" دین پر استقامت،،، اہمیت، اسباب، تعلیمات" خطبہ جمعہ مسجد نبوی03-محرم 1437

بابر تنویر نے 'خطبات الحرمین' میں ‏اکتوبر، 16, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے 03-محرم الحرام-1437 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں " دین پر استقامت،،، اہمیت، اسباب، تعلیمات" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس کے اہم نکات یہ تھے: ٭استقامت سب سے بڑی نعمت ٭ فتنوں کی اقسام ٭ استقامت کی جستجو تمام انبیاء سمیت ہر مسلمان کا شیوہ ٭ صحابہ کی اصلاح اور نبی ﷺ ٭ استقامت کے اسباب: حصولِ استقامت کی امید صرف اللہ سے، شفاف عقیدہ توحید کا پرچار، دلی پاکیزگی، اخلاص، استقامت کیلئے دعا، للہیت ، اتباع سنت، نیکیاں کرنا، نصیحت قبول کر کے اس پر عمل کرنا، قرآن مجید کی تلاوت، تدبر اور عمل کرنا، قصص الانبیاء پر غور و خوض ٭ گناہوں سے تحفظ کے اسباب: فرض نمازوں کی پابندی، صدقہ کرنا، کثرت سے نوافل پڑھنا، ذکر الہی، صبر کرنا، تقدیری فیصلوں پر اظہار رضا مندی، مراقبہ [اللہ کو نگران جاننا]٭ اطاعت گزاری کیلئے معاون اشیاء: اہل علم کی صحبت، قناعت پسندی، دنیا سے محدود امیدیں وابستہ کرنا، فکر آخرت ٭ اپنے ایمان کو آزمائش میں مت ڈالیں ٭ سلف صالحین اور ایمان کی حفاظت ٭ شبہات سے اجتناب٭ شرعی نصوص کا احترام٭ جلد بازی سے پرہیز٭ تجدید ایمان کا طریقہ٭ خوش یا بد حالی میں مومن کی کیفیت ۔
    پہلا خطبہ:
    یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی فرمائے۔
    حمد و صلاۃ کے بعد:
    تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے اور اسلام کے مضبوط کڑے کو اچھی طرح تھام لو۔
    مسلمانو!
    خالص اللہ کی بندگی اور اس پر استقامت بہت بڑی نعمت ہے، مسلمان اس نعمت کی حفاظت کرتے ہوئے اسے کسی بھی چیز سے گدلا نہیں ہونے دیتا، کیونکہ شیطان انسان کو اس نعمت سے عاری کرنے کیلئے چاروں اطراف سے گھیرنے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالی نے اس کے بارے میں فرمایا:
    {ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ}
    پھر میں انہیں آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں سے گھیر لوں گا، اور ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پاؤ گے۔ [الأعراف : 17]
    کوئی بھی فتنہ چاہے رونما ہو چکا ہو یا ابھی ہوگا ہر دو حالت میں (انسانی دل پر فتنوں کو ایسے تسلسل کیساتھ جھونکا جائے گا جیسے چٹائی کے تنکے پے در پے ہوتے ہیں) اور فتنے جس طرح ناگوار شکل میں سامنے آتے ہیں بالکل اسی طرح خوشگوار صورت یعنی مال، اولاد، اور صحت و عافیت کی شکل میں بھی آتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
    {وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ}
    اور ہم ناگوار و خوشگوار سے تمہاری آزمائش کرتے ہیں، اور ہماری طرف ہی تم لوٹائے جاؤ گے [الأنبياء : 35]
    بندوں کے دل رحمن کی انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے۔
    دین مسلمان کا قیمتی ترین اثاثہ ہے، یہی دنیا و آخرت کیلئے ناقابل فراموش زادِ راہ ہے، زندگی فتنوں سے بھر پور ہے، اور یہاں زندگی گزارنا بھی لازمی ہے چنانچہ اس صورت حال میں دین پر استقامت کی ضرورت و اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو استقامت کا حکم دیا اور خواہش پرستوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
    { وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ}
    آپ ایسے ڈٹ جائیں جیسے آپکو حکم دیا گیا ہے، اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔[الشورى : 15]

    بلکہ ہر مسلمان کو روزانہ فرض رکعات میں ہدایت مانگنے کا حکم بھی دیا چنانچہ نمازی کہتا ہے:
    {اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ}
    سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرما [الفاتحہ: 6]
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ دعا مخلوق کیلئے افضل اور ضروری ترین دعاؤں میں سے ؛ کیونکہ اس میں دین و دنیا سمیت آخرت کی بھلائی بھی ہے"
    نیک لوگوں کی صفت ہے کہ وہ اپنے ایمان میں کمی یا کوتاہی سے بھی ڈرتے ہیں، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام بت شکن بن کر بھی اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں:
    {وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ}
    مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے محفوظ فرما۔[ابراہیم : 35]

    یوسف علیہ السلام عقیدہ توحید کی دعوت دینے کے بعد بھی فرماتے ہیں:
    {تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ}
    [یا اللہ!]مجھے اسلام کی حالت میں موت آئے اور مجھے نیک لوگوں میں شامل فرما۔[يوسف : 101]
    اور ہمارے نبی ﷺ اپنی دعا کی ابتدا و انتہا عقیدہ توحید پر ہی فرماتے اور اکثر دعا کیا کرتے تھے:
    (يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلَى دِيْنِكَ)[اے دلوں کو ثابت کرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت بنا] ترمذی
    نبی ﷺ ہدایت کے بعد گمراہی سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے، چنانچہ جب سفر فرماتے تو کہتے:
    ( اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ ، وَكَآبَةِ الْمَنْقَلَبِ ، وَمِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْرِ ، وَدَعْوَةِ الْمَظْلُومِ ، وَسُوءِ الْمَنْظَرِ فِي الأَهْلِ وَالْمَالِ)
    [یا اللہ! میں آنے جانے کی تھکاوٹ اور ماندگی ،اطاعت کے بعد نافرمانی، مظلوم کی بد دعا، نیز اہل و عیال اور مال میں خرابی سے تیری پناہ چاہتا ہوں]" مسلم
    نبی ﷺ اپنے صحابہ کرام کا خصوصی خیال فرماتے اور اگر کسی کی عبادت میں کوئی کمی نظر آتی تو اسے نصیحت فرماتے، چنانچہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے آپ ﷺ نے فرمایا: (تم فلاں کی طرح مت ہو جانا کہ اس نے قیام اللیل کرنا شروع کیا اور پھر چھوڑ دیا) بخاری
    نبی ﷺ نے اپنی امت کو نیک کام دائمی اور تسلسل کیساتھ کرنے کی ترغیب دلائی، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "نبی ﷺ کو وہ عبادت پسند تھی جسے تسلسل کیساتھ دائمی کیا جائے" بخاری
    ہدایت صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، وہی رہبر و رہنما ہے، جسے وہ راہ لگا دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، چنانچہ ایک حدیث قدسی ہے: (میرے بندو! جسے میں ہدایت دے دوں اس کے علاوہ تم سب گمراہ ہو) مسلم
    چنانچہ استقامت اسی وقت ملتی ہے جب استقامت کے حصول کا دلی یقین اور مکمل اعتماد صرف اللہ تعالی کی ذات پر ہو، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
    {وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا}
    اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ آپ ان کی طرف کچھ مائل ہو جاتے۔[الإسراء : 74]
    شفاف عقیدہ توحید، اور اشاعتِ توحید دین پر ثابت قدم رہنے کیلئے ٹھوس ترین اسباب میں سے ہیں جیسے کہ اللہ تعالی نے اصحاب الکہف کے بارے میں فرمایا:
    {وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِهِ إِلَهًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا}
    اور ہم نے ان کے دلوں کی ڈھارس باندھ دی جب انہوں نے کہا: "ہمارا رب وہ ہے جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے، ہم اس کے سوا کسی کو ہر گز نہیں پکارتے ، وگرنہ تو ہم ٹیڑھی بات مرتکب ہونگے"[الكهف : 14]
    دل میں پاکیزگی، سلامتی، اور للہیت ثابت قدمی کا سب سے بڑا سبب ہے، بلکہ للہیت و اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالی اپنے بندوں کو گمراہی سے محفوظ رکھتا ہے، اللہ تعالی نے یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
    {كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ}
    ہم نے اسی طرح [یوسف سے] برائی اور بے حیائی کو پھیر دیا، بیشک وہ ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں۔[يوسف : 24]
    جس کی نیت صاف نہ ہو دل میں کالا ہو تو اس کے اثرات دینداری اور تعامل پر رونما ہو جاتے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (ایک شخص لوگوں کی نظروں میں جنتی لوگوں والے اعمال کرتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ جہنمی ہوتا ہے، اور ایک شخص لوگوں کی نظروں میں جہنمی لوگوں والے اعمال کرتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ جنتی ہوتا ہے ) بخاری
    اس حدیث کی شرح میں ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: حدیث کے الفاظ" لوگوں کی نظروں میں" سے معلوم ہوتا ہے کہ اندر سے وہ شخص ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ یہ یقینی بات ہے کہ برا انجام صرف اندرونی بیماری کی وجہ سے ہی ممکن ہے جس کا لوگوں کو علم نہیں ہوتا"
    اللہ تعالی سے ثابت قدمی مانگنا عبادت و التجا ہے، اسی سے استقامت ملتی ہے، چنانچہ آپ ﷺ ہدایت پر استقامت کی دعا مانگتے اور کہتے:
    (اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِعِزَّتِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْ تُضِلَّنِيْ، أَنْتَ الْحَيُّ الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ يَمُوْتُوْنَ)[
    یا اللہ! میں اس بات سے تیری عزت کی پناہ چاہتا ہوں کہ تو مجھے گمراہ کر دے، تیرے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ] مسلم
    صحابہ کرام کو یہ دعا سکھاتے چنانچہ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "نبی ﷺ ہمیں یہ دعا سکھایا کرتے تھے:
    (اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الثُّبَاتَ فِي الْأَمْرِ)[
    یا اللہ! میں تجھ سے دین پر ثابت قدمی مانگتا ہوں]" ترمذی
    پختہ علم و ایمان والے لوگ بھی دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں: {
    رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ}
    ہمارے پروردگار! ہمیں ہدایت دینے کے بعد گمراہ مت کرنا، اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا فرما، بیشک تو بہت زیادہ دینے والا ہے۔[آل عمران : 8]
    اپنے اندر للہیت پیدا کرنا استقامت کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ سے نجات کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    {وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللہ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ}
    اور جو لوگ ہماری راہ میں جد و جہد کرتے ہیں ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیتے ہیں، بیشک اللہ تعالی احسان کرنے والوں کیساتھ ہے۔[العنكبوت : 69]
    اتباع سنت بھی نجات کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    {وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا}
    اور اگر تم نبی کی اطاعت کرو تو ہدایت یافتہ بن جاؤ گے۔[النور : 54]
    اس آیت کی تفسیر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "انسان جس قدر محمد ﷺ کا تابعدار ہوگا، اسی بقدر عقیدہ توحید اور للہیت کا مالک ہوگا، اور اتباع نبوی سے جتنا دور ہوگا اس کی دینداری میں اتنی ہی کمی واقع ہوگی"
    جس وقت فتنوں کی اندھیریاں چل رہی ہوں اور گمراہ کن تلاطم خیز موجیں اٹھ رہی ہوں تو ایسے وقت میں نیک کاموں کی طرف لپک کر بڑھنا چاہیے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اندھیری رات کے گپ اندھیروں کی طرح امڈنے والے فتنوں سے قبل نیکیاں کرو، جب آدمی صبح کو مؤمن ہوگا تو شام کو کافر ہو جائے گا، یا شام کو مؤمن ہوگا تو صبح کافر ہو جائے گا، انسان اپنا دین ، حقیر سی دنیاوی چیزوں کے بدلے میں بیچ دے گا)مسلم
    نصیحت قبول کرنے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونا بھی ثابت قدمی کا باعث ہے، فرمانِ الہی ہے: {
    وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا}
    اور اگر وہ انہیں کی گئی نصیحت کی تعمیل کرتے تو یہ ان کیلئے بہتر اور زیادہ ثابت قدمی کا باعث تھا۔[النساء : 66]
    اس کے برعکس نصیحت اور علم حاصل ہونے کے بعد بھی عمل نہ کرنا رسوائی کا باعث ہے، چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "جو بھی کام آپ ﷺ نے کیا میں نے بلا استثنا اس پر ضرور عمل کیا؛ کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ اگر میں آپ کا کیا ہوا کوئی عمل ترک کیا تو کہیں گمراہ نہ ہو جاؤں" متفق علیہ
    جب تلاوت، حفظ، تدبر، سماع، اور عمل کے ذریعے قرآن مجید کی طرف توجہ دی جائے تو قرآن کریم نازل کرنے کا ایک مقصد پورا ہوگا اور وہ یہ ہے کہ مؤمنوں کے دلوں کو ثابت کیا جائے، چنانچہ اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
    { كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ} تا کہ ہم آپ کے دل کو ثابت قدم بنائیں۔[الفرقان : 32]
    اسی طرح اللہ تعالی نے اس امت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
    {قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا}
    فرما دیں اسے جبریل نے آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے ، تاکہ ان لوگوں کو ثابت قدم رکھے جو ایمان لائے ۔[النحل : 102]
    قرآن کریم ثابت قدمی کا باعث اس وقت بنے گا ، نیز انبیائے کرام کے واقعات و حالات پر غور و خوض انسان کو ان کے طریقے پر چلنے میں معاونت فراہم کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {
    وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ}
    اور ہم رسولوں کے حالات کی ایک ایک خبر آپ سے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ اس کے ذریعہ آپ کے دل کو مضبوط کر دیں [هود : 120]
    نماز قلب و بدن کی خرابیوں کی اصلاح کرتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    { إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ}
    بیشک نماز برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔[العنكبوت : 45]

    صدقہ انسان کے ایمان اور خیر پسند ہونے کی علامت ہے، نیز اللہ تعالی صدقے کے ذریعے انسان کی دنیا و آخرت سنوار دیتا ہے۔
    اللہ تعالی کثرت کیساتھ نوافل ادا کرنے والے سے محبت فرماتا ہے، اور فتنوں سے تحفظ نوازتا ہے، حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: (نوافل کے ذریعے میرا بندہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ) بخاری
    ذکر الہی دلوں کی اصلاح کر کے انہیں شیطان سے محفوظ بناتا ہے، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "شیطان ابن آدم کے دل کے در پے رہتا ہے، چنانچہ جیسے ہی غافل ہو دل میں وسوسے پیدا کرتا ہے، اور اگر اللہ کو یاد کر لے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے"
    صبر کرتے ہوئے ساری دنیا میں اسلام پھیلنے پر یقین رکھنا اطاعت و ثابت قدمی کیلئے معاون ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ کی قسم! اللہ تعالی اس دین کو ضرور غالب فرمائے گا، حتی کہ مسافر صنعا سے حضر موت تک سفر کرتے ہوئے اللہ کے سوا کسی کا خوف دل میں نہیں رکھے گا، بلکہ بکریوں کو بھیڑیے سے بھی خطرہ نہیں ہوگا، لیکن تم جلد بازی سے کام لیتے ہو) بخاری
    مصائب اور تکالیف کی صورت میں تقدیری فیصلوں پر اظہار رضا مندی دین کا رکن ہے، اسی سے اطمینان و مسرت حاصل ہوتی ہے، مؤمن مصیبت پر سب سے زیادہ صبر کرنے والا اور کڑے وقت میں دین پر کار بند رہنے والا ہوتا ہے، کتنی ہی بڑی مصیبت آن پڑے تقدیر پر راضی رہتا ہے۔
    نعمتِ ہدایت کا احساس دل میں جگانے والا شخص حق بات پر مزید ڈٹ جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيْمَانِ}اللہ تعالی تمہیں احسان جتلا [کر احساس دلواتا ہے][الحجرات : 17]
    جیسا کرو گے ویسا ہی بھرو گے، چنانچہ ہمیشہ اللہ تعالی کو اپنا نگہبان و نگران سمجھنا ، حدود اللہ، اور شعائر کا احترام اللہ کی طرف سے دائمی تحفظ کا ضامن ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا) ترمذی
    علمائے کرام اور نیک لوگوں کی مجالس اختیار کرنا احیائے قلب اور اطاعت گزاری کیلئے معاون ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ} اپنے آپ کو ان لوگوں کی صحبت میں رکھیں جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں، اور اسی کی رضا چاہتے ہیں۔[الكہف : 28]
    ابن قیم رحمہ اللہ اپنے استاد شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے ملاقات کا حال ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: "جب ہم حالات کے دباؤ میں آ کر مشکل میں پھنس جاتے ، زمین تنگ لگنے لگتی ، خیالات تک بگڑ جاتے اور صبر کرنا مشکل ہو جاتا تو ہم اپنے استاد کو دیکھ کر ان کی باتیں ، نصیحتیں اور گفتگو سن کر مطمئن، پر سکون، اور چین پاتے، ہمارے ذہن سے تناؤ اور دباؤ ختم ہو جاتا "
    مؤمن شخص باطل کے دھوکے میں نہیں آتا، وہ باطل کے بارے میں مکمل بصیرت رکھتا ہے، ہمیشہ اپنے دین پر فخر کرتے ہوئے اسی کی دعوت بھی دیتا ہے، اسے موت آنے تک کوئی چیز دین سے موڑ نہیں سکتی چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
    {لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلَادِ}
    کفار کا خطے میں گھومنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے۔[آل عمران : 196]
    اللہ تعالی کی تقسیم پر قناعت کرنا ، اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھنا، اللہ تعالی کیساتھ مضبوط تعلق اور دینداری کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (دنیا میں ایسے رہو جیسے اجنبی ہو یا راہ گزرتا مسافر) بخاری
    محدود امیدیں لگانا، مَردوں کیلئے قبرستان کی زیارت، اور کثرت سے موت کی یاد نفس کو تقوی اور اطاعت پر ابھارتی ہے، آخرت کی منزلوں اور نیک لوگوں کیلئے تیار شدہ اجر و ثواب کے بارے میں یاد دہانی بھی ثابت قدمی اور تسلی کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (تمہیں میرے بعد خود غرضی کا سامنا ہوگا، چنانچہ تم مجھ سے حوض پر ملنے تک صبر کرنا) متفق علیہ
    دانشمند اپنے ایمان کو خطرات میں نہ ڈالے اور خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ اس کا ایمان متاثر نہیں ہوگا؛ کیونکہ ایسی بات بسا اوقات خود پسندی کی وجہ سے دل میں آسکتی ہے، اور ہو سکتا ہے کہ اسے سزا کے طور پر ایمان سے عاری کر دیا جائے اور وہ اپنے آپ کو ہلاک کر بیٹھے۔
    غلط افکار و نظریات ، اور شبہات پر کان لگانا گمراہی کا باعث بن سکتا ہے، خصوصاً آج کل سماجی رابطوں کے ذرائع بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں اس لیے ہر مسلمان کو ان شبہات سے پرہیز کرنا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ انبیائے علیہم السلام اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنے سے بچتے تھے، چنانچہ یوسف علیہ السلام نے فتنے میں ہاتھ ڈالنے کی بجائے اپنے لیے قید کو ترجیح دی تھی :
    {قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ}
    انہوں نے کہا: پروردگار! جیل مجھے ان کی دعوت سے زیادہ محبوب ہے۔[يوسف : 33]

    سلف صالحین وسعت علمی اور ایمانی گہرائی کے با وجود اپنے آپ کو ایسی چیزوں سے دور ہی رکھتے تھے، جیسے کہ معمر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "میں ابن طاووس اور ان کے بیٹے کیساتھ بیٹھا تھا، تو ایک آدمی نے آ کر تقدیر کا مسئلہ چھیڑ دیا، تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں، اور اپنے بیٹے کو بھی کہا کہ تم بھی اپنی انگلیاں اچھی طرح کانوں میں ڈال لو اور اس کی کوئی بات مت سننا؛ کیونکہ دل بہت ہی کمزور ہوتا ہے"
    امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: " اکثر سلف صالحین اپنے آپ کو اسی طرح آزمائش میں ڈالنے سے بچاتے ، چنانچہ فتنوں کے مقابلے میں اپنے دلوں کو کمزور ہی سمجھتے "
    شبہات و خواہش پرستی کے دروازے پر دستک دینے والا ان میں ملوّث ہو ہی جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: { فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ }
    جب وہ ٹیڑھے ہوئے تو اللہ تعالی نے ان کے دلوں کو بھی ٹیڑھا کر دیا۔[الصف : 5]
    چنانچہ شبہات سے دور رہنے والا ہی اپنے دین اور عزت آبرو کو محفوظ بنا سکتا ہے۔
    شرعی نصوص پر اعتراض، انہیں خواہشات اور من مانی تشریحات کی بھینٹ چڑھانا گمراہی کا راستہ ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
    { فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ أَمْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيْمٌ}
    رسول کے احکامات سے رو گردانی کرنے والے اپنا بچاؤ کر لیں کہ کہیں انہیں فتنہ نہ دبوچ لے یا درد ناک عذاب ان پر آن پڑے۔[النور : 63]
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "شریعت کا مقابلہ رائے زنی سے کرنے والے کے دل میں ایمان ٹھہرتا ہی نہیں ہے"
    چھوٹے چھوٹے گناہ مل کر گناہگار کو ہلاک کر دیتے ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: (اپنے آپ کو چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچاؤ) احمد
    اپنی محنتوں کا پھل دیکھنے میں جلد بازی انسان کو سستی کا شکار بنا کر محنت سے دور کر دیتی ہے، حالانکہ دائمی عمل کرنا اور للہیت پیدا کرنا ہر وقت واجب ہے۔
    جس طرح کپڑا بوسیدہ ہو جاتا ہے اسی طرح ایمان میں بھی کمی آ جاتی ہے اور تو بہ کے ذریعے ایمان کی تجدید ہوتی ہے، ہر وقت اور کسی بھی غلطی کے بعد فوراً استغفار کرنے سے دل کو تحفظ اور گناہوں سے اس کی صفائی ہو جاتی ہے، چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا: (جب کوئی شخص گناہ کرے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے، چنانچہ اگر گناہ چھوڑ کر توبہ و استغفار کر لے تو اس کا دل چمکا دیا جاتا ہے) ترمذی
    مذکورہ تفصیلات کے بعد: مسلمانو!
    رضائے الہی کا راز دین پر استقامت اور ثابت قدمی میں پنہاں ہے؛ کیونکہ مؤمن کی حالت خوشحالی ہو یا بد حالی ہر دو صورت میں تبدیل نہیں ہوتی، تنگی ہو یا ترشی تذبذب کا شکار نہیں ہوتا، چنانچہ ہر وقت اور ہر حالت میں اپنے رب کی بندگی کرتا ہے، لہذا دین پر ثابت قدمی کو اپنے لیے فخر اور اعزاز سمجھتے ہوئے دوسروں کو بھی اسی کی دعوت دیتا ہے۔
    أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ}
    اللہ تعالی ایمان والوں کو دنیاوی اور اخروی زندگی میں قول ثابت کے ذریعے ثابت قدم بناتا ہے، اور ظالموں کو گمراہ کرتا ہے، اللہ تعالی جو چاہے کرنے والا ہے۔[ابراہیم : 27]
    اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس ذکرِ حکیم سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں۔
    دوسرا خطبہ
    تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔
    مسلمانو!
    کچھ لوگ دنیا ملتی رہے تو عبادت گزار رہتے ہیں، لیکن اگر دنیا نہ ملے تو اس کی حالت و کیفیت بدل جاتی ہے، بلکہ کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں دنیاوی کوئی مصیبت، تکلیف، تنگی، آزمائش کا سامنا کرنا پڑے تو ان کی دینداری میں کمزوری آ جاتی ہے، حالانکہ اللہ تعالی نے ایسی حالت سے خبردار کیا ہے، چنانچہ فرمایا: {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ} اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے کنارے اللہ کی بندگی کرتا ہے اگر فائدہ ہوا تو مطمئن اور اگر نقصان ہو تو الٹا پھر جاتا ہے اس کی دنیا بھی خراب ہو گئی اور آخرت بھی ، یہی واضح خسارہ ہے۔[الحج : 11]
    یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:]إِ
    نَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا[
    اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
    اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد، یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین : ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!
    یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔
    یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات درست فرما، اور تمام مسلم علاقوں کو امن و امان اور استحکام کا گہوارہ بنا دے، یا قوی! یا عزیز!
    یا اللہ! ہمیں مرتے دم تک اپنے دین پر ثابت قدم بنا، یا اللہ! ہم تجھ سے ظاہری باطنی ہر قسم کے فتنوں سے پناہ مانگتے ہیں۔
    یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔
    یا اللہ! ہمارے سپاہیوں کو کامیاب فرما، یا قوی! یا عزیز! یا اللہ! ان کے قدموں کو ثابت بنا، اور انہیں دشمنوں پر فتح نصیب فرما، یا اللہ! ان کی نشانے درست فرما، ان کے حوصلے بلند فرما، ان کے تمام اعمال اپنی رضا کیلئے بنا لے۔
    یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال اپنے رضا کیلئے مختص فرما، اور تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب کے نفاذ اور شریعت کو بالا دستی دینے کی توفیق عطا فرما۔
    اللہ کے بندو!
    إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو [امداد] دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]
    تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • اعلی اعلی x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں