مسئلہ تکفیر اور سید قطب

ابوعکاشہ نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏مئی 22, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    مسئلہ تکفیر اور سید قطب ۔ خورشیدندیم

    خورشید ندیم صاحب کا یہ کالم نظرسے گزرا۔ لوگ بھی ظاہر ہے سوال تو کرتے ہیں ۔ سوال کرنا منع تو نہیں ۔ میں جماعتوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتا ۔ مجلس فورم پر کوئی جماعت الدعوتہ کا رکن ، حمایتی ،موجود ہو ۔ تو اس اعتراض کا جواب ضرور دے ۔ ہمارا علم کے مطابق جماعت الدعوتہ کامنہج سلف کاتھا
    موصوف سعوویہ کے اخوان ، اسلامی ،اور الدعوتہ کے ساتھ تعلقات میں تغیرسے لا علم ہیں ۔سعودیہ ہمیشہ تعلقات میں مسلم امہ کے مجموعی مفاد کو مدنظررکھتا ہے ۔ اورجہاں اس میں خیرسے زیادہ شرنظرآنا شروع ہو ۔ وہاں اپنے تعلق پر ازسرنونظرثانی کرتا ہے ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    27مارچ کو اسلام آباد میں اہل ِفکر ونظر کی ایک مجلس برپا ہوئی۔ اس میں محترم حافظ محمدسعید صاحب کے بھائی مسعود کمال الدین صاحب بطورِ خاص شریک ہوئے۔ انہوں نے جماعۃ الدعوۃ کے مؤقف اور حکمتِ عملی پر بالتفصیل کلام کیا۔ مسعود صاحب دینی علوم سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی سے بھی فارغ التحصیل ہیں۔ ان کے تعارف میں بتایا گیا کہ وہ ان دنوں’ اسلامک سینٹر آف نیو انگلینڈ‘، بوسٹن (امریکہ)کے ڈائریکٹر ہیں۔انہوں نے بہت شرح و بسط کے ساتھ اپنی بات کہی اور شرکاء مجلس کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کے جواب بھی دیے۔
    جماعۃ الدعوۃ کی جس سب سے بڑی خدمت کا انہوں نے ذکر کیا، یہ فرقہ واریت اور فتنۂ تکفیر کے خلاف علمی و فکری جہاد ہے۔ انہوں نے شرکاء میں کتب کا ایک سیٹ تقسیم کیا۔ ان میں فتنۂ تکفیر، مسلم جان کی حرمت اور فتنۂ خوارج کے علاوہ داعش کے دینی استدلال کے رد میں لٹریچر بھی شامل تھا۔ ان کتابوں میں بہت تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ ایک مسلمان کو کافر کہنا دینی اعتبار سے کتنا بڑا جرم ہے۔ خوارج اور داعش نے مسلم سماج میں فتنۂ تکفیر کے جو بیج بوئے ہیں، اس کی بھی بہت سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔مطالعے کے دوران میں،جب میں نے ایک کتاب کے مندرجات پر نگاہ ڈالی تو چونک اٹھا۔
    یہ ”داعش اور شریعت‘‘ کے عنوان سے ” مناظرِ اسلام‘‘ محمدیحییٰ عارفی صاحب کی تصنیف ہے۔ اس کتاب کے بابِ سوم کا تیرھواں ذیلی عنوان ہے:” موجودہ تکفیری سوچ کا سرغنہ سید قطب ہے‘‘ (صفحہ۔74)۔ اس کتاب میں ہر جگہ سید قطب کا ذکر صیغہ واحد غائب میں کیا گیا ہے۔ لکھا گیا: ” تکفیری سوچ کے حاملین کی لسٹ تو بہت لمبی ہے لیکن بطور مثال مشہور اخوانی داعی سید قطب کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔وہ کہتا ہے۔۔۔۔اپنی دوسری کتاب میں لکھتا ہے: آج ہم جس جاہلیت کا سامنا کر رہے ہیں، یہ وہی جاہلیت ہے جو اسلام کے آغاز کے وقت تھی بلکہ اس سے بھی گئی گزری۔۔۔‘‘ سید قطب کی کتب سے چند اقتباسات درج کرنے کے بعد لکھا گیا ہے۔ ” اس کے علاوہ بھی اس کی کتب اور رسائل میں بہت سے مقامات پر تکفیر کی تپش محسوس ہوتی ہے۔‘‘ (صفحہ75)
    اس باب میں چودھواں ذیلی عنوان ہے ” سید قطب کے تکفیری ہونے پر جہادیوں اور تکفیریوں کے اعترافات۔‘‘ اس کے ذیل میں سید قطب سے متعلق معروف جہادی شخصیات کے خیالات نقل کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر لکھا گیا: ” عصرِ حاضر کے مشہور تکفیری سوچ کے بانی ایمن الظواہری نے بغیر کسی لگی لپٹی کے سید قطب میں اس انتہائی تکفیری سوچ کے ہونے کا اعتراف کیا ہے: کہتا ہے ”سید قطب کی کتابیں وہ بارود تھیں جنہوں نے امت میں جہادی سوچ پیدا کی۔ سید قطب ہی وہ ہستی ہیں جس نے اپنی معرکۃالآراء[تصنیف] ”معالم فی الطریق‘‘ میں جہادی دستور مرتب کیاہے۔‘‘
    محمد یحییٰ صاحب نے اپنی کتاب میں، ان کے بقول، تکفیریوں کے امام ابو محمدالمقدسی کے یہ خیالات نقل کیے ہیں:” میں نے لمبا عرصہ’اخوان‘ کی ایک اصلاحی شاخ میں گزارا ہے۔ جنہوں نے ابتدا ئی دور میں ہمیں(سید قطب کی تصانیف) فی ظلال القرآن، معالم فی الطریق اور ان کے علاوہ سید قطب، محمد قطب اور مودودی کی کتابیںگھوٹ گھوٹ کر پلائیں۔‘‘ یحییٰ عارفی صاحب اس کے بعد لکھتے ہیں:” بتائیے جس کے بنیادی شعور کی گھٹی اور ابتدائی نظریات کی بنیاد سید قطب کی کتابوں اور غالی افکار پر ہو، اس سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے‘‘ ( صفحہ 77 )
    میں اگر یہ پڑھ کر چونکا تو اس کا سبب سید قطب کے خیالات نہیں ہیں۔ سید قطب کی کتاب’ ‘معالم فی الطریق‘‘0 196ء کی دھائی میں اردو میںترجمہ ہو چکی تھی۔میں نے پہلی بار اسے اپنے بچپن میں پڑھا۔ جماعت اسلامی کے معروف راہنما خلیل حامدی صاحب مرحوم نے ‘جادہ و منزل‘ کے عنوان سے اس کا ترجمہ کیا ۔ 2015 ء تک اس کے تئیس ایڈیشن شائع ہو چکے تھے۔ جماعت اسلامی کے حلقے میں مولانا مودودی کی کتب کے علاوہ ،یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ہے۔ اس کے آغاز میں حامدی صاحب نے سید قطب کی زندگی اور افکار کا تفصیل سے تعارف کرایا ہے۔ اس تعارف میں ”سید قطب اور مولانا مودودی ‘‘ کے عنوان سے انہوں نے ذکر کیا کہ جب سید قطب کے خلاف فوجی ٹربیونل میں مقدمہ زیر سماعت تھا تو عدالت نے ان سے پوچھا کہ ان کے اور مولانا مودودی کی دعوت میںکیا فرق ہے؟ سید صاحب نے جواب دیا ” لا فرق ( کوئی فرق نہیں ہے ) ۔
    میں سید قطب کے ان خیالات سے بہت پہلے سے واقف ہوں۔ یہ بحث بھی نئی نہیں ہے کہ دورِ جدید میں جہادی اور تکفیر سوچ کے فکری بانی سید قطب ہیں۔چونکا نے والی بات سید قطب کے بارے میں جماعۃ الدعوۃ کے خیالات ہیں۔ ان کی طرف سے سید قطب کو تکفیری سوچ کا سرغنہ قرار دینا باعث حیرت ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعۃ الدعوۃ بھی جہاد کی علم بردار ہے اورسید صاحب کے فکری پیرو کار بھی اسی کے قائل ہیں۔میں اس’اختلاف‘ کو سمجھنے کی کوشش میں ہوں۔
    جب اخوان پر پہلی بار دورِ ابتلا آیا تو اس وقت سعودی عرب حکومت کے ساتھ اخوان کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ سید قطب کے بھائی محمد قطب نے جلا وطنی کا بڑا عرصہ سعودی عرب میں گزارا۔ اخوان کی فکر اور تنظیم ہی سے دوسری انتہا پسند جماعتیں وجود میں آئیں جو مسلمان حکمرانوں کو مرتد قرار دیتیں اور ان کی تکفیر کرتی ہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ عرب حکمرانوں کے لیے قابل قبول نہیں۔ اس وقت جب ایک بار پھر مصر میں اخوان ابتلا سے گزر رہے ہیں، جنرل سیسی کے سعودی عرب سے تعلقات بہت خوشگوار ہیں۔یہ اخوان اور سعودی حکومت کے تعلقات کا دوسرا دور ہے جس میں دو نوںمختلف بلکہ متضاد موقف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جماعۃ الدعوۃ بھی سعودی عرب حکومت کے قریب تر ہے۔ جماعۃ الدعوۃ کے اس لٹریچر میں اس تصور کو بھی رد کیا گیا ہے، جو مسلمان حکمرانوں کے خلاف جہاد کو جائز کہتا ہے یا ان کی تکفیر کرتا ہے۔ میرا احساس ہے کہ اسی وجہ سے یہ جماعت اخوانی یا جہادی خیالات کی تردید کو ضروری سمجھتی ہے، جس کے نتیجے میں عرب شہنشاہتوں کا دینی جواز چیلنج ہوتا ہے۔
    مثال کے طور پر اس کتاب میں ” حکام کے خلاف بغاوت کے خطرناک نتائج اور مفاسد ‘‘ کے عنوان سے بتایا گیا ہے کہ کیسے مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج سے فقہ اور مسلم معاشروں میں فساد برپا ہوتا ہے۔ میرے نزدیک بھی یہی درست نقطۂ نظر ہے۔ میں اس میں اتنا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ جس شریعت کا اطلاق ہم عرب بادشاہوں پر کرتے ہیں، اس کا دائرہ پاکستان کے منتخب حکمرانوں تک پھیلا دیا جائے تو اس میںکوئی حرج نہیں۔ تاہم اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔ میں صرف یہ تاثر بیان کرنا چاہتا ہوں کہ جماعۃالدعوۃ نے نظریاتی سطح پر خود کو اخوان کی فکر سے الگ کر لیا ہے۔ دیکھیے اب جماعت اسلامی کا کیا موقف سامنے آتا ہے۔ وہ بھی خود کو اس سوچ سے الگ کرتی ہے یا پھر بدستور ‘ لا فرق‘ کے نقطۂ نظر ہی کو اختیار کرتی ہے؟
    (بشکریہ روزنامہ دنیا)
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں