اسلامو فوبیا اور اس کے اسباب

توریالی نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏نومبر 16, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    اسلامو فوبیا اور اس کے اسباب
    شاہنواز فاروقی

    برطانیا میں ہونے والے ایک حالیہ سروے (رائے شماری)میں اہلِ برطانیا سے پوچھا گیا کہ ان کے ملک میں آباد مسلمانوں کا فی صد کیا ہے؟ اہلِ برطانیا نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ برطانیا میں موجود مسلمانوں کی تعداد مجموعی آبادی کا 21فی صد ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ برطانیا میں مسلمانوں کی آبادی 5 فی صد ہے۔امریکا میں مذکورہ سوال کے جواب میں لوگوں نے بتایا کہ یہاں مسلمانوں کی آبادی 15 فی صد ہے، جب کہ امریکا میں مسلمانوں کی آبادی مجموعی آبادی کا صرف ایک فی صد ہے۔فرانس کے لوگوں کے سامنے مذکورہ سوال رکھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ فرانس میں مسلمانوں کی آبادی 31 فی صد ہے، حال آنکہ،فرانس میں مسلمانوں کی آبادی مجموعی آبادی کا 8فی صد ہے۔

    یہاں سوال یہ ہے کہ مذکورہ حقائق سے کیا معلوم ہوتا ہے؟ ان حقائق سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ انتہائی تعلیم یافتہ معاشروں کے لوگ نیم خواندہ معاشروں کے لوگوں سے زیادہ لا علم ہیں۔ ان حقائق سے دوسری حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ اہلِ مغرب بد ترین اسلاموفوبیا کا شکار ہیں۔ لیکن اسلاموفوبیا کی اصطلاح بجائے خود اس لائق ہے کہ اس پر کلام کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلاموفوبیا کی اصطلاح سے عام طور پر منفی معنی برآمد کیے جاتے ہیں، اور نہ صرف یہ بلکہ ان معنی کا بار خود بیچارے مسلمانوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔

    ہم سب جانتے ہیں کہ فوبیا ایک نفسیاتی بیماری ہے اور کسی چیز کے شدید خوف کو ظاہر کرتی ہے۔ مغرب میں اسلاموفوبیا کے عام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مغربی دنیا کے لوگ اسلام کے شدید خوف میں مبتلا ہیں۔ مگر خوف کسی انتہائی طاقت ور چیز سے محسوس کیا جاتا ہے۔ انسان خدا سے ڈرتا ہے اس لیے کہ وہ خدا کو انتہائی طاقت ور سمجھتا ہے۔انسان جنوں اور بھوتوں سے خوف زدہ ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ انہیں اپنے آپ سے ہزاروں گُنا زیادہ قوی خیال کرتا ہے۔ انسان پانی یا آگ سے خوف محسوس کرتا ہے ، اس لیے کہ وہ انہیں اپنے آپ سے زیادہ پُر قوت خیال کرتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اسلام اور اہلِ مغرب کے تعلق کا ہے۔ وہ اپنے باطن میں اسلام کو انتہائی طاقت ور، دل کش اور اثر انگیز محسوس کرتے ہیں۔ مگر مغربی دنیا کے دانش ورکیا، بعض مسلمان اہلِ نظر بھی اسلاموفوبیا کی جڑیں مسلمانوں سے وابستہ منفی باتوں میں تلاش کرتے ہیں۔

    عرفان حسین نے 3 نومبر 2014ء کے ’’ڈانDawn‘‘ کی اشاعت میں شائع ہونے والے اپنے کالم Views from abroad: Causes of Islamophobiaمیں یہی کیا ہے۔ انہوں نے برطانیا ، امریکا اور فرانس میں ہونے والے رائے عامہ کے مذکورہ جائزوں کا ذکر کیا ہے اور اہلِ مغرب کے اسلاموفوبیا کی جڑیں مسلمانوں کی ’’بد نامِ زمانہ‘‘ خرابیوں میں تلاش کی ہیں۔ مثلاً انہوں نے کہا ہے کہ مسلم خواتین مغرب میں رہ کر بھی پردہ کرتی ہیں اور روایتی لباس زیبِ تن کرتی ہیں ۔مسلمان ہر جگہ حلال گوشت پر اصرار کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں جبری شادی کی اطلاعات بھی آتی ہی رہتی ہیں۔ مسلمان نہ شراب پیتے ہیں اور نہ شراب خانوں میں جاتے ہیں۔ اس پر طُرہ یہ کہ وہ سلمان رُشدی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے کارٹون بنانے والے کو مارنے کا اعلان بھی کرتے ہیں۔

    عرفان حسین کے بقول برطانیا میں مسلمانوں کے امیج کو ان رپورٹس سے شدید نقصان پہنچا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں بالخصوص پاکستانی نوجوانوں کے گروہ لڑکیوں کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔عرفان حسین کے بقول اگرچہ یہ گھناؤنا کام دوسرے مذاہب اور برادریوں کے لوگ بھی کرتے ہیں مگر برطانیا کے عمومی تناطر یا Perception میں پاکستانی اس کے زیادہ یا بطورِ خاص ذمہ دار ہیں۔ عرفان حسین کے بقول رہی سہی کسر مقامی دہشت گردی کے خطرے نے پوری کر دی ہے۔اس وقت مغربی ممالک میںؓ اُن مسلمان نوجوانوں کا ذکر عام ہے جو شام جا کر انتہا پسند گروپوں کے ساتھ مل کر بشار الاسد کی فوجوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰٰ میں ہونے والے واقعات بھی مسلمانوں کی ساکھ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً داعش نے دو برطانوی باشندوں کا سر قلم کیا تو برطانیا میں اس کے خلاف زبردست ردِ عمل ہوا۔

    عرفان حسین کے مطابق یہ تمام باتیں مغربی دنیا میں اسلاموفوبیا کو نہ صرف پیدا کر رہی ہیں بلکہ اس کو ہوا بھی دے رہی ہیں۔ عرفان حسین کے اس تجزیے میں ’’تصورِ مغرب‘‘ اور ’’تصورِ مسلمان‘‘ اہم ہیں۔ عرفان حسین کا تصورِ مغرب یہ ہے کہ مغرب ایک زبردست اور بالا دست طاقت ہے۔ اگر چہ وہ اسلاموفوبیا میں مبتلا ہے اور فوبیا ایک بیماری ہے، مگر اس بیماری کی جڑیں مغرب کی اپنی کمزوری میں نہیں بلکہ مسلمانوں کی خامیوں میں ہیں۔ یعنی عرفان حسین یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ مغرب بیمار ہے اور اپنی بیماری کا خود ذمہ دار ہے۔ عرفان حسین کا تصورِ مسلم یہ ہے کہ مسلمان خرابیوں اور عیوب کے مجموعے کے سوا کچھ نہیں۔ چناں چہ مغرب اگر انہیں برا خیال کرتا ہے تو اس میں مغرب کا کوئی قصور نہیں۔ جو قصور ہے مسلمانوں کا ہے۔ لوگ کہتے ہیں مسلم دنیا آزاد ہے، لیکن عرفان حسین کا زیرِ بحث کالم پڑھ کر خیال آتا ہے کہ مسلم دنیا ابھی تک ذہنی اور نفسیاتی غلاموں کی دنیا ہے۔ ایسے غلاموں کی دنیا، جو مغرب کے بیمار ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور جو مغرب کے فوبیا کا ذمہ دار بھی خود کو ٹھیراتے ہیں۔ غور کیا جائے تو اس بات کا مفہوم عیاں ہے اور وہ یہ کہ مغرب خود اپنے اسلاموفوبیا کا ذمہ دار ہے اور اس فوبیا کی جڑیں مسلمانوں کی کمزوریوں سے زیادہ مسلمانوں کی قوت میں پیوست ہیں۔ لیکن بات کا مفہوم کیا ہے؟

    مغرب کا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ اس کی سیکیولر اور لبرل فکر نے مذاہبِ عالم اور مذہبی تہذیبوں کا دھڑن تختہ کر دیا ہے۔ مغرب کی سیکیولر اور لبرل فکر عیسائیت کو کھا گئی۔ اس نے یہودیت کو ہضم کر لیا، ہندو ازم اور بدھ ازم کو دیوار سے لگا دیا۔ لیکن اسلام سیکیولر اور لبرل فکر کی نہ صرف مزاحمت کر رہا ہے بلکہ اس نے گزشتہ دو سو سال میں اپنے تشخص کا کامیابی کے ساتھ دفاع کیا ہے۔ چناں چہ اسلامی تہذیب مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود ایک زندہ تہذیب ہے۔ اس تہذیب کے دائرے میں عقائد پوری طرح سے محفوظ ہیں۔ عبادات کا نظام کام کر رہا ہے۔ مسلمان اخلاقیات میں کم زور ہیں مگر وہ اخلاقیات کے منکر نہیں ہیں۔ مغرب کا تجربہ یہ ہے کہ اس کے زیرِ اثر اگر مذہب فنا نہیں ہو گیا ہے تو بہ ہر حال ایک انفرادی مسٔلہ ضرور بن کر رہ گیا ہے، مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا اصرار ہے کہ ہمارا نظامِ سیاست و معیشت بھی اسلام کے تحت ہونا چاہیئے۔ مسلمانوں کو اگر اپنے اندر کوئی خامی اور کمی محسوس ہوتی ہے تو یہ کہ ہم زیادہ اچھے مسلمان کیوں نہیں ہیں؟ مغرب کے دانش ور، پالیسی ساز اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے ان حقائق پر مطلع ہیں، چناں چہ وہ اپنے معاشرے میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے خوف، نفرت اور حقارت پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

    مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کی قوت کے تین مظاہر کو براہِ راست دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ ان میں ایک مظہر یہ ہے کہ جو مغرب میں جا کر آباد ہوتا ہے مغرب کا ہو کر رہ جاتا ہے، وہ مغرب کے رنگ میں رنگا جاتا ہے، مغرب کی رنگینیاں اسے اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں، تاہم مسلمان مغرب کے ہر ملک میں گئے اور ان کی بڑی تعداد نے مغرب میں جذب ہونے سے انکار کر دیا، مغربی کلچر کی چمک دمک ان کی نگاہوں کو خیرہ نہ کر سکی۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس کرادار کا مظاہرہ ہزار طرح کی کمزوریوں کا شکار ہونے کے باوجود کیا۔ مغرب کو اسلام اور مسلمانوں کی قوت کے دوسرے مظہر کا تجربہ جہاد کے حوالے سے ہوا۔ مغربی دنیا 70سال تک کمیونزم کے خلاف صف آاراء رہی مگر وہ کبھی کمیونزم کو شکست نہیں دے سکی۔ لیکن جیسے ہی کمیونزم افغانستان میں اسلام اور مسلمانوں کی قوت کے سامنے آیا اسے شکست ہو گئی۔ یہ ٹیکنالوجی پر ایمان کی فتح تھی۔ یہ فوجی قوت پر جذبے کا غلبہ تھا۔یہ انسانی وسائل کے مقابلے پر مادی وسائل کی ناکامی تھی۔ اس ناکامی نے سوویت یونین اور اس کے نطریے کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان میں آئے تو انہیں بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

    اسلام اور مسلمانوں کی قوت کا تیسرا مظہر یہ ہے کہ اس وقت اسلام کے پاس نہ سیاسی طاقت ہے، نہ فوجی طاقت۔ اس کے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی کے کمالات ہیں نہ معاشی خوشحالی کے لے لشکارے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کا کردار بھی ایسا نہیں کہ کوئی اس سے متاثر ہو۔ اس کےباوجود اسلام اب تک مغربی دنیا میں لاکھوں اہلِ مغرب کو مسلمان بنا چکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان مسلمانوں میں معاشرے کے کمزور طبقات کے نمائندوں سے کہیں زیادہ بالائی طبقات کے نمائندے شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام اور مسلمان کمزوری کی حالت میں اگر یہ کر سکتے ہیں تو طاقت کی حالت میں وہ کیا نہیں کر سکتے؟ مغرب کے دانش ور، پالیسی ساز اور ذرائع ابلاغ کے پنڈت یہ بات سمجھتے ہیں چناں چہ وہ اپنے لوگوں میں شعوری طور پر نہ صرف یہ کہ اسلام کا خوف پیدا کرتے ہیں بلکہ اسے بڑھاتے بھی رہتے ہیں۔ اس خوف نے مغرب کو اپنے بنیادی نظریات کے ساتھ مذاق کرنے پر مائل کر دیا ہے۔

    مغرب کا اصرار ہے کہ ایک لفظ کا صرف ایک ہی مفہوم نہیں ہوتا بلکہ اس کے ایک سے زیادہ مفاہیم ممکن ہوتے ہیں۔ اس اصول کے تحت مغرب خیال اور ثقافت کے تنوع کا قائل تھا، مگر اب وہ مغرب میں آباد مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کوشاں ہے۔ اسے مسلمانوں کے حجاب اور لباس پر اعتراض ہے۔ اسے مسلمانوں کے حلال گوشت پر اعتراض ہے۔ یہاں تک کہ اسے مسلمانوں کی مسجد کے بلند میناروں پر اعتراض ہے۔ اس منظر نامے میں مغرب کی مشہورِ زمانہ تکثیر پسندی یا ’’ملٹی کلچر ازم‘‘تحلیل ہو رہا ہے۔ یہ منظر بھی ساری دنیا کے سامنے ہے کہ جیسے ہی کسی مسلم ملک میں کوئی اسلامی تحریک جمہوریت کے راستے اقتدار میں آتی ہے مغرب اس کے خلاف سازشیں کرنے لگتا ہے۔اس صورت حال نے مغرب کی جمہوریت پسندی کو مذاق بنا دیا ہے۔ یہ حقائق بتاتے ہیں کہ مغرب کا اسلاموفوبیا اسلام اور مسلمانوں کی طاقت سے زیادہ متعلق ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو مغرب کے لوگوں کو کم مسلمان زیادہ نہ نظر آتے۔

    روزنامہ جسارت، پاکستان
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں