ہم سری تم سے ممکن نہیں ماں !

صدف شاہد نے 'حُسنِ کلام' میں ‏ستمبر 30, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. صدف شاہد

    صدف شاہد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2018
    پیغامات:
    307
    بچپنا

    عجب بچپنا تھا
    کہ میں ننھے پیروں میں
    سینڈل تمہارے بڑے پہن کر
    دُوپٹے کی لمبی سی چُٹیا بنا کر
    سمجھتی رہتی تھی کہ میں تمہاری طرح ہوں
    مگر میں غلط تھی
    حقیقت کا ادراک تو اب ہوا ہے
    کہ سینڈل تمہارے پہن کر بھی قامت میں
    مَیں تم سے کم ہوں
    تمہارے دُوپٹے سے چُٹیا گھنیری بنا لوں مگر
    چھاؤں تو پھر بھی تم سی نہیں ہے
    بہت سال گزرے
    مرا بچپنا جب سے رخصت ہوا ہے
    میں یہ سوچتی ہوں
    نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم سری تم سے ممکن نہیں ماں !

    از امبرین حسیب امبر
     
  2. صدف شاہد

    صدف شاہد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2018
    پیغامات:
    307
    زہراؔ نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے

    حالانکہ در ایں اثنا کیا کچھ نہیں دیکھا ہے

    پر لکھے تو کیا لکھے؟ اور سوچے تو کیا سوچے؟

    کچھ فکر بھی مبہم ہے کچھ ہاتھ لرزتا ہے

    زہراؔ نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے!

    دیوانی نہیں اتنی جو منہ میں ہو بک جائے

    چپ شاہ کا روزہ بھی یوں ہی نہیں رکھا ہے

    بوڑھی بھی نہیں اتنی اس طرح وہ تھک جائے

    اب جان کے اس نے یہ انداز بنایا ہے

    ہر چیز بھلاوے کے صندوق میں رکھ دی ہے

    آسانی سے جینے کا اچھا یہ طریقہ ہے

    زہراؔ نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے!

    گھر بار، سمجھتی تھی، قلعہ ہے حفاظت کا

    دیکھا کہ گرہستی بھی مٹی کا کھلونا ہے

    مٹی ہو کہ پتھر ہو ہیرا ہو کہ موتی ہو

    گھر بار کے مالک کا گھر بار پہ قبضہ ہے

    احساس حکومت کے اظہار کا کیا کہنا!

    انعام ہے مذہب کا جو ہاتھ میں کوڑا ہے

    زہراؔ نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے!

    دیوار پہ ٹانگا تھا فرمان رفاقت کا

    کیا وقت کے دریا نے دیوار کو ڈھایا ہے

    فرمان رفاقت کی تقدیس بس اتنی ہے

    اک جنبش لب پر ہے، رشتہ جو ازل کا ہے

    زہراؔ نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے!

    دو بیٹوں کو کیا پالا ناداں یہ سمجھتی تھی

    اس دولت دنیا کی مالک وہی تنہا ہے

    پر وقت نے آئینہ کچھ ایسا دکھایا ہے

    تصویر کا یہ پہلو اب سامنے آیا ہے

    بڑھتے ہوئے بچوں پر کھلتی ہوئی دنیا ہے

    کھلتی ہوئی دنیا کا ہر باب تماشہ ہے

    ماں باپ کی صورت تو دیکھا ہوا نقشہ ہے

    دیکھے ہوئے نقشے کا ہر رنگ پرانا ہے

    زہراؔ نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے!

    سوچا تھا بہن بھائی دریا ہیں محبت کے

    دیکھا کہ کبھی دریا رستہ بھی بدلتا ہے

    بھائی بھی گرفتار مجبوریٔ خدمت ہیں

    بہنوں پہ بھی طاری ہے قسمت کا جو لکھا ہے

    اک ماں ہے جو پیڑوں سے باتیں کیے جاتی ہے

    کہنے کو ہیں دس بچے اور پھر بھی وہ تنہا ہے

    زہراؔ نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے


    زہرا نگاہ
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں