غزوہ تبوک میں جہاد سے رہ جانے والے صحابی

اعجاز علی شاہ نے 'تاریخ اسلام / اسلامی واقعات' میں ‏جون 4, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم​

    حضرت کعب بن مالک رضی ﷲ عنہ کا امتحان
    (غزوہ تبوک میں جہاد کی شرکت سے رہ جانے والے صحابی کی دل کو ہلا دینی والی سچی داستان)​

    حضرت کعب بن مالک رضی ﷲ عنہ تعالیٰ کا واقعہ بے انتہا دلچسپ اور رقت آمیز ہے ، یہ انہوں نے اس وقت خود ہی بیان فرمایا جب بوڑھے اور بینائی سے محروم ہوچکے تھے۔فرماتے ہیں میرا واقعہ یہ ہے کہ جس زمانہ میں شرکت تبوک سے پیچھے رہ گیا اس وقت میں انتہائی خوش حالی میں تھا، اس سے پہلے دو سواریاں میرے پاس کبھی جمع نہیں ہوئی تھیں اور اس جنگ میں تو دو سواریاں بھی میں نے خرید رکھی تھیں۔رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم جب کسی جنگ کا ارادہ فرماتے تو عام طور پر اس خبر کو پھیلنے نہ دیتے ، جب یہ جنگ ہوئی تو سخت گرمی کا زمانہ تھا، دو ردراز اور جنگلوں کا سفر درپیش تھا اور کثیر التعداد دشمن سے سامناتھا، نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے اپنے امور میں مسلمانوں کو آزاد کر رکھا تھا کہ جس طرح چاہیں دشمن کے مقابلے کی تیاری کرلیں اور اپنا ارادہ مسلمانوں پر ظاہر فرمادیاتھا، اور مسلمان آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کے ساتھ اس کثیر تعداد میں تھے کہ ان کا اندراج رجسٹر پر نہ ہوسکتا تھا ، کعب رضی ﷲ عنہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ بہت کم ایسے لوگ ہوں گے کہ جن کی غیر حاضری کا حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کو علم ہوسکتا تھا بلکہ گمان تھا کہ کثرت لشکر کی وجہ سے غائب رہنے کا حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کو علم بھی نہ ہوسکے گا جب تک ﷲ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی علم نہ ہوجائے، یہ لڑائی جس وقت ہوئی وہ زمانہ پھلوں کے پکنے کا تھا ، سایہ گستری بار آوری اور خنکی کا موسم تھا ایسے زمانہ میں میری طبیعت آرام طلبی اور راحت گیری کی طرف بہت مائل ہوگئی ، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اور مسلمانوں نے تیاریاں شروع کردیں، میں صبح اٹھ کر جہاد کی تیاری کے لئے باہر نکلتا لیکن خالی ہاتھ واپس ہوتا، تیاری اور اسباب سفر کی خریداری وغیرہ کچھ نہ کرتا، دل بہلا لیتا کہ جب میں چاہوں گا دم بھر میں تیاری کرلوں گا، دن گزرتے چلے گئے ، لوگوں نے تیاریاں مکمل کرلیں حتی کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ مسلمان جہاد کیلئے روانہ ہوگئے،میں نے دل میں کہا کہ ایک دو دن بعد تیاری کرکے میں بھی مل جاؤں گا، اس عرصہ میں مسلمانوں کا لشکر بہت دور جا چکا تھا میں تیاری کیلئے باہر نکلا،لیکن پھر بغیر تیاری کے واپس آگیا حتی کہ ہر روز یہی ہوتا رہا دن نکل گئے، لشکر تبوک پہنچ گیا، اب میں نے کوچ کا ارادہ کرلیا کہ جلدی سے پہنچ کر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوجاؤں، کاش اب بھی کوچ کر جاتا، لیکن آخرکار یہ بھی نہ ہوسکا، اب رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ کے تشریف لے جانے کے بعد جب کبھی میں بازار میں نکلتا تو مجھے یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا کہ جو مسلمان نظر آتا ہے اس پر یا تو نفاق کی پھٹکار نظر آتی ہے یا ایسے مسلمان دکھائی دیتے ہیں جو واقعی ﷲکی طرف سے معذور لنگڑے لولے تھے، جب رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم تبوک پہنچ چکے تو مجھے یاد فرمایا اور پوچھا کعب بن مالک کیا کررہا ہے تو بنی سلمہ کے ایک شخص نے عرض کی : یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ! اس کو خوش عیشی اور آرام طلبی نے مدینے ہی میں روک لیا ہے تو معاذ بن جبل رضی ﷲ عنہ نے کہا تم نے غلط خیال قائم کیا ہے یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ! اس میں تو بھلائی اور نیکی کے سواکچھ نہیں،رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش رہے اور جب رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لانے لگے تو میں سخت پریشان تھا کہ اب کیا کروں؟ میں غلط حیلے سوچنے لگا تاکہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے عتاب سے محفوظ رہ سکوں، چنانچہ ہر ایک سے رائے لینے لگا، اور جب معلوم ہوا کہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم تشریف لا چکے ہیں تو اب غلط سوچ و بچار سے دستبردار ہوگیا، اب میں نے اچھی طرح معلوم کرلیا کہ میں کسی طرح بھی نہیں بچ سکتا، چنانچہ میں نے سچ سچ کہنے کا ارادہ کرلیا، نبی صلی ﷲ علیہ وسلم جب سفر سے واپس آئے تو سب سے پہلے مسجد گئے ، دو رکعت نماز پڑھی، پھر لوگوں کے ساتھ مجلس کی، اب جنگ میں شریک نہ ہونے والے آ آ کر عذر و معذرت کرنے لگے اور قسمیں کھانے لگے، ایسے لوگوں کی تعداد اسی(80) سے کچھ اوپر تھی،نبی صلی ﷲ علیہ وسلم بحکم ظاہر ان کی بات قبول کیے جارہے تھے اور ان کی کوتاہیوں کے لئے طلب مغفرت کر رہے تھے، میری باری آئی میں نے آکر سلام عرض کیا، آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا یہاں آؤ، میں سامنے جا بیٹھا، مجھ سے فرمایا : تم کیوں رکے رہے؟ کیا تم نے تیاری جہاد کیلئے خریداری نہیں کرلی تھی؟ میں نے کہا: یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ! اگر میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور سے بات کرتا تو صاف صاف بری ہوجاتا کیوں کہ مجھے بحث و تکرار اورمعذرت کرنا خوب آتا ہے لیکن ﷲ کی قسم میں جانتا ہوں کہ اس وقت تو جھوٹی بات بنا کر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کر لوں گا، لیکن بہت جلد ہی ﷲ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے گا اور اگر میں سچ سچ کہہ دیا تو حسین عاقبت کی مجھے ﷲ کی طرف سے امید ہوسکتی ہے،یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ! ﷲ کی قسم میں کوئی معقول عذر نہیں رکھتا تھا، میرے پاس عدم شرکت جنگ کا درحقیقت کوئی حیلہ نہیں ، تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ! ہاں یہ تو سچ کہتاہے، اچھا اب تم چلے جاؤ اور انتظار کرو کہ ﷲ تعالیٰ تمہارے بارے میں کیا حکم فرماتا ہے چنانچہ میں چلا گیا، بنی سلمہ کے لوگ بھی میرے ساتھ اٹھے اور ساتھ ہولئے، اور کہنے لگے : ﷲ کی قسم ہم نے تمہیں پہلے کوئی خطا کرتے نہیں دیکھا ہے دوسرے لوگوں نے جیسے عذرات پیش کردئیے تم نے حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے سامنے کچھ بھی عذر نہیں کیا، ورنہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے دوسروں کیلئے جیسے استغفار کیا تھا تمہارے لئے بھی حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کا یہ استغفار کافی ہوتا، غرض کہ لوگوں نے اس بات پر اس قدر زور دیا کہ میں نے ایک بار یہ ارادہ کرہی لیا کہ پھر واپس جاؤں اور کوئی عذر تراش دوں ، لیکن میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ میری طرح کیا کسی اور کی بھی صورت حال ہے ، کہاہاں تمہاری طرح کے اور دو آدمی ہیں، جنہوں نے سچ سچ کہہ دیا ہے میں نے پوچھا وہ کون ہیں؟ کہا گیا مرارہ بن الربیع العامری اور ہلال بن امیہ الواقفی ،کہا گیا یہ دونوں مرد صالح ہیں ،بدر میں شریک تھے ، اب میرے سامنے ان کا نقش قدم تھا اسے لئے میں دوبارہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس نہ گیا، اب معلوم ہوا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ہم تینوں سے سلام کلام کرنے سے لوگوں کو ممانعت کر دی ہے اور لوگوں نے ہمارا بالکل بائیکاٹ کردیا ہے اور ہم ایسے بدل گئے کہ زمین پر رہنا ہمیں بوجھ معلوم ہونے لگا، ہم پر اس ترک تعلقات کے پچاس دن گزر گئے ان دونوں نے تو منہ چھپا کر خانہ نشینی ہی اختیار کرلی ، روتے پیٹتے رہے میں ذرا سخت مزاج تھا، قوت برداشت تھی ، جاکر جماعت کے ساتھ برابر نماز پڑھتا تھا، بازاروں میں گھومتا تھا لیکن مجھ سے کوئی بولتا نہ تھا، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس آتا، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم تشریف فرما رہتے،میں سلام کرتا اور دیکھتا کہ جواب سلام کے لئے حضرت محمد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے ہونٹ ہلتے کہ نہیں ، پھر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے قریب ہی نماز پڑھ لیتا، کنکھیوں سے آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کو دیکھتا، میں نماز پڑھنے لگتا تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم مجھے دیکھتے ،میں آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو جاتا تو نظر پھیر لیتے ، جب اس بائیکاٹ کی مدت لمبی ہوتی گئی تو میں ابو قتادہ رضی ﷲ عنہ کے باغ کی دیوار پھاند کر ان کے یہاں گیاوہ میرے چچا زاد بھائی تھے ، میں انہیں بہت چاہتا تھا، سلام کیا وﷲ انہوں نے جواب نہ دیا،میں نے کہا اے ابوقتادہ ! تمہیں ﷲ کی قسم کیا تم نہیں جانتے میں ﷲ کو اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو دوست رکھتا ہوں ، وہ سن کر خاموش ہوگئے، میں نے ﷲ کی قسم دے کر بات کی پھر کچھ نہ بولے، میں نے پھر قسم دی کچھ بھی نہ کہا، لیکن انجان پن سے بولے ،ﷲ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کو علم ہے میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ، پھر دیوار پھاند کر واپس ہوگیا۔ایک دن بازار مدینہ میں گھوم رہا تھا کہ شام کا ایک قبطی جو مدینہ کے بازار میں کھانے کی کچھ چیزیں بیچ رہا تھا، لوگوں سے کہنے لگا کہ کعب بن مالک رضی ﷲ عنہ کا کوئی پتہ دے، لوگوں نے میری طرف اشارہ کردیا وہ میرے پاس آیا اور شاہ غسان کا ایک مکتوب میرے حوالے کیا ، چونکہ میں پڑھا لکھا تھا ، پڑھا تو لکھاتھا کہ:
    '' ہمیں اطلاع ملی ہے کہ تمہارے آقا (رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم) نے تم پر سختی کی ہے، ﷲ نے تمہیں کوئی معمولی آدمی تو نہیں بنایا ہے، تم کوئی گرے پڑے نہیں ہو ، تم ہمارے پاس آجاؤ ، ہم تمہیں نواز دیں گے۔''میں نے یہ پڑھ کر کہا: میرے ﷲ! یہ تو نئی مصیبت آپڑی، میں نے اس مکتوب کو آگ میں جھونک دیا اور جب پچاس میں چالیس دن گزر گئے تو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا ایک قاصد میرے پاس آیا اور کہا حضرت محمد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ اپنی عورت سے علیحدہ ہو، میں نے پوچھا کیا حکم ہے کہ طلاق دوں؟ کہا نہیں صرف الگ رہو، قربت نہ کرنا ، کہا کہ دوسرے دونوں کے بارے میں بھی یہی حکم ہوا ہے، چنانچہ میں نے اپنی عورت سے کہہ دیا کہ میکے چلی جاؤ حتی کہ ﷲ کا کوئی حکم پہنچے، ہلال بن امیہ رضی ﷲ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کرنے لگی یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم! ہلال ایک شیخ ضعیف ہے اس کی خدمت کیلئے کوئی آدمی نہیں ، اگر میں ان کی خدمت میں لگی رہوں تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نامنظور تو نہ کریں گے، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا لیکن وہ تم سے قربت نہ کرے کہنے لگی اس غریب کو تو ہلنا جلنا مشکل ہوگیا ہے ، آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی ناراضی کے دن سے آج تک لگاتار روتا رہتاہے ، میرے گھر والوں میں سے ایک نے کہا تم بھی رسول ﷲ صلی ﷲعلیہ وسلم سے اپنی بیوی سے خدمت لینے کی اجازت حاصل کرلو جیسے کہ ہلال کو اجازت مل گئی، میں نے کہا ﷲ کی قسم میں اس بات کی حضرت محمد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے درخواست نہ کروں گا، نہ معلوم حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کیا فرمائیں گے ، میں نوجوان آدمی ہوں مجھے کسی سے درخواست لینے کی ضرورت نہیں، اب ہم نے مزید دس دن گزارے اور لوگوں کے قطع تعلق کو پچاس دن گزر گئے، پچاسویں دن کی صبح اپنے گھر کی چھت پر صبح کی نماز پڑھ کر میں اس حال میں بیٹھا ہوا تھا جیسا کہ ﷲ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں فرمایا ہے یعنی میری جان مجھ پر بھاری معلوم ہورہی تھی ،یہ وسیع دنیا مجھے تنگ محسوس ہورہی تھی کہ سلع پہاڑی پر سے ایک پکارنے والے کی آواز میرے کان میں پڑی کہ وہ بلند آواز میں چیخ رہا تھا کہ '' اے کعب بن مالک ! خوش ہوجاؤ،'' یہ سنتے ہی میں سجدے میں گر پڑا اور سمجھ گیا کہ ﷲ نے میری توبہ قبول کرلی،مصیبت کا زمانہ گزر گیا،صبح کی نماز پڑھنے کے بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اطلاع سنا دی، کہ ﷲ تعالیٰ نے ان تینوں کی توبہ قبول کرلی ہے، لوگ ہمیں خوشخبری دینے کیلئے دوڑے، ان دونوں کے پاس بھی گئے اور میرے پاس بھی ایک سوار تیز گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا، لیکن پہاڑی پر چڑھ کر آواز دینے والازیادہ کامیاب رہا کہ جلد تر مجھے خبر مل گئی کیوں کہ گھوڑے کی رفتار سے آواز کی رفتار تیز تر ہوتی ہے ، چنانچہ جب وہ شخص مجھ سے ملا جس کی آواز میں نے سنی تھی تو اس خوشخبری دینے کے صلے میں اپنے کپڑے اتار کر میں نے اسے پہنا دئیے، وﷲ میرے پاس اس وقت دوسرا جوڑا نہیں تھا میں نے اپنے لئے مستعار(تیار شدہ) کپڑے لے کر پہن لئے، میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس جانے کے ارادے سے نکلا، لوگ مجھے راہ میں جوق در جوق ملتے اور مبارک باد دیتے جاتے،میں مسجد میں داخل ہوا تو نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے، مجھے دیکھتے ہی طلحہ بن عبیدﷲدوڑ پڑے ،مجھ سے مصافحہ کرکے مبارک باد دی ، مہاجرین میں سے کسی نے ان کے سوا یہ اقدام نہیں کیا، کعب رضی ﷲ عنہ نے طلحہ رضی ﷲ عنہ کے اس خلوص کو کبھی فراموش نہیں کیا، میں نے آکر رسول ﷲصلی ﷲ علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ صلی ﷲعلیہ وسلم کا چہرہ(مبارک) خوشی سے چمک اٹھا، کہنے لگے: خوش ہوجاؤ جب سے تم پیدا ہوئے ایسی خوشی کا دن تم پر نہ آیا ہوگا، میں نے پوچھا یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم! یہ بشارت آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی طرف سے یا ﷲ کی طرف سے ؟ فرمانے لگے ﷲ کی طرف سے ، نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم خوش ہوجاتے تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کا چہرہ(مبارک ) چمک اٹھتا تھا، گویا چاند کا ٹکڑا ہے اور آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی خوشنودی آپکے چہرہ (مبارک ) ہی سے ظاہر ہوجاتی، میں نے حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم سے عرض کی یارسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم میری قبولیت توبہ کی یہ برکت ہونی چاہیے کہ میں اپنا سارا مال و متاع ﷲ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی راہ میں لٹا دوں، نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا نہیں کچھ رکھو اور کچھ صدقہ کردو، یہی بہتر صورت ہے میں نے کہا خیبر سے جو حصہ مجھے ملاتھا وہ میں اپنے لئے رکھ لیتا ہوں، یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سچائی کی برکتوں کے سبب ﷲ نے مجھے نجات بخشی، ﷲکی قسم میں نے جب سے حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم سے راست گئی کا ذکر کیا پھر کبھی جھوٹ نہیں بولا ، ﷲ سے دعا ہے کہ وہ آئندہ بھی کبھی مجھ سے جھوٹ نہ بلوائے، ﷲ تعالیٰ ہم کو بھی سچ بولنے کی توفیق دے ، آمین(بخاری شریف)
    ''صحیح اسلامی واقعات ''، صفحہ نمبر 89-80


    ۔
     
    Last edited: ‏ستمبر 27, 2014
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. خادم خلق

    خادم خلق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 27, 2007
    پیغامات:
    4,946
    جزاک اللہ بھائی ۔
     
  3. سیف اللہ

    سیف اللہ -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 1, 2008
    پیغامات:
    195
    سبحان اللہ!
    یہ تھے ہمارے اسلاف جو جہاد سے دوری کا تصور بھی نہیں کرتے تھے اور اگر ان سے ایسی کوئی کوتاہی سرزد ہوتی تو اپنا محاسبہ بھی کرتے تھے اور اپنے آپ کو بارگاہ رسالت میں‌ احتساب کے لئے پیش بھی کرتے تھے! اور ایک ہم ہیں ‌کہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے جہاد کو دہشت گردی ثابت کرنے کی دل و جان سے کوشش کررہے ہیں۔
     
  4. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں