مفتی عبدالرحمن الرحمانی غفرہ اللہ لہ ولوالدیہ

اہل الحدیث نے 'مسلم شخصیات' میں ‏نومبر 8, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    مفتی عبدالرحمن الرحمانی غفرہ اللہ لہ ولوالدیہ


    از حافظ عبید الرحمن ثاقب بن مفتی عبدالرحمن الرحمانی


    موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا قطعی فیصلہ ہے جس کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہے۔ أَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکُکُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِی بُرُوْجٍ مُشَیَّدَۃٍ (النساء 78)کیونکہ آج تک نہ کوئی اس فیصلہ سے بچ سکا ہے اور نہ ہی بچ سکے گا۔کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ یہ ایک ایسا کڑوا گھونٹ ہے جسے ہر ایک نے پینا ہے۔کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ ۔ اس لئے نبی اکرم e صحابہ کرام کے ذہنوں سے استحضار موت کی کیفیت کو اوجھل نہ ہونے دیتے تھے کہیںآپ e نے موت کو کثرت سے یاد کرنے کا حکم دیا۔أَکْثِرُوا ذِکْرَ ہَاذِمِ اللَّذَّاتِ . یَعْنِی الْمَوْتَ لذتوں کو ڈھا دینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔ تو کہیںیا د موت کو مستحضر رکھنے والوں کو عقلمند کہا ہے۔ ابن عمرt کے استفسار پر کہ مومنوں میں سے عقلمند و دانا کون ہے ؟ فرمایا أَکْثَرُہُمْ لِلْمَوْتِ ذِکْرًا وَأَحْسَنُہُمْ لِمَا بَعْدَہُ اسْتِعْدَادًا أُولَئِکَ الأَکْیَاسُ جو موت کو سب سے زیادہ یاد کرتاہو اور موت کے بعد آنے والے وقت کے لئے اچھی تیاری کرتاہو وہ سب سے زیادہ عقلمند ہے۔ کبھی نصیحت کا مطالبہ کرنے والے صحابی کو ترغیب دلائی إِذَا قُمْتَ فِی صَلاَتِکَ فَصَلِّ صَلاَۃَ مُوَدِّعٍ جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو زندگی کی آخری نماز سمجھ کر پڑھ‘ تو کبھی قبر کے کنارے بیٹھے ہوئے آپ کی آنکھوں سے اشک رواں ہوگئے۔ آنسو بہاتے بہاتے قبر کی مٹی تر ہوگئی۔ آپ نے صحابہ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:

    یَا إِخْوَانِی لِمِثْلِ ہَذَا فَأَعِدُّوا اے میرے بھائیو! اس جیسی جگہ یعنی قبر کے لئے تیاری کرلو۔

    بہر حال موت برحق ہے اور ہر کسی کو مرنا ہے لیکن ایک عالم کی موت عام آدمی کی موت سے مختلف ہوتی ہے۔ والد محترم اور استاد مکرم مفتی عبدالرحمن الرحمانی غفر اللہ لہ ووالدیہ کی وفات کا سانحہ بھی کچھ ایسا ہی ہے اور کچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار کر گیا لیکن زبان پھر بھی یہی کہہ رہی ہے کہ إِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ ، وَالْقَلْبَ یَحْزَنُ ، وَلاَ نَقُولُ إِلاَّ مَا یَرْضَی رَبُّنَا ، وَإِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا إِبْرَاہِیمُ لَمَحْزُونُونَ

    ’’بے شک آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمزدہ ہوتا ہے لیکن ہم صرف وہی کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہوتا ہو۔ اولاد ابراہیم ہم تیری جدائی پر یقینا غمگین ہیں۔‘‘

    ایک کثیر الجہت شخصیت کے بارے میں یہ مضمون سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے کیونکہ راقم قلمی مزاج نہیں رکھتا بلکہ اس وادیٔ قلم و قرطاس میں نووارد ہے‘ بہر حال کچھ قلبی تاثرات ہیں جنہیں الفاظ کا جامہ پہنانے کیلئے قلم کا سہارا لیا ہے۔

    والد محترم صاحب رحمہ اللہ کی موت ایک عظیم اور اچھے انسان کی موت ہے۔ ایسے انسان جنہوں نے اقدار و روایت کی غارت گری کے بے مہر موسموں میںبھی حسن کردار و عمل کے چراغ روشن رکھے۔ آپ کندن جیسے کھرے انسان تھے جو منصب افتاء و قضاء کے حساس عہدے پر فائز رہنے کے باوجود اپنے دامن پر بدعنوانی کی چھینٹ چھوڑ کر نہیںگئے۔ آپ کا تعلق ایک متوسط زراعت پیشہ خاندان سے تھا۔ تین سال کی عمر میںہندوستان کے ضلع جالندھرسے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ پرائمری تک ابتدائی تعلیم گائوں کے سکول میں حاصل کی۔ بعد ازاں شہر جاکر مڈل کا امتحان پاس کیا۔ پھر دادا جان نے آپ کے شوق اور اپنی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے دینی مدرسہ میں داخل کروایا۔ جہاں آپ نے رائج الوقت دینی نصاب تعلیم مکمل کیا اور معروف دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ لاہور سے سند فراغت حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے عربی اور ادبی ذوق کی تکمیل کے لئے فاضل عربی‘ فارسی اور فاضل اردو کے امتحانات بھی انٹرمیڈیٹ بورڈ ملتان سے نمایاں حیثیت میںپاس کئے۔

    تعلیمی مراحل بڑی مشکلات اور صبر آزما مراحل سے گزر کر طے کئے۔ آپ کو شروع سے حصول علم کا بہت زیادہ شوق تھا۔ اس شوق کی تکمیل کے لئے مختلف مدارس کی خاک چھانی‘ دور دراز کے سفر کئے‘ مالی مشکلات کا سامنا کیا اور اساتذۂ کرام کے لئے ہر قسم کی خدمات سر انجام دیں۔ جہاں کہیں کسی ماہر فن کا پتہ چلتا اس کا سارا علم سمیٹنے کے بعد اگلے علمی سفر کی تیاری شروع کردیتے۔ تدریسی زندگی کا آغاز سرگودھا کے ایک قصبہ بھیرہ سے کیا‘ جہاں ایک سال پڑھانے کے بعد 1966 میں عبدالحکیم نامی شہر میں تشریف لائے اور عرصہ دراز تک طالبان علم نبوت کی تشنگی دور کرتے رہے۔ 1978 میں اپنی ذاتی جگہ خرید کر جامعہ رحمانیہ سراجیہ کی بنیاد رکھی اور تاحیات اس کے صدر مدرس رہے۔ طلبہ کے ساتھ ساتھ ساری اولاد کو بھی خود ہی زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ راقم کے تعلیمی سلسلہ کا آغاز والدہ محترمہ سے شروع ہوا‘ جنہوں نے ناظرہ قرآن مجید پڑھایا اور اردو لکھنا پڑھنا سکھایا۔ اس کے بعد والد محترم سے دینی علوم کی تحصیل میں مصروف ہوگیا۔

    آغاز سے لے کر اختتام تک تمام تعلیمی مدارج انہی کے پاس طے کئے‘ اگرچہ دیگر اساتذہ کرام سے پڑھنے کا موقعہ بھی ملا لیکن احقر نے سب سے زیادہ علم انہی سے حاصل کیا۔ ان کا انداز تدریس نہایت عمدہ تھا ۔حل عبارت اور فہم کتاب پر خصوصی توجہ دیتے۔ ان کو فن نحو میں دسترس حاصل تھی۔ اور یہی وصف وہ اپنے تلامذہ میں بھی دیکھنا چاہتے تھے ۔ وہ عظیم المرتبت استاذ تھے۔ نرمی اور توجہ سے سبق سمجھاتے لیکن موقع مناسبت سے شفقت پدری سختی کرنے سے مانع نہ ہوتی تھی۔ سبق کی خوب تشریح کرتے‘جب کوئی دعوتی یا تبلیغی سفر درپیش ہوتا تو سفر سے پہلے یا بعد میں اضافی وقت لگا کر اسباق کی تکمیل کرتے۔ طلبہ کے ساتھ آپ کی خصوصی محبت تھی۔ درپردہ مستحق طلبہ کی مالی معاونت بھی کرتے اور ان کی ہر قسم کی ضروریات کا خیال رکھتے۔

    ابتلاء اللہ تعالیٰ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے جو اللہ تعالیٰ ہر مومن بندہ پر جاری فرماتا ہے حتی کہ اس سنت الہٰی کے تحت انبیاء و رسل بھی مختلف النوع مصائب و الآم سے دوچار ہوئے۔ متعدد بار یہ سنت والد محترم پر بھی جاری ہوئی۔ 1982 ء میں جب اپنی والدہ کے ساتھ سفر حج پر گئے تو آپ کی فکر میں تبدیلی آنا شروع ہوئی پھر 1987ء میں آپ نے مسلک حقہ کو قبول کرنے کا اعلان کیا تو سارا علاقہ دشمن بن گیا۔ کبھی آپ ہجرتوں کے سفر سے دوچارہوئے تو کبھی سنت یوسفی کا سامنا کرنا پڑا کبھی شعب ابی طالب کی طرح آپ کامعاشی و معاشرتی بائیکاٹ کیا گیا تو کبھی آپ کے گھر کے در ودیوار کو ڈھایا گیا۔ کبھی کتب خانہ جلادیا گیا تو کبھی جھوٹے مقدمات میں گھسیٹا گیا۔ الغرض مصائب کے پہاڑ تھے جو توڑے گئے لیکن پایہ عزم و استقلال میں کبھی کمی نہ آئی۔ میں نے انہیں جوانی اور بڑھاپا دونوں حالتوں میں دیکھا اورہمیشہ چاق چوبند پایا۔ محرک اور متحرک زندگی کے قائل تھے۔ تیز چلتے اور دوسروںکوبھی تیز روی اختیار کرنے کی ترغیب دیتے‘ صحت ہمیشہ قابل رشک رہی۔ جفاکشی اور محنت سے نہ گھبراتے۔ گھریلو کام کاج کرتے ہوئے مستری مزدور دونوں کا ہاتھ بٹاناان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ کام میں عار محسوس نہ کرتے بلکہ گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے مستریوں کوبلوانے کی بجائے خود کرنے کو ترجیح دیتے۔

    والد محترم کو طب سے بھی خاصا شغف تھا۔ زندگی کے آخری دس سالوں میں علمی و دعوتی مصروفیات کی بناء پر طب سے توجہ ہٹالی تھی ورنہ وہ باقاعدہ ایک مستند حکیم تھے بلکہ حکمت کے امتحان میں اول آنے پر انہیں طبیہ کالج لاہور کی طرف سے گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا تھا۔ ہلکی پھلکی تکلیف کو محسوس نہ کرتے اور ڈاکٹروں کے پا س جانے کی بجائے نہ صرف اپنا علاج خود کرتے بلکہ اہل خانہ کے بارے میں بھی ان کا یہی طریقہ کار تھا۔

    کتابوں سے محبت اور اچھی کتابیں جمع کرنے کا شوق انہیں زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔ گھر سے تعلیمی اخراجات کے لئے بہت کم رقم ملتی لیکن اس میں سے بھی اکثر حصہ وہ کتابوں پر خرچ کردیتے تھے اور گھر سے زاد راہ کے طور پر ملنے والے دیسی گھی کو بیچ کر بھی اپنے شوق کی تکمیل کرتے تھے۔ کتابوں کا شوق انہیں آخر تک دامن گیر رہا۔ ہر اچھی اور علمی کتاب کو لائبریری کی زینت بناتے۔ اصل مراجع و مصادر سے زیادہ استفادہ کرتے۔ اردو کی بجائے عربی کتب پر زیادہ انحصار تھا۔

    شروع سے ہی تحریکی ذہن کے حامل تھے۔ زمانہ طالب علمی کے اختتام اور تدریس کے آغاز پر 1965ء میں ہندو پاک جنگ چھڑ گئی والد محترم اس وقت بھیرہ ضلع سرگودھا میں مقیم تھے۔ سرگودھاایک اہم ہوائی اڈہ ہونے کے ناطے دشمن کا خاص ہدف تھا۔ آپ نے پاک فوج کے ہمراہ اپنے طلبہ کی معیت میں مورچوں کی کھدائی اور دیگر امور میں شانہ بشانہ حصہ لیا۔ دادا جان نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے دادی مرحومہ کی بیماری کا خط لکھ کر آپ کو گھر بلوالیا۔ گھر توآئے لیکن جب پتا چلا کہ یہ صرف ان کو واپس بلوانے کا ایک ذریعہ تھا تو فوراً جس تانگہ پر بیٹھ کر گائوں آئے تھے‘ اس پر بغیر کچھ کھائے پئے شہر کی طرف چل دیئے اور کہا کہ موت کا وقت مقرر ہے وہ مورچوں میں بھی آسکتی ہے اور یہاں بھی آسکتی ہے‘ آپ لوگ دعا کریں۔

    دسمبر 1971 میںجب مشرقی پاکستان سے پاکستانی فوجیوں کے تھکے ماندہ اور زخم خوردہ قافلے ریل گاڑی کے ذریعے عبدالحکیم اسٹیشن سے گزرتے تو آپ نے اہلیان شہر کے تعاون سے ان کے لئے کھانا پکوایا اور راشن جمع کرکے ان کے حوالے کیا۔ نوے کی دہائی میں جب روسی سامراج نے پڑوسی ملک افغانستان پر اپنے غاصبانہ قدم جمائے تو دعوت و جہاد کی تحریک میں انہوں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔

    اپنے ذاتی موٹر سائیکل پر دور دراز کے سفر کئے۔مختلف مدارس اور اجتماعات میں جاکر عوام و طلبہ میںجہادی روح کو بیدار کیا۔ جہاد افغانستان نامی کتاب لکھ کر تحریک جہاد میں قلمی حصہ ڈالا۔ اپنے شاگردوں کو اس عظیم عمل کے لئے تیار کیا۔ اپنی جیب سے انہیں زاد راہ د ے کر رخصت کیا۔ آپ کے شاگردوں میں سے خالد زبیر شہید کا نام قابل ذکر ہے جو افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔

    والد محترم اخلاق فاضلہ و جلیلہ کے حامل تھے۔ حق گوئی‘ راست بازی اور جرأت و بہادری آپ کا امتیازی وصف تھا۔ آپ کی زندگی تقویٰ و پاکدامنی سے عبارت تھی۔ آپ الفت و محبت‘ زہد و تقویٰ ‘ لطف و کرم ‘ تواضع و انکساری‘ حلم و بردباری‘ صبر و شکر‘ علم و ادب ‘ ضبط و تحمل‘ سادگی اور حسن اخلاق جیسے اوصاف و محاسن کے پیکر تھے۔ آپ کی جوانی انابت الی اللہ اور آہ سحر گاہی کا عملی نمونہ تھی۔ شگفتگی ان کی طبیعت کا حصہ تھی‘ جس سے بھی ملتے‘ مسکرا کر ملتے اور ایسا انداز اختیار کرتے گویا ملنے والے کو پہلے سے جانتے ہوں۔

    حد درجہ کی سنجیدگی اور متانت ان کی شخصیت سے جھلکتی تھی۔ طبیعت بہت سادہ تھی۔ جس کی جھلک ان کے لباس‘ وضع قطع اور شخصیت و کردار سے ظاہر ہوتی تھی۔ علم دوست اور علم پرور تھے کبھی کسی سائل کو رد نہ کرتے۔ تواضع و انکساری ان کی طبیعت کا خاص رنگ تھا۔ نمود و نمائش اور تکلف سے عاری تھے۔ غرور و تکبرنام کی کوئی چیز ان میں نہ تھی۔ باوقار خوش اخلاق اور کم سخن تھے لیکن بات کرتے تو گویا منہ سے پھول برستے تھے۔ کسی کا دکھ درد دیکھتے تو ضرور اس کی مدد کرتے۔ نہایت حلیم الطبع ‘احسان پسند‘ پاکیزہ مزاجی‘ خدا ترس اور حقیقت شناس انسان تھے۔

    1987ء میں قرآن و سنت کا سچا پیرو بننے کے بعد دعوت الی اللہ کی ابتدا حنفی مسلک پر علمی تنقیدسے شروع کی۔ علمی مناظروں اور مباحثوں کا ایک طویل سلسلہ آپ کی زندگی میں ملتا ہے۔ بعض اوقات متعصب مسلکی علماء اور بدعتی لوگوں سے شدید معارضے اور جھگڑے کی نوبت بھی آجاتی لیکن آپ فاصفح الصفح الجمیل کا عملی مظاہرہ کرتے اور قرآن و سنت کی دعوت کا پرچار کرتے رہے۔

    فن خطابت میں دسترس حاصل تھی۔ اخلاص و لگن سے بھر پور قلب و فکر بھی اللہ کی طرف سے آپ کو عطا ہوا تھا جس کی وجہ سے آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ قرآن و سنت کی دعوت کو عام کرنے کے لئے سفروں میں گزرا۔ آپ بسوں ‘ رکشوں‘ تانگوں اور سائیکل پر بیٹھ کر اور میلوں پیدل چل کر تقریر کرنے پہنچتے ۔گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ ہوتی یا سردیوں کے سخت ٹھنڈے دن آپ کے معمول میں کوئی فرق نہ آتا۔ 1987 کے بعد سے ملتان جمعہ شروع کیا اور مختلف مساجد میں تقریا 20 سال تک جمعہ پڑھایا اور قرآن و سنت کی کرنوں سے لوگوں کے قلوب و اذہان کو منور کیا۔

    والد محترم رحمہ اللہ فن خطابت کے عظیم شاہسوار تھے۔ عمر کے تقاضے اور طویل تھکادینے والے سفر کے باوجود آواز کی شیرینی اور لطافت میں کمی نہ آئی۔ علمی نکات پر مشتمل گھنٹوں تقریر کرتے۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی جوان رعنا تقریر کر رہاہے۔ آواز کے اتار چڑھائو میں خصوصی مہارت حاصل تھی۔ کبھی سرگوشی کی سی آواز میں بات کرنا اورکبھی آسمان کے بادلوں کی طرح گرجنا آپ کا وصف تھا۔ ان کی تقریر علمی ہونے کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت کا ایک نادر نمونہ ہوتی تھی۔ آیات قرآن و احادیث اور دیگر متون کا ایک وسیع ذخیرہ ان کے نہاں خانہ دماغ میں محفوظ تھا۔ اپنے کلام اور خطابت میں حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے مطلوبہ کتاب اور باب تک بتاتے تھے۔ آپ کا ہر استدلال قرآن و سنت سے شروع ہوتا اور اسی پر ختم ہوا کرتا تھا۔ قرآن و حدیث آپ کے فکر و نظر کا محور تھے۔ ان کی ایک نمایاں خصوصیت دوراندیشی اور عمیق النظری تھی۔ نصوص قرآن و سنت پر حد درجہ اعتماد کرنے کے باوجود کسی کلام میں پنہاں حکمتیں آپ کی نظر سے پوشیدہ نہ رہتی تھیں۔ ذکاوت اور فہم و فراست کا ایک وافر حصہ عطیہ خداوندی تھا۔

    آپ پراللہ کا ایک خاص انعام یہ بھی تھاکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے فکر کو قبولیت عامہ سے نوازا تھا۔ آپ کی شخصیت کا علمی وقار و وجاہت اور رعب و دبدبہ حاضرین و سامعین کو مبہوت کردیتا تھا اور وہ آپ کی بات سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہوجاتے۔ آپ کی تقریر ٹھوس علمی بنیادوں پر مشتمل ہوتی جس میں باریک نکات‘ دقیق استدلال اور وسیع النظری جھلکتی تھی۔

    افتاء سے بڑا شوق وشغف تھا۔ ہر تقریر و خطبہ جمعہ کے بعد سوال و جواب کی نشست کا انعقاد ضرور کرتے ‘جس میں ہر خاص و عام کو ہمہ قسم کا سوال پوچھنے کی اجازت ہوتی تھی۔ سالہا سال تک مرکز ابن القاسم ملتان میں شعبہ افتاء و قضاء کے مدیر رہے۔ جامعہ رحمانیہ سراجیہ عبدالحکیم سے بھی ہزاروں کی تعداد میں فتاویٰ جاری کئے۔ وہ سائل کو کسی بھی وقت مسئلہ بتانے سے گریز نہ کرتے حتی کہ رات کو بھی کوئی سائل فون پر مسئلہ پوچھتا تو برا محسوس نہ کرتے او ربسا اوقات اہل خانہ آپ کی اس عادت سے پریشان ہوجاتے لیکن آپ کی پیشانی شکن آلود نہ ہوتی۔ افتاء کے ساتھ ساتھ قضاء بھی آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا‘ نہ صرف دینی بلکہ بہت سے دنیوی معاملات میں لوگ اپنا فیصلہ کروانے کے لئے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ آپ کو قرآن و سنت کے علاوہ رائج الوقت ملکی قوانین کا بھی خاصہ درک حاصل تھا۔ کئی وکلا آپ سے قانونی مشاورت کیا کرتے تھے۔ جماعت اور جماعتی زندگی سے بڑی محبت تھی۔ اہلحدیثوں کے اتحاد کے بڑے خواہاں تھے اور بلاامتیاز تمام اہلحدیث جماعتوں کے جلسوں اور اجتماعات میں جاتے تھے۔ تربیتی اجتماعات میں ان کا خطاب اکثر نظام خلافت و امارت پر ہی ہوتا تھا۔

    معاشرتی اعتبار سے ایک ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ہر چھوٹے بڑے شخص سے خندہ پیشانی سے ملتے اور اس کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے۔ مظلوم کی امداد اور داد رسی کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے۔ اگر کسی موقعہ پر گھرمیں یا گھر سے باہر کسی مسئلہ پر اختلاف رائے پیدا ہوجاتاتو دوسروں کی بات کو بڑے تحمل اور غور سے سن کر دلائل کا جائزہ لیتے اور دلائل کی بنیاد پر ہی اسے قبول یا رد کرتے۔

    انتہائی ذہین اور گونا گوں ممتاز خوبیوں کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت ایک محدث بھی تھے او رمفسر بھی ‘ مدرس بھی تھے اور محقق مناظر بھی‘ ایک حاذق و ماھر قاضی بھی تھے او رصاحب بصیرت مفتی بھی۔ علم فرائض و قضاء میں تو امامت کے درجہ پر فائز تھے۔ سنگین اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو سلجھانا ان کے بائیں ہاتھ کا کمال تھا۔ قتل جیسے سنگین نوعیت کے معاملات کا فیصلہ بھی بہت جلد کرلیا کرتے تھے۔ مختلف الجھے ہوئے پیچیدہ شرعی مسائل کے حل کے لئے ایک تسلیم شدہ مفتی تھے۔ ان کے فی البدیہہ فتاویٰ بھی تسلی بخش ہوا کرتے تھے۔ اجتہاد و استنباط کا مادہ و صلاحیت ان کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھا۔

    آپ نے مختصر سا علالت کا وقت گزارا 11 دسمبر 2009ء کو بیمار ہوئے اور 22 دسمبر کو خالق حقیقی سے جاملے۔ علاج کی غرض سے پہلے بہاولپور اور پھر لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں داخل رہے۔ آخری چند ایام میں کئی امراض و آلام لاحق ہوگئے تھے لیکن والدمحترم نے صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ بیماری کے بعد مسلسل ان کے ساتھ رہا لیکن ان کی زبان سے خالق یا مخلوق کا کوئی شکوہ نہیں سنا ۔ البتہ معافی مانگتے ہوئے میںنے خود سنا۔ انسان ساری زندگی جو کام کرتاہے‘ آخری لمحات میں انہی کی تصویر ایک فلم کی طرح ذہن میں گھومتی اور زبان پر جاری ہوتی ہے۔ والد محترم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جب قوت گویائی درست تھی متعدد بار میں نے ان کی زبان سے مختلف فیصلوں اور فتاویٰ جات سے متعلقہ باتیں سنیں۔ لیکن آخری چار ایام میں قوت گویائی جواب دے گئی۔ وہ زبان جو ساری زندگی حق و صداقت کا پرچارکرتی رہی ‘ دین متین سے متعلقہ مسائل لوگوں کو بتاتی رہی‘ خاموش تھی۔ وہ ہاتھ جنہوںنے ہزاروں کی تعداد میں فتاوی و فیصلے تحریر کئے تھے آج کچھ لکھنے سے قاصر تھے۔ آخر کار 22 دسمبر بروز منگل رات سات بجے فکر و بصیرت کا یہ روشن ستارہ‘ مقتدر عالم‘ باوقار مبلغ‘ صاحب بصیرت اور دور اندیش مفتی ‘ علم و فن کا امام ‘ تقریر و تحریر کے میدان کا شہسوار‘ دعوت و جہاد کے عظیم سفر کا راہی داغ مفارقت دے گیا اور رنج و الم سے بھر پور وہ گھڑی آن پہنچی جس کا انہیں انتظار تھا۔ زبان جس ہستی کی بقاء اور اس کا سایہ تا دیر قائم رہنے کی دعائیں کیا کرتی تھی ‘ آج انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے پر مجبور ہوگئی۔

    آپ کے ارتحال کی خبرپاکر ملک کے اطراف میں شائقین علم و دانش اور متبعین کتاب و سنت کے چہرے سوگوار ہوگئے۔ اللہ رب العزت آپ کی تمام مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت بخشے آپ کی لغزشوں سے درگزر کرکے آپ کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔ آمین
     
  2. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    انا للہ وانا الیہ راجعون
    آمین
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں