میری بھی تو سنیئے

ابو حسن نے 'گپ شپ' میں ‏اپریل 21, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابو حسن

    ابو حسن محسن

    شمولیت:
    ‏جنوری 21, 2018
    پیغامات:
    415
    تحریر از عظمیٰ ظفر

    معزز قارئین!


    جو داستان میں رقم کر رہی ہوں وہ میرے لیے بہت غمگین ہے آپ کے لیے نا ہو تو اور بات ہے۔پیشے کے اعتبار سے میں ایک ٹیچر ہوں۔۔ آ آ۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ ٹیچر! !۔۔ پھٹیچر نہیں۔ سوچا تھا "بی اے" کرلوں تو پھر شاید بیاہ ہو جائے گا مگر ہائے ری قسمت۔۔۔ ٹیچری کرلی تو اب نہ میں اسکول کو چھوڑتی ہوں نہ اسکول مجھے۔ ویسے آپس کی بات ہے اللہ بھلا کرے ان ٹیچرز کا جو اسکول خود چھوڑ جاتی ہیں اور میں نکالے جانے سے بچ جاتی ہوں۔

    ابھی میں نئی نئی سی ٹیچر تھی۔ اسکول میں جی بھر کر اسٹاف روم کی پرانی کرسیوں پر جھولے بھی نہ لے پاتی کہ ایکسڑا پیریڈ کا نذرانہ آجاتا۔

    دراصل تعلیمی قابلیت صفر ہونے کی وجہ سے پرنسپل اندازہ ہی نہیں کر پا رہی تھیں کہ مجھے کون سا مضمون اور کون سی کلاس دی جائے؟ بے چاری پھنس جو گئی تھیں مجھے رکھ کر، پرچی جو تگڑی تھی میری۔۔۔۔۔

    خیر جناب دن گزرتے گئے ہم سنورتے گئے۔ بُرے بھلے کلاس ٹیچر بننے کا اعزاز مل ہی گیا مگر کیا خبر تھی کہ شاگرد ہم سے چار ہاتھ آگے ہیں؟

    ایک دن ہم نے کہا آج میں آپ کو فیس معافی کی درخواست لکھواؤں گی۔ بس جی ایک اسٹوڈنٹ اسی وقت اپنی جگہ سے اچھل پڑا۔۔ "مس یہ تو آپ نے آئی ایم ایف سے معافی نامے جیسی بات کر دی، غریب لوگ! میرے فادر ایک کیا سارے بچوں کی فیسیں دے سکتے ہیں آپ کو۔ ابھی واٹس ایپ کرتا ہوں پاپا کو۔ میں تو نہیں لکھوں گا یہ درخواست، انسلٹ فیل کروں گا ایسا لکھ کر اور اپنے کالر کھڑے کرتا ہوا کلاس سے باہر نکل گیا (لو جی گل ہی کوئی نئیں) اب میں کیا کرتی؟ دل تو چاہا کہ اس دولت کی کان کو اسکول کے اکاؤنٹ میں جمع کروادوں، اسی بہانے میری سیلری تو کچھ بڑھ جائے گی۔ مگر چچا غالب یاد آگئے



    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے


    باقی بچوں نے بھی اپنی ہتک محسوس کرنے کا دعویٰ کرکے وہ درخواست نہیں لکھی۔ تب میں نے ایک درخواست ضرور لکھی اور پرنسپل کے سامنے رکھ دی کہ اس کلاس کے بچے آؤٹ آف کنٹرول ہیں۔ مگر الٹا میری کلاس ہوگئی پتہ ہے انہوں نے کیا کہا؟

    انہوں نے کہا کہ مس!! " اس میں بچوں سے زیادہ تو آپ کا قصور ہے کہ وہ آپ کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ قد اتنا چھوٹا ہے کہ آپ بچوں کو نظر نہیں آتیں کل سے ہائی ہیل پہن کر آئیں مگر کھٹ کھٹ نہ ہو اور اس میں سائلینسر لگا ہو تاکہ میری نیند میں خلل نہ پڑے اور دوسرا یہ کہ اپنا وزن تھوڑا کم کریں تاکہ بھاگ کر موقع حادثہ پر پہنچ سکیں"۔

    اب آپ خود انصاف کریں قد چھوٹا ہے تو میرا قصور کیا ہے؟ مگر کوئی میری صحت پر بری نظر ڈالے یہ مجھے گوارا نہیں۔اب میں کسی بھی چکی کا آٹا کھاؤں، ان کو کیا؟

    مگر پھر بعد میں وقتاً فوقتاً پرنسپل نے کام لے لے کر اتنا میرا خون جلایا اور چربی پگھلائی کہ وزن کم ہو ہی گیا۔ پرائیوٹ ادارے خون کیسے نچوڑتے ہیں لگ پتہ گیا۔

    کچھ دنوں میں میرا حلقہ یاراں بھی بڑھنے لگا میرا خیال تھا کہ یہ میری شگفتہ مزاجی ہے جو کسی پل مجھے نچلا نہ بیٹھنے دیتی جبکہ کچھ جل ککڑی ٹیچرز کا خیال تھا کہ یہ میری چرب زبانی ہے۔ کچھ جلنے والیوں نے تو یہ تک بھی کہہ دیا کہ یہ مس تو پرنسپل کو ہر وقت مکھن لگاتی ہیں۔ اب میں بلو بینڈ لگاؤں یا مارجرین ان کے جیب پہ کیوں گراں گزرے؟

    مگر قارئین! آپ کو نہیں پتہ ہماری پرنسپل واٹر بورڈ کا بہت ہی چکنا گھڑا تھیں۔ پل میں توشہ پل میں ماشہ جیسی شخصیت تھی ان کی۔ کسی خفیہ ادارے سے کمانڈو ٹریننگ لے کر آئی ہوں، بیٹھے بیٹھے چھاپہ مارنے کا جیسے ہی خیال آتا تو نکل پڑتیں کلاسوں کی جانب۔

    جیسے ہی کلاس میں کھڑے کھڑے میری حالت غیر ہوئی اور میں کرسی پر کمر سیدھی کرنے بیٹھی ہی تھی کہ وہ اندر داخل ہوئیں۔اب میری سمجھ ہی نہیں آتا کہ کھڑے ہوکر سلوٹ ماروں یا حکمرانوں کی طرح ذلیل ہوکر بھی بیٹھی رہوں، اس لیے کھسیانی ہو کر سر جھکا لیا۔ اس وقت تو وہ چلی گئیں مگر بعد میں جو لیکچر دیا۔۔۔ خیر، اسے چھوڑیں۔ میرا دل یہ ضرور چاہا کہ کلاس کے دروازے میں چور لاک لگا دوں تاکہ خطرے کا سائرن ان کے ہاتھ لگاتے ہی بج اٹھے۔

    اگلے دن کلاس میں نیند کے جھونکے نے مجھے کرسی پر گرا ڈالا۔ رات فیس بک پر وقت ایسا گزرا کے نیند پوری نہیں ہوسکی تھی۔

    مگر یہ کیا؟ میں تو فرش پہ آگری۔۔۔ کیونکہ کمرے سے کرسی غائب تھی۔ بچوں نے اس صورتحال سے جو حظ اٹھایا ، نہ پوچھیں۔ سب ہی "کولگیٹ، سنسناتی کولنگ" کا اشتہار لگ رہے تھے۔ میں نے اپنا رعب و دبدبہ استعمال کرتے ہوئے ایک بچے کو ہاتھ پکڑ کر اٹھانے کہا تو جواب آیا کہ "ٹیچر میری مما نے زمین پر گری چیزیں اٹھانے منع کیا ہے۔ آہ! یہ بچے ماں کی نصیحت مان بھی رہے تو کہاں؟ میں خود ہی اپنا سا منہ لے کر اٹھ گئی کہ کون سا یہاں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں؟ اٹھ جاؤ۔ آنکھیں کھول کر دیکھا تو کرسی کلاس سے باہر رکھی ہوئی تھی اور احتجاج کر رہی تھی کہ مجھے کیوں نکالا؟ مجھے کیوں نکالا؟

    ایک دن ایک بچے کی والدہ میری کمپلین لے کر آگئیں کہ میں نے ان کے پھول سے بچے کو بریک میں ڈانٹا ہے۔ اپنے پھول سے بچے کے وہ کانٹے نہ دکھے محترمہ کو جو وہ روزانہ مجھے چبھوتا تھا پڑھائی کے دوران۔

    قارئین! وہ بچہ جو نہ منہ سے بولتا ہے نا سر سے کھیلتا ہے کہ مترادف تھا مگر ٹانگ اڑا کر دوسرے بچوں کو بریک میں ضرور گرا دیتا تھا اسے ڈانٹوں بھی نا؟ مگر پتہ چلا جس بچے کو میں نے ڈانٹا تھا وہ اس بچے کا جڑواں ہم شکل بھائی تھا جو دوسری کلاس میں پڑھتا تھا جو یہ حرکت کرتا تھا جسے ڈانٹ نہیں پڑنی تھی۔ جسے ڈانٹ پڑی وہ تو وہ تھا جو میری کلاس میں پڑھتا تھا اور جس نے یہ حرکت نہیں کی تھی وہ بے قصور تھا اوروہ والا دوسرا پھول قصور وار تھا۔ اف اف اف اف!

    اب آپ ہی بتائیے اس میں میرا کیا قصور؟ بچوں کی شکلیں پہچاننے اور نام یاد رکھنے میں کم از کم دس سال تو لگتے ہیں اور جب نام یاد ہوجائے تو بچے اسکول سے میٹرک کر چکے ہوتے ہیں۔

    کچھ عرصہ گزرنے کے بعد مجھے سیکینڈری کلاس کو پڑھانے کا شرف بخش دیا گیا مگر یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ یہ بڑے بچے تو بالکل ہی بخشے ہوئے ہیں۔ بولنے میں اتنے ماہر کہ میرے بولنے کی باری ہی نہیں آتی۔

    ایک دن غصے میں سوچا کہ ان کے منہ پر ٹیپ لگا دوں چنانچہ ایک چوڑے ٹیپ کی رسائی تک خوب پاپڑ بیلنا پڑے۔ وزارت خزانہ سے کچھ طلب کرنا اپنی شامت کو آپ دعوت دینا تھا اوپر سے نیچے، یہاں جائیں، اس سے دستخط کروائیں فلاں سے اٹیسٹ کروائیں، اس کاغذی کارروائی نے مجھے دن میں ہی تارے دکھا دیے اور میں غش کھا کر گر پڑی اور بے ہوش ہوگئی۔ پھر مجھے چوکیدار کے کپڑے سنگھا کر ہوش میں لایا گیا۔

    حواس بحال ہوئے تو کھاتے دار سے قینچیی طلب کی۔ اس نے فرمایا کہ "اس کی کیا ضرورت ہے اس کے لیے تو ہمارے اسٹاف کی زبانیں ہی کافی ہیں" چلیں مان لیا کہ ہمارے لب آزاد ہیں تو ان کو اعتراض کیوں؟ پیمرا کا ادارہ چلاتی ہوں گویا۔

    امتحانات کا زمانہ بھی خوب ہے۔ ادھر بچوں کے امتحان شروع ہوئے ادھر ہماری شامت۔ ڈیوٹی بھگتانا آسان کام نہیں اور اگر کوئی بچہ مدد کے لیے سوالنامے سے کچھ پوچھ بیٹھے تو الٹا شرمندگی۔ (جواب جو نہیں آتا) لہٰذا ڈانٹ کر چپ کروادیتی کہ گھر سے یاد کر کے آیا کرو اور وہ کہتے "مس ہم بھول گئے"۔ اور بھول تو میں بھی جاتی ہوں۔۔۔ آہ! کیا کچھ یاد آگیا جو میں بھول جاتی ہوں۔ ایک مرتبہ رزلٹ ڈے پر نیا جوڑا پہننے کی اتنی خوشی تھی کہ بچوں کی (رپورٹ کارڈز) ہی گھر پر بھول کر آگئی وہ تو شکر تھا کہ گھر قریب تھا۔ الٹے قدموں جاکر لے آئی البتہ اس پر بھی جو ڈانٹ پڑی وہ بیان سے باہر ہے۔ ہاں مگر کچھ ٹیچرز نے تعریف ضرور کی، رپورٹ کارڈز بھولنے پر نہیں٬ نئے جوڑے پر۔

    اب کوئی کوئی دن تو ہوتے ہیں ٹیچرز کی زندگی میں خوشی کے، جب نیا جوڑا اپنے پیسوں سے خرید کر پہنتی ہیں اور اتراتی پھرتی ہیں اور سیلفی بنا بنا کر خود ہی دیکھتی رہتی ہیں کہ ہائے میں کتنی خوبصورت ہوں، بھلے سے معصوم بچے کتنا ہی ڈریں ہماری شکلوں سے۔ سیلری بھی خود پر خرچ کرنے کب ملتی ہے یا تو کمیٹیاں ڈال ڈال کر اپنا جہیز جمع کرو یا ایزی لوڈ کروالو۔

    میرے گھر کے قریب ہونے کا بھی بہت فائدہ ہے۔ ادھر بارش کی ایک بوند پڑی ادھر اسٹاف کا دل پکوڑوں کے لیے مچل اٹھا اور میں بھاگ کر کڑاہی اٹھا لائی، گھر سے تیل تو ویسے ہی روزانہ سات، سات آٹھ، آٹھ پیریڈ لے کر نکل ہی آتا ہے ہم ٹیچرز کا۔

    گھر کے قریب ہونے کا نقصان بھی بہت ہے اسکول کی چھٹی کر لو تو دس، دس سوال کے جواب دو یا بچے کو گھر بھیج کر بلوالیا جاتا ہے۔ ذرا سی دیر ہوجائے تو پرنسپل کی گرما گرم جھاڑ تیار رہتی ہے۔ اگر یہ کہہ دو کہ آنکھ دیر سے کھلی تو پرنسپل فرماتیں کہ آپ اپنی آنکھیں کھول کر سویا کریں اور لیٹ لائن لگانے والی ٹیچر تو لگتا ہے گھر ہی نہیں جاتی تھی۔

    اکاونٹس کی جتنی بھاری ذمہ داری اکاؤنٹنٹ پر تھی اس سے زیادہ بھاری تو اس اسکول کی عمارت بھی نہیں تھی جو اسمبلی حال میں بچوں کے جوتوں کی دھمک سے زلزلے کی طرح لرز اٹھتی اور ہم سب توبہ استغفار کرنے لگتے، کلمہ گو ہوجاتے۔ کچھ کلاسیں تو اتنی خستہ تھیں جتنی خستہ اسکول کے باسی سموسے بھی نہیں ہوتے تھے۔ تازہ کراری تو صرف ڈانٹ ہوتی ہے جو ہماری بد حواسی اور بھول سے بھول جانے پر پڑتی۔ اسٹاف روم میں باتوں اور گوسپس کے چٹخاروں میں وقت گزرنے کا کہاں پتہ چلتا ہے، مجبوراً ہر مرتبہ نازک موڑ پر کہانی کو چھوڑ کر دل نہ چاہتے ہوئے بھی کلاس میں جانا پڑتا۔ جہاں پہلے والی ٹیچر جو بچوں کی ستائی اجڑے بال و حال میں موجود ٹیچر کا بس نہیں چل رہا ہوتا کہ مجھے کچا چبا جائیں۔

    حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کا نوٹس ہمیں اکثر ملتا رہتا کیونکہ ہماری پرنسپل کا کہنا ہے کہ ہم اردگرد کے ماحول سے اتنے بے خبر رہتے ہیں کہ ہمارے پاس سے شیر بھی گزر جائے تو بھی ہمیں خبر نہ ہو مگر یقین کریں قارئین پرنسپل جب جب میرے پاس سے گزرتی ہیں مجھے پتہ چل جاتا ہے۔ ہاں! البتہ اس وقت تک اتنی دیر ہوچکی ہوتی ہے کہ میری کوئی نہ کوئی غلطی ان کی عقابی نظروں میں آچکی ہوتی۔

    پرنسپل آفس کے بالکل برابر میں ایک احتسابی کمرہ بھی تھا، جانے کیوں مجھے وہاں ری چیکنگ کے لیے بٹھا دیا گیا۔ پھر تو مجھے سر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔ دوسری ٹیچرز بھی دور دور سے گزر جاتیں اپنا غم بھی مجھ سے غلط نہ کرتیں کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ کاپیوں کے ڈھیر میں میرا منحنی سا وجود دبدتا جارہا تھا۔ بھئی اب میں کتنی بھی موٹی رہوں اپنی امی کو تو کمزور ہی دکھوں گی نا؟

    غلطیاں نکال نکال کر ڈر لگنے لگا تھا کہیں محرم کو مجرم نہ بنا دوں مگر سچ ہے اس طرح میری بھی ش، ق درست ہو گئی۔ گرمی کی چھٹیوں میں بچوں کی چیخ پکار کم ہوتی تو اسکول کے ایڈمنسٹریٹر تعمیراتی کام شروع کروا دیتے۔ ڈربہ نما اسکول میں بچی کچھی جگہوں کو اس دانشمندی سے کلاس روم کی شکل میں ڈھال دیتے ہیں کہ سب عش عش کر اٹھتے۔ مگر جو ہتھوڑے دماغ پر برستے کیا دیوار پر برستے ہوں گے اب تو ڈر لگتا ہے آج جہاں پاؤں رکھتے ہیں وہاں بھی اگلے سال کلاس بن جائے۔

    کہاں تک جلےدل کے پھپھولے پھوڑوں قارئین! اب توآپ بھی متفق ہو گئے ہوں گے کہ ایک ٹیچر کتنی مظلوم ہوتی ہے، خصوصاً میں۔ اب دیکھیں کب تک میں اس سکول میں رہتی ہوں اور پتہ نہیں میری رخصتی ایک الودعی پارٹی کی شکل میں ہوتی ہے یا ایک خطرنک لفافہ میرے ہاتھوں میں تھما کر مگر پھر بھی۔۔۔



    صادق ہوں اپنے قول پہ غالب خدا گواہ

    کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے


    اصل تحریر کا ربط

    عظمیٰ ظفر
     
    • دلچسپ دلچسپ x 2
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. سیما آفتاب

    سیما آفتاب محسن

    شمولیت:
    ‏اپریل 3, 2017
    پیغامات:
    484
    بہت دلچسپ انداز بیان ،، مزا آگیا پڑھ کر

    شئیر کرنے کا شکریہ
     
    • حوصلہ افزا حوصلہ افزا x 1
  3. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    بہت عمدہ تحریر شیئر کی مگر یہ کیا ہوا کہ آپ جیسے اچھے لکھاری کو بھی کاپی پیسٹنے کی ضرورت پڑ گئی؟
     
    • متفق متفق x 1
    • ظریفانہ ظریفانہ x 1
  4. ابو حسن

    ابو حسن محسن

    شمولیت:
    ‏جنوری 21, 2018
    پیغامات:
    415
    بعض تحاریر ایسی ہوتی ہیں کہ انکو صراحے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے شئیر کرنے کی اور بعض تحاریر اپنے اندر مختلف معلومات ، حالات حاضرہ کے واقعات ، معاشرے کے اتار چڑھاؤ اور دلچسپی لیے ہوتی ہیں اور انکو شئیر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ دوسرے بھی اس سے باخبر ہوں (y)
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں