مولانا ظفر علی خان: ایک عظیم شاعر اور صحافی

اہل الحدیث نے 'مسلم شخصیات' میں ‏نومبر 27, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    آج 27 نومبر کو مولانا ظفر علی خان کو دنیا سے رخصت ہوئے 57 سال ہو گئے ہیں۔
    مولانا ظفر علی خان کی جتنی تعریفیں کی جائیں کم ہیں۔ ان کی بے باک اور نڈر صحافت نے اردو ادب کو ایک نیا رخ دیا۔ ان کی تلوار سے زیادہ تیز قلم اور شاعری کا اعتراف اقبال کو بھی تھا۔ اسی لیے شاید اقبال نے بھی کہا کہ
    ”ظفر علی خاں کے قلم میں مصطفیٰ کمال کی تلوار کا بانکپن ہے۔ انہوں نے مسلمانانِ پنجاب کو نیند سے جھنجوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں۔ پنجاب کے مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور جوش ایمانی پیدا کرنے کا جو کام مولانا ظفر علی خاں نے انجام دیا وہ تو مثالی ہے ہی لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو برصغیر کی تمام قومی و ملکی تحریکیں ان کے عزم عمل کی مرہون منت نظر آئیں گی اور سیاسی و صحافتی شعر و ادب تو گویا انہی کی ذات سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے“

    ان کی عظیم الشان خدمات میں ان کی شاعری اور ان کی بے باک صحافت موجود ہے۔ وہ غالباً پہلے شاعر ہیں جنہوں نے قادیانیوں کے بارے میں کھل کھلا کر شاعری کی جس کے نمونے علامہ احسان الٰہی شہید رحمہ اللہ کی کتاب مرزائیت اور اسلام میں‌ دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے قادیانیت کے رد میں شاعری کی باقاعدہ ایک کتاب تصنیف کی۔ ان کے کلیات آج بازار کے باسانی دستاب ہیں۔ میرے بھی پسندیدہ شاعروں میں سے ایک ہیں۔

    اس کے علاوہ مولانا کی شاعری میں ایک بہت بڑا پہلو آل سعود کی حکومت کی تعریف میں کھل کر شاعری کرنا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اردو ادب کے چند لوگ انہیں وہابی شاعر بھی قرار دیتے ہیں۔
    ایک صاحب لکھتے ہیں

    ان کی شاعری کے نمونے گاے بگاہے پیش کیے جائیں گے ان شاء اللہ۔

    فی الحال ان کی حیات پر مبنی ایک کتاب یہاں‌ملاحظہ فرمائیں۔

    مولانا ظفر علی خان

    مولانا کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں
    بہارستان، چمنستان وغیرہ ایک ہی جلد میں‌ مجموعے کی شکل میں‌چھپ چکی ہیں۔

    ویکی پیڈیا نے ان کی صحافت کا تعارف کچھ یوں‌کروایا ہے۔

     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    ایک صاحب شفیق الرحمن کے قلم سے

    مولانا ظفر علی خان 10 دسمبر 1873ء کو سیالکوٹ کے نواحی قصبے کوٹ مہرتھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وزیر آباد سے حاصل کی اور بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ ان کے والد مولانا سراج الدین احمد محکمہ ڈاک میں ملازم تھے ۔ اس کے باوجود ان کا جبلی جھکاؤ شعر و ادب کی جانب تھا۔ وہ ایک گونہ صحافت سے بھی لگاؤ رکھتے تھے۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت ان کا اخبار ’زمیندار‘ تھا۔ اخبار کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس اخبار کا اجراء پنجاب کے مسلم زرعی محنت کشوں اور زمینداروں کی فکری و نظری پیشوائی اور رہنمائی تھا۔ یہ عجب حسن اتفاق کہ اردو شاعری کے جریدے پر مہر دوام ثبت کرنے والے اردو کے تینوں بڑے شاعروں کا تعلق سیالکوٹ ہی کے مردم خیز خطے سے ہے۔ علامہ اقبالؒ ، مولانا ظفر علی خان، اور فیض احمد فیض۔ اس تناظر میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ گیسوئے اردو جو منت پذیر شانہ تھے، ان کی مشاطگی میں فرزندان پنجاب کسی بھی طور اہل زبان سے پیچھے نہ رہے۔ یہ کہنا شاید زیادہ مناسب و موزوں ہو کہ پنجاب کے شعراء ، ادبا، علماء اور خطباء نے اردو زبان کی خدمت اس والہانہ پن سے کی کہ اہل زبان کی اکثریت اس کی تحسین و ستائش کرتی دکھائی دی لیکن ایک اقلیت زبانِ اردو پر دبستانِ دہلی و لکھنؤ کی اجارہ داری پر اصرار کرتی رہی۔ ان کا یہ اصرار شاعرانہ تعلیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ قصداً اعتراف حقیقت سے کتراتے رہے۔ معاندانہ روش کا سامنا علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان کو بھی کرنا پڑا۔ نوبت بایں جا رسید کہ مولانا کو کہنا پڑا:
    حاسدان تیرہ باطن کو جلانے کے لیے
    تجھ میں اے پنجاب اقبالؒ و ظفر پیدا ہوئے
    حقیقت یہ ہے کہ بابائے صحافت کا وجود چمنستان شعر و ادب اور صحافت کے لیے کسی بھی طرح ابر مروارید بار سے کم نہ تھا۔ وہ شاعری کی جملہ اصناف پر قدرت کاملہ اور مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ غزل، قصیدہ، رباعی، قطعہ، نظم اور نعت کون سی صنف سخن تھی جس پر انہوں نے طبع آزمائی کی ہو اور ارباب فن سے داد وصول نہ کی ہو ۔ زمیندار کا مدیر شہیر نظم و نثر دونوں میں یکتا تاز تھا۔ وہ نظم کا رستم تھا تو نثر کا سہراب۔ وہ یقیناًان مشاہیر میں سے تھے جنہوں نے زمین سخن کو آسماں بنایا تھا۔ مولانا خالی خولی صحافی نہیں بلکہ جامع الصفات شخصیت تھے۔ وہ بیک وقت قادر الکلام اور کامل الفن شاعر، صاحب اسلوب ادیب، بے باک صحافی، جگر دار سیاستدان ، بے مثل اور بے بدل خطیب تھے۔ آپ کوعربی، فارسی، انگریزی اور اردو زبان پر یکساں عبور تھا۔ زمانۂ طالب علمی ہی میں سر سید احمد خان کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں اُنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ طلباء برادری کی طرف سے ان کی قومی اور علمی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کریں۔ اس موقع پر ظفر علی خان نے فارسی میں اپنا لکھا ہوا ایک قصیدہ پیش کیا۔ یہ قصیدہ اُن کی قادر الکلامی کا شہ پارہ تھا۔ اوائل شباب ہی میں مولانا کی خلاقانہ اہلیتوں اور موزونئ طبع نے مولانا الطاف حسین حالی ایسے کہنہ مشق بزرگ شاعر کو ان کی تحسین و ستائش پر اس حد تک مجبور کر دیا کہ مسدس کے خالق نے انہیں ’’فخر اقران‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے اس دور میں علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجوایشن کی جب متحدہ پنجاب میں گریجوایٹس کی تعداد انگلیوں کی پوروں سے بھی کم تھی۔ انہیں علی گڑھ یونیورسٹی میں مولانا شبلی نعمانی اور پروفیسر آرنلڈ ایسے عظیم اساتذہ کے دسترخوان علم و فضل سے خوشہ چینی کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ مولانا شبلی نعمانی ہی تھے، جن کی سفارش پر انہیں 21 برس کی عمر میں نواب محسن الملک نے اپنا سیکرٹری بنایا۔ بعد ازاں وہ دکن حیدر آباد چلے گئے۔ وہ دکن کے اسسٹنٹ ہوم سیکرٹری بنے۔ میر عثمان علی خان کے اتالیق بھی رہے۔ قیام دکن کے دوران آپ نے رڈیار کپلنگ اور رائیڈ بیگرڈ کی ایک کتاب کا ترجمہ کیا۔ اس سے قبل جب وہ نواب محسن الملک کے سیکرٹری تھے تو اس دور میں وہ ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر کی معرکۃ الآراء کتاب کا اردو ترجمہ ’’معرکۂ مذہب و سائنس‘‘ کے عنوان سے کر چکے تھے۔ 29 سال کی عمر میں انہوں نے ’دکن ریویو‘ جاری کیا۔ طبع تلون پسند نے ان کے لیے قیام دکن کو مشکل بنا دیا تو وہ سو مالی لینڈ چلے گئے۔ وہاں بھی جی نہ لگا تو ممبئی آ گئے۔ اسی دور میں مولانا شبلی نعمانی کی شہرہ آفاق کتاب ’الفاروق‘ زیور طباعت سے مرصع ہو کر سامنے آئی تو آپ نے اس کا انگریزی ترجمہ ‘‘عمر دی گریٹ‘‘ کے نام سے کیا۔ ترجمے کی وادی میں ان کا اشہب قلم اس طرح گامزن ہوا کہ مختصر عرصہ میں انہوں نے انگریزی کے کئی فلسفیانہ مضامین کو بھی اردو کے قالب میں اس شستہ و شگفتہ پیرائے میں ڈھالا کہ اگر ان کے مصنفین کو اردو آتی اور ان میں سے اُس وقت حیات ہوتے تو وہ بے ساختہ داد دے اٹھتے کہ ظفر علی خان نے ہمارے مضامین اور کتابوں کا ترجمہ اس مہارت اور چابکدستی کے ساتھ کیا ہے کہ ہمیں رشک آتا ہے کہ ہم اپنے مافی الضمیر کا اظہار اس حسن و خوبی کے ساتھ انگریزی میں نہیں کر سکے۔
    بحیثیت مسلم سیاسی رہنما وہ ہراہم موقع پر ہراول دستے میں سرگرمِ پیکار دکھائی دیے۔ جب ڈھاکہ کی سلیم منزل میں نواب سلیم اللہ خان نے برصغیر کے مسلم اکابرین کی موجودگی میں 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام کا اعلان کیا تو شرکائے اجلاس کی اکثریت بالائی مسلم طبقہ پر مشتمل تھی۔ اس اجلاس میں متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والی صرف دو شخصیات نمایاں تھیں۔ ان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ مولانا ظفر علی خان اور یو پی سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد علی جوہر نمایاں تھے۔ یوں 1906ء ہی سے مولانا ظفر علی خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ مولانا ایک سیماب صفت شخصیت تھے۔۔۔ ہمیشہ متحرک اور ہمہ وقت چار چول چوکس۔ 1909ء میں جب وہ کرم آباد میں نظر بندتھے تو انہی دنوں انہوں نے اپنے والد کے اخبار زمیندار کی زمامِ ادارت اپنے ہاتھوں میں لی۔ تب یہ ایک ہفت روزہ تھا۔ 1911ء میں لاہور آمد کے بعد انہوں نے ہفت روزہ زمیندار کے ڈیکلریشن کو روزنامہ زمیندار کے ڈیکلریشن میں بدل دیا۔ روزنامہ صحافت میں زمیندار کی آمد نے مسلم صحافت کو نئے جلال و جمال سے متعارف کرایا۔ زمیندار برصغیر کا پہلا اخبار تھا کہ اس نے عوامی حلقوں میں وہ پذیرائی حاصل کی کہ شہری اس کے شمارے کے شائع ہونے اور بازار میں آنے کا انتہائی بے تابی سے انتظار کرتے۔ ادھر اخبار بازار میں آتا اور دیکھتی آنکھوں اس کی کاپیاں انگریزی محاورے کے مطابق گرم کیک کی قاشوں کی طرح ہاتھوں ہاتھ بک جاتیں۔ اخبار کی مقبولیت اس حد تک بڑھی کہ مولانا کو اس کے صبح اور شام کے الگ الگ ایڈیشن شائع کرنا پڑے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ برسوں تک زمیندار کی روزنامہ اشاعت 30 ہزار رہی۔ یہ اس زمانے کے مطابق ایک لائق رشک اشاعت تھی۔ عوام اس اخبار کو اپنے جذبات و محسوسات کاترجمان جانتے۔ مائیکل ایڈوائر جب پنجاب کا گورنر بنا تو اس کے دور میں مولانا اور اس اخبار کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا طولانی سلسلہ شروع ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی اخبار کی اشاعت کے لیے حکومت نے نقد ضمانتیں طلب کیں۔ زمیندار سے اس کے قارئین کی نظریاتی و جذباتی وابستگی کا عالم یہ تھا کہ اخبارکی اشاعت کے لیے حکومت 10 ہزار کا زر ضمانت مانگتی اور شہری سورج غروب ہونے سے قبل یہ خطیر رقم زمیندار کے دفتر پہنچا دیتے۔۔۔
    زمیندار اور اُس کے مدیر نے تحریک قیام پاکستان کے دوران بھی گرانقدر خدمات انجام دیں۔ وہ نقیب تحریک قیام پاکستان تھے۔۔۔ قرار دادِ پاکستان کا ترجمہ کرنے کا اعزاز و افتخار بھی مولانا ہی کا مقدر بنا۔۔۔ زنجیر و تعزیر کے خارزاروں میں برس ہا برس آبلہ پائی کرنے کے باوجود ظفر علی خان کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہ آئی۔ ادھر اخبار کی بندش اور ڈیکلریشن کی ضبطی کے احکامات صادرہوتے اور اُدھر مولانا انگریز حکمرانوں کو للکارتے۔
    تم ضبط زمیندار کے نمبر نہیں کرتے
    کرتے ہو محمدؐ کی غلامی کا نشان ضبط​
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا وبارک فیک۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں