چوتھا رکن: رسولوں پر ایمان اور یہ بھی چار امور کو شامل ہے۔

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏اکتوبر، 26, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    و رسله (26)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا۔"

    (26) الرسل : رسول کی جمع ہے، جس کا مطلب ہے بھیجا جانے والا، یعنی کسی چیز کا پیغام پہنچانے کے لیۓ بھیجا جانے والا، رسول کہلاتا ہے اور 'رسول' سے مراد یہاں 'بشر' یعنی انسانوں میں سے وہ ہستی ہے، جس کو اللہ تعالی کی طرف سے شریعت کی وحی کی جاۓ اور ساتھ ہی اسے اپنی امت کو پہنچانے کا حکم دیا جاۓ۔۔۔۔۔۔ اور اس سلسلہ انبیاء و رسل میں سے سب سے پہلے "رسول" حضرت نوح علیہ السلام اور سب سے آخری حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
    اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
    (إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ) (النساء:الآية163)
    "( اے محمد!) ہم نے آپ کی طرف، اسی طرح وحی کی ہے، جیسے نوح اور ان کے بعد آنے والے انبیاء (علیھم السلام) کی طرف کی تھی۔
    ۔۔۔۔۔ اور صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی، 'حدیث شفاعت' میں آیا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا: کہ (حساب کتاب کے دن) لوگ آدم (علیہ السلام) کی طرف آئیں گے تاکہ وہ ان کے حق میں (جلدی حساب و کتاب کے لینے کی اللہ تعالی کے حضور) سفارش کریں، لیکن حضرت آدم علیہ السلام ان کے آگے معذرت پیش کردیں گے اور یہ کہیں گے کہ تم لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ، کہ وہ پہلے رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا تھا۔۔۔۔۔ الحدیث"

    نیز ارشاد باری تعالی ہے:
    (مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ) (الأحزاب:الآية40)
    " محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔

    (خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئ رسول تو کیا، نبی بھی آنے والا نہیں) اور کوئ امت بھی اللہ کی جانب سے رسول کی نعمت سے محروم نہیں رہی، اللہ تعالی اپنے رسول کو اس کی قوم کی طرف سے ایک مستقل شریعت کے ساتھ مبعوث فرماتا ہے، یا پھر ان کی ہدایت کے لیۓ کسی نبئ کو بھیج دیتا ہے، جس کی طرف سابقہ شریعت وحی کی جاتی ہے، تاکہ وہ اس اس کو نۓ سرے سے اپنی قوم میں جاری و ساری کرسکے۔
    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولاً أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ )(النحل:الآية36)
    ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ تم اللہ کی بندگي کرو، اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔

    اور ارشاد باری تعالی ہے : ( وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلا خَلا فِيهَا نَذِيرٌ)(فاطر:الآية24)
    اور کوئ امت ایسی نہیں گذری جس میں کوئ نذیر (ڈرانے والا) نہ آیا ہو۔"

    اور اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدىً وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا) (المائدة:الآية44)
    " بلا شبہ ہم نے تورات اتاری، جس میں ہدایت اور روشنی ہے، اس کے مطابق اللہ کے فرمانبردار نبی ان لوگوں کے فیصلے کرتے تھے جو یہودی بن گۓ تھے۔"

    اور یہ بات یاد رہنی چاہیۓ کہ تمام پیغمبر علیہم السلام بشر ( اور آدم کی اولاد سے ہیں، جو کہ مٹی سے پیدا کیۓ گۓ تھے) جن میں ربوبیت، الوہیت کے خصائص نام کی کوئ چیز نہیں، اللہ تعالی نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، جو کہ تمام انبیاء و رسل علیم السلام کے سردار اور قدر و منزلت اور مقام و مرتبہ میں اللہ تعالی کے ہاں سب سے بڑھ کر ہیں، کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :
    (قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرّاً إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ) (الأعراف:188)
    اے محمد! ان سے کہو، کہ میں اپنی ذات کے لیۓ کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا، تم میں بہت سے فائدے اپنے لیۓ حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئ نقصان نہ پہنچتا، میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کے لیۓ، جو ایمان لا کر میری بات مان لیں،"

    اور سورہ الجن میں ارشاد باری تعالی ہے: (قُلْ إِنِّي لا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرّاً وَلا رَشَداً * قُلْ إِنِّي لَنْ يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً) (الجـن:21- 22)
    "اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ان سے کہہ دیجیۓ، کہ میں تمہارے لیۓ کسی نفع و نقصان کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائ کا، آپ کہیۓ: کہ مجھے اللہ سے ہرگز کوئ بچا نہ سکے گا اور نہ ہی میں اس (اللہ واحد) کے سوا کوئ پناہ کی جگہ پاسکوں گا۔"

    بلکہ ان (پیغمبروں) کو بشری خصائص (اوردیگر حوائج و ضروریات) لاحق ہوتے اور حوادثات درپیش ہوتے ہیں، جیسے بیماری، موت، کھانے پینے، پہننے اور آرام کرنے کی ضروریات وغیرہ، اللہ تعالی حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے بارے میں، جو انہوں نے اپنے رب تعالی کے وصف میں کہا، فرماتا ہے
    :(وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ * وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ* وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ) (الشعراء:79 - 81)
    وہی ذات تو ہے، جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے، اور جب میں بیمار پڑتا ہو، تو وہی مجھے شفاء دیتا ہے، نیز وہی مجھے مارے گا اور (پھر نۓ سرے سے) زندہ کرے گا۔"
    اور نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں ارشاد گرامی ہے:"إنما أنا بشر مثلكم أنسى كما تنسون فإذا نسيت فذكروني"(45) کہ میں تمہاری طرح ایک بشر (آدمی) ہوں، میں بھول جاتا ہوں، جس طرح تم بھول جاتے ہو، تو جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھ کو یاد دلا دیا کرو،"

    اللہ تعالی نے اپنے ان برگزیدہ پیغمبروں کے وصف عبدیت (کہ وہ اللہ تعالی کے سب سے اعلی اور مقرب بندے ہیں) کو ان کے اعلی مقام اور مرتبے کے ضمن میں بیان فرمایا ہے، اور اس بارے میں ان کی ثناء ( تعریف) فرمائ ہے، تو اللہ تعال نے حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا
    : ( إِنَّهُ كَانَ عَبْداً شَكُوراً) (الإسراء:الآية3) کہ بے شک وہ (نوح علیہ السلام) میری شکر گزار بندہ تھا۔"
    اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حق تعالی فرماتا ہے:
    :(تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيراً)(الفرقان:1).
    " کہ بابرکت ہے وہ ذات، جن نے اپنے بندے پر فرقان (یعنی قرآن جو کہ حق و باطل میں فرق کرتا ہے) اتارا تاکہ وہ (اس کے ذریعے) تمام جہانوں کو ڈرانے والا ہو۔"
    اور حضرات ابنیاء کرام صلی اللہ علیہم اجمعین! کی ایک ہی مبارک لڑی، حضرت ابراہیم، حضرت اسحق اور حضرت یعقوب علیہ السلامکے بارے میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے :
    (وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الأَيْدِي وَالأَبْصَارِ * إِنَّا أَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ* وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الأَخْيَارِ) (صّ:45 - 47)
    اور ہمارے بندوں ابراہیم، اسحق اور یعقوب کو یاد کجییۓ، جو بڑی قوت عمل رکھنے والے اور صاحبان بصیرت تھے، ہم نے انہیں ایک خاص صفت کی بناء پر برگزیدہ کیا تھا (اور) وہ دار آخرت کی یاد تھی، ہمارے ہان وہ یقینا نیک اور برگزیدہ لوگوں میں سے تھے۔"
    .اور عیسی بیٹے مریم علیہما السلام کے بارے میں اللہ جل جلالہ کا ارشاد ہے : (إِنْ هُوَ إِلا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلاً لِبَنِي إِسْرائيلَ) (الزخرف:59)
    " وہ (عیسی) تو محض (ہمارا) بندہ تھا، جس پر ہم نے انعام کیا، اور اسے بنی اسرائیل کے لیے (اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنادیا۔"

    اور پیغمبروں علیھم السلام پر ایمان چار امور کو شامل ( اور ان کا متقاضی ہے۔
    پہلا : یہ ایمان رکھنا کہ ان کی رسالت ، اللہ جل شانہ کی طرف سے برحق ہے، تو جن شخص نے ان پیغمبروں میں سے کسی ایک کی رسالت کا انکار کیا، تو سے نے حقیقت میں تمام پیغمبروں کی رسالت کا انکار کیا، جیسا کہ اس بارے مین اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
    ( كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ) (الشعراء:105) " کہ قوم نوح نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔"
    تو آیت ہذا میں اللہ تعالی نے قوم نوح کو ، تمام پیغمبروں کو جھٹلانے والا قرار دیا ہے باوجود یکہ جب انہوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا، تو اس وقت سواۓ حضرت نوح علیہ السلام کے اور کوئ رسول ان کے ہاں موجود نہیں تھا، تو صرف ان کا حضرت نوح علیہ السلام کو جھٹلانا، حقیقت میں سارے پیغمبروں کو جھٹلانا ہے اور اسی قاعدہ کی بناء پر ہی عیسائ، جنہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت طاہرہ کو تسلیم نہیں کیا، تو حقیقت میں انہوں نے عیسی بن مریم علیما السلام کی تکذیب کی اور پیغمبروں کی اتباع سے منحرف ہو‎ۓ ہیں، خاص طور پر حضرت عیسی علیہ السلام نے تو آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی بشارت دی ہے اور ان کی اس بشارت (خوشخبری) کا اس کے سوا اور کوئ مطلب نہیں ہو سکتا کہ وہ (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ان سب کی طرف آخری رسول بن کر آۓ ہں، جن کے ذریعے اللہ عزوجل ، ان کو گمراہی میں پڑنے سے بچاۓ گا، اور ان کو سیدھی راہ پر گامزن کرے گا۔
    دوسرا: جن پیغمبروں کے اسماۓ مبارکہ کا ہمیں علم ہوجاۓ، ان پر ان کے اسمائے مبارکہ سمیت ایمان لانا، جیسے : حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت موسی، حضرت عیسی اور حضرت نوح علیہم السلام ہیں اور یہ پانچ الوالعزم پیغمبر ہیں، جن کا ایک ساتھ ذکر اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں دو مقامات پر کیا ہے:
    سورہ الاحزاب میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ( وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ) (الأحزاب:الآية7)
    اور اس عہد کو یاد کرو، جو ہم نے نبیوں سے لیا اور آپ سے بھی اور نوح،، ابراھیم، موسی اور عیسی ابن مریم علیہ السلام جمیعا) سے بھی۔

    اور سورہ الشوری میں اللہ عز وجل شانہ کا یہ فرمان ہے: (شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحاً وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ) (الشورى:الآية13) .
    " اس (اللہ) نے تمہارے لیۓ دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے، جس کا (اس نے) نوح علیہ السلام کو حکم دیا تھا اور جو کچھ ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے اور جس کا ابراہیم، موسی اور عیسی (علیہم السلام) کو حکم دیا تھا، کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا)

    اور وہ پیغمبر علیم السلام جن کے اسماۓ گرامی ہمارے علم میں نہ آسکیں تو ان پر ہم کو اجمالی ایمان لانا ہوگا۔ اس بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْك)(غافر:الآية78)
    اور تحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی رسول بھیجے ہیں، ان میں سے وہ بھی ہیں جن کے قصے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیان نہیں کیۓ۔

    تیسرا : جو سچی خبریں اور احکامات درست واسطوں سے ان پیغمبروں سے ہم تک پہنچی ہیں، ان کی دل و جان سے تصدیق کرنا۔
    چوتھا: ان پیغمبروں (علیہم السلام) میں سے جو پیغمبر ہماری طرف مبعوث کیا گيا ہے، اس کی شریعت کو حرز جان بنا کر اس پر عمل پیرا ہونا اور وہ ہمارے آخر الزمان پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جو تا قیامت، تمام بنی نو‏ع انسان کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیۓ گۓ ہیں۔
    اللہ تعالی کا ارشاد: (فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيماً) (النساء:65)
    " (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے پرودگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت مؤمن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ اپنے تنازعات میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو حکم (فیصلہ کرنے والا) نہ تسلیم کرلیں، اور پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں گھٹن بھی محسوس نہ کریں اور اس فیصلہ پر پوری طرح سر تسلیم خم کردیں۔"

    اور پیغمبروں ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان ، جلیل القدر ثمرات کا موجب ہے، جن میں چند درج ذیل ہیں:

    پہلا ثمرہ: اللہ تعالی کے اپنے بندوں پر بے پایاں رحمت اور اس کے کرم کی بابت علم کا حصول، اس اعتبار سے کہ اس نے (بندوں) کی طرف رسولوں کو مبعوث فرمایا، تاکہ وہ ان کی اللہ تعالی کی راہ کی جانب راہنمائ فرمائیں اور ان پر یہ واضح کریں کہ اللہ تعالی کی بندگی کیسے کی جاۓ، اس لیۓ انسانی عقل (بغیر الہامی رہنمائ کے) درست طریقے سے عبادت کی ادائیگی سے نا آشنا ہے۔
    دوسرا ثمرہ: اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس نعمت عظمی کا اظہار تشکر ( کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے پاس ہدایت کی خاطر رسولوں کو بھیجا)
    امت کے دلوں میں ان جلیل القدر پیغمبروں (علیہم السلام) کی محبت اور عظمت کا جاگزین ہونا اور امت کے ہر فرد کا ان کے شایان شان، ان کی مدح سرائ کرنا اور یہ اس لیۓ کہ وہ:
    أ‌- اللہ جل شانہ کے سچے اور برگزیدہ پیغمبر ہیں۔
    ب‌- اللہ تعالی کی بندگی (عبادت و اطاعت) ان کی زندگي کا حقیقی مشن اور نصب العین تھا۔
    ج- انہوں نے اللہ جل شانہ کی طرف سے تفویض کردہ منصب رسالت کا حق ادا کیا اور بنی نوع انسان تک من و عن اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔
    د- انہوں نے منصب رسالت سے عہدہ برآ ہوتے ہوۓ اللہ کے بندوں کی خیر خواہی کی۔
    تیسرا ثمرہ: اور امت میں، دین سے عناد اور بغض رکھنے والے لوگوں نے، اپنے پیغمبروں کو یہ گمان رکھتے ہوۓ جھٹلایا کہ اللہ کے رسول، بشر (اولاد آدم میں سے) نہیں ہو سکتے، اس باطل عقیدے کے جواب میں اللہ تعالی نے ان کے اس گمان کا رد اپنے اس فرمان سے کیا
    (وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَراً رَسُولاً * قُلْ لَوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكاً رَسُولاً) (الإسراء:94 - 95)
    " لوگوں کے سامنے جب بھی ہدایت آئ تو اس پر ایمان لانے سے، ان کو کسی چیز نے نہیں روکا، مگر ان کے اسی قول نے کہ " کیا اللہ نے بشر (آدمی) کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا؟ ان سے کہو کہ اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے، تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو ان کے لیۓ پیغمبر بنا کر بھیجتے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    تو اللہ تعالی جل شانہ نے اپنے اس فرمان سے، اس گمان کو باطل قرار دیا کہ رسول کا بشر (آدمی) ہونا ابدی امر ہے، اس لیۓ کہ اسے اہل زمین (اولاد آدم) کی طرف رسول بنا کر بھیجا جاتا ہے اور وہ سب بشر (آدم کی اولاد ہیں) اور اگر اہل زمین، فرشتے ہوتے، تو اللہ تعالی ان کو ہدایت کے لیۓ آسمان سے فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیتا ، تاکہ وہ ان ( اپنے مدعووین) جیسا ہوتا ( اور فریضہ رسالت ادا کرسکتا ہے)
    :( إِنْ أَنْتُمْ إِلا بَشَرٌ مِثْلُنَا تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ * قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَمَا كَانَ لَنَا أَنْ نَأْتِيَكُمْ بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ) (إبراهيم: 10- 11) .
    انہوں نے کہا:" تم کچھ نہیں ہو، مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں، تم ہمیں ان ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو، جن کی بندگي ہمارے باپ دادا کرتے چلے آ رہے ہیں؟ اچھا تو پھر لاؤ کو واضح دلیل ہمارے پاس! ان کے رسولوں نے ان سے کہا:" واقعی ہم کچھ نہیں ہیں، مگر تم ہی جیسے انسان، لیکن اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے اور یہ بات ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ ہم تمہارے پاس اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر کوئ سند (یا دلیل وغیرہ) لے آئیں۔
    دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح(شرح اصول الثلاثة) - URDU MAJLIS FORUM
     
  2. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    همیشہ کی طرح زبردست شیئرنگ
    جزاک اللہ خیرا
     
  3. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا
     
  4. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    جزاک اللہ خیرا
    اللہ برکت دے اور مزید قوت و توفیق دے۔
     
  5. نصر اللہ

    نصر اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2011
    پیغامات:
    1,845
    بارک اللہ فیک بہت عمدہ بھائی جان۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں