سلمان ندوی کے سوالات پر شیخ عبدالمعید مدنی کے جوابات

ابوعکاشہ نے 'نقطۂ نظر' میں ‏نومبر 30, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    ( سلمان ندوی کے سوالات پر شیخ عبدالمعید مدنی کے جوابات)
    فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی(علیگڑھ)


    الحمد اللہ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ،والذین اھتدوا بھداہ۔

    میرے نام سلمان صاحب کی طرف سے کچھ سوالات آئے ہیں، یہ سوالات ایسے نہیں کہ ان کا جواب دیا جائے، جو شخص خود سراپا سوال ہو، اس کی سرگرمیاں سوالنامے ہوں، اس کی چندہ خوری اور چندہ بٹوری سوال ہی سوال ہو۔ اس کی انتہا پسندی، فکری تشدد سوالیہ نشان ہو، اس کی تلون مزاجی زیر سوال آئے۔ اس کی سفلہ بیانی، سفلہ شخصیت اور مطلب برآری سوالیہ نشانات کے دائرے میں ہو اس کے سوالات کیسے؟ اور ان کے جوابات کی ضرورت کیا؟مگر پبلک میں ان کے سوالات جانے سے جوابات دینے کی مجبوری ہے، اور باربار ان کی طرف سے جوابات کا تقاضہ بھی ہے۔

    ۱۔ کہا جاتا ہے کہ منگتے کے سوآنگن ہوتے ہیں، اور وہ بہت طوطا چشم ہوتا ہے اس سے وفاداری کی توقع رکھنا حماقت ہوتی ہے، چونکہ اس کے چہرے کا پانی اتر چکا ہوتا ہے اس لیے اس کے اندر دناء ت بھر جاتی ہے اور مروت رخصت ہوجاتی ہے، منگتوں کی محبت اور وفاداری کا سرا ان کے کشکول اور شکم سے جڑا ہوتا ہے، سالہا سال کی نوازش ایک لمحہ میں بے وقعت ہو سکتی ہے۔ اگر حسب توقع کشکول نہ بھرا اور شکم سیری نہ ہوئی تو نفرت اور دوری طے ہوتی ہے۔ اور سالہا سال کی نفرت لمحوں میں محبت اور تعلق خاطر میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ کشکول بھر جائے اور شکم سیر ہوجائے۔ اور چونکہ ایسے لوگ صدا لگانے کے عادی ہوتے ہیں اس لیے اپنی محبت و نفرت کو آواز دینے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں، کچھ اسی طرح کا حال سلمان صاحب کا ہے انھوں نے گدا گری کے لیے کئی کشکول رکھ چھوڑے ہیں اور ایک ایک کشکول کا کئی کئی نام رکھتے ہیں اور پبلک میں اسے گھماتے رہتے ہیں تاکہ وہ بھرجائیں اور ان کے نفس ناطقہ کو طاقت ملتی رہے۔
    شاید کسی وقت ان کا کشکول خلیجی ممالک ان کی توقع کے مطابق نہیں بھر سکے اس لیے ان کی وفاداری محبت اور تعلق خاطراب شیعہ ایران اور تحریکیوں سے جڑ گیا ہے۔ اور تصوف کی اس انار کلی کو بازار گلاب میں بڑی پذیرائی مل رہی ہے، شیعہ حضرات نے ان سے بڑی توقعات وابستہ کر لی ہیں۔ اور تحریکی تو ان کو اپنی کلغیوں میں سجانے لگے ہیں، اور ان کا نفس ناطقہ بھی دراز ہوچکا ہے۔ انھوں نے گلف کے خلاف اپنی نفرت کو صدائے نفیر بنا دیا ہے، والعیاذ باللہ۔مزید گداگرانہ گڑگڑاہٹ کو حق گوئی کہتے ہیں، احسان فراموش محسن کش حق گو نہیں ہوتا وہ ڈھیٹ اور گپی ہوتا ہے۔

    ۲۔ سلمان صاحب کو آل سعود بے حسب و نسب نظر آتے ہیں، چلئے اگر کچھ لوگوں کے اس شگوفے کو ہم مان بھی لیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
    ''ان اللہ لاینظر الی اجسامکم، ولا الی صورکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم'' (مسلم ۲۵۶۴)
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی لمبی روایت ہے اس کا آخری ٹکڑا ہے فرمان نبوی ہے: ''ومن بطأ بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ''(مسلم۲۶۹۹)
    امام محمد بن عبدالوہاب نے مسائل جاہلیت میں ''طعن فی الانساب'' (مسئلہ۸۹) اور ''فخر بالاحساب''(مسئلہ ۸۷) کو بیان کیا ہے۔
    حضرت ابو مالک اشعریؓ سے روایت ہے رسول گرامی ﷺ نے فرمایا ''أربع فی امتی من امر الجاہلیۃ لا یترکونھن، الفخر بالأحساب، والطعن فی الأنساب، والاستسقاء بالنجوم والنیاحۃ''(مسلم: ۹۳۴)
    سلمان صاحب خود کو آل رسول میں شمار کرتے ہیں سید کا سابقہ اور حسینی کا لاحقہ لگاتے ہیں۔ سابقہ اور لاحقہ سے بھی آل رسول میں شمارہونے کی ان کی حیثیت محفوظ نہ رہی، جناب نے صدقات اور خیرات میں خود کو ڈبو کر اور زندگی بھر اسے مشغلہ بنا کر اپنی سیادت اور حسینیت کی چادر میلی کرلی ہے بلکہ اس ردائے تقدس کو تار تار کردیا۔
    اس موقع سے ان سے بھی مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ دوسروں کے بے حسب و نسب کہنے کی آپ نے جرأت کی ہے تو آپ بھی اپنے حسب ونسب کا حساب دیدیجئے آپ کے سلسلہ نسب میں بھی انقطاع کا سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور لوگ اٹھاتے ہیں اور سوسال سے آپ کے نانا کا گھرانہ سیدشہید کو کیش کر رہا ہے،بتائیے کیا آپ کے نانا کا گھرانہ ان سے تعلق رکھتا ہے، ان کے خواہر زادگاں کی اکثریت تو ٹونک میں آباد تھی اور وہ اہل حدیث تھے۔ سید فخر الدین کا سلسلہ تو صوفیاء سے تھا۔ ان کا سلسلہ اور سید احمد شہید کا سلسلہ علم اللہ شاہ پر جا کر جڑتا ہے سید شہید کی شاخ الگ ہے اور سید ضیاء النبی کی شاخ الگ ہے، پھر یہ گھپلا بازی کیوں؟ اور آپ اپنے حسینی سلسلہ کو ثابت کیجئے مستند روایات سے اگرآپ دوسروں کے حسب و نسب پر طعن کرتے ہیں۔
     
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    3۔ سلمان صاحب حسب و نسب کام نہیں آتا اگر عمل اور کردار نہ ہو۔ مان لیا آپ کے شگوفہ کے مطابق آ ل سعود بے حسب و نسب ہیں اور آپ بڑے حسب و نسب والے ہیں، آپ کے حسب و نسب نے آپ کا کچھ بھی تو نہیں بگاڑا؟ ناکام حسرتیں اور بے جا کلفتیں آپ کا مقدر ہیں، اور آل سعود نے آپ جیسے ان گنت لوگوں کو پالا اور چہچہانے اڑنے چگنے کے قابل بنایا۔ آل سعودنے اپنے ادوار ثلاثہ میں ایسے کارہائے نمایااں انجام دیئے ہیں کہ تین سوسالوں کے اندر ان کی کوئی مثال ہے ہی نہیں براہ راست یا بواسطہ دنیا کا ہر مسلمان اور ہر مسلمان ہی نہیں ان گنت غیر مسلموں کو بھی ان کے کار خیر کا فیض پہونچا،آل سعود کو جانے دیں سعودی عرب کے بعض علماء اور کارخیر کرنے والوں کے مقابلے میں ساری دنیا کے مسلم اور اسلامی سرگرمیاں کم ثابت ہوں گی، کیا شیخ ابن باز کے کارناموں کی ہے کوئی مثال پوری ایک صدی میں۔ اگر حقائق کو انکار کرنا آسان بنا لیا جائے تو پھر شرک، کفر، خیانت، عناد، کبر اور دین دشمنی کو وجہ جواز دینا بھی آسان ہوگا۔

    ۴۔ اسلام کی تعلیم ہے ایک ذرہ بھی اگر خیر ہے تو اس کی پہچان ہونی چاہیے اور ذرہ برابر برائی ہے تو اس کی بھی پہچان ہونی چاہیے، سلمان صاحب تین صدیوں میں اسلام کی خاطر سب سے نمایاں کام کرنے والی حکومت کوزیرو بنانے پر نہیں رکتے بلکہ بش جونیر کی طرح سعودی عرب کو محورِ شر(Axisofevil) بتلا رہے ہیں، سلمان صاحب کیا آپ کی دینی بصیرت بش جونیر کے برابرنہیں رہ گئی ہے، حیرت ہے ایک انسان تعصب فرقہ پرستی اور کوثری جہمیت میں اتنا اندھا ہو جائے کہ اسے خیر وشر سب برابر لگیں بلکہ سارا خیر سراپا شر بن جائے۔
    جناب کے نزدیک آل سعود گلف میں سارے فساد کے پس پردہ رہے ہیں، اگر اسی طرح کے اطلاقات کو حقیقت تسلیم کر لیا جائے تو پھر منافقانہ اطلاقات، صہیونی اطلاقات، گداگرانہ اطلاقات، صلیبی اطلاقات، الحادی اطلاقات،سبھی کوتسلیم کرنا پڑے گا، اگر خطیبانہ بڑ اور لفظی پہلوانی کو کوئی وقعت ہوتی تو اب تک دنیا اربوں بار زیروزبر ہو چکی ہوتی۔ اور کم از کم سعودی عرب ہزاروں لاکھوں بلکہ اربوں بار تہ وبالا ہو چکا ہوتا، کس دن یاروں کی بلاؤں کا ریلا جدہ کے ساحل پر نہیں پہونچتا ہے، الزام واتہام سب و شتم تکفیر و تفسیق کا شیعہ ریلا تین صدیوں سے سعودی عرب پہونچتا ہے، ترکی عثمانی حکومت نے وہابیت کے افسانے کو رواج دیا اور وہابیت کے نام پر اسے ختم کرنے کے لیے مصری پاشاؤں اور مصری فوج کی خدمات حاصل کی گئیں۔ استعمار نے وہابیت کا شگوفہ سارے عالم اسلام میں شدت سے پھیلایا اور اب تک یہ شگوفہ ان کا حرز جاں ہے۔ قبوری شریعت اور قبوریوں کی مالاہی وہابیت ہے، انھوں نے وہابیت کی مالا جپنے کو اپنے لیے باعث نجات بنا رکھا ہے، دنیا کے سارے کربلائی قبوری صوفی تقلیدی ملحد صلیبی صہیونی کمیونسٹ قومیت پرست اس کے دشمن بنے رہے۔اور بر صغیر کے سارے قبوری تقلیدی صوفی اس کی دشمنی میں تھے اور ہیں، لیکن اس کا کیا بگاڑلیا ان لوگوں نے۔ اس کی تباہی کی چاہت میں دبلے ہونے والے آج کے گداگر اور بیر بہوٹی کی طرح رنگ بدلنے والے یقین مان کے رکھیں کہ جس طرح کل سارے وہابی دشمن آل سعود کا کچھ نہ بگاڑ سکے آج بھی نہ بگاڑ سکیں گے شرط یہ ہے کہ جس طرح دین کے ساتھ ان کی وفاداری تھی اسی طرح ان کی وفاداری برقرار رہے۔ جس دن دین سے ان کی وفاداری ٹوٹ جائے گی ساری دنیا کے کربلائی صوفی تقلیدی قومیت پرست گداگرغنی دشمن ہمنوا صلیبی صہیونی مل کر اسے نہ بچا سکیں گے۔

    ۵۔ کون آیا ہے دنیا میں ابدی ضمانت لے کر اموی عباسی اور عثمانی سلطنتیں تاراج ہو گئیں جب کہ ان کے سامنے اتنے تھریٹ نہ تھے جتنے سعودی عرب کے سامنے تھے اور ہیں۔ اللہ کا اصول ہے ''تلک الایام نداولھا بین الناس'' سعودی عرب نے تین سوسالوں تک شاندار اورمثالی حکومت کی ہے اور امت کو جتنا اس سے فائدہ ہوا ہے اتنا پوری چھ سو سالہ عثمانی حکومت میں نہیں ہوا ہے، اگر اب بھی سعودی عرب کی حکومت برقرار رہتی ہے تو یہ اللہ کا فضل خاص ہے حساد اپنی آگ میں جل کر مرتے ہیں، تین سو سالوں سے سعودی عرب کی تباہی اور بربادی کا خواب دیکھنے والے سارے حساد ناکام آرزوؤں کے ساتھ قبروں میں جاسوئے لیکن مملکت توحید قائم ہے اور دین کا پرچم لہرائے جارہا ہے، اس وقت کے حساد حسد کی آگ میں جل رہے ہیں، ہماری دعا ہے انھیں اللہ تعالی صحیح سوچ عطا کرے۔

    ۶۔ سعودی حکومت اگر اللہ تعالی سے مضبوط وابستگی رکھتی ہے توساری دنیا مل کر اسے نقصان نہیں پہونچا سکتی ہے ''ان تنصرواللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم'' اور اگر سیکولر بن جاتی ہے تو ساری دنیا مل کر اسے نہیں بچا سکتی ہے۔

    ۷۔ کل کلاں کی بات ہے جہیمانی ۱۴۰۰ھ میں اسے گرانے آئے تھے کیفر کردار کو پہونچ گئے، پھر خمینیوں نے اسے گرانے کے لیے سارے جتن کر لیے یمن کے طرف سے بھی، بحرین کی جانب سے بھی، عراق کی طرف سے بھی اور حج میں ہنگامہ کر کے بھی، ابھی تک انھیں کامیابی نہیں ملی ایران اسی میں دیوالیہ ہوا جا رہا ہے اور عالم میں اجتماعی فساد اور اقتصادی بحران کے سبب اسی کا شمار ناکام ممالک میں ہوتا ہے افریقہ کے ناکام ترین ممالک ایتھو پیا، اریڑیا اور جیبوتی سے بھی ناکام۔

    ۸۔ صدام نے سعودی عرب اور گلف کو تین تین جنگوں کا تحفہ دیا اورتیس سالوں تک مسلسل ان کے لیے خطرہ بنے رہے، جب کہ رافضیوں کے خلاف ان گلف ممالک نے اس کی اربوں میں مدد کی تھی، آخر کار وہ خودتباہ ہو گیا اور پورا ملک تباہ ہوگیا۔ اس کے باوجودہ بھی گلف ممالک صدام کے بقا اور ملک کی سلامتی چاہتے تھے، لیکن شیعوں کی سازش اور صدام کی حماقت کے سبب ملک تباہ ہو گیا اور اہل سنت یتیم و لاوارث بن گئے، آئے دن ان کی تباہی کے سامان ہوتے ہیں اور انھیں تباہ کیا جاتا ہے لیکن افسوس سلمان جیسا زبان دراز اپنی زبان درازی سے سارے حقائق کو ملیامیٹ کرنے پر تلا ہوا ہے۔
     
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    ۔ افغانستان کے جہاد کے بعد تحریکیوں اور شیعوں نے مشترکہ طور پر پورے ملک میں اودھم مچانا شروع کیا دھماکے شروع ہوئے پورے ملک کو تہس نہس کرنے کی سازشیں ہونے لگیں ایسا لگتا تھا سعودی عرب کو یہ توڑ ڈالیں گے لیکن جلد ہی سب کیفر کردار کو پہونچ گئے۔

    ۱۰۔ اور اب سلمان آئے ہیں اودھم مچانے اورباسی کڑاھی میں ابال لانے، چوہوں سے سد مآرب نہیں ٹوٹتا۔نہ پہاڑ سے ہمیشہ اونٹنی نکلتی ہے یہ انبیاء کا معجزہ تھا اب زیادہ سے زیادہ طاعونی چوہے ہو سکتے ہیں متعدی بیماری پھیلانے کے لیے یا کچھ زمین میں بل بنانے والے اور کسانوں کی فصلوں کو نقصان پہونچانے والے۔

    ۱۱۔ سعودی عرب کی امن پسندی اور تعاون علی البر بھی لوگوں کے نزدیک قابل تحسین نہیں ہے یہ چاہتے ہیں کہ سعودی عرب ان کی خواہش اور پسند کے مطابق چلے۔ سوال یہ ہے کہ ایک عظیم حکومت ایک یاوہ گو کی خواہشات کے مطابق کیسے چل سکتی ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک عظیم ملک سلمان کی خواہشات کا پابند بنے، اگر سلمان کو معیار مان لیا جائے تو بھی سعودی عرب کا جو معیار ہے اس سے بہت ابتر ہو کر بھی سرخروئی کا حقدار بن سکتا ہے، سلمان اپنی ذاتی امنگوں اور حوصلوں کو پورا کرنے کے لیے چالیس سال سے عالمی گداگربنے ہوئے ہیں، اور کار کردگی زیرو، سید ہونے کے دعویدار بن کر بھی خیرات و زکوۃ کی رقوم ذاتی آن بان اور شان پر خرچ کرنے کے عادی، ایک ہی ادارے کو دس نام سے بھناتے ہیں اور ایسا کرنے سے شرماتے نہیں بلکہ ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ایسا نہ کریں تو چندہ کیسے ملے گا۔
    قبلہ کبھی کعبہ، کبھی شوالہ، کبھی سیفئی، کبھی نوئیڈا، کبھی غازی پور، جناب کی وہمی ضرورتیں اور خیانت بھری سرگرمیاں ایسی ہیں کہ ایک عام انسان انھیں دیکھ کر شرمائے۔ جناب اسے مجبوری کہتے ہیں، آپ کی یہ مجبوریاں اور رسوائیاں جب کردار بدلنے رخ بدلنے رجحانات بدلنے اور اسفل السافلین میں گرانے کا سبب بن سکتی ہیں اورپھر بھی جائز ہو سکتی ہیں، تو پھر آپ کو ایک عظیم ملک کی مجبوریوں کا احساس کیوں نہیں ہوتا''خود رافضیحت دیگرے را نصیحت''۔ چند خیراتی اداروں کے لیے جن کی کوئی کارکردگی بھی نہیں۔ ایسے پینترے، عیاریاں اور مکاریاں، مکروفریب منافقت اوراکاذیب، اور سب جائز بلکہ باعث فضیلت۔ اور ایک عظیم ملک کے لیے امریکہ سے تعلقات پر ناراضگی فلاں سے تعلقات پر ناراضگی فلاں سے تعلقات پر ناراضگی۔ دوہرا معیار کیوں؟ اپنے لیے سراپا شر سراپا خیر۔ دوسروں کے لیے خیر بھی سراپا شر۔ سلمان صاحب نیتائی چھوڑیئے اور کوثریت بھی اور یا د کیجئے جامعۃ الامام کا بھولا سبق اور باپ بیٹا مل کر بھولا سبق یاد کریں آپ کی تشدد پسندی کا اس میں علاج مل جائے گا۔
    سلمان صاحب اپنے لیے سب روا رکھتے ہیں ان کے لیے روا ہے سعودی عرب میں باپ بیٹا پڑھیں اور اس کی عنایات سے بہرہ ور ہوں اور پھر اسی کو گالی دیں، سلمان صاحب کو امریکہ بلائے تو نیاز مندانہ جائیں اور سرخرو ہوکر آئیں اور خوش رہیں یہ ان کے لیے جائز لیکن سعودی عرب اگر امریکہ سے تعلق رکھے تو ناجائز، سلمان صاحب انسا نہ ہوئے الہ دین کا چراغ بن گئے بس رگڑو ہر جگہ حاضر۔

    ۱۲۔ سلمان صاحب کو اعتراض ہے کہ سعودی عرب کے تعلقات کیوں امریکہ سے، کیوں امریکہ پر انحصار کرتاہے؟ حرمین میں اس نے کفار کی فوج کو بسا رکھا ہے جبکہ جزیرۃ العرب سے ان کے اخراج کا حکم ہے۔ کیوں کفار سے سعودی عرب کے خفیہ معاہدے ہیں؟
    پہلی بات تو یہ کہ اس گلوبل ولیج دنیا میں ایک باصلاحیت فرد بھی سمٹ کر نہیں رہ سکتا ہے۔ تنہا سب سے کٹ کر رہنا ملک تمدن معیشت اور تعلیم و ترقی کی تباہی ہے، کیا سلمان اپنے لیے یہ فیصلہ سنائیں گے، کیوں وہ چھلاوے بنے ملک و بیرون ملک بھاگتے پھرتے ہیں جب کہ ان کے پاس ایک ہی صدا اور ایک ہی راگنی ہے۔ بھر دو جھولی میری داتا! اور تقلید و تصوف کے جوہڑ میں ڈوب مرو۔اس کے سوا جناب کے پاس کیاہے۔ایک کا تعلق مفاد پرستی سے ہے اور دوسرے کا بربادیوں سے، ان دومعمولی اور ذلیل مسئلوں کے لیے جب آپ گلوبل سفر کرسکتے ہیں اور ہر ایرے غیرے سے خیرات بٹو رسکتے ہیں تعلقات استوار کر سکتے ہیں تو پھر ایک عظیم ملک کے لیے آپ کے اپنے معیار کے مطابق دوسروں سے تعلقات استوار کرنے میں کوئی قباحت کیوں ہے؟
    حرمین میں امریکی فوج کدھر بسی ہے؟ یہ راز زصرف سلمان اور ان جیسے ان کے سابق ''دوستوں'' ایس آئی ایم یا تحریکی مخلوقات کو معلوم ہے، شاید اس راز کا تعلق (وان الشیاطین لیوحون الی اولیاؤھم لیجادلوکم)سے ہے۔
    دراصل نہ یہودی جزیرۃ العرب میں بسے ہوئے ہیں نہ عیسائی نہ کفار جب ان کی ضرورت ہوئی خدام کی حیثیت سے علماء کی افتائی توثیق سے آئے اپنا کام کیا اور چلے گئے، خلفاء راشدین کے دورمیں بھی ایسا ہوا اور ہر دور میں ہوا اور شرعا اس کا فتوی دیا گیا، انھیں جزیرۃ العرب میں بسانے سے منع کیا گیاہے۔ ضرورت پرلانے اور پھر رخصت کر دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔لیکن سعودی عرب کو بدنام کرنے والے فنادیوانوں کو (وان منھم لفریقا یلوؤن السنتھم بالکتاب لتحسبوہ من الکتاب وماھو من الکتاب) کی نقالی کرنے میں بڑامزا آتا ہے۔ بات جزیرۃ العرب سے شروع ہوتی ہے اور وہاں سے اخراج اہل الکتاب کی حدیث سنائی جاتی ہے، جزیرۃ العرب میں موقتا کفار کی خدمات حاصل کرنے اور انھیں مستقلا وہاں بسانے کا فرق دانستہ مٹایا جاتا ہے، پھر جزیرۃ العرب اور حرمین شریفین کی حیثیت ایک کی جاتی ہے اور کفار کو حرمین میں بٹھایا جاتا ہے اور شور مچایا جاتا ہے کہ سعودی عرب میں حرمین کی حرمت کی پامالی ہورہی ہے۔اور ایسا بتلانے کے لیے یہودی تعبیر و تشریح اور اسلوب کو استعمال کیا جاتا ہے، اس منافقت اور بدبختی کو کیا کہا جائے، سعودی عرب کی حکومت خلافت راشدہ نہیں ہے اکیسویں صدی کی ایک مظلوم اور مفتری علیہ حکومت ہے،لوگ اپنی ستم رائیوں کا شوق اسی پر ستم ڈھاکر پورا کرتے ہیں۔
    بڑا اعتراض ہے سعودی عرب نے امریکی فوج کو سرزمین مقدس پر صدام کے خلاف اتارلیا، جی ہاں اتار لیا ،حالت اضطرار تھی علماء نے اس کا فتوی دیا تھا ھیئۃ کبار علماء نے اس کے جواز کا فتوی دیا تھا، ھیئۃ کبار علماء کی عدالت و ثقاہت پورے عالم عرب کے سارے علماء سے ازحد زیادہ ہے۔ان کی بات قابل اعتبار تھی اور ہے، وہ دیوبند اور بریلی فتوی لینے کیوں آنے لگے وہ تحریکی وحشیوں کو کیوں درخور اعتناء سمجھنے لگے، جب ان کے پاس یہاں کے جاہل نما مفتیوں سے ہزار گنا اچھے معتمد باصلاحیت ثقہ صالح علماء موجود تھے۔ دراصل ذہنیت کا فرق ہے جو حالت ان کے اضطرار کی تھی یہاں ہندوستان میں سلمان اور ان کی جیسی ذہنیت کے حامل صوفی تحریکی مخلوق کے لیے حالت مسرت کی تھی کہ صدام ''صلاح الدین زمانہ'' ''غازی اکبر'' اب گلف پر قبضہ کر لے گا، اس کے لیے مساجد میں اجتماعی دعائیں ہوتی تھیں۔ اور کویت پر صدام نے حملہ کیا اور اسے برباد کیا اب بھی اس کے سات ہزار شہری مفقو دالخبر ہیں۔ گلف کو صدام الحاد کا اڈہ بناتا ان ''لا ل بجھکڑوں'' کے لیے زیادہ خوشی کی بات تھی، انھیں قطعا یہ پسند نہ تھا نہ ہے کہ ''ملوکیت کا شجر ممنوع'' ''وہابی'' باقی رہے۔ ظاہر ہے حالت اضطرار اور حالت مسر ت میں بڑا فرق ہے۔ ان کی حالت اضطرار نے انھیں ایک ناپسندیدہ کا م کے جواز کا سہارا لینے پر مجبور کیا اور آپ کی حالت مسرت کا تقاضا تھا اور ہے کہ گلف ممالک فنا ہوں، فنا ہونے اور آپ کی باچھیں کھلنے کا وقت تھا، لیکن گلف ممالک باقی رہ گئے لہذا آپ کی مسرت کا جھونکا ختم ہو گیا اورآپ مرجھا کر رہ گئے۔اور اب تک بلبلاتے ہیں کہ گلف ممالک فنا کیوں نہیں ہوئے۔ جناب اعتراض کرنے کے بجائے ذہنیت بدلئے اور بغض ونفرت اور حسد کے عذاب سے خود کو بچائیے۔
    زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے، عزت و دولت اور حکومت وہی دیتا ہے اور وہی چھین لیتا ہے اور ہر ایک کے اسباب ہیں، جو ان اسباب کو استعمال کرتا ہے سرخرو ہوتا ہے اور جوان کو استعمال نہیں کرتاناکام رہتا ہے۔ سلما ن صاحب آپ کی صوفی، کوثری، جہمی ذہنیت کیوں بے تاب ہے سعودی عرب کی تباہی دیکھنے کے لیے، وہ آپ کے محسن اکبر ہیں آپ کو تو ان کی اصلاح کے لیے دعا کرنی چاہیے، نہ کہ سستی نیتائی کے لیے انسانی زبان کو لسان البقرہ بنانا چاہیے۔
    مشکل یہ ہے کہ ہمارے یہ مولوی صاحب سمجھتے ہیں دنیا سامع ہے اور یہ خطیب، ان کا کام ہے بولتے رہیں اور دنیا کا کام ہے سنتی رہے۔ جو آدمی اتنی قبیح ترین خود پرستی میں مبتلا ہو کہ مجنون و دیوانہ بن جائے اسے معذوروں اور مجانین میں شمار کرنا چاہیے، یا نہیں؟
     
  4. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    سلمان صاحب اگر آپ کے کٹولی کا مدرسہ آپ کا کوئی مسلمان پڑوسی قبضہ کرلے اور اس کی واگذار ی کے لیے کچھ ہندو دوست آپ کی مددکرنے کے لیے تیار ہوں تنہا آپ واگذار کرنیکی ہمت و صلاحیت نہیں رکھتے ہوں تو کیا آپ کہیں گے میرا مدرسہ مسلمان بھائی قبضہ کیے ہوئے ہے اور وہ اپنی جگہ حق پرہے، آپ جائیے ہمیں آپ سے تعاون نہیں لیناہے۔ یا کسی مسلمان کی آبرو لوٹنے کے لیے کوئی مسلمان درپے ہو اور آبرو بچانے کے لیے چند غیر مسلم آجائیں تو کیا کوئی کہے گا آپ جائیے ہماری آبرو ہمارا مسلم بھائی لوٹ رہا ہے اسے لوٹنے دیجئے آپ سے کیا مطلب۔ جس پر مصیبت آتی ہے وہی مصیبت کی اذیت و تلخی جانتا ہے۔اور اسی کو اس مصیبت سے نکلنے کا بندوبست کرنا پڑتا ہے، گھر بیٹھ کر تماش بین ہوائی باتیں کرتے ہیں، اور اپنی حماقت کا ثبوت دیتے ہیں، صدام کویت میں داخل ہوئے اور کسی کافر دشمن سے زیادہ ملک کو اس کی معیشت کواور اپنی محسن دینی بھائی کویتی باشندوں کو تباہ کیا،قتل و خونریزی کی عزت لوٹی، گلف والوں نے اپنے تحفظ کے لیے اپنی جان مال کی عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے غیر مسلموں سے مدد لی، اس وقت ان کی مدد کون کرتا، ساری دنیا میں سارے تحریکی، صوفی، رافضی، قبوری جشن منا رہے تھے اور صدام کے لیے مساجد میں دعائیں ہورہی تھیں۔سعودی دشمنی سارے تحریکی صوفی رافضی مسلمانوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔افغانستان میں مجاہدین کی انھوں نے ہر قدم پر حمایت ومدد کی اس کے باوجود گلبدن حکمت یار نے ۷۰؍ہزار فوج کے ذریعہ صدام کی مددکرنے کے لیے پیش کش کی۔ اور جب ملک آزاد ہوا اور وزیر اعظم بنا تو اس نے اپنے صدربرہان الدین ربانی اور وزیر دفاع احمد شاہ مسعود کے خلاف کابل پر پانچ سو میزائل داغے اور بعد میں ایران میں پناہ گزیں ہو گیا، یہ حال ہے مسلمانوں کا۔ سلمان اور مثل سلمان ذہنیت رکھنے والے سارے سیاسی تحریکی سرپھروں کا ایک سا حال ہے، دوسروں کے اوپرپڑی مصیبت پر جشن منائیں اور خواہش رکھیں کہ اپنی جان مال اور آبرو کے تحفظ کا انتظام نہ کریں۔ دشمن کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو جائیں کہ جان و مال عزت و آبرو لوٹ لے۔ اس دور کے ایسے مفتیوں کو کیا کہا جائے۔ اتنا قسی القلب اور سخت دل ایک قسائی بھی نہ ہوگا، یہ ایسے بے حس ہیں کہ پتھر بھی شرما جائے۔ کون سی انتقامی ذہنیت کام کرتی ہے۔ سلمان اور تحریکی سرپھرے لونڈے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو عراق صدام اور ایران کا مذبح خانہ دیکھنا چاہتے تھے اور چاہتے ہیں۔ کیا یہ بے شعور سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے خون مال اور آبروکو ہدر اور بے وقعت سمجھتے ہیں۔گداگروں کی رعونت کا یہ حال ہے اور ان کا جوانھیں کی عنایت پر اچھل کود مچارہے ہیں پھر ہم کسی امریکہ، کسی یورپ، کسی فرانس اور برطانیہ کو کیوں طعنہ دیں۔ مجبوریوں کا یہ مذاق!!
     
  5. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    چلئے ایک منظر گھر کا دکھلادیتے ہیں، گلف ممالک کی جانب سے تعلق رکھیں مجرم اور یہاں ایک چھوٹے سے ادارے کی قیام اور بقا وترقی کے لیے استعمار کے سامنے کیسے ہمارے علماء، لوٹ گئے ایک دلدوز منظر دیکھیں اور سلمان ندوی کی بڑ سے اس کا موازنہ کریں۔ پڑھئے حیات شبلی ص:۔۴۸؍ تا۴۸۴؍ عنوان ہے ''مدرسہ کے لیے عطائے زمین۱۹۰۸'' اور دوسرا عنوان ہے''جلسۂ سنگ بنیاد ۱۹۰۸''سید سلمان ندوی رقم طرا ز ہیں:
    مدرسہ کے لیے عطا عطائے زمین ۱۹۰۸ء:''سرمایہ کی طرف سے اطمینان ہوا تو زمین کی تلاش ہوئی، لکھنؤ میں سب سے بہتر اور سب سے موزوں تر وہ قطعۂ اراضی ہے جو دریائے گومتی کے پار آہنی پل کے دائیں جانب واقع ہے، زمین کا منظر یہ ہے کہ ایک طرف نہایت قریب دریا ہے، پشت اور پہلو میں اس وقت کنگ کالج کا اور اب لکھنؤ یونیورسٹی کا بورڈنگ اور صنعتی اسکول کی پرشان عمارتیں ہیں، شمال کی طرف دور تک کھلا ہوا میدان ہے،یہ قطعہ پختہ ۳۲ بیگہ ہے چنانچہ اس زمین کے لیے گورنمنٹ میں درخواست کی گئی، اگر چہ اس حلقہ کی زمین میونسپلٹی کے قاعدے کے روسے ساٹھ روپیہ بیگہ سالانہ پر ملتی ہے اور اس لیے زمین مطلوبہ لگان ڈھائی ہزار کے قریب ہوتا تھا، لیکن جناب مسٹر جاپلنگ صاحب ڈپٹی کمشنر نے رپورٹ کی، کرنل عبدالمجید خان مرحوم وزیر پٹیالہ کی پرزور زبانی تحریک پر جناب کمشنر صاحب نے اس کے دیئے جانے کی سفارش کی اور ہزآنر ہیوٹ صاحب لیفٹنٹ گورنر نے اس کو منظورکیا اور صرف مال(۱۰۰) سالانہ لگان مقرر ہوا۔
    جلسہ سنگ بنیاد ۱۹۰۸ء: ان تیاریوں کے بعد نومبر ۱۹۰۸ء ؁ دارالعلوم کے سنگ بنیاد اور ندوہ کے سالانہ اجلاس کی تاریخیں مقرر ہوئیں، ندوہ اودھ کے دارالسلطنت میں واقع ہے اس کے چاروں طرف مسلمان رؤساء اور تعلق دار ہیں جن کی معمولی نگاہِ التفات بھی ندوہ کو مالامال کر سکتی تھیں مگر ان لوگوں کا یہ خیال تھا کہ گورنمنٹ ندوہ سے بدگمان ہے، اب جبکہ کرنل عبدالمجید خان مرحوم کی کوششوں سے ان بدگمانیوں کا پردہ چاک ہوا اور گورنمنٹ نے بیش از بیش نظر توجہ کی تو اس زمانہ کے حالات کے مطابق یہ مناسب معلوم ہوا کہ اس مدرسہ کا ''ظاہری'' سنگ بنیاد یوپی کے گورنر سرجان پر سکاٹ ہیوٹ رکھیں تا کہ اودھ کے تعلقہ داروں کی بدگمانی دور ہو۔ مولانامرحوم (شبلی) نے اس جلسہ کا حال خود اپنے قلم مسرت رقم سے لکھا ہے اس لیے ہم اس کو یہاں ان ہی کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں۔
    ''بگذرازیں حرف و مکرر پرس خواب خوشی دیدم ودیگر پرس
    تند مئے بود، خرابم ہنوز دیدۂ من باز و بخوابم ھنوز
    ہماری آنکھوں نے حیرت فزا تماش گاہوں کی دلفریبیاں بارہا دیکھی ہیں، جاہ و جلال کا منظر بھی اکثر نظروں سے گذرا ہے، کانفرنسوں اور انجمنوں کا جوش و خروش بھی ہم دیکھ چکے ہیں، وعظ و پُر اثر جلسے میں ہم کو متأثر کر چکے ہیں، لیکن اس موقع پرجو کچھ آنکھوں نے دیکھا وہ ان سے بالا تر، ان سب سے عجیب تر، ان سب سے حیرت انگزیز تھا۔
    یہ پہلا ہی موقع تھا کہ ترکی ٹوپیاں اور عمامے دوش بدوش نظر آتے تھے، یہ پہلا ہی موقع تھا کہ مقدس علماء عیسائی فرماں روا کے سامنے دلی شکر گذراری کے ساتھ ادب سے خم تھے۔ یہ پہلا ہی موقع تھا کہ شیعہ و سنی ایک مذہبی درسگاہ کی رسم ادا کرنے میں برابر شریک تھے، یہ پہلا ہی موقع تھا کہ ایک مذہبی درسگاہ کا سنگ بنیاد ایک غیر مذہب کے ہاتھ سے رکھا جارہا تھا۔ (مسجد نبوی کا ممبر بھی ایک نصرانی نے بنایا تھا)غرض یہ پہلا ہی موقع تھا کہ ایک مذہبی سقف کے نیچے نصرانی، مسلمان، شیعہ، سنی، حنفی، وہابی، رند، زاہد، صوفی، واعظ، خرقہ پوش اور کجکلاہ سب جمع تھے۔ ع
    آباد ایک گھر ہے جہان خراب میں
    ہز آنر لفٹنٹ گونر بہادر ممالک متحدہ نے منظور فرمایا کہ وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کا سنگ بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھیں گے۔ یہ تقریب ۲۸؍نومبر ۱۹۰۸ء ؁ کو عمل میں آئی، چونکہ ندوہ کا سالانہ جلسہ بھی انھیں تاریخوں میں ہونے والا تھا اس لیے دوطرفہ کشش کی وجہ سے گویا تمام ہندوستان امڈ آیا، افسوس یہ ہے کہ یہ کوئی تعطیل کا زمانہ نہ تھا ورنہ شاید منتظمین جلسہ انتظام مہمانداری میں ہار جاتے۔معزز شرکائے جلسہ علماء میں سے مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولوی شاہ ابوالخیر صاحب غازی پوری، مولانا ذاکر حسین صاحب، مولوی ابن حسن صاحب مجتہد العصر، مولوی شاہ سلیمان صاحب پھلواری،مولوی نظام الدین صاحب جھجھر ی، مولوی مسیح الزماں خان صاحب استاذ حضور نظام، (مولاناحبیب الرحمن خان شیروانی) اور ارباب وجاہت میں سے جناب آنر یبل راجہ صاحب محمود آباد، جناب سر راجہ جہانگیر آباد، نواب وقار الملک، کرنل عبدالمجید خان منسٹر پٹیالہ،صاحبزادہ آفتاب احمد خان، شیخ عبدالقادر بیرسٹر، حاجی محمد موسی خان صاحب رئیس علی گڑھ، خان بہادر سید جعفر حسین صاحب، مولوی محمد حسین صاحب مقبہ رئیس بمبئی، بابو نظام الدین رئیس امرتسر، حاجی شمس الدین صاحب سیکریٹری حمایت الاسلام لاہور،مرزا ظفر اللہ خان صاحب سب جج جالندھر، شیخ سلطان احمد رئیس ہوشیار پور، خان بہادر شیخ غلام صادق صاحب رئیس امرتسر، راجہ نوشاد علی خان صاحب، صفی الدولہ نواب علی حسن خان لکھنؤ حافظ نذرالرحمن صاحب رئیس عظیم آباد جلسہ میں شریک تھے۔
    تین بجے سے ذرا پہلے تمام لوگ بہ اسلوب بیٹھ گئے اور ارکانِ انتظامیہ ندوہ ہز آنر کے استقبال کے لیے لب فرش دورویہ صف باندھ کر کھڑے ہوگئے، کمشنر صاحب لکھنؤ نے سیکریٹری دارالعلوم (شبلی نعمانی)کو لیفٹنٹ گورنر صاحب بہادر سے ملایا، اور پھر سیکریٹری موصوف نے تمام ارکانِ انتظامیہ کا ایک ایک کرکے لیفٹنٹ گورنر سے تعارف کرایا، اول دارالعلوم کے قاری نے قرآن مجید کی چند آیتیں تلاوت کیں، پھر شاہ سلیمان صاحب پھلواری نے ہز آنر سے ایڈرس پڑھنے کی اجازت طلب کی مولوی مشیر حسین قدوئی نے ایڈرس پڑھا ہز آنر نے نہایت خوش لہجگی اور صفائی سے ایڈریس کا جواب دیا۔ مولوی خلیل الرحمن صاحب نے عربی ایڈریس جو ساطن پر چھپا ہوا تھازریں کار چوبی خریطہ میں رکھ کر پیش کیا، ہز آنر نے خود اپنے ہاتھ میں لے کر ایڈکانگ کے حوالے کیا پھر سنگ بنیاد نصب کرنے کے لیے تشریف لے گئے، اور مولوی شاہ ابوالخیر، کرنل عبدالمجید خان صاحب آنریبل راجہ صاحب محمود آباد، نواب وقارالملک، حافظ عبدالحلیم صاحب رئیس کانپور، نواب علی حسن خان رئیس بھوپال،منشی احتشام علی صاحب رئیس کاکوری،منشی اطہر علی صاحب وکیل لکھنؤ، حکیم عبدالعزیز ساحب، حکیم عبدالولی صاحب، مولوی نسیم صاحب، وکیل اور مولانا شیروانی ان کے ساتھ گئے، سنگ بنیاد کے نصب کرنے کے وقت دوبارہ قاری صاحب نے قرآن مجید کی تلاوت کی واپسی کے وقت ارکان انتظامیہ نے موٹر کار تک مشایعت کی،اور یہ دلفریب تماشا ختم ہوگیا''۔
     
  6. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    یہ ہے مولانا شبلی اور مولانا سید سلیمان ندوی کی تحریروں کا ایک اقتباس، دیکھئے مجبوریوں پر جشن مسرت منایا جاتا ہے، وہ استعمار جس نے بر صغیر کی امت مسلمہ کو اس کے مقدسات، اس کی آن بان اس کی شان و شوکت حکومت و سلطنت کو برباد کردیا تھا اور قتل عام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، تعلیم ثقافت سماج عزت و آبرو سب کو خاک میں ملا دیا، مگر ۱۹۴۲ء ؁میں لکھی جانے والی کتاب میں جب کہ استعمار کی چولیں ہل گئی تھیں کس طرح استعمار کی آقائیت علماء و جہاء امت تسلیم کر رہے ہیں، اور ایک دینی ادارے کا ایک کافر استعمار کے کافر عیسائی گورنر سے سنگ بنیاد رکھوا رہے ہیں اور ظالم کے سامنے دورویہ قطار میں کھڑے ہیں،زمین اور تعمیری مصارف کے لیے اس سے التجا کرتے ہیں، سید سلیمان ندوی کے اس مسرت کا اظہار اور ظاہری سنگ بنیاد کے الفاظ دیکھئے دوہری سوچ کی آئینہ دار۔ سید سلیمان ندوی صاحب فرماتے ہیں دارالعلوم فرنگی محل لکھنؤ ایک انگریز کے محل میں قائم ہوا اس لیے اسے فرنگی محل قرار دیا گیا اور فرنگی محلی علماء اس سے منسوب ہوئے، سید سلیمان کی نظر میں وہ سب سے بڑا دارالعلوم تھا ان کے الفاظ میں حسن اتفاق کہ ندوہ کا سنگ بنیاد'' ہز آنر گورنر'' نے رکھی اس لی ندوہ بھی فرنگی محلی ہے،اکبر الہ آبادی نے اس پر یہ شعر کہا تھا۔
    رکھی بنائے ندوہ ہزآنر نے آکے خود سچ پوچھیے اگر تو فرنگی محل ہے یہ
    سلمان صاحب گھر کی خبر لیجئے جس آشیانے سے چہچہاتے ہیں وہ فرنگی محل ثانی ہے اور اس کی زمین انگریز کی عطا کردہ ہے اور پانچ سو روپئے ماہوار استعمار سے اسے ملتے تھے،کہیے اس تاریخی پس منظر کو رکھنے کے بعداور ندوہ کی بنیاد ایک عیسائی سے رکھوانے کے بعد سعودی عرب کے خلاف چوں چاں کرنے کی جناب کے لیے گنجائش ہے، اپنے تصرفات صحیح یاغلط انسان کو بڑے پیارے لگتے ہیں اور اگر کسی سے حسد و نفرت ہو تو اس کے سارے تصرفات غلط لگتے ہیں۔ سعودی عرب تو کبھی اتنا نہیں گرا جس قدر استعمار کے سامنے گرنے کا منظر اس اقتباس میں ہے۔
     
  7. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    ۱۳۔ آل سعود کو سلمان صاحب گالی دیتے ہیں، کہ کیا سعودی عرب تمہارے باپ کا ہے، عامیانہ لب و لہجہ اور اسلوب ملاحظہ ہو، اور یہی سوال خالی کھوپڑی والے کرتے ہیں، یہ سوال سعودی عرب ہی سے کیوں؟ کیا اسلامی ریاست آل امیہ کی ملکیت تھی؟ آل عباس کی ملکیت تھی؟ آل عثمان کی ملکیت تھی؟ کیا ہندوستان مغلوں کی ذاتی جائداد تھی؟ یہ سوال تو ۱۳؍سو سالہ تاریخ میں ہر خطے اور ہر جگہ قائم خاندانی شخصی حکومتوں سے کی جا سکتی ہے، پھر یہ عنایتیں سعودی عرب پر کیوں؟ سعودی حکومت اپنے نظام اعمال کا رکردگی اور دستور ہر اعتبار سے آل سعود کی ملکیت اور حکمرانی کا استحقاق رکھتا ہے اور اس کی شرعیت طے اور اس کے خلاف باغیانہ تیور حرام ہیں۔
    سعودی عوام عشائر امراء علماء اور خواص سلطان کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں، شرعا اسے اپنا رہبر رہنما اور حکمراں تسلیم کرتے ہیں، فرنگی محل ثانی میں بیٹھ کر دور سے تیر چھوڑنا کیسے روا ہے؟ ایک چھوٹے سے ادارے کے لیے استعمار کافر کی آقائیت تسلیم کرنے والوں کے لیے بہت آسان ہے کہ ایک نیک نام کتاب وسنت، کو دستور بنانے والے حکمرانی گھرانے کی حکمراں کی حیثیت تسلیم نہ کریں، اگر یہ تسلیم نہیں ہے تو ''حق گو'' سلمان صاحب کل پھاؤڑا اٹھائیے اور ندوہ کو کھود کر پھینک دیجئے اور جہاد اعظم کا ثبوت دیجئے اور اعلان کر دیجئے ندوہ ہمیں تسلیم نہیں یہ دوسرا فرنگی محل ہے، اسے زمین ایک فرنگی آقانے دی فرنگی آقا نے اسے ۵؍سو ماہوار روپئے وظیفہ دیا اور ندوہ جیسے ایک دینی ادارے کی سنگ بنیاد ایک فرنگی استعماری کافر عیسائی صوبائی گورنر نے رکھی۔ اور علماء وو جہاء نے اس پر رو نے کے بجائے جشن مسرت منایا۔حق گو صاحب کو چاہیے کہ ندوہ کی سند پھاڑ کر پھینک دیں کہ اس سے برطانوی استعمار کی بو آتی ہے اور جامعۃالامام کی بھی سند پھاڑ کر پھینک دیں کہ انھیں امریکیت کی بو آتی ہے، اگر یہ ہمت نہیں ہے تو پھر خاموشی اختیار کریں اور اپنے پھکڑ پن کا ڈھول مت پیٹیں اور بزرگوں کی قبریں نہ کھودیں۔
    اس موقع پر ہم سوال کریں گے اگر آل سعود کی سعودی عرب پر حکمرانی آپ کے لیے قابل اعتراض ہے تو اس اعتراض کا جواب دیں، ندوہ کیا سید عبدالحئی کا تھا؟ ساری جدوجہد مختلف جماعتوں کے علماء کی تھی خصوصا مولانا شبلی کی، ۱۹۱۲ء سے ان کا اس پر قبضہ ہو گیا اور ایک صدی سے اس پر ان کی آل اولاد کا قبضہ بنا ہوا ہے۔ اس کا جواز آپ کہاں سے پیش کریں گے، یہاں کے لوگ خیراتی اداروں پر مملکتوں اور سلطنتوں کی طرح جاگیردارانہ قبضہ جمائے بیٹھے ہوئے ہیں اسے واگذار کرنے کے خیال سے جان نکلتی ہے اس پر قبضہ جمانے کے لیے ہزار بہانے اور عیاریاں ہوتی ہیں۔ سلمان صاحب کو معلوم ہوگا اگر کبھی خطرہ ہوا کہ اس پر دوسروں کا قبضہ ہو جائے گا تو زاہدانہ عیاری سے ان کے پر کاٹے گئے۔مولانا عمران خان صاحب سے خطرہ تھا کہ وہ ندوہ پر حاوی نہ ہو جائیں علی میاں نے کس چالاکی سے ان کے پر کاٹے اس کی تفصیل حیات عمران تالیف ڈاکٹر مسعودالرحمن خان ازہریؔ میں پڑھ لیجئے۔
    اور ''خاتون منزل'' کس نے ندوہ کو خرید کر دی حبیب اور مجیب کے ابا جان نے لیکن کس کی ملکیت میں داخل ہے، یہ ایک ہندو کی ڈیوڑھی تھی گولہ گنج میں اسے آج سے سو سال پہلے نو ہزار روپئے میں خرید کر ندوہ کو دیا گیا تھا۔

    اور کٹولی کا مدرسہ کیا اس پر سلمان کے جیب سے خرچ ہوا۔ ملت کا ادارہ ہے ذاتی ملکیت نہیں، پھر اس پر ملکیت کی چھاپ کیوں، سوال صرف آل سعود ہی سے نہیں؟ یہی سوال تمام خیراتی چھوٹے بڑے اداروں کے متعلق ہو سکتا ہے؟ جمعیۃ العلماء کی جاگیرداری کا حال، دارالعلوم دیوبند رجسٹرڈ اور وقف مظاہر العلوم رجسٹرڈاور وقف کا حال کسے معلوم نہیں۔
    اور سوال پوچھنا ہی ٹھہرا تو اردن کے کنگ سے پوچھئے،شام کے بشار سے پوچھئے، مراکش کے ملک سے پوچھئے، عرب امارات سے پوچھئے، کویت سے پوچھئے، بحرین سے پوچھئے، عمان سے پوچھئے اور قطر سے پوچھئے، برونائی کے سلطان سے پوچھئے۔

    ایں گناہیست کہ در شہر شمانیز کنند
    سعودی عرب کے آل سعود کے لیے حکمرانی کی شرعیت ثابت ہے، ان کی عوام ان کو حکمراں تسلیم کرتی ہے۔ جیسا کہ وضاحت ہوئی، آل عبدالحئی کے گھرانے میں ندوہ کی نظامت کا کیا شرعی جواز ہے۔ حکومت بڑی چیز ہے بکھراؤ اور فساد سے بچنے کے لیے خاندانی و شخصی ہو تب بھی اس کیشرعیت اور خاندانی وشخصی ملکیت کے لیے جواز کی راہیں نکالی گئی ہیں مگر ایک چھوٹے ادارے کی نظامت کے خاندانی اور شخصی ہونے کا کیا جواز ہے۔
    شیشے کے گھر میں رہ کر دوسروں کے اوپر سنگ باری کا شوق صرف احمق پالتے ہیں۔
    شیشے کے مکاں میں رہتے ہیں ہاتھوں میں اٹھائے پتھرہیں دیوانو! ذرا ٹھہرو تو سہی پوچھو تو یہ کس کی بستی ہے
    ۱۴۔ در اصل یہ پرانی رافضی اور قبوری راگنی ہے جو حرمین کی تدویل اور انٹر نیشنل ژون قرار دیئے جانے کی کبھی کبھار مانگ کی جاتی ہے۔ حرم کعبہ کو تین سو سال تک یہ حیثیت حاصل رہی حرم کعبہ میں چار مصلے بنے ہوئے تھے، اس کے چار ٹکڑے تھے، حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی۔ چاروں ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے، حرم میں یہ مذلوجی حرکت تین سو سال تک جاری رہی۔ کیا اب حرمین میں ۵۹؍مسلم ممالک کے ۵۹؍دفاتر اور مسلم اقلیتوں کے ۱۰۰؍دفاتر کھلوا کر وہان روزانہ فساد اور قتل و خونریزی جنگ و جدال کا ماحول بنانا چاہتے ہیں۔ اور وہاں نماز اور حج معطل کرنے کا ارادہ ہے؟
    دنیا کا کون سا ادارہ ہے یا ملک ہے جو سعودی عرب کی طرح شؤن الحرمین کا نظام چلا سکتا ہے؟ سلمان صاحب آپ چلائیں گے، آپ تو نہ شباب الاسلام چلا سکے، نہ اس کے زیر سایہ اسپتال چلا سکے۔رضوان ندوی کے بعد ان کے ادارے کو چلانا چاہا نہ کر سکے کٹولی کا ادارہ نہیں چل سکا، طبیہ کالج نہ چلا سکے، جسے در در گھومنے گھاٹ گھاٹ پانی پینے کی عادت ہے وہ ادارہ کیسے چلا سکتا ہے، ایسا انسان بس چندہ کر سکتا ہے اور خطیبانہ بڑ ہانک سکتا ہے۔
    جمعیۃا لعلماء والے چلائیں گے؟ جنھیں مکاری اور کانگریس کی چاپلوسی کے سوا کچھ آیا ہی نہیں، پھرقوم کو الو بناتے اور جیب و شکم بھرتے رہے۔ یا لڑتے رہے، ہر پانچ سال پر ایک نئی جمعیۃ العلماء کا جنم زمانے سے ہو رہا ہے، یا بریلی والے چلائیں گے یا فرنگی محل والے یا اجمیر کے گدی نشین، بہرائج، گلبرگہ، دیوا کے گدی نشین چلائیں گے۔
    ایران کو حرمین کے شؤن کو نہیں سونپیں گے، اگر ایسا ہوا تو ایک فائدہ ضرور ہوگا حلالہ اور متعہ کی دکان وہاں کثرت سے چلے گی، والعیاذ باللہ۔ شاہ فیصل نے غلاف کعبہ تیار کرنے کے لیے ایک سال مودودی کو ذمہ دار بنایا تھا، معلوم ہے انھوں نے کیا سیاست کھیلی تھی اور شرک کروایا تھا؟ اس تجربے کے بعد بھی حرمین میں شراکت کی دہائی؟
    سلمان صاحب سعودی دشمنی میں اندھے مت بنو عقل کے ناخن لو، ورنہ رہا سہا خیر بھی ختم ہو جائے گا اور خیر ہی نہ ختم ہوگا پھر مدینہ کا پورا شہر ہری دوار بن جائے گا جیسے پہلے تھا۔
    سلطان عبدالعزیز نے حجاز کو استعمار کے آلۂ کار آل شریف سے آزاد کیا تو ۱۹۲۶ ء میں انٹرنیشنل خلافت کانفرنس منعقد کی تاکہ حجاز کا قضیہ عالمی اسلامی برادری کے ذریعہ حل ہو، ان کی خواہش بھی تھی اور مجبوری بھی کہ تمام دنیا سے آئے حاجیوں کے مسائل کو حل کرنا ان کی معیشت کے لیے ممکن نہ تھا، لیکن جب وہاں آئے وفود نے قبوں اور قبروں سے آگے بات کرنے کی صلاحیت کے فقدان کا مظاہرہ کیا اور قبوری مسائل ہی پر اڑے رہے تو سلطان کو ان سے بڑی مایوسی ہوئی اور سخت حیرت بھی۔ امت اسلامیہ کے چنیدہ لوگوں کی پہونچ بس یہیں تک ہے! سارے وفود ان کے لیے بھڑ بن گئے اور کانفرنس بلا کر انھوں نے جیسے بھڑ کا چھتا کھود دیا۔ آخر امام سیدمحمد رشید رضا رحمہ اللہ آئے اور ]قطعت جھیزۃ قول کل خطیب[ کی تعبیر بن گئے اور سارے مولوی بوریا بستر باندھ کر وہاں سے رخصت ہولئے، اور آج تک کسک محسوس کرتے ہیں، اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا نہ حل کہ سلطان حجاز کا مسئلہ اپنے ہاتھ میں لیں۔ وقت کی سب سے بڑی دانشمندی تھی کہ حجاز کا مسئلہ ہاتھ سے پھسلا نہیں، ورنہ اب تک حرمین کا حال ابتر سے ابتر ہو جاتا اور انتشار انار کی اجاڑ جنگ و جدل تکفیر فتوی بازی الگ الگ جماعتیں ان کا مقدر ہوتیں۔سارے مسلمانوں کو اللہ کا شکر یہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے سعودیہ جیسی صالح حکومت عطا کی جس نے حرمین کی خدمت کاحق ادا کردیا اور فتنہ ہائے گوناں گوں سے امت کو بچا لیا۔
    ۱۵۔سلمان صاحب کو اعتراض ہے کہ جزیرۃ العرب کا نام سعودی عرب کیوں رکھا گیا، سلمان صاحب یہ دھوکہ دے رہے ہیں کہ جزیرۃ العرب کی ایک دینی حیثیت ہے، اس کا نام سعودی عرب رکھ کر آل سعود نے بے دینی کا کام کیا ہے۔ واقعی زاہدوں کی چالیں بڑی باریک ہوتی ہیں۔ جزیرۃ العرب جغرافیائی اعتبار سے طے شدہ جہات اور خطوں پر مشتمل علاقے کا نام ہے، یہی اس کا نام ہے اسے کوئی نہیں بدل سکا، جب اس پر مدنی اسلامی ریاست کا اطلاق ہوتا تھا تب بھی یہ جزیرۃ العرب رہا، جب اس پر خلافت بکری، خلافت عمری خلافت عثمانی کا اطلاق ہوتا تھا تب بھی یہ جزیرۃ العرب رہا،جب اس خطے پر اموی سلطنت کا اطلاق ہوتا تھا تب بھی یہ جزیرۃ العرب تھا، جب عباسی سلطنت کا حصہ تھا اور اس پر عباسی سلطنت کا اطلاق ہوتا تھا تب بھی یہ جزیرۃ العرب تھا اور جب یہ عثمانی و شریفی حدودحکومت میں آتا تھا اور شریفی و عثمانی خطہ کہلاتا تھا تب بھی یہ جزیرۃ العرب تھا اور اب جب کہ جزیرۃ العرب سعودی عرب کا خطہ کہلاتا ہے تب بھی جزیرۃ العرب ہے۔ جس طرح پہلے حکومتوں کے خاص ناموں کے تحت آکر یہ حلقہ خاص جزیرۃ العرب تھا اسی طرح اب بھی حکومت کے خاص نام کے تحت رہ کر بھی جزیرۃ العرب ہے اس کے سوا اس کا نہ پہلے کوئی دوسرا نام تھا نہ اب بھی اس کا کوئی دوسرا نام ہے، سلمان صاحب جہل کا تماشا کر کے عوام کو گمراہ کرنے کا انجام اللہ کے نزدیک بہتر نہیں ہوگا، دجل و فریب اور جہالت پھیلانا اور جھوٹا پروپیگنڈہ کرنا درست نہیں ہے۔
    جزیرۃ العرب اگر ہزار ٹکڑوں میں بٹ جائے اور ہزار نام بھی رکھ دیئے جائیں تب بھی جزیرۃا لعرب کا طے شدہ جغرافیہ اس کی ہیئت جہات خطے کو جزیرۃ العرب کے نام سے ایک وحدت میں پرورکھے گا۔ اجتہاد کرکے کسی کے کھاتے میں غلطیاں ڈالنا کہاں کی شرافت اور علمیت ہے، غلطیاں تو حتی الامکان درگذر کی جاتی ہیں اور آج بزعم خویش علامہ اور فی الواقع لوّامہ حضرات کا یہی کام رہ گیا ہے کہ اجتہاد کرکے دوسروں کی غلطیوں کی فہرست لمبی کریں۔
    ۱۶۔سلمان صاحب کوناراضگی ہے کہ حجاز و نجد اور پورے علاقوں کا جن پر آل سعود کی حکومت ہے کیوں ''المملکۃ العربیۃ السعودیۃ'' نام رکھا گیا ہے، سلمان صاحب کی بد ذوقی پر افسوس ہوتا ہے کتنا خوبصورت نام ہے، حسین پرشکوہ موثر پر کشش۔ اس کانام آخر کیا رکھا جائے کیا اس کانام ''المملکۃ االعربیۃ السلمانیۃ'' رکھ دیا جائے۔ سارے ہندوپاک میں نائی اپنے آپ کو سلمانی کہتے ہیں۔ اس طرح تو اشتباہ ہوگا، یہ نائیوں کی حکومت بن جائے گی۔ اور حرم کے آس پاس چھرا استرا والے اور منی میں موجودسارے سفٹی ریزر والے دعوی دار بن جائیں گے کہ یہ ہماری حکومت ہے پھرسلمان صاحب کو کیا ملے گا اور ہمیں بھی کچھ نہ ملے گا میں بھی ابو سلمان ہوں۔
    سلمان صاحب شگوفہ چھوڑنے سے پہلے اپنے گھر کو دیکھ لیں آپ نے ڈالی گنج میں دفتر شبابِ اسلام کے پاس ایک معمولی سا مستوصف کھول رکھا ہے اس کے کئی نام ہیں، موسم کے مطابق ناموں کی تختی بدلتی رہتی ہے۔ اس کا ایک نام مولانا ابوالحسن علی ندوی کے ساتھ موسوم ہے۔ کٹولی میں طبیہ کالج کا نام ڈاکٹر عبدالعلی طبیہ کالج ہے، کیوں نانا کے نام پر طبیہ کالج اور چھوٹے نانا کے نام پر مستوصف نما اسپتال؟ آپ اپنی محدود وسعت اور اپنی پہونچ کے دائرے میں اپنے اداروں کا نام باپ دادا کے نام پر رکھتے ہیں اگر دوسرے کا دائرہ زیادہ وسیع ہو اور اس کی پہونچ حکومت تک ہے اور وہ اس کانام اپنے باپ دادا کے نام پررکھے تو آپ کو اعتراض کا حق کہاں ملتا ہے، اگر آپ کو ایسا موقع ملے تو آپ اپنے گھوڑے اصطبل اور محل کا نام بھی سلمان رکھ دیں گے اور گلاس پلیٹ کا نام بھی سلمان رکھ دیں گے، علاقے میں پانی کی لہروں ہوا کے تھپیڑوں اور سورج کی شعاؤں کا بھی سلمان نام رکھ دیں گے۔ آپ کے نفس ناطقہ اور مجنونانہ خود پرستی سے اس سے زائد توقع کی جا سکتی ہے۔آپ کو بنی امیہ، بنی عباس، آل عثمان، مغل اور دیگرا خاندانی شخصی ناموں سے معروف حکومتوں پر اعتراض نہیں آپ کی نگاہ میں آل سعود کیوں خار کی طرح کھٹکتے ہیں، اس لیے کہ وہ آپ کے محسن ہیں اور آل لئیم ہیں۔
    ۱۷۔ سلمان صاحب کہتے ہیں سعودی حکمراں بدو ہیں، انہیں عربی نہیں آتی وہ خود پڑھ لکھ نہیں سکتے بدورہ کر انھوں نے ایسی شاندار حکومت کی ہے تو اور زیادہ قابل تعریف ہیں۔ آپ تو سید ہو کر صدقات و خیرات کھانے کے لیے رہ گئے ہیں۔ آپ کے بقول وہ بے علم ہیں، لیکن آپ جیسے کروڑوں کو خیرات کھلاتے ہیں اور آپ جیسے سید خیرات و صدقات و زکوۃ بٹورنے کے لیے ہیں۔
    اتنا بڑھا پاکئی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
    یہ بدو تمہارے ندوہ جیسے ہزاروں ندوہ سعودی عرب اور سارے عالم میں کھول دئے ہیں اور آپ جیسے ''عالم فاضل''علاّمہ خیرات بٹورنے کے لیے در در خاک چھاننے کے لیے اور مجنونانہ بڑ ہانکنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔پدی چلی ہے شاہینوں سے مقابلہ کرنے، جس کو اس کے کرتوت کے سبب ندوہ کا اکثر اسٹاف گالی دیتا ہے اور خائن و مکار کہتا ہے ایسے کروڑوں سلمان کو ایک امیر نایف پر قربان کردیا جائے تو شاید پھر بھی اس کی عظمت کا حق ادا نہ ہوگا۔
    اوررہ گیا علم تو تمہارے تصوف اورتقلیدی مجروح زخمی مریض علم کی حیثیت کیا اسے ایک صحت مند عقیدہ کا اُمی بھی فضا میں پھونک کر تحلیل کرے گا اور رہ گئی علم کی بات تو پورے آل سعود میں اور ان کے پیدا کردہ اداروں کی علم کی ایسی مثالیں ہیں کہ دنیا میں کہیں اس کی کوئی مثال نہیں۔
    علم جانکاری کا نام نہیں علم نام ہے کہ رگ وپے میں سما جائے اور مستی کردار بن جائے۔ آل سعود کے بزرگوں کا علم اسی قسم کا تھا اور سید احمد شہید کا علم بھی اسی طرح کا تھا ان سب کا علم علم لوّامہ نہ تھا۔ چند حرف پڑھ کر ظرف چھلکا جارہا ہے اور خود کوزمانے کے کاروانِ علم کا حدی خواں سمجھ لیاگیاہے۔
    ۱۸۔سعودی عرب میں ساری برائیاں ہیں یہودی کمپنیان مکہ و مدینہ میں ہیں ان کے ہوٹل ہیں۔ یہ بھی بدنام کرنے کی ایک سازش ہے ایک نام کے بہت سے برانچ ہوتے ہیں اور ہر برانچ کا الگ مالک ہو سکتا ہے، کیا ان کمپنیوں اور ہوٹلوں میں جو حرمین میں ہیں شراب پلائی جاتی ہے، سور کھلایا جاتا ہے، زناکاری ہوتی ہے، اگر کمپنی اور ہوٹل کا ہم نام ہونا یہودی اور نصرانی کے وجود کی دلیل ہے تو یہودی نصرانی کمپنیوں کے نام سے ان کے پروڈکٹ ہمارے گھروں میں ان گنت موجودرہتے ہیں۔ کپڑے، کوسمیٹکس، ٹویلیٹرز، بسکٹ، مشروبات، عطریات، کچن کے سامان برتن گاڑیاں جوتے، کپڑے، موزے اور نہ معلوم کیا کیا اشیاء استعمال ہیں، کیا ہمارے گھروں میں یہودی عیسائی بس گئے ہیں اور ان کی ساری برائیاں ہمارے گھروں میں براہ راست انجام پارہی ہیں، یہی نِری ملائیت ہے، اگر یہی لاجک ہے ہماری گفتگو کی تو پہلے ہم اپنے گھروں سے صفائی کی مہم شروع کریں، نادانی جب بولتی ہے تو حماقتیں ہی حماقتیں سرزد ہوتی ہیں۔
     
  8. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    ۔ سلمان صاحب چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا کر امت کی تسلی کا سامان بہم پہونچانا چاہتے ہیں، پہلے اپنے نجات کی فکر کریں اور گپ ہانکنا چھوڑدیں۔ گپ کواپنی چرب زبانی سے حقیقت منوا کر آپ کیا کمائی کر لیں گے۔ آپ کے سوالات ایک کم فہم کی بڑ کے سوا کیا ہیں جن کے جوابات کی ضرورت ہو۔ کسی کے گپ اور جھوٹ کا جواب دینا کوئی کام نہیں ہے بلکہ گپی کے جذبۂ تفاخراور کبر کو تسلی دینا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ بد قسمتی ہے کہ ایسی تحریرں پڑھنی پڑیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں جن میں صرف تعلی اور اکڑ ہے۔گالی بازوں کوکوئی گالی کیا دے اس پر اسی کا چہری آئینے میں دکھلایا جاسکتا ہے۔
    حقیقت پسند انسان کے سوالات کے جوابات اس کے ضمیر کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ ''استفت قلبک'' فرمانِ رسول ہے۔ لیکن جب انسان عناد کا شکار ہوتا ہے تو اپنے ضمیر کے اندر جھانکتا نہیں ہے وہ باہر جنگ و جدال برپا کرتا ہے جناب اقبال کا شعرپڑھیں:
    اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
    ۲۴۔ آخری بات سلمان صاحب آپ کیا کرتے ہیں، کتنا سچے ہیں، کتنا باصلاحیت ہیں، کتنا ایمان دار ہیں کتنا حق گو ہیں۔ ہمیں اس سے مطلب نہیں ہے آپ اور آپ کے ساتھی کیا کہتے ہیں، یہ ہماراموضوع نہیں، ہمیں مجبوراآپ کی ہیکڑی پر لگام لگانے کے لیے ان موضوعات کو چھیڑنا پڑا ہے۔ہم اس سے خوش نہیں ہیں۔ہمارے گردو پیش اتنی بلائیں ہیں کہ گھر اور محلے کے مسائل حل نہیں ہوتے اور بلائیں دور نہیں ہوتیں اور آپتحریکی سرپھروں کی طرح بلاوجہ بلائیں پیدا کرتے ہیں اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے الجھن کا سامان بنتے ہیں یہ مناسب نہیں۔ یہ ہر سمجھ دار انسان کا مانناہے کہ اس گئی گذری انسانی بھیڑ میں سعودی عرب بسا غنیمت ہے اور آپ ہیں کہ اسی درخت کی جڑ کاٹنے کو سب سے بہتر کام سمجھ رہے ہیں۔ اور ہر انبوہ بے شعور اور فتنہ و فساد کے جمگھٹے میں فساد کے شعلے بھڑکانے پر لگے ہوئے ہیں۔ اگر آپ کو ''حق گوئی'' کا ریکارڈ قائم کرنا ہے اور آپ پر ''حق گو'' کا ٹائٹل حاصل کرنے کا بھوت سوار ہے تو آپ کو اس کے لیے ہندوبیرون ہند ان گنت عنوانات مل سکتے ہیں، نشان خیر اور خیر کی پوری شاندار تاریخ کو زیرو بنانے سے بارگاہِ الہی سے آپ کو حق گوئی کی سند نہیں مل سکتی بالکل عین ممکن ہے اس کے ہاں مجرم شمار ہوں۔
    اس بیسویں صدی میں دس فیصد حق کی طرف داری اور حق پرستی پر استقامت سے کسی بھی مسلمان کو کامیابی مل سکتی ہے، اس اصول کو سامنے رکھیں، اور حق جہاں بھی ہو اسے پہچانیں اور اس کا اعتراف کریں، حق آپ کے ناک کی مکھی نہیں کہ ناک کی خاطر اسے جھاڑتے رہیں، ہر شئے کو ناک کا مسئلہ نہ بنائیں اور بنائیں بھی تو نقصان کس کا ہوگا خود تباہی آپ کا مقدر بن جائے گی۔ ہر ایک کی ایک لمٹ ہوتی ہے آپ اس حدیث پر نگاہ رکھیں:
    عن عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ [ مامنکم من أحد الاسیکلمہ ربہ لیس بینہ، وبینہ ترجمان، فینظر أیمن منہ، فلایری الاماقدم، وینظر أشأم منہ فلا یری ماقدم، وینظربین یدیہ فلایری الا النار تلقاء وجھہ فاتقوا النار ولوبشق تمرۃ] (متفق علیہ)

    بشکریہ / سرفرازفیضی
    (محدث فورم )
     
  9. ندوی

    ندوی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏نومبر 15, 2011
    پیغامات:
    49
    این چہ بوالعجبی است
     
  10. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    ندوی بھائی اردو میں لکھا کریں ۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آتی ۔ آپ تو ماشاء اللہ صاحب علم ہیں : ) ۔ الحمد للہ ، اس میں کوئی شک نہیں واقعی میں محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور آل سعود کی دعوت توحید کو تین سو سال ہونے والے ہیں‌۔ (بحوالہ ، ایک مظلواور بدنام مصلح ، مسعود عالم ندوی رحمہ اللہ ) بلاشبہ شاندار اور مثالی حکومت رہی ـ اس کے برعکس عثمانی حکومت کے دورخلافت میں شرک و بدعات کو فروغ، مزاروں اور قبروں پر قبے ، درختوں کی پوجا ، مسجدالحرام میں احناف کا ایک الگ سے مصلی ـ وغیرہ ـ دعوت توحید کا نام و نشان نہیں ، البتہ اسماء و صفات میں الحاد ، تقلید جامد اور بدعات کے فروغ میں اس حکومت نے بھرپور کردار ادا کیا ـ یقننا آل سعود رحمہ اللہ کی حکومت میں امت مسلمہ کو جو فائدہ ہواوہ عثمانیہ خلافت میں کبھی نہیں پہنچا ـ
     
  11. ندوی

    ندوی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏نومبر 15, 2011
    پیغامات:
    49
    مولانا عبدالمعید مدنی اورآپ کا یہ جملہ ہمیں صرف مغلیہ حکومت کے دور آخر میں شاہ عالم اوربہادرشاہ ظفر کے درباری شاعروں‌کی قصیدہ گوئیوں‌کی یادد لاتاہے کہ ایک جانب تو عوام کی زبان پر یہ لطیفہ عام تھا’’حکومت شاہ عالم ازدہلی تاپالم
    دوسری جانب اسی حکومت کےدربار ان کو پوری دنیا کا شہنشاہ،چاند وسورج سے خراج وصول کرنے والا بتارہے تھے۔آپ بھی اورمعید مدنی صاحب بھی یہی کام کررہے ہیں۔ کرتے رہیں‌۔اس سے کوئی فرق نہیں‌پڑتا
    آپ حضرات کی تفکیر میں‌بنیادی خرابی یہ ہے کہ آپ سعودی حکومت کے اچھے کاموں کو ان کے برے کاموں‌کیلئے ڈھال بناتے ہیں جب کہ ہونایہ چاہئے تھاکہ اچھے کاموں‌ کی تعریف کی جاتی اوربرے کاموں کی مذمت کی جاتی۔ اگرکوئی سعودی حکومت کے غلط کاموں‌پر تنقید کرتاہے توآپ حضرات سعودی حکومت کی خدمات گنواناشروع کردیتے ہیں۔
    دوسری بنیادی بات یہ یاد رہے جیساکہ مولانا معید مدنی نے کہاکہ سعودی حکومت نے جوکچھ کیاوہ اس کا داخلی معاملہ ہے۔ اگربات یہی ہے توپھر امریکہ اورمغربی ممالک پر تنقید کس لئے۔ یہی معید مدنی صاحب ایران اورشام پر پھر کیوں‌برستے اورگرجتے ہیں۔کیاوہ ان کا داخلی معاملہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کے سیاسی پالیسیوں اورپپلوئوں‌پر تنقید ہوسکتی ہے بالخصوص جب کہ وہ حکومت خود کو کتاب وست پر عمل کا دعوی کرے تواس کی پالیسیوں‌پر تنقید زیادہ شدت سے ہوگی۔جس طرح‌ہم کسی عالم کی غلطی کو زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں ۔اسی طرح سعودی حکومت کے مصر کی مرسی حکومت کی برطرفی کے نتیجہ میں اقدامات انتہائی غلط ہیں۔اوراسی کے ساتھ شامی مظٌلومین سے ہمدردی کا سعودی حکومت کا پول بھی کھل جاتاہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں‌کہ مرسی حکومت نے شامی حکومت کے اقدامات کی علی الاعلان مذمت کی تھی۔ ان پر حکومتی دبائو ڈالاتھا اورمتاثرین کی امداد کی کوشش کی تھی لیکن سعودی تعاون سے وجود میں آنے والی سیسی حکومت شامی متاثرین کے تعلق سے بالکل غیرجانبدارہے اورمولانا معید مدنی کی طرح‌اس کو شامی حکومت کا داخلی معاملہ بتارہی ہے توہمیں بتائیں کہ شامی مظلومین کا فائدہ کس کی حکومت میں تھا مرسی کی حکومت میں یاسیسی کی حکومت میں۔
    معید مدنی اوراسی قسم کے حاشیہ بردار حضرات مولان سلمان ندوی کو یہ طعنہ بھی دیتے ہیں‌کہ انہوں‌نے سعودی میں تعلیم حاصل کی اوراب اسی کے خلاف صف آراء‌ہیں۔
    سوال یہ ہے کہ سعودی حکومت کے غلط اقدامات کو غلط بتانا احسان کشی ہے یاغلط اقدامات پر بھی غٌط کار کی حمایت کرناغلط ہے۔امام الجرح والتعدیل نے ایک ایسے شخص‌کو کذاب بتایاجوان کے مصارف کا کفیل تھا جب اس سے کہاگیاکہ وہ آُپ کے مصارف کا کفیل اورنگراں‌ہے توفرمایامیں اس کوجانتاہوں‌لیکن وہ کذاب ہے۔ یہی تعلیم ہمیں اسلام نے بھی دہے کہ برائی کو برائی کی نیت سے دیکھاجائے ۔یہ نہ دیکھاجائے کہ کرنے والا سعودی ہے یاامریکی ہے۔ اوراگرسعودی حکومت نے کچھ غلط اقدام کیاہے توسعودی حکومت کاصحیح معنوں‌میں‌ہمدردوہ شخص ہےے جو اس غلطی پر اسے روکے ٹوکے، اس کو بتائے کہ تمہارایہ اقدام،تمہارایہ فعل قطعاغلط ہے۔ غلط کو صحیح‌کہنے والے درباری علماء ہوسکتے ہیں۔چاپلوسی کرنے والے ہوسکتے ہیں اورمفاد پرست ہوسکتے ہیں لیکن سعودی حکومت کے حقیقی ہمدرد اورخیرخواہ نہیں ہوسکتے۔
    کہنے کو باتیں‌تواتنی ہیں کہ صفحات سیاہ کئے جاسکیں لیکن جب سامنے والا حقیقت سے آنکھ چرائے اور بحث کی بنیادی باتوں‌کا خیال کئے بغیر ادھر ادھر کی باتیں ہانکنے لگے تواس پرسوائے اس کے کیاکہاجاسکتاہے کہ لکم دینکم ولی دین
     
  12. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    : ) دوسروں کی باتیں قصیدہ گوئی ہی لگتی ہیں ، ورنہ امام اعظم سے لیکردیوبند تک جو قصیدہ گوئی حنفیوں نے کی ، وہ ہر شخص جانتا ہے ۔باقی آپ‌خود سمجھدار ہیں ۔
    حیرت ہے ، کونسے برے کام؟؟ زیادہ نہیں دوچار ہی گنوا دیں تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ سلمان ندوی صاحب کیوں اپنے اسلاف کا نام روشن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
    جائز تنقید ہو سکتی ہے ۔ لیکن انسان کو اپنے اخلاق اوراسلوب پر بھی توجہ دین چاہیے ۔ ندوی صاحب کے اگر فنڈز بند ہوگئے ہیں تو جتنے لے چکے ان کو حلال کر لیں ۔
    بلاتبصرہ ۔ آپ نے جتنے الزمات لگائے ، اس پر ایک بھی دلیل نہیں دی ۔ جبکہ سلمان ندوی کی غلطیوں کی تو پوری ویڈوز یوٹیوب پر موجود ہیں ۔ ندوی بھائی جو سبق آپ ہمیں پڑھانے کی کوشش کر رہےہیں ، ایک کلاس سلمان ندوی صاحب کی بھی لے لیں ۔
     
  13. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    اللہ عز وجل فضلائے ندوہ کو ہدایت دے ، اپنی نہ سہی اپنی مادرعلمی کی لاج رکھ لیجیے ۔ اس طفلانہ تجزئیے پر _سعودی مخالفت یا حمایت سے قطع نظر _ہر صاحب شعور ہنسے گا ۔ کسی ملک کی اندھی مخالفت میں اتنا بھی آگے نہ بڑھیے کہ دلائل میں ہر رطب و یابس اکٹھا کر دیں ۔
    میدان سیاست مفروضوں پر نہیں چلتا ، مرسی حکومت جیسی بھی تھی اپنی خوبیوں خامیوں سمیت اب قصہ پارینہ ہو چکی ہے ،آپ بیٹھے رہیں تصور " عہد رفتہ" کیے ہوئے ، کوئی پابندی نہیں، مصر کے علاوہ ہر ملک کی سڑکوں پر ایڑیاں رگڑ کر ضد کیجیے کہ ہمیں مرسی واپس چاہیے لیکن تاریخ کا پہیہ ایک بار پھر آپ کے رومانی انقلابی تصورات کو کچل کر آگے بڑھ چکا ہے، جن خوابوں کی تعبیر آپ سیاسی سوجھ بوجھ سے نہ پا سکے ان کو رو دھو کر دہائیاں دے کر پانا اب ممکن نہیں ۔سیاسی میدان میں مصر کی فوج سے ہار کر سعودی عرب کو کوسنا بالک ہٹ کے سوا کچھ نہیں ۔ ان کی تاریخ بتاتی ہے کہ زبردست حریف کسے گھبرا کر کسی بامروت مسلمان کو نشانے پر رکھ لینا ان کی عادت ہے ۔ سعودی حکومت جیسی بھی ہے اپنے ملک کی آپ حکمران ہے ، اپنی فوج سے جھگڑ کر پڑوس سے امداد کی اپیلیں نہیں کرتی ۔
    صاحب مضمون نے درست لکھا ہے کہ
    بعض لوگ واقعتا اسلامی انقلاب کے نام پر خود اذیتی میں مبتلا ہیں ، اس خود اذیتی کے دوروں میں ان کی توپوں کا رخ اغیار کی بجائے مسلمانوں کی سمت ہی رہتا ہے {تکفیری بیج سے پھوٹنے والے درختوں کی شاخیں ایسی ہی ہوں گی } ۔ انقلاب کے چکر میں ان کو اسلام بھولتا جا رہا ہے ۔ میڈیا میں ان رہنے کی خاطر دروغ گوئی اپنا چکے ، بہتان تراشی کے پروفیشنل ایکسپرٹ ان کے میڈیا کیمپ میں بھی تنخواہ پاتے ہیں ، شخصیات کے بت گھڑ کر تنظیمی فنڈز سے ان کے قد آدم پورٹریٹس لگانے سے لے کر ان کے یوم ولادت ، یوم وفات ، [ برتھ ڈے ، ڈیتھ اینورسری کے اسلامی نام ] سمیت یہاں سب کچھ ہوتا ہے اور باتیں کی جاتی ہیں اس خلافت کو واپس لانے کی جسے سیدنا ابوبکر صدیق و سیدنا عمر رضی اللہ عنہم نے قائم کیا تھا، ان انقلابیوں کی اسلامی تقریبات میں جا کر دیکھیے ،کس کو یاد ہے کہ خلیفہ منبر پر خطبہ دینے آتا تو لوگ اس کے لباس کے پیوند گننے میں ناکام ہو جاتے ۔ جس کے لمبے قد کی وجہ سے اس کے لباس کے لیے بیت المال سے ملی ایک چادر ناکافی تھی تو اس نے دوسری چادر لینے سے انکار کر دیا تھا یہاں تک کہ اس کے بیٹے نے اس کو اپنی چادر دے دی ۔ ان میں سے کون ہے جو یہ سوچے کہ ان کے شعبہ نشر و اشاعت کی خدمات میں٘مسلمانوں کے دامن پر کیچڑ اچھالنے کی خدمت کا تناسب ۸۰ فی صد کیوں جا رہا ہے ؟ کیا دنیا سے یہود و ہنود اٹھ گئے ہیں کہ ان کے ناپختہ نشانچی بات بات پر مسلمانوں کا نشانہ لیتے ہیں ؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی کینہ پرور فکری غلاظت کے گٹر ہر مہینے صرف مسلمانوں پر ابلتے ہیں ۔ اغیار کی جانب کے سب محاذ خالی ہیں ۔ جی نہیں چاہتا کہ ان پر وقت برباد کیا جائے ، ہمارا یومی وِرد اخوان ، انقلاب اور اطاعت امیر کی بجائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے اور ہمیں حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول یاد ہے کہ بندہ خدا سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ و ہ اللہ کے ہاں سچوں [صدیقون ] میں لکھ لیا جاتا ہے اورسگ زمانہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ جھوٹوں میں لکھ لیا جاتا ہے ۔
    انقلابیوں نے جدت کی چاہ میں گوئبلز سے پراپیگنڈا کے اصول تو سیکھ لیے یہ نہیں دیکھا کہ اس کا نام جس فہرست میں اول ہے اس کی پیشانی پر سگانِ زمانہ درج ہے ۔ عبرت کی جا ہے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  14. ندوی

    ندوی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏نومبر 15, 2011
    پیغامات:
    49
    شاید اس تمام کا مشارالیہ اخوان المسلمون ہے۔ شاید اس لئے کہ محترمہ ام نورالعین نے مشارالیہ کی وضاحت نہیں کی۔ اگراخوان المسلمون ہی اس کا مشارالیہ ہے توپھر اس پر زیادہ وقت ہم ضائع نہیں کریں‌گے کیونکہ اخوان المسلمون کی دینی اورفلاحی خدمات نہایت واضح‌ ہے۔ اخوان نے ساٹھ سالوں سے زیادہ آمریت کا پامردی سے مقابلہ کیاہے۔ قید وبند کی سختیاں جھیلیں ناحق الزامات پران کو پھانسی دی گئی لیکن کوئی لالچ،کوئی ڈر اورخوف ان کو راہ حق سے جدانہ کرسکی۔انہوں نے ان علماء کی طرح وطیرہ اختیار نہیں‌کیا جنہوں‌نے فتوی دینے سے پہلے ’معالی الملک‘کے چشم وابر اورتیور کا مطالعہ کرنا ضروری سمجھا۔جب صدام حسین ایران کے خلاف برسرپیکار تھا تو آنکھوں‌کا نور تھا۔جب یہی صدام کویت پڑچڑھائی کرنے کے بعد بقیہ عرب ممالک کوللکارنے لگا تو پھر اس کی بعث پارٹی میں ہرقسم کی دینی خرابیاں دکھائی جانے لگیں۔
    اس رویہ کا اگراخوان کی پامردی استقامت اوران کی ’مصائب میں الجھ کر مسکرانے کی فطرت‘سے تقابل کیاجائے تو اقبال کا شعر ذہن میں آجاتاہے
    پرواز ہے دونوں‌کی اسی ایک فضاء میں
    کرگس کا جہاں اورہے شاہیں کاجہاں اور
    سیاست مفروضوںسے ہی چلتی ہے کیونکہ سیاست ممکنات کا کھیل ہےاورامکان کا دائرہ مفروضہ سے ہی شروع ہوتاہے۔ پتہ نہیں یہ جملہ آپ نے کہاں سے سن لیا کہ سیاست مفروضوں سے نہیں چلتی۔اگرچھ مہینے کے قضیے کو ’’قصہ پارینہ‘“قراردیاجاناصحیح ہے توپھر امریکہ کے عراق وافغانستان پر حملوں کو ہم کیوں‌ نہیں‌بھولتے؟فلسطین کے قضیہ میں برطانیہ کے نفاق کو کیوں‌‌ فراموش کرتے ؟مغربی استعمار کے عالم اسلام کے خلاف سازشوں کو جو انیسویں صدی اوربیسویں صدی میں‌ہوئی کیوں‌طاق نسیاں‌پر نہیں رکھ دیتے۔اس کے علاوہ لاتعداد ماضی کے واقعات ہیں جن پر ہم آج بھی تنقید کرتے ہیں، اس کے پہلوئوں‌کاجائزہ لیتے ہیں۔ کس کی غلطی تھی کس کی خامی تھی اس کو یاد کرتے ہیں اورجس نے ملت اسلامیہ کے حق میں براکیااس کو کوستے ہیں۔ اقبال ڈیڑھ صدی بعد بھی میر جعفر اورصادق کو کیوں‌بھول نہیں گئے اورننگ آدم ننگ دیں ننگ وطن قراردے دیا۔
    آپ کی دعاپر ہم آمین کہتے ہیں اوراس کے ساتھ یہ مزید اضافہ کرتے ہیں‌کہ اے اللہ ہمیں‌حق بولنے کی اورحق سننے کی توفیق دے۔ کسی کی دادودہش ہمیں حق بولنے سے مانع نہ ہو۔ این دعاازمن وازجملہ جہاں آمین باد
    ویسے یہ تجزیہ توآپ کے نزدیک طفلانہ اوربچکانہ اورشاید مضحکہ خیز ہوگا لیکن ذرا یہ بتادیجئے کہ نیوز ایجنسیز اورکن اخباری ویب سائٹ اوراداروں کو آپ معتبر مانتی ہیں تاکہ انہی کے حوالہ سے کچھ ایسارقم کیاجائے۔ یاپھر ایساتونہیں کہ سارے صداقت اورحق بیانی سعودی عرب اورگلف کے اخبارات تک محدود ہوگئی ہے اوربقیہ پوری دنیاعلم حدیث کی اصطلاح میں غیرثقہ اورغیرمعتبر ہے۔
    اس جملہ پر توہنسنے کاحق بنتاہے لیکن صرف مسکرانے پر اکتفاءکیاجاتاہے۔ یہ ساری آتش بیانی، طویل طویل مضامین کس کیلئے لکھے جارہے ہیں۔ یہ لکھاجارہاہے کہ ندوی اوردیوبند کی ایک ایک اینٹ سعودی عرب کی امداد سے تعمیر ہوئی ہے۔ (جس زمانہ میں ندوہ اوردیوبند کی بنیاد رکھی گئی اس دور میں‌ہندوستان سے امداد سعودی عرب جایاکرتی تھی(
    مقصد یہ ہے کہ یہ سب کسی کی حمایت میں ہی لکھے توجارہے ہیں۔ سلمان ندوی صاحب کو نمک حرامی کا طعنہ دینے والے ’’نمک حلال‘‘ہی توکررہے ہیں ورنہ یہی بات کوئی قطر کے بارے میں‌لکھتا، عرب امارات کے بارے میں‌لکھتا یاکسی اورگلف کے ملک یادنیا کے کسی دوسرے ملک کے بارے میں‌ لکھتا۔ کوئی جوں‌ نہ رینگتی آپ لوگوں‌ پر۔ لیکن چونکہ تنقید یں سعودی عرب پر ہورہی ہیں لہذا کمرکس کر میدان میں اتراجارہاہے۔ یوٹیوب پر مولاناندوی کی غلطیون کے ویڈیوز کی اشاعت ہورہی ہے۔ فیس بک پر بھی ہنگامہ ہے۔خلاصہ کلام سعودی عرب سے قطع نظر کرنامشکل کام ہے کیونکہ ساری بات تووہیں سے شروع ہوئی ہے۔
    عکاشہ صاحب آپ تو سنجیدہ معلوم ہوتے ہیں!بحث‌میں بھی سنجیدگی کا خیال رکھئے۔ جب بات کسی ملک کی تواس کا تقابل بھی ملک سے ہی کرناچاہئے۔ تفریق لازم آتی ہے۔ مثلامیں‌کہوں‌ کہ میرے پاس سات کبوتر تھے تین مرگئے توکتنے بچے اس کا جواب چار کبوتر ہوگا چاربیل نہیں ۔ اگرکوئی سات کبوتر میں سے تین کے مرنے کو چار بیل باقی بچارہناسمجھتاہے تواس کو آپ خود کیاسمجھیں‌گے۔
    سعودی عرب کے سلسلے میں جب ہم نے تنقید کی تھی تواس کا جواب امام ابوحنیفہ اوردیوبند سے دیاگیاجب کہ سنجیدگی کا تقاضہ تھاکہ آپ حکومت عباسیہ، حکومت عثمانیہ،مغل حکومت،آل سلجوق اوردیگر حنفی سلطنتوں‌کا حوالہ دیتے اوربتاتے کہ دیکھوان حکومتوں‌کی تعریف میں حنفیوں‌نے کیاکیاقصیدہ آرائیاں کی ہیں ۔لیکن عربی محاورہ ’’سالت عن ابیہ فقال خالی شعیب‘‘ کے مصداق آپ کا جواب منطقی طرزاستدلال سے قطعاالگ تھا۔
    اگرآپ ہمیں دیکھاسکیں کہ کسی حنفی عالم نے سلطنت عباسیہ، عثمانیہ آل سلجوق ،مغل حکومت کی تعریف میں قصیدہ نگاری کی ہے توہمیں بھی حوالہ کے ساتھ ممنون کریں۔
    آپ تو وہیں رہتے ہیں بہت ساری باتیں معلوم ہوں‌گی۔ لیکن اگرپھر بھی اصرار ہے توہم سے دوبارہ عرض‌کیجئے تاکہ میں کھول کھول کر بیان کردوں ۔ میں تو اس لئے اوپن فورم میں بیان کرنے سے ہچکچارہاہوں کہ بہرحال عوام الناس ان چیزوں کو حد اعتدال میں نہیں‌رکھتے بلکہ ان کو انتہاتک پہنچادیتے ہیں لیکن اگرآپ کی ضد یہی رہی توپھر یہی سہی
    سلمان ندوی صاحب اسلاف کا نام واقعی روشن کررہے ہیں۔ ان کے خاندان میں جرات وہمت اورشجاعت وبہادری کی جوروایت رہی ہے اس کو انہوں‌ نے ایک بار پھر زندہ کردیاہے۔انہوں‌نے نفع ونقصان کی پرواہ کئے بغیر جس کو ضمیر کی آواز سمجھااسے پورے طورپر ظاہر کیا کیونکہ
    یہی رہاہے ازل سے قلندروں‌کا طریق
    ہاں ایک اورطریق معراج ربانی ،مبشرربانی اورعبدالمعید مدنی جیسوں کا رہاہے تواس کے بارے میں عرب شاعر بہت پہلے ہی کہہ گیاہے کہ

    خلق اللہ للخطوب أناسا ،
    وأناسا لقصعة و ثرید
    تواب یہ لوگ اپناقصعہ اورثرید حلال کررہے ہیں

    مولانا سلمان ندوی نے کونسی ناجائز تنقید کردی ہے۔ مولانا نے اولاصرف اسی بات پربحث‌کی تھی کہ مصری قضیہ میں سعودی عرب کی مصری فوج کی امداد غلط تھی اورمرسی حکومت کے تختہ الٹنے میں سعودی تعاون درست نہیں تھا۔ جب اہل حدیث حضرات نے ان پر بہتان تراشی شروع کی اوربے بنیاد الزامات لگانے لگے توبات کا دائرہ پھر نفس سعودی حکومت کے وجود اوراقدامات تک وسیع ہوتاہوگیااوریہ دائرہ دن بدن مزید وسیع ہورہاہے اوراس دائرہ کا سولیہ نشان مزید تیکھاہورہاہے۔اگرکوئی ایک جانب مولانا سلمان ندوی کے تمام انتقادات اورسلفیوں‌کو انتقادات کا مطالعہ کرلے تو وہ اس پر بشرط انصاف ضرور قائل ہوجائے گاکہ مولانا سلمان ندوی نے سلفیوں‌کے مقابلے میں اخلاق،عقل اورتہذیب کا دامن بہت مضبوطی سے تھامے رکھاہے۔
    ماقبل پیراگراف میں جوکچھ کہاگیاتھا اس پر اگرآپ کچھ دلیل مانگتے توایک معقول بات ہوتی لیکن اس پیراگراف میں‌جہاں‌کہاگیاہے کہ غلط کو صحیح‌کہنے والے چاپلوس اورمفاد پرست ہوتے ہیں ہمدردی اورخیرخواہ نہیں‌ہوتے دلیل کا مطالبہ کرنا بڑاعجیب سالگتاہے۔ کیااتنی واضح‌بات بھی دلیل کی محتاج ہے اس کی وضاحت خود ایک ثبوت ہے کہ
    آفتاب آمد دلیل آفتاب
    ماقبل میں لکم دینکم ولی دین کہنے کے بعد کچھ کہنا مناسب نہیں تھا لیکن جب ’’غلطی ہائے مضامین ‘‘دیکھے توپھر کچھ کہناضروری سمجھا۔
    سعودی حکومت دیگر حکومتوں‌کی طرح ایک حکومت ہے۔ اس کے اپنے سیاسی اورغیرسیاسی مفادات ہیں ۔حکومت کے دروبست پر قابض افراد ولی اللہ نہیں ایک عام انسان ہیں۔ اس میں دیگرانسانوعں‌کی طرح حرص وہوس لالچ مفاد پرستی خود غرضی ہے۔ لہذا کسی حکومت کی پالیسیوں‌کے دفاع کودین سمجھ لیاجائے توبڑی حیرت ہوتی ہے ایسے لوگوں‌ سے جن کا دعوی محض‌کتاب وسنت پر عمل کاہوتاہے۔جہاں تک سعودی حکومت کے غلط اقدامات کے نتائج ہیں توہ وہ آنے شروع ہوچکے ہیں اورگزرتے دنوں‌میں‌مزید واضح‌ہوں‌گے تب شاید آپ حضرات حقیقت کو کھلی آنکھوں‌ سے دیکھ کر مان لیں
    فسوف تری اذاانکشف الغبار
    افرس تحت رجلک ام حمار
    جہاں تک مصری تختہ پلٹ میں سعودی کردار کی بات ہے تو یہ صرف میری سلمان ندوی صاحب اورفضلائے ندوہ کی نہیں بلکہ پوری دنیا کی ہے جس کو عرف عام مین زبان خلق سے تعبیر کرتے ہیں جسے نقارہ خدابھی کہاجاتاہے۔
    بھلے ہی ہماری باتوں کوجھٹلادیں، ہماری باتوں‌کی تردید کردیں۔ مقالات ومضامین اوریوٹیوپ برویڈیواپ لوڈ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں‌کہ ہم جوکچھ کہہ رہے ہیں وہ سراپاخرافات ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ایعمی العالمون عن الضیاء
     
  15. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    فیس بک کے کسی ہنگامے سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے مجھے یہاں ندوہ کی گھڑی ہوئی اس گپ پر حیرت ہوئی تھی
    جوابی طومار میں آئیں بائیں شائیں تو خوب کی گئی ہے اس دعوے کی دلیل نہیں دی گئی ، معلوم ہوا اس کا بودا پن خود مدعی پر بھی عیاں ہے ۔ دوسروں کو سعودی حمایت کا طعنہ دینے والے خود کسی کی حمایت میں اندھا دھند گپیں تراشے جا رہے ہیں اور علمائے کرام کی ہجو گوئی میں شیطان کے بھائی بنے ہیں ۔

    ندوہ کی دستار فضیلت رکھنے والے سروں میں اتنا بھی بھیجا نہیں کہ وہ یہ جان سکیں کہ مرسی حکومت کا تختہ الٹنے میں سعودیوں کا کوئی ہاتھ نہیں ۔ اولا اس الزام کی دلیل لائیے باقی باتیں بعد میں ہوں گی ۔ سعودی عرب کا ہمیشہ سے معمول ہے مصر کی مالی امداد کرنا ، اس نے حسنی مبارک کے دور میں بھی یہ امداد جاری رکھی ،مرسی کے دور حکومت میں بھی امداد بھجوائی گئی بلکہ حسنی مبارک کے دور سے زیادہ کر دی گئی اور اب جب سیسی کی حکومت ہے تب بھی یہ امداد حسب معمول بھجوائی گئی ۔ امداد کی رائی کا پہاڑ بنانے والوں کی یا تو اپنی عقل خام ہے یا پھر وہ اپنا کشکول بھرنے کے لیے ایسے الزام تراش رہے ہیں اور طعنہ دوسروں کو دیتے ہیں قصعہ و ثرید کا ۔

    اچھی بات ہے قلندروں کا ضمیر مسلمانوں پر چاند ماری سے ہی خوش ہوتا ہے ، کسی مومن کا ضمیر ہوتا تو امت مسلمہ کے درد میں تڑپتا اور اغیار کو زک پہنچانے کی فکر کرتا ۔ روافض اور قبر پرستوں کی قوالی میں ندوہ کی شمولیت ، نقصان کا سودا تو نہیں کیا گیا ہو گا ۔
    جو اعتراضات یہاں ندوی مداحوں نے پیش کیے ہیں ان کا بودا پن اور کذب و دجل پہلی نظر میں ہی واضح ہے کیا اسی کو اخلاق عقل اور تہذیب قرار دیا جا رہا ہے ؟ یہ اندھی حمایت نہیں تو کیا ہے ؟
     
  16. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    محترم ندوی بھائی ۔ مصروفیت کی وجہ سے وقت نہیں مل رہا ۔ ان شاء اللہ فرصت میں بات ہوتی ہے ۔ تب تک آپ سعودیہ پر مزید جتنے الزمات ہیں وہ بھی لکھ ڈالیں ۔ تاکہ کوئی حسرت نہ رہے ۔
     
  17. شہاب

    شہاب -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏فروری 19, 2014
    پیغامات:
    6
    مولانا سلیمان ندوی نے محض اپنی حکومت کے استحکام کے لئے اپنے آقا ومولا یہودیوں سہیونیوں کی خواہش پر اسلام اور اہل اسلام کو قربان کرنے والے عرب حکمرانوں کی یہودیوں اور وسہیونیوں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کے متعلق بیان جاری کرکے محمد رسول اللہ ﷺ کا سچا امتی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ تو عبد المعید اور اس جیسے لوگوں نے ایمان فروشی کے بدلے میں ملے ڈالر اور ریال کا پورا پورا حق ادا کیا ہے۔
    کیا مولانا سلیمان ندوی نے اسلام سے وفاداری کی ہے یا باغی اسلام کےخلاف آواز بلند کی ہے؟
    کیا عبد المعید اور اس جیسے لوگوں نے عرب حکمرانوں کی خیرخواہی کی ہے یا ڈالر اور ریال کی خاطر ان کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے؟
    عبد المعید اس جیسے یہودی اور سہیونی تحریکوں کا دم بھرنے والےحامیوں کو سیدنا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا تولی خلافت کے بعد کا پہلا خطبہ یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک میں راہ راست پر رہونگا میر اطاعت کرتے رہنا اور جب راہ راست سے انحراف کروں تو مجھے سیدھا کرتے رہنا۔
    اور یاد رہے کہ عالم اسلام اور عربی حکمرانوں کا وجود بھی اسی اسلام کی وجہ سے ہے نہ کہ اسلام اور عالم کا وجود ان عرب حکمرانوں سے۔
    جب بھی کسی حکومت نےحرمین کی خدمت کرکے اللہ کے عتاب سے بچےرہنے کے خیال میں اس پاک سرزمین کی بے حرمتی کی تو سارے وسائل کے باوجود اللہ تعالی نے اس حکومت کی دھجیاں اڑادیں اور حرمین اسی طرح برقرار ہیں۔ پچھلی حکومتوں کے حالات سے عبرت حاصل کرنا چاہیئے۔
     
  18. شہاب

    شہاب -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏فروری 19, 2014
    پیغامات:
    6
    وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
    میں آہ بھی کرتا ہوں تو ہوجاتا ہوں بدنام
    واہ جی عبد المعید!
    شیشہ کے گھر میں بیٹھ کے پتھر ہیں پھینکتے
    آہنی دیواروں پہ حماقت تو دیکھئے
    کیا عبد المعید نے اپنے جسم کے اندر کے خون کا جائزہ لیا ہے؟ کس غذا سے تیار ہوا ہے؟
     
  19. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    السلام علیکم !مولانا سلمان ندوی اور وفاداری ۔ یہ بات کسی لطیفہ سے کم نہیں‌۔ محترم شہاب بھائی تعارف تو کروادیں‌ جبکہ عرب حکمرانوں اور شیخ عبدالمعید حفظ اللہ کا پورا تعارف موجود ہے : )
     
  20. ندوی

    ندوی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏نومبر 15, 2011
    پیغامات:
    49
    سعودی عرب نے اخوان المسلمون کو دہشت گردی قراردے دیاہے
    اب سعودی نواز ٹولے جواب دیں یقیناان کے پاس جواب ہوگاکہ ہمارے امام اعظم شاہ عبداللہ نے شاہی فرمان میں اخوان المسلمون کو دہشت گردقراردیاہے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں