فضا ابن فیضی دهوئیں کی شام , شعلے کا سویرا

ابوعکاشہ نے 'کلامِ سُخن وَر' میں ‏دسمبر 14, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    *دهوئیں کی شام شعلے کا سویرا*

    جو شاہیں تهے کبوتر ہوگئے ہیں
    ہوا کے ہاتھ خنجر ہو گئے ہیں

    وہ موسم ہے کہ ہنستے بولتے شہر
    اداسی کا مقدر ہو گئے ہیں

    دهویں کی شام شعلے کا سویرا
    یہ کیا لمحوں کے تیور ہوگئے ہیں

    گهر آنگن پیاس کے پہرے میں لیکن
    گلی کوچے سمندر ہو گئے ہیں

    پشیماں ہیں اڑانیں بهرنے والے
    شکستہ سارےشہپر ہو گئے ہیں

    نشیمن ہیں کہ افسوں گاه آشوب
    پرندے گهر سے بےگهر ہوگئے ہیں

    جنہیں سونپی گئی عقدہ کشائی
    وہ ناخن بڑھ کے نشتر ہوگئے ہیں

    شفق چہروں پہ لکهتا ہے لہو کون
    کہ سب زخموں کا محضر ہوگئے ہیں

    چیختی ہڈیاں، ادهڑے ہوئے گوشت
    عجب ماحول و منظر ہوگئے ہیں

    بدن پر گہرے سناٹے کی چادر
    نفس سینے سے باہر ہوگئے ہیں

    اب ان آنکهوں کو رکھ آوں کہیں اور
    مہکتے خواب پتهر ہوگئے ہیں

    سلگتے ہیں کچھ آیئنوں میں جوہر
    کچھ آیئنے مکدر ہوگئے ہیں

    گهٹی چیخوں میں ڈوبی ہیں اذانیں
    صحیفے خون میں تر ہوگئے ہیں

    ہمکتے تهے جہاں معصوم بچے
    وہ گهر نوحوں کا ماتم ہوگئے ہیں

    یہی پیوند اب سرمایہ اپنا
    کسی مفلس کی چادر ہوگئے ہیں

    نہیں ہمت کہ چاک جسم دیکهیں
    بہت دیوار میں در ہوگئے ہیں

    فضا ہم پر جو گزری ہے نہ پوچهو
    ہزیمت خورده لشکر ہوگئے ہیں

    (فضا ابن فیضی)​
     
    • اعلی اعلی x 2
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں