"نواز اور مودی کے متضاد خواب" از مولانا امیر حمزہ حفظہ اللہ

اہل الحدیث نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏جولائی 12, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    "نواز اور مودی کے متضاد خواب"

    مولانا امیر حمزہ کا خصوصی کالم

    4جولائی کو رمضان المبارک کا پہلا جمعہ تھا، آزاد کشمیر کے شہر راولا کوٹ میں جمعہ کے لئے پہنچا، اسی دن ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی بھی مقبوضہ کشمیر پہنچے، وہاں وزیراعظم نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں واجپائی کے خواب کو پورا کرتے ہوئے جموں اور کشمیر کو بھارت سے منسلک کر دوں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ واجپائی نے دو خواب دیکھے تھے، ایک وہ خواب ہے جو جناب واجپائی نے ہمارے وزیراعظم میاں نوازشریف کو بتلایا تھا، لاہور آ کر مینار پاکستان کے سائے تلے بتلایا تھا مگر سابق جرنیل اور سابق صدر جناب پرویز مشرف صاحب نے سخت زیادتی کی جب انہوں نے میاں نوازشریف کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور واجپائی صاحب کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیا۔ میاں نوازشریف صاحب کو اس ظالمانہ اقدام کا اس قدر قلق ہے کہ وہ آج بھی اس قلق کا اظہار فرماتے رہتے ہیں۔ وہ بتلاتے ہیں کہ اگر مشرف صاحب 12اکتوبر کا اقدام نہ کرتے تو واجپائی کا خواب پورا ہونے والا تھا، کشمیر آزاد ہو کر پاکستان بننے والا تھا مگر اس حسین خواب کو چکنا چور کرنے کا سارا گناہ جناب مشرف صاحب کا ہے جو انہوں نے ایک منتخب وزیراعظم کو معزول کر کے کیا۔

    اب جناب نریندر مودی صاحب نے مقبوضہ کشمیر پہنچ کر بالکل مختلف خواب سنایا ہے وہ بتلاتے ہیں کہ جناب واجپائی کا خواب تو یہ ہے کہ جموں اور کشمیر کو بھارت کے ساتھ نتھی کر دیا جائے۔ یعنی اس کی متنازعہ حیثیت ختم کر دی جائے اور وہ باقی ریاستوں کی طرح بھارت کی ایک صوبائی ریاست بن جائے۔ جناب واجپائی صاحب انتہائی بزرگی میں ابھی زندہ سلامت ہیں، میرا خیال ہی نہیں مشورہ ہے کہ محترم میاں نوازشریف صاحب جلدی کریں اور جناب واجپائی صاحب سے پوچھ لیں کہ جناب والانے جو خواب مجھے بتلایا، مودی صاحب کو بتلایا جانے والا خواب اس سے بالکل مختلف، متضاد اور متنازعہ کیوں ہے؟ اس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ جناب واجپائی نے چانکیائی سیاست کا انداز اپناتے ہوئے دونوں کو الگ الگ خواب بتلائے ہیں یا پھر یہ کہ خواب تو ایک ہی ہے مگر سچا کون سا ہے؟ میاں صاحب والا یا مودی صاحب والا؟

    جناب مودی نے کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ نتھی کرنے کی جو بات کی ہے اس کے پیچھے بی جے پی کا ایک نظریہ اور مہم ہے جس کا الیکشن کے دوران اظہار ہوتا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ مقبوضہ وادی میں مسلمانوں کی اکثریت کو ختم کر دیا جائے بالکل اسی طرح جس طرح جموں سے ختم کر دی گئی تھی۔ تقسیم ہند کے دوران اور اس کے بعد جموں سے لاکھوں مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیا، تین لاکھ کے قریب پاکستان میں آئے۔ جو مار دیئے گئے وہ الگ ہیں۔ بہت سارے ہندوستان کے باقی علاقوں میں بکھر گئے۔ مزید برآں، وہاں ہندو لا کر بسائے گئے۔ یوں جموں میں مسلمانوں کی اکثریت ختم ہو گئی اور آج وہاں ہندو آبادی کی اکثریت ہے۔
    اسی نسخے کو کانگریس نے بھی وادی میں آزمانے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ اب ہندوتوا کی علمبردار مودی سرکار اسی نسخے کو آزمانا چاہ رہی ہے۔ کانگریس کی نسبت موجودہ سرکار کے تعلقات اسرائیل کے ساتھ مزید مضبوط اور گہرے ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی کمپنیاں ہندوستان میں سرمایہ کاری بھی کر رہی ہیں، ان کا پڑھایا ہوا سبق کانگریس تو ازبر نہ کر سکی، مودی سرکار اسے ازبر بھی کر چکی ہے اور عمل کے لئے بھی پرتول رہی ہے۔ پہلے نمبر پر مقبوضہ وادی کی مخصوص ریاستی حیثیت کو ختم کیا جائے گا اور پھر وہاں ہندو لا کر بسانے کی کوشش کی جائے گی۔ منصوبہ یہ ہے کہ وہاں ہندوؤں کی اکثریت بنا کر کشمیریوں سے کہا جائے گا کہ لو! اب رائے شماری کروا لو اور حق خود ارادیت لے لو۔ اسرائیل نے فلسطین میں یہی کچھ کیا تھا کہ فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے، جلا وطن ہونے پر مجبور کیا، دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لا لا کر ان کی بستیاں بناتے رہے، یوں وہاں یہودی اکثریت میں ہو گئے اور مسلمان اقلیت بن کر رہ گئے۔ اسرائیل یہی سبق انڈیا کو پڑھاتا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انڈیا اپنے دوست اسرائیل کی طرح کامیاب ہو جائے گا؟

    جب تاریخ اور موجودہ حالات کے تناظر میں ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں انڈیا کی کامیابی زیرو نظر آتی ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جب اسرائیل کے نام سے ملک بنانے کی تیاری ہو چکی تھی تو تب خلافت اسلامیہ ختم ہو چکی تھی۔ اس کے سارے علاقے یورپ کے تسلط میں تھے، تب صرف چار ملک سعودی عرب، ترکی، افغانستان اور ایران آزاد تھے مگر یہ بھی اس قدر کمزور تھے کہ کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہ تھے۔ ایسے حالات میں اسرائیل کا قیام اور وہاں یہودیوں کو بسانے کا جو اقدام تھا اس کے لئے ماحول سازگار بنا لیا گیا تھا۔ ایسے اقدام کے لئے آج کا ماحول اور حالات ناصرف یہ کہ انڈیا کے لئے سازگار نہیں بلکہ سخت خلاف ہیں۔ 57کے قریب مسلمان ممالک ہیں، آج سے ستر سال پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔۔۔
    اس کے ساتھ ساتھ دوسری ناسازگار حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی مزاحمتی طاقتیں قوت پکڑ چکی ہیں۔ امریکہ اس خطے سے جا رہا ہے، مبصرین تجزیے اور پیش گوئیاں کر رہے ہیں کہ انڈیا نے کشمیر کا مسئلہ حل نہ کیا تو وہاں تاریخ کی بلند ترین سطح کی حامل مزاحمت شروع ہونے جا رہی ہے۔۔۔

    تیسری ناسازگار حقیقت یہ ہے کہ جس طرح وقت کی عالمی قوتیں اسرائیل کو تقویت دینے کے لئے متحد تھیں، اس کا بیس فیصد تعاون بھی انڈیا کے لئے کشمیر میں مشکل ہے۔ چوتھی ناسازگار حقیقت یہ ہے کہ روس اور امریکہ اب عالمی قوتوں کا سٹیٹس برقرار نہیں رکھ سکیں۔ یورپی یونین بھی کمزور ہو چکی اور چین جو ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور خطے کی طاقت ہے اور کشمیر کے ساتھ جغرافیائی تعلق بھی رکھتی ہے وہ انڈیا کے خلاف ہے۔
    پانچویں اور آخری حقیقت یہ ہے کہ روس علاقے کی بہرحال ایک بڑی قوت ہے اور عالمی امور میں بھی امریکہ کو من مانی نہیں کرنے دے رہی وہ بھی اب انڈیا کے ساتھ فاصلے پر ہے اور پاکستان سے ماضی کی نسبت دور نہیں بلکہ قریب تر ہے۔۔۔ ایسے حالات اور ماحول میں اب یہ قطعی طور پر ناممکن ہے کہ انڈیا آخری حدوں کو کراس کر کے کشمیریوں کے انسانی حقوق کا قتل عام کرے، اسرائیل کا نسخہ استعمال کرے اور دنیا دیکھتی رہے، یہ بالکل ناممکن ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسا کرنا خود انڈیا کی سالمیت کے لئے نہ صرف خطرات اور سوالات کو جنم دے گا بلکہ تباہ کن ثابت ہو گا، لہٰذا اسرائیل کا انڈیا کے لئے مشورہ ایسے ہی ہو گا جیسے ریگستانی زمین پر چنے کے بجائے دھان کی فصل بونے کی تیاری کر لی جائے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں