فتنہ انکار حدیث کا بطلان دلائل عقلیہ و نقلیہ سے

ابوعکاشہ نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏فروری 7, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    فتنہ انکار حدیث کا بطلان دلائل عقلیہ و نقلیہ سے

    (الف) قرآن کریم یا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم دئیے اور سمجهائے بغیر ہی مفصل ہے یا آپ کی تعلیم اور قولی و فعلی تبیین و تفسیر سے مفصل ہوا. پہلی شق اختیار کی جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معلم و شارح ہونا(معاذاللہ)بے کار ہوگا کیونکہ جو کتاب پہلے ہی مفصل ہو اس کی تفصیل بیان کرنا تحصیل حاصل کے سوا کچهہ نہیں حالانکہ قرآن کریم میں جابجا اس مضمون کی آیات موجود ہیں کہ یہ رسول لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے. نیز ارشاد ہے؛
    وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم..اور ہم نے تیری طرف(یہ)نصیحت اتاری ہے تاکہ تو لوگوں کے لئے کهول کهول کر بیان کرے جو ان کی طرف اتارا گیا ہے؛ اگر دوسری شق اختیار کی جائے کہ قرآن کریم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی و فعلی تبیین و تفسیر سے مفصل ہوا ہے تو آپ کے قول و فعل یعنی حدیث کا حجت ہونا ثابت ہوا
    (ب) اگر کہا جائے کہ حدیث حجت تو ہے لیکن(بقول منکرین حدیث)ہم تک معتبر ذریعہ سےپہنچ نہ پانے کی وجہ سے ہم پر حجت نہیں رہی، تو قرآن فهمی یا تو حدیث رسول پر موقوف ہے یا نہیں. اگر نہیں تو حدیث کو حجت ٹهرانا ہی سرے سے بے مقصد ہوا. اگر قرآن فهمی حدیث پر موقوف ہے اور منکرین حدیث کے بقول حدیث محفوظ نہیں تو قرآن کریم کی حفاظت بهی بے معنی ٹهری. یہی وجہ ہے کہ آیت: انا نحن نزلناالذکروانا له لحافظون..میں لفظ'القرآن' کی بجائے ،الذکر،لایا گیا ہے، کہ ہم نے ہی اس نصیحت کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں. قرآن کریم تبهی نصیحت نامہ ہوسکتا ہے جب یہ قابل فہم ہو اور قابل فہم تبهی ہوسکتا ہے جبکہ حدیث محفوظ ہو. پس حدیث کے محفوظ نہ ہونیکا دعوی باطل ہوا اور اس کا حجت ہونا بطریق احسن ثابت ہوا. کسی چیز کے معتبر ہونے کے لئے اس کے متعلق یقین قطعی کا حاصل ہونا ضروری نہیں بلکہ ظن بمعنی یقین استدلالی اور ظن بمعنی گمان غالب بهی اعتبار کے لئے کافی ہوتا ہے.
    (ج)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب اقوال و افعال حجت ہیں یا کوئی بهی(معاذاللہ)حجت نہیں یا کچهہ اقوال و افعال تو حجت ہیں اور کچهہ نہیں.اگر پہلی شق اختیار کی جائے تو حدیث کا حجت ہونا ثابت ہوا. اگر دوسری شق اختیار کی جائے تو خود قرآن کریم پر ایمان اور قرآن کریم کو حجت قرار دینا ممکن نہیں کیونکہ قرآن کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ وحی نازل ہونا خود قول رسول ہی سے تو معلوم ہوا. اگر تیسری شق اختیار کی جائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اقوال وافعال(معاذاللہ) حجت نہیں، اگر یہ اقوال و افعال کتاب اللہ(قرآن کریم) کے عین مطابق ہیں تو ان کا انکار بهی دراصل قرآن کریم کا ہی انکار ہوا. اگر یہ اقوال و افعال کتاب اللہ کے ایسے خلاف ہیں کہ یہ اختلاف حقیقی ہو اور اس کا رفع کرنا ممکن ہی نہ ہو تو قرآن کریم کے خلاف ایسے اقوال و افعال لازما باطل ہوں گے. اس(مفروضہ)صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقوال وافعال(معاذاللہ ثم معاذاللہ) باطل تهے. اس سے بهی خود قرآن کریم سے بهی اعتماد اٹهہ گیا اور اس پر ایمان کا دعوی محل نظر ہوا. اگر یہ کہا جائے کہ حجت قرار نہ دئیے جانے والے یہ اقوال و افعال نہ تو قرآن کے مطابق ہیں اور نہ ہی اس کے خلاف ہیں بلکہ اس پر زائد ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اقوال و افعال کا(منکرین حدیث کی اصطلاح کے مطابق بطور مرکز ملت) قرآن کریم سے استنباط فرمایا ہے اور آئیندہ ہر مرکز ملت کو ایسا کرنے کا اختیار ہے، تو استنباطی مسائل اخذ کرنے کے لئے بهی تو کوئی بنیاد ہونی چاهئیے مثلا نمازوں کی رکعات کی تعداد،زکوه کی شرح کا تعین،عیدالفطر کے یکم شوال کا، روزوں کے لئے رمضان کے هجری سال کا نواں مہینہ ہونے کا، عید الاضحی کے لئے دس ذی الحجہ کا اور حج کےلئے ایام حج کا تعین وغیرہ وغیرہ لاتعداد مسائل ایسے ہیں کہ دنیا بهر کے عقلاء بهی جمع ہوکر ان کا استنباط قرآن سے نہیں کرسکتے. پس ثابت ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے اقوال و افعال بهی وحی ہیں. بالفاظ دیگر حدیث حجت ہے. اگر کہا جائے کہ آپ کے یہ اقوال و افعال وحی پر مبنی نہیں بلکہ آپ نے انہیں اپنی رائے اور عقل سے معلوم کیا ہے تو ایسا کر نے کی اجازت یا تو اللہ تعالی نے آپ کو دی ہوگی اور خطاء سے بهی آپ کو معصوم و محفوظ کیا ہوگا یا اجازت نہیں دی ہوگی. اگر اجازت نہیں دی تو قرآن کریم میں ہے:
    ام لهم شرکآء شرعوا لهم من الدین ما لم یاذن به اللہ: کیا ان کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں ایسی باتیں وضع کیں جن کی اجازت اللہ نے نہیں دی..اس سے واضح ہوا کہ اللہ تعالی کے سوا کسی کو بهی دینی احکام ازخود وضع کرنے کا اختیار نہیں ہے. پیغمبر کو بهی شارع بطور اسناد مجازی کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ سے بذریعہ وحی معلوم کردہ شرعی مسائل لوگوں کو بتاتا ہے. پیغمبر کا یہ بتانا یعنی تبیین دراصل اللہ ہی کا بتانا ہے. قرآن کریم میں ہے: ثم ان علینا بیانه..پهر اس قرآن کی وضاحت ہمارے ذمہ ہے. جب اللہ تعالی کا بتانا خطاء سے محفوظ ہے تو پیغمبر کا بتانا بهی خطاء سے محفوظ ہے. لهذا حدیث حجت ہے.
    پیغمبر کے علاوہ کوئی بهی شخص مورد وحی نہیں. لهذا اگر حدیث کو حجت نہ قرار دیا جائے تو پیغمبر کے علاوہ کسی اور کو شارع قرار دینا ہوگا تو ایسا نام نہاد شارع اللہ تعالی سے مسائل معلوم کرکے لوگوں تک نہیں پہنچائے گا بلکہ وہ اپنی عقل سے یہ مسائل از خود یا لوگوں کے مشورہ سے وضع کرے گا حالانکہ ایسا کرنے کی یعنی اپنی عقل سے مسائل گهڑنے کی اجازت تو اللہ تعالی نے اپنے رسولوں کو بهی نہیں دی،جیسا کہ متعلقہ قرآنی آیت سے واضح بهی کیا جا چکا ہے. ایسے کسی نام نہاد شارع کی پیروی وہی بدترین شرک ہے جس میں مثلا نصاری مبتلا ہوے.عیسائیوں کا پوپ خودساختہ خدائی نمائندہ ہوتا ہے اور اس کا ہر حکم(معاذاللہ) گویا اللہ ہی کا حکم ہے.
    زمانہ ماضی کے پاپائیت کے منحوس اثرات سے مستقبل میں بچنے کے لئے عیسائیوں نے تو پوپ کو سیاسی،معاشی اور معاشرتی زندگی سے باہر نکال پهینکا ہے اور وہ محض پوجاپاٹ اور دیگر مذہبی رسوم تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، ادهر منکرین حدیث کا پوپ جسے وہ، مرکز ملت، کے نام سے امت مسلمہ پر مسلط کرنا چاهتے ہیں، وہ بقول ان کے(معاذاللہ ثم معاذاللہ) اللہ اور رسول ہوگا اور زندگی کا کوئی شعبہ بهی اس کے اثر اور تسلط سے باہر نہ ہوگا. چناںچہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں جہاں جہاں بهی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم آیا ہے اس سے ان کا نام نہاد مرکزملت (بالفاظ دیگر قرون وسطی کا پوپ) مراد ہے. پس منکرین حدیث کے اس طرح کے افکار و نظریات کے لغو اور باطل ہونے میں کسی بهی شبهے کی گنجائش نہیں. یہں قیاس شرعی سے غلط فهمی نہیں ہونی چاهئیے. قیاس شرعی سے جو مسائل معلوم کئے جاتے ہیں وہ خودساختہ اور من گهڑت نہیں ہوتے بلکہ ان کی بنیاد قرآن و سنت میں مذکور مسائل پر ہوتی ہے اور قیاس شرعی کے ذریعہ معلوم کردہ مسائل قرآن و سنت ہی سے ماخوذ ہوتے ہیں.
    پس ثابت ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال و افعال حجت ہیں یا بالفاظ دیگر حدیث حجت ہے..وهوالمطلوب (جناب پروفیسر ظفراحمد صاحب دامت برکاتهم)
    بشکریہ:مسعود احمد صاحب
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں