عبادت کی اقسام- 10-استعانت اور اسکی پانچ اقسام

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏اکتوبر، 4, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    ودليل الاستعانة قوله تعالى: (إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ) (الفاتحة:5) وفي الحديث (41) " إذا استعنت فاستعن بالله"
    “اور “استعانت” کے عبادت ہونے کی دلیل یہ ارشاد باری تعالی ہے: “(اے اللہ)ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور حدیث شریف میں “استعانت”کے عبادت ہونے کے متعلق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایک واضح دلیل ہے: “(اےعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ!) جب بھی تم مدد طلب کرو تو اللہ تعالی سے طلب کرو۔”


    (41) الاستعانة: کا مطلب ہے مدد طلب کرنا اور اسکی متعدد اقسام ہیں جو درج ذیل ہیں:
    پہلی قسم: الاستعانة بالله: (یعنی اللہ تعالی سے مدد طلب کرنا) اور یہ “استعانت” بندے کا اپنے رب کے حضور انتہا درجے تک عاجز اور منکسر المزاج ہونے، اپنے سارے معاملات کو اس ذات کے سپرد کردینے، اور اس ذات کے کافی و وافی ہونے کے عقیدے کو شامل ہے، اور یہ “استعانت” اللہ جل شانہ کی ذات کے سوا کسی اور کولائق نہیں، جس کی دلیل اللہ جل شانہ کا یہ فرمان ہے:
    (إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ) (الفاتحة:5)
    “کہ (اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔

    نیز اس (استعانت) کے اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ خاص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آیت ہذا میں اللہ تعالی نے عامل (نَعْبُدُ) پر معمول (إِيَّاكَ) کو مقدم کیا ہے اور اسی طرح (نَسْتَعِينُ) عامل پر اس کے معمول (إِيَّاكَ) کو مقدم کیا ہے (جبکہ اصل عبارت یوں تھی (نَعْبُدُ وَ نَسْتَعِينُ) لیکن اختصاص کی بناء پر دنوں جگہوں میں مفعول بہ (إِيَّاكَ) کو مقدم کیا گیا ہے)...اور لغت کا وہ قاعدہ جو قرآن لایا ہے اس کی روسے، اس چیز کو مقدم کرنا، جو کہ اپنے اصل مقام کے اعتبار سے مؤخر تھی یہ حصر اور اختصاص کا فائدہ دیتا ہے، لہذا اس اعتبار سے “استعانت” کی اس قسم کو غیر اللہ (یعنی اللہ کے علاوہ کسی اور مخلوق) کے لئے خاص کرنا یا اس کی طرف “پھیرنا” “شرک اکبر” ہے جو کہ انسان کو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے۔

    دوسری قسم:الاستعانة بالْمَخْلُوْقِ: (یعنی مخلوق سے کسی ایسے معاملے کے سلسلے میں مدد مانگنا جس کو حل کردینے پر وہ (مخلوق) قدرت اور طاقت رکھتی ہو) تو استعانت کی اس قسم کے جائز یا ناجائز ہونے کا انحصار اس چیز پر ہوگا جس کے بارے میں مدد مانگی گئی ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر استعانت کوئی نیکی کا کام سرانجام دینے کی غرض سے کی گئی ہے تو یہ مدد مانگنے والے کے لئے جائز اور مدد دینے والے کے لئے مشروع (باعث اجروثواب) ہوگی، جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
    وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ (المائدة: 2)
    “اور تم نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو۔” ...
    لیکن اگر کسی گناہ کے کام پر کسی سے “استعانت” کی جائے تو یہ مدد مانگنے والے اور مدد دینے والے دونوں پر حرام ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
    (وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ) (سورة المائدة: 2))
    “اور گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کیا کرو۔

    اور اگر یہ استعانت کسی مباح (جائز) کام کے سلسلے میں لی جائے تو یہ دونوں (مدد لینے اور مدد دینے والے) کے لئے جائز ہے، بلکہ بسا اوقات ایسے کام کے بارے میں مدد کرنے والے شخص کو دوسرے پر احسان کے بدلے میں ثواب سے بھی نوازا جاتا ہے، تو اندریں صورت یہ مدد دینے والے کے حق میں مشروع (باعث اجرو ثواب) ہوگی کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے:
    (وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ) (البقرة: 195))
    “اور (دوسروں پر ) احسان کروبے شک اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔”

    تیسری قسم: یعنی مخلوق میں سے کسی زندہ اور ایسے حاضر، شخص سے مدد طلب کی جائے، جو کہ وہ مدد دینے پر نہ قدرت رکھتا ہو نہ اس کا کوئی بس چلتا ہو، تو یہ انتہائی لغو اور بے مقصد کام ہے جس میں کوئی فائدہ نہیں ، جیسے کوئی شخص انتہائی بوجھل چیز اٹھانے میں کسی ضعیف وناتواں اور بوڑھے شخص سے مدد طلب کرے۔

    چوتھی قسم: یعنی مردوں سے مطلق طور پر، اور زندہ لوگوں سے کسی ایسے معاملے کےبارے میں مدد مانگنا، جو وہاں موجودنہ ہو، اور وہ زندہ لوگ براہ راست اس معاملے کو حل کرنے کی سکت بھی نہ رکھتے ہوں، استعانت کی یہ قسم “شرک” ہے، اس لئے کہ یہ صرف ایسے شخص سے متوقع ہوسکتی ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ ان لوگوں کوکائنات میں اپنی مرضی سے معاملات کو چپکےسے الٹ پلٹ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
    پانچویں قسم: ایسے اچھے اعمال واحوال کے ذریعے مدد مانگنا، جو اللہ تعالی کے ہاں پسندیدہ ہوں، اور “استعانت” کی یہ قسم اللہ تعالی کی جانب سے، اس کے حکم سے مشروع (باعث اجروثواب) ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔
    (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ )(153))
    “اے اہل ایمان، صبر اور نماز سے مدد طلب کیا کرو۔”
    اور کتاب ہذاکے (متن کے) مولف الشیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ تعالی! نے استعانت کی پہلی قسم (کے ثبوت میں) اللہ تعالی کے اس فرمان سے دلیل لی ہے:
    (إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ) (سورة الفاتحة: 5))
    “کہ الہی! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔”...
    اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے دلیل لی ہے:
    ((إذا استعنت فاستعن بالله))
    “(اے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ!) جب تو مدد مانگے تو صرف اور صرف اللہ سے مدد مانگ۔”
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں