جوتےکی وار سے شہباز شریف بال بال بچ گئے

توریالی نے 'خبریں' میں ‏اپریل 25, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    آج جوتا باری کی ایک خبر نے مجبور کیا کہ روزنامہ اوصاف’’ کی بھی ‘‘خبر لے لی جائے.....اوہ معذرت! ہماری مراد ہے کہ روزنامہ اوصاف سے بھی خبر لے لی جائے۔ اور نہ صرف ایک خبر بلکہ دو ادارتی مضامین بھی۔ تو لیجیے پہلے پیش خدمت ہے......جوتے کی خبر. . . .

    جوتےکی وار سے شہباز شریف بال بال بچ گئے

    لاہور: سابق امریکی صدر جارج بش، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، ہیلری کلنٹن اور عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجری وال اور سابق وزیر اعلی سندھ ارباب غلام رحیم کے بعد وزیراعلی پنجاب شہباز شریف بھی جوتا باری کلب کے ممبر بن گئے ہیں۔
    مطابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف لاہور میں ساؤتھ ایشیا لیبر کانفرنس کی تقریب میں شرکت کے لئے ابھی اسٹیج پر آ کر بیٹھے ہی تھے کہ پریس گیلری میں بیٹھے نجی ادارے کے ایک صحافی نے ان کی طرف جوتا اچھال دیا جو خوش قسمتی سے اسٹیج کے قریب ہی گر گیا اور شہباز شریف بال بال بچ گئے۔
    جوتا اچھالنے کے بعد صحافی نے ہال میں شور شرابا کر دیا کہ حکومت صحافیوں پر حملوں کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے بجائے ان کی حمایت کر رہی ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ صحافیوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی تحقیقات کرائے۔ سیکیورٹی اہلکاروں اور دیگر صحافیوں نے جوتا اچھالنے والے صحافی کو سمجھایا اور کہا کہ کانفرنس میں بدمزگی نہ پیدا کی جائے جس پر صحافی اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔

    روزنامہ اوصاف، پاکستان

    ایک اور پاکستانی اخبار کے مطابق کانفرنس کے اختتام پر جوتا پھینک صحافی کو پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا تھا لیکن صوبائی وزیر اعلیٰ پنجاب ،جناب شہباز شریف نے شرافت اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس حکام کو مبینہ صحافی کو چھوڑ دینے کے احکامات جاری کیے۔

    شکر ہے کہ جوتا اپنے ہدف سے ٹکرانے میں ناکام رہا۔ ورنہ جیو کے حامی صحافی کے جوتے کے وقار و تقدس کی پامالی.... اوہو... ہمارا مطلب ہے ، ورنہ صوبائی وزیر اعلیٰ کے وقار و تقدس کی پامالی کا امکان پیدا ہو جاتا۔


    ***

    روزنامہ اوصاف، پاکستان، ادارتی مضامین

    وزارت دفاع کا پیمرا کو مراسلہ!
    سرفراز سید

    ملک کی سلامتی کے منافی سرگرمیوں اور کرتوتوں پر شرمسار ہونے اور آئندہ کے لئے محتاط رہنے کا عہد کرنے کی بجائے یہ لوگ ڈھٹائی کے ساتھ ڈٹ گئے ہیں کہ انہوں نے جو کیا ٹھیک کیا اور آئندہ بھی یہی کچھ کرتے رہیں گے۔ ملک کی سلامتی کے اہم ترین ادارے کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز مہم چلانے والے یہ لوگ عذر پیش کر رہے ہیں کہ ان کے ادارتی بورڈ نے باہمی مشاورت کے ساتھ آئی ایس آئی پر حملہ کرنے اور چھ گھنٹے تک اس کے سربراہ کی ٹیلی ویژن پر تصویر چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ کل تک یہ لوگ کہہ رہے تھے کہ آئی ایس آئی پر حامد میر کے بھائی کا الزام نشر کیا تھا، ان کا ٹیلی ویژن اس میں ملوث نہیں تھا۔ اب اپنے ہی اخبار میں اس کے ایک ’’تحقیقی تجزیہ کار‘‘ کا تین چار فٹ لمبا بیان چھپا ہے کہ ان کے ٹیلی ویژن کے بورڈ نے طویل باہم مشاورت کے بعد آئی ایس آئی کو مسلسل نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ میرے ذہن میں بہت سی یادداشتیں ہیں کہیں آخرمیں بھول نہ جاؤں اس لئے میں پہلے ہی ان لوگوں کے صحافتی گروپ کے مالک اور سربراہ سے سوال کر رہا ہوں کہ انہوں نے پاکستان میں رہائش کیوں ترک کر رکھی ہے؟ موصوف ایک عرصے سے پاکستان میں نہیں دیکھے گئے اور اب تو سارا خاندان ہی دبئی منگوا لیا ہے، کیوں؟ پاکستان سے ان کا کیا تعلق باقی رہ گیا ہے؟ ان کے صحافتی گروپ کا اربوں کا منافع کہاں جا رہا ہے؟ اس کی کہاں سرمایہ کاری ہو رہی ہے؟ سوالات تو بہت سے ہیں مگر صرف ایک سوال اور کہ ان الزامات کی آج تک تردید کیوں نہیں کی گئی کہ موصوف نے 30 جون 2013ء کو امریکی وزارت خارجہ سے میر خلیل الرحمان فاؤنڈیشن کے کس خاص پروگرام کے لئے 30 لاکھ ڈالر کی امداد کی درخواست کی تھی؟ کیا یہ بات غلط ہے کہ اس درخواست میں یقین دلایا گیا تھا کہ اس رقم سے ملک میں اسلامی قوانین (حدود آرڈیننس) کی تنسیخ اور بھارت کے ساتھ یک جہتی کی ’’امن کی آشا‘‘ کی تحریک کو فروغ دیا جائے گا کیا یہ بات بھی غلط ہے کہ اس امداد کے عوض اس گروپ کے ٹیلی ویژن پر وائس آف امریکہ ٹیلی ویژن کے پروگرام نشر کرنے کا پہلے معاہدہ کیا گیا پھر پوری رقم نہ ملنے پر یہ معاہدہ منسوخ کر دیا گیا!

    میں اس سوال کو آگے نہیں بڑھانا چاہتا کہ کتنے پیسے مانگے گئے اور پھر کیا ملا؟ مگر کیا یہ بات غلط ہے کہ ممبئی دھماکوں میں بھارتی پولیس نے جس نوجوان کو گرفتار کیا اسے اس گروپ کے ٹیلی ویژن اور اخبار نے خاص طور پر ثابت کیا کہ یہ نوجوان پاکستان کے بہاول پور کے ایک علاقہ فرید کوٹ کا رہنے والا ہے۔ اس ٹیلی ویژن اوراخبار کو ایسی کیا مصیبت پڑی تھی کہ بھارت میں ہونے والے واقعہ میں پاکستان کو ملوث کرنے کے لئے ٹیلی ویژن اور اخبار کی خصوصی ٹیمیں بہاول پور کے اس قصبے میں بھیجی جائیں؟ اس ’تحقیق‘ کے نتیجہ میں بھارت میں ہر سطح پر پاکستان کے خلاف جو زہر اگلا گیا، بلکہ اب تک جو زہر اگلا جا رہا ہے، اس کی ذمہ داری کس پر اور کیوں عائد ہوتی ہے؟ اور اب اگر وزارت دفاع نے پیمرا کے نام مراسلے میں کھلا الزام لگایا ہے کہ ’’جنگ اور جیو‘‘ ایک عرصے سے ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں، تو اس الزام کی تائید کے لئے تو یہ ایک ’تحقیق‘ ہی کافی ہے اور ہاں کیا پاکستان میں بھی کسی شخص نے اپنے نام کے قصاب کا لفظ لکھا ہے جو جنگ اور جیو نے ایک فرضی پاکستانی نام کے لئے استعمال کیا؟

    *اب میں کچھ دوسری باتوں کی طرف آتا ہوں۔ میرے ملک میں ایک حکومت برسراقتدار ہے۔ اس کے مختلف وزرا ایک دوسرے کے خلاف بیانات جاری کر رہے ہیں۔ وزیر داخلہ کہہ رہا ہے کہ ملک کے نہائت اہم معتبر اور محافظ ادارہ آئی ایس آئی کے خلاف جیو نیوز گروپ کے الزامات اور سرگرمیاں نہائت تشویشناک ہیں۔ اسی حکومت کا وزیر دفاع اپنی وزارت کے اہم ترین شعبے کی تذلیل کئے جانے پر زبان سے کچھ نہیں بولتا مگر کسی ’مجبوری‘ کے تحت دکھی دل کے ساتھ پیمرا کو آئی ایس آئی کے خلاف سرگرم صحافتی ادارے کا لائسنس منسوخ کرنے کے مراسلے پر دستخط کردیتا ہے! اور پھر اسی حکومت کا وزیراطلاعات صاف صاف کہہ رہا ہے کہ جیو اور جنگ نے تو آئی ایس آئی کے خلاف کوئی بات ہی نہیں کی، یہ تو کوئی ایشو ہی نہیں ہے۔! یہ ایک حکومت کے تین اہم وزرا ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے رہے ہیں! اس حکومت کو پہلے ہی روز آئی ایس آئی کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر سخت ردعمل کا اظہار کرنا چاہئے تھا۔ مگر اس نے پراسرار خاموشی اختیار کر لی اور اب کے ترجمان وزیراطلاعات کا بیان آ گیا کہ کچھ ہوا ہی نہیں ہے!!!

    اور دوسری طرف دیکھئے! پیپلزپارٹی کے لٹل سٹار (Little Star) سربراہ بلاول زرداری نے بیان دیا ہے کہ ہم حامد میر اوور اس کے گروپ کے ساتھ ہیں۔ حامد میر پر جو خطرناک اور سنگین حملہ ہوا ہے اس پر پوری قوم نے دکھ اور مذمت کا اظہار کیا ہے۔ مگر اس کے گروپ کی حمائت چہ معنی دارد؟ کیا نوجوان بلاول زرداری آئی ایس آئی کو بدنام کرنے اور اس کی تذلیل کئے جانے کی حمائت کر رہے ہیں۔ بلاول زرداری کے لئے لٹل سٹار کی اصطلاح تو کسی دوسرے کالم نگار نے ایجاد کی ہے۔ مجھے البتہ بچوں کی ایک مشہور نظم یاد آ گئی ہے۔ ’’ٹِونکل ٹِونکل لِٹل سٹار!‘‘ یہ نظم معروف انگریز شاعر جین ٹیلر نے 1806ء میں کہی تھی اب تک بچے اِسے بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ چھ بند ہیں۔ مختصر طور پر پہلا بند یہاں درج کیا جا رہا ہے۔
    TWINKLE TWINKLE LITTLE STAR
    HOW I WONDER WHAT YOU ARE!
    UP ABOVE THE WORLD SO HIGH
    LIKE ADIMANON D IN THE SKY
    TWINKLE TWINKLE LITTLE STAR
    دلچسپ بات یہ ہے کہ نظم ایک اُلّو کے بارے میں ہے جس کی رات کے وقت آسمان پر چمکنے والے ایک ننھے منے ستارے سے دوستی ہو گئی تھی۔ اُلّو روزانہ رات کے وقت جنگل کے گھنے درختوں میں سے اس ستارے کوو دیکھتا تھا اور گانا گا کر اسے خوش کیا کرتا تھا۔ نظم کے دوسرے بندوں میں کہا گیا کہ ’’اے چھوٹے سے‘ پیارے سے ستارے! تمہاری روشنی مجھ تک جگنو کی طرح پہنچتی ہے مگر سارے جنگل کو روشن کر دیتی ہے۔تم رات بھر ہیرے کی طرح چمک چمک کر مجھے خوش کرتے رہتے ہو، میں بھی تمہاری محبت میں رات بھر جاگتا رہتا ہوں اور پھر جب صبح سورج مسکراتا ہوا نمودار ہوتا ہے تو تم اور میں دونوں چپ چاپ سو جاتے ہیں سدا چمکتے رہو، ننھے منے تارے!
    قارئین کرام! میں سوچ رہا ہوں کہ بلاول زرداری نے حامد میر کے ساتھ محبت اور یک جہتی کا جو اظہار کیا ہے اس پر مجھے یہ نظم کیوں یاد آ گئی ہے؟

    ایم کیو ایم کے کاسہ میں سندھ کی دو وزارتیں، دو مشاورتیں اور معاون خصوصی کا ایک عہدہ ڈال دیا گیا۔ ڈپٹی کمشنروں اور کمشنرو ں کے نظام کی بحالی پر ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی میں جو پانی پت کی لڑائیاں ہوئیں، لیاری کے واقعات پر ایک دوسرے کے خلاف جنگ عظیم اول اور دوم کے واقعات کا جو عکس دکھائی دیتا ہے، ایم کیو ایم کی پیپلزپارٹی کے خلاف ہڑتالیں، جلوس مظاہرے اور خونریز تشدد کے الزامات۔۔۔ سب کچھ بھول بھال گیا، کرسیاں، جھنڈے والی شاندار کاریں، اعلیٰ تنخواہیں اور کروفر اور سب اصولوں اور ضابطوں پر حاوی ہو گئے! کہاں کے اصول؟ کہاں کی اخلاقیات؟ ہر آٹھ دس ہفتے بعد طلاق، پھر نیا نکاح! یہ سیاست ہے۔

    روزنامہ اوصاف، پاکستان


    ‘‘را‘‘ کے سامنے بھیگی بلی بننے والے آئی ایس آئی کے مخالفین
    نوید مسعود ھاشمی

    پاکستان اوربھارت دو پڑوسی ملک ہیں ۔۔۔ دونوں ممالک میں تعلقات بہتر ہوں ۔۔۔ یہ پاکستان کے عوام کی خواہش تو ہوسکتی ہے ۔۔۔ لیکن دونوں ممالک کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی افواج اور ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کی مشاور ت سے دونوں ممالک کے آپسی تعلقات کو طے کریں ۔۔۔ پاکستان کے عوام ہوں یا حکمران انہوں نے بھارت سے اچھے تعلقات کو ہمیشہ اہمیت اور اولیت دینے کی کوشش کی ۔۔۔ لیکن بھارت کے حکمران ہوں ‘بھارتی افواج ہوں ‘ بھارتی عوام ہوں یا بھارتی میڈیا انہوں نے پاکستان کو رگڑا دینے اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع بھی ضائع کرنا گوارا نہ کیا۔

    14اگست1947 ء سے لیکر تادم تحریر بھارت کے حکمرانوں اور بھارتی فوج نے پاکستان کے قیام کو خوشدلی سے قبول نہیں کیا ۔۔۔ آج بھی بدنام زمانہ انڈین خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ علیحدگی پسندوں کے ساتھ مل کر بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔۔۔ ان خطرناک حالات میں کیا کسی اخباری گروپ ‘ نجی چینل یا مخصوص گروہ کو یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان کے دشمن ملک بھارت کے ساتھ ’’امن کی آشنا‘‘ کا راگ الاپتے ہوئے بھارتی کلچر ‘ بھارتی ثقافت اور بھارتی فلمی اداکاراؤں ‘ گلوکاراؤں اور بھارتی رقصاؤں کو پاکستانی قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا پھرے؟
    پاکستان نہ تو کسی میڈیا کی ذاتی جاگیر ہے اور نہ ہی پاکستان کسی لمیٹڈ کمپنی کا نام ہے بلکہ پاکستان بیس کروڑ مسلمانوں کا ایک آزاد اور خودمختارملک ہے ۔۔۔ کہ جس کی حفاظت کیلئے افواج پاکستان کے علاوہ قوم کے ہزارہا جوانوں نے بھی اپنی جانیں نچھاور کر رکھی ہیں ۔۔۔ اوصاف کے قارئین اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس خاکسار نے ہمیشہ ’’امن کی آشا‘‘کے نام پر کیے جانے والے اندوہناک تماشے کے خلاف لکھا اور ڈٹ کر لکھا ‘ الحمد للہ ۔۔۔ قارئین یہ بات بھی جانتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا جس طرف سے بھی فحاشی اور عریانی پھیلانے کی کوشش ہوئی ۔۔۔ الحمد للہ راقم نے بلا کسی خوف و خطر کے ایسی کوششیں کرنے والے مکروہ چہروں سے بھی نقاب ہٹانے کی بھرپور کوشش کی ‘ آج جو اخباری گروپ اور اس سے وابستہ نجی چینل ایک شخص کی طر ف سے لگائے جانے والے الزام کی بنیاد پر ملکی سلامتی کے ضامن ادارے ’’آئی ایس آئی‘‘ پر چڑھ دوڑا ہے یہ سب کچھ نہ تو اچانک ہوا اور نہ ہی اس کو کسی قیمت پر بھی نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔

    بلکہ امن کی آشا سے لے کر بھارتی رقصاؤں اور اداکاروں کو پاکستانی قوم پر مسلط کرنے تک ۔۔۔ گانے بجانے کے غیر اسلامی مقابلوں سے لے کر ۔۔۔ فحاشی
    اور عریانی کو پھیلانے تک اس کے پیچھے ایک لمبی داستان ہے ۔۔۔ کرپشن ‘ لوٹ مار ‘ چور بازاری ‘ رسہ گیری ‘ ظالموں ‘ جابروں کے خلاف لکھنا ‘ خبر دینا نہ تو بری بات ہے اور نہ اس کام سے حق گو صحافیوں کو کوئی روک سکتا ہے لیکن ناچ گانوں ‘ ڈسکو ڈانس ‘ واہیات پروگراموں ‘ فحاشی و عریانی ‘ غلیظ اور ننگے اشتہارات چلا کر دونوں ہاتھوں سے نوٹ سمیٹنا کہاں کی صحافت اور کہاں کی آزادی ہے۔

    بھارتی پرچم چھاپ کر پاکستان کے گھر گھر پہنچانے کی کوشش کرنا کہاں کی پاکستانیت اور کہاں کی حب الوطنی ہے؟ ایک نظریاتی اسلامی مملکت کو سیکولر اور لبرل بنانے کے مکروہ ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اپنے چینل کو کھلا چھوڑ دینا کہاں کا انصاف ہے؟میرا یہ موقف کوئی حادثاتی نہیں بلکہ روز اول سے ہے ۔ بعض الیکٹرانک چینلز جس میں امن کی آشا والا چینل سرفہرست ہے۔۔۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان میں فحاشی ‘ عریانی اور بے حیائی کو عام کرکے نوجوان نسل کو اخلاقی تباہی کے دہانے پر پہنچا چھوڑا ہے۔ میری مقبوضہ کشمیر میں موجود بعض حریت راہنماؤں سے تفصیلی گفتگو ہوئی ۔۔۔ وہ سب اس بات پر متفق نظر آئے کہ جہاد کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے تاریک دور میں پہنچایا گیا ۔۔۔ اور پرویز مشرف سے بھی بڑھ کر تحریک کشمیر کو جس نے نقصان پہنچایا وہ ’’امن کی آشا‘‘ کے نام پر شروع کردہ ڈرامے نے پہنچایا ۔۔۔ کیا کسی اخبار یا چینل کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک لاکھ سے زائد شہداء کشمیر کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کر ۔۔۔ ہندوؤں کے ساتھ مل کر امن کی آشا کے دیپ جلاتا پھرے؟

    ’’صحافت‘‘ ایک مقدس پیشہ ہے لیکن ایک نظریاتی اسلامی مملکت میں صحافت کے مقدس پیشے کو ہر قیمت پر اسلام ‘ نظریہ پاکستان اور آئین کے تابع رہنا چاہیے ‘ مادر پدر آزاد صحافت کو تو امریکہ ‘ برطانیہ ‘ اسرائیل اور بھارت میں کوئی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔۔۔ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں اسے کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے؟ میرا روز اول سے یہ موقف ہے کہ بے گناہ انسانوں کو گھروں ‘ چوکوں ‘ یا چوراہوں سے اٹھا کر غائب کر دینا آئین اور قانون کے منافی ہے ۔۔۔ میں اسلام آباد کی سڑکوں پر میڈم آمنہ جنجوعہ کی قیادت میں 8 سالوں سے اپنے پیاروں کی تلاش میں دھکے کھاے والی ماؤں ‘ بہنوں ‘ بیٹیوں کے نوحے بھی عرصہ درا ز سے لکھتا چلا آرہا ہوں۔

    لیکن کیا ان باتوں کو بنیاد بناکر پاکستان کی سلامتی کے ضامن اداروں کے خلاف یلغار کرنا درست ہوگا؟ خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے خلاف زہر اگلنے والے بھارت کے تو گن گاتے ہوئے نہیں تھکتے ‘ دہلی اور ممبئی کے ہوٹلوں میں شامیں گزارنا انہیں بہت اچھا لگتا ہے ۔۔۔ کیا ان میں سے کسی ایک ’’چڑی مار‘‘ دانش فروش میں بھی اتنی ہمت ہے کہ وہ د ہلی یا ممبئی میں کھڑا ہوکر ’’را‘‘ کے مظالم کے خلاف بھی آواز بلند کرے ۔۔۔ ہرگز نہیں ’’را‘‘ ایف بی آئی اور ایم آئی سکس سے تو ان کی گاڑی چھینتی ہے ۔۔۔ لیکن آئی ایس آئی کے خلاف چلانا ان کی عادت ثانیہ بن چکی ہے تو کیوں؟

    روزنامہ اوصاف، پاکستان

    اس خاکسار نے ہمیشہ ’’امن کی آشا‘‘کے نام پر کیے جانے والے اندوہناک تماشے کے خلاف لکھا اور ڈٹ کر لکھا ‘ الحمد للہ

    چلیں ہاشمی صاحب کی پیروی میں ہم بھی امن کی آشا کی نِراشا اس شعر سے کرتے ہیں:

    نام ہے ’’جنگ‘‘ اور’’ آشا  امن کی‘‘ پیغام ہے
    ننگ ِ دیں،  ام المنافق،  صاحبِ گھنشام ہے
     
  2. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    محترم سرفراز سید صاحب روزنامہ اوصاف کےنہ صرف ایک منجھے ہوئے، سنجیدہ اور حق گو مضمون نگار ہیں بلکہ ان کی تحاریراسلام سے محبت، حب الوطنی اور قانون و انصاف پسندی کی آئینہ دار بھی ہیں جس کے باعث ان کی شخصیت باعث احترام و لائقِ تعظیم ہے۔

    ہم سرفراز سید صاحب کے مندرجہ بالا مضمون میں بیان کئے گئے حقائق سے نہ صرف مستفید ہوئے ہیں بلکہ ان کے بیانیہ سے حد درجہ متفق بھی ہیں ۔ تاہم ’’لٹل سٹار‘‘ کے حوالے سے ہم بصد احترام چند ایک گزارشات پیش کرنا چاہیں گے۔

    ’’ٹِونکل ٹِونکل لِٹل سٹار!’’یہ نظم معروف انگریز شاعر ہ جین ٹیلر نے 1806ء میں کہی تھی کسی حد تک درست ہے۔ لیکن اسکی ادبی اور حقیقی تاریخ یہ ہے کہ نظم کااصل عنوان ’’دی سٹار‘‘ ہے نہ کہ جیسا کہ عام طور پر اس نظم کو ’’ٹِونکل ٹِونکل لِٹل سٹار!’’کے عنوان سے جانا جاتا ہےجو درست نہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ نظم جین ٹیلر اور اس کی بڑی بہن این ٹیلر نے انگریزی کی مشہور کتاب،’’ رائمز فار دی نرسری Rhymes for the Nursery ‘‘کے لیے مشترکہ طور پر بچوں کے لیے تخلیق کی۔ انگریزی زبان میں بچوں کی مختصر نظموں یعنی نرسری رائمز سے متعلق The Secret History of the Nursery Rhyme کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ نظم ہر گز کسی اُلو کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ نظم جو ایک لوری بھی ہے مکمل طور پر بچوں کے لیے ہے جس میں ایک نہایت دل نشیں اور عام فہم الفاظ میں جو بچے استعمال کرتے ہیں ان کی قوت مشاہدہ ، فطری تجسس اور معصوم جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں بی بی سی ریڈیو پر ہونے والی ایک گفتگو سے بھی نظم کے شاعرانہ اسلوب، انگریزی زبان وادب، اور مغربی کلاسیکی موسیقی پر اس کے اثرات ، تاریخی پس منظر اور اس کی تخلیق سے لے کر اب تک اس کی شہرتِ دوام جاننے کے لیے اس ربط پر استفادہ کیا سکتا ہے۔ اس نظم کی دھن، جس طرز پر اسے گایا جاتا ہے ایک فرانسیسی بچوں کی نظم "Ah! vous dirais-je, Maman" پر ترتیب دی گئی ہے جو فرانسیسی ادب میں 1740ء سے موجود پائی جاتی ہے، جس کے الفاظ اور دھن ان روابط، ربط اول ، ربط دوم پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اس دھن کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس پر مغرب کے اٹھارویں صدی عیسوی کے شہرہ آفاق کلاسیکی موسیقار وولف گینگ آماڈیئس موتزارٹ Wolfgang Amadeus Mozart نے 12مختلف دھنیں ترتیب دیں جنہیں Mozart: 12 Variations on , Ah, vous dirai-je, maman کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    اُلو کے حوالے سے انگریزی کی بچوں کے لیے سب سے مشہور نظم The Owl and the Pussycat انگریز شاعر ایڈورڈ لیئر Edward Lear نے 1871ء میں تخلیق کی تھی۔ بلاول زرداری کے حوالے سے انگریزی شاعری سے اُ لوکی اصطلاح کے بجائےاردو کے ایک مشہور اور زبان زد عام محاورے سے استفادہ کرنا ہو گا۔ وہ اس لیے کہ انگریزی زبان میں اُلو کو عاقل و دانشمند ی کی علامت گردانا جاتا ہے جب کہ اردو میں اُلو بے چارے کی شہرت اتنی اچھی نہیں سمجھی جاتی۔
     
  3. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    اب شکائت کیسی؟
    سرفراز سید

    پیمرا نے وزارت دفاع کی شکایت پر جیو اور جنگ گروپ کے مالکان سے 14 روز تک جواب اور 6 مئی کو گروپ کے مالکان کو پیمرا کے روبرو طلب کر لیا ہے۔ بہت شور مچایاگیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ پر حامد میر پر قاتلانہ حملہ کا الزام لگایا گیا۔ اور چھ روز گزر جانے کے باوجود حامد میر کے خاندان کے کسی فرد نے مقدمہ درج نہیں کرایا۔ پولیس نے پانچ روز تک انتظار کرنے کے بعد خود ہی سرکار کی طرف سے دو نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے! حامد میر کے عزیز و اقارب مقدمہ کیوں درج نہیں کرا رہے؟ سیدھی بات ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو مقدمہ میں بطور ملزم نامزد کریں اور پھر عدالت میں کیس لڑیں! یہ کیسی دلیری اور جرأت مندی ہے کہ پہلے اک دم پاک فوج کے نہائت معتبر، قومی سلامتی کے محافظ ادارے پر سنگین الزام لگایا جائے، کئی گھنٹے جیو ٹیلی ویژن پر اس ’’ظلم‘‘ کا نوحہ پڑھا جائے اور جب آئی ایس آئی جوابی کارروائی شروع کرے تو اسی ٹیلی ویژن پرغمزدہ انداز میں مسلسل گانا چلا دیا جائے کہ ’’بات کرنی مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی! جیسی مشکل اب ہے، کبھی ویسی تو نہ تھی!‘‘ اب رونا رویا جا رہا ہے کہ مختلف شہروں میں جیو ٹیلی ویژن کے پروگرام بند کر دیئے گئے ہیں! مقابلہ کرنا ہے تو اسی بہادری اور جرأت کے ساتھ کرو جس کا مظاہرہ الزام لگاتے وقت کیا تھا۔ کیا اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ ملک کی انتہائی منظم جانباز فوج پر اس قسم کا سنگین الزام لگانے پر جواب میں پھول پیش نہیں کئے جائیں گے؟ بہادری دکھانے کا زعم تھا تو بہادر بنو، اب کیوں رونے دھونے بیٹھ گئے؟

    میں نے اپنی طویل صحافتی زندگی میں کبھی کسی شخص یا کسی صحافتی ادارے کے بارے میں نام لے کر تو کیا، ویسے بھی کوئی حَرَف زنی نہیں کی۔ کبھی کسی ذاتی رنج یا صدمہ کا اخبار میں ذکر نہیں کیا۔ مگر اب میرا ذاتی نہیں، میرے عزیز وطن کے کروڑوں افراد کی سلامتی اور تحفظ کو شدید نقصان پہنچائے جانے کا سنگین معاملہ سامنے ہے۔ اس پر کیسے خاموش رہ سکتا ہوں! اس ملک کی سرزمین کی خاطر میرے خاندان کے علاوہ ہزاروں دوسرے خاندانوں نے کیسی کیسی خوں فشاں قربانیاں دیں! لاکھوں سر کٹ گئے، سڑکوں پر بے حد و حساب خون بہا! یہ وطن بہت مہنگی قیمت پر حاصل کیا گیا۔ آج وطن کو ترک کر کے دبئی میں بیٹھ کر ٹیلی ویژن اور اخبار کے ذریعے اس عظیم قیمتی وطن کی جڑوں پر، اس کی شناخت پر اس کے تشخص پر جو کاری وار کیا جا رہا ہے، محض مفروضوں کی بنا پر اس کی عزت آبرو اور سلامتی کے لئے سیاچن جیسے خوفناک برف زاروں اور چولستان اور تھر جیسے آگ اگلتے ریگ زاروں میں دن رات پہرہ دینے اور وطن کی حفاظت کے لئے ہزاروں بے مثال قربانیاں دینے والے مجاہد جانبازوں اور شہدا کی عظمت کو تمسخر، تضحیک اور پست ترین سنگین الزامات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس پر میں یا پاکستان کا کوئی بھی محب وطن شخص کیسے خاموش رہ سکتا ہے؟

    پیپلزپارٹی کے نوجوان جوشیلے قائد بلاول زرداری نے ہسپتال میں حامدمیر کی عیادت کی اور کہا کہ ہم آپ کے گروپ کے ساتھ ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم سے مراد پیپلزپارٹی ہے۔ اگلے روز آزاد کشمیر میں پیپلزپارٹی کے وزیراعظم چودھری عبدالمجید نے آئی ایس آئی کے خلاف جیو گروپ کی سخت مذمت کی اور کہا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کے بارے میں قابل اعتراض باتیں نہائت مذموم اور ناقابل برداشت ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ پیپلزپارٹی کا اصل نمائندہ کون ہے، بلاول زرداری یا چودھری عبدالمجید!

    ایک قاری نے توجہ دلائی ہے کہ اس کے پاس چند ماہ پہلے کی ڈھاکہ کے ایک اخبار کی تصویر ہے اس میں دکھایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم کے ساتھ حامد میر، عاصمہ جہانگیر، سلیمہ ہاشمی کھڑے ہیں۔ ان کوحسینہ واجد نے 1971ء میں مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے خلاف بیانات دینے پر خصوصی ایوارڈ دیئے تھے۔ حامد میر نے اپنے مرحوم والد پروفیسر وارث میر کا ایوارڈ وصول کیا تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ ایوارڈ جس روز دیئے گئے اس سے دو روز قبل 1971ء میں پاک فوج کی حمایت کرنے کے جرم میں جماعت اسلامی کے ایک بزرگ رہنماکو پھانسی دی گئی اور متعدد دوسرے افراد کو سزائے موت سنائی جاچکی تھی!!محترم قاری نے مجھ سے اس بات پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا ہے، میں یہ تبصرہ قارئین پر چھوڑتا ہوں!

    روزنامہ اوصاف، پاکستان


    جنرل (ر) مہندر سنگھ، عاصمہ جہانگیر، حامد میر، شیخ حسینہ واجدسے اعزاز وصول کر تے ہوئے

    فیض احمد فیض کی بیٹی سلیمہ ہاشمی،عاصمہ جہانگیر اور حامد میر ،شیخ حسینہ واجد سے ’’اعزاز‘‘ لینے کی ویڈیو

    حامد میر کا افواج پاکستان کے خلاف جنگی جرائم کا مطالبہ بنگلا دیشی ٹی وی پر
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں