یورپی خلائی جہاز روزیٹا دس سالہ خلائی سفر کے بعد منزل مقصود پرپہنچ گئی

توریالی نے 'اسلام ، سائنس اور جدید ٹیکنولوجی' میں ‏ستمبر 1, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    [​IMG]
    یورپی خلائی جہاز روزیٹا دس سالہ خلائی سفر کے بعد منزل مقصود پرپہنچ گئی

    یورپی خلائی تحقیق کے ادارے یورپین سپیس ایجنسی جس کا مخفف ای ایس اے ESA ہے کا روزیٹا Rosetta نامی دنیا کا پہلا خلائی جہاز دس سال کے بعد دو سو پچاس ملین میل یعنی پچیس کڑور میل کی مسافت طے کرنے کے بعد 6 اگست 2014ء کو ایک دُمدار تارے پی سکسٹی سیون چیو ریوموف جیرازی مینکو 67P/Churyumov–Gerasimenko کے انتہائی قریب یعنی 62 میل کے فاصلے پرپہنچ گیا ہے اور اب اس کے گرد مدار کرتے ہوئے اس کے ہمراہ 34175میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے 55 کروڑ میل کے فاصلے پر مائلِ پرواز ہے اور اس دُمدار تارے کی قریب سے تصاویر بنا رہا ہے اور دیگر مطالعات و مشاہدات کے علاوہ اس دُمدار تارے کی سطح پر ایک خلائی تجربہ گاہ گاڑی جس کا نام فی لے Philae Lander ہے، کواتارنے کے لیے مناسب مقام کی تلاش میں مصروف ہے۔
    [​IMG]

    روزیٹا نامی خلائی جہاز یورپی اتحاد کے بنائے گئے آریانAriane 5 G+راکٹ کے ذریعے فرانس کی جنوبی امریکا کی ساحلی پٹی پر واقع نو آبادی فرنچ گیانا کے کُورو Kourouپر واقع خلائی اڈے سے 2مارچ2004ءکوخلا میں روانہ کیا گیا تھا۔آریان فرانسیسی زبان کا ایک نسوانی نام ہے جو یونان کی ایک دیو مالائی دیوی سے ماخوز ہے اور اس کا مطلب’ انتہائی مقدس‘ہے ۔
    [​IMG]
    [​IMG]
    یورپی خلائی راکٹ آریان
    خلائی جہاز روزیٹا کے نام کی غرض و غایت:
    روزیٹا فرانسیسی زبان میں گُلا ب کے پھول کو کہتے ہیں اور یہ ایک مقبول نسوانی نام ہے۔لیکن خلائی جہاز روزیٹا کا نام روزیٹا سٹون Rosetta Stone سے مُشتق ہے جو پتھر کی ایک منقوش لوح ہے۔
    [​IMG]
    لوحِ منقوش روزیٹا
    فرانسیسی جرنیل نپولین کے 1798ء میں مصر پر قبضے کے بعد، پتھر کی یہ لوحِ منقوش مصر کے ایک مقام سے19 جولائی 1799ء کو فرانس کے فوجیوں کی جانب سے ایک فوجی قلعہ کی تعمیر کے درمیان کھدائی کے وقت زمین سے برآمد ہوئی تھی۔مصر میں اسکندریہ کے قریب واقع اس جگہ کا عربی نام ایک مسلمان خلیفہ مامون الرشید کی مناسبت سے راشد ہے اور عربی زبان میں راشد کے معنی راہ نُما یا راستہ دکھانے والا ہے لیکن فرانسیسی ،اس نام کو راشد کے بجائے روزیٹا کہتے تھے جس کے باعث پتھر کی یہ قدیم منقش تختی روزیٹا سٹون کہلائی جاتی ہے۔تاہم لوحِ منقوش روزیٹا میں ایک نقص تھا۔اس کا اوپر والا،درمیانی اور نچلا حصہ ٹوٹنے کے باعث، اس پتھر کی تختی پر درج عبارت کابہت سا حصہ نا مکمل تھا، جس کی تکمیل دریائے نیل پر واقع فی لے جزیرے کے معبد کی دیوار پر کندہ عبارت سے حاصل کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ روزیٹا کی تکمیل میں فی لے کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔
    [​IMG]
    لوحَ منقوش روزیٹا کےٹوٹے ہوئے حصے،اوپر،دائیں جانب حاشیہ اور نچلا دایاں کونہ
    ٹوٹے ہوئے حصے عبارت کی تکمیل اور ترجمے کی راہ میں حائل ہوئے
    روزیٹا نامی لوحِ منقوش، 196برس قبل از مسیح میں تیرہ سالہ یونانی بادشاہ بطلیموس پنجم کے اعزاز میں ان کی رسم تاجپوشی کی نویں سالگرہ پر تراشی گئی تھی۔اس حجری لوح ِ منقوش پر فراعنہ مصر کے زمانے کی مصری اور قدیم یونانی زبان میں علی الترتیب تین مختلف طرز کے رسم الخطوط، جس میں تصاویر و اشکال پر مبنی قدیم مصر کا مقدس رسم الخط،قدیم مصر کے عام لوگوں کے رسم الخط اور قدیم یونانی رسم الخط میں قدیم مصر کے مذہبی پیشواؤں کی جانب سے اپنے زمانے کے یونانی حکمران ،بطلیموس پنجم اور ملکہ قلوپطرہ کے اعزاز میں ایک سپاسنامہ پتھر کی لوح پر کندہ کیا گیا تھا۔یاد رہے کہ یونانی جرنیل الیگزانڈر کی وفات کے بعد مصر کے بہت سے علاقوں پر یونانی بطلیموس خاندان کی حکومت 304 قبلِ مسیح سے 30 قبلِ مسیح تک رہی ہے۔

    لوحِ منقوش پر کندہ تحریر، خصوصاً مصر کے تصویری رسم الخط جسے انگریزی میں Hieroglyph کہتے ہیں اور قدیم مصر کے عام لوگوں کے رسم الخط جو Demotic Script کہلاتا ہے،کو پڑھنے کا سہرا فرانس کے تاریخ دان، ماہرِ لسانیات اور مستشرق، ژاں فرانسواں شمپولیوںJean-François Champollion1790-1832 اور برطانوی مستشرق تھامس ینگ Thomas Young 1773–1829کے سر ہے۔اول الذکر کا کمال یہ ہے کہ اس میں بچپن ہی سے غیر ملکی زبانیں سیکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا اور بیس سال کی عمر تک لاطینی،یونانی،عبرانی، حبشہ کی قدیم عبرانی شاخ کی احماری، سنسکرت،آویستانی(ایک قسم کی قدیم ایرانی زبان)، پہلوی، عربی، سامی،فارسی اور قدیم مصر کی قبطی زبانوں پر دسترس حاصل کر چکا تھا۔ثانی الذکر، ایک کثیر العلوم شخص ہونے کے ساتھ ساتھ،یونانی، لاطینی،فرانسیسی،عبرانی، عربی، جرمن،قدیم بابل کی کلدانی،قدیم شام کی سیریائی، فارسی اور ترکی زبانوں پر قدرت کا حامل تھا۔

    [​IMG]
    فرانسیسی مستشرق نے قدیم مصری رسم الخط کو پڑھنے میں کامیابی حاصل کی تصویر میں یونانی بادشاہ بطلیموس کے نام کی ترتیب دکھائی گئی ہے،بطلیموس نے خود کو مصر کا فرعون ہونے کا حکم جاری کیا تھا
    [​IMG]
    بطلیموس اور ملکہ قلوپطرہ کا نام قدیم مصری اور یونانی رسم الخط میں
    [​IMG]
    مصری فرعون رعمسیس کا نام قدیم مصری رسم الخط میں

    پتھر کی یہ لوحِ منقوش مصر پر قبضے کی فرانس اور برطانیا کے مابین جنگ میں برطانیا کی فتح کے بعد لندن لے جائی گئی اور فروری 1802ء سے لندن کے عجائب گھر میں نمائش کے لیے مقیم ہے۔

    [​IMG]
    لندن کے عجائب گھر میں لوحِ منقوش روزیٹا کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا ہجوم

    لوحِ منقوش ، روزیٹا سٹون کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے فراعنہ مصر کے مقابر اور اس زمانے کی آثار قدیمہ پر کندہ تحاریر کو پڑھنے میں مدد ملی جو برسوں سے دنیا کے لوگوں کے لیے ایک اسرار و معمہ بنی ہوئی تھیں۔خلائی جہاز روزیٹا کو نام اس مناسبت سے دیا گیا ہے کہ روزیٹا خلائی تحقیق و تسخیر کے ساتھ ساتھ اجرام ہائے فلکی اور دُم دار تاروں سے متعلق صدیوں سے پائے جانے والے انسانی تجسس کے اسرار کھولنے میں رہنمائی کرے گی۔

    فی لے خلائی تجرباتی گاڑیPhilae Lander کے نام کی غرض و غایت:
    عربی زبان میں فيله‎کے نام سے موسوم مصر میں دریائے نیل کے کنارے واقع ایک جزیرے کا نام ہے۔اس جزیرے پر یونانی دیوتاؤں کے نام سے منسوب ایک عبادت گاہ کے قریب ، امتدادِ زمانہ کے باعث زمین میں مدفون چھ اعشاریہ سات میٹر بلند اور چھ ٹن وزنی چہار کونہ مخروطی پتھر سے تراشیدہ ایک ستون جسے انگریزی میں Philae Obelisk کہتے ہیں، ایک برطانوی تسلط کار ولیم جان بینکسWilliam John Bankesنے 1815ء میں دریافت کیا تھا۔ پتھر سے تراشیدہ اس مخروطی ستون کی تاریخ 118/117 سال قبل مسیح باور کی جاتی ہے جس پر ماضی اور حال کے بادشاہوں اور دیوتاؤں کے نام درج ہونے کے ساتھ ساتھ بطلیموس ہفتم اور ملکہ قلو پطرہ دوم کا نام اور ان کی تعریف قدیم یونانی اور مصر کے تصویری رسم الخط میں کندہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فی لے کے قدیم معبد کی دیوار پر کندہ بطلیموس پنجم کے بارے میں سپاسنامہ، لوحِ منقوش روزیٹا پر کندہ عبارت کی تکمیل کا باعث بنا۔
    [​IMG]
    بینکس خاندان کی رہائش گاہ کے سبزہ زار میں نصب،مصر سے برطانیا اٹھا لائے گئے پتھر کا مخروطی ستون
    چہار کونہ پتھر سے تراشیدہ مخروطی ستون بھی روزیٹا لوحِ منقوش کی طرح جو تصویری مصری رسم الخط کے اسرار کی گتھی کھولنے میں معاون ہوا تھا، کی بنا پر بھی فے لے نامی خلائی تجرباتی گاڑی کا نام رکھا گیا ہے۔ خلائی تجرباتی گاڑی کا نام تجویز کرنے میں ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک پندرہ سالہ اطالوی لڑکی سیرینا اولگا وسماراSerena Olga Wismara، جو مطالعے اور انٹرنیٹ پر معلومات حاصل کرنے کی شوقین ہے، نے تجرباتی گاڑی کا نام تجویز کرنے کے عالمی مقابلے منعقدہ فروری 2004ء میں اس کانام فی لے تجویز کر کے مقابلہ جیت لیا۔انعام کے طور پندرہ سالہ کم عمر اطالوی لڑکی سیرینا کو ،اپنے والد کی معیت میں،فرنچ گیانا کے کورو خلائی اڈے پر فی لے کو ہر لحظہ نگران و معاون روزیٹا کی محتاط و محافظ آغوش میں دے کر، ایک دہائی اور دو برس کے عرصہ پر محیط ،طویل ،مشکل آز ما ،اور پُر خطر خلائی سفر پر، راکٹ کے ذریعے دُم دار تارے کی جانب خلائی سفر کے لیے روانہ کرنے کی تقریبِ رُخصت میں مدعو کیا گیا تھا۔

    فی لے کی اہمیت یہ ہے کہ یہ خلائی تجرباتی گاڑی تاریخِ انسانی کی پہلی مشینی کَل ہو گی جو کسی دُمدار تارے پر اُتر کر، اِ س کی سر زمین پراپنے پنجے ،مضبوطی سے گاڑ کر ، اِس کی پُشت( سطح ) پر سوار ہو کر دُمدار تارے کی ہیئتِ ترکیبی سے کُرۂ ارض کے باسیوں کو مطلع کرے گی اور ممکنہ طور پر وہ مناظر دکھائے گی کہ ایک دُمدار تارے پر قُربتِ شمسی کے دوران کیا گُزرتی ہے۔


    فی لے کی دُمدار تارے کے سطح پر اترنے سے متعلق ایک دلچسپ اینی میشن
    روزیٹا اور فی لے کا خلائی سفر:
    روزیٹا کو اپنے ہدف تک پہنچانے کے لیے اجرام فلکی یعنی ہمارے اپنے نظامِ شمسی کے سیاروں کی کشش ثقل کی مدد سے اس کی رفتار کو بڑھا یا گیا تھا۔اجرام فلکی یعنی سیاروں کی کششِ ثقل کی مدد سے خلائی جہازوں کی رفتار بڑھانے کے عمل کو انگریزی میں Gravity Assistکہا جاتا ہےاور یہ ایک نہایت اہم اور مفید عمل ہے کیوں اس طرح فضا میں لے جانے والے راکٹ اورخلائی جہاز کوایندھن کا غیر ضروری وزن اٹھانے سے بچایا جاتا ہے۔ایندھن کا وزن ، زمین کی کششِ ثقل کی قوت سے آزاد ہو کر جسے Escape Velocity کہتے ہیں خلاء میں پہنچنے کے لیے راکٹ کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ایک بار خلاء میں پہنچ جانے کے بعد خلاء میں قوتِ ثقل کی کمزوری اور ہوائی مزاحمت غیر موجود ہونے کے باعث انتہائی کم قوت کے استعمال سے بہ آسانی رفتار کو بڑھایا اور قائم رکھا جا سکتا ہے۔

    روزیٹا کی رفتار بڑھانے کے لیے سب سے پہلے تو ہمارے کرۂ ارض یعنی زمین کی کششِ ثقل کو استعمال کیا گیا۔اور ایک سال بعد 4مارچ 2005ء کو زمین کی کششِ ثقل روزیٹا کی رفتار بڑھانے کے لیے پہلی بار ستعمال کی گئی۔ اور پھر دو سال بعد 25 فروری 2007ء کو سیارہ مریخ کی کششِ ثقل استعمال کرتے ہوئے روزیٹا کی رفتار کو کم اور مدارکا زاویہ تبدیل کر لیا گیا۔اسی سال تیسری مرتبہ لیکن زمین کی کششِ ثقل کو دوسری بار استعمال کرتے ہوئے 13نومبر2007 ء کو روزیٹا کی رفتار کو مزید بڑھا لیا گیا۔روزیٹا نےسٹائنزSteinsنامی سیارچے کے قریب 497 میل کے فاصلے پر19262.5میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرتے ہوئے 5 ستمبر 2008ءکو اس سٹائنز نامی سیارچے کی تصاویر لیں جو ایک روز بعد 6 ستمبر کو زمین پر پہنچیں۔ماہرین فلکیات کے مطابق زمین سے دور بین کی مدد سے دیکھنے پرسٹائنز سیارچہ ایک تراشیدہ ہیرے کی شکل کا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے علمی ماہرین فلکیات اس کوپیار سےA Diamond in the Sky بھی کہتے ہیں۔


    روزیٹا کی رفتار کو اب نہ صرف قائم رکھنے بلکہ اس کو بتدریج بڑھانے کے لیے زمین کی کششِ ثقل کو تیسری مرتبہ 13نومبر2009ء کو استعمال کیا گیا۔روزیٹالیوٹیشیاLutetiaنامی سارچے کے قریب 10جولائی 2009ء1969میل کے فاصلے سے33 554 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گزرا اور اس کی تصاویر کے علاوہ دیگر معلومات حاصل کیں۔

    روزیٹا کو خلائے بعید کے سفر کے دوران اگلے مراحل کو کامیابی سے طے کرنے کے لیے 8 جون 2011ء کو عالمِ اشتا ء Hibernation میں ڈال کر گہری نیند سلا دیا گیا۔اس عمل میں خلائی جہاز اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے اور زمین سے رابطہ اور پیغام رسانی کے آلات صرف متعینہ اوقات پر جاگ کرہی استعمال کرتا ہے جب کہ دیگر آلات کو بند کر دیا جاتا ہےتاکہ خلائی جہاز کا ایندھن اور برقی توانائی کا ذخیرہ خرچ ہونے سے بچایا جا سکے۔تین سالہ خلائی خوابِ خرگوش ، یعنی گہری خلائی نیند سے روزیٹا کو اس سال 20جنوری2014ء کو بیدار کر دیا گیا تاکہ روزیٹا کو تاریخ ساز خلائی امور سر انجام دینے کے لیے تیار کیا جا سکے۔


    اس مرحلے پر اپنی خلائی سفر کی مہم کے سب سے پیچیدہ ترین اور مشکل مرحلے کو کامیابی سے طے کر نے کے لیے روزیٹا کو اپنی منزلِ مقصود یعنی دُم دار تارے پی سکسٹی سیون چیو ریوموف جیرازی مینکو 67P/Churyumov–Gerasimenkoکے انتہائی قریب بڑی احتیاط سے پہنچنا شامل تھا۔روزیٹا کو دُمدار تارے کے انتہائی قریب لیکن محتاط فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپنی رفتار کو دُمدار تارے کی رفتار کے عین برابر لانا تھا اور اس عمل کے حصول کے لیے روزیٹا کو اپنے راکٹ انجن اپنی سمتِ پرواز کے مخالف کئی گھنٹوں تک چلانا پڑے تاکہ روزیٹا کی رفتار 25میٹر فی سیکنڈ کے حساب سے گھٹاتے ہوئےروزیٹا اور دُمدار تارے کی رفتار کو یکساں بنایا جا سکے۔اور اس عمل کو Breakingیعنی بریک لگانے کا استعمال کہا جاتا ہے۔ روزیٹا نے دُمدار تارے کے قریب پہنچنے کا عمل اس سال مئی2014ءکے مہینے سے لےکر اگست کے مہینے تک مکمل کر لیا اور یہ احتیاط برتی گئ کہ دُمدار تارے سے خارج ہونے والے گرد و غبار کے ذرات کسی بھی طرح روزیٹا کے جسم اور اس کے آلات پر نہ پڑیں۔روزیٹا کے دُمدار تارے کی قربت اور اس کے ساتھ یکساں رفتار کے ساتھ اس کے مسلسل تعاقب کی صلاحیت حاصل کر لینے کے بعد روزیٹا نے اپنے کیمروں اور دیگر سائنسی آلات کی مدد سے دُمدارے کی قریب سے تصاویر لیں سطح کی ارض پیمائی اور دیگر مشاہدات کیے۔

    اس سال 6اگست کے مہینے میں روزیٹا اپنی منزل کے انتہائی قریبی مقام پر پہنچ گئی ہے اوراس مرحلے میں روزیٹا کو دُمدار تارے کی سطح پر ایک ایسا مناسب مقام ڈھونڈنا ہے جہاں روزیٹا اپنی گود میں سوار خلائی تجربات کی گاڑی فی لے Philae Lander کو بحفاظت اتار سکے تاکہ دُمدار تارے کی سطح پر اترکے، دُم دارے کی ارضیاتی ساخت، اجزائے ترکیبی میں موجود کیمیائی عناصر کا تجزیہ کر کے یہ معلومات روزیٹا کی وساطت اہلِ زمین کو بھیج دے۔ان مقاصد کے حصول کے لیے روزیٹا اپنا کام نہایت تندہی اور کامیابی سے سر انجام دے رہی ہے۔اس ضمن میں روزیٹا دُمدار تارے کی سطحِ زمین کا بخوبی جائزہ لینے میں مصروف ہے اور ان مقامات کی تصاویر لینے میں اور ان تصاویر کو کُرہ ارض پر مسلسل بھیجنے میں مصروف ہے فی لے کو اس سال نومبر میں دُمدار تارے پر اتارا جائے گا۔اس وقت روزیٹا دُم دار تارے پی سکسٹی سیون چیو ریوموف جیرازی مینکو 67P/Churyumov–Gerasimenko کی سطح کی پانچ سے چھ بہترین تصاویر ان کی مقامات کی بھیج چکی ہے جو فی لے کے دُمدار تارے کی سطح پر اترنے کے لیے موزوں ہو سکتے ہیں۔فی لے کے دُمدار تارے کی سطح پر اترنے کے مقام کا فیصلہ برطانیا کے وقت کے مطابق کل سہ پہر 2 ستمبر کو تین سے چار بجے کے درمیان کیا جائے گا۔ اس کی براہِ راست نشریات ذیلی ربط پر دیکھی جا سکیں گی جس کا ایک عالم، شدت سے منتظر ہے۔
    ESAHangout: Where will Philae land


    اس مضمون کی تیاری میں یورپی خلائی تحقیق کے ادارے ایسا،ڈی ایل آر جرمنی اور ناساسے مدد لی گئی ہے۔
    روزیٹا سٹون سے متعلق تفاصیل یو ایس آر کائیو اور متعلقہ تصاویر انٹرنیٹ سے لی گئی ہیں۔
    یہ مضمون میرے اصل مضمون کی تلخیص ہے۔وقت ملنے پر مزید مواد شامل کیا جائے گا۔
    اگلے ماہ نومبر میں فی لے کی دُم دار تارے پی سکسٹی سیون چیو ریوموف جیرازی مینکو 67P/Churyumov–Gerasimenkoکی سطح پر اُتران اور دریں اثنا کسی بھی دلچسپ یا غیر متوقع صورتحال سے گاہے بگاہے آگاہ کیا جاتا رہے گا۔

    دریں اثنااینڈریو پورٹر کی چند شریر اور دلچسپ مزاحیہ نظموں کا مطالعہ فرمائیں۔Fallacies of Logic ضرور دیکھیں۔
    اینڈریو پورٹر کا صفحہ http://www.inkpotamus.com/content/home
    درج ذیل نظم بھی پسند آئی





     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    خلائی جہاز روزیٹا Rosetta اور خلائی تجربہ گاہ گاڑی فی لے Philae Landerکے دُمدار تارے پی سکسٹی سیون چیو ریوموف جیرازی مینکو67P/Churyumov–Gerasimenkoپر اترنے کے عمل کی براہ راست تفصیل اور مناظر درج ذیل ربط پر ملاحظہ فرمائیں:

    http://new.livestream.com/ESA/cometlanding

    دُمدار تارے پی سکسٹی سیون چیو ریوموف جیرازی مینکو67P/Churyumov–Gerasimenkoپر اتارے جانے کا عمل ، جسے ’’علیحدگی Separation کہتے ہیں گزشتہ رات بروز منگل 11نومبر 2014ء شام سات بجے شروع کیا گیا تھا۔ اس علیحدگی کے عمل میں فے لے کو روزیٹا سے علیحدہ کرکے دُمدار تارے کی سطح پر اتارا جانا مقصود ہے۔ علیحدگی سے پہلے روزیٹا نے فے لے کوگزشتہ دس سال سے اپنی گود میں اٹھا رکھا ہے اور اس وقت زمین سے 5 ملین میل کے فاصلے پر ہے۔

    فے اور روزیٹا کے درمیان علیحدگی کا عمل چند فنی خرابیوں اور مشکلات کے بعد آج صبح 9 بج کر چار منٹ GMT پر کامیابی سے واقع ہو چکا ہے۔ دمدار تارہ پی سکسٹی سیون چیو ریوموف جیرازی مینکو67P/Churyumov–Gerasimenko پانچ بلین سال پرانا ہے جو ہمارے نظام شمسی کی پیدائش کے عمل کے دوران وجود میں آیا تھا۔ مزید تفصیلات اور تصاویر بعد میں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  3. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں