مکتب فقہ

زبیراحمد نے 'تاریخ اسلام / اسلامی واقعات' میں ‏ستمبر 10, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    اسلامی اور عربی علوم فنون کا سنہرا دور عباسی دوررہا ہے تفسیر قرآن کے فن کواسی عہد میں کمال حاصل ہوااور تفسیر طبری جیسی عظیم الشانتفسیر وجود میں آئی، جو آج تک کتب تفسیر کا نہایت اہم مرجع ہے، اسی عہد میں باضابطہ عربی زبان کے قواعد مرتب ہوئے ، اسی دور میں یونانی علوم، منطق وفلسفہ وغیرہ عربی زبان میں منتقل کیا گیااور اس کو بنیاد بنا کر مسلمان محققین نے بڑے بڑے سائنسی کار نامے انجام دیے اور علم وتحقیق کی دنیا میں اپنی فتح مندی کے علم نصب کئے ،فقہ اور فقہ سے متعلق علوم کیلئے تو یہ دور نہایت ہی اہم ہے؛ کیونکہ حدود سلطنت میں بہت پھیلاؤ ہو گیا تھا، مختلف قوموں ، مختلف تہذیبوں ،مختلف لسانی گروہ اور مختلف صلاحیتوں کے لوگ عالم اسلام کے سایہ میں آچکے تھے اوران میں بڑی تعداد نو مسلموں کی تھی ، اس لئے لوگوں کی طرف سے سوالات کی کثرت تھی اور اس نسبت سے فقہی اجتہادات کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔

    اسی عہد میں بڑے بلند پایہ ، عالی ہمت اور اپنی ذہانت و فطانت کے اعتبار سے محیر العقول علماء وفقہاء پیدا ہوئے ، کیوں کہ اس عہد کی ضرورت کے لحاظ سے اسی درجہ کے اہل علم کی ضرورت تھی، پھر ان میں سے بعض بلند پایہ فقہاء نے مستقل دبستان فقہ کی بنیاد رکھی اور ان سے علمی و عملی تاثر کی وجہ سے اہل علم کی ایک معتدبہ تعداد ان کے ساتھ ہوگئی اور اس نے ان کے علوم کی اشاعت و تدوین اور تائید و تقویت کے ذریعہ مستقل فقہی مکاتب کو وجود بخشا ان شخصیتوں میں سب سے ممتاز شخصیتیں ائمہ اربعہ کی ہیں یہ وہ خوش قسمت مجتہدین ہیں جن کی فقہ کو منجانب اللہ بقاء حاصل ہوا اور آج تک عملی طور پر قائم اور نافذ ہے ان مکاتب فقہ میں ہردور میں ماہرفقہاء کا وجودتسلسل کے ساتھ رہا ہے ، ہر عہد میں اس کے تقاضوں کے مطابق علم و تحقیق کا کام انجام پاتا رہا ہے اور ان کی مثال ایک سایہ دار اور سدا بہار درخت کی سی ہوگئی ہے جس کی جڑیں گہری ہوں اور شاخیں خوب پھیلی ہوئی ہوں "اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ" (ابراہیم:۲۴) اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ اربعہ کی فقہ کا مختصر تعارف کیا جائے ، چنانچہ ذیل میں اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جارہا ہے۔
    فقہ مالکی

    یہ فقہ امام مالک بن انس رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے ، امام مالک رحمہ اللہ اپنے زمانہ کی بڑی قد آور علمی شخصیت تھی ، آپ ۹۳ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور وہیں ۱۷۹ھ میں وفات پائی اور سوائے حج کے مدینہ سے باہر نہیں گئے ، بہت سے محدثین سے آپ نے کسب فیض کیا ، لیکن حدیث میں سب سے زیادہ ابن شہاب زھری اور فقہ میں ربیعۃ الرای سے متاثر تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لوگ جستجو ئے علم میں اسفار کریں گے اور مدینہ کے عالم سے بڑھ کر کوئی عالم نہ پائیں گے (ترمذی، باب ماجاء فی عالم المدینۃ، حدیث نمبر:۲۶۰۴) سفیان بن عیینہ کا بیان ہے کہ امام مالک ہی اس بشارت نبوی کے مصداق ہیں (حوالہ سابق) اور ابن مہدی جیسے محدث کا بیان ہے کہ میں نے امام مالک سے بڑھ کر ذہین و فہیم شخص سے حدیث نہیں سنی (سیر اعلام النبلاء،۸/۷۶) مالکیہ کے علاوہ فقہ کے دوسرے دبستان بھی امام مالک کے خوشہ چینوں میں ہیں ، امام شافعی رحمہ اللہ آپ کے شاگرد خاص ہیں ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے تلمیذ خاص قاضی ابو یوسف اور امام محمد رحمہ اللہ نے بھی ان سے کسب فیض کیا ہے ، امام احمد رحمہ اللہ نے امام شافعی کے واسطہ سے امام مالک کے علوم سے استفادہ کیا ہے۔

    فقہ مالکی کے مصادر

    حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے ان خاص مصادر کی جستجو کی ہے جن کوخاص طور پر امام مالک رحمہ اللہ پیش نظر رکھا کرتے تھے، فقہ مالکی میں قرآن کو تو اول درجہ حاصل ہے ہی ، اس کے علاوہ شاہ صاحب رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ فقہ مالکی میں اول درجہ متصل یامرسل حدیث کو حاصل ہے ، اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ جات ، پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے فتاوی، اس کے بعد دوسرے مدنی صحابہ کے فتاوی کا درجہ ہے ، اس کے بعد مدینہ کے مشہور اصحاب افتاء جن کو فقہاء سبعہ کہا جاتا ہے اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے فتاوی کو اہمیت حاصل ہے۔
    ( المسوی: ۲۶)

    فقہ مالکی کے مدونین

    فقہ مالکی میں احکام کا بڑا حصہ خود صاحب مذہب سے صراحتاً منقول ہے،ان کی علمی یاد گار موطا ہے ، جو ۱۷۲۰ روایات پر مشتمل ہے فقہ میں امام مالک کے آراء واقوال کا یہ مجموعہ بہت اہم ہے ، اس کے علاوہ جن شخصیات نے اس عمل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ان میں سب سے پہلی قابل ذکر شخصیت عبداللہ بن وھب (متوفی: ۱۹۷ھ) کی ہے ، جو بیس سال تک امام مالک کی رفاقت میں رہے ، امام مالک رحمہ اللہ کے فتاوی کی نقل و روایت میں آپ کا خاص مقام ہے ، آپ ہی کے ذریعہ مصر اور مغرب کے علاقہ میں فقہ مالکی کی اشاعت ہوئی ، دوسری شخصیت عبدالرحمن بن قاسم مصری (متوفی: ۱۹۲ھ) کی ہے ، آپ بھی تقریباً بیس سال تک امام مالک رحمہ اللہ سے کسب فیض کیا ، فقہ مالکی کی ترتیب میں ان کو وہی مقام حاصل ہے جو امام محمد رحمہ اللہ کو فقہ حنفی کی تر تیب میں حاصل ہے (الانتقاء :۵۰) آپ ہی کے افادات و مرویات "المدونہ" میں جمع ہیں ، تیسری شخصیت اشھب بن عبد العزیز قیسی(متوفی: ۲۲۴ھ) کی ہے، موطا کے راوی اور اندلس میں فقہ مالکی کی نشر واشاعت کی خدمت کرنے والے ابو الحسن قرطبی (متوفی:۱۹۳ھ) اور اسد بن فرات کے ممتاز شاگردوں میں ہیں ، المدونہ کی ترتیب کے محرک و مؤسس آپ ہی ہیں ، امام مالک رحمہ اللہ کے اہم تلامذہ میں عبدالملک بن ماجشون کا شمار بھی ہے اور امام مالک کے بعض فتاوی ان ہی کے ذریعہ منقول ہیں ، فقہ مالکی کی تدوین میں سب سے نمایاں کام عبدالسلام سعید سحنون نے کیا ہے ، جن کو امام مالک سے شرف تلمذ حاصل نہیں لیکن امام مالک رحمہ اللہ کے تین بلند پایہ شاگردوں ابن وھب ، ابن قاسم اورا شہب سے شرف تلمذ حاصل ہے اور فقہ مالکی کی مشہور کتاب"المدونہ" کی موجودہ صورت کے مرتب یہی سحنون ہیں ،سحنون کے شاگرد نے "العتیب" مرتب کی ، جن کا نام محمد بن احمد العتبی ہے اور ابن ماجشون کے شاگرد عبدالملک بن حبیب نے الواضحہ مرتب کی ہے ، اس طرح آٹھ شخصیتوں کو فقہ مالکی کی تدوین ، ترتیب اور نقل و روایت میں خاص اہمیت حاصل ہے۔
    (مالک لابی زھرہ:۱۹۹)

    فقہ مالکی کی بنیادی کتابیں

    فقہ مالکی میں چار کتابوں کو خاص مراجع کی حیثیت حاصل ہے

    (۱)المدونہ

    (۲)العتیبہ

    (۳)الواضحہ

    (۴)الموازیہ۔

    مدونہ

    مدونہ کا نام مختلط بھی بتایا جاتا ہے، اس لیے کہ اس میں امام مالک رحمہ اللہ کے اقوال کے ساتھ آپ رحمہ اللہ کے دوسرے اصحاب کے اقوال بھی ملادیے گئے ہیں ، اسد بن فرات نے پہلے اسد یہ نام سے اس کو مرتب کیا تھا، جس میں امام مالک کے قابل احترام شاگر د عبدالرحمن بن قاسم کے جوابات درج ہیں ، البتہ جن مسائل میں امام مالک کی رائے ان کو یقینی طور پر یاد نہ ہوتی تو ان میں "اخال و اظن" کہہ کر ان کی رائے کو نقل کرتے اور بعض مسائل میں خود اجتہاد کرتے ، یہ جوابات چونکہ اسد بن فرات نے معلوم کر کے درج کیا تھا اس لئے ان کی طرف منسوب ہو کر اسد یہ کہلا یا ، علامہ سحنون نے مصر میں کسی طرح اسد بن فرات کا تیار کردہ ایک نسخہ حاصل کرلیا اور اصل نسخہ اسد بن فرات اپنے ساتھ لے کر "قیروان" چلے گئے، علامہ سحنون رحمہ اللہ نے اس نسخہ کے ساتھ عبدالرحمن بن قاسم سے رجوع کیا اور جو مسائل ان میں ظن و خیال پر لکھے گئے تھے ان کے بارے میں یا تو یقینی طور پر تحقیق کرلینا چاہا ، یا پھر انہیں حذف کردینا چاہا، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا،کام کی تکمیل کے بعد عبدالرحمن بن قاسم نے اسد بن فرات کوخط لکھا کہ میں کتاب کا یہ نیا نسخہ روانہ کر رہا ہوں یہ سحنون کا تیار کردہ ہے ، اس نسخہ سے آپ اپنے نسخہ کا تقابل کرلیں کیونکہ بہت سے مسائل سے میں نے رجوع کرلیا ہے یہ خط جب اسد بن فرات کو پہونچا تو قریب تھا کہ وہ اس کو قبول کرلیتے ، لیکن شاگردوں نے یقین دلایا کہ اس سے آپ کی کسر شان ہوگی ، چنانچہ انہوں نے ماننے سے انکار کردیا، ابن قاسم نے اس صورتحال سے لوگوں کو آگاہ کردیا ، جس کی وجہ سے اسدیہ کے بجائے سحنون کا نسخہ مدونہ کے نام سے رائج ہوا۔
    ( المدونۃ الکبری ۱/۶۴)

    العتیبہ

    محمد بن ابو بکر عتبی (متوفی : ۲۵۲) کی تالیف ہے ، جس نے بقول ابن حزم اہل افریقہ میں خاص درجہ اعتبار پایا ۔

    الواضحہ فی السنن والفقہ

    عبدالملک بن حبیب (متوفی:۲۳۸) کی مرتبہ ہے، جس کو اندلس میں قبول عام حاصل ہوا۔

    موازیہ

    محمد ابراہم اسکندری معروف بابن موازی مصری (متوفی:۲۶۹) کی تالیف ہے ۔

    شیخ ابو زھرہ کا بیان ہے کہ مدونہ میں زیادہ توجہ امام مالک سے منقول فتاوی کی تصحیح و توثیق پر کی گئی ہے ، واضحہ میں ان قواعد کا استخراج کیا گیا ، جن پر جزئیات مبنی ہیں اور موازیہ میں جزئیات کو ان کے اصول پر منطبق کیا گیا ہے اور دلائل احکام سے بحث کی گئی ہے۔
    ( حیات امام مالک : ۲۰۸)

    فقہ مالکی کی بعض اہم کتابوں کے نام اور ان کے مصنفین:

    موطا امام مالک متوفی: ۱۷۹ھ

    التفریع ابو القاسم عبیداللہ جلاب متوفی: ۳۷۸ھ

    رسالہ ابن ابی زید قیروانی ابو محمداللہ زید قیروانی متوفی: ۳۸۹ھ

    کتاب التلقین قاضی ابو محمد عبدالوہاب بغدادی متوفی:۴۲۲ھ

    فتاوی ابن رشد ابو الولیدمحمد بن رشد قرطبی متوفی ۵۲۰ھ

    الجواہر الثمینہ فی مذھب عالم المدینۃ ابو محمد عبداللہ شاس متوفی :۷۳۳ھ

    معین الحکام علی القضایا والا حکام ابو اسحاق ابراہیم متوفی :۷۳۳ھ

    المختصر شیخ خلیل بن اسحاق مالکی متوفی:۷۶۷ھ

    مواھب الجلیل شرح مختصر خلیل ابو عبداللہ محمد خطاب محمد مکی متوفی :۹۵۴ھ

    شرح الرزقانی علی مختصر خلیل عبدالباقی زرقانی متوفی :۱۰۹۹ھ

    خرشی علی مختصر خلیل محمد بن عبداللہ خرشی متوفی :۱۱۱۱ھ

    الشرح الکبیر علی مختصر خلیل احمد بن محمود دردیر متوفی ۱۲۰۱ھ

    حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر محمد بن احمد دسوقی متوفی:۱۲۳۰ھ

    المجموع الفقہی فی مذھب امام مالک محمد بن محمد امیر متوفی : ۱۲۳۳ھ

    طبقات فقہاء

    فقہاء مالکیہ کے یہاں مجتہد مطلق کے بعد مقلدین کے چار طبقات مقرر کئے گئے ہیں، مجتہدین منتسبین، مجتہدین مخرجین، فقہاء النفس اور مقلد اصحاب افتائ۔

    (۱) مجتہد منتسب

    وہ ہے جو مستقل طور پر ادلئہ شرعیہ کے ذریعہ مسائل و احکام کا استنباط کرے؛ البتہ اس استنباط واجتہادمیں وہ صاحب مذہب کے اصول وقواعد ہی کو مشعل راہ بنائے اور ان سے متجاوز نہ ہو، اس طبقہ میں اشھب ، ابن قاسم اور ابن وھب ہیں۔

    (۲)مجتہد مخرج

    وہ ہیں جو امام کے مذہب کو ثابت کرنے اور ان کے دلائل کو مستنبط کرنے کافریضہ انجام دیں اور امام کے اصول کے پابند رہ کر اجتہاد کریں، فرق یہ ہے کہ "مجتہد منتسب" صاحب مذہب کے اصول کا پابند رہتے ہوئے فروعی مسائل میں اپنے امام کی رائے سے اختلاف بھی کرتا ہے ، جبکہ مجتھد مخرج فروعی احکام میں بھی صاحب مذہب سے اختلاف نہیں کرتا۔

    (۳) فقیہ النفس

    وہ فقہاء ہیں جو اچھی طرح مذہب مالکی سے آگاہ ہوں، دلائل احکام سے واقف ہوں، البتہ استنباط نہ کرتے ہوں، ان کو فتوی دینے کا حق تو ہے ہی، بوقت ضرورت یہ احکام کی تخریج بھی کرتے ہیں؛ لیکن تخریج واستنباط میں ان کا درجہ مخرجین سے کم تر ہے اور علماء ان کو حق تخریج دینے پر متفق نہیں ہیں۔

    (۴)فقہاء کے یہی تینوں طبقات ہیں ،جن کو فقہ مالکی میں فتوی دینے کا حق ہے ، ان کے بعد عام مقلدین کا درجہ ہے ، جن کو فتوی دینے کا حق حاصل نہیں؛ چنانچہ کہا جا تا ہے کہ فتووں کے معاملہ میں مالکیہ کے یہاں بڑی شدت برتی جاتی ہے۔
    (حیات امام مالک:۲۷۲)

    فقہ مالکی کی مقبولیت

    ابتداءً فقہ مالکی کا اشاعت ابن وھب کے ذریعہ مصر اور مغرب کے علاقہ میں ہوئی؛ پھرابوالحسن قرطبی کے ذریعہ اندلس میں ہوئی؛ لیکن اس وقت فقہ مالکی زیادہ تر مراقش اور افریقی ممالک میں مروج ہے۔
    فقہ شافعی

    یہ فقہ محمد بن ادریس شافعی کی طرف منسوب ہے، آپ ۱۵۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۰۴ھ میں وفات پائی، ابتدائی نشو ونما مکہ مکرمہ میں ہوئی ، ابتداء فقہ مالکی کے متبع تھے، لیکن ۱۹۵ھ میں جب دوبارہ بغداد تشریف لے گئے تو ایک مستقل دبستان فقہ کی بنیاد رکھی۔
     
  2. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    امام شافعی رحمہ اللہ کے تین علمی دور

    اجتہاد وتفقہ کے لحاظ سے امام شافعی رحمہ اللہ پر تین دور گذرے ہیں اول بغداد میں قیام کرنے کے بعد مکہ کو واپسی اور نو سال تک یہاں قیام ، اس زمانہ میں آپ فقہ حجاز ی کے زبر دست مؤید اور فقہ عراقی کے ناقد نظر آتے ہیں ، پھر ۱۹۵ھ میں آپ دوبارہ بغداد تشریف لے گئے اور تین سال تک وہیں مقیم رہے اور اس درمیان بغداد میں آپ کا فیضان علم جاری رہا، اس قیام کے دوران بہت سے مسائل میں آپ رحمہ اللہ کو نظر ثانی کا موقع ملا، پھر ۱۹۹ھ میں آپ بغداد سے مصر تشریف لے گئے اور تقریبا چار سال وہاں مقیم رہے ، یہاں بھی آپ نے اپنی آراء اور اجتھادات پر ازسر نو نظر ثانی فر مائی اور بے شمار مسائل میں اپنی سابقہ رائے سے رجوع فرمالیا ،انہی تبدیل شدہ آراء کو امام شافعی رحمہ اللہ کا قول جد ید کہاجاتا ہے اور اس سے پہلے کے اقوال کو قول قدیم کہا جاتا ہے ۔

    فقہ شافعی کے مصادر

    خود امام شافعی رحمہ اللہ کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالترتیب سات ادلہ کو پیش نظر رکھتے تھے، کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اجماع امت، کتاب اللہ پر قیاس ، سنت پر قیاس، اجماع پر قیاس، مختلف فیہ احکام پر قیاس۔
    (الام: ا/۱۷۹)

    ان سات مآخذ کا حاصل وہی چار دلیلیں ہیں جو عام فقہاء نے ذکر کی ہیں ، کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اجماع اور قیاس؛ البتہ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کی ذہانت کی بات ہے کہ انہوں نے اس فن کے آغاز تدوین ہی میں اس تنقیح کے ساتھ احکام شرعیہ کے مآخذ اور ان کے درجات کا تعین کیا ہے، قیاسی احکام کی بھی درجہ بندی کی ہے اور قبول و اعتبار کے لحاظ سے ان کے درمیان ترتیب قائم کی ہے جن پر بنیادی اعتبار سے آج تک کوئی اضافہ نہیں ہوسکا ہے ۔

    فقہ شافعی کے ناقلین

    فقہ شافعی کی خوش قسمتی ہے کہ امام شافعی کے اصول استنباط اور مجتھدات دونوں خود صاحب مذھب کے قلم سے موجود ہیں ، یہی وجہ ہے کہ فقہ شافعی دو واسطوں سے نقل ہوئی ہے ، ایک ذریعہ تو خود صاحب مذہب کی کتابوں کا ہے اور دوسرا امام شافعی رحمہ اللہ کے تلامذہ کا ، واقعہ یہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ اس اعتبار سے بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ کو بڑے ذہین اور نامور شاگرد ملے ، جو مختلف علاقوں اور علمی مراکز سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی اپنی جگہ ان کو مرجعیت حاصل تھی، مکہ مکرمہ کے تلامذہ میں ابو بکر حمیدی (متوفی:۲۱۹ھ) اور ابواسحاق ابراہیم (متوفی: ۲۳۷ھ) بغداد کے مستفیدین میں ابوعلی زعفرانی (متوفی: ۲۶۰ھ) ابوعلی حسین کرابیسی (متوفی:۲۵۶ھ) ابوثورکلبی (متوفی:۲۵۶ھ) امام احمدبن حنبل (متوفی:۲۴۱ھ) اور اسحاق بن راھویہ (متوفی:۲۳۸ھ) خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔

    مصر جہاں آپ کا آفتاب علم سب سے آخر میں چمکا اور اوج کمال کو پہونچا وہاں بھی بہت سے اہل علم نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیا، ان میں حرملہ بن یحییٰ (متوفی:۲۶۶ھ) امام صاحب کے شاگرد خاص امام ابویعقوب بویطی (متوفی:۲۳۱ھ) ابوابراہیم مزنی (متوفی:۲۶۴ھ) ربیع بن سلیمان مرادی (متوفی: ۲۷۰ھ) وغیرہ نے آپ سے کسب فیض کیا؛ انہی ممتاز تلامذہ کے ذریعہ امام شافعیؒ کی فقہ کو تائید و تقویت ملی۔

    فقہ شافعی کی اہم کتابیں

    فقہ شافعی کی اہم کتابیں درج ذیل ہیں:

    الأم محمد بن ادریس شافعی متوفی:۲۰۴ھ

    مختصر مزنی اسماعیل بن یحییٰ مزنی متوفی:۲۶۴ھ

    المھذب علامہ ابراہیم شیرازی متوفی: ۴۷۶ھ

    التبنیہ فی فروع الشافعیہ علامہ ابراہیم شیرازی متوفی: ۴۷۶ھ

    نہایۃ الطالب ودرایۃ المھذب امام المحرمین عبدالملک جوینی متوفی: ۴۷۸ھ

    الو سیط نی فروع المذھب امام محمد غزالی متوفی:۵۰۵ھ

    الوجیز امام محمد غزالی متوفی :۵۰۵ھ

    المحرر علامہ عبدالکریم رافعی متوفی:۶۲۳ھ

    فتح العزیز فی شرح الو جیز علامہ عبدالکریم رافعی متوفی: ۶۲۳ھ

    روضۃ الطاللبین امام ابو زکریا محی الدین نووی متوفی: ۶۷۶ھ

    منہاج الطالبین امام ابو زکریا محی الدین نووی متوفی: ۶۷۶ھ

    التحقیق امام ابو زکریا محی الدین نووی متوفی: ۶۷۶ھ

    المجموع شرح المھذب امام ابو زکریا محی الدین نووی متوفی: ۶۷۶ھ

    تحفۃ المحتاج شرح المنھاج احمد بن محمد بن حجر ہیثمی متوفی: ۹۷۴ھ

    مغنی المحتاج شمس الدین محمد شر بینی خطیب متوفی:۹۷۷ھ

    نہایۃ المحتاج شمس الدین جمال محمد بن احمد رملی متوفی: ۱۰۰۴ھ

    متاخرین شوافع کے یہاں "مغنی المحتاج" اور "نہایۃ" المحتاج کو فقہ شافعی کی سب سے مستند ترجمان کی حیثیت سے قبول عام حاصل ہے۔

    فقہ شافعی کے چند خاص اصطلاحات

    فقہ شافعی میں مختلف آراء واقوال کو نقل کرتے ہوئے تین قسم کی تعبیرات استعمال کی جاتی ہیں،

    (۱)اقوال

    (۲)اوجہ

    (۳)طرق۔

    امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف ایک ہی مسئلہ میں جو مختلف اقوال منسوب ہیں، ان کو "اقوال" کہا جاتا ہے، امام شافعی رحمہ اللہ کے اصول وقواعد پر تخریج وتفریع کرتے ہوئے فقہاء شوافع جو رائے قائم کریں ان کو "اوجہ" کہا جاتا ہے اور مختلف راوی امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب ورائے کی نقل میں باہم مختلف ہوں تو ان کو "طرق" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
    (مقدمہ المجموع: ۶۵،۶۶)

    فقہ شافعی میں مفتی بہ قول کون ہے ؟ قدیم یا جدید؟

    فقہ شافعی میں اصولاً امام شافعی کے قول جدید پر فتوی دیا جاتا ہے ، لیکن بعض مسائل میں آپ کے قول قدیم ہی پر فتوی ہے، امام الحرمین نے ایسے چودہ مسائل شمار کئے ہیں ، بعضوں نے اس تعداد کو بیس تک پہونچایا ہے۔
    (مقدمہ المجموع:۶۶)
     
  3. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    فقہاء شوافع کے طبقات

    فقہ شافعی میں فقہاء کے پانچ طبقات کئے گئے ہیں:

    (۱)مجتہد مستقل

    (۲) مجتھد منتسب

    (۳) اصحاب وجوہ

    (۴) فقیہ النفس

    (۵) اصحاب افتاء

    مجتہد مستقل

    وہ ائمہ ہیں جو اجتھاد واستنباط میں اپنا مستقل نہج رکھتے ہوں، جیسے: ائمہ اربعہ۔

    مجتہد منتسب

    وہ حضرات ہیں جو رائے اور دلیل رائے ، فروع اور استنباط کے اصول ، کسی میں امام کے مقلدنہ ہوں البتہ ان کے اجتہاد واستنباط کا نہج کسی صاحب مذہب امام کے مطابق ہو، فقہاء شوافع میں مزنی ، ابو ثور ، ابو بکر بن منذروغیرہ کا شمار اسی طبقہ میں ہے۔

    اصحاب وجوہ

    ان فقہاء کو کہتے ہیں جو امام کے اصول کی روشنی میں اجتہاد کرتے ہوں، لیکن دلائل میں امام کے مقرر کئے ہوئے اصول و قواعد سے انحراف نہ کرتے ہوں۔

    فقیہ النفس

    وہ حضرات ہیں جن کو اپنے مذھب کے احکام معلوم ہوں اور ان کے دلائل سے بھی واقف ہوں اور اختلاف اقوال کی صورت میں ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

    اصحاب افتاء

    وہ لوگ ہیں جو مذہب کی جزئیات اور فتاوی سے واقف ہوں ، امام کے اقوال بھی ان کے سامنے ہوں اور منتسبین مذہب کی تخریجات بھی ، ان حضرات کو اجتہاد کا حق تو حاصل نہیں ہوتا ، البتہ اگر کوئی مسئلہ پیش آئے جس میں علماء مذہب کی رہنمائی موجود نہ ہو؛ البتہ علماء مذہب سے منقول کوئی ایسا جز ئیہ موجود ہو کہ ادنی تامل سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہو کہ وہی حکم اس پیش آمدہ مسئلہ پر بھی جاری ہونا چاہئے ،تو اس کے لئے اس کے مطابق فتوی دینے کی گنجائش ہے۔
    (مقدمہ المجموع: ۴۴)

    فقہ شافعی کی مقبولیت

    اس وقت مصر، انڈونیشیا، یمن، عراق اور ہندوپاک کے ساحلی علاقوں میں فقہ شافعی کے متبعین پائے جاتے ہیں، اہل سنت میں فقہ حنفی کے بعد سب سے زیادہ اسی فقہ کو قبول حاصل ہوا ہے۔
    فقہ حنفی

    یہ فقہ امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ہے ، آپ کا نام نعمان ، والد کا ثابت، دادا کا زوطی، فارس النسل تھے ، آپ کے دادا کو اللہ تعالی نے دولت ایمانی سے سرفراز فرمایا تھا، آپ کے والد کا بچپن تھا کہ ان کے والد انہیں لے کر حضرت علی رضی اللہ علیہ کی خدمت میں گئے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ خود ثابت اورثابت کی اولاد کیلئے برکت کی دعا فرمائی، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اسی دعا کا ظہور ہیں ، ابو حنیفہ آپ کی کنیت ہے ، جو آپ کی صاحبزادی کی نسبت سے ہے ، حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔
    "لَوْ كَانَ الدِّينُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَذَهَبَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ أَوْ قَالَ مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسَ حَتَّى يَتَنَاوَلَهُ"۔
    (مسلم، حدیث نمبر:۴۶۱۸)
    "گو دین ثریا پر ہوتا، تب بھی اسے فارس کا ایک شخص حاصل کر کے ہی رہتا ، یا فرمایا : فارس کے کچھ لوگ"۔

    بعض روایتوں میں دین کے بجائے ایمان کا لفظ آیا ہے (بخاری، حدیث نمبر: ۴۵۱۸) اور بعض روایتوں میں دین و ایمان کے بجائے علم کا لفظ ہے (سیر اعلام النبلاء:۱۰/۲۱۰) حافظ جلال الدین سیوطی شافعی رحمہ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشن گوئی کا مصداق امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو قرار دیا ہے (تبییض الصحیفہ:۳۔۴) آپ نے صحابہ کا زمانہ پایا ہے، محققین کے نزدیک یہ راجح ہے کہ آپ نے صحابہ سے روایت تو نہیں کی ہے لیکن ان کی ملاقات کا شرف آپ کو حاصل ہے اور تابعی ہونے کیلئے صحابی کو دیکھنا کافی ہے، روایت کرنا ضروری نہیں ہے؛ چنانچہ ابن ندیم نے بھی آپ کو تابعین میں شمار کیا ہے (الفہرست لابن ندیم: ۱/۲۵۵) ۸۰ ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۵۰ھ میں وفات پائی۔

    فقہ حنفی کی سند

    ابتدا آپ نے علم کلام کو حاصل کیا اور اس میں بڑی شہرت پائی ، پھر حدیث وفقہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس مقام پر پہونچے کہ بڑے بڑے محدثین و فقہاء آپ کے قدر شناس ہوئے ، امام جعفر صادق ، زید بن علی ، عبدللہ بن حسن، نفس ذکیہ ، عطاء بن ابی رباح، عکرمہ، نافع وغیرہ آپ کے اساتذہ میں ہیں ، لیکن آپ نے سب سے زیادہ جن کی فکر کا اثر قبول کیا وہ تھے حماد بن سلیمان ، جو عراق میں فقہ کا مرجع تھے، آپ نے ان سے اٹھارہ سال استفادہ کیا اور ان کی وفات (۱۱۹ھ) تک ان کا ساتھ نہ چھوڑا، حماد، ابراہیم نخعی کے اور نخعی، علقمہ بن قیس کے اور علقمہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد خاص تھے ، اس طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے طریقہ ء اجتہاد اور منہج استنباط کے وارث اور اس کے فکرکے ترجمان و نقیب ہوئے ، چنانچہ غور کریں تو فقہ حنفی ان کے فقہ وفتاوی یا ان کے ہی مختلف اقوال میں سے کسی کی ترجیح سے عبارت ہے ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال کا اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی آرا ء کا تقابل کیا جائے تو کم ہی مواقع ہوں گے جن میں فرق محسوس ہوگا، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ فقہ حنفی کی موجودہ صورت کی تخم حضرت ابن مسعود رضی اللہ ہی نے سرز مین کوفہ میں ڈالی تھی ، جس کی نسل بہ نسل علقمہ ، ابراھیم اور حماد نے آبیاری کی اور اپنے اجتھاد کے ذریعہ اس میں اضافہ کرتے رہے ، پھر اس سرمایہ کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے پورے تفحص و تنقیح کے بعد مرتب کرایا ،امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے پورے علاقۂ مشرق میں اس کو رواج دیااور امام محمدؒ ان دفینوں کو سینوں میں محفوظ کردیا، اگر یہ کہا جائے کہ یہ فقہ حنفی کا سلسلہ نسب ہے تو غلط نہ ہوگا، اسی کو لوگوں نے استعارہ کی زبان میں اسطرح کہا ہے اور خوب کہا ہے:
    "زَرَعَہٗ اِبْنُ مَسْعُوْدٍ وَحَصَدَہٗ اِبْرَاھِیْمُ وَدَاسَہٗ حَمَّادُوَ طَحْنَہٗ أَبُوْحَنِیْفَۃَ وَعَجَنَہٗ أَبُوْیُوْسُفَ وَخَبَزَ ہٗ مُحَمَّدٌ وَیَاْکُلُ مِنْھَا جَمِیْعُ النَّاسِ"۔
    (مناقب ابی حنیفہ:۱/۳۳)

    ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فقہ کی کاشت کی، علقمہ نے سیراب کیا، ابراہیم نے کاٹا ،حماد نے دانے الگ کئے ، ابو حنیفہ نے پیسا، ابویوسف نے گوندھا، محمد نے روٹی پکائی اور تمام لوگ اس روٹی سے کھارہے ہیں۔

    فقی حنفی کے مآخذ

    فقہ حنفی کا مآخذ کیا ہے، صاحب مذہب نے کن اصول کی بنیاد پر مسائل کا استنباط کیا ہے ؟ صاحب مذہب امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ نے اس کو خود ہی واضح فرمایا ہے وہ کہتے ہیں:
    "اگر قرآن میں مل جائے تو میں اس کا حکم لیتا ہوں، قرآن میں نہ ہو تو سنت رسول کو لیتا ہوں، اور کتاب و سنت میں کوئی حکم نہیں ملتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے جس کا قول چاہتا ہوں لیتا ہوں، لیکن ان کے قول سے کسی اور کے قول کی طرف نہیں جاتا اور جب بات ابراہیم، ابن سیرین ، عطاء اور سعید بن مسیب کی آتی ہے تو جیسے ان لوگوں نے اجتہاد کیا ہے میں بھی اجتہاد کرتا ہوں"۔
    (الانتقاء لابن عبدالبر:۱۴۳)

    علامہ شعرانی رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
    "إِنَّمَا اَعْمَلُ أَوَّلًابِکِتَابِ اللہِ ثُمَّ بِسُنَّۃِ رَسُوْلِ اللہِ ثُمَّ بِاَقْضِیَۃِ اَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِیٍ ثُمَّ بِأَقْضِیَۃِ بَقِیَّۃِ الصَّحَابَۃِ ثُمَّ اَقِیْسُ بَعْدَ ذَلِکَ إِذَا اخْتَلَفُوْا"۔
    (المیزان الکبری:۱/۲)

    میں اولاً کتاب اللہ پر؛ پھر سنت رسول پر؛ پھر خلفاء اربعہ کے فیصلہ جات پر؛ اس کے بعد دوسرے صحابہ کے فیصلوں پر عمل کرتا ہوں؛ اگر صحابہ میں اختلاف ہوتا ہے تو قیاس سے کام لیتا ہوں (اور انہیں میں سے کسی کا قول اختیار کرتا ہوں)

    امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا تفقہ سبھوں کو تسلیم ہے، امام شافعی رحمہ اللہ جیسے بلند پایہ محدث و فقیہ کہا کرتے تھے:
    " اَ لنَّاسُ فِی الْفِقْہِ عِیَالٌ عَلیٰ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ"۔
    (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶۸)
    "لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے محتاج ہیں"۔

    فقہ حنفی کی تدوین

    امام ابو حنیفہ رحمہ للہ نے دوسرے فقہاء کی طرح انفرادی طور پر اپنی آراء مرتب نہیں کی ، بلکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی طرح شورائی انداز اختیار کیا؛ چنانچہ علامہ موفق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    "فَوَضَعَ اَبُوْحَنِیْفَۃَ مَذَھَبَہٗ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ وَلَمْ یَسْتَبِدْ بَنَفْسِہٖ دُوْنَہٗ"۔
    (مناقب ابی حنیفۃ :۲/۱۳۳)

    امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنا مذہب شورائی رکھااور وہ شرکاء شوری کو چھوڑ کر تنہا اپنی رائے مسلط نہیں کرتے تھے۔

    اس کا نتیجہ تھا کہ بعض اوقات ایک مسئلہ پر ایک ماہ یا اس سے زیادہ بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری رہتا تھا؛ چنانچہ علامہ کردری رقم طراز ہیں:
    "فَکَانَ یَطْرَحُ مَسْئَلَۃً ثُمَّ یَسْأَلُ مَاعِنْدَھُمْ وَیَقُوْلُ مَاعِنْدَہٗ وَیُنَاظِرُھُمْ فِیْ کُلِّ مَسْئَلَۃٍ شَھْرًا أَوْأَکْثَرَ وَیَأْتِیْ بِالدَّلَائِلِ اَنْوَرُ مِنَ السِّرَاجِ الْأَزْھَرِ"۔
    (مناقب ابی حنیفہ للکردری:۱/۵۷)

    اما م صاحب ایک مسئلہ پیش کرتے اور اس پر ایک ماہ بلکہ اس سے بھی زیادہ تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری رہتا پھر جب روشن چراغ کی طرح دلائل واضح ہو جاتے تو لکھا جاتا۔

    اور اسد بن فرات کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عام مسائل پر بھی تین تین دنوں بحث اور غور و فکر کا سلسلہ جاری رہتا پھر اس کو بقید تحریر لایا جاتا (حسن التقاضی:۱۲) اور اس بحث و تمحیص میں کبھی کبھی آواز بھی کافی تیز ہو جاتی تھی۔
    (حوالہ سابق،۲/۳)

    اس مجلس میں جو مسائل مرتب ہوئے اور جو زیر بحث آئے ان کی تعداد کیا تھی؟ اس سلسلہ میں تذکرہ نگاروں کے مختلف بیانات ملتے ہیں ، مسانید امام ابو حنیفہ کے جامع علامہ خوار زمی نے تراسی ہزار کی تعدادلکھی ہے جس میں اڑ تیس ہزار کا تعلق عبادات سے تھا اور باقی کا معاملات سے (مناقب الامام الاعظم ملا علی قاری: ۴۷۳) بعض حضرات نے ۶/لاکھ اور بعضوں نے ۱۲/لاکھ سے بھی زیادہ بتائی ہے ، حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ اس تعداد میں ان مسائل کو بھی شامل کرلیا گیا ہے جو امام کے مقرر کئے ہوئے اصول و کلیات کی روشنی میں مستنبط کئے ہوئے ہیں،اگر تراسی ہزار ہی مانے جائیں تو یہ کیاکم ہے؟۔

    شرکاء مجلس تدوین

    کتابوں میں عام طور پر یہ ذکر ملتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مجلس تدوین فقہ میں اپنے عہد کے چالیس ممتاز علماء شامل تھے لیکن ان کے سنین وفات اور امام صاحب سے وابستگی کے زمانہ کو دیکھتے ہوئے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سارے حضرات شروع سے آخر تک اس کام میں شریک نہیں رہے؛ بلکہ مختلف ارکان نے مختلف ادوار میں کار تدوین میں ہاتھ بٹایا ان میں بعض وہ تھے جنہوں نے آخری زمانہ میں اس کام میں شرکت کی، عام طور پر شرکاء مجلس کا نام ایک جگہ نہیں ملتا ، مفتی عزیز الرحمن صاحب بجنوری اور ڈاکٹر محمد میاں صدیقی نے ان ناموں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے ، شرکاء مجلس کے نام اس طرح ہیں:

    امام ابو یوسف متوفی:۱۸۲ھ محمد بن حسن شیبانی متوفی: ۱۸۹ھ

    حسن بن زیاد متوفی:۲۰۴ھ زفر بن ھذیل متوفی:۱۵۸ھ

    مالک بن مغول متوفی: ۱۵۹ھ داؤد طائی متوفی:۱۶۰ھ

    مندل بن علی متوفی:۱۶۸ھ نصربن عبدالکریم متوفی: ۱۶۹ھ

    عمر بن میمون متوفی:۱۷۱ھ حبان بن علی متوفی: ۱۷۲ھ

    ابو عصمہ متوفی:۱۷۳ھ زہیر بن معاویہ متوفی:۱۷۳ھ

    قاسم بن معن متوفی:۱۷۵ھ حماد بن ابی حنیفہ متوفی: ۱۷۶ھ

    ہیاج بن بطام متوفی:۱۷۷ھ شریک بن عبداللہ متوفی: ۱۷۸ھ

    عافیہ بن یزید متوفی:۱۸۱ھ عبداللہ بن مبارک متوفی: ۱۸۱ھ

    نوح بن دارج متوفی:۱۸۲ھ ہشیم بن بشیر سلمی متوفی:۱۸۳ھ

    ابو سعید یحی بن زکریا متوفی:۱۸۴ھ فضیل بن عیاض متوفی: ۱۸۷ھ

    اسد بن عمرو متوفی:۱۸۸ھ علی بن مسہر متوفی:۱۸۹ھ

    یوسف بن خالد متوفی:۱۸۹ھ عبداللہ بن ادریس متوفی:۱۹۲ھ

    فضل بن موسی متوفی:۱۹۲ھ حفص بن غیاث متوفی:۱۹۴ھ

    وکیع بن جراح متوفی:۱۹۷ھ یحییٰ بن سعید قطان متوفی:۱۹۸ھ

    شعیب بن اسحاق متوفی:۱۹۸ھ ابو حفص بن عبدالرحمن متوفی:۱۹۹ھ

    ابو مطیع بلخی متوفی:۱۹۹ھ خالد بن سلیمان متوفی :۱۹۹ھ

    عبد الحمید متوفی:۲۰۳ھ ابو عاصم النبیل متوفی:۲۱۲ھ

    مکی بن ابراھیم متوفی:۲۱۵ھ حماد بن دلیل متوفی:۲۱۵ھ

    ہشام بن یوسف متوفی:۱۹۷ھ

    البتہ ان میں سے دوشاگردوں کے ذریعہ فقہ حنفی میں غیر معمولی ترقی ہوئی ، ان میں سے ایک امام ابو یوسف ہیں ، آپ کا اصل نام یعقوب ہے، لیکن کنیت سے زیادہ مشہور ہیں ۱۱۳ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۸۳ھ میں وفات پائی ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی حیات تک ان سے وابستہ رہے ، امام مالک رحمہ اللہ سے بھی استفادہ کیا، محدثین ان کی ثقاہت اور حدیث میں ان کے علوم مرتبت پر گویا متفق ہیں ، مہدی کے عہد خلافت ۱۶۶ ھ میں قاضی بنائے گئے اور مہدی،ہادی اور ہارون رشید خلفاء کے دور میں قاضی القضاۃ رہے ، آپ اسلامی تاریخ کے پہلے قاضی القضاۃ تھے ، آپ کی متعدد کتابوں کا ذکر تذکرہ نگاروں نے کیا ہے ، جیسے اصول فقہ میں کتاب الرایٔ، کتاب الوصایا، کتاب اختلاف الامصار، الرد علی مالک بن انس ، وغیرہ (الفہرست لابن ندیم:۴۸۶) لیکن آپ کی اکثر کتابیں دستیاب نہیں ہیں ،کتاب الآثار، کتاب الخراج اور اختلاف ابی حنفیہ مع ابن ابی لیلی، جسے امام شافعی رحمہ نے کتاب الام میں نقل کیا ہے دستیاب ہیں۔
    (کتاب الام :۷/۸۷)

    اور دوسری شخصیت امام محمد حسن بن فرقد شیبانی کی ہے ، آپ ۱۳۲ھ میں پیدا ہوئے ، کوفہ میں پرورش پائی، آپ نے مسعر بن کدام ، امام اوزاعی اور سفیان ثوری سے حدیث کا درس لیا، لیکن فقہ و حدیث میں سب سے زیادہ جس شخصیت نے آپ کو متاثر کیا وہ ہیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام صاحب کے انتقال کے بعد امام ابو یوسف اور پھر امام مالک سے استفادہ کیا اور ۱۹۸ھ میں وفات پائی۔

    فقہ حنفی کا مدار آپ ہی کی کتابوں پر ہے؛ لیکن آپ کی جو کتابیں ہیں وہ چند ہی ہیں ، جبکہ کہا جاتا ہے کہ آپ کی تصانیف کی تعداد ۹۹۰تھی، متقدمین کا طریقہ تھا کہ وہ ہر بحث کو مستقل کتاب کے عنوان سے لکھتے تھے ، جیسے کتاب الصلوۃ، کتاب الزکوۃ، ممکن ہے کہ اس پہلو سے آپ کی تصنیفات کی تعداد اتنی زیادہ ہوں۔
     
  4. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    فقہ حنفی کی کتابیں

    بنیادی طور پر فقہ حنفی کی کتابوں کے تین حصے کئے گئے ہیں ، ظاہر روایت ، نوادر اور فتاوی و واقعات۔

    ظاہر روایت

    ظاہر روایت سے مراد امام محمد رحمہ اللہ کی چھ کتابیں ہیں ، مبسوط، جامع صغیر، جامع کبیر، زیادات، سیر صغیر، سیر کبیر، یہ چھ کتابیں ظاہر روایت کہلاتی ہیں ،کیوں کہ یہ شہرت وتواتر کے ساتھ اور مستند طریقہ پر منقول ہیں، انہیں اصول بھی کہا جاتا ہے ، ان میں سے مکرر مسائل کو حذف کر کے علامہ ابو الفضل محمد بن احمد مروزی معروف بہ حاکم شہید (متوفی: ۳۳۴) نے "الکافی فی فروع الحنفیہ" کے نام سے مرتب کیا ہے، اسی کی شرح علامہ سرخسی نے "المبسوط" کے نام سے کی ہے، جو متداول ہے ؛ لیکن اصل متن مستقل طور پر تشنٔہ طبع ہے۔

    نوادر

    ان چھ کتب کے علاوہ امام محمد رحمہ اللہ کی دوسری کتابیں مثلا : ھارو نیات ، کیسانیات، رقیات، نیز امام ابو یوسف کی کتاب الامالی ، حسن بن زیاد کی کتاب المجرد اور امام صاحب کے تلا مذہ کی دوسری کتابیں نوادر کہلاتی ہیں؛ کیوں کہ امام محمد رحمہ اللہ کی مذکورہ چھ کتابیں جو ظاہر روایت کہلاتی ہیں ، اس درجہ شہرت و تواتر کے ساتھ اور مستند و معتبر طریقہ سے یہ کتب منقول نہیں ہیں۔
    (رسم المفتی:۴۸)

    فتاوی وواقعات

    جن مسائل کی بابت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے منقول نہیں ہے اور بعد کے مشائخ نے ان کی بابت اجتہاد کیا ہے ان کو فتاوی وواقعات کہا جاتا ہے ، اس سلسلہ میں ابو اللیث سمر قندی کی کتاب النوازل ، علامہ ناطفی کی مجمع النوازل والواقعات اور صدر الشہید کی الواقعات اس موضو ع پر اولین کتابیں ہیں ، جن میں سے نوازل سمر قندی طبع ہوچکی ہے، مگر ناشر کی لا پرواہی پر بہت افسوس ہے کہ اغلاط کی تصحیح پر بالکل توجہ نہیں دی اورا غلاط کے ساتھ ہی شائع کردیا، ضرورت ہے کہ کوئی اہل علم ان اغلاط کی تصحیح پر توجہ دے اور اپنی تحقیق وتعلیق کے ساتھ دوبارہ شائع کرے.

    فقہ حنفی کی دیگر اہم کتابیں

    ان کتب کے علاوہ فقہ حنفی کی اہم کتابیں اس طرح ہیں:

    مختصر الطحاوی : امام ابو جعفر طحاوی متوفی: ۳۲۱ھ

    المنتقی فی فروع الحنفیہ : ابو الفضل محمد بن احمد مروزی متوفی:۳۳۴ھ

    مختصر کرخی : عبید اللہ بن حسین کرخی متوفی:۴۰ ھ

    مختصر قدوری : ابو الحسین احمد بن محمد قدوری متوفی: ۴۲۸ھ

    تحفۃ الفقہاء : علاء الدین محمد بن احمد سمرقندی متوفی:۵۷۵ھ

    بدائع الصنائع : علاء الدین ابو بکر بن مسعودکا سانی متوفی :۵۸۷ھ

    بدایۃ المبتدی : ابو الحسن علی مرغینانی متوفی :۵۹۳ھ

    ہدایہ : ابوالحسن علی مرغینانی متوفی : ۵۹۳ھ

    المختار : مجد الدین عبداللہ بن محمودموصلی متوفی : ۶۸۳ھ

    وقایۃ الروایہ : برہان الشریعۃ محمود بن احمد متوفی: ۶۷۳ھ

    فتاوی قاضی خاں : علامہ فخر الدین اوز جندی متوفی :۵۹۲

    مجمع البحرین و ملتقی النھرین : مظفر الدین احمد ابن ساعاتی متوفی:۶۹۴ھ

    کنز الدقائق : عبداللہ بن احمد نسفی متوفی:۷۱۰ھ

    الجامع الوجیز : محمد بن بزاز کردری متوفی:۸۲۷ھ

    البنایہ : علامہ بدر الدین عینی متوفی :۸۵۵ھ

    فتح القدیر : علامہ کمال الدین بن ھمام متوفی:۸۶۱ھ

    ملتقی الابحر : ابراہیم بن محمدحلبی متوفی: ۹۵۶ھ

    فتاوی ھندیہ : زیر نگرانی اورنگ زیب رحمہ اللہ متوفی:۱۱۱۸ھ

    تنویر الابصاروجامع البحار : شمس الدین محمد بن عبداللہ تمر تاشی متوفی: ۱۰۰۴ھ

    الدر المختار : علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی:۱۰۸۸ھ

    ردالمحتار : علامہ ابن عابدین شامی متوفی:۱۲۵۲ھ

    طبقات فقہاء

    علامہ ابن کمال پاشا (متوفی:۹۴۰ھ) کی تصریح کے مطابق فقہاء احناف کے کل سات طبقات ہیں ۔

    (۱)مجتہدین فی الشرع

    وہ حضرات جو براہ راست ادالۂ اربعہ(قرآن وسنت ، اجماع وقیاس) سے اصول و کلیات اور جزئیات و احکام مستنبط کرتے ہیں ، جیسے ائمہ اربعہ اور ان کے درجہ کے مجتہد ین، ان کو مجتہدین مطلق بھی کہا جاتا ہے ۔

    (۲)مجتہدین مذہب

    وہ حضرات فقہاء ہیں جو قواعد و کلیات میں تو اپنے استاد اور مجتہد مطلق کے پابند ہوتے ہیں ، لیکن جزئیات اور فروعی مسائل میں استاد کی تقلید چھوڑ دیتے ہیں ، اس تصریح کے مطابق اس زمرے میں امام ابو یوسف اور امام محمد وغیرہ کو داخل ماننا محل نظر ہے ، کیونکہ ان حضرات نے فروع کی طرح اصول میں بھی اجتہادات کئے ہیں اور امام ابو حنیفہ کے اصول سے اختلاف کیا ہے ، اسلئے شوافع کے یہاں جو مجتہد منتسب کی تعریف ہے وہ زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ان حضرات نے یہ تعریف کی ہے کہ جو حضرات رائے اور دلیل رائے ، فروع اور استنباط کے اصول میں کسی امام کے مقلد نہ ہوں ، البتہ ان کے اجتہاد استنباط کا نہج کسی صاحب مذہب امام کے مطابق ہو (مقدمہ المجموع ص:۴۴) اس تعریف کے مطابق ابو یوسف ، امام محمد اور امام زفر کو مجتہد منتسب قرار دیا جاسکتا ہے ۔

    (۳)مجتہدین فی المسائل

    مذہب میں کچھ مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں اصحاب مذہب کی کوئی صراحت منقول نہیں ہوتی، توجو حضرات فقہاء مذہب کے قواعد وضوابط کو سامنے رکھ کر غیر منصوص مسائل کے احکام متعین کرتے ہیں انہیں مجتہدین فی المسائل کا لقب دیا جاتا ہے ، یہ حضرات اصول و فروع کسی چیز میں بھی اپنے امام سے الگ راہ اپنانے کا حق نہیں رکھتے اس طبقہ میں امام احمد بن عمر خصاف (متوفی: ۲۶۱ھ) امام طحاوی (متوفی:۳۲۱ھ) امام ابو الحسن کرخی (متوفی: ۳۴۰ھ) شمس الائمہ حلوانی (متوفی: ۴۴۸ھ) شمس الائمہ سرخسی(متوفی:۴۸۳ھ)فخرالاسلا� � بزدوی(متوفی:۴۸۲ھ) اور علامہ فخر الدین قاضی خاں (متوفی:۵۵۲ھ) وغیرہ کے اسماء قابل ذکرہیں۔

    (۴) اصحاب التخریج

    وہ فقہاء کرام جو اجتہاد کی صلاحیت تو نہیں رکھتے، لیکن اصول ومآخذ کو محفوظ رکھنے کی بناء پر اتنی قدرت ضرور رکھتے ہیں کہ ذووجہیں یامجمل قول کی تعیین و تفصیل کرسکیں، اور نظائر فقہیہ اور قواعد مذہب پر نظر کر کے اپنی ذمہ داری انجام دینے کے اہل ہوں، انہیں اصحاب تخریج کہا جاتا ہے ، اس طبقہ میں امام جصاص رازی (متوفی: ۳۷۰ھ) اور ان جیسے حضرات کا نام لیا جاسکتا ہے۔

    (۵) اصحاب الترجیح

    اس طبقہ کے فقہاء کاکام یہ ہے کہ وہ مذہب کی بعض روایت کو دوسری روایت پر اپنے قول ہذا اولی،ھذا اصح، ہذا اوضح وغیرہ کلمات کے ذریعہ ترجیح دیتے ہیں، اس طبقہ میں ابو الحسن قدوری (متوفی:۴۲۸ھ) صاحب ہدایہ، علامہ مرغینانی (متوفی:۵۹۳ھ) وغیرہ شامل ہیں۔

    (۶) اصحاب تمیز مقلدین

    ان حضرات کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ مذہب کی مضبوط و کمزور روایات میں فرق وامتیاز کرتے ہیں اور ظاہر الروایت اور روایت نادرہ کی پہچان رکھتے ہیں ، اکثر اصحاب متون اس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ، مثلا صاحب کنز علامہ نسفی (متوفی: ۷۱۰ھ) صاحب مختار علامہ موصلی (متوفی:۶۸۳ھ) اور صاحب وقایہ علامہ تاج الشریعہ(متوفی:۷۴۷ھ) وغیرہ،یہ حضرات اپنی تصنیفات میں مرد اور غیر معتبر اقوال نقل کرنے سے احتراز کرتے ہیں ۔

    (۷) غیر ممیز مقلدین

    جو حضرات گذشتہ طبقات میں سے کسی بھی ذمہ داری کو اٹھانے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں ، انہیں ساتویں طبقہ میں رکھا جاتا ہے درحقیقت یہ لوگ فقیہ نہیں بلکہ محض ناقل فتاوی ہیں، آج کل کے اکثر مفتیان کرام کا تعلق اسی طبقہ سے ہے ، اس لئے اس طبقہ کے لوگوں پر پوری احتیاط لازم ہے ، جب تک مسئلہ منقح نہ ہو اس وقت تک جواب دینے سے گریز کرنا چاہئے۔
    (رسم المفتی:۲۸۔ ۳۴)

    فقہ حنفی کی مقبولیت

    فقہ حنفی کی مقبولیت اللہ تعالی نے روز اول ہی سے عطا کی ہے اور ہرزمانے میں دنیا کے اکثر علاقوں میں اس فقہ کے متبعین کی کثیر تعداد رہی ہے ، اس وقت ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش، ترکی، روس، چین، آزاد ایشیا کی جمہوریتیں ، ایران کا سنی علاقہ اور افغانستان میں قریب قریب ننانوے فیصد حنفی المسلک لوگ ہیں ، اس کے علاوہ عراق ، مصر ، شام، فلسطین اور دنیا کے اکثر ملکوں میں احناف موجود ہیں ، بعض اہل علم کا خیال ہے کہ تقریبا اسی فیصد اہل سنت حنفی ہیں۔
    فقہ حنبلی

    یہ فقہ ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل شیبانی کی طرف منسوب ہے، آپ بغداد میں۱۶۴ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۴۱ھ میں وفات پائی ،امام شافعی جیسے محدث وفقیہ کا امام احمد بن حنبل کے بارے میں بیان ہے کہ ان کو آٹھ چیزوں میں درجہ امامت حاصل تھا۔ قرآن، حدیث، فقہ، لغت، فقر، زہد ، ورع اور سنت۔
    (طبقات الحنابلہ :۱/۵)

    مشہور محدث امام عبدلرزاق صنعانی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے زیادہ فقیہ اور محتاط نہیں دیکھا ، بلکہ کسی کو ان کا ہم سر بھی نہیں پایا۔
    (المغنی: ۱/۸)

    فقہ حنبلی کے مصادر

    امام احمد رحمہ اللہ نے اپنے اجتہادات کی بنیاد پانچ اصولوں پر رکھی تھی ، اولا نصوص ، دوسرے صحابہ کے وہ فتاوی جن کے بارے میں کسی دوسرے صحابی کا اختلاف منقول نہ ہو ، تیسرے اگر صحابہ کا اختلاف ہو تو جو قول آپ کی رائے میں کتاب و سنت سے قریب ہوتا اسے لیتے اور صحابہ کے اقوال سے باہر نہیں جاتے ، چوتھے اگر ان میں سے کوئی دلیل موجود نہ ہو توحدیث مرسل اور ایسی حدیث ضعیف جو باطل و منکر کے درجہ میں نہ ہو، اس سے استدلال کرتے ، پانچویں قیاس، جب کوئی دلیل موجود نہ ہو تو امام صاحب قیاس سے کام لیتے ، ویسے امام صاحب کا اپنا مزاج یہ تھا کہ جس مسئلہ میں نص یا سلف کا کوئی قول موجود نہ ہوتا تو اس میں اظہار رائے سے گریز کرتے
    (اعلام الموفعین: ۱/۲۹۔ ۳۳)

    فقہ حنبلی کے ناقلین و مرتبین

    امام احمد رحمہ اللہ اظہار رائے میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے ، اسی لئے آپ کے یہاں بہت سے مسائل میں سکوت اور بہت سے مسائل میں ایک سے زیادہ بلکہ متضاد رائیں ملتی ہیں۔ اسی احتیاط کی وجہ سے آپ کو اپنے فتاوی کا جمع کرنا پسند نہیں تھا، اس لئے آپ کے علوم آپ کے شاگردوں کے ذریعہ شائع ہوئے ، آپ کے لائق تلامذہ نے آپ کے فتاوی کی نقل و روایت میں کسی بخل و تساہل سے کام نہیں لیا ،ان تلامذہ میں خود آپ کے صاحبزادگان صالح بن احمد (متوفی: ۲۶۵ھ) اور عبداللہ بن احمد (متوفی:۲۹۰ھ) کے علاوہ احمدبن محمدبن ابوبکر (متوفی:۲۶۱ھ) عبدالملک میمونی (متوفی:۲۶۵ھ) اور ابوبکرمروزی (متوفی:۲۹۲ھ) کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، پھر ابو بکر مروزی کے ایک لائق شاگرد احمد بن محمد بن ہارون ابو بکر خلال (متوفی: ۳۱۱ھ) آئے جنہوں نے ابو بکر مروزی کی تاحیات صحبت اختیار کی اور ان کے ذریعہ امام احمد رحمہ اللہ کے فتاوی کو الجامع الکبیر کے نام سے جمع فرمایا، کہا جاتا ہے کہ خلال نے یہ مجموعہ دوسواجزاء میں مرتب کیا تھا۔
    (احمد بن حنبل، صفحہ نمبر: ۱۹۵)

    فقہ حنبلی کی کتابیں

    فقہ حنبلی کی اہم مطبوعہ کتابوں اور ان کے مصنفین کے نام اس طرح ہیں:

    مختصر خرقی ابو القاسم عمر بن حسین خرقی متوفی ۳۲۴ھ ، اس کتاب کی تقریبا تین سو شرحیں لکھی گئیں، انہی شروح میں ابن قدامہ مقدسی کی المغنی ہے ، جو اپنی جامعیت ، احاطہ واستیعاب ، روایت وقیاس سے استدلال، بیان و تعبیر میں سلاست اور اعتبار واتقان میں نہ صرف فقہ حنبلی بلکہ فقہ اسلامی کے کتب خانہ میں ایک خاص امتیاز کی مالک ہے۔

    کتاب الرواتین والوجھین قاضی ابو یعلی محمد حسن بن مراء متوفی:۴۵۸ھ

    الکافی موفق الدین ابن قدامہ مقدسی متوفی:۶۲۰ھ

    المقنع موفق الدین ابن قدامہ مقدسی متوفی:۶۲۰ھ

    المغنی موفق الدین ابن قدامہ مقدسی متوفی:۶۲۰ھ

    العمدۃ موفق الدین ابن قدامہ مقدسی متوفی:۶۲۰ھ

    المحرر مجد الدین ابوالبرکات عبدالسلام متوفی:۶۵۲ھ

    الشرح الکبیر عبدالرحمن بن امام ابی عمر مقدسی متوفی:۶۸۲ھ

    مجموعہ فتاوی شیخ الاسلام احمد بن تیمیہ متوفی: ۷۲۸ھ

    الفروع شمس الدین ابن مفلح متوفی:۷۶۳ھ

    تصحیح الفروع علاؤ الدین سعدی مردادی متوفی: ۸۸۵ھ

    الایصاف فی معرفۃ الراحج من الخلاف، علاؤالدین سعدی مردادی متوفی:۸۸۵ھ

    الاقناع موسی بن احمد مقدسی متوفی ۹۶۸ھ

    منتھی الدرادات فی جمع المقنع مع التنقیح والزیادت، تقی الدین بن نجار، متوفی ۹۷۲ھ

    کشاف القناع عن متن الاقناع منصور بن یونس بہوتی متوفی:۱۰۵۱ھ

    شرح منتہی الدرادات منصور بن یونس بہوتی متوفی:۱۰۵۱ھ

    متاخرین حنابلہ کے یہاں الانصاف، الا قناع اور منتہی الارادات فقہ حنبلی کی نقل وترجیح میں زیادہ مستند سمجھی گئی ہے ۔

    فقہ حنبلی کی خاص اصطلاحات و تعبیرات

    فقہ حنبلی کی بعض خاص اصطلاحات و تعبیرات کا ذکر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے فقہ حنبلی میں مختلف اقوال وآراء کے سلسلے میں تین مشہور اصطلاحات ہیں روایات ، تمویہات اور اوجہ ۔

    روایات

    جو اقوال امام احمد رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہوں ، خواہ متفق علیہ ہوں یامختلف فیہ ، روایات کہلاتے ہیں ۔

    تمویہات

    جو اقوال صریحا امام صاحب کی طرف منسوب نہ ہوں ،لیکن امام کی بعض آراء سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں آپ کی رائے یوں تھی ، وہ تمویہات ہیں ۔

    اوجہ

    مجتہدین فی المذھب جو امام صاحب سے غیر منقول احکام میں اجتہاد کر کے رائے قائم کرتے ہیں ، ان کی آراء کو اوجہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
    (احمد بن حنبل : ۳۹۰،۳۹۱)

    "اَحَبُّ اِلیٰ کَذَا اَوْلَااَحَبُّ کَذَا" (مجھے یہ پسند ہے یا یہ پسند نہیں ہے) اس حکم کے محض مستحب ہونے کی پہچان ہے ۔

    "اَعْجَبُ اِلیٰ" (مجھے محبوب ہے ) یہ جملہ کسی حکم کے اولی و افضل ہونے کو بتاتا ہے ۔

    "اَخْشیٰ اَنْ یَکُوْنَ کَذَا" (مجھے خیال ہے کہ ایسا ہوگا) یجوز کے ہم معنی ہے اور جواز کو بتاتا ہے ۔

    "اَخْشیٰ اَنْ لَایَکُوْنَ کَذَا" ( مجھے اندیشہ ہے کہ ایسا نہ ہوگا) یہ لا یجوز کے ہم معنی ہے اور ناجائز ہونے کو بتاتا ہے ۔

    "أَخَافُ کَذَا" مضمون کے اعتبار سے وجوب یا حرمت کی دلیل ہے۔

    ھذا اشنع للناس

    (یہ لوگوں کی لیے برا ہے) حرمت کا تقاضا کرتا ہے۔
    (المدخل الی مذھب الامام احمد:۱/۵۸۔ المسودۃ:۱/۵۲۹، ۵۳۰)

    فقہا ء کے طبقات

    دوسرے مکاتب فقہ کی طرح حنابلہ نے بھی فقہاء کے طبقات مقرر کئے ہیں ، علامہ ابن قیم نے عام مقلدین کے علاوہ فقہاء کے چار طبقات بیان کئے ہیں، مجتہد مطلق، مجتہد فی المذھب، مجتہد منتسب فی المذھب، متفق فی المذھب۔

    (۱) مجتہد مطلق

    یہ تو ظاہر ہے کہ صاحب مذہب ہیں۔

    (۲) مجتہد فی المذھب

    وہ ہے جو احکام اور دلائل احکام دونوں ہی میں اپنے امام کے مسلک کا پابند ہو، البتہ اپنے اجتہاد اورفتوی میں اس نے عمومی طور پر اس کے طریق استدلال اور آراء کو اختیار کیا ہو۔

    (۳) مجتہد منتسب

    وہ ہے جو امام کی رائے سے انحراف نہ کرتا ہو، البتہ جن مسائل میں امام کی رائے منقول نہ ہو ان میں خود اجتہاد کرتا ہو، ان کو اصحاب وجوہ بھی کہا جاتا ہے ۔

    (۴) متفق فی المذھب

    فتاوی اور مذہب کی فروع سے واقف ہوتا ہے ، یہ کتاب و سنت سے براہ راست استدلال نہیں کرتا ، بلکہ اگر کہیں کتاب و سنت کی نصوص کا ذکر بھی کرتا ہے تو محض تبرکاً۔
    (اعلام الموقعین: ۴/۲۱۰۔ ۲۱۴)

    ابو حمدان نے تیسرے اور چوتھے طبقے کے درمیان ایک طبقہ "فقیہ النفس" کا اضافہ کیا ہے جن کا کام اختلافی آراء میں تنقیح و ترجیح کا ہے۔
    ( احمد بن حنبل : ۳۸۶ھ)

    فقہ حنبلی کے متبعین

    ائمہ اہل سنت میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے متبعین کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے ، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس فقہ میں کوئی کمی یا خامی ہے ، بلکہ اسکی اصل وجہ ایک تو امام احمد رحمہ اللہ کا دورا ئمہ اربعہ میں سب سے آخر کا ہے، اس سے پہلے دوسرے فقہاء مجتہدین کی فقہ مقبول و مروج ہوچکی تھی دوسرے امام احمد بن حنبل اپنے ورع وتقوی اور احتیاط کے پیش نظر اپنی آراء کی نقل و روایت سے گریز کیا کرتے تھے، تیسرے فقہ حنبلی کی ایک ایسے علاقے میں پیدائش و نشو ونما ہوئی جہاں فقہ حنفی کا آفتاب بام عروج پر تھا، چوتھے جس طرح سلاطین کی نصرت و حمایت فقہ حنفی کو یا مغرب میں فقہ مالکی کو یا ایوبیوں کے عہد میں فقہ شافعی کو حاصل تھی ، اس طرح کی حمایت فقہ حنبلی کو شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی (متوفی:۱۲۰۶ھ) سے پہلے تک حاصل نہ ہوسکی، خلیج میں محمد بن عبدالوہاب کی تحریک کے کامیاب ہونے کے بعد سعودی عرب میں حکومت نے فقہ حنبلی کو اپنا قانون قرار دیا اور اس وقت وہاں کی عدالت میں اس فقہ کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں ، آج کل سعودی عرب ، عرب امارات ، کویت اور دوسری خلیجی ریاستوں میں زیادہ تر اسی فقہ پر عمل ہے۔
    (تفصیل کیلئے دیکھئے، حیات امام احمد بن حنبل، صفحہ نمبر: ۴۹۹ تا ۵۰، تالیف: شیخ ابو زھرہ، ترجمہ رئیس احمد جعفری ندوی)

    کچھ اور ممتاز فقہی شخصیات

    دور عباسی میں کچھ اور فقہاء اپنی قوت اجتھاد اور لیاقت استنباط میں نہایت اعلی درجہ کے حامل تھے؛ مگر اللہ تعالی کے یہاں یہ بات مقدر نہیں تھی کہ ان کے مذہب کو بقاء و استحکام حاصل ہو؛ چنانچہ کم ہی عرصہ میں وہ مذاہب ناپید ہوگئے ، البتہ ان کی چیدہ چیدہ آراء کتابوں میں اب بھی موجود ہیں ، ان میں سے پانچ شخصیتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
     
  5. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    1. امام اوزاعی

      آپ کا پورا نام ابو عمر عبدالرحمن بن محمد ہے ، یمن کے قبیلہ ذی الکلاع کی ایک شاخ اوزاع تھی ، اس نسبت سے اوزاعی کہلائے ، ۸۸ھ میں شام میں پیدا ہوئے اور ۱۵۷ھ میں وفات پائی ، حدیث کے بڑے عالم تھے ، اصحاب حدیث کی جماعت سے تعلق تھا اور قیاس سے اجتناب کرتے تھے ، شام اور اندلس کے علاقہ میں ان کے مذہب کو قبولیت حاصل ہوئی ، لیکن جلد ہی ان کے متبعین ناپید ہو گئے۔
      (تذکرۃ الحفاظ :۱۷۰۔ ۱۷۲۔ تاریح التشریع الاسلامی لخضری بک: ۱۹۰)

      سفیان ثوری

      ابو عبداللہ سفیان بن سعید ثوری ۹۷ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور ۱۶۱ھ میں بصرہ میں وفات پائی ، فقہ اور حدیث دونوں پر آپ کی گہری نظر تھی ، عام طور پر آپ کی آراء امام ابو حنیفہ کی آراء کے قریب قریب ہوتی تھی ، ابتداء امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے چشمک تھی پھر بعد کو غلط فہمی دور ہوگئی اور امام ابو حنیفہ کے قدرداں ہوگئے۔
      (تاریخ التشریع الاسلامی:۱۷۰)

      لیث بن سعد

      یہ مصر میں پیدا ہوئے اور وہیں ۱۷۵ھ میں وفات پائی ، کہا جاتا ہے کہ تفقہ میں ان کا درجہ امام مالک اور امام شافعی رحمہ اللہ سے کم نہیں تھا ، خود امام شافعی رحمہ اللہ ان کو امام مالک سے زیادہ فقیہ قرار دیتے تھے ؛ لیکن ان کے مذہب کو زیادہ رواج حاصل نہ ہوسکا اور جلد ہی ختم ہوگیا۔
      (تاریخ التشریع الاسلامی:۱۹۹)

      داؤد ظاہری

      آپ کا پورا نام ابو سلیمان داؤد بن علی اصفہانی ہے ،۲۰۰ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے اور ۲۷۰ھ میں وفات پائی ابتداء میں فقہ شافعی کے متبع تھے ، بعد میں پھر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی ، ظاہر نص پر عمل کرنے میں غلو تھا اور اس غلو کی وجہ سے بعض آراء حد معقولیت گذر جاتی تھی ، داؤد ظاہری نے بہت سی کتابیں بھی تالیف کی ہیں ، اس مکتب فکر کی نمائندہ شخصیت علامہ بن حزم اندلسی (متوفی:۴۵۶ھ) ہیں؛ جنہوں نے اپنی معروف کتاب "المحلی" لکھ کر اصحاب ظواہر کی فکر ی آراء کو محفوظ کر دیا ہے ، انہی کی "الاحکام فی اصول الاحکام " بھی ہے ، جس میں اصحاب ظواہر کے اصول فقہ مدون ہیں ، پانچویں صدی ہجری تک یہ مذہب باقی تھا، پھر اس کا نام و نشان مٹ گیا (تاریخ التشریع الاسلامی :۱۹۶) موجودہ دور میں سلفیت کو اس دبستان فقہ کا احیاء قرار دیا جاسکتا ہے۔

      ابن جریر طبری

      ابو جعفر محمد بن جریر طبری ۲۲۴ھ میں طبرستان میں پیدا ہوئے ، ۳۱۰ھ میں وفات پائی ، انہوں نے فقہ حنفی ، فقہ مالکی اور فقہ شافعی تینوں کو حاصل کیا ، لیکن کسی کی تقلید نہیں کی اور خود اجتہاد کیا، تفسیر طبری اور تاریخ طبری ان کی مشہور کتابیں ہیں، جو بعد کے اہل علم کیلئے اولین مراجع کا درجہ رکھتی ہیں ، اسی طرح فقہی اختلافات پر "کتاب اختلافات الفقہاء " چھپ چکی ہے ، ختم ہو جانے والے مذاہب میں اسی کو زیادہ دنوں تک زندگی حاصل رہی ، پانچویں صدی کے نصف تک بہت سے لوگ اس فقہ پر عامل تھے۔
      (تاریخ التشریع الاسلامی: ۱۹۹)



     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں