علی رضی اللہ عنہ کی توہین

بابر تنویر نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏فروری 16, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    علی رضی اللہ عنہ کی توہین
    خود علی رضی اللہ عنہ کی بھی، جسے یہ لوگ پہلا امام معصوم سمجھتے ہیں، بے حد توہین و تصغیر اور تذلیل و تحقیر کرتے ہیں، آپ کو بزدل و کمزور اور درماندہ و عاجز ثابت کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ: جب ابوبکر(رضی اللہ عنہ) کی بیعت خلافت کی گئی اور علی نے آپ کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور بیعت نہ کی، تو ابوبکر نے آپ کی طرف قنفذ کو بھیجا اور کہا:
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    ’’پلٹ جا، اگر وہ (علی رضی اللہ عنہ) نکل آئیں تو ٹھیک ، ورنہ ان کے گھر میں کود جا، اگر وہ روکیں تو ان کے گھر کو آگ لگا دے، قنفذ ملعون چلا، وہ اور اس کے ساتھی بلا اجازت آپ کے گھر میں گھس گئے، علی اپنی تلوار کی طرف لپکے، انہوں نے جلدی کی اور آپ پر قابو پالیا، کچھ نے اپنی تلواریں پکڑ لیں، ان کی گردن میں رسی ڈال دی۔ فاطمہ علیہا السلام دروازے میں ان لوگوں اور علی کے درمیان حائل ہوئیں تو قنفذ ملعون نے آپ کو کوڑا مارا، جب آپ کی وفات ہوئی تو آپ کے بازو پر ایک پھوڑا سا تھا، یہ اسی مار کا اثر تھا، خدا کی لعنت اس پر پھر وہ علی کو گھسیٹتے ہوئے لے چلے اور ابوبکر کے پاس پہنچا دیا‘‘… اس کے بعد کہتا ہے … علی علیہ السلام نے اس حال میں کہ رسی ان کی گردن میں تھی، بیعت کرنے سے پہلے پکارا تھا۔ ( یا ابن ام ان القوم استضعفونی وکادوا یقتلوننی) ۔1 ’’اے میری والدہ کے بیٹے! بلاشبہ قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور وہ میرے قتل کے درپے ہوگئے۔‘‘’’کتاب سلیم بن قیس‘‘ ص ۸۴، ۸۹۔
    علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا شیعہ حضرات کے ہاں یہ تخیل ہے، ان کے تصور میں ایک بزدل، ڈرپوک، خوفزدہ اور سہمے ہوئے انسان کا نام علی بن ابی طالب ہے۔
    دوسری طرف آپ رضی اللہ عنہ کی شجاعت و قوت اور دلیری و بے خوفی کی ایسی ایسی کہانیاں اور قصے بنائے گئے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ پچھلے صفحات میں ہم ان کی شجاعت کے کچھ قصے بیان کرچکے ہیں۔
    صرف یہی نہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کو بزدل اور ڈرپوک کہا، بلکہ کہتے ہیں کہ اس بزدلی اور خوفزدگی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور آپ رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ رضی اللہ عنہ کو ملامت کیا کرتی اور غصے ہوا کرتی تھیں، آپ رضی اللہ عنہ کو بزدلی کے طعنے دیا کرتی تھیں، کہتے ہیں کہ ’’جب حضرت فاطمہ نے صدیق و فاروق (رضی اللہ عنہم اجمعین) سے فدک کا مطالبہ کیا اور اس سلسلے
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    میں آپ سے سخت گفتگو کی، تو علی نے… بقول ان کے اس جھگڑے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کی، اس پر فاطمہ نے آپ سے کہا:
    ’’اے ابن ابی طالب! تو نے یوں اپنے آپ کو چھپالیا جیسے ماں کے پیٹ میں بچہ، پیٹ کے بچے کی طرح تو (خاموش) بیٹھا رہا۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا۔‘‘ 1 ’’الامالی‘‘ للطوسی ص ۲۵۹ ’’حق الیقین‘‘ للمجلسی ص ۲۰۳، ۲۰۴ ’’الاحتجاج‘‘ للطبرسی۔
    اور کہتے ہیں کہ ’’فاطمہ علیہا السلام آپ کو بیٹھے رہنے پر ملامت کر رہی تھیں اور آپ خاموش تھے۔‘‘ 2 ’’اعیان الشیعہ‘‘ ص ۳۶، قسم اول۔
    اس سے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ ’’عمر بن الخطاب آپ کی بیٹی کو ڈانٹتے رہے، اور آپ انہیں اس ڈانٹ ڈپٹ سے روک تک نہ سکے‘‘ کلینی بیان کرتا ہے کہ ابوعبداللہ نے ام کلثوم بنت علی کی شادی کے بارے میں کہا تھا کہ:
    ’’یہ ایسی شرمگاہ ہے، جسے ہم سے چھین لیا گیا ہے۔‘‘ 3 ’’الکافی فی الفروع‘‘ ج ۱ ص ۱۴۱۔
    نیز ’’علی اپنی بیٹی ام کلثوم کی شادی عمر سے نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن آپ سے ڈرتے تھے۔ اس لیے آپ نے اپنے چچا عباس کو وکیل بنایا کہ وہ ام کلثوم کی شادی عمر سے کر دیں۔‘‘4 ’’حدیقۃ الشیعہ‘‘ لمقدس اردبیلی ص ۲۷۷۔
    جب آپ رضی اللہ عنہ کو خلافت و امارت پیش کی گئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ ’’مجھے چھوڑ دو، کسی اور کو تلاش کرو‘‘ مگر یہ لوگ آپ رضی اللہ عنہ کی طرف جھوٹ منسوب کرکے آپ رضی اللہ عنہ کی توہین کرتے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے مقام سے فروتر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے تصور میں آپ بھی ایک عام لالچی آدمی تھے جو منصب کے پیچھے دوڑتا ہے اور اس کے لیے ہرتدبیر اور طریقہ بلا تامل اختیار کرلیتا ہے، جو اپنا مقصود حاصل کرنے کے لیے وہ تمام وسائل اور ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے جن کی توقع کسی شریف آدمی سے نہیں کی جاسکتی،
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    ہاں ہاں! یہ لوگ آپ کو بھی لالچی اور خود غرض و مفاد پرست بتا رہے ہیں، جو اپنے مقصود کی خاطر اپنے حسب و نسب بلکہ اپنی بیوی اور اولاد کو بھی استعمال کرتا ہے۔ دیکھیے کس طرح یہ لوگ آپ رضی اللہ عنہ کی توہین کرتے ہوئے اپنی اہم، مستند اور معتمد کتب میں لکھ رہے ہیں کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ہوچکی اور علی رضی اللہ عنہ کے کانوں میں بھی یہ خبر پہنچی تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’یہ نام (یعنی خلیفہ) تو صرف میرے ہی لیے ہے اور پھر اس روز اس کے متعلق کچھ نہیں کہا۔‘‘
    ’’جب رات ہوگئی تو آپ نے فاطمہ علیہا السلام کو سوار کرایا، اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی نہیں چھوڑا،جس کے گھر آپ نہ گئے ہوں، انہیں اپنے حق کے لیے خدا کی قسمیں دیں، اپنی مدد کے لیے پکارا، لیکن ان میں سے کسی آدمی نے آپ کی بات قبول نہ کی۔‘‘ 1 ’’کتاب سلیم بن قیس‘‘ ص ۸۲، ۸۳۔
    کیا اس سے زیادہ توہین کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جیسا آدمی اپنی بیوی، بنتِ رسول رضی اللہ عنہ کو گدھے پر سوار کرائے، رسول اللہ رضی اللہ عنہ کے نواسوں کو ساتھ لے کر اور لوگوں کے دروازوں پر سے مدد و نصرت اور رحم کی بھیک مانگتا پھرے؟؟
    کتنا گھناؤنا اور برا جھوٹ ہے!
    اسی پر بس نہیں، اور بھی سنیے!
    ’’جب علی علیہ السلام نے دیکھا کہ لوگ آپ کی مدد نہیں کرتے، آپ کو چھوڑ چکے ہیں، سب ابوبکر پر متفق ہوچکے ہیں اور ان کی عزت و تعظیم کر رہے ہیں تو آپ اپنے گھر میں پڑے رہنے لگے۔‘‘ 2 ’’کتاب سلیم بن قیس‘‘ ص ۸۲۔
    ان الفاظ و کلمات پر غور کیجیے، اس چھوٹی سی عبارت کو بار بار پڑھیے! اس سے معلوم ہوجائے گا کہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان لوگوں کی آراء کیا ہیں، کس طرح یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کی تخفیف و تحقیر کرتے ہیں اور یہ تصور دیتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کو سب لوگ چھوڑ چکے اور مسترد کرچکے تھے؟
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    شیعہ حضرات کے محدث ابن بابویہ قمی نے اپنی کتاب میں اس جیسی بہت سی روایات بیان کی ہیں، اس نے بیان کیا ہے کہ کس طرح علی رضی اللہ عنہ کے تھوڑے سے مددگاروں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جواب دیا اور ان کی خلافت و امارت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، برملا لوگوں کی موجودگی میں آپ کے خلاف باتیں کیں، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے سنا تو ان کی طرف آئے:
    ’’تلواروں کو سونتے ہوئے ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: خدا کی قسم! اگر تم میں سے پھر کسی نے دوبارہ ایسی بات کی تو ہم ان کے خون سے اپنی تلواریں سیراب کریں گے۔ اس کے بعد وہ لوگ… یعنی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی… اپنے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے اور پھر کبھی کسی نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔‘‘1 ’’کتاب الخصال‘‘ للقمی ج ۲ ص ۴۶۵۔
    آپ کی توہین و تحقیر کا ایک پہلو تو یہ ہے، دوسرا پہلوان لوگوں نے یہ اختیار کیا کہ دنیا بھر کی قباحتیں اور خامیاں آپ رضی اللہ عنہ کی صورت اور مزاج پر چسپاں کردیں۔ ایک خامی یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس مال نہیں تھا اور آپ رضی اللہ عنہ قلاش و فقیر تھے، کہتے ہیں:
    ’’مفلس (ابوطالب) کے گھر سے اس کی تمام اولاد کو دوسرے لے گئے تھے تاکہ وہ اپنے ساتھی کی کفالت کرسکیں اور ان کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔‘‘ 2 ’’مقاتل الطالبیین‘‘ لابی الفرج ص ۲۶۔
    اسی لیے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کرنا چاہی تو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے اس شادی سے انکار کردیا تھا، کہتے ہیں کہ:
    ’’جب رسول اللہ رضی اللہ عنہ نے (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کی شادی علی سے کرنے کا ارادہ کیا تو فاطمہ کو بتایا، فاطمہ کہنے لگیں: یا رسول اللہ، آپ کو اپنی مرضی کا زیادہ حق ہے، لیکن قریش کی عورتوں نے مجھے (علی) کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ پھولے پیٹ والا، لمبی لمبی کہنیوں والا، مضبوط جوڑوں والا، کنپٹیوں سے گنجا اور موٹی موٹی آنکھوں والا ہے، اس کے کندھے اونٹ کے کندھوں کی طرح لٹکتے ہیں، ہنسی سے
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    دانت نکلے ہوئے ہیں اور اس کے پاس کوئی مال بھی نہیں۔‘‘ 1 ’’تفسیر القمی‘‘ ج ۲ ص ۳۳۶۔
    اصفہانی، ابن ابی اسحاق سے نقل کرتے ہوئے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان نقل کرتا ہے کہ:
    ’’میرے والد نے مجھے جمعہ کے روز مسجد میں داخل کیا، مجھے اٹھایا، میں نے علی کو دیکھا کہ وہ منبر پر بیٹھے خطبہ دے رہے ہیں، وہ ایک بوڑھے اور گنجے آدمی تھے، سوجی ہوئی پیشانی اور دونوں کندھوں کے درمیان کافی چوڑائی تھی۔ ان کی داڑھی نے ان کا سینہ بھر دیا تھا، ان کی آنکھ میں نرمی (آشوبِ چشم) تھی۔‘‘ 2 ’’مقال الطالبیین‘‘ ص ۲۷۔
    آپ کی پوری ہیئت کذائی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
    ’’علی علیہ السلام گندمی رنگ اور درمیانے قد والے تھے، یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ آپ کا قد چھوٹا تھا، بڑی سی توند تھی، باریک انگلیاں تھیں، موٹی موٹی کلائیاں تھیں، باریک باریک پنڈلیاں تھیں۔ آپ کی آنکھوں میں نرمی (آشوبِ چشم) تھی، گھنی داڑھی تھی، کنپٹیوں سے گنجے اور ابھری ہوئی پیشانی والے تھے۔‘‘ 3 ’’مقال الطالبیین‘‘ ص ۲۷۔
    کافی میں ایک اور روایت کلینی سے نقل کی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا شادی کے بعد بھی علی رضی اللہ عنہ سے خوش نہیں تھیں اور نہ آپ رضی اللہ عنہا نے دل سے علی رضی اللہ عنہ کو قبول کیا تھا، روایت یوں ہے کہ:
    ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کی شادی علی علیہ السلام سے کردی تو آپ رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے، دیکھا کہ فاطمہ رو رہی ہیں، آپ نے ان سے پوچھا، کس چیز نے تجھے رُلایا؟‘‘
    بخدا اگر میرے گھرانے میں اس سے بہتر کوئی دوسرا ہوتا تو میں تیری شادی ہرگز اس سے نہ کرتا، میں نے اس کے ساتھ تیری شادی نہیں کی، خدا نے تیری شادی کی ہے۔ 4 ’’الفروع من الکافی‘‘ ۔
    اربلی بریدہ سے نقل کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اٹھ اے
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    بریدہ، ہم فاطمہ کے پاس جائیں گے، ہم آپ کے پاس گئے، آپ نے اپنے والد کو دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے، آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: میری بیٹی! کس چیز نے تجھے رُلا دیا؟ فاطمہ نے کہا: کھانا کم، فکر زیادہ، اور غم بہت ہے‘‘ ایک روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا ’’بخدا میرا غم بہت زیادہ ہوگیا ہے، فاقے بہت ہو رہے ہیں اور میری بیماری بڑھ گئی ہے۔‘‘ 1 ’’کشف الغمۃ ‘‘ ج ۱ ص ۱۴۹۔ ۱۵۰۔
    یہ ان لوگوں کا حال اور یہ ان کا انداز ہے! ان لوگوں سے کیا توقع اور امید کی جاسکتی ہے؟ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ، صدیق رضی اللہ عنہ و فاروق رضی اللہ عنہ اور ذوالنورین رضی اللہ عنہ جیسے بزرگ و پاکیزہ لوگوں پر، بلکہ سید المرسلین سمیت اللہ کے تمام نبیوں اور رسولوں پر زبان درازیاں کرنے سے نہیں رکتے، کیا یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے اہل بیت کا احترام کریں گے: نہیں اور کبھی نہیں!
    علی رضی اللہ عنہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی توہین کرتے ہوئے ایک انتہائی ناپاک اور بے ہودہ روایت بیان کرتے ہیں کہ:
    ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف ایک لحاف تھا، اور کوئی لحاف نہیں تھا، عائشہ بھی آپ کے ساتھ تھیں، چنانچہ رسول اللہ علی اور عائشہ کے درمیان سویا کرتے تھے، سب پر ایک ہی لحاف ہوتا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھتے تو اپنے ہاتھ سے عائشہ اور علی کے درمیان لحاف کے وسط سے حصہ بندی کردیا کرتے۔‘‘2 ’’کتاب سلیم بن قیس‘‘ ۲۲۱۔
    کیا اس سے زیادہ توہین کی جاسکتی ہے؟
    ہاں ہاں! اس سے بھی زیادہ اور بہت زیادہ!!! بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ علی، رسول اللہ کے پاس آئے، ابوبکر اور عمر بھی آپ کے پاس موجود تھے۔ علی کہتے ہیں کہ:
    ’’میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور عائشہ کے درمیان بیٹھ گیا، عائشہ نے علی سے کہا: تجھے میری اور رسول اللہ کی ران کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ملی؟ آپ نے کہا: رہنے دے اے عائشہ!‘‘ 3 ’’البرہان فی تفسیر القران‘‘ ج ۴ ص ۲۲۵۔
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    ایک دفعہ علی آئے ’’تو بیٹھنے کو کوئی جگہ نہ ملی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اشارہ کیا: ادھر آجا (اپنے پیچھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) عائشہ چادر اوڑھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑی تھیں، علی آئے اور رسول اللہ اور عائشہ کے درمیان بیٹھ گئے، عائشہ غصے میں آگئیں اور کہنے لگیں: تیری سرین کو میری گود کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ملتی؟ اس پر رسول اللہ کو غصہ آگیا، آپ نے کہا: اے حمیرائ، میرے بھائی کو تکلیف پہنچا کر مجھے تکلیف نہ دے۔‘‘ 1 ’’کتاب سلیم بن قیس العامری‘‘ ص ۱۷۹۔
    اس طرح یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کی توہین کرتے ہیں۔ اور یہی تھے جو آپ رضی اللہ عنہ کو اقتدار پر فائز ہونے کے بعد بھی، جب آپ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ اور امیر بن چکے تھے، چھوڑ گئے تھے، کسی بھی جنگ یا معرکہ کا وقت آتا تو یہ اس سے جان بچاتے پھرتے، بہانے ڈھونڈتے پھرتے کہ کسی طرح آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جانے سے بچ جائیں، بغیر کسی عذر کے ، کبھی کھلم کھلا اور کبھی کسی حیلے بہانے سے، تاریخ کی کتابیں ان کی غداریوں سے بھری پڑی ہیں، یہ لوگ ہمیشہ معرکوں اور جنگوں میں آپ کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے ہیں، عین اس وقت جب جنگ کے شعلے پوری طرح بھڑک اٹھے، یہ لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو جنگ کے بھڑکتے شعلوں میں چھوڑ کر کنارہ کش ہوگئے۔ اسی کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں:
    ’’خدا تمہیں موت دے، تم نے میرے دل کو نفرت اور میرے سینے کو غصہ سے بھر دیا۔ تم نے مجھے تہمتوں کے کڑوے گھونٹ پلائے، تم نے میری مرضی کے خلاف نافرمانی و سرکشی کی، مجھے چھوڑ گئے اور قریش نے یہاں تک کہ دیا کہ ابن ابی طالب ایک بہادر آدمی ہے لیکن جنگ کرنا نہیں جانتا۔ اس کے بعد کہا، لیکن اس کی کیا مرضی ورائے جس کی اطاعت ہی نہ کی جاتی ہو۔‘‘ 2 ’’نہج البلاغۃ‘‘ ص ۷۰،۷۱۔
    ایک دفعہ کہا: ’’سنو! میں نے ان لوگوں سے لڑنے کے لیے صبح و شام تمہیں پکارا، چھپ کر اور علانیہ تمہیں پکارا، میں نے تمہیں کہا اس سے پہلے کہ وہ تم پر حملہ کردیں، تم ان پر حملہ کردو، خدا کی قسم کوئی قوم بھی اپنے گھروں کے آنگن میں نہیں لڑی مگر ذلیل و رسوا ہوئی، تم
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    نے ایک دوسرے کی مدد نہ کی، ایک دوسرے کو چھوڑ دیا تو دشمن نے تم پر بھرپور حملہ کردیا۔ وہ ملکوں کے مالک ہوگئے، تم تلواریں نیام میں ڈالے رہے اور دشمن کے گھڑ سواروں نے تم پر ہلہ بول دیا۔ حسان بن حسان بکری کو مار ڈالا، تمہارے لشکر کو اپنی جگہ سے دور ہٹا دیا۔ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ان کا کوئی آدمی مسلمان عورت کے پاس جاتا، اس کی پازیب اتار لیتا، اس کے گلے کا ہار اور کانوں کی بالیاں کھینچ لیتا۔ اور وہ اسے روک نہیں سکتی تھی بس اس سے رحم کی بھیک مانگتی، وہ مال و دولت سے لدا نکل جاتا، کوئی آدمی اسے زخمی نہ کرتا، کوئی اس کا خون نہ بہاتا، کوئی مسلمان عورت اس کے بعد اگر افسوس سے مر جاتی تو اس کا مرنا اس کے لیے باعث ملامت نہ ہوتا، بلکہ میرے نزدیک تو اسے مر ہی جانا چاہیے، حیرت ہے … حیرت ہے، خدا کی قسم ان لوگوں کے باطل پر متفق ہونے، تمہارے حق سے دور ہونے کی وجہ سے دل مر رہے ہیں، غم بڑھ رہے ہیں۔ تمہارا برا ہو کہ تم تیروں کا نشانہ بن گئے، تم پر حملہ کیا جاتا اور تم حملہ نہیں کرتے، تم سے جنگ کی جاتی ہے اور تم جنگ نہیں کرتے، وہ خدا کی نافرمانی کرتے ہیں اور تم خوش ہو! میں نے گرمی کے دنوں میں تمہیں ان کی طرف چلنے کا حکم دیا تو تم نے کہا کہ: اب موسم گرما کی شدید ترین گرمی ہے، ہمیں کچھ مہلت دے دیجیے کہ گرمی کی شدت میں کمی آجائے، میں نے سردی کے موسم میں چلنے کا حکم دیا تو تم نے کہا کہ: اب موسم سرما کی شدید ترین سردی ہے، ہمیں کچھ مہلت دیجیے کہ سردی کی شدت میں کمی آجائے، اسی طرح تم ہمیشہ سردی اور گرمی سے بھاگتے ہو تو خدا کی قسم تلوار سے تو تم اور زیادہ بھاگو گے۔‘‘1
    -------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
    یہ محمد بن حسن فتال نیساپوری ہے ’’جلیل القدر متکلم، فقیہ، عالم زاہد اور متقی تھا۔ اسے ابو المحاسن عبدالرزاق سردارنیسابور نے قتل کردیا تھا۔‘‘ (رجال الحلی ص ۲۵۹ مطبوعہ: ایران)
    پانچویں صدی کے شیعہ شیوخ میں سے ہے ’’روضۃ الواعظین‘‘ کا مصنف ہے۔ (تاسیس الشیعہ ص ۳۹۵) ’’شیعہ حضرات کا جلیل القدر شیخ ہے۔ مدرس، علم کلام کا ماہر، فقیہ، عالم، قاری،مفسر اور دیندار آدمی تھا۔ امین اور معتمد علماء میں سے تھا۔‘‘ محمد مہدی خراسان کے مقدمہ کتاب ص ۱۱ سے منقول۔ (مطبوعہ قم، ایران)
    -------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
     
    • اعلی اعلی x 1
    • مفید مفید x 1
  2. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    شیئرنگ کا شکریہ
     
  3. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    بارک اللہ فیک و نفع اللہ بک
     
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا وبارک فیک۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں