کیوں بھول جاتے ہیں کہ کس مقصد کیلئے آئے ہیں ہم ؟

ابو حسن نے 'متفرقات' میں ‏جنوری 23, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابو حسن

    ابو حسن محسن

    شمولیت:
    ‏جنوری 21, 2018
    پیغامات:
    415
    ( تحریر از ابو حسن ، میاں سعید )
    ذوالحجہ کے برکتوں بھرے ایام تھے اور میں نے حج کرنے کا ارادہ کیا اور پھر ریاض شہر سے کچھ اور دوست بھی ساتھ مل گئے اور ہم سب نے مکہ معظمہ کیلئے رخت سفر باندھا اور راستے میں میقات سے احرام باندھا اور حج افراد کی نیت کی اور اللہ کے فضل و کرم کے ساتھ خیروعافیت سے مکہ معظمہ پہنچ گئے ، اور طے یہ پایہ کہ اگر کوئی بچھڑ جائے تو اسکو ڈھونڈنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ اپنے اعمال میں مشغول رہیں ،

    ہوا کچھ یوں کہ میں ہی ان سب سے وادی منی میں بچھڑ گیا اور پھر میں بھی مناسک حج میں مشغول ہوگیا جمرات سے کنکریاں مار کر واپس آرہا تھا کہ راستے میں ایک جگہ رک گیا دیکھا کہ کچھ لوگ کنکریا ں مارنے کے بعد اسی راستے کو اختیار کرتے ہوئےواپسی کا رخ کرتے جس پر سے وہ گزر آئے تھے اور عسکری نوجوان انکو دوسرے راستے سےجانے کا کہتے کیونکہ گزشتہ برس حادثہ پیش آگیا تھا کہ لوگ ایک دوسرے پر چڑھ گئے تھے ازدھام کی وجہ سے اور سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ لو گ ایک ہی راستے سے آتے جاتے تھے اور دوسرا یہ کہ لوگ اپنا سامان بھی اٹھا کر ساتھ لئے چلتے جو کہ حادثے کا سبب بنتا ،

    اب ایک بندہ ہاتھ میں اپنا بیگ ، تھیلا یا پھر شاپنگ بیگ اٹھائے کنکریاں مارنے چل دے اور وہ بھی دس ذوالحجہ کو کہ جس دن سبھی کوصرف بڑے شیطان کو کنکریاں مارنی ہوتی ہیں اور پھر قربانی کرنی،بال کٹوانے ، پھر طواف زیارہ اور یہ دن بہت زیاد ہ مشغولیت کا دن ہوتا ہے اب یہ بندہ کنکریاں مارے یا بیگ کو سنبھالے ؟ جبکہ کندھے سے کندھا جڑا ہو (اس زمانے میں دو ہی جگہیں تھیں کنکریاں مارنے کی یعنی اس وقت صرف ایک ہی برج تھا ، زمینی سطح پر یا برج پرجاکر کنکریاں مار سکتے ہیں )

    اگر دھکم پیل میں بیگ ہاتھ سے چھوٹا تو اس کو اٹھا نہیں سکتے اور پیچھے آنے والے کو اس سے ٹھوکر لگتی اور گرگیا تو بس پھر موت کے سوا کچھ نہیں اور میں نے اپنی آنکھوں سے حجاج کی لاشیں دیکھی ہیں اور عسکری ایسے لوگوں سے بیگ پہلے ہی لے لیتے پر بہت سے ایسے بھی تھے جو بیگ کو نیچے لٹکائے ہوئے رش میں گزرجاتے اب ایسے لوگوں کا یہ کیا کرسکتے تھے جو خود کیلئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے اذیت کا سبب بنتے ہیں

    کچھ لوگ تو ایسے ہوتے جو اپنے نونہالوں کو کاندھے پر اٹھائے کنکریاں مارنے کیلئے چل دیتے اور یہ اکثریت عربوں پر مشتمل تھی اور عسکری انسے بچوں کو لے لیتے اور بتاتے کہ فلاں راستے سےواپس آکر اپنے بچے کو لے لینا ابھی آپ جاؤ اور کنکریاں مارو جاکر ، اب ہم ان کے کیے ہوئے انتظامی امور پر دھیان ہی نہ دیں اور پھر برا بھلا بھی انہی لوگوں کو کہیں تو ہم سے بڑا عقلند اور کون ہوسکتا ہے ؟ حالانکہ یہ سب انتظامات حجاج بیت اللہ کی بھلائی کیلئے ہی کیے جاتے ہیں

    تو میں عرض کر رہا تھا واپسی کے بارے میں ،عربی بولنے والوں کو تو انکی سمجھ آجاتی اور ہمارے ہندوپاک سے حج کیلئے آنے والےلوگوں کوسمجھ ہی نہ آتی کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں کیونکہ وہ عربی میں کہتے ،تو میں بھی سلام و دعا کے بعد انکے ساتھ کھڑا ہوگیا اوران کے سامنے اپنی خدمات کوپیش کرنے کا کہا جو کہ انہوں نے با خوشی قبول کرلیں

    اب اردو ، پنجابی اورہندی بولنے والوں کو میں نے بتانا شروع کیا کہ آپ دوسرے راستے سے واپس جائیں یہ جمرات کو کنکریاں مارنے کیلئے جانے والوں کا راستہ ہے ، اسی دوران مختلف مزاج کے لوگوں سے واسطہ پڑتا رہا اور پھر ایک صاحب نے تو حد کردی اور وہ یہ بھی بھول گئے کہ کس مقصد کیلئے آئے ہیں ؟ اور کس غلطی پر بحث کر رہے ہیں ، ہمارے درمیان جو گفتگو ہوئی، وہ پیش خدمت ہے۔

    ابو حسن : بھائی صاحب رکیں وہ اس طرف سےجائیں لیکن وہ سنی ان سنی کرتے ہوئے پلاسٹک کےبلاک کو دھکہ لگا رہے تھے

    ابو حسن : بھائی صاحب اپنے دائیں طرف دیکھیں وہ سامنے ، وہاں سے نکل کر واپسی کا راستہ اختیار کریں کیونکہ یہ راستہ جمرات کی طرف جانے والوں کیلئے ہے

    حاجی صاحب : یہاں سے واپس جاؤں گا تو کیا غلط ہو جائے گا ؟

    ابو حسن : بھائی صاحب آپ سے گزارش ہے کہ دوسرے راستہ کو اختیار کریں اور غلط یہ ہوجائے گا کہ ایک ہی راستے سے جب آمنے سامنے سے لوگ آئیں گے تو رش بڑھے گا اور اسکی وجہ سے دونوں ا طراف کے لوگوں کو دقت پیش آئے گی چلنے میں

    حاجی صاحب : یار میرے اکیلے کے جانے سے رش تھوڑی ہوجائے گا ؟ مجھے یہیں سے جانے دو

    ابو حسن : بھائی صاحب یہی تو میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کرہا ہوں جوکہ آپ سمجھ نہیں رہے یہ معاملہ سب کیلئے ہے اور کسی کیلئے رعایت نہیں ، اس میں سبھی کیلئے بھلائی ہے

    حاجی صاحب : یار آپ پتہ نہیں کیوں چھوٹی سی بات کو بڑھا رہے ہو ؟

    ابو حسن : بھائی صاحب بات کو میں نہیں بلکہ آپ بڑھا رہے ہیں اور جتنا وقت آپ بحث میں ضائع کررہے ہیں اتنی دیر میں آپ آدھا راستہ بھی طے کرچکے ہوتے

    حاجی صاحب : یار انکو ( عسکریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اتنی پریشانی نہیں جتنی تمہیں تکلیف ہو رہی ہے اور اپنا پاکستانی ہوتے ہوئے بھی تم اپنے لوگوں کا خیال نہیں کر رہے ،سیانے صحیح کہتے ہیں کہ " اپنے ہی اپنوں کی جڑیں کاٹتے ہیں "

    ابو حسن : بھائی صاحب آپ حج کرنے آئے ہیں یا لوگو ں سے جھگڑا کرنے آئے ہیں ؟ (جب ان صاحب نے عسکریوں کی طرف ہاتھ اشارہ کیا تھا تو ایک عسکری ہماری طرف آگیا )

    عسکری : عربی میں بولا ، خیر إن شاءاللہ ، کیا ہوا ؟ یہ کوئی جاننے والا ہے ؟

    ابو حسن : نہیں

    عسکری : میں کافی دیر سے دیکھ رہا ہوں یہ تمہارے ساتھ باتیں کر رہا ہے اور میں یہی سمجھا شاید یہ تمہارا کوئی جاننے والا ہے ،یہ کیا پوچھ رہا ہے ؟ راستہ بھول گیا ہے اپنے خیمہ کا ؟

    ابو حسن : ایسا کچھ نہیں ہے یہ اسی راستے پر سے جانے کیلئے مجھ سے بحث اور ضد کر رہے ہیں اور میں انکو سمجھا رہا ہوں پر یہ پھر بھی بضد ہیں

    پھر کیا تھا اس عسکری نے آنافانا ان صاحب کا بازو پکڑا اور کھینچتے ہوئے دروازے کے پاس لے گیا اور وہاں پہنچ کر غصہ سے بولا جاؤ یہ راستہ ہے واپس جانے کا ، اور مجھے آکر کہنے لگا پہلے بتانا تھا یہ تمہارا دماغ کھا رہا ہے میں کب کا اسکو راستہ دکھا چکا ہوتا ، اب میں اسکو کیا بتاتا کہ ہمارے کچھ لوگوں کا حال اس مثال جیسا ہے " لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے " ، کب سے عزت و احترام سے کہہ رہا تھا پر نہیں اب اس سے آگے کیا کہوں ،

    ہم حج کا طریقہ اس میں کن کن ناجائز امور سے بچنا ہے کون کونسے امور کا ہتمام کرنا ہے اور اس دوران ہر قسم کے لڑائی جھگڑے سے بچنا ہے ، اخلاق سے پیش آنا ہے اور بداخلاقی سے بچنا ہے یہ سب سیکھے بغیر اور سید الاولین و الآخرین ﷺ کی سنت کو جانے بغیر اور علماء سے اس عبادت کےبارے علم جانے بغیر نکل پڑتے ہیں اور اسی وجہ سے حج کے بعد بجائے ہماری زندگیوں میں کچھ تبدیلی رونما ہو ،ہم اسی ڈگر پھر سے چل رہے ہوتے ہیں جو حج کرنے سے پہلے ہم زندگی گزار رہے تھے( الا ماشاء اللہ) ، اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہم بذات خود آپ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں اور جانیں کے وہ ہستی کیسی تھی کہ جو خود لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے لیکن انہوں نےاللہ کے حکم سے اس دنیا کے جن و انس کو گمراہی کےاندھیروں سے نکال کر توحید اور کلام اللہ کی روشنی دیکھائی جو مخلوق کو اسکے حقیقی مالک سے تعلق کا ذریعہ اور اس دنیا سے جنت الفردوس کے راستہ کی دشواریوں کو آسانی میں بدلتی ہے ، اللہ اکبر

    آپ ﷺ سے محبت کی علامت یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں،
    آپ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں،کیونکہ یہ بھی محبت کا تقاضا ہے کہ آپ کی سیرت، سوانح، اوصاف اور اخلاقیات کے متعلق معرفت حاصل کریں،
    جس کے بارے میں آپ بالکل نہیں جانتے اس کی محبت دل میں پیدا ہی نہیں ہو سکتی، نہ اس کا آپ کبھی دفاع کریں گے ،
    اسی طرح آپ ﷺ کی سنت کا دفاع بھی انہیں جانے اور سمجھے بغیر ممکن نہیں ہے
    حتی کہ جانوروں اور جمادات کو بھی آپ ﷺ کی معرفت حاصل ہوئی تو آپ ﷺ سے محبت کی
    مثالیں قائم کر دیں،
    چنانچہ آپ کی محبت میں کھجور کا تنا رو پڑا،
    آپ کو پتھروں نے بھی سلام کیا،
    رسول اللہ ﷺ سے اپنی محبت اور احترام کے اظہار کے لیے جبل احد بھی حرکت میں آیا،
    اونٹنیاں ایک دوسرے سے بڑھ کر آپ کے آگے آتیں کہ آپ انہیں ذبح کر دیں،
    اسی طرح آپ ﷺ نے چاند کو اشارہ کیا تو دو لخت ہو گیا،
    بادلوں کو اشارہ کیا تو سب منتشر ہو گئے یہ سب کچھ اللہ تعالی کے حکم سے ہوتا تھا

    یا اللہ! آپ ﷺ کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے اور آپ کی محبت ہمارے سودائے قلب میں بسا دے، آپ ﷺ سے محبت ہمارے دلوں میں ہماری جانوں اور اہل و عیال سے بھی زیادہ اہم بنا دے، اور ہمیں آپ ﷺ کی محبت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین
     
    Last edited: ‏اپریل 17, 2018
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا، بہت عمدہ، یہ مسئلہ عموماً ہوتا ہے کہ حاجی صاحبان بات سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ اب تو خیر اتنے سالوں کے تجربے کے بعد کہہ سکتا ہوں کہ وہ حاجی اپنا حج مقبول ہی نہیں سمجھتا جو ایک بار کسی سے الجھ نہ لے۔ بیچارے کریں بھی تو کیا کریں، ایک تو ہماری حکومت کی طرف سے تربیت کا فقدان، دوسرا لاکھوں روپیہ دے کر یہاں پر آتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ سعودی حکومت ہماری زندگی بھر کی کمائی کھا گئی اور ہمیں سپیشل ٹریٹ کرنے کے بجائے تھکے ہوئوں کو اور تھکا رہی ہے۔
     
    • دلچسپ دلچسپ x 1
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    ماشاء اللہ. اب تو حج کے انتظامات کا معیار بلند ہو چکا. اب حجاج کو نا چاہتے ہوئے بھی قوانین کی پابندی کرنی پڑتی ہے.
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں