خطبہ حرم مدنی 20-10-2017 "وطن سے محبت کے فطری اور شرعی تقاضے" از آل شیخ

شفقت الرحمن نے 'خطبات الحرمین' میں ‏اکتوبر، 20, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. شفقت الرحمن

    شفقت الرحمن ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جون 27, 2008
    پیغامات:
    753

    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 30 -محرم الحرام- 1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "وطن سے محبت کے فطری اور شرعی تقاضے" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ جس دھرتی پہ انسان پیدا ہو اور جہاں زندگی کے لمحات گزارے اس سے محبت فطری چیز ہے اور اسلام نے اسے باقی رکھا ہے، خود آپ ﷺ کو مکہ سے کس قدر محبت تھی یہ سفر ہجرت کے وقت نبی ﷺ کے الفاظ سے معلوم ہوتی ہے، پھر آپ ﷺ نے ہجرت کے بعد اللہ سے مدینہ کی محبت بھی مانگی۔ انسان کو جہاں ضروریات زندگی مہیا ہوں وہ اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے، اس لیے ایسے علاقے کیلیے اچھا شہری بن کر رہنا ضروری ہے اور اسلامی تعلیمات بھی اسی کا مطالبہ کرتی ہیں، نیز اپنے علاقے سے محبت کا تقاضا ہے کہ انسان اس علاقے کیلیے اور وہاں کے باسیوں کیلیے مفید شہری بنے، ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دے، عوامی مفادات کو ذاتی فائدے کیلیے قربان مت کرے، کرپشن اور بد عنوانی سے بچے، ہر وقت اس کے نظریاتی یا سرحدی دفاع کیلیے تیار رہے، کسی بھی ایسی منصوبہ بندی کے خلاف ڈٹ جائے جو امن و استحکام کو چیلنج کرے، ملکی خزانے، دولت، معدنیات اور دیگر املاک کی حفاظت کرے، ملکی قیادت اور اداروں کے ساتھ مخلص رہے، باہمی اتحاد و اتفاق اور یگانگت کیلیے پوری کوشش کرے، حکومتی عہدوں کو ذاتی مفاد کیلیے مت استعمال کرے۔ پھر انہوں نے کہا کہ اگر کسی عام ملک سے محبت کے یہ تقاضے ہیں تو مملکت حرمین کا تقاضے کتنے اہم ہوں گے؟ اس لیے یہاں کے باسیوں کو ہر قسم کے تخریب کار اور مغرب زدہ شخص پہ کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے، آخر میں انہوں نے کہا کہ اس ملک کی بنیاد کتاب و سنت ہے اور یہی اس ملک کا دستور ہے، یہاں کسی قسم کے بدعتی نظریات کی بھی گنجائش نہیں ہے، پھر انہوں نے تمام اسلامی ممالک سمیت سب کیلیے دعائے خیر کی۔

    عربی خطبہ کی آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ حاصل کرنے کیلیے یہاں کلک کریں

    پہلا خطبہ

    تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جس نے ہمیں امن و استحکام کی نعمت عطا فرمائی، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں وہی غالب اور بہت زیادہ بخشنے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور چنیدہ نبی ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور مہاجرین و انصار تمام صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

    حمد و صلاۃ کے بعد:

    مسلمانو! میں تمہیں اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں؛ کیونکہ تقوی سے خیر و بھلائی نازل ہوتی ہے اور برکتیں ملتی ہیں۔

    مسلمانو!

    فطرت سلیم کے حامل افراد کے ہاں قیمتی ترین چیز یہ ہے کہ انسان اس جگہ سے محبت کرے جہاں وہ پیدا ہوا ہے، جس کی مٹی پر زندگی کے لمحات گزارے اور جہاں پر اللہ کی عنایت کردہ نعمتوں کو استعمال کیا۔

    اس فطری حقیقت کو اسلامی شریعت نے برقرار رکھا ہے اور دین و دنیا کی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے حقوق اور واجبات بھی بتلائے۔

    چنانچہ اپنے علاقے اور گھر کی محبت انسانیت کے ہاں اپنی ذات سے محبت کی طرح ہے اور اسی کو قرآن مجید نے بھی بیان کیا ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيَارِكُمْ مَا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِنْهُمْ} اور اگر ہم ان پر واجب کر دیتے کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں یا اپنے گھروں سے نکل جائیں تو ما سوائے چند آدمیوں کے ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ کرتا۔ [النساء: 66]

    اسی طرح ابن عربی رحمہ اللہ موسی علیہ السلام کے قصے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ واپس اپنے علاقے میں آنے کے متعلق کہتے ہیں: "[موسی علیہ السلام کو]وطن واپس آنے کے لیے گہری کھائیوں كو عبور کرنا پڑتا، شدید نوعیت کے خطرات مول لینے پڑتے، اور سنگین قسم کے خدشات نظر انداز کرنے پڑتے" لیکن پھر بھی موسی علیہ السلام اپنے علاقے میں واپس گئے۔

    اپنے علاقے اور ملک سے محبت کی وجہ سے ہی نبی ﷺ نے ہجرت کے وقت مکہ مکرمہ کو انتہائی غم اور بھرے ہوئے دل کے ساتھ مخاطب کر کے فرمایا تھا: (مکہ ! توں کتنا پیارا شہر ہے اور مجھے تجھ سے بہت محبت ہے، مجھے اگر تیرے باسی تجھ سے باہر نہ نکالتے میں تیرے سوا کہیں بھی رہائش اختیار نہ کرتا) ترمذی

    پھر جس وقت اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو ہجرت کا حکم دیا اور مدینہ آپ کا مسکن قرار پایا ، آپ وہاں پر رہنے لگے اور آپ کے پیغام رسالت سے مدینہ چمک اٹھا تو یہاں آپ ﷺ نے اپنی مستقل رہائش گاہ کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا: (یا اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ بھی اتنا ہی محبوب بنا دے جتنا مکہ ہمیں محبوب ہے یا اس سے بھی زیادہ محبوب بنا دے) بخاری

    اسی طرح رسولوں کے بعد افضل ترین افراد یعنی صحابہ کرام جو کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے تشریف لائے ان کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: {لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ} (مال فے)ان محتاج مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں، اور اپنی جائیدادوں سے نکالے گئے۔ وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں۔ یہی لوگ راستباز ہیں۔ [الحشر: 8]

    مسلم اقوام!

    بندے پہ اللہ تعالی کی یہ عظیم ترین نعمت ہے کہ انسان اپنے ملک میں پر امن ہو اسے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے متعلق مکمل اطمینان ہو، اپنے پروردگار کی بندگی اور اپنے خالق کی اطاعت میں مصروف ہو، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص اپنے گھر میں پر امن صبح کرے، اس کا جسم بیماریوں سے سلامت ہو، اس کے پاس اس دن کی خوراک ہو تو گویا اس کیلیے دنیا سمیٹ کر یکجا کر دی گئی) اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔

    مسلم اقوام!

    اپنے علاقے سے محبت کا اسلام میں تصور یہ ہے کہ انسان حسن خلق اور اعلی اخلاقی اقدار کی پابندی کرے، یعنی مطلب یہ ہے کہ ملک و قوم کی خیر و بھلائی اور ترقی کیلیے اپنا کردار ادا کرے، جہاں انسان رہائش پذیر ہے اس علاقے اور وہاں کے مکینوں کا ہاتھ بٹائے اور ان کے کام آئے ، فرمانِ باری تعالی: {وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو گناہ اور زیادتی کے کاموں پر مدد مت کرو۔[المائدة: 2]

    اپنے علاقے سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر فرد اپنے بھائیوں کے ساتھ محبت، مودت، شفقت اور انس کے ساتھ زندگی گزارے اور اللہ تعالی کے اس فرمان پر عمل پیرا رہے: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ} بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔[الحجرات: 10]

    اور نبی ﷺ کا فرمان ہے: (مومنین کی آپس میں محبت، مودت اور شفقت کی مثال ایک جسم جیسی ہے، جب اس کا ایک عضو بھی بیمار ہو تو سارا جسم بخار اور بے خوابی کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے) متفق علیہ

    اپنے علاقے سے محبت نیکی ، تقوی اور باہمی خیر خواہی پر ابھارتی ہے کہ جس سے ملک کا بھی فائدہ ہو اور اپنے گھر کا بھی، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ} بیشک انسان خسارے میں ہے [2] ماسوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں، نیک عمل کریں ، ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کریں اور صبر کرنے کی تاکید کریں۔[العصر: 2، 3]

    ایسے ہی رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (دین خیر خواہی کا نام ہے)یہ آپ نے تین بار فرمایا، ہم نے کہا: "اللہ کے رسول کس کے لیے؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (اللہ کیلیے، اللہ کے رسول، قرآن مجید، مسلم حکمرانوں اور عوام الناس کیلیے)مسلم

    اسلامی بھائیو!

    یہ علاقے کی محبت ہی ہے جو اپنے دین، منہج اور نظریات سمیت اپنی دھرتی کے دفاع کا تقاضا کرتی ہے کہ ہر کوئی بساط بھر اپنی طاقت اور ذمہ داری کے مطابق ملکی مفادات کا دفاع کرے، اسی چیز کی جانب اللہ تعالی کے فرمان میں اشارہ ہے کہ: {قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا} وہ کہنے لگے : "یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد نہ کریں جبکہ ہمیں ہمارے گھروں سے نکال کر بال بچوں سے جدا کر دیا گیا ہے۔ [البقرة: 246] نیز اسی بات کی طرف رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان میں اشارہ ملتا ہے: (جو شخص اپنے مال کے دفاع میں قتل کر دیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنے اہل خانہ کے دفاع میں قتل کر دیا جائے تو وہ بھی شہید ہے، اور جو اپنے دین کے دفاع میں قتل کر دیا جائے تو وہ بھی شہید ہے، اور جو اپنی جان کے دفاع میں قتل کر دیا جائے تو وہ بھی شہید ہے) ترمذی اور ابو داود نے اسے روایت کیا ہے اور اسے محدثین نے صحیح کہا ہے۔

    یہ اپنے ملک سے محبت ہی کا تقاضا ہے کہ کسی بھی ایسی منصوبہ بندی کا ڈٹ کر مقابلہ کریں جو ملکی املاک، دینی اور دنیاوی مفادات سے متصادم ہو۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص تم میں سے برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی استطاعت نہ رکھے تو اپنی زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ رکھے تو اپنے دل میں برا جانے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے) اور مذکورہ ذرائع اور منصوبوں کے برائی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے جو ملکی نظریات اور امن و امان کو مخدوش کریں، یا ملکی املاک اور دولت کو نقصان پہنچائیں یا امن و استحکام کو ٹھیس پہنچائیں۔

    اللہ کے بندو!

    اپنے ملک سے محبت مسلمان کو پابند کرتی ہے کہ وہ ملکی قیادت، املاک اور دولت کی حفاظت کرے، ملکی مفادات کو بھی اسی طرح تحفظ دے جس طرح وہ ذاتی مفادات کی حفاظت کرتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کیلیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے) متفق علیہ

    اسلامی بھائیو!

    اسلام میں اپنے علاقے سے محبت کا مفہوم یہ ہے کہ اس کا ہر مکین اپنے علاقے اور علاقے کے باسیوں کو نقصان سے بچائے؛ چنانچہ صحیح احادیث میں راستے کے حقوق بھی بیان ہوئے ہیں کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دیا جائے، نیز نبی ﷺ سے صحیح احادیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے لوگوں کے صحنوں، راستوں اور کار آمد چیزوں میں رکاوٹیں ڈالنے سے منع فرمایا ہے۔

    اس لیے ہر مسلمان سے اسلام کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے ملک اور قوم سب کیلیے ایسے بن کر رہے جیسے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ: (مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان سلامت رہیں)

    اور یہ اسلام کے بنیادی ترین قواعد و ضوابط میں سے ہے کہ : نہ خود کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی دوسروں کو نقصان پہنچاؤ۔

    مسلم اقوام!

    ملک و قوم کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ مسلمان اپنے ملک ، ملکی قیادت اور معاشرے کی خیانت نہ کرے، اور خیانت کی قبیح ترین صورت یہ ہے کہ حکومتی عہدوں اور ذمہ داریوں کو انسان ذاتی مفاد کیلیے استعمال کرے، اس میں کرپشن اور بد عنوانی سب سے بد ترین صورت ہے، مالی معاملات میں غبن سے شرعی نصوص نے تاکید کے ساتھ خبردار کیا ہے۔ فرمانِ باری تعالی ہے: {وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ} اور جو شخص خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اسی خیانت کردہ چیز سمیت حاضر ہو جائے گا۔ [آل عمران: 161]

    اور نبی ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک لوگ اللہ کے مال کو بغیر حق کے ہڑپ کرتے ہیں، ان کے لیے روزِ قیامت آگ ہے) بخاری

    اسلامی بھائیو!

    ہم پر ملک کا حق ہے کہ ہم ان کے ساتھ تعاون کریں جنہیں اللہ تعالی نے ملکی سیاست کی ذمہ داری سونپی ہے، ہم ظاہر اور باطن ہر اعتبار سے ملکی قیادت کے ساتھ مخلص ہوں، اور یہ بھی ذہن نشین رکھیں کہ ان کی گناہ میں نہیں بلکہ صرف نیکی کے کاموں میں اطاعت شرعی طور پر واجب ہے۔

    ہم باہمی اتحاد، یگانگت، یکجہتی اور یک زبان ہونے کی کوشش کریں، نیز ہم کسی بھی ایسی منصوبہ بندی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوں جو ملک کے امن و امان کو ٹھیس پہنچائے۔

    اس لیے اللہ سے ڈرتے ہوئے ملکی سطح پر تمہارے کندھوں پہ آنے والی ذمہ داریاں مکمل امانت داری سے ادا کرو تو امن و استحکام قائم ہو گا۔

    اللہ تعالی سب کو صرف انہی کاموں کی توفیق دے جو اسے پسند ہیں، درود و سلام نازل ہوں ہمارے نبی محمد ﷺ پر ۔



    دوسرا خطبہ

    میں اپنے پروردگا کی حمد بیان کرتا ہوں اور اسی کا شکر گزار ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ یا اللہ! ان پر ان کی آل، ان کے صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

    حمد و صلاۃ کے بعد، مسلمانو:

    جب یہ بات مسلمہ ہے کہ ملک سے محبت فطری امر ہے اور شریعت اسلامیہ نے اسے برقرار بھی رکھا ہے تو پھر ایسے ملک کے بارے میں کیا خیال ہے جس کی جغرافیائی حدود میں حرمین شریفین ہیں، دو مقدس گھر ہیں، یہ مملکت حرمین ہے ، یہ اسلام پر قائم ہے اس کا منہج اور دستور اسلام ہے، یہ مملکت قلب و جان کے ساتھ عقیدہ توحید پر قائم ہے، اس ملک کی عدالتیں شریعت مطہرہ کے مطابق فیصلے کرتی ہیں، اس ملک کے شہری سنت نبوی کی تعظیم پر زندگی گزارتے ہیں، یہاں کے شہری بدعات کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور ان سے دوسروں کو بھی بچاتے ہیں، اس لیے اس ملک میں رہتے ہوئے پر تعیش زندگی گزارنے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملکی امن و سلامتی کیلیے اپنا کردار ادا کریں، نیز کسی بھی تخریب کار اور مغرب زدہ پر کڑی نگاہیں رکھیں، اس وقت پوری دنیا کو جس گھٹا ٹوپ اندھیری کا سامنا ہے اس میں نگاہیں کڑی رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

    اللہ تمہارا خیال فرمائے، تم اپنے امن و امان کی حفاظت کرو، ہمہ قسم کے فتنوں پر مشتمل اندھیریوں سے اپنے ملک کو بچاؤ؛ کسی بھی قسم کی خرابی اور برائی پر مشتمل نعروں سے بچو۔ انتشار، تشتت اور تفرقے سے دور رہو۔ {وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا} اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہوں میں مت بٹو[آل عمران: 103]

    اس ملک کے جوانو! سنت پر مبنی واضح اور صاف ستھرے منہج کو اپناؤ ، اسی منہج پر یہ ملک قائم ہے، اس منہج میں انتہا پسندی اور غلو کی بالکل گنجائش نہیں، اس منہج میں کوئی بدعتی نظریہ یا منحرف فکر نہیں ہے جو کہ اس ملک کی نظریاتی بنیادوں سے متصادم ہو، یہ ملک اسلامی اقدار اور شرعی اخلاقیات پر قائم ہے، اس کا منہج ایسا ہے کہ سب لوگ یہاں پر ایک ہیں، ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ملک و قوم کے مفاد کیلیے باہمی متعاون ہیں، نیز ملکی قیادت کے ساتھ تعلق میں مخلص بھی ہیں؛ صرف اس لیے کہ مطلوبہ اہداف حاصل ہوں اور متوقع نقصانات کم سے کم ہوں، اس لیے اللہ تعالی نے جو تم پہ نعمت کی ہے اسے تبدیل کرنے کی کوشش مت کرو مبادا اللہ تعالی تمہاری آسودگی کو ہی بدل دے، جیسے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بیان فرمایا کہ: {وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ} اللہ تعالی ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے۔ جو امن و چین سے رہتی تھی اور ہر طرف سے اس کا رزق اسے کھلا پہنچ رہا تھا۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کا مزا یہ چکھایا کہ ان پر بھوک اور خوف (کا عذاب) مسلط کر دیا [النحل: 112]

    اللہ تعالی نے ہمیں ایک ایسے عمل کا حکم دیا ہے جس سے ہمارے دلوں کا تزکیہ ہوتا ہے، اس عمل سے ہماری دنیا و آخرت دونوں ہی سنور جائیں گی، اور وہ یہ ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ پر کثرت سے درود و سلام بھیجیں، یا اللہ! ہمارے نبی اور حبیب محمد ﷺ پر رحمتیں، برکتیں اور سلامتی نازل فرما۔

    یا اللہ! خلفائے راشدین، اہل بیت ،صحابہ کرام اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں سے راضی ہو جا۔

    یا اللہ! تمام مسلمان مرد و خواتین اور تمام مومن مرد و خواتین کی مغفرت فرما، زندہ اور فوت شدگان سب کی مغفرت فرما، یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! ان کی مغفرت فرما اور ان پر رحم فرما، یا ذو الجلال والاکرام!

    یا اللہ! جو بھی ہمارے ملک کے بارے میں یا کسی بھی اسلامی ملک کے بارے میں برے عزائم رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، یا اللہ! جو بھی ہمارے ملک کے بارے میں دینی یا دنیاوی کسی بھی قسم کا برا ارادہ رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، یا اللہ! اس کی عیاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا اللہ! جو بھی ہمارے ملک کے بارے میں یا کسی بھی اسلامی ملک کے بارے میں برے عزائم رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، یا اللہ! اس کی منصوبہ بندیاں غارت فرما، یا اللہ! اس کی عیاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا رب العالمین!

    یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! تمام اسلامی ممالک میں امن و استحکام مضبوط فرما، یا اللہ! ہمارے ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو ہمہ قسم کے فتنوں اور شر سے محفوظ فرما، یا اللہ! تمام اسلامی ممالک کو ظاہری اور باطنی ہمہ قسم کے فتنوں سے محفوظ فرما۔

    یا اللہ! مصیبت زدہ مسلمانوں کی مشکل کشائی فرما، یا اللہ! ان کی حاجت روائی فرما، ان کی مشکلیں آسان فرما، یا اللہ! ان کی ہر پریشانی کو آسانی میں بدل دے، یا اللہ! ان کی ہر پریشانی کو آسانی میں بدل دے، یا اللہ! ان کی ہر پریشانی کو آسانی میں بدل دے۔

    یا اللہ! شام میں ہمارے بھائیوں پر امن نازل فرما، یا اللہ! یمن میں ہمارے بھائیوں پر امن نازل فرما، یا اللہ! لیبیا میں ہمارے بھائیوں پر امن نازل فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں ہمارے بھائیوں پر امن نازل فرما، یا ذوالجلال والاکرام! تمام اسلامی خطوں میں مسلمانوں پر امن نازل فرما، یا حیی! یا قیوم!

    یا اللہ! ہمارے حکمران اور ولی عہد کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! دونوں کو دین و دنیا کیلیے بہتر اقدامات کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! دونوں کو دین و دنیا کیلیے بہتر اقدامات کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو اپنی رعایا کیلیے بہترین اقدامات کرنے کی توفیق عطا فرما، یا حیی! یا قیوم!

    یا اللہ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

    یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہم پہ بارش برسا اور ہمیں مایوس ہونے والوں میں شامل مت فرما، یا اللہ! ہم پہ بارش برسا اور ہمیں مایوس ہونے والوں میں شامل مت فرما، یا اللہ! ہم پہ بارش برسا اور ہمیں مایوس ہونے والوں میں شامل مت فرما۔

    یا اللہ! ہم پر اتنی رحمت فرما کہ ہمیں تیرے سوا کسی کی ضرورت نہ رہے، یا حیی! یا قیوم!

    اللہ کے بندو!

    اللہ کے بندو! اللہ کا ڈھیروں ذکر کرو، اور صبح و شام بھی اسی کی تسبیح بیان کرو ۔

    پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ یا پرنٹ کرنے کیلیے کلک کریں
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں