اللہ تعالٰی سے اچھا گمان / حُسنِ ظَن باللہ

اجمل نے 'مثالی معاشرہ' میں ‏جنوری 8, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اجمل

    اجمل محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 10, 2014
    پیغامات:
    709
    [​IMG]

    اللہ تعالٰی سے اچھا گمان / حُسنِ ظَن باللہ

    الحمد للہ ! ہم سب مسلمان ہیں۔
    ہم سب اپنے رب کے بارے میں حُسن ظَن رکھتے ہیں۔
    اللہ سے حُسن ظَن رکھنا اللہ پر ہمارے ایمان کی بنیاد ہے‘ ہمارے عقیدے کا لازمی جز ہے۔
    اللہ کے ساتھ حُسنِ ظن سے بندے کا ایمان بڑھتا ہے اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔

    یہ حُسنِ ظَن باللہ ہی ہے جو مومن بندے کو ہمہ وقت اپنے رب کی یاد دلاتی رہتی ہے اور گناہ و معصیت کے طرف اُٹھتے قدم کو روک دیتی ہے‘ رب کی نا فرمانی کرنے سے ڈراتی ہے اور اللہ و رسول اللہ ﷺ کی فرمانبردار بناتی ہے۔

    لیکن آج مسلم معاشرے میں ایسے بے شمار لوگ ملتے ہیں جو

    ۔۔۔۔ نماز نہیں پڑھتے ‘
    ۔۔۔۔ روزے نہیں رکھتے‘
    ۔۔۔۔ زکوٰۃ نہیں دیتے‘
    ۔۔۔۔ حج فرض ہونے کے باوجود حج ادا نہیں کرتے‘
    ۔۔۔۔ حقوق اللہ کیا ہے ؟ حقوق لعباد کیا ہے ؟ ۔۔۔ کچھ پرواہ نہیں‘
    ۔۔۔۔ نا فرمانیوں پر نا فرمانیاں‘ گناہ پر گناہ کئے جاتے ہیں‘
    ۔۔۔۔ ظلم‘ زیادتی و حرام کے کاموں میں ہر دم مگن رہتے ہیں‘​
    اور جب کوئی انہیں اللہ کی نا فرمانیوں پر‘ ظلم و زیادتی پر اور دیگر گناہوں پر ٹوکتا ہے تو بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں
    ’’ اللہ کریم ہے‘ اللہ غفورالرحیم ہے وغیرہ وغیرہ ‘‘

    ہم بھی اپنے رب سے حُسنِ ظن رکھتے ہیں۔ اللہ کے رحیم و کریم اور غفورالرحیم ہونے میں ہمیں کوئی شک نہیں۔
    لیکن کیا اپنے رب کے بارے میں صرف حُسنِ ظَن رکھنا ہی کافی ہے ؟

    آج مسلم ملک و معاشرے میں بسنے والے بے شمار مسلمانوں کا اپنے رب کے بارے میں یہ کیسا حُسنِ ظَن ہے جو انہیں اپنے رب کی نافرمانی سے اور اسکے بندوں پر ظلم و زیادتی کرنے سے نہیں روکتی۔ رب کے بارے میں حُسنِ ظَن اگر رب کا فرمانبردار نہ بنائے پھر یہ حُسنِ ظَن کیسا؟ کیا ایسا ہی حُسنِ ظَن یہ لوگ اپنے آجر( Employer ) سے رکھ سکتے ہیں‘ جو کام کئے بغیر انہیں اجر دے۔

    پھراِن لوگوں نے اپنے رب کو سمجھا کیا ہے؟؟؟
    فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴿٨٧سورة الصافات
    ’’ تو یہ تم نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟؟؟ ‘‘

    ایسے لوگوں کو اپنی ایمان کی خیر منانی چاہئے جوکہنے کو اللہ کے غفورالرحیم ہونے کا حُسنِ ظَن رکھتے ہیں لیکن رب کی فرمانبرداری کے بجائے نافرمانیاں کرتے ہیں اور گناہ و معصیت کو نہیں چھوڑتے۔

    کہیں ایسا تو نہیں :
    قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ( سورة المائدة ۴۱)
    ’’ جو منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے مگر دل اُن کے ایمان نہیں لائے۔‘‘

    اگر یہ لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں تو انہیں اپنی اس ڈھٹائی و ہٹ دھرمی پر اللہ سے ڈرنا چاہئے اور معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ قھار و جبار بھی ہے جو جب چاہے ان کی گرفت کر سکتا ہے۔ کیا اُنہیں اُس دن سے ڈر نہیں لگتا جب اُنہیں اُس قھار و جبار کے سامنے حاضر ہونا ہوگا یا ان کا اُس دن پر ایمان نہیں ہے۔

    يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ۖ وَبَرَزُوا لِلَّـهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ﴿٤٨﴾ سورة ابراهيم
    ’’ڈراؤ اِنہیں اُس دن سے جبکہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد قہار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے۔‘‘

    اور جب انسان کے اپنے کان اور اپنی آنکھیں اور اپنے جسم کی کھالیں اسکی کرتوت کی گواہی دیں گی۔

    وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَـٰكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ اللَّـهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ
    ﴿٢٢
    سورة فصلت
    ’’ اور تم ( اپنی بد اعمالیاں) اس وجہ سے پوشیدہ رکھتے ہی نہ تھے کہ تم پر تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی‘ ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو اُس میں بہت سے اعمال سے اللہ بے خبر ہے۔‘‘

    اور پھر بتایا جائے گا کہ تمہارا یہی سُوءِ ظن یعنی برا گمان جو تم اپنے رب کے بارے میں رکھتے تھے، تمہیں لے ڈوبا اور اسی کی بدولت تم خسارے میں پڑ گئے۔

    وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ﴿٢٣
    سورة فصلت
    ’’تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا، تمہیں لے ڈوبا اور اسی کی بدولت تم خسارے میں پڑ گئے"

    اللہ سبحانہ و تعالٰی کے ساتھ حُسِ ظن یا اچھا گمان تو اُسی وقت فائدہ دے گا جب اپنے گناہوں پر پشیماں ہو۱ جائے‘ گناہوں کو چھوڑا جائے‘ اور اللہ کے حضور سچی توبہ کیا جائے اور اس رب ذوالجلال و الاکرام کی فرمانبرداری اختیار کی جائے۔

    پس اللہ کے ساتھ حُسنِ ظَن یا نیک گمان رکھنے والوں کو چاہئے کہ وہ اخلاص کے ساتھ ایک اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اس سے بخشش کے طلبگار ہوں‘ ظلم زیادتی اور حرام کاری کو چھوڑ کر نیکی میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں تو اِن شاء اللہ اپنے گمان کے مطابق اللہ سبحانہ و تعالٰی کو رحیم و کریم اور غفورالرحیم ہی پائیں گے ورنہ یاد رہے کہ وہ قھار و جبار بھی ہے۔

    اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں، جیسا کہ بخاری و مسلم میں مروی اس حدیثِ قدسی میں بیان ہے:
    ’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے، اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تومیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرے تو میں اُسے ایسی جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اُس (جماعت) سے بہتر ہے، اور اگر وہ ایک بالشت میرے قریب آئے تو میں ایک ہاتھ اُس کے قریب آتا ہوں، اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب آئے تو میں دونوں ہاتھوں کے پھیلانے کے برابر اُسکے قریب آتا ہوں ، اور اگر وہ چل کر میرے پاس آئے تو میں دوڑ کر اُس کے پاس آتا ہوں۔‘‘

    پس غور کیجیے کہ ہمارا رب کس قدر رحیم و عادل ہے... " أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِيْ" ’’ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتاہوں۔‘‘

    لیکن اللہرب العزت نے بھی اِس گمان کو عمل کے ساتھ ہیمنسلک کیا ہے۔اللہ کے ساتھ حُسنِ ظَن در حقیقت حُسنِ عمل کا نام ہے۔پس اللہ کی رحمت و بخشش کے طلبگار مومن بندوں کو اللہ سے حُسنِ ظَن رکھنےکے ساتھ ساتھ حُسن عمل کرنا بھی لازمی ہے اور اعمالِ صالح کیلئے ضروری ہے کہ بندہ حُسنِ ظَن باللہ اور أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ کو ساتھ ساتھ لیکر چلے۔
    وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴿١٣٢﴾سورة آل عمران
    " اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کی جائے۔ "

    لہذا اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرنے والے ہی اللہ سے حُسنِ ظَن رکھنے والے ہیں اور اللہ بھی انکے حُسن ظَن کے مطابق ان سے معاملہ کرے گا‘ ان پر رحم کرے گا‘ انہیں اپنے بخشش سے نوازے گا اور اپنی رحمت سے اپنی سب سے بڑی نعمت جنت میں داخل کرے گا۔.

    مومن بندے کو ہر وقت ہر لمحہ اپنے رب کے ساتھ حُسنِ ظَن رکھنا چاہئے اور آلام و مصائب کے وقت تو حُسنِ ظَن باللہ اور بڑھ جانا چاہئے۔

    رسول اللہ ﷺ اپنے وصال سے تین روز قبل اُمت کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
    ’’ تم میں سے کوئی شخص دنیا سے اس حالت میں رخصت نہ ہو اِلاَّ یہ کہ وہ اپنے رب کے ساتھ حُسنِ ظَن رکھتا ہو۔‘‘

    اور موت کی سختی کے وقت اللہ کے بارے میں حُسنِ ظَن رکھنا اسی بندے کو ممکن ہوگا جو موت سے پہلے اللہ سے حُسنِ ظَن رکھتے ہوئے اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں زندگی گزارے۔ اعمالِ صالح کے ساتھ اللہ کے بارے میں حُسنِ ظَن رکھنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ اعمالِ صالح کے ساتھ اللہ سےحُسنِ ظَن رکھنے سے بہتر کوئی چیز نہیں ۔

    اے رب ہمارے ! ہم تجھ سے حُسنِ ظَن رکھتے ہیں اور اس حُسنِ ظَن کی وجہ سے ہمیں اپنی اطاعت اور اپنے پیارے نبی ﷺ کی اطاعت میں زندگی گزارنے والا بنا دے۔ آمین یا رب العالمین۔
    http://my-aqeedah.blogspot.com/2014/09/expectations-with-allah.html
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں