موسم کے ساتھ رنگ بدلتے اہل دانش

عائشہ نے 'اركان مجلس كے مضامين' میں ‏فروری 13, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    بدلتے موسم انسانی مزاج پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں یہ بھی ایک دلچسپ مطالعہ ہے۔
    ذوالحج سال کا وہ مہینہ ہے جب کچھ "دانشور نما" لوگوں کو غریبوں کا درد بری طرح لاحق ہو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پران کی ہر تحریر میں یہی درد چھلکتا ہے کہ ہر سال حج اور عمرہ کرنے کی بجائے اگر فاقے کا شکار فقیر انسانوں کا کچھ بھلا ہو جاتا تو کیا ہوتا۔ کبھی انہیں غلاف کعبہ سے مسلمانوں کی محبت چبھنے لگتی ہے، اس پر خرچ کی ایک پائی ایک پائی کا یوں حساب کرتے ہیں گویا کسی بنیے کے منشی رہے ہوں۔ پھر انہیں قربانی کے مسکین جانوروں پر ترس آنے لگتا ہے جو ہر گلی محلے میں ذبح ہوتے ہیں۔ میکڈونلڈ کے برگر میں شامل مخملیں قیمہ اور کینٹکی کی فرائڈ چکن شاید انہیں کسی جانور کی باقیات نہیں لگتی یا چوں کہ جانور ان کی آنکھوں کے سامنے ذبح نہیں ہوتے اس لیے ان کے غم میں رونے کا خیال ان کے کند ذہن میں نہیں آتا۔
    کیلنڈر کے ورق الٹتے ہیں۔ انگریزی تقویم کے حساب سے فروری کا مہینہ آتا ہے تویہ "دانشور نما" ایک نئی کینچلی بدلتے ہیں۔سرخ گلاب کی ایک ایک کلی پر ہزاروں روپے وارناانہیں زندہ دلی لگتا ہے، لال سرخ غباروں کو دیکھ کر ان کی عقل بادلوں کے سنگ اڑنے لگتی ہے، سو قیمت پر غور کرنے کا موقع نہیں ملتا اور دل کی شکل والے میٹھے چاکلیٹ کھا کر اپنی پلی پلائی توند پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے یہ دنیا سے فقر وفاقے کے خاتمے کا عملی اعلان فرمادیتے ہیں۔
    اگر یقین نہ آئے تو پچھلے ذوالحج سے فروری تک ان کی تحریروں کے بدلتے مزاج کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجیے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہی لوگ ہمیں ایماندارانہ مکالمے اور نت نئے بیانیوں کی الف ب سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھئی جو لوگ سال بھر ایک نظریے پر قائم نہ رہ سکیں ، ان کی تھالی کی بینگن جیسی دانش ہارمونز کی تبدیلی کا ایک وار نہ سہہ سکے اور جو میٹھا کھاتے ہوئے اپنی ذاتی توند پر بھی رحم نہ کریں ان سے کس دانش وری کی توقع ہے؟
    ترس آتا ہے ایسے بزعم خود دانش وروں پر کہ جب اکانومک ایکٹوٹی حج اور اللہ کے نام پر ہو تو انہیں درد ہوتا ہے اور فروری میں یہی اکانومک ایکٹوٹی کیوپڈ اور ویلنٹائن کے نام پر ہو تو انی باچھیں کھل جاتی ہیں۔ یہ وہ آزاد خیال ہیں جن کو خدا کے در پر ایک سجدہ گراں گزرتا ہے لیکن زندگی بھر نجانے کتنے قبلے بدلتے رہتے ہیں اور کتنی دہلیزوں پر ماتھا ٹیکتے رہتے ہیں۔
     
    Last edited: ‏فروری 13, 2017
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں