" حسن معاشرت سب کے لیے" خطبہ جمعہ مسجد نبوی 12 شوال 1435 ھـ

بابر تنویر نے 'خطبات الحرمین' میں ‏اگست 8, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    حسن معاشرت سب کے لیے

    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبد الباری بن عواض الثبيتی ﷾ نے 12- شوال- 1435کا خطبہ جمعہ بعنوان " حُسن معاشرت سب کیلئے" ارشاد فرمایا جس میں انہوں حُسن معاشرت کی وضاحت کرتے ہوئے معاشرے کے ہر طبقے کیساتھ الگ الگ طرزِ زندگی بیان کیا، اور یہ بھی کہا کہ بزرگوں کا احترام بہت ضروری ہے، آخر میں انہوں نے غزہ سے متعلق المناک صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا، اور اہل غزہ کیلئے بھر پور دعائیں کی۔

    پہلا خطبہ:
    تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، جس نے نیک لوگوں کا گھر جنت بنایا، میں خفیہ اور اعلانیہ اسی کی حمد بیان کرتا ہوں، اور شکر بجا لاتا ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے، اسکی وحدانیت کا ہر اعتبار سے اقرار کرتا ہوں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اسکے بندے اور رسول ہیں، ہم آپ پر محبت کیساتھ ایمان لاتے ہیں، اور شد ومدّ کیساتھ اسکا اقرار بھی کرتے ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل پر، اور ایثار کرنے والے صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے ۔

    حمد و صلاۃ کے بعد:
    میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں ، فرمانِ باری تعالی ہے:
    { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ }
    اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں ہی آئے۔ [آل عمران: 102]

    حسن معاشرت سچے تعلق، خالص محبت، دلی میلان، اور بے انتہا نوازش کا نام ہے، اور لوگوں میں حسن معاشرت کے سب سے زیادہ حقدار : والدین ہیں، کیونکہ وہی انسان کے دنیا میں آنے کا سبب بنے، تو اس لئے انکا حق زیادہ بنتا ہے، اور انکے ساتھ حسن سلوک لازم ہے۔

    والدین کیساتھ حسن معاشرت کیلئے انکے ساتھ اچھا برتاؤ، اچھا سلوک، مال و جان کے ذریعے انکی خدمت، اور وہ زندہ ہوں یا فوت ہو جائیں ہر حالت میں انکے لئے دعائیں کی جائیں، اور انکے دوست احباب کا احترام کیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ اولاد اپنے والد کے دوستوں کیساتھ اچھا سلوک کرے)

    بہن بھائیوں کیساتھ حسن معاشرت کیلئے باہمی احترام کی فضا قائم رکھیں، بات چیت اور معاملات میں آداب ملحوظ خاطر رکھیں، چھوٹے بڑوں کا احترم کریں، اور بڑے چھوٹوں پر شفقت کریں؛ تا کہ محبت حکمرانی کرے، اوراُنس زیادہ ہو، الفت قائم رہے، اور خوشیاں سایہ فِگن رہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دینے والا ہاتھ ہی بلند ہوتا ہے، دیتے ہوئے اپنی زیر کفالت لوگوں سے ابتدا کرو، یعنی: والدہ اور والد، بہن اور بھائی، پھر بالترتیب ان کے بعد والے افراد ) نسائی

    عزیز و اقارب کیساتھ حسن معاشرت کیلئے؛ انکی ضروریات پوری کریں، انکے کام آئیں، انکی خیریت دریافت کریں، اور انہیں کثرت سے سلام کرنے کیلئے ملنے کیلئے جائیں فرمانِ باری تعالی ہے:
    {يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ }
    آپ سے سوال پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیں: جو بھی خرچ کرو تو وہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کو [پہلے] دو۔ [البقرة : 215]

    اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مسکین پر صدقہ صرف صدقہ ہی ہے، جبکہ رشتہ داروں پر صدقہ ؛ صدقہ کیساتھ صلہ رحمی بھی ہے)نسائی

    بیوی کیساتھ حسن معاشرت کیلئے؛ نرم گفتگو، اچھا انداز، پیار و محبت اپنائیں، اور کھلا خرچ کریں، ہمیشہ مسکرائیں، نرم خوئی اپنائیں، نفسیاتی و جذباتی خواہشات کو پورا کریں، اور بیوی کو خوش رکھیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
    {وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ} اور بیویوں کیساتھ حسن معاشرت اپناؤ [النساء : 19]

    اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل کیلئے بہتر ہو، میں اپنے اہل کیلئے بہتر ہوں)ترمذی، ابن ماجہ

    حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے جم غفیر کے سامنے کھڑے ہوکر بیویوں کے خاوندوں پر حقوق کا تذکرہ کیا، اور فرمایا: (سنو! عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت لے لو، بیشک وہ تمہارے قبضے میں ہیں)ترمذی

    اور خاوند کیساتھ حسن معاشرت کیلئے، پیار و محبت، اور خاوند سے ہونے والی لغزشوں پر صبر کیا جائے، اسکے بچوں کا احترام کیا جائے، انکا خیال رکھیں، اور تربیت کریں، خاوند کا ذکر ہو تو اچھے لفظوں میں، ساس کے حقوق کو تحفظ دیں، اور انکا خیال بھی کیا جائے، خاوند کی نہ شکری نہ کی جائے۔

    پڑوسی کیساتھ حسن معاشرت کیلئے انکے ساتھ اچھا سلوک کریں، انکی خبر گیری کریں، انکے راز فاش نہ کریں، انہیں تکلیف مت دیں، انکا احترام کرتے ہوئے انکی عزت پامال نہ کریں، انکے احساسات و جذبات کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جبریل نے مجھے پڑوسی کے بارے میں اتنی دیر وصیت کی کہ مجھے اسکے وارث بنائے جانے کا اندیشہ ہونے لگا)بخاری
    اور اسی طرح فرمان نبوی ہے: (اللہ کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہے! اللہ کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہے! اللہ کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہے!) کہا گیا: اللہ کے رسول! کون مؤمن نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: (جسکی شرارت سے اُسکا پڑوسی محفوظ نہ ہو) بخاری


    کمزور، اور مساکین کیساتھ حسن معاشرت کیلئے: مال اور وقت دیکر انکی خدمت کی جائے، خوراک کا بندو بست کیا جائے، اپنی خوشیوں میں انہیں بھی شامل کریں، انکے دکھ درد بانٹیں، انکے دکھ کو ہلکا کریں، اور انہیں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا موقع نہ دیں، پیٹ کی آگ بھجانے کیلئے دو وقت کی روٹی تلاش کرنے کیلئے انہیں سر گرداں پھرنے نہ دیں ، فرمان نبوی ہے: (بیواؤں اور مساکین کیلئے جد و جہد کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ، یا رات کو قیام، اور دن میں روزہ رکھنے والے کی طرح ہے)بخاری
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رسیدہ افراد کے احترام اور انکے ساتھ حسن معاشرت کی خوب ترغیب دلائی ؛ چنانچہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یقینا اللہ تعالی کی تعظیم میں یہ بھی شامل ہے کہ بوڑھے مسلمان شخص کا احترام کیا جائے ) ابو داود
    انکے احترام میں یہ بھی شامل ہے کہ صحت ، نفسیات، سماجی تعلقات، اور مالی طور پر انکا خصوصی خیال کیا جائے، عمر میں بڑے افراد کو ترجیح دی جائے، انکی باتیں خاموشی سے سنی جائیں، اور انکے ساتھ نرم برتاؤ کیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مجھے جبریل نے حکم دیا ہے کہ میں بڑوں کو ترجیح دوں) احمد
    اور عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک استعمال فرما رہے تھے ، آپ کے پاس دو آدمی تھے، ان میں سے ایک عمر میں بڑا تھا چنانچہ جب انہوں نے آپکی مسواک لینا چاہی ، تو اللہ تعالی نے آپ پر بقیہ مسواک کے بارے میں وحی فرمائی کہ دونوں میں سے بڑی عمر والے شخص کو دیں" ابو داود

    اللہ کے بندو!
    حسن معاشرت میں یہ بھی شامل ہے کہ لوگوں کو انکے مرتبے کے مطابق انکا احترام کیا جائے اور عزت افزائی کی جائے، اور انکی خوبیاں و امتیازی صفات ذکر کی جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم معزز افراد کو انکا مقام دیتے تھے، اور آپ نے فرمایا: (وہ شخص میری امت میں سے ہی نہیں جو ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے، چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، اور ہمارے علماء کی قدر نہ کرے) ہیثمی

    چنانچہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے تو ابو سفیان نے بھی اسلام قبول کر لیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان کو اسلام پر ثابت قدم کرنا چاہا، چونکہ ابو سفیان قریشی سربراہ تھا، اور ایسے لوگ فخر بھی پسند کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا: (جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا تو اسے امان ہے)

    علماء کے لوگوں پر حقوق ہیں، چنانچہ علمائے کرام کیساتھ حسن معاشرت اسلامی طریقہ ہے، جس کیلئے انکی بات کان لگا کر سنیں، ان کی عزت افزائی، اور احترام کریں، انکے ساتھ بیٹھیں، اسی لئے صحابہ کرام جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتے تو کان لگا کر آپکی بات سنتے، ایسے لگتا جیسے انکے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔

    ایک بار زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جنازہ پڑھا کر فارغ ہوئے تو انکی سواری قریب کی گئی، اتنے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما آگئے، اور انہوں نے سواری کی مہار کو تھام لیا۔
    زید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد ! آپ اسے چھوڑ دیجئے!!
    تو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: "ہمیں علماء اور بڑے لوگوں کیساتھ ایسے ہی برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے"

    علمائے کرام کیساتھ حسن معاشرت میں یہ بھی شامل ہے کہ :انکے بارے میں زبان درازی نہ کی جائے، علمائے کرام کی غیبت زہریلی ثابت ہوتی ہے، علمائے کرام کے بارے میں بد زبانی کرنے والے افراد کے متعلق سنت الہی سب کو معلوم ہے، جو کوئی بھی علمائے کرام کی بد خوئی کریگا، اللہ تعالی موت سے قبل اسکے دل کو مردہ کردے گا۔

    حکمران کیساتھ حسن معاشرت کیلئے معصیت الہی کے علاوہ ہر حکم میں اسکی اطاعت کی جائے، حکمران کی اصلاح کیلئے اسکی عدم موجودگی میں دعا کی جائے، اور حکمران کے پاس جاکر اسکی اصلاح کی جائے، اور دین کے تمام معاملات میں اسے نصیحت کرے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (دین خیر خواہی کا نام ہے) ہم نے عرض کیا: کس کیلئے؟ آپ نے فرمایا: (اللہ کیلئے، کتاب اللہ کیلئے، رسول کیلئے، مسلم حکمرانوں کیلئے، اور تمام مسلمانوں کیلئے)بخاری و مسلم

    اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کیساتھ حسن معاشرت اپنے اندر کچھ سختی سموئے ہوئے ہوتی ہے، بسا اوقات وہ آپکو ڈس بھی جاتے ہیں؛ ان لوگوں کیساتھ معاشرت کیلئے کچھ نہ کچھ شائستگی کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی، تو جب آپ نے اسے دیکھا تو فرمایا: (یہ تو اپنے قبیلے کا بد ترین شخص ہے) جب وہ آکر بیٹھ گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسکے ساتھ خندہ پیشانی، اور نرم گوئی سے ملے، جب وہ آدمی چلا گیا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب آپ نے آدمی کو دیکھا تھا تو اس وقت آپ نے اسے یہ کچھ کہا تھا، اور جب ملے تو خندہ پیشانی اور نرم گوئی سے ملے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عائشہ! تم نے مجھے زبان درازی کرتے ہوئے کب دیکھا ہے؟ قیامت کے د ن اللہ کے ہاں بد ترین وہی لوگ ہونگے جنہیں لوگ انکے شر سے محفوظ رہنے کیلئے چھوڑ دیں)بخاری

    حسن معاشرت کو مزید طول اور مضبوطی بخشنے کیلئے لوگوں کی ضروریات پوری کی جائیں، انکی اچھی خوبیوں پر نظریں جمائیں، انکے حقوق میں کمی مت آنے دیں، انکی خبر گیری کریں، انکی مالی مدد کریں، انکی سنگدلی پر صبر کریں، ان پر لگنے والے الزامات کو مسترد کریں، اور ہر انسان کیساتھ مناسب رویہ اختیار کریں۔
    شبیب بن شیبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "کسی کو غیر مناسب طریقے سے مت ملو، کیونکہ اگر آپ جاہل آدمی کیساتھ علمی ، کھلاڑی کیساتھ فقہی ، اور نابلد کیساتھ واضح باتیں کرو گے تو آپ اپنے ساتھی کو تکلیف پہنچاؤ گے"

    لڑئی جھگڑے سے دور رہ کر اور صلح صفائی کو ناچاکی پر ترجیح دے کر بھی آپ حسن معاشرت قائم رکھ سکتے ہیں، اور علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: " اپنے دوست کے ساتھ میانہ روی کا معاملہ رکھو، شاید کسی دن وہ تمہارا دشمن بن جائے، اور دشمن کے ساتھ دشمنی میں بھی میانہ رو ہی رکھو کیونکہ ممکن ہے کہ کل وہی تمہارا دوست بن جائے "ترمذی

    اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

    دوسرا خطبہ:
    تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ، کہ اس نے دلوں کو نورِ ایمان سے مزین فرمایا، اور نفس کو صبر و تسلی کی نصیحت کے ذریعے خوبصورت بنایا، جلوت و خلوت میں اسی کی تعریف اور شکر گزاری بجا لاتا ہوں، ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، وہ بلند صفات اور اسمائے حسنی والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، آپ نے صبر و تقوی اختیار کرنے والوں کو غالب رہنے کی خوشخبری دی، اللہ تعالی آپ پر آپکی آل ، تمام صحابہ کرام اور اتباع کرنے والوں پر رحمتیں نازل فرمائے۔
    حمدو صلاۃ کے بعد:
    میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔
    یہ بھی حسن معاشرت کا حصہ ہے کہ امت کے حالات پر نظر رکھی جائے، اس وقت فلسطینی غزہ کا سانحہ شدید تکلیف دہ ہے، جہاں بے دردی ، وحشیانہ ، غیر انسانی اجتماعی قتل عام جاری ہے، کٹے پھٹے بچوں، عورتوں اور بوڑھے بزرگوں کے جسموں سے سے بہنے والے خون کو نظر انداز کیا جارہا ہے، بڑی ہی کربناک صورت حال میں تباہی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا، ایسا منظر بنا دیا گیا ہے کہ زندہ انسانی ضمیر اسے دیکھ بھی نہیں سکتا، انہی تناظر میں تباہ کن جنگی آلات کو انسانی جرائم کی انتہا تک پہنچنے کیلئے استعمال کیا گیا ۔
    تمام شعبہ ہائے زندگی میں انسانیت کا جنازہ نکال دیا گیا، نہ پانی ہے، نہ بجلی ہے، نہ زخموں کیلئے دوا؛ پوری قوم مصیبت و تکلیف میں مبتلا ہے؛ صبح اٹھتے ہی بیسیوں جنازے دیکھنے پڑتے ہیں، حجر ، شجر، اور بشر میں کسی قسم کا فرق نہ کرنے والے خطرناک راکٹوں اور بموں کی آوازیں سنتے سنتے سو جاتے ہیں، انکی آوازوں سے خوف و ہراس پھیل جاتا ہے، جسکی ترجمانی بچوں کی چیخ وپکار، ممتا کی اشکبار آنکھیں، بے گھر افراد کی حالت، اور موت سے بچنے کیلئے بھاگنے والوں کی حالت کرتی ہے۔

    اللہ تعالی کا فرمان ہے: { وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ}
    اور اللہ تعالی اپنے مددگاروں کو ضرور غالب کریگا، یقینا اللہ تعالی طاقت والا غالب ہے۔ [الحج : 40]

    یا اللہ! ہم تجھے تیری صفات و اسمائے حسنی کا واسطہ دیکر دعا کرتے ہیں کہ [أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ، اَلَّذِيْ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدُ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً اَحَدٌ] یا اللہ! غزہ کے کمزور مسلمانوں کو نجات عنائت فرما، یا اللہ! غزہ کے مسلمانوں کو نجات عنائت فرما، یا اللہ! غزہ کے مسلمانوں تیرے اور انکے دشمنوں سے نجات عطا فرما، یا اللہ! غزہ کے مسلمانوں کے نشانے درست فرما دے، انہیں متحد فرما، انہیں یکجا فرما دے، یا اللہ! حق بات پر سب کو جمع فرما دے، یا رب العالمین

    یا اللہ! اہل غزہ بھوکے ، ننگے ہیں انکے لئے کھانے پینے اور لباس کا انتظام فرما، یا اللہ! اہل غزہ مظلوم ہیں انہی کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اہل غزہ مظلوم ہیں انکا بدلہ ظالموں سے چکا دے، یا اللہ! اہل غزہ مظلوم ہیں انکا بدلہ ظالموں سے چکا دے، یا اللہ! انکا حامی و ناصر اور مددگار بن جا، یا اللہ! انکا حامی و ناصر اور مددگار بن جا، یا اللہ! ان پر اپنی مدد نازل فرما، یا ارحم الراحمین! انہیں تیرے اور اپنے دشمنوں پر غلبہ عطا فرما۔

    یا اللہ! کتاب کو نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، تمام اتحادی فوجوں کو شکست دے دے، یا اللہ! اپنے اور انکے مشترکہ دشمنوں شکست خوردہ کردے۔

    یا اللہ! تیرے راستے سے روکنے والے، اور تیرے دوستوں سے لڑنے والوں کو تباہ برباد کردے، یا اللہ! تیرے راستے سے روکنے والے، اور تیرے دوستوں سے لڑنے والوں کو تباہ برباد کردے، یا اللہ! تیرے راستے سے روکنے والے، اور تیرے دوستوں سے لڑنے والوں کو تباہ برباد کردے۔
    یا اللہ! مسلمانوں کے پوری دنیا میں حالات درست فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں کے پوری دنیا میں حالات درست فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں کے پوری دنیا میں حالات درست فرما دے۔

    یا اللہ! جو کوئی بھی اسلام، مسلمانوں اور ہمارے خلاف منصوبہ بندی کرے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اور اسکی منصوبہ بندی اسی کے گلے کا طوق بنا دے، یا اللہ! جو کوئی بھی اسلام، مسلمانوں اور ہمارے خلاف منصوبہ بندی کرے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اور اسکی منصوبہ بندی اسی کے گلے کا طوق بنا دے،یا سمیع الدعا! یا اللہ! جو کوئی بھی اسلام، مسلمانوں اور ہمارے خلاف منصوبہ بندی کرے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اور اسکی منصوبہ بندی اسی کے گلے کا طوق بنا دے۔

    یا اللہ! ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور ہمیں ہر ایسے قول و فعل کی توفیق دے جو ہمیں جنت کے قریب کر دے، یا اللہ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم سے دور کرے۔

    یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لئے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!

    یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کوغلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لئے ہدایت آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ظالموں کے خلاف ہماری مدد فرما۔

    یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا، تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔

    یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہوں کو دھو ڈال ، ہماری حجت ثابت کر دے، ہماری زبان کی حفاظت فرما، اور ہمارے سینے کی تمام بیماریاں ختم کر دے۔

    یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، اور اسکو اپنی راہنمائی کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ ! انکے نائب کو بھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے ۔

    یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو نفاذِ شریعت کو توفیق عطا فرما۔

    رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
    ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے [الأعراف: 23]

    رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
    اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے [الحشر: 10]

    رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
    ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]

    یا اللہ! محمد پر آپکی اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمت و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں، اور محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- پر آپکی اولاد اور ازواج مطہرات پر برکتیں نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔

    یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، علی ، اور تمام صحابہ کرام و آل سے راضی ہوجا، یا اللہ! اپنے رحم و کرم اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا، یا ارحم الراحمین!

    إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
    اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]

    تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی چیز ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔


    مترجم شیخ ابن مبارک
    رکن مجلس علماء اردو مجلس
    زیر تعلیم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
  2. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    جزاک اللہ خیرا شیخ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,955
    جزاک اللہ خیرا۔ ماشاء اللہ ۔ ابھئ پچھلے مہینے ان کے ایک خطبہ کے بارے میں ڈیسکس کر رہے تھے ۔ ابھی ایک اور خطبہ بھی دے گئے ۔ بارک اللہ فیہ
    بے شک ۔ علما ء حق سب سے زیادہ حسن معاشرت کے حقدار ہیں ۔ اگرچہ یہ چیز آجکل کم پائی جاتی ہے ۔اللہ توفیق دے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاکم اللہ خیرا۔
     
  5. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    و ایاکم
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں