" مسلمانوں کی حالت زار سے نکلنے کے 6 سنہری اصول" خطبہ جمعہ مسجد نبوی 08-02-1437

بابر تنویر نے 'خطبات الحرمین' میں ‏نومبر 20, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے 08-صفر- 1437کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان " مسلمانوں کی حالت زار سے نکلنے کے 6 سنہری اصول" ارشاد فرمایا ، جس کے اہم نکات یہ تھے: ٭مسلمانوں کی حالتِ زار ٭ حالتِ زار کے اسباب: بد اعمالیاں، نفاذ شریعت سے دوری، سرِ عام گناہ ٭ حالت زار سے نکلنے کے 6 اصول: سچی توبہ، کثرت کیساتھ نیکیاں، قرآنی تعلیمات پر عمل، اللہ تعالی پر کامل ایمان، نیکی کے کاموں میں باہمی تعاون، پر فتن دور میں شرعی تعلیمات پر عمل ٭ پر فتن دور میں زبان و قلم کی حفاظت ٭ درود پڑھنے کی فضیلت٭ تمام مسلمانوں کی بالعموم اور مملکت حرمین میں رہنے والوں کی بالخصوص ذمہ داریاں۔

    پہلا خطبہ
    تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس اپنی اطاعت کو خیرات سمیٹنے اور برکتیں لوٹنے کا ذریعہ بنایا ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے، وہی آسمان و زمین کا پروردگار ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ تمام مخلوقات سے افضل ہیں، یا اللہ! ان پر ،ان کی آل، اور تمام صحابہ کرام پر آخری دن تک رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔
    حمد و صلاۃ کے بعد:
    مسلمانو!
    میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی الہی اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں؛ تقوی کی وجہ سے نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور زحمتیں زائل ہوتی ہیں۔
    اسلامی بھائیو!
    بہت سے مسلمانوں کے موجودہ حالات دکھ اور افسوس کا باعث ہیں، مزید بر آں فتنوں اور مصیبتوں نے مسلمانوں کو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، جس سے دین، مال و جان، عزت آبرو، اور گھر بار سب بری طرح متاثر ہوئے ہیں، ہم صرف یہی کہتے ہیں کہ: "وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيْمِ" نیز اللہ تعالی سے ہی مدد کے طلب گار ہیں اور اسی پر ہمارا بھروسا ہے، اللہ تعالی سے دعا کہ ہماری حالت کو درست فرما دے۔
    پیش آمدہ مسائل، بحرانوں ، تکالیف، اور مصیبتوں کا سب سے بڑا سبب تمام تر شعبہ ہائے زندگی میں منہج الہی اور طرزِ نبوی سے دوری ہے، کیا اللہ تعالی نے واضح لفظوں میں نہیں فرمایا اور اسے سمجھنے کی ہر کوئی استطاعت بھی رکھتا ہے کہ:
    {وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ}
    تم پر جو مصیبت بھی آتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے ، اللہ بہت سے گناہوں سے درگزر بھی کر دیتا ہے [الشورى : 30]
    کیا اللہ تعالی نے ہمیں یہ نہیں بتلایا کہ:
    {ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ}
    بر و بحر میں فساد پھیل گیا ہے جس کی وجہ لوگوں کے اپنے کیے ہوئے اعمال ہیں ؛ تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے کچھ اعمال کا مزا چکھا دے، شاید وہ ایسے کاموں سے باز آ جائیں [الروم : 41]

    اور آپ ﷺ نے بھی ہمیں یہی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: (جب تک مسلم حکمران اللہ کے نازل کردہ احکامات نافذ نہیں کرینگے تو اللہ تعالی انہیں خانہ جنگی میں مبتلا کیے رکھے گا)
    چنانچہ گناہ موجودہ نعمتوں کو زائل کر دیتے ہیں اور آئندہ ملنے والی نعمتوں کیلئے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
    اور علی رضی اللہ عنہ نبوی تعلیمات سے کشید کردہ ایک بات کہتے ہیں کہ: " مصیبت صرف گناہوں کی وجہ سے اترتی ہے، اور اس کا ازالہ صرف توبہ سے ہی ممکن ہے"
    اسی مفہوم کو ابن قیم رحمہ اللہ مکمل چھان بین کے بعد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ بات قرآن مجید میں ایک ہزار سے زائد بار موجود ہے" لہذا سنگین اور تباہ کن فتنے مسلمانوں کو کتاب و سنت کی مخالفت کی وجہ سے ہی اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔
    مسند احمد میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (جب میری امت میں گناہ سر عام ہونگے تو اللہ تعالی سب کو عذاب میں مبتلا کر دیگا) یہ حدیث ان لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہونی ضروری ہے جو منہج کتاب و سنت سے دور ہیں۔
    یہ بات ہمیں ذہن نشین کرنا ہوگی کہ کچھ بنیادی اور انتہائی عظیم اصول ہیں کہ اگر مسلمان ان پر عمل پیرا ہو جائیں، انہیں اپنی عملی زندگی میں جگہ دیں تو ہر قسم کے شر، تباہی، اور سنگین فتنوں سے نجات پا سکے گے، بصورت دیگر جو نقصانات ہونگے وہ موجودہ حالت سے بھی کہیں گھمبیر اور سنگین ہونگے:
    پہلا اصول: اللہ کیلئے سچی توبہ، اس توبہ میں تمام افراد، حکمران، مفکرین، صحافی، اور امت کا ہر فرد شامل ہونا ضروری ہے، اور اس کیلئے صراط مستقیم ، شریعت الہی، احکامات الہی، اور نبوی تعلیمات کی طرف رجوع کریں۔
    توبہ کے ذریعے اصلاح ممکن ہوگی ، خوشگوار زندگی میسر آئے گی اور شر، تکالیف، مصیبتوں اور ہر قسم کے بحران سے نجات ملے گے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    { وَتُوبُوا إِلَى اللہ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}
    مؤمنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرو؛ تاکہ تم فلاح پاؤ[النور : 31]

    نیز اللہ تعالی نے ہود علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
    {وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ}
    میری قوم ! تم اپنے پروردگار سے توبہ استغفار کرو ، وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش نازل ، اور تمہاری موجودہ قوت میں مزید اضافہ فرمائے گا [هود : 52]

    خیر و بھلائی کی تمام تر صورتیں جن کی ہم اپنی زندگی میں تمنا رکھتے ہیں وہ سب کی سب توبہ اور اپنی اصلاح کیساتھ منسلک ہیں، آئیں میرے ساتھ اللہ تعالی کی اس صدا کو کان لگا کر سنیں: {فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ وَإِنْ يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللہ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ}
    اگر تو وہ توبہ کر لیں تو یہ ان کیلئے بہتر ہوگا، اور اگر رو گردانی کریں تو اللہ تعالی انہیں دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب دیگا، اور اس دھرتی پر ان کا کوئی دوست اور مدد گار نہیں ہوگا۔[التوبہ: 74]
    حقیقت بات یہ ہے اس آیت میں ہماری موجودہ صورت حال کا ذکر کیا گیا ہے۔
    واجبات میں پیدا ہونے والے خلل کو پر کرتے ہوئے گناہوں سے دور رہ کر اپنی اصلاح کرنا ہمہ قسم کی مشکل کشائی کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    {وَمَا كَانَ اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللہ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ}
    آپ [ﷺ]کی موجودگی میں اللہ تعالی انہیں عذاب نہیں دیگا، اور نہ ہی انہیں استغفار کرنے کی حالت میں عذاب دیگا۔[الأنفال : 33]
    بلکہ یہ خیر و برکت کے نزول اور خوشی و مسرت کے حصول کا ذریعہ بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    {وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ}
    اور اپنے رب سے بخشش مانگو اور توبہ کرو، وہ تمہیں ایک وقت تک خوشحالی عطا فرمائے گا، اور زیادہ عمل کرنے والے کو مزید بھی عطا کریگا[هود : 3]
    اسی طرح اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کی زبانی فرمایا:
    {فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْك ُمْ مِدْرَارًا (11) وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا }
    میں نے انہیں کہا کہ : تم اپنے رب سے استغفار کرو بیشک وہ معاف کرنے والا ہے[10] وہ تم پر موسلا دھار بارش بھی برسائے گا [11] نیز وہ تمہاری نرینہ اولاد کے ذریعے مدد فرمائے گا اور تمہارے لیے کھیت اور نہریں بنا دے گا[نوح : 10 - 12]
    دوسرا اصول: کثرت کیساتھ نیکیاں اور عبادات بجا لائی جائیں، ان کے ذریعے زحمتیں دور اور رحمتیں حاصل ہوتی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
    {وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا [2] وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللہ فَهُوَ حَسْبُهُ}
    اور جو اللہ سے ڈرے تو اللہ تعالی اس کیلئے تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے[2] اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے کسی کو گمان ہی نہیں ، اور جو بھی اللہ تعالی پر توکل کرے تو اللہ تعالی اس کیلئے کافی ہے۔ [الطلاق :2-3]
    ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نیکو کار اور سخاوت کرنیوالے شخص کی اپنی دفاعی فوج ہوتی ہے جو نرم و گرم بستر پر نیند میں بھی اس کا دفاع کرتی ہے، جس شخص کی دفاعی فوج نہ ہو تو ایسے شخص پر دشمن کسی بھی وقت یلغار کر سکتا ہے، اور غلبہ پا سکتا ہے، واللہ المستعان" اور یہ بات آج ہمارے کچھ مسلم خطوں کیساتھ سچ ہو چکی ہے۔
    ایسے اہل ایمان جو اطاعت الہی پر عمل پیرا ہوں، ممنوعات سے دور رہتے ہوں ، ان کی اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی نگرانی اور نگہبانی ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    {إِنَّ اللہ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا}
    بیشک اللہ تعالی ایمان والوں کا دفاع فرماتا ہے۔[الحج : 38]
    اگر پوری امت مسلمہ حکمران اور رعایا سمیت سب اس آیت کو غور و فکر، تدبر، اور سمجھ کر پڑھتے اور اسے اپنی عملی زندگی میں جگہ بھی دیں تو موجودہ ذلت آمیز مقام پر نہ ہوتے۔

    تیسرا اصول: جس وقت امت پر فتنے سایہ فگن ہوں، اور ٹھاٹھے مارتی لہریں امت کی کشتی کو بھنور میں لے جائیں تو ایسی صورت میں نجات پانے کیلئے واضح یقینی راستے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ امن و سلامتی کے ساحل تک پہنچنا ممکن ہو، اور یہ کتنی ہی کوشش اور تگ و دو کر لی جائے قرآن و سنت کی روشنی کے بغیر بالکل بھی ممکن نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ جس وقت امت کے چہرے پر ہر طرف سے گناہوں اور مصیبتوں کی لو برس رہی ہو؛ تو باعثِ نجات حل کی تلاش کتاب و سنت کی روشنی میں ہی ہوگی، فرمانِ باری تعالی ہے:
    {وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللہ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا} اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ واریت میں مت پڑو[آل عمران : 103]
    اسی طرح فرمایا:
    {لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ}
    یقیناً ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل کی اس میں تمہارے لیے ذکر ہے، کیا تم اسے سمجھتے نہیں ہو؟[الأنبياء : 10]
    اس آیت کا صحیح ترین مفہوم یہ ہے کہ اسی کتاب میں تمہارے لیے عزت، شرف، رفعت، شان و شوکت اور سیادت کے راز موجود ہیں۔
    امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی مؤطا میں بیان کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں تھامے رکھو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو سکتے: کتاب اللہ اور میری سنت)
    چنانچہ پر فتن دور میں کتاب و سنت کو تھام کر رکھنا ، تنازعات اور لڑائی جھگڑے میں کتاب و سنت کو فیصل ماننا، یہی وہ منفرد راستہ ہے جس سے عالم اسلامی میں پائے جانی والی انواع و اقسام کی بے چینی اور غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ہو سکتا ہے، اور اگر اس سے رو گردانی کی تو تباہی و بربادی مقدر ہوگی۔
    چوتھا اصول: امن و امان ہر ملک و قوم کی خواہش ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص اپنے گھر میں پر امن صبح کرے، بدنی طور پر صحیح سلامت ہو اور اس دن کا کھانا بھی اس کے پاس ہو تو گویا اس کے لیے ساری دنیا اکٹھی کر دی گئی) ترمذی اور ابن ماجہ نے اسے حسن سند کیساتھ روایت کیا ہے۔
    یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ امن کی بنیاد افکار، اقوال و افعال اور رہن سہن ہر اعتبار سے اللہ تعالی پر ایمان لانے میں پنہاں ہے، امن و امان کا بنیادی رکن قرآنی و نبوی تعلیمات سمیت پوری شریعتِ اسلامیہ کو زندگی کے تمام شعبوں میں نفاذ سے حاصل ہوگا، فرمانِ باری تعالی ہے:
    {اَلَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ}
    جو لوگ ایمان لائیں اور ایمان کیساتھ ظلم [شرک] کی آمیزش نہ کریں تو انہی لوگوں کیلئے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔[الأنعام : 82]،
    نیز آیت میں مذکور "امن" کو کسی خاص نوعیت کے امن کیساتھ محدود کرنا کتاب اللہ کے مقاصد سے متصادم تفسیر ہے۔
    جب بھی ملکی قوانین شریعت سے متصادم ہونگے ، اور حکمرانوں کے شخصی و سیاسی اصول کار فرما ہونگے تو وہاں ہر اعتبار سے امن و امان کی جگہ خوف، بے چینی، اور دہشت کا راج ہوگا، فرمانِ باری تعالی ہے:
    {وَضَرَبَ اللہ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللہ فَأَذَاقَهَا اللہ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ}
    اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے جو امن و چین سے رہتی تھی اور ہر طرف سے اس کا کھلا رزق پہنچ رہا تھا، پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کا مزا یہ چکھایا کہ ان پر بھوک اور خوف کو مسلط کر دیا [النحل : 112]
    پانچواں اصول: نیکی و تقوی کے کاموں باہمی تعاون اور خیر کے کاموں میں یکجہتی پوری امت کیلئے قوت کا اہم ترین سبب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    {وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللہ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا}
    اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ، اور فرقہ واریت میں مت پڑو[آل عمران : 103]
    امت اسلامیہ کو جن بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے جن کی وجہ سے امت کی طاقت کو کمزور کیا گیا، اور شان و شوکت کو خاک میں ملایا گیا وہ باہمی اختلاف، فرقہ واریت، داخلی تنازعات، اور انتشار ہیں، انہی کی وجہ سے امت کو ماضی میں نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، فرمانِ باری تعالی ہے:
    {وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللہ مَعَ الصَّابِرِينَ}
    تنازعات میں مت پڑو، ورنہ تم ناکام ہو جاؤ گے، اور تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی، اس لیے ڈٹے رہو، بیشک اللہ تعالی ڈٹ جانے والوں کیساتھ ہے۔[الأنفال : 46]
    اور آپ ﷺ کا فرمان ہے: (باہمی بغض اور حسد نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ مت موڑو، اور اللہ کی بندگی کرتے ہوئے بھائی بھائی بن جاؤ، کسی بھی مسلمان کیلئے اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی جائز نہیں ہے) لیکن آج مسلمان فانی دنیا کیلئے ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ رہے ہیں ، گروہ بندی میں مبتلا ہیں، بلکہ دنیا کیلئے -نعوذ باللہ-ایک دوسرے کا خون بھی بہا رہے ہیں۔
    لوگو! رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان کان لگا کر سننا: آپ ﷺ نے لوگوں کو متوجہ کر کے فرمایا: (لوگو! ملت کا التزام کرو، اور اپنے آپ کو گروہ بندی سے بچاؤ) آپ نے یہ بات تین بار فرمائی، یہ بہت ہی عظیم اور بڑی نصیحت ہے، آپ سے پہلے نہ کسی نے ایسی نصیحت کی اور نہ ہی اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔
    تاریخی واقعات اس بات پر گواہ ہیں کہ فرقہ واریت ہلاکت اور گروہ بندی تباہی و بربادی کا باعث ہے۔
    اس لیے تمام مسلمانوں کو اپنے دین، جان ،اور اپنے ممالک کے بارے میں اللہ سے ڈرنا چاہیے، چنانچہ تمام مسلمان کتاب اللہ کو اپنے لیے منہج و فیصل مانیں، رسول اللہ ﷺ کی سنت کو مشعل راہ بنائیں، خلفائے راشدین کی سیرت کو اپنے لیے رہبر و رہنما سمجھیں، اگر اس طرز زندگی سے ذرہ برابر بھی ہٹے تو ان کی حالت یوں ہوگی:
    كُلٌ يَرَى رَأْيَاً وَيَنْصُرُ قَوْلَهُ وَلَهُ يُعَادِي سَائِرَ الإخْوَانِ
    ہر کسی کی اپنی رائے ہے اور اسی کے دلائل دیتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے اپنے بھائیوں کیساتھ دشمنی بھی مول لیتا ہے
    وَلَو أَنَّهُمْ عِنْدَ التَّنَازُعِ وُفِّقُوْا لَتَحَاكَمُوْا إِلَى اللهِ دُوْنَ تَوَانِ
    اگر تنازع کھڑے ہونے پر بغیر کسی تاخیر کے اللہ تعالی سے فیصلہ کرواتے
    ولأَصْبَحُوْا بَعْدَ الخِصَامِ أحِبَّةً غَيْظَ العِدَا وَمَذَلَّةَ الشَّيْطَانِ
    تو اختلاف کے بعد مزید باہمی قرابت پاتے جو دشمنوں کے غیظ و غضب اور شیطان کی رسوائی کا باعث بنتی
    لیکن اختلاف اور لڑائی کی صورت میں مسلمان دشمنوں اور شیاطین کیلئے بڑا ہی آسان ہدف بن جاتے ہیں۔
    تو کیا اب بھی ممکن ہے کہ مسلمان اپنی اس حالت میں سچے دل کیساتھ سوچیں، اپنا محاسبہ کریں، بطورِ حکمران یا رعایا نہیں بلکہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اپنی حالت پر غور کریں!! پھر یہ بات سمجھ کر صحیح راستے کی جانب رجوع کریں، اور اس طرح ایک ہی جھنڈے تلے جمع ہو جائیں کہ قرآن و سنت ان کا دستور ہو، شریعتِ رحمان فیصل ہو !!
    ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ جلد از جلد اس کام کی توفیق دے، بیشک وہی دعائیں سننے والا ہے۔
    چھٹا اور آخری اصول : یہ ہے کہ تمام لوگ فتنے نمودار ہونے کے وقت شرعی ، قرآنی اور نبوی تعلیمات کو اپنے سامنے رکھیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ} اور جب ان کے پاس کوئی امن یا جنگ کا معاملہ آتا ہے تو وہ سب کے سامنے اسے پھیلا دیتے ہیں، لیکن اگر وہ اسے رسول یا اپنے ذمہ داران تک پہنچاتے ، تو باریک بین اہل علم اسے سمجھ جاتے[النساء : 83]
    اور آپ ﷺ کا فرمان ہے: (فتنوں کے وقت عبادت میری طرف ہجرت کی طرح ہے)
    مسلمانوں کو یہ بات بھی ہر وقت اپنے ذہنوں میں تازہ رکھنی چاہیے کہ زبان اور قلم کا معاملہ فتنہ پروری اور شر انگیزی میں بہت ہی اہمیت رکھتا ہے؛ کیونکہ فتنوں کے وقت میں غلطی اور خطا کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    {إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللہ عَظِيمٌ}
    جب تم اسے اپنی زبانوں سے پھیلا رہے تھے، اور بغیر علم کے باتیں بنا رہے تھے، نیز اسے معمولی سمجھ رہے تھے، حالانکہ وہ باتیں اللہ کے ہاں بہت گراں تھیں[النور : 15]
    علمائے کرام، ذمہ داران، مفکرین، اور صحافت سے منسلک تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی بات کو نشر کرنے سے پہلے اس کی تاکید کر لیں، اور فتنہ پروری کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز کریں۔
    اگر کوئی شخص مسلم خطوں میں ماضی کے فتنوں کو استقرائی نظر سے دیکھے تو نبی ﷺ کے فرمان کی تصدیق کے بغیر نہیں رہ سکے گا، چنانچہ ایک حدیث کو کچھ اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن کچھ اہل علم نے اس کے حسن ہونے کا عندیہ دیا ہے؛ تاہم اس روایت کی تائید میں شرعی اصولوں، اور خاص و عام نصوص سے بھی روشنی ملتی ہے، وہ حدیث یہ ہے کہ: (گونگے ، بہرے، اور اندھے فتنے رونما ہونگے، جو ان کی طرف اقدام کریگا فتنے بھی اسی کی طرف بڑھیں گے، اور ان فتنوں میں صرف زبانی کلامی شرکت بھی تلوار چلنے کی مانند ہوگی) ابو داود، اور تاریخ میں جتنے بھی فتنے رونما ہوئے ہیں ان کی ابتدا یا تو زبان سے ہوئی ہے یا پھر قلم سے۔
    چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فتنوں کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: "حقیقی فتنہ زبان سے بپا ہوتا ہے، ہاتھ سے نہیں" نیز اس بات کی تائید میں آج کل کے زمینی شواہد بھی موجود ہیں ، جن کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان ہوا، واللہ المستعان
    اللہ تعالی ہمارے لیے قرآن و سنت کو بابرکت اور نافع بنائے، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

    دوسرا خطبہ
    میں اپنے رب کی حمد بیان کرتا ہوں، اور اسی کا شکر گزار ہوں، گواہی دیتا ہوں کہ اللہ علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اُسکے بندے اور رسول ہیں ، یا اللہ! اپنے نبی، ان کی آل اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں، اور سلامتی نازل فرما۔
    حمد و صلاۃ کے بعد:
    مسلمانو!
    اللہ تعالی کے ہاں سب سے پاکیزہ عمل کرنے کا حکم اللہ تعالی نے ہمیں دیا ہے، اور وہ ہے کثرت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام ہے، نیز آپ ﷺ پر کثرت کیساتھ درود و سلام برکتوں اور رحمتوں کے حصول کا باعث ہے، بلکہ اس سے بلائیں بھی ٹلتی ہیں، چنانچہ نبی ﷺ پر درود کثرت کیساتھ پڑھیں، نیز جمعہ کے دن اور رات میں درود و سلام کا خصوصی اہتمام کریں۔
    ہمیں اور سب مسلمانوں کو مملکت حرمین شریفین میں بڑی بڑی نعمتیں میسر ہیں، جن میں سے نفاذِ شریعت ، حکمران اور رعایا میں یکجہتی سب سے عظیم ہیں، ان کی وجہ سے یہاں پر امن و امان ، خوشحالی اور استحکام موجود ہے، اسی لیے یہاں پر مقیم دیگر اسلامی ممالک کے افراد اور ہم وطن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، ان سب کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے، اور رضائے الہی کا باعث بننے والے اعمال کرنے چاہییں، نیز اللہ کی ناراضی سے بچیں، اس کے ساتھ ساتھ حکمران و رعایا میں حق و سچ پر یکجہتی قائم رکھنے کیلئے بھر پور کوشش کرتے رہیں۔
    پوری دنیا کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے دین اور نبی عظمت ساری کائنات کے سامنے رکھیں، سب لوگوں کیلئے یہ بات واضح کر دیں کہ اسلام رحمت، عدل، احسان، انصاف، نرمی اور اتحاد و اتفاق کا دین ہے، سارے جہاں کو یہ بتلا دیں کہ : حقیقی اسلام ایسا معاشرہ قائم کرتا ہے جو ترقی، تمدّن، خوشحالی، خوش بختی، امن و امان، محبت اور تعاون میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، نیز اس معاشرے میں وہ تمام بلند اخلاقی اقدار موجود ہوتی ہیں جو کسی بھی اچھے معاشرے کا مطمع نظر ہوں۔
    اپنے دین کی خاطر یہ عمل سب پر واجب ہے، اور اسے اللہ تعالی نے ہم پر واجب قرار دیا ہے۔
    یا اللہ! یا رب! یا الہ العالمین! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اپنے دین کو غالب فرما، اپنے کلمہ کو بلندی عطا فرما، اور مسلمانوں کو حق بات پر متحد فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو خیر و ہدایت پر جمع فرما، یا اللہ! ہمیں تیری رضامندی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو تیری رضا کے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ہمیں تیری اطاعت کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ہمیں تیری ناراضی سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہمیں تیری ناراضی سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہمیں ایسے کام سے دور فرما جو تیری ناراضی کا باعث بنیں، یا ذو الجلال و الاکرام!
    یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلم خطوں پر امن و امان، خوشحالی، استحکام نازل فرما، یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلم خطوں پر امن و امان، خوشحالی، فراوانی، استحکام نازل فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!
    یا اللہ! ہم ظاہری اور باطنی ہر قسم کے فتنوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ! ہمیں آفتوں اور مصیبتوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہمیں اور ہمارے ممالک کو آفتوں اور مصیبتوں سے محفوظ فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!
    یا اللہ! مسلمانوں کی خراب صورت حال درست فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی خراب صورت حال درست فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی خراب صورت حال درست فرما۔
    یا اللہ! تمام مسلمانوں کو بخش دے، یا غفور ! یا رحیم! یا اللہ! ہم سب کو بخش دے، یا اللہ! ہم سب کو بخش دے، یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، یا اللہ! ہماری توبہ ایسے قبول فرما جس سے ہمارے حالات درست ہو جائیں، یا اللہ! ہماری توبہ ایسے قبول فرما جس سے ہمارے حالات درست ہو جائیں، یا حیی! یا قیوم!
    یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو نفاذِ شریعت کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں اپنی رعایا کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما۔
    یا اللہ! یا حیی! یا قیوم! یا اللہ! ہم تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں بیشک تو ہی بخشنے والا ہے، ہم پر موسلا دھار بارش نازل فرما، یا اللہ! مسلم علاقوں میں بارش نازل فرما، یا اللہ! مسلم علاقوں میں بارش نازل فرما، یا اللہ! مسلم علاقوں میں بارش نازل فرما، یا اللہ! ہمارے اور مسلم علاقوں میں بارش نازل فرما۔
    یا اللہ! ہمارے دلوں کو تیری اطاعت کی بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمارے دلوں کو تیری اطاعت کی بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں اپنی موجودہ صورت حال میں تیری توبہ کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ہمارے ملک میں نقصان سے خالی اور فائدے والی بارش عطا فرما۔
    اللہ کے بندو!
    کثرت کیساتھ اللہ کا ذکر کرو، اور صبح و شام اسی کی پاکیزگی بیان کرو، ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔
    مترجم شیخ شفقت الرحمن مغل (ابن مبارک)
    رکن مجلس علماء اردو مجلس
    جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
     
    • اعلی اعلی x 2
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا وبارک فیک۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  3. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    اللہ تعالی آپ کو مزید قوت و توفیق دے اور ہمیں عمل کی توفیق دے
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں