اضافی وقت

سیما آفتاب نے 'متفرقات' میں ‏اکتوبر، 29, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. سیما آفتاب

    سیما آفتاب محسن

    شمولیت:
    ‏اپریل 3, 2017
    پیغامات:
    484
    اضافی وقت فطرت کو واپس کرنا ہوگا
    تحریر: اکرام اللہ اعظم
    26 اکتوبر 2018
    --------------------------------------
    جب 1990 کی دہائی میں موبائل فون پاکستان میں آیا تو یہ ایک اعلی درجے کا سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا ۔ بڑے بڑے سیاستدان اور وڈیرے اس جہازی حجم کے کھلونے کو اٹھا کے اپنے پیچھے پیچھے چلنے کے لیے الگ سے نوکر رکھتے تھے جو عین محفل کے بیچوں بیچ فون لا کے صاحب کو پکڑاتا اور کہتا کہ حضور امریکہ سے کال ہے اور صاحب اینٹ جتنے بڑے اریکسن کے موبائل فون کو کان کے ساتھ لگاتے ہی آسمان کی طرف پرواز کر جاتے ۔
    پھر یہ بلا عام ہوتی گئی ۔ آج دنیا میں موجود انسانوں کی آبادی سے زیادہ موبائَل فون اور اسی طرح کے مواصلاتی آلات موجود ہیں ۔ ٹیکنالوجی نے جہاں آفاق کے فاصلے کو پانچ انچ کی سکرین میں سمو دیا ہے وہاں ہم سے اس خدمت کی بھاری قیمت بھی وصول کر رہی ہے ۔ موبائل فون سب سے زیادہ وقت بچانے والا آلہ ہے ۔ آپ میرے اس جملے پر ہنسیں گے اور کہیں گے یہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے کیونکہ موبائل فون تو وقت برباد کرنے میں پہلے نمبر پر ہے ۔ جی ہاں آپ بھی درست کہہ رہے ہیں لیکن ایمانداری یہی ہے کہ رابطوں اور رسائی میں ہماری عمر کے جتنے سال لگتے تھے ابھی اتنے دن لگتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس بہت سا وافر وقت بچ جاتا ہے ۔ اب اس وقت کو خرچ کرنے کے لیے بھی موبائل فون ہی ہماری مدد کو پہنچتا ہے ۔ لڈو سٹار ، کینڈی کرش، فارم ولا سے لے کر ورڈ کراس اور فیس بک ، وٹس ایپ ، ایمو، ٹک ٹاک ، میوزیکلی ، یو ٹیوب سے لے کر سکائپ اور بوٹم تک سب کے سب اس میں موجود ہیں ہمارے بالکل فضول وقت کو عمدگی سے خرچ کرنے کے لیے ۔

    آپ میں سے بو ہتوں نے ڈارون کے نظریہ ارتقاء اور فطرت کے چناو والی تھیوری پڑھی یا سنی ہوگی کہ کیسے جانداروں کی ہیئت اور رویے میں زندگی کی ضرورت ، ماحول اور حالات کے مطابق تبدیلی رونما ہو تی ہے ۔ اس کے لیے زرافے کی مثال بھی جاتی ہے کہ کیسے واہ اونچے اونچے درختوں سے پتے کھانے کے لیے گردن کو اکڑایا کرتا تھا اور پھر فطرت نے اس کی گردن ویسے ہی لمبی کردی ۔ فطرت کا چناو اور ارتقاء بہت سست روی سے رونما ہوتا ہے اور نسلیں لگتی ہیں واضح فرق نظر آنے میں ۔ آپ میں سے بوہتوں کو یہ بھی علم ہو گا کہ زمانہ قدیم میں انسان کی اوسط عمر بہت زیادہ ہوا کرتی تھی ۔ حضرت نوح علیہ السلام کے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کا ذکر تو قرآن مجید میں بھی موجود ہے ۔

    ترقی کے ساتھ ساتھ انسان کے کام جلدی جلدی نمٹنے لگے اور اس کے پاس وقت فاضل ہونے لگا ۔ فطرت کے چناو نے اس کی اوسط عمر کم کر دی ۔ انسان کی ترقی کے ساتھ ساتھ فطرت کے چناو کے عمل میں بھی تیزی آگئی جو تبدیلی پہلے ہزاروں سالوں میں ظاہر ہوتی تھی اب چند سالوں میں واضح ہونے لگی ۔

    بات موبائل فون کی ہو رہی تھی بیچ میں ڈارون نے اپنا رونا شروع کر دیا ۔ سمارٹ فون کیمرا [خصوصا فرنٹ کیمرہ] اور ویڈیو کمیونیکیشن نے انسان کی شکل ، عمل ، رویوں، صحت اور زندگی پر بہت سے اثرات مرتب کر دیے ہیں جو بغیر کسی طویل انتظار کے ابھی سے نظر آ رہے ہیں ۔
    موبائل فون کے زندگی کے مختلف شعبوں پر اچھے برے اثرات پر تحقیق ہونی چاہیے لیکن سر دست ایک پہلو جس پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ وقت بچاتا ہے ۔ رابطوں اور فیصلوں میں ضائع ہونے والے قیمتی سال موبائل فون کی وجہ سے بچ جاتے ہیں ۔یہ اضافی سال ہمیں فطرت کو واپس کرنے ہوں گے ۔ کیونکہ ان کا مقصد کینڈی کرش یا ٹک ٹاک میں صرف کرنا ہر گز نہیں ہے ۔ فطرت اپنا چناو کر رہی ہے اور ان اضافی سالوں کو تیزی سے واپس لینے کے لیے بھی موبائل فون ہی کو ذریعہ بنا رہی ہپے ۔ موبائل فون کے مسلسل استعمال اور جسم سے قریب رہنے کی وجہ سے جسم کے بہت سے اعضائے رئیسہ اپنے اپنے کام میں خلل پیدا کر رہے ہیں ۔ انڈیا سمیت چند دیگر ممالک میں تحقیق سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ موبائل فون کینسر کا سب سے بڑا سبب بننے جا رہا ہے ۔ جسم کے ان حصوں میں ریڈی ایشن کے مضر اثرات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جو زیادہ دیر چلتے ہوئے موبائل فون کے قریب رہتے ہیں ۔ پینٹس کی جیب میں موبائل فون رکھنے والے مردوں میں بانجھ پن کی ایک تحقیق انڈیا میں کی گئی ہے جس میں اس بیماری کے شکار افراد کی بڑی تعداد کو موبائل فون کی ریڈی ایشن کا شکار ثابت کیا گیا ہے ۔ اور یہ سارے عوامل ہماری زندگی کے بچے ہو ئے وقت کو لوٹانے میں ممد و معاون ہیں ۔ سارے اثرات کی انکوبیشن کا وقت تیزی سے پورا ہو رہا ہے اور عنقریب یہ بد اثرات اپنی پوری آب و تاب اور حجم کے ساتھ ظاہر ہونے والے ہیں [خدا نخواستہ] ۔ ہماری اگلی نسل کے کچے جسم اور دماغ اس آفت کا سب سے آسان اور کمزور شکار ہونے والے ہیں ۔ خاص طور پر اس حال میں جب ہم نے دوسال کے بچوں کو بھی موبائل کی ایپس سے سنکرو نائز کر دیا ہے ۔ آپ کے ہنسنے یا رونے کے لیے ایک تصویر دے رہا ہوں ۔ جس میں نو عمر بچوں کو بھی ماں سے آزاد کر کے کھیلنے اور پوٹی کرنے تک کے لیے بھی موبائل فون کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔ یہ تصویر ثابت کر نے کے لیے کافی ہے مشینوں نے ہمیں کس طرح غلام بنا لیا ہے ۔
    موبائل بنانے والی کمپنیاں دنیا کی امیر ترین اور با اثر ترین کمپنیاں ہیں وہ خود اپنے خرچے پر موبائل فون کے انسانی زندگی پر بد اثرات کے متعلق تحقیقات کرواتی ہیں اور نتیجہ یہی سامنے آتا ہے کہ یہ نقصانات اور خدشات ہمارا وہم ہیں حقیقت میں انسان کو ایسا کوئی خطرہ نہیں ۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کمپنیاں اپنے وسائل غیر جانبدارانہ تحقیقات کو روکنے کے لیے بھی استعمال کرتی ہوں ۔ تاکہ انسانیت ان پیسے کے پجاریوں کے جال سے بچ نلکنے میں کامیاب نہ ہو جائے ۔
    سارے نتائج اور خدشات کے با وجود ایک بات پہ بہت سے لوگوں کا اتفاق ہو گا کہ موبائل اور مصنوعی مشینی ذہانت نے ہماری انسانیت کو اغوا کر لیا ہے ۔ اور ہم دن بدن جسم ، جان ، روح، قلب اور نفس سمیت اس بھیانک جال میں جکڑے چالے جاتے ہیں ۔
    ایک دفعہ سوچیے ضرور شاید کوئی مبہم سا راستہ بچا ہو کہ ہم یہ زبوں حالی کسی اگلے وقت تک ٹال سکیں ۔
    ورنہ اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے بچا ہوا عمر کا اضافی حصہ فطرت ہم سے واپس لینے کی مجاز ہے۔
    -----------------------------------------------------------------
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں