شادی میں گاؤں والوں کا لڑکی کے گھروالوں کو پیسہ دینا

مقبول احمد سلفی نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏مئی 1, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    882
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

    پاکستان میں شادی بیاہ کے موقع پر ایک رواج ہے کہ جو مہمان کسی کے یہاں شادی میں شریک ہوتے ہیں وہ دعوت کھانے کے بعد پیسے دیتے ہیں اور جس کے گھر میں شادی ہوتی ہے ان کے افراد میں سے کوئی ساتھ ساتھ لکھتا جاتا ہے کہ فلاں نے اتنے پیسے دئے فلاں نے اتنے دئے بطور یادگار۔جب دوسرے کے یہاں شادی ہوتی ہے تو یہی پیسے اتنی مقدار میں یا اس سے زیادہ لوٹائے جاتے ہیں اس کا شرعا کیا حکم ہے ؟

    وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

    الحمد للہ :
    یہ اصل میں سماجی رسم کے طور پر ہے، اس کے پیچھے لڑکی والوں کے ساتھ ہمدردی ہے ۔ چونکہ بیٹی کی شادی بہت خرچیلی ہے اس وجہ سےاکثر گاؤں دیہات میں بہت پہلے سے یہ رسم چلی آرہی ہے کہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق لڑکی کے گھر دعوت کھانے کے بعد لوگ مالی تعاون کرتے ہیں ۔ یہ تعاون محض گاؤں والوں کی طرف سے ہی نہیں ہوتا بلکہ لڑکی کے جتنے رشتے دار شادی میں شامل ہوتے ہیں وہ بھی اناج ،سامان ، کپڑے اور پیسوں سے مدد کرتے ہیں ۔ اس رسم کے اندر اس معنی میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ شادی کے موقع سے لڑکی کے گھر والوں کی مدد کی جائے لیکن اس رسم کے ساتھ مزید کچھ پہلو بھی ہیں جو سماج کے لئے باعث فساد ہیں ۔

    پیسے دینے والوں کا رکارڈ یاد رکھنا اوراپنی اپنی شادی میں اس سے زیادہ ملنے کی امید رکھنا اور جو کم دے یا نہ دے اس سے دشمنی مول لینا بلکہ بسا اوقات آپسی مقاطعہ تک کی نوبت آجاتی ہے یہ سماج کا فساد اور زہر ہے ۔اس لئے اس حیثیت کی رسم کا خاتمہ کرنا ضرور ی ہے تاکہ ہمدردی کے نام پر دشمنی وفساد کو بڑھاوا نہ ملے ۔ ہاں اگر کسی کوایسے موقع سے مدد کرنی ہو تو اس طرح مدد کرے کہ کسی دوسرے کو اس کے تعاون کی خبر نہ لگے کیونکہ عام طور سے شادی کے بعد لوگوں میں اس پیسے کا چرچا ہوتا ہے ، لوگوں کی غیبت کی جاتی ہے اور جس نے زیادہ دیا اس کے نام کا شہرہ ہوتا ہے ۔ اسلام میں کسی کی غیبت کرنا بڑا جرم ہے اور بڑاتعاون کرکے شہرت حاصل کرنایہ بھی ریاکاری والا بڑا جرم ہے ۔ پیسہ نہ دنیے والے کو مجرم ہی سمجھا جاتا ہے حالانکہ ممکن ہے اس کے پاس پیسے نہ ہوں ، کم دینے والے کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوسکتا ہے ۔

    خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس کے یہاں شادی ہورہی ہے اگر وہ زکوۃ کا مستحق ہے تو گاؤں والوں میں سے وہ لوگ جوصاحب نصاب ہیں وہ زکوۃ کی رقم سے مدد کریں اور لڑکی کے گھر والے مالدار ہیں تو انہیں پیسے دینے کی ضرورت ہی نہیں البتہ اسلامی شکل میں ہدیہ تحفہ لے کر جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں لیکن کچھ لوگ زکوۃ کے مستحق تو نہیں ہوتے تاہم ایسے موقع سے کچھ مالی امداد کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے ایسے لوگوں کی بطور احسان امداد کی جائے تو چپکے سے اور اپنی شادی میں اس مال کے لوٹائے جانے کی امید بھی نہ کی جائے ۔

    واللہ اعلم
    کتبہ
    مقبول احمد سلفی
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 5
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,955
    شاید سائل کا اشارہ اسی دوسری صورت کی طرف ہے. ورنہ پہلی صورت تو اچھی ہے. شہروں میں یہ رواج نہیں رہا. لیکن دیہی علاقوں میں رسم کی یہ قبیح صورت اب تک موجود ہے.
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. حافظ عبد الکریم

    حافظ عبد الکریم محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 12, 2016
    پیغامات:
    592
    یہ رسم ہندوستان میں بھی پائی جاتی ہے
    اس رسم کی وجہ سے کئی لوگ آپسی دشمنی کا شکار بھی ہوے ہیں۔
     
    • متفق متفق x 1
  4. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    882
    جزاک اللہ خیرا
     
  5. حافظ عبد الکریم

    حافظ عبد الکریم محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 12, 2016
    پیغامات:
    592
    آمین
    وایاک
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  6. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا شیخ
     
  7. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    ویسے اگر اس رسم کو قرض حسنہ کی صورت میں لیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا کیونکہ غریب لوگ وقتا فوقتا گائوں اور برادری کے لوگوں کو جب شادی خوشی یا غمی کے موقع پر جو امداد کرتے رہتے ہیں ان کا حساب نہ صرف لینے والے رکھتے ہیں بلکہ دینے والے بھی یاد رکھتے ہیں اور اپنے ہاں اسی طرح کی تقریب پر ان کو توقع ہوتی ہے کہ ان کا مختلف مواقع پر دیا ہوا پیسہ زیادہ نہیں تو اتنا تو کم از کم واپس ملے گا۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں