اسلام، جوائنٹ فیملی سسٹم اور پردہ

ابوعکاشہ نے 'مثالی معاشرہ' میں ‏اکتوبر، 10, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    اسلام، جوائنٹ فیملی سسٹم اور پردہ

    ایک بہن نے اعتراض کیا کہ اسلام میں جوائنٹ فیملی سسٹم یعنی مشترکہ خاندانی نظام نہیں ہے کیونکہ اس میں اسلام میں مطلوب حجاب کے تقاضہ پورے نہیں ہوتے۔ میں نے ان بہن کی خدمت میں عرض کیا:

    دین کے دو بنیادی اصول یاد رکھنے چاہیئے:
    الف ۔۔۔ عبادات میں اصل حرمت کی ہے یعنی ہر عبادت حرام ہے جب تک کہ اسکا ثبوت نبی ﷺ سے نہ مل جائے۔ اسی لئے اگر نبی ﷺ نے صلوٰۃ العید سے پہلے نوافل نہیں پڑھے تو ایسے نوافل ادا کرنے والے کو علی ؓ نے بدعتی کہہ کر دھتکار دیا۔
    ب ۔۔۔۔ معاملات، عادات اور معاشرت میں اصل حلت کی ہے یعنی معاشرتی زندگی میں ہر چیز حلال و مباح ہے جب تک کہ اسکا حرام ہونا نبی ﷺ سے ثابت نہ ہو جائے۔ اسی لئے اسلام میں کھانے سے متعلق جو چیزیں حرام تھیں آپ ﷺ نے انکا نام لیکر بتا دیا جیسا کہ غیر اللہ کے نام کا کھانا، مردار، سور، کچلی والے جانور وغیرہ باقی سب کچھ حلال ہے، اسی لئے اسلام میں ہر سبزی حلال قرار پائی گئی کیونکہ آپ ﷺ نے کبھی کسی سبزی کی ممانعت نہیں فرمائی۔
    اسلام کے خاندانی نظام کا تعلق معاملات و معاشرت کی قبیل سے ہے۔ اسلام نہ تو آپ سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ آپ مشترکہ خاندانی نظام کو لازمی قائم کریں اور نہ ہی اس نے کہیں یہ تصریح کی ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام یعنی جوائنٹ فیملی سسٹم ممنوع ہے۔ کوئی ایک آیت یا حدیث اس بابت پیش نہیں کی جاسکتی سومشترکہ خاندانی نظام کو حرام قرار دینا یا غلط کہنا میری دانست میں تو قطعی درست بات نہیں ۔ اسلام نے البتہ یہ کیا کہ مردو عورت کے معاشرتی معاملات سے متعلق گائیڈ لائن یعنی ہدایات دیدی اور یہ مسلمانوں کی اپنی صوابدید پر چھوڑدیا کہ وہ ان ہدایات کا استعمال کرتے ہوئے اپنا خاندانی نظام کس طرح سے ترتیب دیتے ہیں۔
    مشترکہ خاندانی نظام کے رد میں جہاں تک یہ دلیل دی جاتی ہے کہ قریبی رشتہ داروں سے پردہ کرنے کا زیادہ سختی سے حکم ہے بہ نسبت اجنبی نامحرموں سے تو یہ بات قطعی درست نہیں اور اپنے پیچھے قرآن و حدیث سے کوئی سند یا دلیل نہیں رکھتی۔ بلکہ قرآن و حدیث تو ہم کو یہ بتاتے ہیں کہ قریبی نامحرم رشتہ داروں سے حجاب کی اسقدر سختی نہیں جتنی کہ اجنبی نامحرموں سے ہے۔ اسکی مثال ہمیں خود نبیﷺ کے اسوہ اور صحابہؓ کے طرز عمل سے ملتی ہے۔ صحیح بخاری میں پانچ مختلف مواقع پر یہ حدیث مذکور ہے کہ آپﷺ اپنی رشتہ دار انصار خاتون ام حرام بنت ملحانؓ کے ہاں دوپہر میں قیلولہ کرنے جایا کرتے تھے اور ان سے گفت و شنید کرتے تھے۔ اسی طرح سے فتح مکہ کے روز نبی ﷺ اپنی سگی چچازاد بہن ام ہانی ؓ کے گھر تشریف لے گئے اور صلوٰۃ ادا کی اور ان سے گفتگو فرمائی جبکہ ان کا شوہر ہبیرہ بن ابی وہب مخزومی گھر سے بھاگا ہوا تھا۔ اسی طرح سیدنا عمرؓ اکثر اپنی رشتہ دار خاتون شفاء بنت عبداللہؓ سے مشورہ کیا کرتے تھے۔سو اس بابت درست و راجح بات تو یہی لگتی ہے کہ فرسٹ کزن، دیور، جیٹھ اور قریبی رشتہ داروں کے سامنے خواتین سر و جسم کو مکمل ڈھانپ کر سنجیدگی کے ساتھ سامنے ہوسکتی ہیں بشرطیکہ ان کے مابین فضول قسم کے ہنسی مذاق اور بلاضرورت بات چیت نہ ہو۔
    جب بھی دیور جیٹھ کی بات کی جاتی ہے تو فوراً نبی ﷺ کی یہ حدیث سامنے لائی جاتی ہے کہ آپﷺ نے دیور کو موت قرا ر دیا ہے۔ یہ حدیث بلاشبہ اپنی جگہ صحیح ہے لیکن میرے خیال میں اس حدیث کو اسکے سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے کیونکہ مکمل حدیث میں صاف صراحت موجود ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں کے پاس تنہائی میں نہ جاو تو اس پر انصار میں سے ایک شخص نے دیور اور جیٹھ سے متعلق سوال کیا جس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ دیور تو موت ہے یعنی دیور کے ساتھ اکیلے بیٹھنے کے سلسلے میں اسکو موت کہا گیا ہے ۔دیور کے موت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دیور کے ساتھ ایک گھر میں شوہر اور ساس سسر کی موجودگی میں رہنا قطعی حرام و غیر درست ہے۔ دیور کے موت ہونے کا مطلب بالکل ایسے ہی جیسے آپﷺ نے فرمایا کہ عورتیں تمہارے لئے فتنہ ہیں۔ اب عورتیں کے فتنہ ہونے سے کوئی یہ مطلب نکال لے کہ عورت تو ہے ہی فتنہ و مردود چیز سو اس سے قطعی دور رہنا چاہیئے جیسا کہ بعض مبتدع صوفیا ء نے کیا کہ عورت کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیکر نکاح و ازدواجی تعلقات تک کو اپنے اوپر حرام قرار دیدیا۔ عورت کے فتنہ ہونے سے مطلب یہ ہے کہ عورت مرد کے لئے آزمائش ہے کہ اگر مردو عورت کے باہمی تعلقات جائز حدود سے تجاوز کریں تو عورت کی صورت میں یہ چیز مرد کی آخرت کے لئے تباہی کا سبب بن سکتی ہے بلکہ ایسے ہی جیسا کہ قرآن نے مومن کے لئے اس کے مال و اولاد کو فتنہ و ہلاکت قرار دیا۔ سو جس طرح سے مال، اولاد اور عورت انسان کے لئے آزمائش ہے کہ اگر اس بابت جائز حدود سے تجاوز کیا جائے تو یہ فتنہ و ہلاکت بن جاتے ہیں، بالکل ایسے ہی دیور و جیٹھ بھی آزمائش ہیں کہ اگر ان کے ساتھ میل جول اور اٹھنا بیٹھنا شرعی تقاضوں کے تحت نہ ہو تو وہ موت ہیں اور اگر شرعی تقاضوں کے تحت ہے تو وہ قطعی کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ اسی طرح ترمذی میں روایت آتی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ شوہروں کی غیر موجودگی میں ان کی عورتوں کے پاس نہ جاو کیونکہ شیطان تم میں سے کسی کے اندر خون کی طرح گردش کر رہا ہے۔اسی طرح صحیح مسلم کی روایت میں نبی ﷺ کا فرمان آتا ہے کہ آج کے بعد سے کوئی شخص کسی عورت کے پاس اس کے شوہر کی غیر موجودگی میں نہ جائے تا وقتیکہ اس کے ساتھ ایک دو آدمی اور نہ ہوں۔ ان احادیث کے مفہوم مخالف سے تو صاف تصریح ہوتی ہے کہ شوہر کی موجودگی میں خواتین نامحرم کے سامنے شرعی حجاب کے ساتھ آسکتی ہیں بلکہ اگر گھر پر شوہر نہ ہو بلکہ ساس سسر صرف موجود ہوں تو بھی ان کی موجودگی میں بھابھی دیور یا جیٹھ کے سامنے حجاب کے ساتھ ہوسکتی ہے۔
    پھر یہ بات بھی یاد رہے کہ محرم رشتہ دار جیسے والد، بھائی، ماموں، چچا کے سامنے ایک عورت سر پر دوپٹہ لیے بنا بھی آسکتی ہے، اسکی تصریح قرآن میں موجود ہے کہ قرآن نے محرم رشتہ داروں کے سامنے اوڑھنیاں لینے کا حکم نہیں دیا۔ البتہ تہذیب کا تقاضہ یہی ہے کہ ان محرم رشتہ داروں کے سامنے بھی عورت چھاتی اور سر کو ڈھانپ کر رکھے جیسا کہ ہمارے برصغیر کے معاشرے میں رواج پذیر ہے۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ باپ، چچا، ماموں اور بڑے بھائی کے سامنے تو آتے ہی خاتون سر پر دوپٹہ لے لیتی ہیں، جبکہ کزنز اور دوسرے نا محرم رشتہ داروں کے سامنے بغیر سر پر دوپٹہ لئے گھومتی ہیں جو کہ سراسر غلط اور غیر شرعی کام ہے۔ یعنی جہاں سر کا ڈھانپنا ضروری نہیں وہاں تہذیب کے زیر اثر سر ڈھانپا جاتا ہے اور جہاں سر کا ڈھانپنا ایک لازمی شرعی تقاضہ ہے وہاں ننگے سر گفت و شنید ہوتی ہے۔
    سو المختصر یہ کہ
    ۱۔ اسلام نے کوئی خاندانی نظام نہیں دیا۔ ہر معاشرہ شریعت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنا خاندانی نظام ترتیب دے سکتا ہے، چاہے وہ برصغیر پاک و ہند کی طرح کا مشترکہ خاندانی نظام یعنی جوائنٹ فیملی سسٹم ہو یا پھر عربوں کی طرح شادی سے پہلے الگ گھر لینے کا نظام۔
    ۲۔ اسلام میں پردے کے احکام کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ باپ، بھائی، چچا، ماموں کے سامنے شریعت اجازت دیتا ہے کہ خاتون بغیر سر ڈھانپیں آسکتی ہیں البتہ تہذیب یہی ہے کہ بڑے جو کہ محرم ہیں ان کے سامنے بھی سر ڈھانپ کر آیا جائے ۔ البتہ اجنبی نامحرموں جیسا کہ بازار میں چلتے پھرتے لوگ، دور کے رشتہ دار، اسکول کالج اور یونیورسٹی میں ساتھ پڑھنے والے نا محرم مرد حضرات تو ایسے لوگوں سے خاتون کا مکمل پردہ ہے اور ان کے سامنے سر کے ساتھ ساتھ چہرہ کو ڈھانکنا ہی صرف درست و راجح بات ہے۔ جہاں تک قریبی نامحرم رشتہ داروں کی بات ہے جیسا کہ فرسٹ کزنز، دیور،جیٹھ وغیرہ تو اگر ان سے روز کا آمنا سامنا اور ایک ہی گھر میں رہنا ہے تو خاتون ان کے سامنے پورے جسم کو چادر یا بڑے دوپٹہ میں لپیٹ کر اور سرکو ڈھانپ کر عموماً جیسا کہ خواتین صلوٰۃ کی حالت میں ہوتی ہیں، سامنے آسکتی ہیں لیکن پوری سنجیدگی و وقار کے ساتھ کیونکہ جن مسائل سے انسان کو روزمرہ سابقہ پڑتا ہے اسلام نے انکی بابت تخفیف و آسانی رکھی ہے اور بلاضرورت سختی سے منع فرمایا ہے جیسا کہ بلی کے جھوٹے کو پاک کہا گیا کہ نبی ﷺ نے بلی کے گھر میں آنے جانے کی بنا پر یہ رخصت دی اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے فقہاء نے ان پرندوں کی بیٹ کو پاک قرار دیا جن کا گھر میں کثرت سے آنا جانا ہوتا ہے جیسا کہ چڑیا، کوا، کبوتر وغیرہ۔ البتہ یہ چیز گنجائشوں میں ہی شمار ہوگی اصل میں اولی اور اقرب الی الحق معاملہ یہی ہے کہ ہر غیر محرم سے مکمل جسم اور چہرے کا پردہ کیا جائیگا اور یقین کریں آج اس پر فتن دور میں بھی بہت سے خاندان پردے کی ایسی ہی پابندی کرتے ہیں جیسے کہ امہات المومنین کو حکم تھا اور یقین کریں تہہ دل سے ان کے لیے دعا نکلتی ہے گو کہ کوئی انکو انتہا پسند ، روایت پرست یا متشدد کہتا پھرے۔

    تحریر ،محمد فہد حارث
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
    • غیر متفق غیر متفق x 1
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    اسلام نے نامحرموں میں ایسی کوئی تقسیم نہیں کی کہ نامحرم سے چہرے کا پردہ کریں اور قریبی رشتے دار نامحرم سے چہرے کا پردہ نہ کریں۔ صاحب تحریر بھی شریعت سے ایسی کوئی دلیل لانے میں ناکام رہے۔ شرعی احکام کی بنیاد تہذیب و ثقافت پر نہیں بلکہ تہذیب و ثقافت شرعی احکام کے تابع ہیں۔
     
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    صاحب تحریر کی رائے ہو سکتی ہے، جو کہ جوائنٹ فیملی سسٹم کے جواز پر ایک سوال کے جواب میں دی گئی.جس سے متفق ہونا ضروری نہیں. شرعی مسئلہ کیا ہے؟ دلائل کی روشنی میں نقل کردیں.
     
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    دلائل ان لوگوں کو دینے چاہییں جنہوں نے مذکورہ بالا دعوی کیا ہے۔ شریعت میں ایسی کوئی تقسیم نہیں ہے۔
    مشترکہ خاندانی نظام اس زمانے میں بھی موجود تھا لیکن پردے کے احکام کی پابندی بھی کی جاتی تھی۔صرف حسن انتظام چاہیے اور افراد خانہ کی نیت عمل کی ہونی چاہیے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں