صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت

بابر تنویر نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏دسمبر 18, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت

    نبیوں اور رسولوں کے بعد تمام مخلوقات میں سے بہترین فرد، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہم آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے خیالات و اعتقادات بتاچکے ہیں، اب ہم بتائیں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت اور مسلمانوں کی امارت و امامت کے مسئلہ میں بھی اہل بیت اور آپ رضی اللہ عنہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا۔ اہلِ بیت نے بھی اسی طرح
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی ہے، جس طرح دوسرے تمام لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ اہل بیت قدم بقدم آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ چلتے رہے، مسلمانوں کے دکھ درد بانٹتے رہے، آپ رضی اللہ عنہ کی بہتری و بہبود میں پورے پورے شریک رہے۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کے قریبی مشیرین میں سے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہ سرکاری معاملات اور لوگوں کے مسائل کا حل کرنے میں صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ پورا پورا تعاون کرتے اور اپنی فہم و فراست سے انتہائی نفع مند اور قیمتی مشوروں سے نوازتے، آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرتے۔ کوئی روکنے والا انہیں نہ روک سکا اور نہ کوئی باز رکھنے والی قوت انہیں اس سے باز رکھ سکی۔ آپ صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نمازیں ادا کرتے، ان کے احکامات کی تعمیل کرتے اور ان کے فیصلوں کے مطابق فیصلے کرتے۔ ان کے احکامات کو دلیل سمجھتے اور ان کی بات کو سند کا درجہ دیتے۔ خلوص، محبت و تعلق کا اظہار اور برکت کے لیے آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام پر رکھے۔

    اہلِ بیت کو آپ رضی اللہ عنہ سے کس قدر محبت تھی، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اہلِ بیت نے آپ سے اور آپ کی اولاد سے سسرالی تعلقات قائم کیے۔ خود ان کے ہاں شادیاں کیں اور اپنے ہاں ان کی شادیاں کروائیں۔ سب حضرات آپس میں ایک دوسرے کو تحائف دیتے اور لیتے رہے۔ آپ کے اور اہل بیت کے تعلقات اس طرح کے تھے جیسے بہت ہی محبت رکھنے والے عزیزوں اور انتہائی قریبی رشتہ داروں میں ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ تھا اور یہ سب کچھ کیوں نہ ہوتا کہ سب ایک ہی شجرِ پُر بہار کی شاخیں اور ایک ہی نخلستانِ پُر ثمر کے پھل تھے۔ وہ ویسے نہیں تھے جیسا مکار یہودیوں کی اولاد نے انہیں سمجھا ہے۔ بخدا! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرعظمت امت کے خلاف بغض رکھنے والوں، مسلمانوں پر حسد کرنے والوں اور اللہ کا کلمہ و پرچم بلند کرنے والوں کے خلاف دل میں نفرت رکھنے والوں نے آپ کو غلط سمجھا ہے۔

    جہاں تک حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے صحیح ہونے کا تعلق ہے، اس ضمن میں اتنا عرض کردینا کافی ہے کہ خود علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کا صحیح ہونا دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ امیر شام حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو جواب دیتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
    ’’میرے ہاتھ پر بھی قوم کے انہی افراد نے بیعت کی ہے، جنہوں نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اس کے بعد نہ موجودہ افراد کو کوئی اختیار باقی رہتا ہے اور نہ دور والے اسے رد کرسکتے ہیں۔ شوریٰ مہاجرین اور انصار سے ترتیب پائی تھی، وہ جس آدمی پر بھی متفق ہوکر اسے امام بنا دیتے، اسی میں اللہ کی رضا شامل ہو جاتی۔ بیعت کے بعد کوئی آدمی بھی امام کی اطاعت سے خارج نہیں، سوائے اس صورت کے کہ امام میں کوئی طعن یا بدعت پائی جائے۔ اس صورت میں امام کو اس چیز سے روکا جائے گا۔ اگر وہ نہ مانے تو مسلمانوں کی راہ سے ہٹ جانے کی وجہ سے اس کے خلاف جدوجہد کی جائے گی اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا جائے گا۔‘‘ 1
    ---------------------------------------------------------------------
    1’’نہج البلاغۃ‘‘ ص ۳۶۶۔۳۶۷ مطبوعہ بیروت بتحقیق صبحی صالح۔
    ---------------------------------------------------------------------

    ایک جگہ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’تم لوگ میری بیعت اس چیز پر کر رہے ہو، جس پر مجھ سے پہلے خلفاء (ابوبکر وعمر اور عثمان رضی اللہ عنہم) کی بیعت کی گئی۔ لوگوں کو اختیار صرف اس وقت تک ہے، جب تک وہ بیعت نہیں کرتے۔ جب بیعت کرچکیں، ان کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔‘‘ 2
    ----------------------------------
    2 ’’ناسخ التواریخ‘‘ جلد ۳ جزء ۲۔
    ----------------------------------

    ان الفاظ میں کوئی اشکال اور ابہام نہیں، بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ خلافت کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ مسلمان کسی آدمی پر متفق و متحد ہوجائیں، اور عصرِ اوّل میں خاص طور پر انصار و مہاجرین کا کسی آدمی پر متفق ہونا ضروری تھا۔ انصار اور مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ پر متفق ہوچکے تھے۔ اب نہ وہاں موجود افراد کو کوئی اختیار باقی رہتا ہے اور نہ غیر
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    موجود افراد اسے رد کرسکتے ہیں۔ ہم پچھلی فصل میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی دو روایتیں ذکر کرچکے ہیں، جنہیں ثقفی نے ’’غارات‘‘ میں نقل کیا ہے۔ ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود بیان کیا ہے کہ لوگ بیعت کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے اور ان پر ایک ہجوم کردیا۔ کسی صاحب عدل وانصاف کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کے صحیح ہونے کا اقرار و اعتراف کرلیا جائے۔ 1
    1 اس کا نام ابواسحاق ابراہیم ثقفی کو فی اصفہانی ہے۔ سن ۲۰۰ ھ میں یا اس سے دو سال پہلے پیدا ہوا۔ ۲۸۳ھ میں اصفہان میں وفات پائی۔ شیعہ حضرات کے اکابر مؤلفین اور راویوں میں شمار کیا جاتا ہے، جیسا کہ نوری طبرسی نے بیان کیا ہے: ’’ابراہیم ثقفی مشہور ہے اور اس پر تمام اصحاب نے اعتماد کیا ہے۔ جیسا کہ اس کے احوال سے معلوم ہوتا ہے وہ بڑے مولفین اور راویوں میں سے ہے۔ بڑے بڑے راویوں نے اس سے روایت کی ہے۔ (مستدرک الوسائل جلد ۳ ص ۵۴۹۔ ۵۵۰) خوانساری نے ’’روضات الجنات‘‘ میں اسے ’’الشیخ المحدث‘‘، ’’المروج الصالح السدید‘‘ کے نام سے پکارا ہے۔ ’’الغارات‘‘ کا مصنف ہے… ’’البحار‘‘ میں اس سے بہت سی روایات نقل کی گئی ہیں۔ ’’اس کی تقریباً پچاس عمدہ تصانیف ہیں۔‘‘ (اعیان الشیعۃ قسم ۲ ص ۱۰۳)
    شیعہ کی کتاب ’’غارات‘‘ میں مذکور ایک اور روایت میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلافت و امامت کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا ہے، آپ کہتے ہیں: ’’ہم اللہ کے فیصلے پر خوش ہیں، اور اللہ کا کام اسی کے سپرد کرتے ہیں… میں نے اپنے بارے میں غور کیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں بیعت کرنے سے پہلے ہی ان کی اطاعت کا عہد اپنے گلے میں ڈال چکا تھا۔‘‘ 2
    -------------------------------------------------------------------------
    2 ’’نہج البلاغۃ ‘‘ ص ۸۱ خطبہ ۳۷ مطبوعہ بیروت بتحقیق صبحی صالح۔
    ------------------------------------------------------------------------

    جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ محسوس کیا تو آپ رضی اللہ عنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف گئے اور جس طرح مہاجرین اور انصار نے بیعت کی تھی، آپ رضی اللہ عنہ نے بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ کیونکہ وہ آج امیر المومنین اور مسلمانوں کے خلیفہ بن چکے تھے۔ وہ لوگ (حضرات صحابہ) قومِ شیعہ کے عقیدے کے مطابق تقیہ نہیں کرتے تھے، اسی بات کا اظہار کرتے جو ان کے دل میں ہوتی، ان کے دل تقیہ کی آلودگی سے پاک تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پرانی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اس موقع پر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    کی بیعت کرکے ان کی معاونت کی… ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تمام امور اپنی نگرانی میں لیے اور سب امور آسانی، درستگی، میانہ روی اور عمدہ طریقہ پر سرانجام دینے لگے۔ میں خیر خواہانہ جذبے کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا۔ اور ان امور میں جن میں وہ اللہ کی اطاعت کرتے، میں دل و جان سے آپ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرتا رہا۔‘‘ 1
    ----------------------------------------------------------------------------
    1 ’’منارالہدی‘‘ لعلی البحرانی الشیعی ص ۳۷۳ ’’ناسخ التواریخ‘‘ ج ۳ ص ۳۲ھـ
    ----------------------------------------------------------------------------

    ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ نے جب آپ رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے ابھارنا چاہا تو آپ نے انہیں دو ٹوک جواب دیا۔ اس لیے کہ جیسا ہم بیان کرچکے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہوجانے کے بعد اب آپ رضی اللہ عنہ کو خلافت کا حق نہیں رہا۔
    امیرِ شام معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے نام ایک خط میں بھی آپ نے خلیفۂ اوّل حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور آپ رضی اللہ عنہ کے افضل ہونے کا اقرار کیا ہے۔ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے انتقال فرماجانے کے بعد علی رضی اللہ عنہ آپ کے لیے اللہ سے مغفرت و احسان کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ اور ان کے دنیا سے اٹھ جانے پر اظہارِ غم اور افسوس کیا کرتے تھے، لکھتے ہیں: ’’اللہ نے مسلمانوں میں سے بہت سے افراد کو اپنی تائید و مدد کے لیے چن لیا تھا۔ اسلام میں جو کوئی جس منزلت کا حامل ہوتا ہے، اللہ بھی اپنے ہاں اسے وہی مقام و عزت بخشتا ہے۔ ان میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے بلند تر مقام کے حامل، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ صدیق رضی اللہ عنہ اور صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ ’’بے شک وہ دونوں اسلام میں عظیم مقام پر فائز ہیں۔ اللہ ان پر رحم کرے، انہیں اسلام کی وجہ سے بہت تکلیفیں اور مصیبتیں پہنچیں۔ اللہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے۔‘‘ 2
    -----------------------------------------------
    2 ابنِ میثم شرح نہج البلاغۃ ط: ایران ص ۴۸۸۔
    ------------------------------------------------

    طوسی 3
    -------------------------------------------------------------------------------------------------
    3 ’’اس کا نام محمد بن حسن بن علی طوسی ہے۔ ۳۸۵ھ میں پیدا ہوا اور ۴۶۰ھ میں نجف میں فوت ہوا… اسے ’’شیخ الطائفہ‘‘ کا لقب دیا گیا ہے۔‘‘ (تنقیح المقال ص ۱۰۵ ج ۳)
    ’’وہ شیعہ حضرات کا ستون تھا، شیعہ کے عَلَم کو بلند کرنے والا تھا۔ غرض یہ کہ شیخ الطائفہ تھا۔ وہ شیعہ کا سردار تھا جس کے سامنے گردنیں جھک جایا کرتی تھیں، اس نے اسلام کے تمام علوم پر لکھا ہے۔ وہ امام اور سند کا درجہ رکھتا تھا، اس کی تصانیف کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ شیخ مفید اور السید مرتضیٰ وغیرہ کا شاگرد تھا (الکنیٰ و الالقاب ج ۳ ص ۳۵۷) یہ صحاح اربعہ میں سے دو کتابوں ’’التہذیب‘‘ اور ’’الاستبصار‘‘ کا مصنف ہے۔
    ’’اس نے اسلام کے ہر فن پر کتاب لکھی ہے، وہ عقائد اور اصول و فروع کو درست کرنے والا ہے۔ تمام فضائل اس میں پائے جاتے تھے۔‘‘ (روضات الجنات ج ۶ ص ۳۱۶)
    -----------------------------------------------------------------------------------------------

    حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک روایت نقل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    علی رضی اللہ عنہ جنگِ جمل میں شکست کھانے والوں سے ملے تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا:ـ تم لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور میرے ساتھ انصاف کیا تھا۔ جیسے تم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی ہے، میں نے بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔ تم نے عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی، میں نے بھی عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور اسے نبھایا ہے۔ تم نے عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کی، میں بھی عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کرچکا ہوں، اس کے بعد میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ تم میرے پاس آئے۔ تم میں سے کسی کو بلایا یا مجبور نہیں کیا گیا تھا۔‘‘ 1 ’’
    --------------------------------------------
    1کیا خلافت منصوص (نص سے ثابت) ہے؟
    --------------------------------------------

    اس روایت میں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ علی بن ابی طالب نہیں سمجھتے تھے کہ خلافت و امامت صرف نص ہی سے منعقد ہوسکتی ہے۔ اور یہ کہ ’’امامت خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے ایک عہد ہے‘ جو ایک کے بعد دوسرے سے کیا جاتا ہے۔‘‘ (الاصول من الکافی ج ۱ ص ۲۷۷) اور یہ کہ ’’یہ رسول اللہ کی طرف سے عہد ہے‘ جو ایک آدمی کے بعد دوسرے سے کیا جاتا ہے۔‘‘ (الاصول من الکافی ج ۱ ص ۲۷۷)
    اس کی تفصیل کے لیے شیعہ حضرات کی یہ کتابیں دیکھیے! ’’اصل الشیعۃ واصولہا‘‘ لمحمد حسین آل کاشف الغطاء ’’الاعتقادات‘‘ لابنِ بابویہ قمی ’’الالفین‘‘ للحلی اور ’’بحار الانوار‘‘ للمجلسی وغیرہ
    تم نے میری بیعت بھی اسی طرح کی، جس طرح ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی بیعت کو میری بیعت سے زیادہ نبھاتے اور پورا کرتے ہو۔‘‘ 2
    --------------------------------------------------------------
    2’’بحار الانوار‘‘ للمجلسی جلد ۲۳ ص ۳۹۰ منقول از شیخ مفید۔
    --------------------------------------------------------------


    اگر آپ رضی اللہ عنہ کا یہ اعتقاد ہوتا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعتقاد نہ رکھتے۔ آپ کے مشیروں میں شامل نہ ہوتے۔ اور وہ باتیں نہ کہتے، جو آپ نے اہلِ جمل سے کہی تھیں۔ ہم پیچھے آپ کی اس روایت کو نقل کرچکے ہیں کہ ’’پھر تم لوگ میرے پاس اس حال میں آئے کہ تمہیں بلایا نہیں گیا تھا‘‘ اگر آپ اللہ کی طرف سے امام ہوتے تو آپ انہیں اپنی امامت کی
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    دعوت دیتے رہتے، اور جب لوگوں نے حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے آپ رضی اللہ عنہ کو بلایا تو آپ ہرگز یہ نہ کہتے کہ ’’مجھے چھوڑ دو اور کسی اور کو ڈھونڈو‘‘ ہمیں ایسی صورتِ حال کا سامنا ہے جس کے کئی پہلو اور گوشے ہیں، دل اس پر نہیں ٹھہرتے، عقلیں اس پر قائم نہیں رہتیں۔ اس کے بعد کہا: ’’اگر تم مجھے چھوڑ دو گے تو میں بھی تم جیسا ایک فرد ہوں۔ شاید تم جس کے سپرد اپنا معاملہ کردو وہ تمہاری بات زیادہ سنے، زیادہ مانے۔ میں تمہارا وزیر بنوں، یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ میں تمہارا امیر بنوں۔‘‘ (یہ خطاب علی رضی اللہ عنہ نے اس وقت کیا، جب عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد لوگوں نے آپ کی بیعت کرنا چاہی)۔ (نہج البلاغۃ خطبہ ۹۲ ص ۱۳۶، مطبوعہ بیروت)

    کیا آپ رضی اللہ عنہ کے اس کلام سے بڑھ کر اور کوئی دلیل ہوسکتی ہے کہ آپ خلافت کے خواہاں نہیں تھے؟ شیعہ حضرات تو منکرِ خلافت کو یہود، مجوس، نصاریٰ اور مشرکین سے بھی بڑھ کر کافر سمجھتے ہیں، جیسا کہ ان کے مفید نے کہا ہے:

    ’’امامیہ اس بات پر متفق ہیں کہ ائمہ میں سے کوئی بھی اگر امامت سے انکار کرے اور امام کی اطاعت نہ کرے جس کی اطاعت اللہ نے فرض کردی ہے، اور وہ اس چیز سے انکار کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے ذمہ واجب کردی ہے، تو وہ کافر ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رکھا جائے۔ ‘‘

    ان کا سب سے بڑا محدث کلینی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ’’سَألَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِع لِلْکَافِرِیْن (بولایہ علی) لیس لہ دافع‘‘ (پوچھنے والے نے علی کی ولایت سے انکار کرنے والوں پر ہونے والے عذاب کے متعلق پوچھا جس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے) بخدا اسی طرح یہ آیت جبرئیل علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر لے کر نازل ہوئے تھے۔ 1
    ----------------------------------------------
    1 کتاب ’’ الحجۃ من الکافی‘‘ جلد ۱ ص ۴۲۲۔
    ----------------------------------------------

    محمد باقر کی طرف جھوٹی نسبت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’خدا کی عبادت وہی کرتا ہے، جسے خدا کی معرفت حاصل ہے۔ جسے خدا کی معرفت حاصل نہیں، وہ یوں ہی
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    گمراہ ہوکر عبادت کرتا رہتا ہے۔ میں نے کہا: میں آپ پر قربان، خدا کی معرفت کیا ہے؟ آپ نے کہا: خدائے بزرگ و برتر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق، علی کی محبت، ان کی امامت اور دوسرے تمام ائمہ ہدایت علیہم السلام کی امامت کی تصدیق اور اس کے دشمنوں سے خدا کے روبرو اپنی براء ت کا اظہار۔‘‘ 1
    ----------------------------------------------------------
    1 باب معرفۃ الامام والرد الیہ من ’’الاصول فی الکافی‘‘ ج ۱ ص ۱۸۰۔
    ----------------------------------------------------------

    ابنِ بابویہ قمی صدوق اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے: ہمارا عقیدہ ہے کہ جس نے امیر المومنین علی بن ابی طالب اور آپ کے بعد دوسرے ائمہ کی امامت کا انکار کیا، گویا اس نے تمام انبیاء کی نبوت کا انکار کیا۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ جس نے امیر المومنین کی امامت کا اقرار کیا، لیکن دوسرے ائمہ میں سے کسی اور امام کا انکار کیا، تو گویا اس نے تمام انبیاء کا اقرار کرلیا۔ لیکن ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ السلام کی نبوت کا انکار کردیا۔‘‘ 2
    ---------------------------------
    2 ’’الاعتقادات‘‘ للقمی ص ۱۳۰۔
    --------------------------------

    جب خود علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہی امامت کا انکار کردیں تو کیا کیا جائے؟ یہ عبارت خود ان لوگوں کی سب سے مقدس کتاب میں موجود ہے۔ ان کے نزدیک سب سے مقدس کتاب یہی ہے۔ کیونکہ قرآن کا تو وہ انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں تحریف اور تغیر و تبدل ہوچکا ہے۔ یہ مسئلہ ہم اپنی کتاب ’’الشیعہ والسنۃ‘‘ میں واضح 3
    -------------------------------------------------------------------------------------------------------
    3 اس موضوع پر علامہ شہید رحمہ اللہ نے مستقل کتاب الشیعہ والقرآن تصنیف فرمائی جس کا ترجمہ مستقبل قریب میں منظر عام پر لایا جارہا ہے۔ ان شاء اللہ العزیز۔ حنیف
    ------------------------------------------------------------------------------------------------------

    دلائل کے ساتھ خود ان حضرات کی اپنی کتابوں سے بیان کرچکے ہیں۔
    جی ہاں! ان کی سب سے مقدس کتاب ’’نہج البلاغۃ‘‘ جس میں علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ خود کہہ رہے ہیں کہ میں مقتدی بنوں، یہ اس سے بہتر ہے کہ میں امام بنوں۔ ہم دوبارہ آپ کی بات آپ کو سنائے دیتے ہیں، آپ کہتے ہیں: ’’مجھے چھوڑ دو، میرے سوا کسی اور کو ڈھونڈو، میں تم میں سے ہی ہوں۔ شاید وہ تمہاری بات زیادہ سنے اور مانے، جس کے سپرد تم اپنا معاملہ کرو
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    گے۔ میں تمہارا وزیر بنوں، یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ میں تمہارا امیر بنوں۔‘‘ 1
    ---------------------------------------------------------------
    1 ’’الامالی‘‘ لشیخ الطائفہ الطوسی ج ۲ ص ۱۲۱ مطبوعہ نجف
    ---------------------------------------------------------------

    اس سے اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنی ولایت کے مسئلہ کو اس نظر سے نہیں دیکھتے تھے جس نظر سے یہ دیکھتے ہیں، جیسا کہ ابنِ ابی الحدید نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے کہا ہے:

    ’’رسول اللہ کے مرضِ وفات میں علی رضی اللہ عنہ آپ کے پاس سے اٹھ کر لوگوں کی طرف آئے، لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اے ابو حسن! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ آپ نے کہا: الحمد للہ صحت یاب ہوگئے ہیں۔ راوی کہتا ہے، عباس رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو ہاتھ سے پکڑا اور کہا: اے علی، تو عصا کا بندہ ہے، تین قسمیں کھانے کے بعد کہا، میں نے رسول اللہ کے چہرے کو دیکھا ہے، میں بنی عبدالمطلب کے چہروں سے موت پہچان لیتا ہوں۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے اور ان سے یہ بات بیان کی کہ اگر ہم میں سے ہے تو ہمیں بتا دیجیے۔ اور اگر ہمارے علاوہ کوئی ہے تو ہمیں اس کی وصیت کردیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: میں ایسا نہیں کروں گا، بخدا اگر آج میں نے روک دیا تو پھر اس کے بعد لوگ اس کے پاس نہیں آئیں گے۔ راوی کہتا ہے: چنانچہ اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔‘‘ 2
    -------------------------------- ------
    2 ’’شرح نہج البلاغۃ ‘‘ ج ۱ ص ۱۳۲۔
    ---------------------------------------

    ابنِ ابی الحدید نے سقیفہ اور بیعتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی روایات بیان کرنے کے بعد لکھا ہے: جان لیجیے کہ اس باب میں آثار و روایات بہت ہیں۔ جو بھی ان پر غور کرے اور انصاف کرے وہ جان لے گا کہ اس مسئلہ میں قطعی اور واضح نص ایسی موجود نہیں ہے جس سے تمام شکوک کا خاتمہ ہو جائے اور دوسرا کوئی احتمال باقی نہ رہے۔‘‘ 3
    ------------------------------------------
    3 ’’شرح نہج البلاغۃ ‘‘ ج ۱ ص ۱۳۲۔
    ------------------------------------------

    علی رضی اللہ عنہہ نے طلحہ رضی اللہ عنہہ و زبیر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے یہ بھی کہا تھا کہ ’’بخدا مجھے خلافت سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی ولایت میں میرے لیے کوئی کشش ہے، مگر تم نے مجھے اس کی دعوت دی اور اس پر تیار کیا۔‘‘ 4
    ----------------------------
    4 ’’نہج البلاغۃ‘‘ ص ۳۲۲۔
    ----------------------------

    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    اس جیسی ایک اور روایت بھی نصر بن مزاحم شیعی 1
    ------------------------------------------------------------------------------------------
    1 اس کا نام ابو الفضل نصر بن مزاحم تمیمی کوفی اور لقب عطار ہے ’’یہ متقدمین راویوں میں سے ہے، بلکہ تابعین کے درجہ اور اوائل ائمہ طاہرین کے تیسرے طبقہ میں سے ہے۔‘‘ (روضات الجنات جلد ۸ صفحہ ۱۶۶)
    نجاشی نے کہا ہے: صحیح راہ پر چلنے والا، راست معاملہ اور ’’صفین‘‘ ’’جمل‘‘ اور ’’مقتل الحسین‘‘ وغیرہ کتابوں کا مصنف ہے۔ (النجاشی ص ۳۰۱۔۳۰۲)
    ------------------------------------------------------------------------------------------

    نے بیان کی ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے حبیب بن مسلمہ فہری، شرحبیل بن سمط اور معن بن یزید کو بھیجا کہ وہ قاتلین عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ کا مطالبہ کریں، علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے اللہ کی حمد اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد انہیں جواب دیتے ہوئے کہا:
    ’’اما بعد! اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا، جنہوں نے لوگوں کو گمراہی سے دور کیا، ہلاکت سے بچایا اور منتشر ہوجانے کے بعد جمع کیا، پھر اللہ نے انہیں اٹھالیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ جو کچھ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کردیا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے، دونوں اعلیٰ سیرت والے تھے، دونوں نے امت سے انصاف کیا … پھر لوگوں کا معاملہ عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا، آپ رضی اللہ عنہ نے کچھ ایسے کام کیے جن کی وجہ سے لوگوں نے آپ میں عیب نکالے، لوگ آپ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھے اور آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کر ڈالا، پھر لوگ میرے پاس آئے، میں انہیں چھوڑ دینا چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے کہنے لگے: بیعت کرلیجیے، میں نے انکار کیا، وہ مجھے کہنے لگے: بیعت کرلیجیے لوگ آپ کے سوا کسی پر راضی نہیں، ہمیں خدشہ ہے کہ آپ نے بیعت نہ کی تو لوگوں میں پھوٹ پڑ جائے گی۔ چنانچہ میں نے ان سے بیعت کرلی۔‘‘ 2
    -------------------------------------------
    2 ’’کتاب صفین‘‘ مطبوعہ ایران ص ۱۰۵۔
    -------------------------------------------

    شیعہ مورخ لکھتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اپنے بعد عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا چاہا تو لوگوں نے آپ پر اعتراض کیا، یہ دیکھ کر علی رضی اللہ عنہ ، طلحہ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے: اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی اور کو خلیفہ بنایا تو لوگ اس کی اطاعت نہیں کریں گے۔
    (تاریخ روضۃ الصفا فارسی ص ۲۰۶ ط بمبئی)
    طبرسی نے بھی محمد باقر سے ایک روایت نقل کی ہے جس سے یہ بات قطعی اور حتمی طور پر
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    ثابت ہوجاتی ہے کہ علی رضی اللہ عنہہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم کیا اور ان کے ہاتھ پر امارت و خلافت کی بیعت کی … طبرسی بیان کرتا ہے کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ (جہاد کے لیے) جانا چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے۔ جب اسامہ رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کی اطلاع پہنچی، آپ رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ پلٹ آئے۔ مدینہ میں آکر آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بہت بڑی تعداد میں لوگ جمع ہیں، یہ دیکھ کر اسامہ رضی اللہ عنہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف چلے گئے اور ان سے پوچھا: یہ سب کچھ کیا ہے؟ علی رضی اللہ عنہہ نے جواب دیا: وہی کچھ ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ اسامہ رضی اللہ عنہہ نے پوچھا، کیا آپ نے بھی بیعت کرلی ہے؟ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں۔‘‘ 1
    -----------------------------------------------------
    1 ’’الاحتجاج‘‘ للطبرسی ص ۵۰ مطبوعہ: مشہد عراق۔
    -----------------------------------------------------

    شیعہ حضرات کے متاخرین ائمہ میں سے محمد حسین آل کاشف الغطاء نے بھی یہ کہہ کر اس بات کا اقرار کیا ہے کہ: ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جہانِ فانی سے اس دارِ قرار کی طرف کوچ کرگئے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس لیے خلیفہ نہ بنایا جائے کہ آپ عمر میں چھوٹے تھے یا اس لیے بھی کہ قریش کو یہ بات ناگوارِ خاطر تھی کہ نبوت اور خلافت، دونوں شرف بنی ہاشم میں جمع ہو جائیں۔‘‘ اس کے بعد کہتا ہے:’’جب علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ خلیفۂ اول اور ثانی دونوں حضرات نے کلمہ توحید پھیلانے، اسلامی لشکر تیار کرنے، اور فتوحات کا دائرہ بڑھانے میں اپنی تمام تر کوششیں اور صلاحیتیں صرف کردی ہیں، نہ لوگوں کو قید و بند کی مشقت میں ڈالا اور نہ ان پر ظلم و استبداد کیا ہے، تو انہوں نے بھی بیعت کرکے مصالحت کرلی۔‘‘ 2
    -----------------------------------------------------------------------
    2 ’’اصل الشیعۃ واصولہا‘‘ مطبوعہ: دارالبحار بیروت ۱۹۶۰ء ص ۹۱۔
    -----------------------------------------------------------------------

    ایک سوال اب بھی باقی رہ جاتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے بیعت میں چند روز کی تاخیر کیوں کی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ابنِ ابی الحدید لکھتا ہے کہ: ’’پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، لوگوں سے خطاب کیا اور ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا: میری بیعت اچانک اور غیر متوقع
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    طور پر ہوئی ہے، مجھے فتنہ کا اندیشہ تھا جس سے اللہ نے ہمیں بچالیا۔ اللہ کی قسم میں نے کبھی بھی خلافت کی خواہش نہیں کی۔ مجھ پر اتنی بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے، جس کی مجھ میں طاقت نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ میری جگہ آجائے، جو مجھ سے بہتر اس ذمہ داری کو نبھاسکے۔ آپ نے لوگوں سے معذرت کرنی شروع کردی۔ مہاجرین نے آپ کی معذرت قبول کرلی، یہ دیکھ کر علی رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ہمیں صرف مشورہ کے وقت ذرا غصہ آگیا تھا، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت لوگوں میں خلافت کا سب سے زیادہ حق دار ابوبکررضی اللہ عنہ ہے۔ آپ صاحبِ غار ہیں، آپ کی عمر مبارک بھی ہمیں معلوم ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں آپ ہی کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا۔‘‘ 1
    -------------------------------
    1 شرح نہج البلاغہ ج 1 ص 132
    -------------------------------

    ابنِ ابی الحدید نے اس کی شرح میں عبداللہ بن ابی اوفیٰ کی ایک اور روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے: ’’خالد بن سعید ان عاملین میں سے تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن میں متعین کیا تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرماچکے تو آپ مدینہ آئے، اس وقت لوگ ابوبکررضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرچکے تھے۔ آپ کچھ دن رکے رہے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہ کی۔‘‘ 2
    -----------------------------------------
    شرح نہج البلاغہ ج 1 ص 134 – 135
    ------------------------------------------
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں