حج اور عمرہ کے بعض ضروری اور مفید مسائل از شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

اہل الحدیث نے 'ماہ ذی الحجہ اور حج' میں ‏ستمبر 21, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    *****حج اور عمرہ کے بعض ضروری اور مفید مسائل*****
    ماخوذ از : حاجی کے شب و روز (ترجمہ،تحقیق و حواشی :محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ)،ص 76-83

    اس باب میں مترجم کی طرف سے بعض ضروری اور مفید مسائل باحوالہ پیشِ خدمت ہیں :

    ۱: ابراہیم نخعی ( تابعی) فرماتے ہیں کہ لوگ جب احرام باندھنے کا ارادہ کرتے تو غسل کرتے تھے ۔ [ مصنف ابن ابی شیبہ طبعہ جدیدہ ۳؍۴۰۷ ح ۱۵۵۹۷ وسندہ حسن ]
    فتنہ ( اور جنگ) کے دنوں میں سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے غسل نہیں کیا تھا اور لبیک کہی تھی ۔ [ ابن ابی شیبہ ح۱۵۵۹۸ وسندہ صحیح]
    معلوم ہوا کہ غسل کرنا افضل ہے اور کسی عذر کی وجہ سے بغیر غسل کے احرام باندھ لینا جائز ہے ۔
    ۲: قاسم ( بن محمد بن ابی بکر) فرماتے ہیں کہ ( حالتِ احرام میں) ہمیان( روپے پیسے کی تھیلی یا پٹی باندھنا،لٹکانا)جائز ہے ۔ [ابن ابی شیبہ ۳؍۳۹۳ ح ۱۵۴۴۸ وسندہ صحیح]
    مجاہد (تابعی) بھی اسے جائز سمجھتے تھے ۔ [ ایضاً : ۱۵۴۵۳ وسندہ صحیح ]
    ۳: طاؤ س ( تابعی) جب ( احرام میں ) سوتے تھے تو بالوں تک اپنا چہرہ ( کپڑے سے ) ڈھانپ لیتے تھے ۔ [ابن ابی شیبہ ۳؍۲۷۳ ح۱۴۲۴۴ وسندہ صحیح]
    سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حالتِ احرام میں اپنا چہرہ ڈھانپا تھا۔ [ مالک فی الموطا ۱؍۳۲۷ ح ۷۳۰ وسندہ صحیح ، ابن ابی شیبہ : ۱۴۲۴۱ وسندہ صحیح ]
    مجاہد کہتے ہیں کہ چلنے والی ہوا کی وجہ سے اپنا چہرہ ڈھانپ سکتا ہے [ ایضاً: ۴۲۳۶ وسندہ صحیح ]
    ابراہیم نخعی بھی اسے جائز سمجھتے تھے ۔ [ ایضاً : ۱۴۲۳۸ وسندہ صحیح ]
    سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ ٹھوڑی سے لے کر سرتک ( چہرہ ) نہیں چھپانا چاہئے ۔ [ مالک ۱؍۳۲۷ ح ۷۳۱ وسندہ صحیح ]
    معلوم ہوا کہ عذر میں چہرہ چھپانا جائز ہے بہتر یہی ہے کہ چہرہ نہ چھپایا جائے ۔ واللہ اعلم
    ۴: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ احرام باندھنے والا ، جو سُرمہ چاہے آنکھوں میں لگا سکتا ہے بشرطیکہ اس میں خوشبو نہ ہو۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۳۳۵ ح ۱۴۸۵۰ وسندہ صحیح ]
    ۵: عطاء بن ابی رباح اس کے قائل تھے کہ احرام باندھنے والا اپنے سر کو ( خارش میں ) کھجا سکتا ہے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۳۴۴ ح ۱۴۹۴۸ وسندہ صحیح ]
    : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک حالتِ احرام میں اگر ناخن ( آدھا) کٹ جائے تو ( کاٹ کر ) پھینکا جا سکتا ہے ۔ [ابن ابی شیبہ ۳؍۱۲۹ ح ۱۲۷۵۲ وسندہ حسن ]
    سعید بن جبیر بھی اسے ( ناخن کو) کاٹنے کے قائل تھے ۔ [ ایضاً : ۱۲۷۵۵ وسندہ حسن ]
    ۷: ابراہیم نخعی اور مجاہد کے نزدیک اگر حالتِ احرام میں دانت میں درد ہو تو دانت نکال سکتے ہیں ، اس کے راوی منصور ( بن المعتمر) کہتے ہیں کہ بیماری کی حالت میں دانت نکالنے والے پر کوئی چیز ( دم وغیرہ ) نہیں ہے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۱۳۱ ح ۱۲۷۶۷ وسندہ صحیح ]
    ۸: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ حالتِ احرام میں مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ [ابن ابی شیبہ ۳؍۱۳۰ ح ۱۲۷۶۱ وسندہ صحیح ]یعنی مسواک جائز ہے ۔
    یہی قول عطاء بن ابی رباح کا ہے ۔ [ ایضاً : ۱۲۷۶۴ وسندہ صحیح ]
    ۹: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ دونوں ، حالتِ احرام میں آئینہ دیکھنا جائز سمجھتے تھے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۱۳۷ ح ۱۲۸۴۳ وسندہ صحیح ، ح ۲۸۴۲ ۱ وسندہ صحیح ]
    قاسم بن محمد اسے مکروہ سمجھتے تھے ۔ [ایضاً : ۳؍۱۳۸ ح ۱۲۸۴۵ وسندہ صحیح ]
    یعنی : مُحرِم کے لئے آئینہ دیکھنا مع الکراہت جائز ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ وہ اس سے بچے ۔واللہ اعلم
    ۱۰: سعید بن جبیر طواف میں اپنے ساتھیوں سے حدیثیں بیان کرتے ( باتیں کرتے ) اور فتوے دیتے تھے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۱؍۱۳۵ ح ۱۲۸۱۴ وسندہ صحیح ]
    یعنی طواف میں دعائیں ، ضروری کلام اور سوالات کے جوابات دینا جائز ہے۔ طواف سے فارغ ہونے کے بعد خوب تلاوتِ قرآن کرسکتے ہیں ۔ واللہ اعلم
    ۱۱: عروہ بن الزبیر حالتِ احرام میں سر پر پانی بہانے اور ہاتھوں سے سر نہ رگڑنے کے قائل تھے ،صرف ہاتھ پھیرنے کے قائل تھے۔ [ابن ابی شیبہ ۳؍۱۴۳ ح ۱۲۹۰۴ وسندہ صحیح ]
    ۱۲: محمد بن سیرین نے کہاکہ ( جو شخص حالتِ احرام میں اپنی بیوی کا بوسہ لے تو ) اس پر دم ( یعنی بکری ذبح کرنا ) واجب ہے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۱۳۶ ح ۱۲۸۲۷ وسندہ صحیح ]
    اور یہی قول امام زہری کا ہے ۔ [ ایضاً : ۱۲۸۲۳ وسندہ صحیح ]
    عطاء نے کہا کہ اسے استغفار کرنا چاہئے ۔ [ ایضاً: ۱۲۸۲۶ وسندہ صحیح ]
    : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک حالتِ احرام میں خوشبو سونگھنا مکروہ ہے ۔
    [ ابن ابی شیبہ ۳؍۳۰۷ ح ۱۴۶۰۴، بلفظ : کان یکرہ شم الریحان للمحرم ، وسندہ صحیح ]
    ۱۴: مجاہد کے نزدیک مکہ کے باہر سے آنے والوں کے لئے ( نفلی) نماز کے بجائے ( نفلی) طواف کرنا افضل ہے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۳۵۳، ۳۵۴ ح ۱۵۰۴۰ وسندہ صحیح ]
    اور یہی قول عطاء بن ابی رباح کا ہے ۔ [ مصنف عبدالرزاق ۵؍۷۰ ح ۹۰۲۷ وسندہ صحیح ]
    ۱۵ : ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ لوگ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ( پُورے ) قرآن کی قراءت ختم کئے بغیر مکہ سے باہر نہ جائیں ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۳۶۸ ح ۱۵۱۸۲ وسندہ صحیح ]
    ۱۶: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جب مکہ میں ہوتیں (اور عمرہ کرنا چاہتیں )تو جُحفہ(مکہ سے باہر ایک مقام) جاکر عمرے کے لئے احرام باندھتی تھیں ۔[ابن ابی شیبہ ۳؍۱۴۶ ح ۱۲۹۳۹ وسندہ صحیح]
    سیدنا عبداللہ بن عمر اور سید نا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما نے مکہ سے ذُوالحُلَیفہ ( مدینے کے قریب ) جا کر عمرے کا احرام باندھا اور مدینہ میں داخل ہوئے بغیر مکہ واپس چلے گئے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۱۴۶ ح ۱۲۹۴۰ وسندہ صحیح ]معلوم ہوا کہ تنعیم سے عمرے کرنا بہتر نہیں ہے ۔
    ۱۷: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص حج کے مہینوں میں عمرہ کرکے واپس چلا جائے تو یہ شخص تمتع کرنے والا نہیں ہے ۔ [ابن ابی شیبہ ۳؍۱۵۲ ح ۱۳۰۰۴ وسندہ حسن ]
    اور یہی قول ابو بکر بن ابی شیبہ کا ہے ۔ [ ایضاً : ۱۳۰۰۳ ] یعنی یہ شخص حج اِفراد یا حج قِران کر سکتا ہے اور اگر حجِ تمتع کرنا چاہے گا تو اسے دوبارہ عمرہ کرنا پڑے گا ۔
    ۱۸: عامر الشعبی( تابعی)کے نزدیک رمضان میں عمرہ کرنا حجِ اصغر ( الحج الأصغر) ہے۔
    [ ابن ابی شیبہ۳؍۱۵۵ ح ۱۳۰۲۷ وسندہ صحیح ]
    ۱۹: ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ لوگ سال میں صرف ایک عمرہ کرتے تھے ۔
    [ ابن ابی شیبہ ۳؍ ۱۲۷ ح ۱۲۷۲۹ وسندہ حسن ]
    محمد بن سیرین کے نزدیک ایک سال میں صرف ایک ہی عمرہ کرنا چاہئے ۔ [ایضاً: ۱۲۷۲۷ وسندہ صحیح ]
    اگرچہ یہ اقوال مرجوح ہیں لیکن جو لوگ تنعیم ( مسجد عائشہ) سے عمرے کرتے رہتے ہیں، اُ ن پر اِن اقوال سے رد ہوتاہے ۔
    ۲۰: طاؤس کے ایک قول کا خلاصہ و مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص احرام باندھتے وقت حج یا عمرہ کا لفظ نہ کہے تو فرق نہیں پڑتا ، دل کی نیت کافی ہے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۳۳۴ ح ۱۴۸۳۷ وسندہ صحیح ]
    یہی تحقیق عطاء بن ابی رباح اور ابراہیم نخعی کی ہے ۔ [ایضاً: ۱۴۸۴۱ وسندہ صحیح ، ۱۴۸۴۳ وسندہ حسن ]
    ۲۱: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایاکہ حج : العج ( لبیک کی ؍آوازیں بلند کرنا) اور الثج (قربانی کا؍خون بہانا) کا نام ہے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۳۵۴ ح ۱۵۰۴۵ وسندہ صحیح ]
    ۲۲: جو شخص سعی کرتے وقت (غلطی اور بھول سے ) سات کے بجائے چودہ پھیرے( چکر) لگالے تو عطاء بن ابی رباح کے ایک قول میں اس کی سعی ہوگئی ہے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۳۸۶ ح ۱۵۳۷۴وسندہ صحیح ] اور یہی راجح ہے ۔
    ۲۳: حسن بصری کے نزدیک جو شخص طواف میں ( بھول کر ) چھ(۶) چکر لگائے ( یعنی ساتواں چکر رہ جائے ) تو اسے دوسرا طواف کرنا چاہئے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۴۲۶ ح ۱۵۷۸۹ وسندہ صحیح ]
    ۲۴: قاسم بن محمد مُزدَلِفَہ ( کی وادی) سے ، جمرات کو مارنے کے لئے ، کنکریاں لیتے تھے ۔
    [ ابن ابی شیبہ ۳؍۱۹۶ح ۱۴۳۵۵ وسندہ صحیح ]
    ۲۵: قاسم بن محمد کنکریاں دھوتے تھے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۳۷۹ ح ۱۵۲۹۸ وسندہ صحیح ]
    لیکن عطاء بن ابی رباح اور زہری ، کنکریاں نہ دھونے کے قائل تھے ۔
    [ ایضاً : ۱۵۳۰۰ وسندہ صحیح ، ۱۵۲۹۷ وسندہ صحیح ]
    اور یہی قول راجح ہے ۔ تاہم اگر کنکریوں کے ساتھ گندگی لگی ہوئی ہو تو انھیں دھونا جائز ہے یا انھیں پھینک کر دوسری صاف کنکریاں اُٹھالیں ۔
    ۲۶: جوشخص جَمرہ کو سات بدلے چھ (۶)یا پانچ(۵) کنکریاں مار کر چلا جائے تو حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابی سلیمان (دوعالموں ) کے نزدیک اس پر دم ( بکری ذبح کرنا) لازم ہے ۔
    [ ابن ابی شیبہ ۳؍۱۹۴ح ۱۳۴۳۷ وسندہ صحیح ]
    ۲۷: جس طرف سے کنکریاں مارنا آسان ہو تا تو قاسم بن محمد اسی طرف سے کنکریاں مارتے تھے ۔ [مؤطا امام مالک ۱؍۴۰۷ ح ۹۴۴ وسندہ صحیح ] اور اسی کا فتوی دیتے تھے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۱۹۲ ح۱۳۴۱۸ وسندہ صحیح ]
    ۲۸: سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ قربانی والے دن کو الحج الأکبر کہتے
    تھے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۳۶۰ ح ۱۵۱۰۲ وسندہ صحیح ]
    عوام الناس میں یہ مشہور ہے کہ اگر جمعہ کے دن حج آجائے تو یہ حجِ اکبر ہوتا ہے ۔ ا س قول کی کوئی دلیل مجھے معلوم نہیں ہے ۔ واللہ اعلم
    ۲۹: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب صفا( پہاڑی) پر چڑھتے تو قبلہ رُخ ہو کر تین دفعہ اللہ اکبر کہتے اور اونچی آواز سے فرماتے : لا الٰہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شي ء قدیر ، پھرکافی دیر تک دعا کرتے رہتے تھے ۔
    [ ابن ابی شیبہ ۳؍۴۱۵ح ۱۵۶۷۶ وسندہ صحیح ]
    قاسم بن محمد نے کہا( صفااور مروہ پر) کوئی خاص مقرر دعا نہیں ہے جو ( نیک ) دعا چاہے مانگ سکتے ہیں ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۲۹۷ ح ۱۴۴۹۶ وسندہ صحیح ]
    ۳۰: سعید بن جبیر طواف میں حجر اسود کا رُخ کر کے دونوں ہاتھ اُٹھا تے اور تکبیر کہتے ، جبکہ عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ تکبیر کہہ اور اس کے ساتھ دونوں ہاتھ نہ اُٹھا ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۱۶۷ ح ۱۳۱۵۵ وسندہ صحیح ]
    ۳۱: اسود (بن یزید ، تابعی) نے کوفہ سے احرام باندھا تھا ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۱۲۲ ح ۱۲۶۸۲ وسندہ صحیح ] معلوم ہوا کہ اسلام آباد ائیر پورٹ (وغیرہ ) سے احرام باندھنا صحیح ہے ۔
    ۳۲: ابو قلابہ ( تابعی) جب اس شخص سے ملتے جو عمرہ کر کے آیا تھا تو فرماتے : ’’ بر العمل ، برالعمل ‘‘ عمل نیک ہو ، عمل نیک ہو ۔[ ابن ابی شیبہ ۳؍۴۲۸ ح ۱۵۸۰۷ وسندہ صحیح ]
    معلوم ہوا کہ حج اور عمرہ کرنے والے کو مبارکباد کہنا جائز ہے ۔
    ۳۳: سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے فرمایاکہ جمرات کو کنکریاں مارنے کے دوسرے دن اگر کوئی شخص شام سے پہلے مِنٰی سے نکل نہ سکے ، شام ہو جائے تو اسے مِنٰی میں ٹھہرنا چاہئے ، وہ اگلے دن زوال کے بعد کنکریاں مار کر واپس جائے ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۱۳۴ ح ۱۲۸۰۵ وسندہ صحیح ]
    ۳۴: محمد بن سیرین نے کہا کہ لوگوں کے نزدیک ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمررضی اللہ عنہما کے بعد) حج کے سب سے بڑے عالم سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور پھر اُن کے بعد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۴۱۴ ح ۱۵۶۷۱ وسندہ صحیح ]
    ابو جعفر ( محمد بن علی الباقر) کے نزدیک ( زمانۂ تابعین میں ) حج کے سب سے بڑے عالم عطاء بن ابی رباح ہیں ۔ [ ایضاً: ۱۵۶۷۳وسندہ صحیح ]
    ۳۵: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ایک قول کا خلاصہ یہ ہے کہ جوشخص حج کے لئے جائے تو یہ نہ کہے کہ میں حاجی ہوں ، بلکہ وہ یہ کہے کہ میں مسافر ہوں ۔ [ ابن ابی شیبہ ۳؍۲۵۶ ح ۱۴۰۷۷ وسندہ صحیح ]
    ۳۶: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے ایک قول کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح حَرَم (مکہ) میں نیکی کرنے کا بہت ثواب ہے اسی طرح یہاں گناہ کرنے کا جرم بھی بہت زیادہ ہے ، یعنی گناہ کی زیادہ سزا ملے گی ۔ [ مصنف عبدالرزاق ۵؍۲۸ح ۸۸۷۰ وسندہ صحیح ]واللہ اعلم
    ۳۷: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ زمزم ( مدینے ) لے جاتی تھیں اور بیان کرتی تھیں کہ
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( بھی) اپنے ساتھ زمزم کا پانی لے جاتے تھے ۔
    [سنن الترمذی : ۹۶۳ وسندہ صحیح ، وقال: ھذا حدیث حسن غریب إلخ]
    ۳۸: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن ( ۱۰ ذوالحجہ ) صحابۂ کرام رضی الله عنہم کو فرمایا:(( إِنَّ ھٰذَا یَوْمٌ رُخِّصَ لَکُمْ إِذَا أَنْتُمْ رَمَیْتُمُ الْجَمْرَۃَ أَنْ تَحِلُّوْ ا یَعْنِيْ مِنْ کُلِّ مَا حُرِمْتُمْ مِنْہُ إِلَّا النِّسَا ءَ، فَإِ ذَا أَمْسَیْتُمْ قَبْلَ أَنْ تَطُوْفُوْ ا ھٰذَا الْبَیْتَ صِرْتُمْ حُرُماً کَھَیْتِکُمْ قَبْلَ أَنْ تَرْ مُوا الْجَمْرَۃََ حَتّٰی تَطُوْفُوْا بِہٖ))
    اس دن تمھیں یہ رخصت ( اجازت ) دی گئی ہے کہ اگر تم جمرہ کو کنکریاں مار لو تو تم پر ( احرام وحج کی) تمام پابندیاں ختم ہیں سوائے اپنی بیویوں سے جماع کے ( یہ اس حالت میں جائز نہیں ہے)
    اگر خانہ کعبہ کا طواف ( طوافِ زیارت) کرنے سے پہلے تم پر شام ہو جائے تو طواف سے پہلے تک تم پر احرام کی پابندیاں دوبارہ لَوٹ جائیں گی ، یعنی تمہیں طواف زیارت تک دوبارہ احرام باندھنا پڑے گا۔[سنن ابی داؤد : ۱۹۹۹ وسندہ حسن ، وصححہ ابن خزیمہ: ۲۹۵۸]
    یہ ایک اہم مسئلہ ہے اسے خوب یاد رکھیں ۔
    ۳۹: حج کی تینوں قسمیں ( اِفراد، قِران اور تمتع) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔ ان میں سے کوئی قسم بھی منسوخ یا ناجائز نہیں ہے ۔
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    (( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ ، لَیُھِلَّنَّ ابْنُ مَرْیَمَ بِفَجِّ الرَّوْحَاءِ حَاجًا أَوْ
    مُعْتَمِرًا أَوْ لَیَثْنِیَنَّھُمَا ))
    اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، البتہ ضرور( عیسیٰ ) ابن مریم (علیہماالسلام) حج افراد یا حجِ تمتع یا حجِ قِران کی لبیک کہتے ہوئے،روحاء کی گھاٹی میں سے (بیت اللہ کی طرف) آئیں گے ۔
    [ صحیح مسلم: ۲۱۶؍۱۲۵۲ ودار السلام : ۳۰۳۰ والسنن الکبریٰ للبیہقی ۵؍۲]
    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حجِ افراد قیامت تک باقی اور غیر منسوخ رہے گا لہٰذا اسے منسوخ کہنا غلط اور باطل ہے ۔ اس صحیح حدیث پر ابن حزم ظاہری کی عجیب وغریب جرح باطل ہے ۔ سیدنا امیر المؤمنین علی بن ابی طالبرضی اللہ عنہنے سیدنا امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہکو فرمایاتھا:
    (( مَنْ أَفْرَدَ بِالْحَجِّ فَحَسَنٌ وَمَنْ تَمَتَّعَ فَقَدْ أَخَذَ بِکِتَابِ اﷲِ وَسُنَّۃِ نَبِیْہِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ))
    جس نے حجِ افراد کیا تو اچھا ہے اور جس نے حج تمتع کیا تو اس نے قرآن مجیداور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ( دونوں ) پر عمل کیا ۔ [السنن الکبریٰ للبیہقی ۵؍۲۱ وسندہ صحیح ]
    ۴۰: فاطمہ بنت المنذر ( تابعیہ ، ہشام بن عروہ کی بیوی ) فرماتی ہیں :
    ((کُنَّا نُخَمِّرُ وُجُوْھَنَا وَنَحْنُ مُحْرِمَاتٌ، وَنَحْنُ مَعَ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِيْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ ))
    ہم ( عورتیں ) حالتِ احرام میں ( مردوں سے ) اپنے چہرے چھپا لیتی تھیں اور ہمارے ساتھ ابو بکر الصدیق (رضی اللہ عنہ) کی بیٹی اسماء ( رضی اللہ عنہا) ہوتی تھیں ۔
    [موطا امام مالک ۱؍۳۲۸ ح ۷۳۴ وسندہ صحیح ]
    ۴۱: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
    (( مَنْ نَسِيَ مِنْ نُسُکِہٖ شَیْءًا أَوْ تَرَکَہٗ فَلْیُھْرِقْ دَمًا ))
    جو شخص اپنے حج و عمرہ سے کوئی ( لازمی ) عمل بھول جائے یا ترک کر دے تو اس شخص پر دم ہے ، یعنی اسے بکری ذبح کر کے مساکینِ حرم میں تقسیم کرنی پڑے گی ۔
    [ السنن الکبریٰ للبیہقی ۵؍۳۰ وسندہ صحیح ، مالک فی الموطا ۱؍۴۱۹ ح ۹۶۸ وسندہ صحیح ]
    معلوم ہوا کہ عورتوں کے لئے یہ بہتر ہے کہ وہ حالتِ احرام میں بھی غیر مردوں سے اپنے چہرے چھپائیں ۔
    وما علینا إلا البلاغ
    (۱۵ ربیع الثانی ۱۴۲۶ھ)

    ماخذ: فیس بک
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں