شیخ الحدیث محمد یوسف راجووالوی رحمہ اللہ کا نماز جنازہ

ابن بشیر نے 'مسلم شخصیات' میں ‏جنوری 19, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابن بشیر

    ابن بشیر ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جنوری 29, 2012
    پیغامات:
    268
    مرتب :
    ابن بشیر الحسینوی الاثری
    مدرس دارالحدیث راجووال
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    باباجی رحمہ اللہ نے تقریبا قمری حساب سے ۹۸ سال عمر پائی اور ساری زندگی دین کی آبیاری کرتے گزر گئی۔
    ان کی زندگی بے شمار خوبیوں سے مزین تھی وہ مفکر تھے وہ محدث تھے وہ ولی تھے وہ اتحاد چاہتے تھے وہ ساری زندگی دین کے لئے فکر مند رہے اپنی زندگی کا ہر ہر سانس دین کی خاطر صرف کیا اور اپنے پیچھے ایک جمع غفیر شاگردوں کا چھوڑا جو پوری دنیا میں قرآن وحدیث کی صدا بلند کر رہے ہیں اور اپنی یاد گار جھونپڑیوں کے سائے شروع کیا جانے والا ادارہ دارالحدیث ایک عظیم ترین مرکز کو آباد چھوڑا ۔
    بابا جی کی زندگی بہت زیادہ پہلووں سے منفرد تھی ،وہ بہت بڑے سخی تھے ،وہ درد دل رکھنے والے انسان تھے ،وہ دکھی انسانیت کا ہاتھ تھامنے والے تھے ،وہ دین کے طلبا سے والہانہ محبت کرتے تھے ،وہ بہت مثالی مہمان نواز تھے ،اور بذات خود ایک تحریک تھے ،وہ وفا دار تھے جس سے چلے اس کے ساتھ زندگی گزار دی ،انھوں نے ہرہر شعبہ میں کام کیا،مثلا دعوت و تبلیغ ،نشرو اشاعت ،تحریکوں میں حصہ لینا ،قوم کی زمام قیادت کو سنبھالا،مساجد کو قائم کیا اور دینی جامعات عروج پہنچایا ،وہ ہر اچھے انسان کے قدر دان تھے ان کی دوستی اور دشمنی بنیاد قرآن و حدیث تھا ۔ہر ہر جگہ قرآن و حدیث کو دیکھا خواہ غمی ہو یا خوشی ۔
    اگر میں کہوں کہ وہ اپنی ذات میں ایک تاریخ تھے ،وہ بذات خود ایک ادارہ تھے تو یگانہ روز گار تھے تو کوئی بے جا نہ ہوگا ،اس مختصر سے عریضے میں ان کی خدمات کا احاطہ نہ ممکن ہے بلکہ اس کے لئے تو سینکڑوں صفحات پر مشتمل ایک تاریخ رقم کی جا رہی ہے ان شاء اللہ ،جس میں ان کی زندگی کے ہرہر پہلو کو واضح کیا جائے گا ۔۔۔ان سے تعلق رکھنے والے احباب بھی اس پر توجہ دیں ۔
    ۱۴ جنوری کا دن انتہائی افسوس ناک دن تھا کہ اذان فجر سے پہلے راقم اپنے کمرے میں مطالعہ میں مصروف تھا اچانک دروازے پر دستک دی گئی دروازہ کھولا تو شیخ عدنان حفظہ اللہ نے کہا کہ محترم بابا جی وفات پاگئے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون ۔کہتے ہوئے،دعاوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔اور نماز فجر شیخ عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ نے پڑھائی بڑی مشکل سے قرات کر رہے تھے اور مختصر سی سورتوں پر اکتفا کیا پھر دعاقنوت بھی کی پھر نماز کے بعد والد محترم کی چند نصیحتیں بیان کیں مثلا :مجھے نئی آبادی راجووال کے قبرستان میں دفنانا ،میرا جنازہ میر بڑا بیٹا حافظ عبدالرحمن پڑھائے ،اور میرے کفن کا اہتمام محمد علی جوہر کرے ۔میرے جنازے سے پہلے میری تعریف میں تقاریر نہ کرنے دینا اس موقع پر سب سے بڑی عبرت خود میت ہوتی ہے ۔میرے فوت ہونے کی وجہ سے مدرسہ کی کلاسز کو مسلسل جاری رکھنا ہے تاکہ طلباء کی تعلیم کا حرج نہ ہو ،بس چند گھنٹے پڑھائی کا تعطل کرلینا تاکہ تمام طلبا میرے جنازے میں شریک ہو سکیں ۔
    ان تمام نصیحتوں پر عمل کیا گیا والحمدللہ۔
    اور ملک پاکستان کے کونے کونے سے سر زمین راجووال میں اہل علم و علوم نبوت کے طلبا اور عام لوگ تشریف لائے جو کم و بیش بیس ہزار سے زیادہ ہوں گے ،اور نماز جنازہ محترم ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف حفظہ اللہ پڑھائی دوسرا نماز جنازہ پروفیسر حافظ ثناء اللہ خان حفظہ اللہ نے پڑھایا اور جو حضرات اور لیٹ ہو گئے انھوں بابا جی قبر پر نماز جنازہ کا اہتمام کیا ۔
    جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے استاد محترم شیخ الحدیث عبدالعزیز علوی ،شیخ یونس بٹ ،شیخ عبدالحنان اور پروفیسر نجیب اللہ طارق ،پروفیسر یسین ظفر استاد محترم شیخ مسعود عالم حفظہم اللہ نماز جنازہ میں شامل ہوئے ۔جامعہ محمدیہ گوجرانوالا سے استاد محترم شیخ الحدیث عبدالحمید ہزاروی ،شیخ خالد بشیر مرجالوی وغیرہ آئے تھے اور جامعہ رحمانیہ لاہور سے استاد محترم شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی ،استاد محترم شیخ رمضان سلفی ،شیخ حسن مدنی ،شیخ شفیع طاہر حفظھم اللہ تشریف لائے تھے ۔
    اور فیصل آباد ستیانہ بنگلہ مدرسہ سے استاد محترم شیخ الحدیث عبداللہ امجد چھتوی ،شیخ عتیق اللہ سلفی اور دیگر ساتھی دعا ء مغفرت میں شریک ہوئے ۔
    مفسر قرآن جناب حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ بھی نماز جنازہ میں شریک ہوئے تھے ۔
    ہفت روزہ الاعتصام کے ذمہ داران جناب حافظ احمد شاکر اور جناب مورخ اہل حدیث محمد اسحاق بھٹی اور محترم حماد شاکر وغٖیرہ تشریف لائے تھے ۔
    اور مرکز ابن مسعود لاہور سے جناب استاد محترم شیخ شفیق مدنی اور شیخ محترم کے رفقاء نماز جنازہ میں شریک ہوئے تھے۔
    اسی طرح اسلامک انسیٹیٹوٹ مہنتانوالا سے شیخ الحدیث ادریس اثری اور ان کے جامعہ کے دیگر احباب بھی شریک تھے ۔
    اور میرے جامعہ محمدبن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور سے بھی مہتمم جامعہ قاری ادریس ثاقب اور شیخ الحدیث جناب محمد یوسف قصور ی اور تمام اساتذہ اور کافی طلبا نماز جنازہ میں شریک ہوئے ۔
    اسی طرح کراچی سے حافظ عبدالقوی ،حافظ عبدالحفیظ روپڑی اور صھیب اللہ بھائی تشریف لائے تھے ۔اور شیخ نور آف کراچی بھی آئے تھے لیکن کراچی کے احباب جنازہ میں شریک نہ ہو سکے ۔
    مرکزالتربیۃ الاسلامیۃ فیصل آباد سے شیوخ کرام استاد محترم شیخ ارشاد الحق اثری اور شیخ حافظ محمد شریف حفظھم اللہ بھی لیٹ پہنچے انھوں نے قبر پر نماز جنازہ ادا کی اس نماز جنازہ میں بابا جی کے داماد محترم شیخ عبدالمجید آف کراچی بھی شامل تھے ۔
    اس طرح جم غفیر تھا جس سے ثابت ہوگیا تھاکہ باباجی کس قدر اہل علم کے ہاں محبوب تھے ،کہ جن کے نماز جنازہ میں پاکستان کے کونے کونے سے شیوخ الحدیث اور علوم نبوت کے طلبا تشریف لائے ہوئے تھے ۔
    اور مرکز ادارۃ الاصلاح بونگہ بلوچاں سے بھی شیوخ کرام تشریف لائے تھے ۔
    اس موقع پر جناب امیر محترم ساجد میر ،جناب عبدالکریم ،جناب ابتسام الہی ظہیر حفظھم اللہ تشریف نہیں لائے تھے شاید کسی اور مصروفیت کی وجہ سے وقت نہ مل سکا ہو گا ۔
    اللہ تعالی بابا جی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔اور ان کے ہاتھ سے لائے ہوئے ادارہ دارالحدیث راجووال کو تاقیامت ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے آمین ۔
    قافلہ حدیث میں مورخ اہل حدیث جناب محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ نے بابا جی کے حالات مفصل لکھے ہوئے ہیں ۔فجزاہ اللہ خیرا ۔
    بابا جی کے حالات پر مفصل کتاب لکھنا شروع کر دی ہے جس میں مرحوم کی زندگی کے تمام پہلووں پر بحث کی جا رہی ہے ان شاء اللہ۔ اللہ تعالی آسانی فرمائے ۔آمین
    اگر کسی کے پاس بابا جی کے متعلق کوئی واقعہ یا کوئی ان کی زندگی کے پہو کے متعلق چیز ہو وہ ہمیں ضرور مطلع کرے تاکہ اسے بھی جمع کیا ج سکے ،
    اور بابا جی کے شاگردوں کا حلقہ بہت وسیع تھا ان سے استفادہ کرنے والے احباب بھی ہم سے رابطہ کریں ،اور بابا جی خط و کتابت بھی بہت کیا کرتے تھے اگر کسی کے پاس بابا جی کا کوئی خط ہو تو وہ ہمیں ضرور ارسال کرے ۔
    اڈریس :
    دارالحدیث الجامعۃ الکمالیۃ راجووال تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑہ
    03024056187 —
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں