خطبہ حرم مکی خطبہ حرم مکی ( جو اللہ کے لیے ہے اس ہی کو بقا ہے) 8 مارچ 2019

فرهاد أحمد سالم نے 'خطبات الحرمین' میں ‏اپریل 2, 2019 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. فرهاد أحمد سالم

    فرهاد أحمد سالم ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2019
    پیغامات:
    9

    خطبہ جمعہ مسجد حرام
    خطیب : فضیلۃ الشیخ فیصل بن جمیل غزاوی (حفظہ اللہ تعالی)
    موضوع: جو اللہ کے لئے ہے اس کو بقا ہے
    تاریخ: ۱ رجب ۱۴۴۰ھ بمطابق ۸ مارچ ۲۰۱۹
    مترجم: فرہاد احمد سالم۔
    پہلا خطبہ:

    بیشک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد طلب کرتے ہیں، اور مغفرت چاہتے ہیں، ہم اپنے نفسوں کی شرارتوں، اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، اللہ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جیسے گمراہ کر دے اسے کوئی راہ نہیں دکھا سکتا،
    میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔(اللہ تعالی آپ پر آپ کی آل اور صحابہ کرام پر بہت زیادہ درود و سلام نازل فرمائے)
    اما بعد:
    بندے کو جن بنیادی قواعد کے فہم ،ادراک اور تذکیر کی ضرورت ہے، ان میں سے یہ ہے کہ، جو اللہ کے لیے ہے وہ باقی رہے گا اور جو اس کے علاوہ غیر کے لئے ہے وہ ختم ہو جائے گا،
    چنانچہ اللہ تعالی کے لیے خالص عمل مقبول اور باقی رہنے والا ہے۔ اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ ضرور ختم ہونے اور مٹ جانے والی ہے۔
    اللہ تعالی کا فرمان ہے{ أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَمْ مَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [التوبة: 109]
    کیا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ سے ڈر اور اس کی خوشنودی پر رکھی وہ بہتر ہے، یا وہ شخص جس نے اپنی بنیاد مٹی کے کسی کھوکھلے تودے کے کنارے پر رکھی جو گرنے ہی والا تھا۔
    قرطبی (رحمہ اللہ)اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کے تقوی کی نیت اور رضا کے حصول کے لیے جو بھی چیز کی جائے تو وہ باقی رہے گی، کرنے والا سعادت مند رہے گا، اور وہ اللہ کی طرف چڑھے گی اور اس کی طرف بلند کرے گی۔
    ہمارے لئے آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کے قصے میں ہدایت و نصیحت ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: {وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ} [المائدة: 27]
    آپ ان اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا سچا واقعہ سنائیے۔ جب ان دونوں نے (اللہ کے حضور) قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی۔ دوسرے نے پہلے سے کہا :''میں ضرور تمہیں مار دوں گا'' پہلے نے جواب دیا : (''اس میں میرا کیا قصور) اللہ تو صرف پرہیزگاروں کی قربانی قبول کرتا ہے۔
    چنانچہ جب ہابیل نے اللہ کا تقوی اختیار کرتے ہوئے، اخلاص کے ساتھ اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے قربانی کی تو اللہ تعالی نے اس کی قربانی قبول فرمائی، اور قابیل کی قربانی کو قبول نہ کیا جو کہ متقی نہ تھا۔
    پس جب عقل مند مومنوں نے اپنے رب سے دعائیں کیں، تو اللہ تعالی نے ان کے جواب میں فرمایا:
    {فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ} [آل عمران: 195]
    سو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا : ''میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، ضائع نہیں کروں گا کیونکہ تم دونوں ایک دوسرے کا حصہ ہو، لہذا جن لوگوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں دکھ اٹھائے، نیز جن لوگوں نے جہاد کیا اور شہید ہوگئے۔ میں ضرور ان کی برائیاں ان سے دور کردوں گا ، اور ایسے باغات میں ضرور داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اللہ کے ہاں ان کا یہی بدلہ ہے۔ اور اللہ کے ہاں جو بدلہ ہے وہ بہت ہی اچھا بدلہ ہے۔
    اللہ تعالی کسی عمل کو ضائع نہیں کرتا، بلکہ بدلہ بھی دیتا ہے، اور مومنین کو نیک اعمال پر بہترین جزا ملے گی۔ اور اس کے برعکس وہ شخص جس کی نیت تو اچھی ہو لیکن عمل غیر اللہ کے لیے ہو، بلکہ وہ اپنے عمل، کوشش اور نیت سے دنیا کا طلب گار ہو تو وہ عمل اس کو فائدہ نہ دے گا۔
    اللہ تعالی کا فرمان ہے:
    {وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا } [الفرقان: 23]
    اور جو کچھ انہوں نے کیا دھرا ہو گا ہم ادھر توجہ کریں گے تو اسے اڑتا ہوا غبار بنا دیں گے۔
    اسی طرح جو بھی چیز غیر اللہ کے لئے ہو گی نہ تو وہ نفع بخش ہو گی اور نہ وہ پائدار ہو گی۔
    اور قرآن مجید میں ہے۔
    {فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ} [الرعد: 17]
    پھر جو جھاگ ہے وہ تو سوکھ کر زائل ہو جاتا ہے اور جو چیز لوگوں کو فائدہ دیتی ہے وہ (پانی) زمین میں رہ جاتی ہے۔
    عَنْ عَائِشَةَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، ابْنُ جُدْعَانَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَيُطْعِمُ الْمِسْكِينَ، فَهَلْ ذَاكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ: " لَا يَنْفَعُهُ، إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ "(صحيح مسلم 214)
    صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کےرسول! ابن جدعان جاہلیت کےدور میں صلہ رحمی کرتا تھا اور محتاجوں کو کھانا کھلاتا تھا تو کیا یہ عمل اس کے لیے فائدہ مند ہوں گے؟آپ نے فرمایا:’’اسے فائدہ نہیں پہنچائیں گے، (کیونکہ) اس نے کسی ایک دن (بھی) یہ نہیں کہا تھا: میرے رب! حساب و کتاب کے دن میری خطائیں معاف فرمانا ۔‘
    چونکہ وہ کفر پر تھا، تو اس کو صدقہ، یتیموں کی کفالت، مسکینوں کو کھانا کھلانا، اور مہمانوں کی مہمان نوازی نے فائدہ نہیں دیا۔ نیز وہ ان اعمال سے آخرت کا طلب گار نہ تھا ، نہ ہی اس کی تیاری میں اعمال کیے، نہ ہی مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے اور جنت و جہنم پر یقین رکھتا تھا، بلکہ چرچہ اور دنیا کی شہرت کا طلب گار تھا، تو اس کو دنیا میں لوگوں کی تعریف اور شہرت کے ذریعے بدلہ دیا گیا، یہ ہی اس کا حصہ تھا اور آخرت میں اس کے لیے کچھ نہ ہو گا۔
    جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
    {مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ (15) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} [هود: 15، 16]
    جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہے تو ہم ایسے لوگوں کو دنیا میں ہی ان کے اعمال کا پورا بدلہ دے دیتے ہیں اور وہ دنیا میں گھاٹے میں نہیں رہتے۔ ہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں آگ کے سوا کچھ حصہ نہیں. جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ برباد ہوجائے گا اور جو عمل کرتے رہے وہ بھی بے سود ہوں گے۔
    اس آیت کے عموم میں ہر وہ عمل شامل ہے جس سے دنیا طلب کی گئی ہو۔
    اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
    {مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ} [الشورى: 20]
    جو شخص آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کی کھیتی بڑھا دیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے اس میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔
    اور اللہ تعالی کا فرمان:
    {مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا (18) وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا } [الإسراء: 18، 19]
    جو شخص دنیا چاہتا ہے تو ہم جس شخص کو اور جتنا چاہیں، دنیا میں ہی دے دیتے ہیں پھر ہم نے جہنم اس کے مقدر کردی ہے جس میں وہ بدحال اور دھتکارا ہوا بن کر داخل ہو گا۔ اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے لئے اپنی مقدور بھر کوشش بھی کرے اور مومن بھی ہو تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ يُقْضَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَيْهِ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ يُقَالَ: جَرِيءٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ، وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ، وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِيُقَالَ: عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ: هُوَ قَارِئٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ، وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ: هُوَ جَوَادٌ، فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ أُلْقِيَ فِي النَّارِ "،(صحيح مسلم1905)
    ابوھریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ آئے گا، وہ ہو گا جسے شہید کر دیا گیا۔ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی (عطا کردہ) نعمت کی پہچان کرائے گا تو وہ اسے پہچان لے گا۔ وہ پوچھے گا تو نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتی کہ مجھے شہید کر دیا گیا۔ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا۔ تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا جائے: یہ (شخص) جری ہے۔ اور یہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس آدمی کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا، پڑھایا اور قرآن کی قراءت کی، اسے پیش کیا جائے گا۔ (اللہ تعالیٰ) اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان کر لے گا، وہ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآن کی قراءت کی، (اللہ) فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے (یہ) عالم ہے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے: یہ قاری ہے، وہ کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتی کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جس پر اللہ نے وسعت کی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان لے گا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے ان میں کیا کیا؟ کہے گا: میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں تمہیں پسند ہے کہ مال خرچ کیا جائے مگر ہر ایسی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے جھوٹ بولا ہے، تم نے (یہ سب) اس لیے کیا تاکہ کہا جائے، وہ سخی ہے، ایسا ہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا، پھر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔"۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
    بے شک ان لوگوں نے ظاہری طور پر اچھے اعمال کیے، لیکن اخلاص اور اللہ کی رضا نہ ہونے اور شہرت کی طلب ہونے پر ان کی کوشش رائگاں اور امیدیں ٹوٹ گئیں۔
    اے مسلم اقوام:
    یہ عظیم قاعدہ کہ جو اللہ تعالی کے لئے ہے اس کو بقا ہے اور جو غیر اللہ کے لئے اس کو فنا ہے، مختلف چیزوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، تو اس میں عبادات بھی شامل ہیں، یعنی یہ ضروری ہے کہ عبادت خالص اللہ کے لئے اور حصول رضائے الہی کے لئے ہو۔
    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنْ الشِّرْكِ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ (صحيح مسلم2985)
    أَنَا مِنْهُ بَرِيءٌ وَهُوَ لِلَّذِي أَشْرَكَ(سنن ابن ماجه 4202)
    حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ شریک بنائے جانے والوں میں سب سے زیادہ میں شراکت سے مستغنی ہوں۔ جس شخص نے بھی کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کو شریک کیا تو میں اسے اس کے شرک کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیتا ہوں۔"اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے اور ابن ماجہ میں ہے، تو میں اس سے بری ہوں، اور وہ اسی کے لئے ہے جس جو اس نے شریک کیا،
    ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب انسان کی نظر میں لوگوں کی توجہ اور خشنودی مطلوب ہو، تو اس کی نیت میں شرک آ جاتا ہے۔ اس لئے مخلص کے لئے ضروری ہے کہ ان کی توجہ کا طلب گار نا ہو۔ بلکہ اس سے نفرت کرے۔
    پس جو شخص اپنے عمل سے مخلوق کی توجہ چاہے، تو اسکا عمل برباد ،اور خالق اور مخلوق دونوں کے ہاں مقبول نہیں ہو گا، اس کا دل پھر گیا عمل برباد اور زندگی تباہ ہوئی۔
    مسلم اقوام:
    اللہ تعالی نے ریاکاری کی مثال اس طرح بیان فرمائی ہے کہ جو دکھلاوے کے لئے خرچ کرتا ہے، اس کے اعمال برباد اور خرچ شدہ مال کا ثواب ضائع، اور قیامت کے دن اللہ کے پاس نیکیوں سے مفلس آئے گا۔
    چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:
    {أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ} [البقرة: 266]
    کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا کھجور اور انگور کا ایک باغ ہو جس میں ہر طرح کے میوے پیدا ہوتے ہوں اور اسے بڑھاپا آلے اور اس کی اولاد چھوٹی چھوٹی ہو۔ (ان حالات میں) اس کے باغ کو ایک بگولا آلے جس میں آگ ہو اوروہ باغ کو جلا ڈالے؟ اللہ تعالیٰ اسی انداز سے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم (ان میں) غور و فکر کرو۔
    جو اللہ کے لئے مخلص بنا وہ سعادت مند ہے۔
    اسی طرح جس نے اللہ تعالی کی رضا اور ثواب کی نیت سے( نہ کہ ریاکاری اور شہرت کے لئے) اطاعت کے کام کیے تو بے شک اس کا ایمان مکمل ہوا۔
    فی روایۃ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ وَأَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَنْكَحَ لِلَّهِ فَقَدْ اسْتَكْمَلَ إِيمَانَهُ (جامع الترمذي 2521)
    حدیث میں نبی ﷺ سے ثابت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' جس نے اللہ کی رضاکے لیے دیا اور اللہ کی رضا کے لیے روکا اور جس نے اللہ کی رضا کے لیے محبت کی، اور اللہ کی رضا کے لیے عداوت ودشمنی کی اور اللہ کی رضا کے لیے نکاح کیا تو یقینا اس کا ایمان مکمل ہوگیا'۔
    (جس نے اللہ کی رضا کے لئے دیا)، یعنی زکاۃ ، صدقہ اور ہدیہ صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے دیا ۔
    (اللہ کی رضا کی لئے روکا)، یعنی خواہشات نفس، کنجوسی اور بخل کی وجہ سے نہیں بلکہ رضائے الہی کے لئے غیر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رکا رہا۔
    (اللہ تعالی کی رضا کے لیے دوستی اور دشمنی کی۔) یعنی دوستی اور دشمنی اس لئے کی جو اس کو اللہ کی اطاعت کی قریب کرے۔
    (اللہ تعالی کی رضا کے لئے نکاح کیا۔) یعنی اس کا اپنا، اپنے بیٹے، بیٹیوں یا جو اس کے ماتحت ہیں ان کا نکاح اللہ کے رسول ﷺ کی پیروی اور اللہ تعالی کے خوشنودی کے لئے ہو۔
    (تو اس کا ایمان مکمل ہوا۔) یعنی جس نے اپنی ساری زندگی اللہ تعالی کی رضا میں گزاری تو اس کی جزا یہ ہے کہ اس کا ایمان مکمل ہوا۔
    ایمانی بھائیو:
    مومن اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہوئے پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے بعد اچھا اثر چھوڑے تاکہ موت کے بعد بھی فائدہ ملتا رہے۔ نہ کہ برا اثر کہ موت کے بعد بھی گناہ ملتا رہے۔
    اللہ تعالی نے فرمایا: {إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ} [يس: 12]
    بے شک ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم لکھ رہے ہیں جو عمل انھوں نے آگے بھیجے اور ان کے چھوڑے ہوئے نشان بھی اور جو بھی چیز ہے ہم نے اسے ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے۔
    سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ((وآثارھم) انکے چھوڑے ہوئے نشان) یعنی ان کی نیکیوں اور برائیوں کی نشانیاں ، جو ان کے اقوال و افعال کے سبب دنیا کی زندگی اور موت کے بعد وجود میں آئیں ۔
    چنانچہ لوگوں میں سے جو کوئی بھی بھلائی کا کام، اپنے علم، تعلیم اور نصیحت کے ذریعے، نیکی کا حکم دے کر اور برائی سے روک کر، طالب علموں کو علم دے کر، کتابوں کی صورت میں (جن سے اس کے زندگی میں اور اس کی موت کے بعد فائدہ اٹھایا جائے)۔
    اسی طرح نماز، زکاۃ ،صدقہ و احسان کی صورت میں نیک اعمال جس میں لوگ اس کی پیروی کریں۔ مسجد کی تعمیر میں حصہ لے کر، لوگوں کے فائدہ کے لیے کوئی جگہ بنا کر، اور اسی سے ملتے جلتے کام کرتا ہے ،تو یہ وہ بھلائی کی نشانیاں ہیں جو اس کے لیے لکھ دی جائیں گی، اور اسی طرح برائی کی نشانیاں بھی۔
    سبحان اللہ ، کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کے اعمال کو اللہ تعالی نے شرف قبولیت بخشا، ان کا ذکر خیر اور نشانیوں کو ہمیشہ لوگوں میں باقی رکھا، اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو تباہ و ہلاک ہو گے، اور لوگوں کے لئے افسانہ و عبرت بن گئے ۔
    اللہ کے بندو؛ غور کرو کہ جن لوگوں کو اللہ تعالی نے بلند مقام دیا اور ان کا ذکر خیر باقی چھوڑ دیا، وہ مخلص اور تشہیر و تذکیر سے دور رہنے والے تھے۔
    فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جس نے شہرت کو پسند کیا اس کو بھلا دیا گیا، اور جس نے اس کو ناپسند کیا تو اس کو یاد رکھا گیا۔
    ابوبکر بن عیاش رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ ، کچھ لوگ مسجد میں بیٹھیں تو ان کے اردگرد لوگ جمع ہوتے ہیں، تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا جو لوگوں کے لیے بیٹھتا ہے لوگ اس کے لیے بیٹھتے ہیں،اور اہل سنت فوت ہو گئے انکا ذکر باقی رہا، لیکن اہل بدعت اپنے ذکر کے ساتھ فوت ہوگئے۔
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ اس لیے کہ اہل سنت نبی ﷺ کی لائی ہوئی ہر چیز سے محبت کرتے ہیں، چنانچہ ان کے لیے اللہ تعالی کے اس فرمان میں خوشخبری ہے۔
    {وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ } [الشرح: 4]
    اور ہم نے تیرے لیے تیرا ذکر بلند کر دیا۔
    اور اہل بدعت نے نبی ﷺ کی لائی ہوئی چیزوں سے نفرت کی تو ان کے اللہ تعالی کے اس فرمان میں حصہ ہے۔
    { إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ} [الكوثر: 3]

    یقیناً تیرا دشمن ہی لا وارث اور بے نام و نشان ہے۔
    اس امت میں اہل السنہ و الجماعۃ، اخلاص اور سچائی والی وہ جماعت ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی شان کو بلند، اور لوگوں میں ان کے ذکر خیر کو باقی چھوڑا۔(ہم ان کے بارے میں ایسا ہی گمان کرتے ہیں اور انکا محاسب اللہ ہے)۔
    جیسے کہ چاروں آئمہ ،( ابو حنیفہ، مالک ، شافعی ، احمد) ابن مبارک، بخاری، مسلم، ابن تیمیہ اور ابن قیم اور دیگر اللہ تعالی ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
    ایمانی بھائیو : للہیت پر مبنی اعمال کی برکت یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کے فوائد دائمی ہوتے ہیں، اور لوگوں پر اس کے اثرات باقی رہتے ہیں ،آپ انبیاء کی دعوت پر غور و فکر کریں کہ ان کا مقصد اللہ تعالی کی رضا تھی، چنانچہ اس کے اثرات فائدہ مند ثابت ہوئے۔
    اسی طرح ان کے بعد ہدایت یافتہ ،آئمہ مصلحین کی دعوت، کتنے ہی لوگ اس کے سایہ سے مستفید اور اس کے میٹھے چشمے سے سیراب ہوئے۔
    انسان کو نیک کام پر اچھا بدلہ دینا، اور اسکے اکرام میں اعمال صالحہ کا نفع وفات کے بعد بھی باقی رکھنا سنت الہیہ میں سے ہے۔
    خلیفہ راشد عثمانؓ نے رومہ کا کنواں خرید کر اسے نبی ﷺ کے زمانے اور بعد کے تمام لوگوں میں وقف کر دیا۔ چنانچہ اس وقف کی برکت یہ ہے کہ یہ آج بھی موجود ہے، اور یہ وقف تاریخ اسلامیہ کے ان اوقاف میں سے ہے جو تمام ادوار میں باقی رہا۔
    اور جب ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ (رحمھما اللہ) نے حج کے دوران پیاس اور تھکاوٹ کی وجہ سے حاجیوں کی حصول پانی کے لئے مشقت دیکھی تو ایک نہر جاری کروانے کا حکم دیا، چنانچہ اس کا نام نہر زبیدہ رکھا گیا، یہ میٹھے پانی کی نہر بھی مسلمانوں کے عظیم اوقاف میں سے ہے، اور زمانہ قریب تک اس کا پانی اہل مکہ کے گھروں تک پہنچتا تھا،
    جب امام مالک رحمہ اللہ نے موطا لکھی تو ان سے کہا گیا آپ کی اس تصنیف کا کیا فائدہ ؟ تو آپؒ نے فرمایا: جو اللہ کے لئے ہے اسی کو بقا ہے۔ یہ عظیم بات سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہے، چنانچہ یہ بات لوگوں میں پھیل گئی اور لوگ اسے آج بھی بیان کرتے ہیں۔ ایسے ہی ان کی عظیم کتاب موطا بھی باقی ہے، اور اس کو امت میں شرف قبولیت ملا، اور اللہ تعالی نے اس میں موجود علم سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔
    اور کتنے ہی علمائے کرام کی تصنیفات میں اللہ تعالی نے برکت دی، اور وقت سے عصر حاضر تک کے لئے نفع بخش بنا دیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی کتب کو حیرت انگیز قبولیت ملی، اور اور اہل علم نے ان کی درس و تدریس اور شروحات لکھ کر اپنی محبت کا اظہار کیا۔
    اس عظیم قاعدے کی صورتوں میں تعلقات بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: { الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ } [الزخرف: 67]۔
    اس دن پرہیزگاروں کے علاوہ سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔
    ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ جتنے بھی تعلقات اور دوستی غیر اللہ کے لئے ہوں گی وہ قیامت کے دن دشمنی میں بدل جائیں گی۔ وہ ہی ہمیشہ رہے گی جو اللہ تعالی کے لیے ہو گی ۔
    اور ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ بات معلوم ہے کہ غیر اللہ کے لئے جس چیز سے بھی محبت کی جائے، تو اس کا نقصان، نفع سے زیادہ اور اس کا عذاب، نعمت سے زیادہ ہوتا ہے۔
    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَجِدَ طَعْمَ الْإِيمَانِ فَلْيُحِبَّ الْعَبْدَ، لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ۔(مسند احمد ۔10738)
    ابو ھریرۃ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جسے اس بات سے خوشی ہو کہ وہ ایمان کا مزہ پائے ، تو وہ بندے سے محبت صرف اللہ کے لیے ہی کرے، اسے امام احمد نے روایت کیا۔
    اور اس قاعدے کی صورتوں میں خرچ کرنا بھی ہے۔ چنانچہ مومنین رضا اللہ کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں، جیسے کہ اللہ پاک نے فرمایا: {وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ } [البقرة: 272]
    اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو، صرف اللہ کی رضا کے لیے کرو۔
    یہ لوگ اللہ کی راہ میں دین کے لئے مال خرچ کرتے ہیں، اور یہ مال پروان چڑھتا ہے، اللہ تعالی ان کے مال میں برکت دے کر اس کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
    {مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ} [البقرة: 261]
    جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے اس کا اجر اس سے بھی بڑھا دیتا ہے اور اللہ بڑا فراخی والا اور جاننے والا ہے۔
    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ(صحيح البخاري؛1410)
    ابوہرہرۃ ؓ سے روایت ہے کہ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ حلال و پاکیزہ چیزوں ہی کو قبول کرتا ہے۔۔۔اللہ تعالیٰ اس صدقے کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے، پھر اسے دینے والے کی خاطر بڑھاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کو پال کر بڑھاتا ہے ،حتی کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔
    الغرض، اللہ تعالی کی رضا کے لئے صدقہ کرنا ایسی خیر کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس کے بعد کوئی خیر نہیں۔ اور وہ اللہ تعالی کا قرب ہے۔
    رہا کفار کا معاملہ تو وہ راہ حق سے روکنے، مومنین سے لڑائی، اور مسلمانون کے خلاف سازشوں میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ سو ان کا مال برباد اور رائگاں ہو جائے گا، نہ ہی اس سے کوئی فائدہ حاصل ہو گا۔ اور ان باطل پرستوں کی امیدیں بیکار اور حسرت انکا مقدر ہو گی۔ اللہ تعالی فرمایا:
    { إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَسَيُنْفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ } [الأنفال: 36]
    یہ کافر اپنے مال اس لئے خرچ کرتے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روک دیں اور ابھی یہ لوگ اور بھی خرچ کریں گے، پھر یہی بات ان کے لئے حسرت کا باعث بن جائے گی پھر وہ مغلوب ہوں گے پھر یہ کافر جہنم کی طرف گھیر لائے جائیں گے۔
    اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے۔ آپ دیکھیے کہ جو شخص اللہ تعالی کی رضا کے حصول کے لئے اس کی راہ اور دین کی نصرت کے لیے خرچ کرتا ہے۔ اور جو شخص شیطان کی پیروی میں اللہ کے دین سے روکنے، اور اس کے نور کو بجھانے کی کوشش میں خرچ کرتا ہے، کتنا فرق ہے۔
    میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔ اپنے اور آپ سب کے لئے استغفار کرتا ہوں۔ آپ بھی اسی سے تمام گناہوں کی استغفار اور توبہ کریں، بے شک میرا رب بہت زیادہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔



    دوسرا خطبہ:
    تمام تعریفات اللہ تعالی کے لیے ہیں وہی ہمیں کافی ہے، اور درود و سلام نازل ہو ہمارے سردار، امام اور نبی جناب محمد ﷺ، آپ کی آل اور ان پر جنہوں نے ہدایت پر چلتے ہوئے آپ کی پیروی کی۔
    اما بعد:
    اللہ کے بندو! بے شک اللہ تعالی ہی ہمیشہ زندہ رہنے اور زندہ رکھنے والا، ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ تمام مخلوقات نے مر مٹ جانا ہے؛ اللہ کے ہاں اجر و ثواب ہی باقی رہے گا، اور آخرت ہمیشہ کی زندگی ہے جو کبھی فنا نہ ہو گی وہاں کے باسیوں کو کبھی موت نہیں آئے گی۔
    چنانچہ جس شخص نے اس کے لئے کوشش اور عمل کیا تو وہ کامیابی اور فلاح پانے والوں میں سے ہو جائے گا، دنیا اور یہاں کے باسی ختم ہو جائیں گے، اسی طرح دنیاوی کام بھی مٹ جائیں گے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو ہمارے دلوں میں راسخ اور ہم سے مخفی نہیں ہونے چاہیں۔
    چنانچہ اللہ تعالی کیلئے عمل کرنے والے انسان کا عمل ، ذکر اور اثر باقی رہے گا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: { إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا} [الكهف: 30]
    جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو یقینا ہم اس کا اجر ضائع نہیں کرتے جو اچھے کام کرتا ہو۔
    اور اللہ رب العزت نے فرمایا: {وَوَهَبْنَا لَهُمْ صِدْقٍ عَلِيًّا} [مريم: 50]مِنْ رَحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ
    اور ہم نے ان سب کو اپنی رحمت سے نوازا تھا اور ذکر خیر سے سربلند کیا تھا۔ یعنی ہم نے ان کی اچھی تعریف اور لوگوں کے ہاں اچھا ذکر عطا کیا۔
    لوگوں میں علماء اور داعیان دین کو سب سے زیادہ اللہ رب العزت کے اس قاعدے پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کو یقین کامل ہونا چاہیے کہ جو اللہ کے لیے ہے وہ ہمیشہ اور باقی ہے، اور جو غیر اللہ کے لیے وہ کٹ جائے گا۔
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس کے ساتھ اللہ کی مدد نہیں وہ کچھ نہیں اور جو عمل اللہ کیلئے نہیں وہ نفع دے گا اور نہ ہی باقی رہے گا۔(مجموعہ فتاوی : جلد 8 ص: 329)
    اور اسی طرح انہوں نے فرمایا: جس بھی عمل میں اللہ کی رضا مقصود نہ ہو وہ باطل ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔(درء تعارض العقل والنقل: جلد4، ص:14)
    تو جس شخص کے ساتھ اللہ کی مدد نہیں وہ کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ نیکی کرنے کی قوت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اور اسی طرح جو بھی عمل اللہ کی لئے نہ کیا جائے وہ صحیح نہیں وہ کوئی فائدہ نہیں دے گا اور نہ ہی باقی رہے گا۔
    تو جب یہ بات ایسے ہی ہے تو اللہ کے بندو ہمیں اخلاص کے لئے کوشش اور اللہ تعالی کے لئے عمل کرنا ہو گا۔ کیونکہ یہی اعمال کو باقی رکھنے کے ساتھ روزِ قیامت کامیابی اور نجات کا راستہ ہے۔
    سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: کہ خبردار، بے شک تم ایام مہلت سے گزر رہے ہو، اس کے بعد موت ہی ہے۔
    تو جس نے مہلت کے دنوں میں موت سے قبل اپنے اعمال کو اللہ کے لئے خالص کر لیا تو یقینا اس نے اچھے اعمال کئے اور اپنی مراد کو پا لیا، اور جو یہ نہ کر سکا تو اس کے اعمال برباد ہو گئے اور اس کو اس کی مراد نے نقصان پہنچایا۔
    امام ابن حزم رحمہ اللہ نے فرمایا: عقل مند انسان فضیلت اور نیکی کے کام زیادہ کرے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔انہی کاموں سے وہ ذکر خیر، تعریف، ستائش اور نیک القاب کا حقدار بنتا ہے، یہی اعمال اس کو رب کے قریب کریں گے۔ اور اللہ تعالی کے ہاں اس کا ذکر باقی رکھیں گے، نیز ان اعمال کے اثرات بھی دائمی ہوں گے۔ پھر ان کا دائمی فائدہ ملے گا جو کبھی نہ ختم ہو گا۔(رسائل ابن حزم :ج 1، ص409)
    خبردار: اللہ کے چنے ہو نبی محمد ﷺ پر درود و سلام بھیجو جیسا کہ تمہیں تمہارے رب نے بھی حکم دیا ہے اور فرمایا: بے شک اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم بھی آپ ﷺ پر خوب کثرت سے درود و سلام بھیجو۔ (احزاب:56)
    اے اللہ تو نبی ﷺ آپ کی بیویوں آپ کی اولاد پر رحمتیں نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام پر بھجیں۔ اور اے اللہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی بیویوں اور اولاد میں برکت عطا فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں برکت عطا فرمائی بے شک تو بہت تعریف کا مستحق اور بزرگی والا ہے۔
    یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ شرک اور مشرکین کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! ، کفار، کفر اور منافقین کو ذلیل کر دے ، یا رب العالمین! یا اللہ! اپنے اور دین اسلام کے دشمنوں کو تباہ و برباد فرما۔ یا ذالجلال والا کرام!
    یا اللہ! اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
    اے اللہ ہمارے ملکوں اور گھروں میں امن پیدا فرما اور ہمارے حکمرانوں اور معاملات کو چلانے والوں کی اصلاح فرما، اے تمام جہانوں کے رب ہمارا حاکم اسے بنا جو تجھ سے ڈرتا ہو اور تقوی والا اور تیری خوشنودی (والے کاموں) کی پیروی کرنے والا ہو۔ اے اللہ اے زندہ اور قائم رہنے والے تو ہمارے حکمرانوں کو اپنی محبوب اور خوشنودی والی باتوں اور کاموں کی توفیق عطا فرما۔ اور انکو انکی پیشانی سے پکڑ کر نیکی اور تقوی کی طرف لے جا۔
    اے اللہ تو (مددگار) ہو جا ہمارے کمزور بھائیوں اور تیری راہ میں جہاد کرنے والوں، سرحدوں کی رکھوالی کرنے والوں کا، اے اللہ تو ان کے لئے نصرت، تائید اور کامیاب کرنے والا ہو جا۔
    اے اللہ ہمارے قول اور عمل میں اخلاص پیدا فرما اور ہمارے تمام اعمال کو نیک اور اپنی رضا کیلئے بنا دے، اے اللہ ہم تجھ سے غیب اور حاضر دونوں میں خشیت کا سوال کرتے ہیں اور خوشی اور غصے میں حق بات کا سوال کرتے ہیں اور امیری اور غریبی میں میانہ روی کا سوال کرتے ہیں،
    آپ کا رب پاک ہے عزت کا مالک ان باتوں سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ اور رسولوں پر سلام ہو۔ اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ (صافات:180ـ182)
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • حوصلہ افزا حوصلہ افزا x 1
    • مفید مفید x 1
  2. ابو حسن

    ابو حسن محسن

    شمولیت:
    ‏جنوری 21, 2018
    پیغامات:
    415
    جزاک اللہ خیرا
     
  3. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا!
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں