اقتباسات از اطلس السیرۃ النبویہ اردو

توریالی نے 'مطالعہ' میں ‏مارچ 21, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    السلام و علیکم
    اس زمرہ میں اطلس السیرۃ النبویہ اردو سے ان شاء اللہ اقتباسات گاہے گاہے پیش کیے جاتے رہیں گے۔

    سر ورق

    [​IMG]

    اقتباس فہرست ابواب

    عرض ناشر
    تقدیم و تصدیر
    جزیرہ نمائے عرب
    نبی اکرم ﷺ کے جد امجد ابوالا انبیاء خلیل الرحمٰن حضرت ابراہیم 
    حضرت ابراہیم  کا سفر ہجرت
    نبی کریمﷺ کے اجداد
    قریش کے قبائل
    سرزمین عرب کے بت
    جاہلیت کی مشہور منڈیاں اور میلے
    زمانۂ قبل اسلام کی سلطنتیں
    عام الفیل30 اگست 571ء یا 570ء نبی کریمﷺ کی مبارک پیدائش
    نبی کریم ﷺ کی جائے ولادت مکہ مکرمہ
    عبد اللہ بن عبد المطلب کا سفر شام اور وفات
    آل عبد مناف اور نبیﷺ کے قریبی عزیز
    حضرت محمد بن عبد اللہﷺ
    نبی کریمﷺ کی پرورش، سفر اور مقامات سفر
    جنگ فجار 580ء-590ء
    حلف الفضول
    حمس۔۔۔ ‘‘قریش کی بدعت’’
    جہاں پہلی وحی نازل ہوئی
    ہجرت حبشہ کے مقامات
    حضرت طفیل بن عَمرو ازدی دَوسیؓ(ذوالنور)
    سفر طائف
    نصیبیین (الجزیرہ) سے جنوں کی آمد
    اسراء۔۔۔ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک
    ہجرت سے پہلے (بیعت عبہ اولیٰ اور ثانیہ)
    ہجرت نبویﷺ
    قباء اور مسجد قباء
    مدینہ منورہ
    مدینہ منورہ کی بعض مشہور مساجد
    حضرت سلمان فارسیؓ کا سفر (از اصفہان تا مدینہ منورہ)
    بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف تبدیلیٔ قبلہ
    غزاوات و سرایا
    سرّیۂ حضرت حمزہؓ عیص کی جانب سے ساحل سمندر کی طرف (رمضان 1 ہجری)
    سرّیۂ حضرت عبیدہؓ(ثَنّیۃ ُ اللمُرَہ) بطن رابغ کی طرف(شوال 1ہجری)
    سرّیۂ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ خرار کی طرف(ذوالقعدہ1ہجری)
    غزوۂ ودّان(ابوا) (صفر2 ہجری)
    غزوۂ بواط (بدر اُولیٰ) (ربیع الاول2 ہجری)
    غزوۂ سفوان (بدر اُولیٰ) (ربیع الاول2 ہجری)
    غزوۂ ذی العُشیرَہ(جمادی الآخرہ 2 ہجری)
    سرّیۂ عبد اللہ بن حجش اسدیؓ مکہ کے قریب وادیٔ نخلہ میں (رجب 2 ہجری)
    غزوۂ بدر الکبریٰ (رمضان2ہجری)
    سرّیۂ حضرت عمیر بن عدیؓ(رمضان2ہجری)
    سرّیۂ سالم بن عمیرؓ (شوال2ہجری)
    غزوۂ بنو قینقاع(شوال2ہجری)
    غزوۂ سویق (ستوؤں والی جنگ) (ذی الحجہ2 ہجری)
    غزوۂ بنو سلیم (محرم 3 ہجری)
    سرّیۂ محمد بن مسلمہؓ
    غزوۂ ذی اَمَر نُخَیل کے علاقے میں (ربیع الاول 3 ہجری)
    غزوۂ بُحران (جمادی الاولیٰ3ہجری)
    سرّیۂ حضرت زید بن حرثہؓ قردہ (نجد) کی طرف (جمادی الآخرہ3 ہجری)
    غزوۂ احد(شوال 3 ہجری)
    غزوۂ حمراء ا الاسد (16 شوال 3 ہجری)
    سرّیۂ ابی سلمہ بن عبد ا لاسد مخزومیؓ قَطَن کی طرف (محرم 4 ہجری)
    سرّیۂ عبد اللہ بن اُنَیسؓ عُرَنَہ کی طرف(محرم 4ہجری)
    سرّیۂ منذر بن عمروؓ بئر معونہ کی طرف (صفر 4 ہجری)
    سریۂ مَرثد بن ابی مَرثد غنویؓ (صفر 4 ہجری)
    غزوۂ بنی نضیر (ربیع الاول 4 ہجری )
    غزوۂ بدر آخرہ (ذوالقعدہ 4ہجری)
    غزوۂ ذات الرقاع (محرم 5ہجری)
    غزوۂ دومۃ الجندل (ربیع الاول 5 ہجری)
    غزوۂ بنی مصطلق (غزوۂ مُرَ یسیع) (شعبان 5ہجری)
    غزوۂ خندق(غزوۂ احزاب) ( شوال 5 ہجری)
    غزوۂ بنو قریضہ (ذوالقعدہ 5 ہجری)
    سرّیۂ محمد بن مَسلمہ انصاریؓ قُرَطاء کی طرف (10محرم 6 ہجری)
    غزوۂ بنی لحِیان (ربیع الاوّل 6ہجری)
    غزوۂ ذی قرد (الغابہ) (ربیع الاوّل 6ہجری)
    سرّیۂ عُکاشہ بن محصن اسدیؓ غَمُر کی طرف (ربیع الاوّل 6ہجری)
    سرّیۂ محمد بن مَسلمہؓ ذو قَصّہ کی طرف (ربیع الٓا خر 6ہجری)
    سرّیۂ ابو عبیدہ بن جراحؓ ذو قَصّہ کی طرف (ربیع الٓا خر 6ہجری)
    سرّیۂ زید بن حارثہؓ بنو سُلیم کے خلاف (ربیع الٓا خر 6ہجری)
    سرّیۂ زید بن حارثہؓ حِسُمی عیص کی طرف (جمادی الاُ ولیٰ 6ہجری)
    سرّیۂ زید بن حارثہؓ طَرَف کی طرف(جمادی الآ خرہ6ہجری)
    سرّیۂ زید بن حارثہؓ حِسُمی کی طرف (جمادی الآ خرہ6ہجری)
    سرّیۂ زید بن حارثہؓ وادی القریٰ کی طرف (رجب 6ہجری)
    سرّیۂ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ دومۃ الجندل کی طرف

    سرّیۂ حضرت علی بن ابی طالبؓ فَدک کی طرف (شعبان6ہجری)
    سرّیۂ عبد اللہ بن عتیکؓ خیبر کی طرف (رمضان6ہجری)
    سرّیۂ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ خیبر میں اُسَیر بن زَارِم یہودی کے خلاف (شوال6ہجری)
    سرّیۂ کُرز بن جابر فِہریؓ عرینہ کی طرف (شوال6ہجری)
    سرّیۂ عمرو بن امیہ ضمریؓ سلمہ بن اسلمؓ کی معیت میں مکہ کی طرف (6ہجری)
    غزوۂ حدیبیہ اور بیعت رضوان (ذو ا لقعدہ 6ہجری)
    غزوۂ خیبر، فدک اور وادی القریٰ (محرم 7 ہجری)
    رسول کریمﷺ کے خطوط شاہان وقت کے نام
    باذان کے قاصدوں کی آمد (صنعاء سے مدینہ منورہ تک)
    حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا (ملکِ مصر کے علاقہ اَنصِنا کی ایک بستی حُفن سے)
    رسول اللہﷺ کا قیصر ہر قل کو خط (آغاز 7 ہجری/628ء)
    سرّیۂ حضرت عمر بن خطاب ؓ تُربہ کی طرف (شعبان7ہجری)
    سرّیۂ حضرت ابو بکر صدیقؓ نجد کی طرف (شعبان7ہجری)
    سرّیۂ حضرت بشیر بن سعد انصاریؓ فَدک کی طرف (شعبان7ہجری)
    سرّیۂ حضرت غالب بن عبد اللہ لیثی ؓ وادیٔ نخل کی طرف (رمضان7ہجری)
    سرّیۂ حضرت بشیر بن سعد انصاریؓ یَمن اور جُبَار کی طرف (شوال7ہجری)
    عمرۃ القضاء(شوال7ہجری)
    سرّیۂ ابن ابی ا لعوجاء سُلمیؓ بنو سُلَیم کی طرف (ذوالحجہ7ہجری)
    سرّیۂ حضرت غالب بن عبد اللہ لیثیؓ کَدیدکی طرف (صفر 8ہجری)
    سرّیۂ حضرت غالب بن عبد اللہ لیثی ؓ فَدَک کی طرف (صفر 8ہجری)
    سرّیۂ حضرت شجاع بن وہب اسدی ‘سیّ’ کی طرف (ربیع الاول8ہجری)
    سرّیۂ حضرت کعب بن عُمیر غفاریؓ ذاتِ اطلاع کی طرف(ربیع الاول8ہجری)
    غزوۂ موتہ (غزوۂ جیش الامراء) (جمادی الاولیٰ8ہجری)
    سریّۂ حضرت عمر و بن عاصؓ ذات السلاسل کی طرف (جمادی الآ خر8ہجری)
    سریّۂ حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ ‘قَبَلِیّہ’ کی طرف (رجب8ہجری)
    سریّۂ حضرت ابو قتادہ بن ربعی انصاریؓ ‘خَضِرہ’ کی طرف(رجب8ہجری)
    سریّۂ حضرت ابو قتادہ بن ربعی انصاریؓ ‘بطن اِضم’ کی طرف(رجب8ہجری)
    فتح مکہ (فتح اعظم) (رمضان 8ہجری)
    سریّۂ حضرت خالد بن ولیدؓ نخلہ کی طرف (رمضان 8ہجری)
    سریّۂ حضرت عمرو بن عاصؓ بنو ہُذیل کی طرف (رمضان 8ہجری)
    سریّۂ حضرت سعد بن زید اشہلیؓ مُشَلَّل کی طرف (رمضان 8ہجری)
    سریّۂ حضرت خالد بن ولیدؓ بنو جذیمہ کی طرف (شوال 8ہجری)
    غزوۂ حنین (غزوۂ ہوازان) (شوال 8ہجری)
    سریّۂ حضرت طفیل بن عَمر دَوسیؓ ذوالکفین کی طرف (شوال 8ہجری)
    غزوہ طائف (شوال 8ہجری)
    سریّۂ عُییَنیہ حصن فزاریؓ بنو تمیم کی طرف (محرم9ہجری)
    سریّۂ قطبہ بن عامرؓ تبالہ کی طرف (صفر9ہجری)
    سریّۂ ضحاک بن سفیان کلابیؓ بنو کلاب کی طرف (ربیع الاول9ہجری)
    سریّۂ علقمہ بن مجزز مدلجی جدہ کی طرف (ربیع الآخر 9ہجری)
    سریّۂ حضرت علی بن ابی طالبؓ بنو طے کی طرف (ربیع الآخر 9ہجری)
    سریّۂ حضرت علی بن ابی طالبؓ یمن کی طرف (رمضان 10ہجری)
    سریّۂ عکاشہ بن محصن اسدیؓ جِنَاب کی طرف (ربیع الآخر 9ہجری)
    غزوۂ تبوک (غزوۂ عُسُرہ) رجب 9ہجری
    سن وفود (9ہجری)
    سریّۂ حضرت خالد بن ولیدؓ نجران کی طرف (ربیع الاول 10ہجری)
    حجۃ الوداع (حجۃ الاسلام) ( 10ہجری)
    جیش اسامہؓ بلقاء کی طرف (صفر 11 ہجری)
    رسول اللہ ﷺ کے امراء اور عمال
    حدیث، تدوین حدیث۔مراتب حدیث، کتب ستہ اور ان کے مؤولفین۔علمی اسفار کے نقشوں کی تفصیلات
    سیرت اور مغازی سے متعلق کتب
    کعبہ مشرفہ(البیت، بیت اللہ، ایبیت الھرام، ایبیت العتیق، القبلہ)
    مکہ مکرمہ اور مواقیت کا درمیانی فاصلہ(تقریباً)
    مسجد حرام اور حرم کی حدود کا درمیانی فاصلہ
    مسجد حرام کی پیمائش اور گنجائش

    اقتباس: عرض ناشر

    ادارہ دارالسلام جب سے قائم ہوا ہے، کتاب و سنّت اور دیگر اسلامی علوم کی اشاعت اس کا مطمح نظر رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہم عہد نو کے تقاضے پیش نگاہ رکھتے ہوئے قرآن مجید، حدیث، سیرت اور عربی زبان و ادب کی تدریس و اشاعت میں ہر نوع کے جدید سائنسی و فنی ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔ دینی علوم کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حثیت سے میری ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ قرآنی تعلیمات۔ علم حدیث اور سیرت نبویہ کے حوالے سے عربی میں چھپنے والی ہر اچھی کتاب اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں کے قالب میں ڈھالی جائے۔ یہ 1998ء کی ایک خوبصورت صبح تھی جب میں اپنی فیملی کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ بذریعہ کار روانہ ہوا۔ یہ سفر جس سڑک پر جاری تھا اس کو عربی میں طریق سریع (ہائی وے) یا طریق الہجرہ بھی کہتے ہیں۔ یہ نئی سڑک کچھ عرصہ پہلے ہی بنی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نئی سڑک کم و بیش اسی راستے پر بنائی گئی ہے جس راستے پر رسول اکرمﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تھے۔ مدینہ کے سفر کی لذت ہی نرالی ہے۔ میں نے اپنے بچوں کو ہجرت کے واقعات سنانا شروع کیے۔ تھوڑی دیر کے بعد بنی مدلج کا علاقہ شروع ہوا۔ سراقہ بن مالک اسی جگہ کا رہنے والا تھا۔ ہجرت کے اہم واقعات میں سراقہ بن مالک کا سرخ اونٹوں کے لالچ میں اس مقدس قافلے کا پیچھا کرنا بھی شامل ہے۔

    میں نے سڑک کر کنارے گاڑی روک دی، دور دور تک سخت پتھریلی زمین تھی۔ میں نے چل پھر کر دیکھا زمین اتنی سخت تھی کہ کسی گھوڑے کا ٹھوکر کھا کر اس میں دھنس جانا نا ممکن تھا۔ میں نے بچوں کو بتایا کہ سراقہ بن مالک کے گھوڑے کا زمین میں دھنسنا اللہ کے رسولﷺ کا معجزہ تھا ورنہ یہ دیکھیں زمین کتنی سخت ہے۔ اس میں گھوڑے کا دھنسنا نا ممکن ہے۔ بچے بھی خوب دلچسپی سے ان واقعات کو سن رہے تھے اور اپنے دل و دماغ میں جگہ دے رہے تھے۔ میں چشم تصور میں اس چار رُکنی قافلے کو دیکھ رہا تھا۔ جو عبد اللہ بن اریقط کی رہنمائی میں اس علاقے سے گزرا۔ سراقہ کا روکنا، گھوڑے کا زمین میں دھنسنا سراقہ کا امان طلب کرنا اور عامر بن فہیرہؓ کا امان نامہ لکھ کر دینا۔ میں اس علاقے میں کھڑا نقشہ بنا رہا تھا۔ کاش ان مقامات کو محفوظ کر لیا جاتا ان کے تفصیلی نقشے ہوتے۔ نوجوان نسل اور ہم جیسے تاریخ کے ادنیٰ طالب علم اس سے فائدہ اٹھاتے۔ مکہ مکرمہ میں کتنی بار تمنا ہوئی کہ اس جگہ کا سراغ لگاؤں جہاں دار ارقم واقع تھا۔ شعب ابی طالب کہاں تھا۔ ابو جہل کا گھر کہاں تھا۔ دارالندوہ کس طرف تھا۔

    دار السلام نے جب تاریخ مکہ مکرمہ اور تاریخ مدینہ منورہ شائع کی تو میری خواہش تھی کہ ان کتابوں میں ایسے نقشے شامل ہوں۔ جن میں ان مقامات کی نشاندہی ہو مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ سچ پوچھیں تو باوجود تلاش کے ایسا آدمی نہ مل سکا جو ہماری اس سلسلہ میں مدد کر تا۔

    کم و بیش آٹھ سال قبل مدینہ طیبہ میں الرحیق المختوم کے مؤلف مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری حفظہ اللہ کے ہمراہ مجھے کعب بن اشرف کے قلعے کے کھنڈرات دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ مدینہ یونیورسٹی کے کچھ طلبہ بھی ہمراہ تھے۔ مولانا موصوف نے بڑے عمدہ انداز میں سارا نقشہ بنا کر کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ بیان کیا۔

    اس وقت مجھے بھی خواہش کوئی کہ کوئی ایسی کتاب دستیاب ہو جس میں ان تمام واقعات و مقامات کو نقشوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہو، تا کہ سیرت پاک کے واقعات دل و دماغ میں اپنے نقشوں سمیت نقش ہو جائیں۔

    چناں چہ اڑھائی تین سال پہلے جب عربی کے بلند پایہ شامی مصنف دکتور شوقی ابو خلیل کی شاندار تصانیف ‘‘اطلس القرآن: اماکن۔ اقوام، اعلام’’ (قرآنی اٹلس: مقامات، اقوام اور شخصیات کا تذکرہ) اور‘‘اطلس السیرۃ النویہ’’ میری نظر سے گزریں تو مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ بالترتیب قرآنی آیات و موضوعات اور سیرت کے واقعات کے ساتھ ساتھ چہار رنگ نقشوں سے بھی مزّین ہیں اور یہی میری دیرینہ خواہش اور پرانی آرزو تھی کہ اس قسم کی کتاب دستیاب ہو جس میں ان مبارک مقامات کے نقشے ہوں۔ چناں چہ میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ دارالسلام ان کتابوں کو اردو اور انگریزی کا جامہ پہنانے کا شرف حاصل کرے گا۔ اس کے لیے کتاب کے ناشر‘‘دار الفکر: دمشق’’ سے رابطہ قائم کیا گیا اور بڑی تگ و دو کے بعد میں نے ‘‘اطلس القرآن’’ اور ‘‘اطلس السیرۃ النبویہ’’ کے اردو اور انگریزی اڈیشنوں کی اشاعت کے حقوق حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ اطلس القرآن کے ابتدائی صفحات میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے کہ میں یہ حقوق حاصل کرنے میں کس طرح کامیاب ہوا۔ کتابوں کے اردو ترجمے کی نازک ذمے داری شیخ الحدیث حافظ محمد امین نے اٹھائی اور حق ترجمانی خوب ادا کیا۔ ان کے ترجمہ کی خوبی یہ ہے کہ انداز نہایت سادہ اور دل میں اترنے والا ہے۔ کتاب ترجمہ نہیں تالیف معلوم ہوتی ہے۔

    اطلس القرآن اور اطلس السیرۃ النبویہ میں قصص انبیائے کرام ، واقعات اقوام عالم اور دیگر سیرت نبویہ کے حوالے شامل کیئے گئے۔ نقشوں کو عربی سے اردو میں ڈھالنے کا مرحلہ خاصا دشوار تھا۔ عربی کی جغرافیائی اصطلاحات کے صحیح اردو مترادافات ڈھونڈنا تھے اور مقامات و اما کن کے حوالے سے متن کے ساتھ اضافی توضیحات شامل کرنا تھیں تاکہ قارئین ان نقشوں سے کماحقہ مستفید ہو سکیں۔ اس کے لیے ایک ایسے صاحب علم کی ضرورت تھی جو عربی سے بھی مناسب واقفیت رکھتا ہو اور دنیا کے قدیم و جدید جغرافیہ و تاریخ پر بھی اسے عبور حاصل ہو۔ یہ اپنی جگہ ایک کٹھن کام تھا کیوں کہ قدیم جغرافیائی کتب اور اطلسوں میں دی گئی معلومات دنیا کی جدید جغرافیائی تقسیم سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ مثلاً حرّان یا حاران جہاں حضرت ابراہیم ؑ ، اُور (عراق) سے ہجرت کر کے پہنچے تھے، ماضی کے وسیع تر الجزیرہ میں شامل تھا مگر ان دنوں وہ جنوبی ترکی میں واقع ہے، نیز ماضی کا الجزیرہ اب عراق، شام اور ترکی تین ملکوں میں بٹا ہوا ہے۔ عہد نبوی کا علاقہ بحرین، سعودی عرب کے مشرقی صوبے الاحساء، قطر اور جزیرہ بحرین پر محیط تھا جب کہ آج کی مملکت بحرین صرف جزیرہ بحرین کے گرد چند چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے۔ یہ کام واقعی کافی مشکل تھا مگر یہ مشکل کہنہ مشق صحافی جناب محسن فارانی نے حل کر دی جو اُردو کے معروف جریدے ‘‘ندائے ملت’’ لاہور کے نائب مدیر ہیں اور اس سے پہلے طویل عرصہ تک اردو ڈائجسٹ میں ادارتی فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ وہ قدیم و جدید علوم جغرافیہ و تاریخ کے ماہر اور محّقق بھی ہیں، اردو اور انگریزی پر کامل عبور رکھتے ہیں اور عربی سے بھی انھیں شغف ہے۔ محسن فارانی اور ان کی معاون ٹیم کی شبانہ روزگار کاوشوں سے پہلے اطلس القرآن (اردو) منصۂ شہود پر آئی اور اب اطلس السیرۃ النبویہ (اردو) آپ کے سامنے ہے۔

    اردو اطلس السیرہ النبویہ (سیرت نبوی کا اٹلس) میں نبی ﷺ کی سیرت، واقعات، غزاوات اور سرایا کو چہار رنگ نقشوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ مقامات و اماکن کی رنگین تصاویر اور اضافی توضیحات و تشریح دی گئی ہیں۔ اس کی تیاری میں دار السلام شعبۂ تحقیق و تصنیف کے علمائے کرام حافظ اقبال صدیق مدنی، حافظ عبد الرحمٰن ناصر اور پروفیسر محمد ذو الفقار نے معاونت کی اور عربی مراجع و مصادر سے معلومات اور حوالے تلاش کرنے میں مدد دی ۔ ترجمہ شدہ مسودے پر نظر ثانی کے فرائض حافظ عبد الرحمٰن ناصر اور حافظ محمد آصف اقبال نے انجام دیے۔ کمپوزنگ، نقشوں کی تیاری اور پروف ریڈنگ کے مراحل خوش اسلوبی سے طے پائے اور پروف ریڈنگ کا فریضہ محسن فارانی، مولانا محمد عبد الجبار، حافظ محمد آصف اقبال۔ حافظ اقبال صدیق مدنی اور عثمان منیب صاحب نے مل کر نبھایا۔ ساتھیوں کے تعاون اور شب و روز کی محنت شاقہ سے بحمد اللہ جو چیز پیش کی جا رہی ہے، اس سے پہلے اردو میں اس کی مثال نہیں ملتی بلکہ اضافی جغرافیائی و تاریخی توضیحات شامل کرنے اور متن اور نقشوں میں پائی جانے والی بعض اغلاط کی تصحیح اور اشکالات دور کرنے کے بعد اس کی افادیت دو چند ہو گئی ہے۔ اضافی توضیحات و تشریحات میں مقامات و اماکن، ہر سریہ کے امیر، عُمال نبوی اور حروب ردّہ کے سالاروں کا تعارف شامل کیا گیا ہے۔ نیز حضرت ابراہیم ؑ کی جائے پیدائش، عام طور مشہور ‘‘ اُور’’ کے بجائے ‘‘کُوثَی’’ کا مستند حوالوں سے تعین کیا گیا ہے اور متعلقہ نقشے میں وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔ جناب محسن فارانی نے اطلس السیرۃ النبویہ کے نقشوں میں پروف کی اغلاط درست کرنے کے علاوہ بعض نقشوں کی تصحیح بھی کی ہے اور بعض نئے نقشے بنوا کر شاملِ کتاب کیے ہیں، مثلاً:

    1. اطلس السیرۃ النبویہ (عربی) میں نبی ﷺ کی مکہ مکرمّہ سے مدینہ منورہ تک، ہجرت کا راستہ (طریق الہجرہ) درست نہیں دکھایا گیا، چناں چہ اس کی جگہ ایک اور درست تر نقشہ شامل کیا گیا ہے۔
    2. جزیرہ نمائے عرب کی جدید سیاسی تقسیم کے حوالے سے ایک نقشہ شروع میں دے دیا گیا ہے۔
    3. عہدِ نبوی کے بحرین اور موجودہ بحرین کا فرق واضح کرنے کے لیے ایک الگ نقشہ دیا گیا ہے۔
    4. حرم مکّی اور مسجد نبوی کے رقبوں میں مختلف زمانوں میں ہونے والی توسیعات کو واضح کرنے کے لیے دو نئے رنگین نقشے پیش کیے گئے ہیں۔

    اطلس القرآن (اردو)کی طرح اطلس السیرۃ النبویہ (اردو) کے نقشوں میں بھی ‘‘سُودان’’ کے انگریزی تلفظ ‘‘سوڈان’’ کے بجائے اصل عربی تلفظ کی پیروی میں اسے ‘‘سُودان’’ ہی لکھا گیا ہے۔

    اطلس السیرۃ النبویہ (اردو) کی تیاری کے فنّی مراحل، کمپوزنگ، ڈیزائیننگ وغیرہ میں محمد عامر رضوان، محمد ندیم کامران اور ضیاءالدین نے اسے خوب سے خوب تر بنانے میں بھر پور محنت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ عزیزم حافظ عبد العظیم اسد سلمۃٗ اللہ تعالیٰ مدیر دارالسلام لاہور بھی میرے شکریے کے بجا طور پر مستحق ہیں جن کی نگرانی و اہتمام میں یہ سارا کام تکمیل کو پہنچا۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔

    قارئین سے درخواست ہے کہ وہ ہماری ان کاوشوں کو پسند فرمائیں تو ارحم الراحمین سے ہمارے حق میں قبولیت و مغفرت کی دعا ضرور فرمائیں۔

    میرا س کتاب کو شائع کرنے کا اولین مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دلی محبت کا اظہار ہے۔ زہے نصیب کہ مجھے اور اس کتاب پر دن رات کام کرنے والی ٹیم کو قیامت کے دن رسول اللہ کی شفاعت نصیب ہو جائے۔ میں امت مسلمہ کے افراد سے بالعموم اور نوجوان طبقہ سے بالخصوص گزارش کروں گا کہ وہ سیرت پاک کا خوب دل جمعی اور کثرت سے مطالعہ کریں۔ اور اس کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔ میں تاریخ و جغرافیہ، تاریخ کے ماہرین سے بھی عرض گزار ہوں کہ اگر انہیں اس کتاب میں کوئی سقم، کوئی علمی غلطی یا کمزوری نظر آئے تو براہ کرم ہمیں ضرور مطلع فرمائیں۔ ان شاء اللہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی ضرور اصلاح کر دی جائے گی۔

    خادم کتاب و سنت
    عبد المالک مجاہد
    مدیر دارالسلام - الریاض، لاہور
    ذی الحجہ 1424 ھ/ فروری 2004ء


    نوٹ: اقتباس تقدیم و تصدیر، از دکتور شوقی ابو خلیل ان شاء اللہ دو ایک روز میں پیش کیا جائے گا۔ قدرے طویل ہے۔
     
  2. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    تقدیم و تصدیر

    تقدیم و تصدیر
    بسم اللہ والصلاۃ والسلام علیٰ سیدنا رسول اللہ و علیٰ آلہ و اصحابہ اجمعین الطبیین الطاہرین ۔ اما بعد:


    28 شعبان1422ھ.14نومبر 2001ء بدھ کے دن شام کے وقت میں مدینہ منورہ میں رسول اللہ کے روضۂ مبارک کے سامنے کھڑا عجیب سا سکون و اطمینان محسوس کر رہا تھا۔ میرے دل میں ان آیات کریمہ کا تصور آ رہا تھا:
    إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

    ’’اگر تم نبی کریم کی مدد نہیں کرو گے تو نبی کو کوئی فرق نہ پڑے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مدد کی جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا اور وہ دونوں شخص غار میں چھپے ہوئے تھے اور نبی اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا:‘‘غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے’’ تو اللہ تعالیٰ نے اس پر سکون واطمینان نازل فرما یا اور اَن دیکھے لشکروں کے ساتھ ان کی مدد کی۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کی بات مٹی میں ملا دی اور اللہ تعالیٰ کی بات ہی بلند رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے’’۔ ٰالتوبہ: 9/40 )

    ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
    جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلانہ ضد پیدا کر لی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور ایمان والوں پر اپنی سکینت نازل فرمائی اور مومنوں کو تقویٰ کی بات پر پکا کر دیا۔ درحقیقت مومن ہی تقویٰ والی بات کے حق دار اور اہل ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننت والا ہے’’۔ (الفتح : 48/ 26)

    پھر مجھے دو شعر یاد آئے جن میں اسی سکینت کامفہوم بیان کیا گیا ہے:
    جَاشَتِ النفس بالھموم و لکن سکنت عند ما نزلنا المدینہ
    کیف لا تسکن النفو ارتیاحا عند من انزلت علیہ السکینہ
    ’’دل غموں کی وجہ سے مضطرب تھا مگر جب ہم مدینہ منورہ میں فرو کش ہوئے تو سکون آگیا۔ سکون کیوں نہ آتا جب کہ ہ اس شخصیت کے دیار میں پہنچ گئے تھے جن پر سکینت نازل کی گئی !’’

    تو مصطفیٰ حبیب کائیناتﷺ کے احترام و اشتیاق کے تصور سے میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، میں نے عجیب و غریب سکون محسوس کیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سی دعائیں الہام کیں۔ ان میں سے ایک مجھے اب بھی یاد ہے:
    ’’اے اللہ! تیرے اس عظیم محبوب ﷺ کی کوئی تاریخ نہیں اور نہ ہی ہم ان کی تاریخ لکھتے ہیں کیوں کہ تاریخ تو گزشتہ واقعات کا نام ہے بلکہ ہم آپ کی سیرت طیبہ لکھتے ہیں تاکہ ہم اسے اسوہ اور نمونہ بنا سکا سکیں اور سیرت طیبہ قیامت تک باقی رہے گی۔ اے میرے پروردگار! مجھے اس پاکیزہ سیرت کے خدام میں شامل فرما تاکہ مسلمان مجھ سے اس بارے میں وہ علم حاصل کریں جس میں نے اپنی ساری زندگی صرف کر دی ہے اور وہ ہے سیرت طیبہ کی تحقیق و تحریر۔’’

    میں دمشق لوٹ آیا ۔ کئی دن یہ حالت رہی کہ جب بھی حبیب کائنات مصطفیٰﷺکا خیال آتا آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ خصوصاً میری واپسی کے بعد پوسٹ گریجوایشن کے طلبہ کے سامنے میرا پہلا لیکچر اس موضوع پر تھا:‘‘سیرت نبویہ: ہم کس شخصیت کی بات کرتے ہیں؟’’ میں نے دوران لیکچر طلبہ سے کہا:

    ’’ ہم کائنات کی منتخب شدہ افضل ترین شخصیتﷺ کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ علماء نے کہا ہے :اسماء والقاب کی کثرت کسی شخصیت کی عظمت و رفعت پر دلالت کرتی ہے کیوں کہ ا س سے اس کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے کہ لوگوں نے اس کی طرف بھر پور توجہ کی ہے۔ خصوصاً عربی کلام میں انہی چیزوں کے نام زیادہ ہیں جن کی اہمیت زیادہ ہے جیسے گھوڑے کو ‘‘فَرَس’’ کے علاوہ مطھم۔ طموح، شیظم، سلھب، طَمِر’’ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اونٹ کو ‘‘اِبل’’ کے علاوہ ‘‘فحل، مُصعب، ظعون، رحول، ناضح، درواس’’ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ تیر کو ‘‘سھم’’کے علاوہ صادر، زالج، طائش، صائب، شاظف، مارق وغیرہ کہا جاتا ہے۔ بادل کو ‘‘سحاب’’ کے علاوہ کے علاوہ غمام، عارض، عنان، ھیدب، مکفھر، صیب وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔
    آج ہم حضرت محمدﷺ کے بارے میں کلام کریں گے جو ‘‘الامین’’ کے لقب سے مشہور تھے، حضرت احمدﷺکے بارے میں جو کُل جہان کے لیے ہادی و رہنما تھے، جو تمام بنو آدم کے سردار تھے، نبی رحمتﷺ کے بارے میں ، حضرت خاتم النبیین کے بارے میں، حضرت مصطفیٰ مختارﷺ کے بارے میں، حضرت مجتبیٰﷺ کے بارے میں جو دنیا میں رہنما اور آخرت میں شفاعت کرنے والے ہیں، حوض کوثر کے مالک ہیں، مقام محمود پر فائز ہونے والے ہیں، سراج منیر ہیں، نذیر و بشیر ہیں۔

    ہم ایسی شخصیت پر گفتگو کر رہے ہیں جو صورت کے لحاظ سے کامل ترین تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی عقل کامل و وافر تھی، انتہائی ذہین تھے، حواس قوی اور مضبوط تھے، زبان مبارک فصیح تھی، آپ کی سکنات و حرکات معتدل تھیں، عادات و خصائل خوبصورت تھیں، بہت حلیم و برد بار تھے، قدرت رکھنے کے باوجود در گزر فرماتے تھے، انتہائی صابر، سخی اور با حیا تھے، شجاعت، جود و سخا اور شرافت کے پیکر تھے۔ خالص محبت فرمانے والے، ہر ایک کی خیر خواہی کرنے والے، بہترین سلوک رکھنے والے، تمام مخلوقات کے ساتھ محبت و شفقت کے ساتھ پیش آنے والے، لوگوں کے ایمان کی خواہش رکھنے والے، باوفا، سابقہ تعلقات کا لحاظ رکھنے والے، انتہائی بلند مرتبہ ہونے کے باوجود تواضع کے پیکر، انتہائی انصاف پسند، امانت دار، پاکباز، باوقار، اعلیٰ جوانمرد تھے۔ سچی زبان والے، خوبصورت انداز والے، دنیا سے بے رغبت، اللہ سے ڈرنے والے، اس کے فرمانبردار، ڈٹ کر عبادت کرنے والے، اس کے شکرگزار اور ہر وقت اس کی طرف رجوع کرنے والے، اللہ کا حق خوب ادا کرنے والے، سچا اور سُچایقین رکھنے والے، اپنے پروردگار پر توکل اور بھروسہ رکھنے والے اور اس سے بھر پور محبت کرنے والے اور تمام اخلاق و فضائل کے جامع تھے۔ آپ ﷺ کا خلق قرآن کی سچی تصویر تھا۔ اللہ کی رضا پر راضی رہنے والے تھے اور جہاں اللہ ناراض ہوتا تھا وہاں آپ ﷺبھی ناراض ہو جایا کرتے تھے۔

    1 ۔ حضرت موسیٰؑ جیسے اولو العزم نبی کے بارے میں مذکور ہے، انہوں نے کہا:
    ﴿وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى ﴾‘‘رب کریم!میں تیرے پاس جلدی جلدی آیا تا کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے۔’’ (طٰہٰ20/ 84) جب کہ قرآن مجید حضرت محمدﷺ کے بارے میں یوں مدح سراح ہے:﴿وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَ﴾تیرا رب تجھے اتنا دے گا کہ تو راضی ہو جائےگا’’۔ )الضحیٰ: 93/ 5 ) دونوں کا فرق واضح ہے۔
    2۔ حضرت موسیٰ ؑ کے بارے میں مذکور ہے: ﴿قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾‘‘موسیٰ نے اپنے رب سے کہا : پروردگار!میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، لہٰذا مجھے معاف فرمادے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرما دیا۔ بلاشبہ وہ غفور الرحیم ہے۔’’ (القصص: 28 / 16 ) جب کہ حضرت محمدمصطفیٰﷺکے بارے میں فرمایا:
    ﴿إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًاo لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا ﴾ ‘‘ہم نے آپ کو واضح فتح عطا فرمائی تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمائے، اپنی نعمت آپ پر مکمل فرمائے اور آپ کو صراط مستقیم پر قائم رکھے’’۔ (الفتح: 48 / 1, 2 ) دونوں مقاموں میں بڑا واضح فرق ہے۔
    3۔ حضرت موسیٰؑ کے بارے میں مذکور ہے:
    ﴿قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي﴾‘‘موسیٰ نے کہا: اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کھول دے۔’’ (طٰہٰ: 20 / 25 ) جب کہ حضرت مصطفیٰﷺ کے بارے میں قرآن یوں گوہر افشاں ہے:﴿ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ﴾‘‘کیاہم نے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا؟’’ (الانشراح: 94/ 1 ) دونوں مقامات میں فرق روز روشن کی طرح واضح ہے۔
    4۔ حضرت موسیٰؑ کے بارے میں یوں آیا کہ انہوں نے کہا:
    ﴿وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي﴾ ‘‘اے اللہ! اور میرے لیے میرا کام آسان فرما۔’’(طٰہٰ:20/ 26) جب کہ نبی اکرم الطاہر الامینﷺ کے بارے میں یوں ارشاد ہے: ﴿وَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرَى﴾اور ہم آپ کے لیے آسانی مہیا کریں گے’’۔ (الاعلیٰ: 87/ 8 ) فرق خود ہی دیکھ لیجیئے۔
    5۔حضرت موسیٰؑ نے اپنے رب رحیم سے زمین پر کلام کیا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
    ﴾وَنَادَيْنَاهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا﴾‘‘ ہم نے موسیٰ کو کوہ طور کی دائیں جانب سے پکارا اور اسے قریب لا کر سرگوشیاں کیں۔’’(مریم: 19/ 52 )
    ﴿فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِي مِن شَاطِئِ الْوَادِي الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَن يَا مُوسَى إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾ جب موسیٰ وہاں آئے تو انہیں وادی کے دائیں کنارے سے اس مبارک علاقے میں درخت سے آواز دی گئی: اے موسیٰ: میں اللہ ہوں، سب جہانوں کو پالنے والا۔’’ (القصص:28/ 30) اور رسول اللہ، نسل آدم کے سردار، ہادئ عالم ﷺ نے اپنے رب تعالیٰ سے آسمانوں پر کلام کیا۔ ارشاد ربانی ہے:
    ﴿عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى﴾﴿ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى﴾﴿وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى﴾﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى﴾﴿فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى﴾﴿فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى﴾﴿مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى﴾‘‘نبی کریمﷺ کو قرآن کی تعلیم قوتوں والے فرشتے نے دی۔ وہ اپنی اصلی شکل میں سامنے آیا۔ اس وقت وہ بلند افق پر تھا۔ پھر وہ قریب ہوا اور نیچے آیا حتٰی کہ دو کمانوں بلکہ اس سے بھی کم فاصلے پر آ گیا تو اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی۔ نبی مکرم کے دل نے جو دیکھا صحیح بیان کیا۔’’(النجم:53/ 5 تا 11) فرق خود دیکھ لیجیئے۔
    6۔حضرت موسیٰ ؑ کو صرف ان کی قوم بنی اسرائیل اور اس وقت کے ظالم بادشاہ فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف معبوث فرمایا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ موسیٰؑ نے ظالم فرعون کہا:
    ﴿فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ﴾(اے فرعون!) بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور ان کو تکلیفیں نہ دے۔’’ (طٰہٰ:20/ 47)
    اور مزید فرمایا:
    ﴿وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلاَّ تَتَّخِذُواْ مِن دُونِي وَكِيلاً ﴾‘‘اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہادی بنایا، نیز فرمایا میرے علاوہ کسی کو اپنا کارساز نہ سمجھنا۔’’ (بنی اسرائیل:17/ 2) جب کہ نبی صادق الامینﷺکو سب لوگوں کے لیے ‘‘رحمۃاللعالمین’’ بنا کر بیجا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾‘‘ہم نے آپ کو سب لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔’’)سبا:34/ 28) نیز فرمایا:
    ﴿إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ ﴾﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ ﴾یہ قرآن تمام جہان والوں کے لیے نصیحت ہے لیکن تمہیں اس حقیقت کا پتہ کچھ دیر بعد لگے گا۔’’(ص:38/ 87, 88)
    مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾‘‘اور ہم نے آپ کو سب جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔’’(الا نبیاء:21/ 107) نیز ارشاد فرمایا:﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا﴾ ‘‘کہہ دیجیئے:اے لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں’’۔(الاعراف:7/ 158)دونوں مقامات کے درمیان مشرق و مغرب کا فرق ہے۔
    7۔حضرت موسیٰ ؑ کے بارے میں فرمان ہے:
    ﴿وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي﴾‘‘میں نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت ڈال دی تا کہ تیری پرورش میری نگرانی میں ہو۔’’ (طٰہٰ:20 / 39) اور حضرت محمدﷺ کے بارے فرمایا :﴿وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا﴾ ‘‘اپنے رب کے حکم پر کاربند رہیئے، آپ ہر لمحے ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں’’۔ ان الفاظ میں استغراق پایا جاتاہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے، لہٰذا دونوں مقامات میں بہت فرق ہے۔ (الطور:52/ 48)
    8۔‘‘رؤف اور رحیم’’ اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ہیں، قرآن مجید میں کئی دفعہ ان کا ذکر ہے۔ مگر سورۂ توبۂ میں یہ دو وصف رسول اللہ کی بابت فرمائے گئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ﴾ ‘‘بلا شبہ تمہارے پاس تمہاری نسل میں سے ایک عظیم رسول تشریف لا چکا ہے جس پر تمہاری تکلیف و مشقت بہت شاق گزرتی ہے اور تمہارے مفاد کا وہ بہت خواہش مند ہے۔ وہ ایمان والوں کے لیے رؤف، رحیم (بہت شفیق و مہربان) ہے۔’’ گویا اللہ تعالی نے اپنے اسمائے حسنیٰ میں سے یہ دو نام آپ ﷺ کو عطا فرما دیے۔(التوبہ: 9/ 128)
    9۔کسی شخص کی زندگی میں اس کی زندگی کی قسم اٹھانا اس کی زندگی کے عظیم الشان ہونے کا ثبوت ہے، ظاہر وہ زندگی قسم اٹھانے والے کے نزدیک بہت پیاری اور بلند و بالا ہو گی۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی واقعتاً اس قابل ہے کہ اس کی قسم اٹھائی جاتی کویں کہ وہ نہ صرف عربوں بلکہ تمام جہانوں کے لیے مبارک ہے۔ ارشاد بای تعالیٰ ہے:
    ﴿لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴾‘‘تیری حیاتِ طیبہ کی قسم!یہ لوگ اپنی مدہوشی میں اندھے ہو رہے ہیں’’۔ (الہجر:15/72 )
    10۔قرآن مجید میں حبیب اعظمﷺ کو انتہائی پیار ے الفاظ سے خطاب فرمایا گیا ہے مثلاً: یا ایھا النبی، یا ایھاالرسول، یا ایھا المزمل اور یا ایھا المدثر، جب کہ باقی انبیاء کو ان کے ذاتی نام سے پکارا گیا ہے، مثلاً یا آدم، یا نوحُ، یا مُوسیٰ ، یا ذکریا، یا یحییٰ، یا عیسیٰ وغیرہ۔
    11۔گزشتہ انبیا کے معجزات وقتی تھے۔ واقع ہونے کے بعد ختم ہو جایا کرتے تھے اور اب وہ قصۂ پارینہ بن چکے ہیں، جب کہ حضرت محمدﷺ کو معجزہ ‘‘قرآن کریم’’ دائمی اور تاقیامت رہنے والا ہے جس کے عجائب و نکات ختم ہونے کا نام نہیں لیتے، نیز اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾‘‘ ہم نے اس‘‘ ذکر ’’کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے’’۔(الہجر15/9)
    12۔اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے اخلاق عالیہ کی تعریف فرمائی ہے۔فرمایا﴿وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾’’اور بلا شبہ آپ عظیم خُلق کے مالک ہیں’’۔ (القلم:68/4)[اصل نسخہ میں سورۃ القلم کی آیۃ 3 درج ہے جو کہ 4 ہونی چاہیئے، تصحیح فرما لیں۔توریالی] نیز فرمایا:
    ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ﴾’’اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں کے لیے بہت نرم ہیں۔ اگر آپ درشت مزاج، سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے بھاگ جاتے، لہٰذا ان سے در گزر کیا کریں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی ان کے لیے استغفار کیا کریں اور باہمی معاملات میں ان سے مشورہ کیا کریں۔ البتہ جب فیصلہ کر لیں تو پھر اللہ کے بھروسہ پر ڈٹ جائیں۔ بلا شبہ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے’’۔ (آل عمران3/159) اس آیت میں نبی کریمﷺکی رافت و رحمت اجاگر کی گئی ہے۔ مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَا أَنتَ بِمَلُومٍ﴾ ’’پس آپ ان (کافروں) سے منہ پھیر لیجیئے، آپ پر کوئی ملامت نہیں’’۔(الذریات51:54) اگر آپﷺ کوئی کوتاہی کرتے تو آپ کو ضرور ملامت ہوتی۔
    یہ اس شخصیت کی عظمت کے چند پہلو ہیں جن کی مبارک سیرت طیبہ کے بارے میں ہم یہ اٹلس پیش کر رہے ہیں، نیز جن پر ‘‘اللہ کا آخری پیغام ’’ نازل ہوا۔ اس پیغام کی چند خصوصیات ہیں:
    1۔آسمانی الہیٰ عقیدہ: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَبِالْحَقِّ أَنزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا﴾ ’’ہم نے اس کتاب کو حق کے ساتھ اتارا ہے اور وہ حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے اور ہم نے آپ کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے’’۔ (بنی اسرائیل17:105) نیز فرمایا:﴿وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۔نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ۔عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ۔بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ ﴾‘‘یہ رب العالمین کی جانب سے اتاری ہوئی کتاب ہے۔روح الامین( جبریل) نے اسے آپ کے قلبِ سلیم پر اتارا ہےتاکہ آپ لوگوں کو ڈرانے والے بن جائیں۔ یہ کتاب فصیح عربی زبان میں ہے’’۔(الشعرا:192۔195/ 26)
    زمینی عقائد جلد یا بدیر ختم ہو جایا کرتے ہیں ، لیکن آسمانی الہیٰ عقیدہ ‘‘اسلام’’ پھیلتا اور چڑھتا ہی جاتا ہے۔
    2۔اللہ تعالیٰ کے قانون کے گرد گھومنے والا عقیدہ:اگرچہ جس شخصیت پر یہ پیغام نازل ہوا ہے وہ اس کائنات کی منتخب اور برگزیدہ شخصٰٹ ہے مگر اس عقیدے کا مرکز اللہ تعالیٰ اور شریعت ہے۔ خود وہ شخصیت بھی اس عقیدے کی پابند ہے اور وہ باوجود انتہائی بلند مرتبہ ہونے کے مقام بشریت ہی میں ہیںاور اللہ کے بندے ہیں اور اسی کی عبادت کو اپنی معراج سمجھتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ ﴾ ‘‘کہہ دیجیئے میں تو تم جیسا انسان ہوں۔ مجھے وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک معبودہے’’۔ (الکھف:18/110) نیز فرمایا:
    ﴿قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾
    ’’کہہ دیجیئے میں اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر اللہ جو چاہے وہی ہوتا ہے۔ اگر میں کلی غیب جانتا تو میں بہت سے فوائد سمیٹ لیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو صرف مومنین کو ڈرانے اور خوش خبری دینے والا ہوں’’۔(الاعراف:7/188)حتیٰ کہ اس کائنات کے سب سے بلند اور اونچےمقام پر پہنچ کر بھی آپ مقام عبودیت ہی پہ رہے۔ یہ مظاہرہ اسراء اور معراج کے موقع پر ہوا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى﴾ ‘‘ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی’’۔ (بنی اسرائیل:17/1)
    اس آیت کریمہ میں نہ رسول کا لفظ ہے نہ نبی کا، نہ حبیب کا نہ خلیل کابلکہ ﴿بِعَبْدِهِ﴾ ‘‘بندے’’ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ عقیدہ اسلامیہ کا مرکز اللہ تعالیٰ ہے جو آسمانوں اور زمینوں کو قائم رکھنے والا ہے، ساری کائنات کا خالق و محافظ ہے، جو ایک ہے، یکتا ہے۔ پھر اس عقیدے کا مرکز اللہ تعالیٰ کی شریعت ہے جو قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے۔ سنت مطہرہ تو دراصل اسی کتاب کریم کی تفصیل اور تشریح ہے۔
    3۔آخری پیغام ، جس کا معجزہ ہمیشہ باقی رہے گا: یہ آخری پیغام قرآن مجید ہے۔ جب مشرکین مکہ نے وقتی معجزے طلب کیے تو اللہ تعالیٰ نے بڑے خوبصورت انداز میں جواب ارشاد فرمایا: ﴿وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِّن رَّبِّهِ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ ۔أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ ’’یہ کہتے ہیں اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے معجزے لیوں نہیں اترتے؟ کہ دیجیئے: معجزات تو اللہ کے پاس ہیں اور میں تو صرف واضح طور پر ڈرانے والا ہوں۔ کیا انہیں یہ معجزہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب اتاری ہے جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ نیز یہ کتاب مومن لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نصیحت ہے’’۔ (العنکبوت:29/50,51) یہ قیامت تک جاری و ساری اور باقی رہنے والا معجزہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ﴿سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ﴾ ’’ہم انہیں زمین و آسمان کے کناروں بلکہ ان کی ذات میں اپنی نشانیاں دکھاتے رہیں گےحتیٰ کہ ان کے سامنے واضح ہو جائےگا کہ حق ہے تو یہی،۔ کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب کریم ہر چیز کو جانتا بوجھتا ہے’’۔(حٰم السجدۃ:41:53 )
    4۔ضزبات کے بجائے عقل سے خطاب کرنے والا پیغام: یہ پیغام تعصب اور جبر و اکراہ سے پاک، انتہائی واضح ہے، اسرار و رموز کی بھول بھلیوں میں نہیں ڈالتا۔ یہ عقل پر پابندی لگاتا ہے نہ سوچ بچار سے بے بہرہ کرتا ہے۔ سچا دین وہی ہے جو عقل انسانی کے دوش بدوش چلے۔ یاد رہےعقل کی غذا علم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ﴾’’بلا شبہ اس قرآن میںسوط و بچار کرنے والوں کے لیے واضح نشانیاں ہیں’’۔ (الرعد:13/4) اسی کی بابت مزید فرمایا: ﴿ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ﴾‘‘ہم عقل استعمال کرنے والوں کے لیے آیات کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں’’۔ (الروم: 30/28)
    یہ ایسا عقیدہ ہے جو عقل سلیم کو مخاظب کرتا ہے۔ یہ عقیدہ دراصل عقل استعمال کرنے والوں، سوچ بچار کرنے والوں، تدبر و تفکر کرنے والوں، عقل مند اور ذہین لوگوں کا ہے۔اگر قرآن مجیس آج یا کل کسی قاضی کو تلاش کر لے کہ وہ وحی الہیٰ کے مطابق فیصلہ کرے تو اس کا مرجع عقل ہی ہوگا۔ اگر قرآن مجید کسی سے بحث کرے گا تو عقل کے مطابق ہی کرے گا۔ اگر ناراض ہو گا تو عقل سے بے بہرہ لوگوں سے ہی ناراض ہو گا اور اگر راضی ہوگا تو عقل مندوں ہی سے راضی ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ﴾ ’’کہہ دیجیےمیں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ خدا راایک ایک ، دو دو ہو کر کھڑے ہو جاؤ، پھر سوچو اور غور و فکر کرو۔ آخر تمہارا یہ نبی مجنون تو نہیں! وہ تو تمہیں سخت عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے والا ہے’’۔(سبا:34.46)
    5۔ عالم گیر انسانی پیغام: یہ پیغام کسی مخصوص قوم کے لیے نہیں۔ یا ایھا الناس کے الفاظ کُل انسانیت کو مخاطب کرتے ہیں۔ تقابلی فضیلت کا پیمانہ اس حقیقت سے ماوراء نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾ ‘‘اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مذکر اور ایک مؤنث سے پیدا کیا ہے۔ باقی رہے اقوام و قبائل، وہ تو ہم نے اس لیے بنائے کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ یقیناً اللہ تعالیٰکے نزدیخ تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ علم و خبر رکھنے والا ہے‘‘۔(الحجرات:49/13)مزید فرمان الہیٰ ہے:
    ﴿إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ ۔ وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ﴾ ‘‘یقیناً یہ قرآن سب جہانوں کے لیے نصیحت ہے لیکن تمہیں اس کی حقیقت کچھ دیر بعد معلوم ہو گی‘‘۔(ص: 38:87,88)نیز فرمایا:
    ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾ ’’اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔ (الانبیاء:21/107) نیز فرمایا ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ﴾’’کہہ دیجیے اے لوگو! میں تم سب کی طرف الل تعالیٰ کا رسول ہوں‘‘۔ (الاعراف:7/158)
    یہ عالم گیر انسانی پیغام ہے۔ تسامح اور درگزر اس کی مستقل خصوصیت ہے۔ وہ باقی شریعتوں کو ختم کر دینے کا داعی نہیں بلکہ بات چیت اور افہام و تفہیم کا علم بردار ہے۔ اسلام نے اپنے ادوار حکومت میں بہت سے عقائد اور دینوں کو باقی رکھا ہے اور ان کا برقرار رکھنا اللہ کی مشیت سے ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
    ﴿وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ﴾ ‘‘اگر تیرا رب چاہتا تو سب لوگوں کو زبردستی ایک امت (امت مسلمہ) بنا دیتا لیکن لوگوں میں اختلاف باقی رہے گا (تاکہ امتحان ہو سکے)‘‘۔ (ھود:11/118)
    اسلام کا ابدی اعلان کہ ﴿لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ﴾ ‘‘دین میں جبر و اکراہ نہیں‘‘ (البقرۃ: 2/256) ہر متعصب کے خلاف واضح حجٹ ہے جو آزادئ عقیدہ کا قائل نہیں۔اسلام زبردستی کرتا ہے نہ خون ریزی اور نہ اپنا عقیدہ کسی پر تھوپتا ہے، بلکہ اس کی نجائے وہ اچھے انداز سے بلکہ انتہائی احسن انداز سے بات چیت اور افہام و تفہیم کا قائل ہے، جیسا کہ فرمان الہیٰ ہے:
    ﴿ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ ‘‘اپنے رب کے راستے کی طرف حکمے اور دھیمے خوبصورت وعظ و نصیحت کا ساتھ بلائیےاور اگر کبھی بحث کرنی پڑے تو انتہائی خوبصورت ، مہذب انداز میں کیجیے۔ بلا شبہ آپ کا رب گمراہوں کو خوب جانتا ہے اور ہدایت والوں کو بھی‘‘۔ (النحل: 16/125)البتہ تسامح و در گزر اور ضعف و عجز کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔ بہت سے لوگ شرافت کی قدر نہیں کرتے بلکہ وہ اس وسعت ظرف کو اسلام کے خلاف بد زبانی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بات کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن نہ تو درشتی سے کام لیا جائے، نہ کسی پر زبردستی اپنی رائے تھوپی جائے اور نہ اشتعال کا مظاہرہ کیا جائے، بلکہ تسامح اور در گزر کو لازم پکڑا جائے کیوں کہ حساب اللہ کے ذمے ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد الہیٰ ہے:
    ﴿فَاللّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُواْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾ ‘‘اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے اختلافات کا واضح فیصلہ فرمائے گا’‘‘۔ (البقرۃ:3/113) جن عقائد کی بنیاد بغض اور کینے پر ہو ۔، انتقامی کاروائی انہیں نیست و نابود کر دیتی ہے اور جن عقائد کی بنید محبت پر ہو، حسن سلوک ان کی حفاظت کرتا ہے۔
    6۔ روح اور مادے کے درمیان بہٹرین توازن: اسلام میں روح مادہ کی مخالف نہیں اور مادہ روح کا دشمن نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ﴿وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ﴾ ‘‘اور اللہ تعالیٰ نے تجھے جو کچھ دیا ہے اس کے ذریعے سے آخرت تلاش کر اور دنیوی حصے کو بھی فراموش نہ کر۔ لوگوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کر جس طرح اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا ہے اور زمین میں فساد نہ کر۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ مفسدین کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (القصص:28/77)

    دین اسلام میں روح اور مادے کے درمیان بہترین توازن ہے۔ روح بھی سلامت اور مادی تقاضے بھی برقرار۔متوازن اور مطمئن زندگی اس کا مھمح نظر ہے۔ اس دین میں پاکیزہ چیزیں حلال ہیں اور پلید حرا، جیسا کہ فرمان الہیٰ ہے:
    ﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّهِ الَّتِيَ أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالْطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِي لِلَّذِينَ آمَنُواْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ﴾ ’’کہہ دیجیے کس نے اللہ کی پیدا کردہ زینت کو اور ان پاکیزہ چیزوں کو جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا فرمائی ہیں حرام کیا ہے؟ کہہ دیجیے وہ چیزیں دنیا میں ایمان والوں کے لیے ہیں ، قیامت کے دن تو خالص انہی کے لیے ہوں گی۔ اس طرح ہم علم والے لوگوں کے لیے آیات تفصیل سے بیان کرتے ہیں‘‘۔ (الاعراف: 7/32)
    7۔ ہر دور اور مقام کے لیے ہمیشہ یکساں قابل پیغام: یہ پیغام فطرت انسانیت کے مطابق ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    ﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ‘‘اپنا چہرہ دین حنیف کی طرف متوجہ کرو جو اللہ کی پیدا فطرتِ انسانیت کے مطابق ہے۔ یاد رکھو اللہ کی فطرت نہیں بدلتی۔ یہ بالکل سیدھا اور مضبوط دین ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے‘‘۔ (الروم: 30/30)
    فطرت سے مطابقت اس لیے ہے کہ یہ دین بشری تقاضوں اور ضروریات کا لحاظ رکھتا ہے اور اس نے جنسی تعلق کو باہمی معاہدے کا رنگ دے دیا ہے جس پر خاندانی زندگی کی بنیاد ہے۔ گویا اسلام نے فطری تقاضا بھی پورا کیا اور نسب کی حفاظت بھی کی اور معاشرے کی پہلی اینٹ ہی سے اصلاح کر دی۔
    یہ ’’معتدل دین‘‘ ہے جس میں کامل اعتدال پایا جاتا ہے۔ اس میں افراط ہے نہ تفریط، کوئی تصادم ہے نہ تضاد اور اس میں طبقاتی جنگ ہے نہ نسبی تفاخر۔ ہر انسان کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے اور انسانیت کا احترام کیا جاتا ہے۔ یہ دین تمام اخلاقی پہلؤں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ نتیجتاً انسانی معاشرہ عزت اور اطمینان و سکون سے بہرہ ور ہے۔
    8۔اس پیغام کو بھیجنے والے نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود لے رکھا ہے: اس میں تبدیلی ممکن ہے نہ تحریر اور اس میں کمی ہو سکتی ہے نہ زیادتی۔ یہ آج بھی اسی طرح پڑھا جاتا ہے جیسے یہ اترا تھا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ ’’بے شک ہم ہی نے یہ ذکر اتارا ہے اور ہم ہیاس کی حفاظت کریں گے‘‘۔ (الحجر:9/15)
    اس کائنات میں بہت سے نظریات مٹ گئے۔ بہت سی شریعتیں متروک ہو گئیں۔ بے شمار عقائد نسیاً منسیا ہو گئے لیکن اسلام روز بروز بڑھ رہا ہے، پھیل رہا ہے کیوں کہ یہ اخوتِ انسانیت کا علم بردار ہے۔ اس میں آسانی ہے تنگی نہیں۔ یہ بات چیت اور افہام و تفہیم کا قائل وفاعل ہے۔ یہ عقل کو مخاطب کرتا ہے، علم و دانز کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور دوسرے کی بات بھی سنتا ہے۔
    اسلام تمام مذاہب کی جگہ سنبھالنے والا ہے، اس کا اندازِ تبلیغ بہت دلکش اور لطیف ہے، اس کی سوچ صاف ستھری ہے، یہ معروضی حقائق تسلیم کرتا ہے۔، باتوں سے زیادہ عمل کا قائل ہے، زندگی کے حقائق کا سمنا کرتا ہے۔ غرض ہر لحاظ سے کامل و اکمل ہے۔
    میں نے طلبہ سے کہا:’’امید ہے کہ تم جان چکے ہو گے کہ ہم سیرت النبی کی تدریس میں کس شخصیت کے بارے میں کلام کر رہے ہیں؟ اور تمہیں اس شخصیت کی عظمت اور اہمیت معلوم ہو چکی ہو گی، نیز آپ حضرات نبی کریم ﷺ پر نازل ہونے والے پیغام کے امتیازات بھی سمجھ چکے ہو گے‘‘۔
    چند ہی دن گزرے تھے کہ اچانک ایک خوب صورت خیال ذہن میں آیا کہ میں سیرت کی تحریر شدہ کتابوں سے ایک سیرت مرتب کروں جس کی وضاحت نقشوں کی مدد سے کی جائے۔ ان نقشوں میں تمام متعلقہ مقامات، شہروں اور ان اطراف و اکناف کی رفصیل ہو جن کو آپ ﷺ نے اپنی تشریف فرمائی سے رونق بخشی یا جن کی طرف آپ نے قصد سفر فرمایا۔ اس سیرت کی ابتدا آپ ﷺ کے جد امجد حضرت ابراہیم  سے ہو گی، پھر آپ کی پیدائش، بعثت سے پہلے کے واقعات، بعثت کے بعد کے واقعات ہجرت اور آپ کی وفات کی تفصیل ہو گی۔
    یہ اٹلس صرف سیرت کی کتاب ہی نہیں بلکہ یہ مختلف نقشے اور تصاویر ہیں جو آپ کی سیرت طیبہ کو محیط ہیں۔ اگر مجھ سے پہلے کسی نے یہ کام کیا ہے تو بہت اچھی بات ہے، اللہ اس پر برکت نازل فرمائے، لیکن میں سمجھتا ہوں کسی شخص نے سیرت طیبہ کو اس طرح نقشوں کی مدد سے اول تا آخر پیش نہیں کیا۔ میں نے مختلف مقامات پر مختصر نوٹ بھی تحریر کیے ہیں جن سے ضروری وضاحت مقصود ہے یا ان میں کوئی نئی تحقیق پیش کی گئی ہے۔ یہ اٹلس اسلامی اٹلسوں کے سلسلہ کی چوتھی پیش کش ہے جو یکے بعد دیگرے پیش کیے گئے ہیں۔ دوسرے اٹلس اسلامی عرب تاریخ کا اٹلس۔ اسلام کی حکومتوں کااٹلس قرآن کا اٹلس ہیں۔
    ہر کام کے اول و آخر میں تعریف صرف اللہ کے لیے ہے، وہ بہترین مددگار اور بہترین کارساز ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ اس پیش کش کو لوگوں کے لیے مفید بنائے۔ وہی نیتوں کو پورا کرنے والا ہے۔

    ڈاکٹر شوقی ابو خلیل
    دمشق ۔ شام
    یکم محرم الحرام1423ھ
    14 مارچ 2002ء



    کتاب کا ڈاؤنلوڈ لنک ان شاء اللہ کل یہاں پر دے دیا جائے گا
     
  3. فراز اکرم

    فراز اکرم -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 15, 2011
    پیغامات:
    193
    وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
    اقتباسات کا انتظار رہے گا، جزاک الله
     
  4. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    برادر محترم فراز اکرم السلام علیکم

    اقتباسات کا سلسلہ بھی ان شاء اللہ جاری رہے گا۔ لیکن آج حسبِ وعدہ روابط پیش خدمت ہیں۔ ربط اول سے کتاب اتاری جا سکتی ہے یا وہیں پر آن لائین مطالعہ بھی کیا جا سکتا ہے جب کہ دوسرے ربط سے کتاب صرف اتاری جا سکتی ہے۔

    اس زمرہ کے ضمن میں، برادرم عُكاشة اور مجلس کے دیگر اراکین کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جن کی رہنمائی کے باعث یہ مراسلہ ممکن ہوا۔

    ربط اول

    ربط ثانی


    آج بطور اقتباس ایک نقشہ پیش کیا جاتا ہے جو عصرِ حاضر کے جزیرہ نمائے عرب کی سیاسی تقسیم اور ہمسایہ ممالک کا محل وقوع ہیش کرتا ہے۔

    [​IMG]
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں