نہیں رہتا، یعنی یہ کہ حضرت عمار کے قتل کی ذمہ داری حضرت معاویہ پر نہیں بلکہ اسی نابکار گروہ پر ہے جس نے حضرت عثمان کے خلاف ہنگامہ بپا کر کے امت میں اختلاف کا دروازہ کھولا۔
    حضرت عمار کے قتل کی بنیاد تو اسی گروہ نے اسی وقت رکھ دی تھی جب مصر میں انہیں مدینہ کو واپسی سے روک لیا تھا، پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ امیرالمومنین حضرت عثمان نے ایک وفد تمام مملکت اسلامیہ کے بڑے بڑے شہروں میں صورت حال معلوم کرنے کے بھیجا تھا حضرت عمار کے سپرد مصر کے احوال معلوم کرنے تھے۔ وفد کے سب ارکان کا اپنا اپنا دورہ پورا کر کے مستقر کو لوٹ گئے اورگواہی دی کہ کسی جگہ امت میں بے چینی یا والیوں کے خلاف کوئی شکایت نہیں، صرف حضرت عمار لوٹ کر نہ آئے۔ (طبری ج۵ ص ۹۹) نیز ابن خلدون کتاب ثانی ج۴) میں صراحتاً بیان ہے کہ مصر میں حضرت عمار کا میل جول ابن سبا (عبدالله بن السوداء) (خالد بن جلجم و سودانی حمران وکنانہ بن بشر سے ہوگیا تھا، خود وہاں رک گئے تھے، یابقول مورخین طبری و ابن خلدون لوگوں نے انہیں روک لیا تھا۔ حتی کہ یہ گمان ہوا کیا گیا کہ وہ قتل کردیئے گئے

    (استطاء الناس عمار احتی صٰنوانه قد اغتیل ایضًا طبری) یہ بھی کہا گیا ہے کہ عامل مصر حضرت عبدالله بن ابی سرح نے سبائی گروہ سے ان کے میل جول کی اطلاع امیر المومنین کو بھجوادی تھی لیکن کسی نے یہ نہ بتایا کہ حضرت عمار مصر سے مدینہ واپس آئے یا نہیں تو کب اور جس خدمت پر مامور ہو کر بھیجے گئے تھے اس کی انجام دہی کی کیا رپوٹ پیش کی۔

    جنگ جمل میں انہیں موجود بتایا جانا ہے اور مودودی صاحب کا دعویٰ ہے کہ ان ہی کی وجہ سے حضرت زبیر مذبذب ہوگئے تھے۔ لیکن مودودی صاحب نے یہ نہ سوچا کہ حضرت زبیر حضرت ام المومنین کے ساتھ تھے جو تمام اہل ایمان کی ماں ہیں اور حق ادھر ہی تھا جدھر وہ تھیں اور حجت وہی ہے جو ان کا اجتہاد تھا ان کا یہ منصب نص قرآنی سے ثابت ہے چناچہ تمام صحابہ معہ پہلے تینوں خلفاء کے ہر معاملہ میں ان سے مشورہ لیتے اور ان کے ہدایتوں پر عمل کرتے تھے لہذا حضرت عمار، حضرت علی کی طرف ہوتے بھی تو یہ فیصلہ کن بات نہ تھی اور اگر ہوتی تو پھر تذبذب کا کوئی سوال نہ تھا۔ حضرت زبیر ان کی موجودگی کو اپنی غلط روی کے لئے دلیل قاطع سمجھتے۔

    وہاں دراصل صورت یہ تھی کہ فریقین کے درمیان اختلاف مٹ چکا تھا اور باہمی صلح ہوگئی تھی صرف صبح کورسمی کاروائی مکمل ہونے کا انتظار تھا۔ اب جو جنگ چھڑ گئی تو حضرت زبیر کا تذبذب بجا تھا وہ جانتے تھے کہ ان کی طرف سے نہیں چھڑی اور انہیں یہ بھی یقین تھا کہ حضرت علی کی طرف سے بھی نہیں چھڑ سکتی تھی اس لئے وہ اس وقت اندازہ نہ لگا سکے کہ صلح ہوچکنے کے بعد جنگ چھیڑدینے کی ذمہ دار کس پر ہے چناچہ صحیح البخاری میں ان کا اپنا ارشاد موجود ہے
    عن عبدالله بن الزبیر قال لما اوقف الزبیر یوم الجمل دعانی فقمت الیٰ جنبه فقال یا بنّی، نه لایقتل الیوم الاظالم اور مظلوم وانی لارانی الاسا قتل الیوم مظلوماً۔۔۔۔۔۔۔ (ج ۲ ص ۱۹۳ باب برکة الغازی فی ماله طبع مصر)

    عبدالله بن الزبیر سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں جب حضرت زبیر جمل کے دن کھڑے ہوئے مجھے بلایا اور میں انکے پہلو میں جاکھڑا ہوا، آپ نے فرمایا بیٹا آج جو قتل ہوگا وہ یا ظالم ہوگا یا مظلوم اور میں اپنے متعلق دیکھتا ہوں کہ آج مظلوم قتل ہوں گا (آگے ذکر مال کے متعلق وصیت کا ہے۔)
    اس بیان میں نہ حضرت عمار کی موجودگی کا ذکر ہے۔ جنہیں مودودی صاحب نے حضرت ام المومنین کے مقابلے میں حق و باطل کا معیار قرار دے دیا ہے اور نہ اس واہی اور بے اصل اور قطعی وضی روایت کا ذکر ہے جسے مودودی صاحب نے طبقات ابن سعد کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ حضرت علی نے حضرت طلحہ و حضرت زبیر کو بلا کر انہیں وہ بات یاد دلائی جو حضورﷺ نے ان سے فرمائی تھی کہ تم دونوں ناحق علی سے لڑوگے اس لئے یہ دونوں صاحب الگ ہوگئے، حضرت علی اگر ایسی کوئی بات فرماتے تو اس کا موقع وہ تھا جب فریقین پہلی دفعہ ایک دوسرے ملے تھے اسی طرح جنگ کا امکان پہلے ہی ختم ہوجاتااور صلح کی بات چیت کی ضرورت نہ رہتی، سب ان کی بیعت میں داخل ہوجاتے۔
    پھر سوال یہ ہے کہ اگر واقعی حضرت علی نے ایسی کوئی بات کہی تھی تو یہ بزرگوار اکیلے ہی اکیلے کیوں چپکے سے الگ ہوگئے انہیں حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کرنا چاہئے تھا اور اپنے ساتھیوں میں اعلان کرنا چاہیے تھا تا کہ مسلمانوں کی جانیں ضائع نہ ہوتیں کون تھا جو ان کے بیان میں شک کرتا۔
    غرض یہی وہی روایتیں ہیں جن کے ذریعہ عوام کو بے چین اور گمراہ کیا جاتا ہے حضرت ام المومنین وہاں پر امن مقاصد کے لئے تشریف لے گئی تھیں اگر عثمان بن حنیف اپنے بزرگ ساتھیوں کی رائے مان لیتے اور حکیم بن حبلہ وغیرہ سبائیوں کی شر انگیز رائے میں نہ آتے تو بصرہ میں کوئی ہنگامہ نہ ہوتا اوررائے عام حضرت ام المومنین کے حق میں استوار ہوجاتی یعنی سبائیوں کے خلاف وہاں ایک طاقتور جماعت کی تنظیم کر کے ان کا ایک مرکز توڑ دیا جاتا یہی بات حکیم بن جبلہ کو نظر آرہی تھی اس لئے اس نےجنگ چھیڑ دی اور یہی بات تھی جس کی بناء پر فریقین میں مصالحت اوریکجہتی پیدا ہونے کو سبائیوں نے اپنی موت جانا اور انہوں نے مصالحت و یکجہتی کی نوبت نہ آنے دی۔

     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا وبارک فیک ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. نصر اللہ

    نصر اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2011
    پیغامات:
    1,845
    بارک اللہ فیک۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. طاہر اسلام

    طاہر اسلام نوآموز.

    شمولیت:
    ‏جولائی 8, 2012
    پیغامات:
    16
    عباسی صاحب ناصبی تھے .اس میں کوئی شبہ نہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا موقف مبنی بر صواب تھا اور ان کے مخالف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا اجتہاد مبنی بر خطا یا مرجوح تھا.یہ اہل سنت کا اجماعی موقف ہے.افسوس آج ایک ناصبی بدعتی کی لغویات پر داد وتحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں جو حقایق کو مسخ کرنے میں ید طولی رکھتا تھا...

    Sent from my SM-E700F using Tapatalk
     
    • ناپسندیدہ ناپسندیدہ x 1
    • غیر متفق غیر متفق x 1
  5. علی رضوان

    علی رضوان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏دسمبر 28, 2014
    پیغامات:
    18
    جناب طاہر اسلام صاحب، مہربانی فرما کہ اس بات کا جواب دیں کہ کیا یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو مندرجہ بالا حدیث کی رو سے "باغی" سمجھتے تھے؟
    1- )حضرت ابو سعید خذری رضی اللہ عنہ
    2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
    3) حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ (جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ صفین میں شامل تھے پھر بعد میں انہوں نے سیدنا معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی۔
    4) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
    5) حضرت عقیل بن ابو طالب رضی اللہ عنہ

    اسکے علاوہ بھی دیگر کئی حضرات صحابہ ہیں جنکے متعلق یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ اس حدیث سے واقف ہونگے۔ کیا ان سب حضرات کے منہ ایسی کوئی بات نکلی کہ انہوں نے کبھی سیدنا معاویہ رض کو باغی سمجھا یا جانا۔ محمود احمد عباسی صا حب کی بات کو جانے دیں۔ آپ یہاں اپنا نقطہ نظر بیان کریں۔ نیز بعد کے مورخین و علمائے کرام کے "نظریات" بھی بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ جو واقعہ صفین کے بعد آنے والے زمانے میں لوگ اپنی آراء پیش کریں وہ درست بھی ہو۔ ہاں جو حضرات جنگ صفین و جمل میں موجود تھے، انکی زبانی عرض کریں کہ کیا واقعی صحابہ کرام کی اکثریت سیدنا معاویہ رض اور انکے گروہ کو باغی ہی سمجھتے تھے؟؟
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  6. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,950
    ایک دیوبندی محدث حبیب الرحمن الأعظمی صاحب نے بھی محمود عباسی کی لغویات کی حمایت میں ایک رسالہ تحریر کیا. کیا یہ محدث بھی ناصبی ہوں گے. یا کچھ گنجائش نکل سکتی ہے.
    http://www.urdumajlis.net/threads/40610/
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں