مقدمہ از مؤلف

بابر تنویر نے 'دلوں کی اصلاح و پاکیزگی' میں ‏مارچ 14, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    مقدمہ از مؤلف

    بیشک ہر طرح کی تعریف اللہ ہی کے لیے ہیں، ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور ہم اپنے نفسوں کے تمام شرور اور اپنے آعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت دے دے اسے کوئ گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے گمراہ کردے، اسے کوئ ہدایت دینے والا نہیں۔
    اور میں گواہی دیتا ہو کہ نہیں ہے کوئ معبود حقیقی مگر اللہ وہ اکیلا ہے، اس کا کوئ شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کا بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور اس کے برگزیدہ، اس کے خلیل اور اس کی مخلوق میں سب سے افضل ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ قیامت سے پہلے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا، امانت کا حق ادا کردیا، امت کے ساتھ خیر خواہی کی اور اللہ کے راستے میں بھرپور جہاد کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسل کو موت آگئ اور آپ اسی پر قائم و دائم تھے۔ پس اللہ کی رحمتیں نازل ہوں آپ پر اور آپ کے آل و اصحاب پر تاقیامت احسان کے ساتھ آپ کی پیروی کرنے والوں پر۔ اما بعد:

    وقت حاضر میں اکثر لوگوں کے حالات پر نظر رکھنے والا ایک تعجب خیز اور حیرت انگیز چیز دیکھتا ہے، وہ دیکھتا ہے کا انواع و اقسام کی تزیین و آرائش کی چیزوں کے ذریعہ ظاہری حسن و جمال کو سنوارنے اور اسے خوشنما و دیدہ زیب بنانے کا زبردست اہتمام ہے۔ اور اسی وقت وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ باطنی امور (دلوں) کو سنوارنے اور ان کی اصلاح کرنے سے مکمل بے اعتنائ او رانتہائ غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ظاہری ٹیپ ٹاپ کو سنوارنے اور دلکش بنانے کے لیے کتنے ہی اوقات، کوشش اور طاقتیں صرف کی جاتی ہین۔، جبکہ دلوں اور باطنی امور کی اصلاح سے مکمل غفلت برتی جاتی ہے۔
    یہان تک کہ بہت سارے لوگون کا کام (مشغلہ) صرف اپنی شکل و صورت کو خوبصورت اور پرکشش بنانا رہ گیا ہے، چناچہ ایسے لوگوں پر اللہ جل و علا کا وہ فرمان صادق آتا ہے جو منافقین کو اوصاف بیان کرتے ہوۓ فرمایا ہے:

    سورہ المنافقون 4۔

    وَإِذَا رَ‌أَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْ‌هُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّـهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿٤

    جب آپ انہیں دیکھ لیں تو ان کے جسم آپ کو خوش نما معلوم ہو، یہ جب باتیں کرنے لگیں تو آپ ان کی باتوں پر (اپنا) کان لگائیں گویا کہ یہ لکڑیاں ہین دیوار کے سہارے سے لگائ ہوئیں، ہر (سخت) آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں، یہی حقیقی دشمن ہیں ان سے بچو، اللہ انہیں غارت کرے، کہاں سے پھرے جاتے ہیں۔

    یہ اس قوم کی صورت حال ہے، جس کی ظاہری شکل صورت بڑی خوبصورت اور اس کی باتیں دلکش تھیں، لیکن یہ چیز انہیں دیوار کے سہارے لگی ہوئ بے سود لکڑیوں کے دائرے سے باہر نہیں نکال سکی۔ چنانچہ یہ محض مناظر (ظاہری اور بناوٹی چیزیں) ہیں ان کی کوئ حقیقت نہیں اور یہ محض جسم ہیں ان میں ذرا بھی عقل (سمجھ بوجھ) نہیں، اور یہ ایک گھٹیا حالت ہے جسے کوئ بندہ مومن اپنے لیے پسند نہیں کرے گا، بلکہ بندہ مومن کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ وہ اپنے باطن کی اصلاح نہ کرلے اور اپنے دل کو پاکیزہ و طاہر نہ بنالے۔

    لہذا ظاہری حسن و جمال بندے کو کوئ فائدہ نہیں پہنچا سکتے اگر اس کا باطن اور قلب فاسد اور قبیح ہو، وہ لوگ جنہیں ان کے اچھے احوال اور ظاہری حسن و جمال نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا اور اس کی وجہ سے وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کا آخرت میں بھی ان کا انجام بہتر ہوگا، ان کی تردید کرتے ہوۓ اللہ جل و علا نے فرمایا
    سورہ مریم 74
    وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْ‌نٍ هُمْ أَحْسَنُ أَثَاثًا وَرِ‌ئْيًا ﴿٧٤
    ہم تو ان سے پہلے بہت سے جماعتوں کو غارت کر چکے ہیں جو سازو سامان اور نام و غرور میں ان سے بڑھ کر تھیں۔

    اس آیت میں اللہ سبحانہ تعالی نے خبر دی ہے کہ اس سے اس سے پہلے بہت ساری قوموں کا ہلاک و برباد کر دیا جو حسین و جمیل شکلوں والے، کافی دولت و ثروت والے اور نہایت دیدہ زیب رعنائ والے تھے لیکن ساری چیزیں جن وہ لطف و اندوز ہو رہے تھے ان کے کچھ کام نہ آئیں، اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا
    سورہ غافر 82
    أَفَلَمْ يَسِيرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ فَيَنظُرُ‌وا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَكْثَرَ‌ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً وَآثَارً‌ا فِي الْأَرْ‌ضِ فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٨٢
    کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر اپنے سے پہلوں کا انجام نہیں دیکھا جو ان سے تعداد میں زیادہ تھے، قوت میں سخت اور زمین میں بہت ساری یاد گاریں چھوڑنے والے تھے۔ ان کے کۓ کاموں نے انہیں کچھ بھی فائدہ نہ پہنچایا۔

    معلوم ہوا باطن کا حسن و جمال اور دل کا صحیع و سالم ہونا ہی وہ اصل اور اساس ہے، جس پر اس دنیا میں آخرت میں یوم میعاد کی کامیابی و کامرانی کی بنیاد قائم ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

    الاعراف 26
    يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِ‌ي سَوْآتِكُمْ وَرِ‌يشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُ‌ونَ ﴿٢٦
    اے آدم علیہ السلام کی اولاد ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوی کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے، یہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔

    اللہ جل شانہ نے یہ بالکل واضح کر دیا ہے کہ تقوی کا لباس اور زینت تقوی، عمدہو شاندار لباس کے ذریعہ ظاہری حسن و جمال سے بڑھ کر اور بہتر ہے۔ لہذا کسی بھی بندہ کے لیے لباس تقوی سے مزین اور مرصع ہونا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک وہ اپنے قلب کی اصلاح نہ کرلے اور اسے پاکیزہ اور طاہر و صاف ستھرا نہ بنالے، کیونکہ تقوی کا اصلی ٹھکانہ دل ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:

    الحج 32
    ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ‌ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴿٣٢
    یہ سن لیا اب اور سنو! اللہ کی نشانیوں کی جو عزت و حرمت کے تو یہ اس کے دل کی پرہیز گاری کی وجہ سے ہے (یعنی یہ دل کے ان افعال سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیاد تقوی ہے)۔

    پس اللہ جل و علا نے دین کے تمام شعائر (امور) اور اسلام کے جملہ احکام کی تعظیم کرنے کو بندہ کے دل میں تقوی کے موجود ہونے کی دلیل قرار دیا۔

    صحیح مسلم میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے روایت کرتے ہوڑ فرماتے ہیں کہ اللہ جل و علا کا ارشاد ہے۔

    يا عبادي، لو أنَّ أوَّلَكم وآخرَكم, وإنْسَكم وجِنَّكم، كانوا على أتْقَى قلب رجل واحدِ منكم، ما زاد ذلك في مُلْكي شيئاً، يا عبادي، لو أنَّ أوَّلَكم وآخرَكم، وإنسَكم وجِنَّكم، [كانوا] على أفجرِ قلب رجل واحد منكم، ما نقص ذلك من ملكي شيئاً،
    " اے میری بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور تمہارے انسان اور جنات سب اس شخص کی کی طرح ہوجائیں، جس کے دل میں تو میں سے سب سے زیادہ اللہ کا تقوی ہو تو یہ بات میری سلطنت میں کسی بھی چیز کا اضافہ نہین کر سکتی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر، تہمارے انسان او رجنات سب اس شخص کی طرح ہوجائیں جو تم میں سب سے فاسق و فاجر ہو تو یہ بات میری بادشاہت میں کوئ کمی نہیں کرسکتی۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    یہ حدیث صراحتا بتلا رہی ہے کہ تقوی میں اصل معیار دل کا تقوی ہے، اور ایسے ہی فسق و فجور میں اصل چیز دل کا فاسق و فاجر ہونا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تقوی اور فجور کو ان کے حقیقی محل کی طرف منسوب کیا ہے اور دل ہے۔ نیز اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی صراحت بھی کردی ہے، چنانچہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

    " تقوی یہان ہے، تقوی یہاں ہے، تقوی یہان ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارب کی جانب اشارہ فرمایا"

    بلا شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے سینہ مبارک کی جانب اشارہ کرنا، اس بات کی علامت ہے کی سینہ دل کا مسکن ہے جو کہ تقوی کا مستقر ہے اور اسی میں تقوی کی اصلیت پنہاں ہے۔

    میرے پیارے بھائ: آپ کے دل کا معاملہ بڑا عظیم ہے اور اس کی شان بہت بلند ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے اسی کی اصلاح کے لیے کتابوں کے نزول فرمایا اور اس کو پاک صاف، عمدہ اور طیب و طاہر بنانے کے لیے رسولوں کو مبعوث کیا، رب العالمین کا ارشاد ہے :

    یونس 57
    يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ‌ وَهُدًى وَرَ‌حْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿٥٧
    اے لوگو! تمہارے پاس رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئ ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے اور رہنمائ کرنے والی اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔

    ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے :
    آل عمران 164
    لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَ‌سُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤
    بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالی کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔

    ثابت ہوا کہ سب سے عظیم چیز جسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آۓ وہ دلوں کی اصلاح ہے، اسی بنا پر دلوں کی اصلاح و تزکیہ کے لیے طریقہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئ اور راستہ نہیں ہے۔

    اور دلوں کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ وہی وہ لطیف و حساس گوشت کا لوتھڑا ہے جسے اللہ تعالی نے اپنی حکمتت اور اپنے علم سے چن لیا ہے اور اسے اپنے نور کے لیے محل اور اپنی ہدایت کے لیے مرکز قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی سبحانہ تعالی نے اس کے لیے اپنی کتاب عزیز میں مثال بیان فرمائ ہے

    سورہ نور35
    اللَّـهُ نُورُ‌ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ مَثَلُ نُورِ‌هِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّ‌يٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَ‌ةٍ مُّبَارَ‌كَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْ‌قِيَّةٍ وَلَا غَرْ‌بِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ‌ ۚ نُّورٌ‌ عَلَىٰ نُورٍ‌ ۗ يَهْدِي اللَّـهُ لِنُورِ‌هِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِ‌بُ اللَّـهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿٣٥
    اللہ نور ہے آسمانون کا اور زمین کا، اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کے ہے، جس میں چراغ ہو اور چراغ شیشہ کی قندیل میں اور شیشہ مثل روشن چمکتے ستارے کے ہو، وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ شرقی ہے نہ غربی، خود وہ تیل قریب ہے کہ آپ ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھوۓ، نور پر نور ہے، اللہ تعالی اپنے نور کی طرف رہنمائ کرتا ہے جسے چاہے۔ لوگوں(کے سمجھانے) کو یہ مثالیں اللہ تعالی بیان فرما رہا ہے اور اللہ تعالی ہر چیز کے حال سے بخوبی واقف ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  3. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    چنانچہ قلب جملہ معارف کا محل ہے، اسی سے بندہ اپنے رب و مولا کو پہنچانتا ہے، اسی سے اللہ جل و علا کے تمام اسماء اور تمام صفات کو بھی جانتا ہے اور اسی قلب سے اللہ کی شرعی آیات پر غور و فکر بھی کرتا ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
    سورہ محمد 24
    أَفَلَا يَتَدَبَّرُ‌ونَ الْقُرْ‌آنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ﴿٢٤
    کیا یہ قران میں غور نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگ گۓ ہیں۔

    ہاں بلکہ ان کے دلوں پر تالے لگ گۓ ہیں جو انہیں غور و فکر سے روکتے ہیں۔ اور اسی قلب سے آفاق اور انفس میں اللہ تعالی کی تخلیق کردہ آیات کونیہ میں تدبر و تفکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

    الحج 46
    أَفَلَمْ يَسِيرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ‌ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ‌ ﴿٤٦
    کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کہ جو ان کے دل ان باتوں کے سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان (واقعات) کو سن لیتے، بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل کے اندھے جوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

    یہاں سبحانہ و تعالی نے یہ بیان کیا ہے کہ آفاق و انفس میں موجود تخلیق اور کونی آیات سے نفع حاصل کرنے کا اصل اعتبار دلوں کے فہم و بصیرت ہے۔

    قلب کے متعلق زیادہ اہتمام پر زور دینے والی چیزوں میں سے یہ بھی ہے کہ یہ دل حقیقت میں وہ سواری ہے جس پر بندہ آخرت کا سفر طے کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کی جانب سفر دراصل دلوں کا سفر ہے نہ کہ جسموں کا۔

    شاعر کہتا ہے:

    اس (اللہ) کی جانب دلوں کے مسافت طے کرنا ہوتا ہے،سواریوں کی نشستوں پر بیٹھ کر منزل طے کرنا نہیں ہوتا۔

    امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں: ہم غزوہ تبوک سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوٹے تو آپ نے فرمایا
    بخاری 2839۔
    «إِنَّ أَقْوَامًا بِالْمَدِينَةِ خَلْفَنَا، مَا سَلَكْنَا شِعْبًا وَلاَ وَادِيًا إِلَّا وَهُمْ مَعَنَا فِيهِ، حَبَسَهُمُ العُذْرُ»،
    بے شک کچھ لوگ ہیں جو ہمارے پیچھے مدینہ میں رہ گۓ ہیں ہم نے کوئ پہاڑی اور کوئ وادی سفر میں طے نہیں کی وہ مگر ہمارے ساتھ ساتھ ہی، انہیں عذر نے روک رکھا ہے۔

    اور مسلم کی روایت مین جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے
    عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَقَالَ: «إِنَّ بِالْمَدِينَةِ لَرِجَالًا مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا، وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِيًا، إِلَّا كَانُوا مَعَكُمْ، حَبَسَهُمُ الْمَرَضُ»،
    مگر وہ لوگ تمارے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں، انہیں مرض نے روک لیا ہے۔

    چنانچہ یہ لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت میں سے تھے جن کے جسم کسی عذر یا مرض کی وجہ سے مدینہ میں روک لیے گۓ اور رسول اللہ کے ساتھ اس غزوہ میں نہ نکل سکے، لیکن وہ اپنے دلوں اور عزم محکم کے ساتھ نکلے، چنانچہ وہ اپنی روحوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ کے ساتھ تھے اور اپنے وجود کے ساتھ دارالہجرت مدینہ میں۔

    اور یہ قلبی جہاد کہلاتا ہے، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں اور جہاد کی یہ قسم جہاد قلبی کہلاتا ہے اور یہ جہاد کے چار مراتب میں سے ایک ہے جو یہ ہیں۔

    1- دل، 2- زبان 3- مال 4- بدن۔
    اور حدیث میں آیا ہے:
    جاهدوا المشرکین بالسنتکم و قلوبکم و اموالکم (ابو داؤد 2504)
    ترجمہ: مشرکوں سے اپنی زبان، دل اور مال سے جہاد کرتے رہو۔

    ثابت ہوا کہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم جو مرض یا کسی عذر کی وجہ سے مدینہ سے نہیں نکلے اور وہ جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے، سب لوگ اجرو و ثواب میں برابر ہیں اور یہ اللہ کا فضل و کرم ہے وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے۔

    چناچہ اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سبقت پختہ ارادہ، سچی رغبت اور مستحکم عزم کی ذریعہ ہوتی ہے، اگرچہ آدمی کسی عذر کی وجہ سے عمل سے پیچھے رہ جاۓ۔

    ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    " بدنی اعمال کی کثرت کی وجہ سے فضائل شمار نہیں ہوتے، بلکہ جب یہ اللہ عزو جل کے لیے خالص ہوتے ہیں اور سنت کی متابعت پر بالکل صحیع اترتے ہیں، نیز دلوں کے معارف اور اس کے اعمال کی کثرت کی بنا پر فضائل شمار ہوتے ہیں۔

    اسی لیے بکر بن عبداللہ المزنی رحمہ اللہ نے ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم پر سبقت رکھنے کے راز کو بیان کرتے ہوۓ فرمایا:
    ابو بکر رضی اللہ عنہ کا تمام صحابہ رضی اللہ پر سبقت رکھنے کا راز نماز اور روزے کی کثرت نہیں بلکہ (ان کی سبقت کا راز) وہ معرفت ہے جن ان کے دل میں اتر گئ تھی۔


    شاعر کہتا ہے:
    تمہاری جرآت رفتار کی مانند کون ہے
    میرے لیے کہ تم آہستہ چلتے ہو اور پہلے پہنچتے ہو۔

    اے میرے بزرگ برادر! حقیقی معنوں میں تقوی دلوں کا تقوی ہے۔ جسم کے اعضاء و جوارح کا تقوی نہیں ہے، اس پر دلیل اللہ تعالی کا وہ قول ہے جو اس نے قربانی کے لیے ذبح کیۓ جانے والے جانوروں کے متعلق فرمایا:

    الحج 37
    لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَ‌هَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُ‌وا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ‌ الْمُحْسِنِينَ ﴿٣٧
    اللہ تعالی کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔

    چنانچہ دلوں کی پرہیز گاری اور تقوی ہی ہے جو اللہ تعالی کو پہنچتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
    فاطر 10
    مَن كَانَ يُرِ‌يدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْ‌فَعُهُ ۚ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
    تمام تر ستھرے سے کلمات اس کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک اعمال ان کو بلند کرتا ہے۔

    لہذا تمام عمل سے مقصود صرف اللہ کے لیے دلوں کا تقوی اور پرہیز گاری ہے اور وہ دلوں کا محبت و تعظیم کے ساتھ اللہ کے ما سوا کو چھوڑ کر تنہا اسی کی عبادت کرنا ہے۔
    شاعر کہتا ہے:
    اللہ کے نزدیک فضل و شرف کا معیار اعمال کی شکل
    و صورت نہیں ہے بلکہ فضل و شرف کی بنیاد ایمان کے
    حقائق ہیں۔ اعمال کی فضیلت و برتری صاحب عمل
    کے دل کے اندر قائم دلیل و برہان کے تابع ہوتی ہے۔
    یہاں تک کہ دو عمل کرنے والے بظاہر ایک رتبہ میں
    دکھائ دیتے ہیں، لیکن فضیلت و برتری اور وزن کے
    اندر ان دونوں کے درمیان آسمان و زمین کا فرق ہوتا ہے۔

    قلب کی اصلاح و تزکیہ اور اسے آفات سے خالی (پاک و صاف) رکھنے اور فضائل و خوبیوں سے آراستہ کرنے کی ضرورت پر زور دینے والی چیزوں میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے اپنی نگاہ کا مرکز ان کے دلوں کو قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    مسلم 2564
    (( عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:... إِنَّ اللَّه لا يَنْظُرُ إِلَى أَجْسَادِكُمْ و لا إِلَى صُوَرِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ إِلَى صَدْرِهِ ))
    بے شک اللہ تعالی نہیں دیکھتا تمہارے جسموں کو اور نہ ہی تمہاری شکلوں کو بلکہ وہ دیکھتا ہے تمہارے دلوں کو اور اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اپنے سینہ مبارک کی جانب۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
  4. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    لہذا ایمان و کفر، ہدایت و ضلالت اور دیکی و بدی کے درمیان اصل و اساس وہ چیز ہے جو بندہ کے دل میں قائم و موجود ہے۔ اسی بنا پر عام علماۓ امت اس بات کی طرف گۓ ہیں کہ جس شخص کو کفریہ کلمہ کہنے پر مجور کیا گیا ہو اس کا اس پر مواخذہ نہیں ہوگا بشرطیکہ اس کا سینہ اسلام کے لیے کھلا ہوا ہو اور دل ایمان سے لبریز اور مطمئن ہو۔ جیسا کہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا

    النحل 106-107
    مَن كَفَرَ‌ بِاللَّـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِ‌هَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَـٰكِن مَّن شَرَ‌حَ بِالْكُفْرِ‌ صَدْرً‌ا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١٠٦﴾ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَ‌ةِ وَأَنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِ‌ينَ ﴿١٠٧
    جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جاۓ اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔ مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لیے بہت بڑا عذاب ہے ۔ یہ اس لیے کے انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب رکھا۔ یقینا اللہ تعالی کافر لوگوں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔

    یہ آیت کریمہ اکثر مفسرین کے قول کے مطابق عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے باے میں نازل ہوئ ہے، وہ جب اسلام لاۓ تو مشرکوں نے انہیں بہت ستایا اور انہوں نے ان سے اسلام کے خلاف بہت کچھ کہلوایا، یہاں تک کہ ان کفار کے مطالبہ پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے ساتھ کفریہ کلمات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غیر شائستہ اور نا روا جملے بھی کہہ ڈالے، تو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں پہنچے اور روتے ہوۓ اپنے حالات کو آپ کے سامنے بین فرمایا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    ((كيف تجد قلبك؟)) فقال عمار: مطمئناً بالإيمان، فقال النبي صلي الله عليه وسلم مبشراً ميسراً: ((فإن عادوا فعد))الحاکم 2/357
    اپنے دل کو تم کیسا پاتے ہو؟ تو عمار رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :ایمان پر دل مطمئن ہے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت سناتے ہوۓ اور آسانی فرماتے ہوۓ کہا: اگر وہ لوگ دوبارہ پہلے جیسا کریں تو تم بھی ویسا ہی کرو۔

    پس تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو حمد والا اور بزرگی والا ہے۔

    قلب کے ساتھ عنایت خاص کی ضرورت پر زور دینے والی چیزوں میں سے یہ بھی ہے کہ انسان کا دل ہی وہ تاج پوش بادشاہ ہے اور وہی وہ سردار ہے۔ جس کی تابعداری کی جاتی ہے، پس اس کا صاحح ہونا اور سلامت و درست ہونا ہر خیر کی بنیاد و اساس ہے، اور دنیا و آخرات میں ہر فوز و فلاح کا سبب ہے۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں نعمان بشیر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


    ففي الصحيحين من حديث النعمان بن بشير رضي الله عنهما قال: قال رسول الله r: ((ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب))([1])البخاري (52)، مسلم (1599).

    یاد رکھو! بے شک جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے جو وہ صحیع و سالم ہوتا ہے تو پورا جسم صحیع سالم ہوتا ہے اور جب وہ خراب و فاسد ہو جاتا ہے تو پورا جسم خراب و فاسد ہو جاتا ہے۔ خبردار! وہ لوتھڑا دل ہے۔ اس سے یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہو جاتی ہے کہ دل کی عبادت ہی وہ اصل ہے جس پر تمام عبادات کی بنیاد پڑتی ہے، پس جسموں کی سلامتی دلوں کی سلامتی پر موقوف ہے، لہذا جب دل تقوی اور ایمان کے ذریعہ صالح ہوگا تو پورا جس اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ صالح و درست ہوگا۔

    امام احمد رحمہ اللہ نے انس رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    ((لا يستقيم إيمان عبد حتى يستقيم قلبه))المسند (13079).
    کسی بندہ کا ایمان اس وقت تک درست و صحیع نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل ٹھیک و درست نہ ہوجاۓ۔

    چنانچہ بندہ کا ایمان دل کی صحت و تندرستی کے بغیر نہ تو درست ہو سکتا ہے اور نہ ہی صحیع ہو سکتا ہے۔

    اسی بنا پر علیم و خبیر (اللہ) نے قیامت کے دن نجات کو دل کی صحت و سلامتی اور اس کی پاکیزگی سے جوڑ دیا ہے، فرمان رب جل و علا

    الشعراء 88 -89
    ]يَوْمَ لا يَنْفَعُ مَالٌ وَلا بَنُونَ (88)إِلاّ مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ(89)
    جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آۓ گی، لیکن فائدہ والا وہی ہوگا جو اللہ تعالی کے سامنے بے عیب دل لے کر آۓ۔

    نیز قلب کے ساتھ عنایت خاص کی ضرورت کی تاکید اس سے بھی ہوتی ہے کہ دل ک سب سے نمایاں صفات اور سب سے زیادہ خاص خوبیوں میں سے ایک دل کا الٹنا پلٹنا اور پھرتے رہنا ہے۔

    شاعر کہتا ہے:
    ومـا سمـي الإنسـان إلا لأنسـه

    ولا القلـب إلا أنـه يتقلَّـب

    انسان کا نام انسان اس کی انسیت کی وجہ سے رکھا گیا ہے
    اور قلب کا نام قلب صرف اس وجہ سے
    رکھا گیا ہے کہ وا الٹتا پلٹتا اور قلابازیاں کھاتا رہتا ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  5. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    چنانچہ دل بڑی تیزی کے ساتھ الٹتا پلٹتا، بری سرعت سے بدلتا او تغیر پذیر ہوتا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں مقداد بن اسود رضی اللہ عنیہ سے حدیث روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

    المسند احمد
    : ((لقلب ابن آدم أشد انقلاباً من القِدر إذا اجتمعت غلياناً)). المسند (24317).
    بیشک ابن آدم کا دل اس ہنڈیا سے بھی کہیں بڑھ کر الٹتا پلٹتا ہے جس میں جوش مارنے کی شدت مزید تیز ہو گئ ہو۔

    اس کے بعد مقداد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیشک نیک بخت و شخص ہے جو فتنون سے بچا لیا گیا ہو، اس کلمہ کو وہ تین بار دہراتے رہے اور وہ اس سے یہ اشارہ کر رہے تھے کہ اس تغیر و تبدیلی کا سبب دلوں پر بکثرت فتنوں کا وارد ہونا ہے، اسی وجہ سے نبي کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے:

    ((اللهم مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك)) المسند (27054).
    اے دلوں کے الٹنے پلٹنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔

    اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک یہ بھی ہے:

    ((وأسألك قلباً سليماً)). أحمد (4/123 ، 125)، والترمذي (3407)، والنسائي (1305).
    اور میں تجھ سے قلب سلیم مانگتا ہوں۔

    قلب کے ساتھ یہ سب اہتمام اس لیے ہے کہ دل کا گناہوں کی طرف لڑھکنا بہت سنگین ہے اور اس کا حق سے انحراف و برگشتگی نہایت ہی خطرناک امر ہے۔ کیونکہ دل کے سب سے کمتر انحراف اللہ تعالی کی جانب سے اس کی توجہ ہٹ جانا ہے اور اس کی انتہاء اس پر مہر لگا جانا اور نیک کاموں کی توفیق سے محروم ہو جانا اور پھر اسی پر موت کا واقع ہونا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

    الروم 59
    : كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ[
    اللہ ان لوگوں کے دلوں پر جو سمجھ نہین رکھتے یوں ہی مہر لگا دیتا ہے۔

    اور دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا
    الجاثیہ 23]
    أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلا تَذَكَّرُونَ[ (الجاثـية: 23).
    کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟ جس سے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کردیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے۔ اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے۔ کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے۔

    یہ تمام سابقہ باتیں قلب کی عظمت ، قدر و منزلت اور دنیا و آخرت میں ایک انسان کی سعادت و کامرانی کے سلسلے میں اس کے اثر و کردار اور اس کے خطرات و مضرات کو بیان کرتی ہیں۔ لہذا کیا یہ گوشت کا لوتھڑا ایک لمحے کے لیے تامل اور غور و فکر کا مستحق نہیں ہے؟

    کیا یہ دل یہ حق نہیں رکھتا کہ ایک لمحہ اس کے بارے میں بحث و تحقیق اور تفتیش میں گزارا جاۓ؟

    اور کیا یہ دل ایک وقفہ امتحان و آزمائش اور جانچ کا مستحق نہیں ہے؟

    جس میں آپ اپنے سینہ کے اندر موجود اور اپنے دل میں بیٹھی ہوئ چیزوں کی جانچ پڑتال کریں قبل اس کے کہ وہ دن آجاۓ جس میں پوشیدہ بھید ظاہر ہو جائیں گے اور دلوں کے اندر چھپر ہوئ چیزیں عیاں ہو جائیں گی۔ ارشاد ربانی ہے:

    (العاديات: 9-11).
    ]أَفَلا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ (9) وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ (10) إِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَخَبِيرٌ[
    کیا اسے وہ وقت معلوم نہیں جب قبر میں جو کچھ ہے نکال لیا جاۓ گا اور سینوں کی پوشیدہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی، بیشک ان کا رب اس دن ان کے حال سے پورا پورا باخبر ہوگآ۔

    میرے عزیز بھائ! بغیر کسی سستی و اکتاہٹ اور کمزوری طبع کا مظاہرہ کۓ ہوۓ اپنے دل کی حفاظت اور اس کی اصلاح اور اس پر گہری نطر ڈالنے کی بھرپور کوشش کرو۔ کیونکہ یہ تمہرا دل تمہارے اعضاۓ جسم میں سب سے زیادہ خطرناک عضو ہے اور یہ دیگر اعضاء کی بہ نسبت زیادہ اثر انگیز، اس کا معاملہ سب سے زیادہ باریک اور اس کی اصلاح سب سے زیادہ دشوار ہے۔

    اس بات کو آپ خوب اچھی طرح جان لیں کہ دلوں کی اصلاح اور ان میں استقامت کا پیدا ہونا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ان کو تمام امراض سے پاک و صاف نہ کیا جاۓ اور ان آفات و خطرات سے محفوظ نہ کیا جاۓ جو انہیں فاسد اور خراب کر دیتے ہیں۔

    اور یہ امراض اور آفات پانچ آفتوں کی طرف پلٹتنی ہیں جو تمام بیماریوں کی جڑر اور ہر بلا و مصیبت کا سرچشمہ ہیں، جو ان سے محفوظ رہا درحقیقت وہ تمام امراض اور ہر بلا سے محفوظ ہوگیا۔
    شاعر کہتا ہے

    فـإن تنـج منهـا تنج مـن ذي عظيمة
    وإلا فإنـي لا إخــالك ناجيــا


    اگر تم ان بیماریوں سے بچ گۓ تو بہت بڑی مصیبت سے بچ گۓ، وگرنہ میں نہیں سمجھتا کہ تم نجات پا سکو گے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں