اپنا علاج خود کرنا آپ کو معذور بھی کر سکتا ہے

کنعان نے 'صحت و طب' میں ‏مارچ 28, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852
    اپنا علاج خود کرنا آپ کو معذور بھی کر سکتا ہے

    ہم لوگ ہر کام کے ماہر ہیں ۔ ہر بندہ ڈاکٹر تو لازمی ہے ۔ جس کو پوچھیں اس کے اندر اک ڈاکٹر انگڑائی لے کر باہر آ جاتا ہے ۔ میرے اندر بھی ایک میڈیکل اسپیشلسٹ موجود ہے۔ جو سر درد ، نزلہ زکام اور فلو کے وقت بیدار ہو جاتا ہے۔ میں میڈیکل سٹور پہنچ کر خود ہی دوائیں بتاتا ہوں ۔ اپنی مرضی کی دوا خرید کر نکل آتا ہوں ۔ جب کسی طرح ٹھیک ہو جاتا ہوں تو اپنی ڈاکٹری کو پھر خود ہی داد بھی دیتا ہوں۔

    اپنی یہ ڈاکٹری سب پر آزماتا ہوں۔ گھر میں بھی سب کو دوائیں تشخیص کرتا ہوں۔ اگر ضرورت کے وقت گھر پر نہیں بھی ہوتا۔ تو گھر میں موجود میرے جیسا کوئی دوسرا ڈاکٹر مریض کو دوائی تجویز کر دیتا ہے۔

    ہمیں باہر کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ ہمارے گھر میں کوئی ڈاکٹر نہیں پھر بھی سب ڈاکٹر ہیں۔

    آپ اپنے اردگرد نظر ڈالیں آپ کو بھی ہمارے جیسے بہت ڈاکٹر ہر طرف دکھائی دیں گے ۔ کوئی کہہ کر تو دیکھے کہ سر میں بہت درد ہے جھٹ سے جواب آئے گا ایک گولی آپٹیلڈان کی لے لو یا اومنی ڈال کھا لو۔ ہم لوگ ڈاکٹر کے پاس جانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے بلکہ خود ہی چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج خود کرتے ہیں۔ جب مریض ڈاکٹر سے علاج کے بعد بھی ٹھیک ہونے قابل نہیں رہتا اس وقت ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ مریض جان سے جائے یا بچ رہے ہم ڈاکٹروں کی جان کو ضرور روتے ہیں۔

    پروفیشنل کیا ہوتا یہ ہم نہیں جانتے ۔ پروفیشنل حضرات کو اپنی زندگی میں ہم نے داخل ہی نہیں ہونے دیا ۔ قانون سمجھنے ہم وکیل کے پاس نہیں جائیں گے ۔ مذہب کی بات عالم دین سے نہیں پوچھیں گے۔ مولانا حضرات حکمت خود کر لیں گے کسی حکیم کو نہیں پوچھیں گے۔ حکومت سیاستدانوں کو نہیں چلانے دیں گے۔ صحافت میں آج کل ہماری ایم بی بی ایس ڈاکٹر کمال دکھا رہے ہیں۔

    سیلف میڈیکیشن یعنی خود علاج کا اب ایک مرض کی طرح ہر شعبے میں پھیل چکا ہے۔ ہم اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں۔

    گھریلو ٹوٹکوں اور چٹکلوں پر ہمارا اعتقاد ہے۔ یہ اتنا زیادہ ہے کہ ہمارے پروفشنل بھی ان سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ ہم ہر شعبے میں اپنی قومی صحت خراب کر بیٹھے ہیں۔ ہمارا جسم جو ایک مشین کی مانند ہے جس کے کل پرزے مسلسل کام کر رہے ہوتے ہیں جس طرح مشین کا خراب ہونا لازم ہے۔ اسی طرح انسانی جسم بھی شکست و ریخت کے عمل سے گزرتا ہے۔ کئی طرح کی بیماریوں کا سامنا کرتا ہے کبھی بیماریوں پر قابو پانے میں کامیاب رہتا ہے تو کبھی اس جنگ میں ہار کر جان سے گزر جاتا ہے۔

    طب کی اپنی ایک الگ دنیا ہے۔ ڈاکٹر اک عمر لگا کر مہارت حاصل کرتے ہیں۔ اسی مہارت کو پھر استعمال کر کے ہمارا علاج کرتے ہیں ۔ بیماری کی وجوہات مسلسل تلاش کرتے رہتے ہیں ۔ نئی دوائیاں ڈھونڈتے ہیں۔ ہم لوگ اس سارے علم مہارت تحقیق کو حقارت سے نظرانداز کر کے اپنا علاج خود کرتے ہیں۔ اگر ٹھیک ہو بھی جاتے ہیں تو بھی یہ نہیں سمجھ پاتے کہ کچھ اور خراب بھی کر بیٹھے ہیں۔

    یورپی ممالک میں بھی سیلف میڈیکشن کی وبا موجود ہے ۔ ہمارے ملک میں تو یہ شرح 68 فیصد تک ہے ۔ خیبر پختونخوا میں ایک اندازے کے مطابق 60 فیصد افراد ڈاکٹر سے مشورہ نہیں لیتے ۔ اپنا علاج خود ہی کرتے رہتے ہیں ۔ دوا لکھنے کا کام فارماسسٹ کا ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں ڈاکٹر یہ خدمت خود ہی انجام دیتے رہتے ہیں۔ فارمیسی پر فارماسسٹ ہی اکثر موجود نہیں ہوتے۔ وہاں آپ سے کوئی ڈاکٹر کا نسخہ تک نہیں پوچھتا۔ دوا کا نام بتائیں پیسے ادا کریں اور دوا لے کر گھر آ جائیں۔

    ایک معمولی طبی مسئلہ جو ڈاکٹر کے مشورے سے آسانی سے حل ہو سکتا ہے۔ سیلف میڈیکیشن کے باعث ایک بڑے مسئلے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔


    ڈاکٹر ہی سمجھتا ہے کہ مرض کس نوعیت کا ہے ۔ اس میں کیا تجویز کرنا ہے ۔ دواﺅں میں تیزابیت دور کرنے والی گولیاں، کھانسی کے شربت اور درد دور کرنے والی گولیوں کی نوعیت مختلف ہوتی ہے جس کیلئے ڈاکٹری تشخیص اور نسخہ ضروری ہے۔ ڈاکٹر بیماری کی نوعیت کے مطابق ہی دوائی کی مقدار کا تعین بھی تو کرتا ہے

    حاملہ خواتین کو دی جانے والی دواﺅں میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سی دوائیں دنیا میں آنے والے بچے کے جین کیلئے مضر ثابت ہوتی ہیں اس طرح پین کلر کی کئی اقسام ہیں۔ کئی دواﺅں کے استعمال سے آنتوں میں زخم، سوزش اور خون رسنا شروع ہو جاتا ہے۔ بلڈ پریشر کے مریضوں کے لئے ایسی دوائیں فالج کے حملے کا خطرہ لاتی ہیں۔ کئی دوائیں ایسی ہیں جن کے زائد استعمال سے جگر، گردے اور دیگر جسمانی اعضاء کو نقصان پہنچتا ہے۔

    حیران کن طور پر ناخواندہ افراد کے مقابلے میں پڑھے لکھے نوجوانوں میں خود اپنا علاج آپ کرنے کا خطرناک رویہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ ہمارے ایک خود ساختہ ڈاکٹر دوست اپنے جسم درد کے لئے کئی ماہ تک صبح شام Brufen 400mg کھاتا رہا جس سے اس کا درد تو ٹھیک رہنے لگا مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کو معدے کا السر ہو گیا۔

    اسی طرح ایک دوست نے بتایا کہ اس کے بھائی نے سر درد کے لئے ایک دوائی Disprine 300mg کو اپنے لئے منتخب کیا۔ اس دوائی کو لمبا عرصہ لینے پر اس کے اوپر والے دھڑ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔

    اسی طرح ایک خاتون نے دوران حمل ایسی درد کی دوائی کھاتی رہی جس کی وجہ سے وہ اپنے ہونے والے بچے سے محروم ہو گئی۔

    ایسے بہت سے واقعات ہمارے اردگرد رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں غور نہیں کرتے بھول جاتے ہیں ۔ اپنی خود علاج کرنے کی بری عادت میں پھر بھی مبتلا ہی رہتے ہیں۔

    یہ مسلہ صرف طب کا نہیں ہے ہر شعبے میں ہم ماہرین کی بجائے خود علاج کی اپنی عادت پر ہی عمل کرتے ہیں۔ ہمارے سب نظام اسی لیے بگڑتے جا رہے ہیں کہ ہم سب ڈاکٹر ہیں۔

    تحریر: وسیم خٹک
    28/03/2018
    شکریہ ہم سب
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • دلچسپ دلچسپ x 1
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    متفق! ہر مسئلے کا حل اس کا ماہر ہی بتا سکتا ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں