افغان تارکِ وطن رودبارِ انگلستان میں ڈوبنے سے بچا لیا گیا

توریالی نے 'خبریں' میں ‏مئی 7, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    تختوں سے بنے بیڑے پر سوار افغان تارکِ وطن رودبارِ انگلستان پار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ڈوبنے سے بچا لیا گیا​


    [​IMG]

    گزشتہ پیر 5 مئی 2014 کی دوپہر دو بجے، فرانس کے ساحلی محافظ دستے نے ایک 23 سالہ افغان تارک وطن جو چند تختوں کو جوڑ کر بنائے گئے غیر محفوظ بیڑے پر سوار تھا کو رودبارِ انگلستان کو پار کرنے کی کوشش کے دوران ڈوبنے سے بچا لیا۔ کابل سے تعلق رکھنے والا آصف حسین خیلی، چھے تختوں کو جوڑ کر بنائے گئے ایک بیڑے پر سوار ہو کر فرانس کے ساحلی مقام سین گیٹ Sangatteسے رودبار انگلستان، جو فرانس اور برطانیا کے درمیان 21 میل چوڑی سمندری پٹی ہے، پار کر کے برطانیہ میں داخلے کی کوشش کر رہا تھا۔ افغان تارک وطن کی خوش قسمتی تھی کہ اسے فرانس اور برطانیا کے درمیان چلنے والے مسافر بردار بحری جہاز کے عملے نے بروقت دیکھ لیا ، جب اس کا بیڑا ہواؤں کے رُخ کی وجہ سے مسافر بردار بحری جہاز کے رستے میں جا رہا تھا۔ مسافر بردار بحری جہاز نے فوراً اپنا رُخ تبدیل کر کے اس کی جان بچائی اور درین اثناء فرانس کے ساحلی محافظوں کو اطلاع دی۔ جنہوں نے فوراً موقع پر پہنچ کر افغان نوجوان کو فوری طبی امداد پہنچائی۔ مسافر بردار بحری جہاز اور فرانس کے ساحلی محافظوں کے عملے کے مطابق، افغان نوجوان کا، انتہائی سرد سمندری ہواؤں اور یخ بستہ سمندری پانی سے شرابور ہونے کے باعث، جسمانی درجۂ حرارت خطرناک حد تک گر چکا تھا۔ اور اگر وہ مزید کچھ دیر تک نہ بچایا جاتا، تو اس کی موت یقینی تھی اور یہ کہ اس کا زندہ بچ نکلنا ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔

    [​IMG]

    واضح رہے کہ اس افغان نوجوان کی یقینی موت کے تین امکانات تھے۔ پہلا امکان یہ کہ اگر مسافر بردار بحری جہاز کا عملہ اسے بروقت نہ دیکھ پاتا، تو اس کا بحری جہاز کے نیچے آنے سے ڈوب جانا یقینی تھا۔ دوسرا امکان یہ تھا کہ اس کا جسمانی درجہ حرارت بڑی تیزی سے گر رہا تھا اور مزید وقت گزرنے کے باعث اس کی موت یقینی تھی۔ تیسری ممکنہ وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اس کا لکڑی کے چھ تختوں سے بنایا گیا بیڑا، جس کا بادبان، ایک بستر کی چادر سے بنایا گیا تھا، بیڑے کا رُخ موڑنے والے پتوار سے محروم تھا۔ جس کی باعث افغان نوجوان کو بیڑے کی سمت برقرار رکھنے پر کوئی قابو نہ تھا اور اس کا بیڑا رودبارِ انگلستان میں مخالف سمت چلنے والی ہواؤں کی وجہ سے بجائے انگلستان کے ، واپس فرانس کے ساحل کی جانب محوِ سفر تھا۔

    فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ افغان نوجوان پہلے تو پکڑنے جانے پر بہت بد دل ہوا ، لیکن جلد ہی اسے اندازہ ہوا کہ یہ تو اس کی جان بچائے جانے میں معاون ثابت ہوا ہے۔ فرانسیسی حکام نے افغان نوجوان کو ابتدائی تفتیش کے بعد رہا کر دیا تاکہ وہ برطانیا میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوششیں جاری رکھ سکے۔

    بعد ازاں آصف حسین خیلی نامی افغان تارکِ وطن نے بتایا کہ اس کا تعلق کابل سے ہے اور وہ فرانس کے ساحلی مقام کیلے Calais، میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے پناہ گزیر تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ سن 2000ء میں افغانستان سے،طالبان سے اپنی جان بچانے کے لیے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا تھا اور ایران، ترکی،یونان،مقدونیہ،سربیا،کروئشیا،سلو وینیا، اٹلی اور سوئٹزر لینڈ سے ہوتے ہوئے فرانس کے ساحلی شہر کیلےCalais پہنچا تھا تاکہ وہ کسی طرح برطانیا میں داخل ہو کر پناہ حاصل کر لے۔ افغان تارکِ وطن نے بتایا کہ اس نے فرانسیسی شہر کیلےCalais کے پناہ گزین کیمپ میں رہائش کے دوران برطانیا پہنچنے کی دھن میں ایک ترکیب سوچی اور کیمپ کے آس پاس، کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں سے لکڑی کے تختے، اور مستول بنانے کے لیے پلاسٹک کا ایک ڈنڈا اور بستر کی چادر کی مدد سے ایک ایک بیڑا تیار کیا۔ اس کے پاس نہ تو وقت بتانے کی گھڑی تھی اور نہ ہی سمت بتانے والا قطب نما تھا اور نہ ہی پانی اور خوراک کا ذخیرہ تھا۔ اس کا واحد سامان، ایک سفری تھیلا تھا اور اس نے پتلےپلاسٹک کی ہوا بند جیکٹ پہن رکھی تھی۔ فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ برطانیا میں داخلے اور سیاسی پناہ کے خواہش مند650افغان تارکینِ وطن فرانس کے ساحلی شہر میں واقع پناہ گزینوں کے کیمپ میں عارضی طور پر قیام پذیر ہیں۔ واضح رہے کہ یہ کیمپ ریڈ کراس کی جانب سے امدادی کیمپ ختم کر دیے جانے کے بعد فرانس نے قائم کیا ہے تاکہ سیاسی پناہ کے طلبگار برطانیا میں داخلے کے انتظامات کر سکیں۔

    روزنامہ ٹیلیگراف، لندن


    برطانیا میں سیاسی پناہ کے بہانے پہنچنے والے افغان تارکینَ وطن میں اکثریت کا تعلق افغانستان کے شمالی علاقہ جات سے ہوتا ہے جن کی اکثریت شیعہ فرقے سے تعلق رکھتی ہے اور یہ لوگ دری فارسی بولتے ہیں۔ جب کہ افغان پشتونوں کی اقلیت میں زیادہ تر وہ افراد ہیں جو معاشی منفعت، اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آتے ہیں۔ ان میں سے اکثر افراد روشن خیالی کے دلدادہ اور طالبان کے اسلامی نظریات کے مخالف ہوتے ہیں۔ یہ تبصرہ ہمارے ذاتی تجربے، لسانی اہلیت اور مشاہدے پر مبنی ہے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں