خطبہ حرم مدنی 21-12-2018 "ادب کی ضرورت اور اہمیت" از البدیر حفظہ اللہ

شفقت الرحمن نے 'خطبات الحرمین' میں ‏دسمبر 22, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. شفقت الرحمن

    شفقت الرحمن ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جون 27, 2008
    پیغامات:
    753
    ﷽​

    فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 14 ربیع الثانی 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "ادب کی ضرورت اور اہمیت" ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ ادب انسان کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے، اس کے ہوتے ہوئے کسی اور شرف کی ضرورت نہیں رہتی۔ ادب یہ ہے کہ: انسان کے گفتار اور کردار میں تقوی الہی نظر آئے، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کریں، نیز ادب کو محض فصاحت و بلاغت میں محصور کر دینا مناسب نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ: ماں کا کردار ہر معاشرے میں کلیدی ہوتا ہے چنانچہ اگر آپ اپنی بیٹی کو اچھی ماں بنا دیں تو وہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کر سکتی ہے۔ کتب احادیث میں خصوصی طور پر ادب کے عنوان کے تحت احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔ ادب کا صلہ اور بدلہ بہت عظیم ہوتا ہے چنانچہ با ادب شخص کے لئے نبی ﷺ نے جنت میں محلات کی ضمانت دی ہے۔ سلف صالحین ادب سیکھنے اور سکھانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے مملکت سعودی عرب میں ہونے والی بارشوں پر اللہ کا شکر ادا کیا اور ان بارشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی ہریالی کی سیر کرنے کے آداب بھی بتلائے اور کہا کہ راستوں ، اور سائے دار جگہوں پر گندگی مت پھیلائیں یہ مذموم اعمال ہیں، آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔

    عربی خطبہ کی ویڈیو حاصل کرنے کیلیے یہاں کلک کریں۔

    پہلا خطبہ:

    تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اللہ تعالی نے ہمیں کتاب و سنت کے ذریعے بہترین انداز میں ادب سکھایا، ہم پر اپنی فضل کی بہاریں برسائیں، ہمیں اپنی وسیع رحمت کے زیر سایہ رکھا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک، میں اسی کی جانب دعوت دیتا ہوں اور خود بھی اسی کی جانب انابت کرتا ہوں۔ اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے رسول ہیں، آپ کو حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا، اعلی اخلاق کے بعد کسی حسب نسب کی ضرورت نہیں رہتی، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے ، دردو و سلام کے ذریعے ہمیں وافر اجر اور عظیم ثواب ملے گا۔

    مسلمانو! تقوی الہی اختیار کرو ؛ کیونکہ متقی کامیاب ہوں گے اور حد سے تجاوز کرنے والے بد بخت تباہ و برباد ہوں گے، {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} اے ایمان والو! اللہ سے کما حقہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام پر۔[آل عمران: 102]

    ادب انسان کا شرف ہے، ادب پر مبنی شرف کی وجہ سے حسب و نسب کے شرف کی ضرورت نہیں رہتی۔ شرف بلند ہمتی سے حاصل ہوتا ہے، بوسیدہ ہونے والی ہڈیوں سے نہیں!

    مَا ضَرَّ مَنْ حَازَ التَأَدُّبَ وَالنُّهَى

    أَلَّا يَكُوْنَ مِنْ آلِ عَبْدِ مَنَافِ

    ادب اور دانشمندی حاصل کرنے والے کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ عبد مناف کی آل میں سے نہیں ہے

    شرف اور خوبی یہ ہے کہ ادب انسان کے رگ و پے میں رچ بس چکا ہو۔

    زَانُوْا قَدِيْمَهُمْ بِحُسْنِ حَدِيْثِهِمْ

    وَكَرِيْمِ أَخْلَاقٍ وَحُسْنِ خِصَالِ

    بہترین لوگوں نے حسن گفتگو، اچھے اخلاق اور خوبیوں کی بدولت اپنی نسل کو قدر فراہم کی

    فَطُوْبَى لِقَوْمٍ أَنْتَ فَارِعُ أَصْلِهِمْ

    وَطُوْبَاكَ إِذْ مِنْ أَصْلِهِمُ أَنْتَ فَارِعُ

    آفرین ہے تمہارے خانوادے پر جس کے تم سپوت ہو، اور تم پر بھی آفرین ہے کہ تم ان کی اولاد ہو۔

    ادب: قابل ستائش کلام اور کام کا نام ہے۔

    ادب: اعلی کردار اور مذموم چیزوں کو ترک کرنے کا نام ہے۔

    ادب: بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کا نام ہے۔

    ادب: حسن اخلاق کو کہتے ہیں۔ فرمان باری تعالی: {وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ} [القلم: 4] کی تفسیر میں عطیہ عوفیؒ کہتے ہیں: "مطلب یہ ہے کہ: آپ بہت عظیم ادب کے مالک ہیں۔"

    ادب: تقوی اور اطاعت الہی بجا لانے اور نافرمانی سے بچنے کا نام ہے۔

    أَدَّبْتُ نَفْسِيْ فَمَا وَجَدْتُ لَهَا

    بِغَيْرِ تَقْوَى الْإِلَهِ مِنْ أَدَبِ

    میں نے اپنے آپ کو با ادب بنانا چاہا تو مجھے تقوی الہی کے علاوہ کہیں بھی ادب نہیں ملا۔

    مجاہدؒ اللہ تعالی کے فرمان: {قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ} [التحريم: 6] کی تفسیر میں کہتے ہیں: "اپنے آپ اور اہل خانہ کو تقوی الہی کی تلقین کرو اور اسی کے ذریعے انہیں با ادب بناؤ"

    قَدْ يَنْفَعُ الْأَدَبُ الْأَحْدَاثَ فِيْ مَهَلٍ

    وَلَيْسَ يَنْفَعُ عِنْدَ الْكَبْرَةِ الْأَدَبُ

    نو عمر افراد کو ابتدا میں ادب سکھانا مفید ہو سکتا ہے، لیکن بڑھاپے میں نہیں ۔

    إِنَّ الْغُصُوْنَ إِذَا قَوَّمْتَهَا اعْتَدَلَتْ

    وَلَنْ يَّلِيْنَ إِذَا قَوَّمْتَهُ الْخَشَبُ

    کیونکہ گیلی ٹہنی کو سیدھا کرو تو سیدھی ہو جائے گی، لیکن لکڑی بن جانے کے بعد سیدھی نہیں ہوگی

    لَيْسَ الْجَمَالُ بِأَثْوَابٍ تُزَيَّنُنَا

    إِنَّ الْجَمَالَ جَمَالُ الْعِلْمِ وَالْأَدَبِ

    پہنا ہوا لباس ہمیں خوبصورت نہیں بناتا، انسان خوبصورت تو علم اور ادب سے بنتا ہے۔

    [عربی زبان میں ادب دعوت دینے کے معنی میں مستعمل ]تو ادب کو ادب اس لیے کہتے ہیں کہ یہ لوگوں کو اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی دعوت دیتا ہے۔

    ادب: اچھی گفتگو، خوبصورت کلام، چاشنی بھری بات، حسین عبارت، بہترین تعامل اور روح و اخلاقیات کی عمدگی کا نام ہے۔

    ادب صرف فصاحت، بلاغت، علوم و فنون پر دسترس، اور اشعار یاد ہونے کا نام نہیں ہے، بلکہ ادب کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اچھے اخلاق کا مالک ہو۔ دوسروں پر اللہ کی نعمتوں سے خوش ہو۔ حسد اور کینے سے اپنے آپ کو پاک صاف رکھے۔ جس با ادب شخص کی عقل کامل ہو جائے تو وہ کم بولتا ہے اور زیادہ خاموش رہتا ہے، اس کے بول میٹھے ہو جاتے ہیں اور اس کی برد باری عیاں ہوتی ہے۔

    وَكُنْ كَرِيْمًا، حَلِيْمًا، عَاقِلًا، فَطِنًا

    مُنَزَّهَ الْخُلْقِ عَنْ طَيْشٍ وَعَنْ غَضَبِ

    تم سخی، حلیم، عقل مند اور فطین بنو، طیش اور غصے سے یکسر دور رہو

    وَصُنْ لِسَانَكَ مِنْ هَجْوٍ، وَمِنْ سَفَهٍ

    وَمِنْ مُجَاوَرَةَ الْأَوْبَاشِ، وَالْكَذِبِ

    اپنی زبان کو ہجو اور بیوقوفانہ کلام سے محفوظ رکھو، نیز اوباشوں کی صحبت سے دور رہو۔

    کسی نے کیا خوب کہا ہے: تین چیزوں کی بدولت اجنبیت ختم ہو جاتی ہے، مشکوک افراد سے بچاؤ، با ادب رہنا، کسی کو تکلیف نہ دینا۔

    يَزِيْنُ الْغَرِيْبَ إِذَا مَا اغْتَرَبَ

    ثَلَاثٌ فَمِنْهُنَّ حُسْنُ الْأَدَبِ

    مسافر شخص کی اجنبیت تین چیزیں ختم کر دیتی ہیں: اول، حسن ادب

    وَثَانِيْةٌ: طِيْبُ أَخْلَاقِهِ

    وَيَخْتِمُهُنَّ اجْتِنَابُ الرِّيَبِ

    دوم: حسن اخلاق اور آخری ہے مشکوک سرگرمیوں سے اجتناب

    ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "با ادب شخص کامیاب اور خوش حال ہوتا ہے، جبکہ بے ادب شخص بد بخت اور تباہ حال ہوتا ہے۔ اسی لیے دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل کرنے کے لئے ادب کا کوئی ثانی نہیں، بعینہٖ ان سے محرومی کے لئے بے ادبی کا بھی کوئی ثانی نہیں۔ آپ والدین کے ساتھ ادب کو دیکھیں: کیسے والدین کا ادب کرنے والے کو غار سے خلاصی ملی انہیں چٹان نے محصور کر دیا تھا!؟ آپ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نماز پڑھانے کے متعلق نبی ﷺ کے ساتھ ادب دیکھیں: کہ آپ نبی ﷺ کے پیش امام نہ بنے اور کہا: ابن ابی قحافہ کو زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ نبی ﷺ کا امام بنے۔ ان کے اس ادب نے آپ ﷺ کے بعد انہیں پوری امت کی امامت کا وارث بنا دیا!" مختصراً اقتباس مکمل ہوا

    إِنّي لَتُطرِبُني الخِلالُ كَريمَةً

    طَرَبَ الغَريبِ بِأَوبَةٍ وَتَلاقي

    میں اچھی خوبیوں کو دیکھ کر جھوم اٹھتا ہوں جیسے پردیسی واپس لوٹنے اور ملاقات ہونے پر جھوم جاتا ہے۔

    وَتَهُزُّني ذِكرى المُروءَةِ وَالنَدى

    بَينَ الشَمائِلِ هِزَّةَ المُشتاقِ

    مجھے مروت اور نرم مزاج خوبیوں کا تذکرہ کسی مشتاق کی طرح بے خودی میں مست کر دیتا ہے۔

    فَإِذا رُزِقتَ خَليقَةً مَحمودَةً

    فَقَدِ اصْطَفاكَ مُقَسِّمُ الأَرزاقِ

    لہذا اگر تمہیں کوئی اچھی خوبی مل جائے تو یقیناً رزق تقسیم کنندہ نے تمہیں چنیدہ بنا لیا ہے۔

    فَالناسُ هَذا حَظُّهُ مالٌ وَذا

    عِلمٌ وَذاكَ مَكارِمُ الأَخلاقِ

    کچھ لوگوں کے نصیب میں مال تو کسی کے نصیب میں علم اور کسی کو حسن اخلاق ملتا ہے۔

    وَالعِلمُ إِن لَم تَكتَنِفهُ شَمائِلٌ

    تُعليهِ كانَ مَطِيَّةَ الإِخفاقِ

    تو اگر علم اچھے اخلاق کے زیر سایہ نہ ہو تو یہ علم بھی تنزلی کی جانب گامزن کر دیتا ہے۔

    لا تَحسَبَنَّ العِلمَ يَنفَعُ وَحدَهُ

    ما لَم يُتَوَّج رَبُّهُ بِخَلاقِ

    یہ مت سمجھنا کہ صرف علم ہی مفید ہے! جب تک صاحب علم اخلاقیات سے متصف نہ ہو کوئی فائدہ نہیں!

    كَم عالِمٍ مَدَّ العُلومَ حَبائِلاً

    لِوَقيعَةٍ وَقَطيعَةٍ وَفِراقِ

    دیکھ لو کہ کتنے ہی علم رکھنے والوں نے اپنے علوم کو رخنے ڈالنے، قطع تعلقی اور دشمنی کا ذریعہ بنا دیا!

    وَفَقيهِ قَومٍ ظَلَّ يَرصُدُ فِقهَهُ

    لِمَكيدَةٍ أَو مُستَحِلِّ طَلاقِ

    کتنے ہی فقیہانِ ملت نے اپنی فقاہت مکاری یا طلاق دلوانے کے لئے استعمال کیا!

    الأُمُّ مَدرَسَةٌ إِذا أَعدَدتَها

    أَعدَدتَ شَعباً طَيِّبَ الأَعراقِ

    ماں ایک مکمل تربیت گاہ ہے، اگر تم ایک ماں کی تربیت کر دو تو تم ایک انتہائی اچھا معاشرہ تشکیل دے دو گے

    الأُمُّ رَوضٌ إِن تَعَهَّدَهُ الحَيا

    بِالرِيِّ أَورَقَ أَيَّما إيراقِ

    ماں ایک گلستان ہے، اگر حیا اس کی آبیاری کرے تو بہت ہی پھل آور ثابت ہوتا ہے۔

    الأُمُّ أُستاذُ الأَساتِذَةِ الأُلى

    شَغَلَت مَآثِرُهُم مَدى الآفاقِ

    ماں ان تمام اولین اساتذہ کی بھی استاد ہے، جن کے کارناموں سے افق بھرے ہوئے ہیں۔

    رَبُّوا البَناتِ عَلى الفَضيلَةِ إِنَّها

    في المَوقِفَينِ لَهُنَّ خَيرُ وِثاقِ

    بیٹیوں کی اچھی تربیت کریں، اس کی بدولت وہ دونوں جہانوں میں ثابت قدم رہیں گی۔

    وَعَلَيكُمُ أَن تَستَبينَ بَناتُكُم

    نورَ الهُدى وَعَلى الحَياءِ الباقي

    خیال کرنا جب تمہاری بیٹیاں اپنے گھروں کو سِدھاریں تو نورِ ہدایت اور دائمی حیا ان کی رفاقت میں ہو۔

    احادیث کی کتب صحاح، سنن اور مصنفات نے ادب سے متعلقہ احادیث کا خصوصی اہتمام کیا ہے، اہل اسلام کے ہاں ان عظیم کتابوں کے مصنفین نے اپنی کتب میں ادب کے لئے خصوصی عنوان اور ابواب لکھے ہیں۔

    آپ صحیح بخاری میں کتاب الادب دیکھ لیں، صحیح مسلم میں بھی کتاب الادب موجود ہے، سنن ابو داود میں کتاب الادب شامل ہے، ایسے ہی سنن ترمذی میں بھی کتاب الادب کو شامل کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب کا اسلام میں کتنا بلند مقام اور مرتبہ ہے۔ شریعت اور احادیث میں ادب کو واضح ترین اہمیت دی گئی ہے۔

    آداب اور اخلاقیات کے بارے میں احادیث کے ذخیرے میں یہ حدیث بھی ہے جسے ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (میں جنت کے کنارے پر ایک محل کا ضامن ہوں اس کے لئے جو حق پر ہوتے ہوئے بھی لڑائی نہ کرے، اور جنت کے وسط میں ایک محل کا ضامن ہوں اس کے لئے جو مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے، اور اعلی ترین جنت میں محل کا ضامن ہوں اس کے لئے جس کا اخلاق اچھا ہے) اس حدیث کو ابوداود نے روایت کیا ہے۔

    ابن مبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے"

    امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں: "میری والدہ میرے سر پر دستار باندھتیں اور کہتیں: جاؤ ربیعہ کی مجلس میں بیٹھو، ان کے علم سے پہلے ان سے ادب حاصل کرو"

    اس پر عبد اللہ بن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہم نے امام مالک کے علم سے زیادہ ان سے ادب سیکھا ہے"

    اسماعیل بن علیَّہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "امام احمد کی مجلس میں تقریباً 5 ہزار یا کم و بیش لوگ آتے تھے، ان میں سے تقریباً 5 صد افراد لکھتے جبکہ باقی تمام ان سے ادب سیکھتے تھے۔"

    خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حدیث کے طلبہ پر لازمی ہے کہ وہ دیگر لوگوں سے زیادہ با ادب، با اخلاق اور تواضع رکھنے والے ہوں، پرہیز گاری اور دینداری میں سب سے آگے ہوں، کم سے کم طیش اور غصے میں آتے ہوں؛ کیونکہ یہ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق، آپ کی خوبیوں اور آداب نبوی کو سنتے رہتے ہیں۔ سلف صالحین ، اہل بیت اور صحابہ کرام کی سیرت پڑھتے ہیں۔ محدثین اور اسلاف کے تذکرے پڑھتے ہیں، تو یہ اعلی اور ارفع اقدار لیں جبکہ گھٹیا اور بری چیزوں سے کنارہ کش رہیں"

    میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں، اور اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو، بیشک وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔


    دوسرا خطبہ:

    ہمہ قسم کی حمد اللہ کے لیے ہے، جو پناہ طلب کرنے والوں کو پناہ دیتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ، وہ علاج کے باوجود صحت یابی سے مایوس ہونے والوں کی بھی شفا دیتا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ کی اطاعت کرنے والا راہ راست پا لیتا ہے، جبکہ آپ کی نافرمانی کرنے والا گمراہ ہو جاتا ہے، اللہ تعالی اُن پر، انکی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں ،دائمی سلامتی، اور برکتیں نازل فرمائے۔

    حمدو صلاۃ کے بعد:

    مسلمانو! تقوی الہی اختیار کرو، اور اللہ تعالی کو اپنا نگہبان جانو، اسی کی اطاعت کرو، اور نافرمانی مت کرو، {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ}اے ایمان والو! تقوی الہی اختیار کرو، اور ہمیشہ سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔ [التوبہ : 119]

    مسلمانو!

    اللہ تعالی کی نعمت کا شکر ادا کرو کہ اللہ تعالی نے تمہارے لیے ٹھنڈی ہوائیں ، بارشیں برسانے والے بادل، اور گھن گرج والی گھٹائیں تسلسل کے ساتھ بھیجیں، ان سے پیاسی زمینوں، بنجر صحراؤں، بے آب و گیاہ کھلیانوں ، خشک اور چٹیل پہاڑوں پر بارشیں ہوئیں، ان پر قحط سالی کا راج تھا، تو بارشوں کی وجہ سے سر سبز اور ہرے بھرے ہو گئے، ان پر جڑی بوٹیاں نمودار ہو گئیں، اللہ کے فضل سے تمہاری زمینیں لہلہا اٹھی ہیں، اللہ کی بارش سے تمہارے کھیت اور کھلیان آباد ہوگئے ہیں، اللہ کی رحمت سے تمہارے پہاڑ تک سبزے سے ڈھک گئے ہیں، یہ زرعی پیداوار کا سال ہوگا۔ ان پہاڑوں کا منظر بھی انتہائی سہانا ہو گیا ہے، جو کہ اللہ تعالی کی قدرت، حکمت، رحمت، فضل، رزق اور احسان کی واضح ترین دلیل ہے۔

    حَتَّى إِذَا مَا عَانَقَ الرَّوْضُ الثَّرَى

    طَلَعَتْ أَوَائِلُ نَبْتِهِ الْمُتَظَاهِرِ

    جب گیلی مٹی میں بیج گم ہوئے تو ان سے کونپلیں نکل آئیں۔

    مُتَخَالِفَاتٌ فِي الرُّبَى فَنَظَائِرٌ

    حُسْناً وَفِي الْأَلْوَانِ غَيْرُ نَظَائِرِ

    ان میں الگ الگ نعمتیں ہیں، یہ سب حسن میں یکساں جب کہ رنگت سب کی جدا جدا ہے۔

    تَرْنُوْ إِلَيْكَ جُفُوْنُهَا عَنْ أَعْيُنٍ

    أَحْلَى وَأَمْلَحَ مِنْ عُيُوْنِ جَآذِرِ

    ان جنگلات میں نیل گائے کے بچوں کی آنکھیں آپ کو بہت اچھی لگیں گی۔

    لَا شَيْءَ أَحْسَنُ مَنْظَراً إِنْ زُرْتَهُ

    أَوْ مَخْبَراً مِنْ حُسْنِ رَوْضٍ نَاضِرِ

    آپ پھولوں سے معمور باغیچے میں جائیں تو کوئی منظر یا واقعہ کسی تر و تازہ باغیچے کے نظارے سے اچھا نہیں لگے گا۔

    إِنْ جِئْتَهُ أَعْطَاكَ أَجْمَلَ مَنْظَرٍ

    أَوْ غِبْتَ زَارَكَ فِي النَّسِيْمِ الْخَاطِرِ

    اگر باغیچے میں جائیں گے تو آپ کو خوبصورت منظر دیکھنے کو دے گا اور اگر وہاں سے چلے جائیں گے تو تمہارے خیالوں میں بھی آئے گا۔

    اپنی نظروں کو اللہ تعالی کے دلفریب مناظر سے لُبھائیں، اور سیر تفریح کے آداب کو مد نظر رکھیں، لہذا کسی بھی ایسی جگہ کو گندگی سے آلودہ مت کریں جہاں پر لوگ سایہ کے لئے بیٹھتے ہوں، یا آرام کرتے ہوں یا سواریاں کھڑی کرتے ہوں، یا کوئی سر سبز جگہ ہو، یا پھل دار درخت ہو، یا پانی پینے کی جگہ ہو یا پیدل، سواری اور گاڑیوں کے چلنے کی جگہ ہو کہیں پر بھی گندگی مت پھیلائیں۔

    سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (تم لعنت کا سبب بننے والے کاموں سے بچو) تو اس پر صحابہ کرام نے کہا کہ: "اللہ کے رسول! یہ لعنت کا سبب بننے والے کام کیا ہیں؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (جو لوگوں کے راستے یا سائے میں قضائے حاجت کرے) مسلم

    سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے: "وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:" (جو مسلمانوں کے آباد راستے میں پاخانہ کر دے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے، فرشتوں کی لعنت ہے اور تمام لوگوں کی لعنت ہے) بیہقی۔

    احمد الہادی، شفیع الوری ، نبی ﷺ پر بار بار درود و سلام بھیجو، (جس نے ایک بار درود پڑھا اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)

    یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر درود و سلام نازل فرما، یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین، تمام صحابہ کرام، اہل بیت اور تابعین و تبع تابعین سے راضی ہو جا، اور ان کے کیساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، یا کریم! یا وہاب!

    یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! شرک اور مشرکوں کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! دین دشمن قوتوں کو نیست و نابود فرما، اور تمام مسلم ممالک کو مستحکم، مضبوط اور امن و امان کا گہوارہ بنا دے، یا رب العالمین! یا اللہ! مملکت حرمین شریفین کو مکاروں کی مکاری، عیاروں کی عیاری، حاسدوں کے حسد، اور کینہ پرور لوگوں کے کینے سے محفوظ فرما، یا رب العالمین!

    یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، ان کی پیشانی سے پکڑ کر نیکی اور تقوی کے کاموں کے لیے رہنمائی فرما، یا اللہ! انہیں اور ان کے ولی عہد کو صرف وہی کام کرنے کی توفیق عطا فرما جن سے اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ اور فائدہ ہو، یا رب العالمین!

    یا اللہ! ہماری سرحدوں پر مامور ہماری افواج کو غلبہ عطا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! سیکورٹی فورس کے جوانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں بہترین صلہ اور بدلہ عطا فرما، یا رب العالمین!

    یا اللہ! ہمیں اپنے لطف و کرم کے ذریعے اپنے قریب فرما لے، ہمارا امتحان مت لینا، یا اللہ! ہمیں اپنے لطف و کرم کے ذریعے اپنے قریب فرما لے، ہمارا امتحان مت لینا، یا اللہ! ہمیں اپنے لطف و کرم کے ذریعے اپنے قریب فرما لے، ہمارا امتحان مت لینا۔ یا اللہ! ہمیں اپنا اطاعت گزار اور ولی بنا لے، یا اللہ! ہمیں حلال پر اکتفا کرنے والا بنا، حرام سے بچنے والا بنا، یا اللہ! ہمیں اپنے فضل سے ہر کسی کی محتاجی سے محفوظ فرما دے، یا رب العالمین!

    یا اللہ! ہم تجھ سے برے دن، بری رات اور بری گھڑی سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا رب العالمین!

    یا اللہ! تمام مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام پریشان مسلمانوں کی پریشانیاں ختم فرما، یا اللہ! تمام پریشان مسلمانوں کی پریشانیاں ختم فرما، تمام مسلمان فوت شدگان پر رحم فرما، تمام مسلمان فوت شدگان پر رحم فرما، اور ہم پر جارحیت کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما، یا رب العالمین!

    یا اللہ! تمام طلبہ اور طالبات کو امتحانات میں کامیاب فرما، یا اللہ! تمام طلبہ اور طالبات کو امتحانات میں کامیاب فرما، یا اللہ! ان کے لئے امتحانات میں کامیابی لکھ دے، یا سمیع الدعوات! یا عظیم الرحمات!

    یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں بلند فرما، یا کریم! یا عظیم! یا رحیم!

    پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ یا پرنٹ کرنے کیلیے کلک کریں۔
     
    Last edited: ‏دسمبر 23, 2018
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • مفید مفید x 1
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا شیخ!
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں