حضرت ذوالنورین رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ اہل بیت کے تعلقات

بابر تنویر نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏جنوری 19, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    حضرت ذوالنورین رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ اہل بیت کے تعلقات

    اہلِ بیت آپ رضی اللہ عنہ کو کس قدر پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہاشمی خاندان کے کثیر افراد نے آپ کی خلافت و امامت کے دوران کئی اہم

    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    عہدے قبول کیے اور بہت سے اہم مناصب پر فائز رہے، مغیرہ بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب عہدۂ قضاء پر فائز رہے۔ 1
    --------------------------------
    1 الاستیعاب، اسد الغابہ، الاصابہ وغیرہ
    --------------------------------


    اسی طرح حارث بن نوفل بھی اسی اہم عہدے (قضائ) پر فائز رہے۔ 2 طبقات، الاصابہ

    عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ۳۵ھ میں امارتِ حج کا عہدہ قبول کرکے امیرِ حج کے فرائض سرانجام دیے۔ 3
    ------------------------------
    3 تاریخ الیعقوبی جو 2 ص 175
    -------------------------------


    اس کے علاوہ سب اہلِ بیت آپ رضی اللہ عنہ کے پرچم تلے مشغولِ جہاد رہے۔ ان لشکروں میں شامل و شریک رہے جو کفار اور دوسرے دشمنانِ اسلام کے ساتھ برسرِ پیکار رہتے تھے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما) اس لشکر میں شریک تھے جس نے ۲۶ھ میں افریقہ میں متعدد اسلامی جنگیں لڑیں۔ عبداللہ بن ابی سرح کی زیرِ قیادت برقہ، طرابلس اور افریقہ کی طرف جانے والے لشکر میں علی بن ابی طالب کے دونوں بیٹے حسن اور حسین کے علاوہ عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب، ان کے چچا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہم اجمعین) بھی شریک تھے۔4 ’’
    ---------------------------------------
    4 ’’تاریخ ابنِ خلدون‘‘ ج ۲ ص ۱۰۳۔
    --------------------------------------


    خراسان، طبرستان اور جرجان کی جنگوں میں لڑنے والوں میں حسن رضی اللہ عنہ ، حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی سعید بن عاص رضی اللہ عنہ اموی کے زیرِ قیادت جنگ لڑ رہے تھے۔‘‘5
    -------------------------------------------------------------------------------
    5 ’’تاریخ الطبری‘‘ الکامل لابن الاثیر‘‘ ، ’’البدایہ والنہایۃ‘‘ ، ’’تاریخ ابنِ خلدون۔‘‘
    ------------------------------------------------------------------------------------

    اس کے علاوہ بھی اہلِ بیت متعدد جنگوں اور معرکوں میں شریک رہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اہلِ بیت کی خدمت میں مالِ غنیمت اور دیگر تحائف کے علاوہ لونڈیاں اور خدام بھی ہدیہ میں دیا کرتے تھے …مامقانی اپنے آٹھویں امامِ معصوم … رضا، سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ’’عبداللہ بن عامر بن کرز نے جب خراسان کو فتح کیا تو اسے عجمی شہنشاہ یزید جر بن
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    شہریار کی دو بیٹیاں ہاتھ لگیں۔ اس نے ان دونوں کو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ آپ نے ایک حسن رضی اللہ عنہ کو اور دوسری حسین رضی اللہ عنہ کو ہبہ کردی، جو دونوں مرتے دم تک انہی دونوں حضرات کے پاس رہیں۔‘‘ 1
    -----------------------------------------------------------------
    1 ’’تنقیح المقال فی علم الرجال‘‘ للما مقانی ج ۳ ص ۸۰ مطبوعہ طہران۔
    -------------------------------------------------------------------


    عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ بے حد محبت و اکرام سے پیش آتے تھے، اسی لیے جب باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا گھیراؤ کرلیا تو علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں بیٹوں حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہما کو ان کی طرف بھیجا اور کہا: اپنی تلواریں لے کر جاؤ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر اس طرح پہرہ دو کہ کوئی اندر نہ جانے پائے۔ 2
    ---------------------------------------------------------------
    2 ’’انساب الاشراف‘‘ للبلاذری ج ۵ ص ۶۸۔۶۹ مطبوعہ مصر۔
    ---------------------------------------------------------------


    دیگر کئی صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے بیٹوں کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو روکیں اور عثمان رضی اللہ عنہ تک نہ پہنچنے دیں۔ ان میں ایک علی رضی اللہ عنہ کے چچیرے بھائی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی تھے جو اخیر وقت تک آپ رضی اللہ عنہ کا دفاع کرتے رہے اور آپ کے دروازے پر ڈٹے رہے۔انہی سنگین و سیاہ دنوں میں جب حضرت ذوالنورین رضی اللہ عنہما نے آپ کو حج کا امیر مقرر کیا تو آپ کہنے لگے: اللہ کی قسم! اے امیر المومنین یہاں جہاد کرنا میرے نزدیک حج سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ میں نے قسم کھالی ہے کہ اس وقت تک نہ ہٹوں گا جب تک یہ چلے نہ جائیں۔3
    -----------------------------------------------
    3 ’’تاریخ الامم و الملوک‘‘ ۳۵ھ کے حالات میں۔
    ----------------------------------------------

    خود علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی ابتدائی حالات میں آپ کا دفاع کرنے والوں میں شریک تھے۔ انہی کی کتاب اٹھا کر ذرا یہ الفاظ پڑھیے ’’آپ نے خود (یعنی علی رضی اللہ عنہ نے) بھی کئی دفعہ آکر لوگوں کو ان (یعنی عثمان رضی اللہ عنہ) کے قریب سے ہٹایا اور اپنے دونوں بیٹوں اور بھتیجے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کو بھی وہاں پر پہرہ دینے کا حکم دیا۔‘‘ 4
    ----------------------------------------------------------------------
    4 ’’شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید ج ۱۰ ص ۵۸۱ مطبوعہ: قم، ایران۔
    -----------------------------------------------------------------------

    ’’آپ دیر تک انہیں زبان اور ہاتھ سے دور کرتے رہے۔ جب دیکھا کہ انہیں بھگانا
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    ممکن نہیں تو آپ وہاں سے چلے آئے۔‘‘ 1
    ------------------------------------------------------------
    1 ’’شرح ابنِ میثم البحرانی‘‘ ج ۴ ص ۳۵۴ مطبوعہ طہران
    ۔-------------------------------------------------------------

    ’’آپ اپنی زبان، ہاتھ اور اپنی اولاد کی مدد سے (باغیوں) کو ہٹاتے رہے لیکن کچھ نہ بن سکا۔‘‘ 2
    ---------------------------------------------------------------------------
    2 شرح ابنِ ابی الحدید اس خطبہ کے تحت ’’بایعنی القوم الذین بایعوابابکر۔‘‘
    -------------------------------------------------------------------------

    آپ خود اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اللہ کی قسم میں اس حد تک (لوگوں کو) آپ سے روکتا رہا کہ میں نے سوچا کہیں گناہ گار نہ ہو جاؤں۔‘‘ 3
    --------------------------------------------------------
    3 ’’شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابن ابی الحدید ج ۳ ص ۲۸۶۔
    --------------------------------------------------------

    کیونکہ حضرت ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے آپ کو دفاع کرنے سے روک دیا تھا اور فرمایا تھا: ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تم سب اپنا اسلحہ لے کر چلے جاؤ اور اپنے گھروں میں بیٹھے رہو۔‘‘4
    ---------------------------------------------------------------
    4 ’’تاریخ خلیفہ بن خیاط‘‘ ج ۱ ص ۱۵۱، ۱۵۲ مطبوعہ عراق۔
    --------------------------------------------------------------


    ’’آپ (یعنی عثمان رضی اللہ عنہ نے) حسن بن علی رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن زبیر صلی اللہ علیہ وسلم ، محمد بن طلحہ رضی اللہ عنہم اور دیگر انصار کے بچوں کو روک دیا، چنانچہ عثمان صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ڈانٹتے ہوئے کہا تم میری مدد سے بری ہو۔‘‘5
    -------------------------------------------------------------------
    5 ’’شرح النہج‘‘ زیر عنوان، عثمان کا محاصرہ اور پانی بند کردینا۔
    -------------------------------------------------------------------


    چنانچہ جہاں دوسرے صحابہ کے بیٹے زخمی ہوئے وہاں زخمی ہونے والوں میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما اور ان کے غلام قنبر بھی تھے۔ 6
    -------------------------------------------------------------------
    6 ’’الانساب‘‘ للبلاذری ج ۵ ص ۹۵ ’’البدایہ‘‘ بضمن ’’عثمان کا قتل‘‘
    --------------------------------------------------------------------


    جب سرکش باغیوں نے آپ کا پانی بھی بند کردیا تو علی رضی اللہ عنہ نے انہیں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’اے لوگو! جو کام تم کر رہے ہو نہ مسلمانوں نے کیے ہیں نہ کافروں نے، ایرانی و رومی بھی جب کسی کو گرفتار کرتے ہیں تو اسے کھانے پینے کو دیتے ہیں، خدا کے لیے اس آدمی کا پانی نہ بند کرو، علی رضی اللہ عنہ نے بنی ہاشم کی ایک عورت کے ہاتھ پانی کی بھری تین مشکیں آپ کے
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    پاس بھیجیں۔‘‘ 1
    -------------------------------------------------------------------------------------------------
    1 ’’ناسخ التواریخ‘‘ ج ۲ ص ۵۳۱۔ اس جیسی ایک روایت ’’انساب الاشراف‘‘ للبلاذری ج ۵ ص ۶۹ میں بھی ہے۔
    -------------------------------------------------------------------------------------------------

    آخر میں ہم آپ کو مشہور شیعہ مورخ مسعودی 2
    -----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
    2 اس کا نام ابو الحسن علی بن حسین بن علی مسعودی ہے۔ بغداد میں تیسری صدی کی آخری تہائی میں پیدا ہوا۔ بہت سے مشرقی اور افریقی ممالک میں سفر کرتا رہا اور ۳۴۲ یا ۳۴۶ھ میں وفات پائی۔ محسن امین شیعہ مورخین کے طبقہ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے: مسعودی تاریخ کا امام ہے ’’مروج الذہب‘‘ اور ’’اخبار الزمان‘‘ کا مصنف ہے (اعیان الشیعہ قسم ثانی جلد ۱ ص ۱۳۰) قمی نے کہا ہے: ’’یہ مورخین کا شیخ اور سربراہ ہے۔ اس نے اور کتابوں کے علاوہ امامت میں بھی ایک کتاب ’’اثبات الوصیۃ لعلی بن ابی طالب‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ ’’مروج الذہب‘‘ کا مصنف ہے۔ نجاشی نے شیعہ راویوں کی فہرست میں شمار کیا ہے۔‘‘ (الکنی والا لقاب ج ۲، ص ۱۵۳) خوانساری نے اس کی تعریف میں کہے گئے بہت سے شیعہ علماء کے اقوال نقل کیے ہیں، جنہوں نے اس کی بہت سی خوبیوں کی تعریف کی ہے ’’ہم امامیہ حضرات کا شیخ متقدم ہے‘‘ ، ’’یہ صدوق کا ہم عصر ہے۔ اہم ترین علماء امامیہ اثنا عشریہ کے فاضل ترین لوگوں میںسے ہے۔‘‘ (روضات الجنات ج ۴ ص ۲۸۱)
    -------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------


    کی زبانی اس روح فرسا اور درد افزا المیہ کی کہانی سناتے ہیں، لکھتا ہے: ’’جب علی رضی اللہ عنہ کو یہ پتہ چلا کہ وہ لوگ آپ کو قتل کرنا چاہتے ہیں، آپ نے حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے دیگر متبعین کے ساتھ ہتھیار دے کر عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا کہ ان کے دروازے پر ان کی مدد کے لیے پہرہ دیں۔ انہیں حکم دیا کہ لوگوں کو وہاںہرگز پہنچنے نہ دیں، اسی طرح زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ ، طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے محمد اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنے اپنے بیٹوں کو ان کی مدد کے لیے بھیجا۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، ان حضرات نے باغیوں کو گھر تک پہنچنے سے روکے رکھا، ان پر تیر برسائے گئے، لوگ باہم گڈ مڈ ہوگئے، حسن رضی اللہ عنہ زخمی ہوگئے، قنبر کا سر پھٹ گیا، محمد بن طلحہ رضی اللہ عنہ بھی زخمی ہوگئے۔ لوگ ڈر گئے کہ کہیں بنو ہاشم اور بنو امیہ میں تعصب کی جنگ نہ چھڑ جائے، انہوں نے لوگوں کو دروازے پر لڑتا چھوڑ دیا۔ کچھ آدمی انصار کے گھروں میں ان کی دیواریں پھاند کر داخل
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    ہوگئے۔ محمد بن ابی بکر اور دوسرے دو آدمی آپ تک پہنچے، عثمان رضی اللہ عنہ کے قریب ان کی بیوی تھی۔ ان کے گھر والے اور دوسرے افراد لڑنے میں مشغول تھے، محمد بن ابی بکر نے ان کی داڑھی کو پکڑا۔ آپ کہنے لگے: اے محمد! بخدا اگر تیرے والد تجھے یہاں دیکھتے تو بہت برا سمجھتے، اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور وہاں سے نکل کر گھر کی طرف چلا گیا، اس کے بعد دو آدمی داخل ہوئے اور انہیں قتل کردیا۔ اس وقت قرآنِ پاک آپ کے سامنے تھا جسے آپ رضی اللہ عنہ پڑھ رہے تھے، آپ کی بیوی اٹھ کھڑی ہوئیں، زور زور سے رونے اور کہنے لگیں، امیر المومنین قتل ہوگئے، یہ سن کر حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ساتھ بنی امیہ کے کچھ افراد بھی تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ آپ کی روح پرواز کرچکی ہے(رضی اللہ عنہ)۔ سب رونے لگے۔ علی رضی اللہ عنہ ، طلحہ رضی اللہ عنہ ، زبیر رضی اللہ عنہ ،سعد رضی اللہ عنہ اور دوسرے مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم تک یہ خبر پہنچی۔ سب واپس آگئے اور گھر میں داخل ہوگئے۔ سب بے حد پُر درد و غم رسیدہ تھے۔ علی رضی اللہ عنہ اپنے دونوں بیٹوں سے (شدتِ غم میں) کہنے لگے۔ تمہارے دروازے پر ہوتے ہوئے امیر المومنین کیسے قتل ہوگئے؟ حسن رضی اللہ عنہ کو طمانچہ مارا، حسین رضی اللہ عنہ کے سینے پر مارا۔ محمد بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا، اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو سخت برا بھلا کہا۔‘‘ 1
    ---------------------------------------------------------------
    1’’مروج الذہب‘‘ للمسعودی ج ۲ ص ۳۴۴ مطبوعہ بیروت۔
    ---------------------------------------------------------------


    شہید ہونے کے بعد علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے گھر والوں ہی نے رات میں آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی اور آپ کو دفن کیا۔ چنانچہ معتزلی شیعہ ابنِ ابی الحدید لکھتا ہے:
    ’’آپ اور آپ کے ساتھ گھر والوں میں سے تھوڑے سے لوگ نکلے، جن میں حسن بن علی، ابنِ زبیر اور ابوجہم بن حذیفہ تھے۔ یہ حضرات مغرب اور عشاء کے درمیان (جنازہ لے کر) نکلے اور مدینہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں لے آئے۔ یہ باغ جنت البقیع سے باہر تھا اور اسے حش الکوکب کہا جاتا تھا۔ وہاں ان حضرات نے آپ کی نماز پڑھی۔‘‘ 2
    ----------------------------------------------------------------------------------------------------
    2’’شرح النہج‘‘ لابنِ ابی الحدید ج ۱ ص ۹۷ مطبوعہ قدیم ایران ج ۱ ص ۱۹۸ مطبوعہ بیروت
    ----------------------------------------------------------------------------------------------------

    آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اہلِ بیت کی محبت کا یہ بھی ایک منہ بولتا ثبوت ہے کہ انہوں نے
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
    اپنی بیٹیوں کی شادیاں ان کے بیٹوں سے کیں، بلکہ خود ان سے کیں، اور کیوں نہ کرتے کہ جب اللہ کی مخلوق میں سب سے اعلیٰ ترین فرد نے اپنی دو بیٹیوں کی شادیاں ان سے کردی تھیں۔ اہلِ بیت اپنے بیٹوں کے نام ان کے نام پر رکھا کرتے تھے۔ دیکھیے مفید لکھتا ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے کا نام عثمان تھا:
    ’’امیر المومنین کے ستائیس لڑکے اور لڑکیاں تھیں: (۱) حسن رضی اللہ عنہ (۲) حسین رضی اللہ عنہ ۔ (۱۰) عثمان آپ کی والدہ ام البنین بنت حزام بن خالد بن ورام تھیں۔‘‘ 1
    ------------------------------------------------------------------
    1’’الارشاد‘‘ للمفید ص ۱۸۶ ’’زیر عنوان امیر المومنین کی اولاد کا ذکر۔‘‘
    --------------------------------------------------------------------


    اصفہانی نے لکھا ہے کہ یہ بھی اپنے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا میں شہید ہوگئے تھے۔ جب عثمان بن علی رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے تو اس وقت ان کی عمر اکیس برس تھی۔ ضحاک نے لکھا ہے: خولی بن یزید نے عثمان بن علی رضی اللہ عنہ پر تیر چلایا جس سے آپ پچھاڑ کھا کر گر گئے۔ بنی ابان بن دارم میں سے ایک آدمی نے آپ کو گرفتار کرلیا۔ اور قتل کرکے آپ کا سر اتار لیا۔2
    ----------------------------------------------------------------------------------------------
    2 ’’مقاتل الطالبیین‘‘ ص ۸۳ ’’عمدۃ الطالب‘‘ ص ۳۵۶ نجف، ’’تاریخ الیعقوبی‘‘ ج ۲ ص ۳۱۳۔
    ----------------------------------------------------------------------------------------------

    یہ ہے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی صحیح تصویر! وہ عثمان رضی اللہ عنہ جو دامادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دنیا و آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ہیں۔ جن سے اہلِ بیت اور اہلِ بیت کے دوسرے تمام عزیز و اقارب اسی طرح بے حد محبت کیا کرتے تھے جس طرح صدیق رضی اللہ عنہ و فاروق رضی اللہ عنہ سے جیسا کہ خود علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔ وہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت و رشتہ داری میں سب سے قریب تھے، ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ہونے کا وہ شرفِ عظیم ملا تھا جو صدیق رضی اللہ عنہ و فاروق رضی اللہ عنہ کو نہیں ملا۔ 3
    ---------------------------------------------
    3’’نہج البلاغۃ‘‘ تحقیق صبحی صالح ص ۲۳۴۔
    --------------------------------------------


    قارئین نے ان صفحات میں دیکھا کہ اہلِ بیت کے ہاں ابوبکر صدیق ، عمر فاروق اور عثمان رضی اللہ عنہم تینوں خلفائے راشدین کا کیا مقام و موقف ہے۔ ہم نے تمام حوالہ جات شیعہ حضرات کی اپنی ان کتب سے نقل کیے ہیں جو ان کے نزدیک معتمد علیہ، ثقہ اور مصادرِ اصلیہ کا
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    درجہ رکھتی ہیں۔ ہر حوالہ کے ساتھ صفحہ اور جلد کا حوالہ بھی لکھ دیا گیا ہے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں