خطبہ حرم مکی خطبہ حرم مکی (شرعی احکام میں آسانی کا تصور) 7 شعبان 1440ھ بمطابق 12 اپریل 2019

فرهاد أحمد سالم نے 'خطبات الحرمین' میں ‏اپریل 14, 2019 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. فرهاد أحمد سالم

    فرهاد أحمد سالم ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2019
    پیغامات:
    9

    خطبہ جمعہ مسجد حرام
    خطیب: الشیخ اسامہ بن عبداللہ خیاط (حفظہ اللہ تعالی)
    موضوع: شرعی احکام میں آسانی کا تصور۔
    تاریخ: 7 شعبان 1440ھ بمطابق 12 اپریل 2019
    مترجم: فرہاد احمد سالم
    خطبہ کی آڈیو سننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
    پہلا خطبہ!

    تمام تعریفات جہانوں کے پالنے والے رب کے لئے ہیں، اللہ تعالی اولین و آخرین کے سردار، امانت دار نبی محمد ﷺ کہ جن کو جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا، پر رحمت و سلامتی نازل فرمائے، نیز آپ کی پاکیزہ آل ، آپ کے روشن ستاروں کی مانند صحابہ ، تابعین اور قیامت تک اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں پر بھی رحمت و سلامتی نازل ہو۔
    اما بعد!
    لوگو اللہ کا تقوی اختیار کرو۔ اور تقوی کو زاد راہ بناؤ جو اللہ تک پہنچنے میں تمہارا ہم سفر ہو، اور یاد رکھو کہ تمہیں اللہ کے سامنے کھڑے ہونا ہے ، اور یہ کہ تمہارے اعمال اس کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔
    {يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ} [الشعراء: 88، 89]
    جس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا اور نہ اولاد۔ فائدے والا وہی ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے۔
    اللہ کے بندو!
    اس دین کی بڑی عظیم، بلند قدر اور گہرے اثرات والی خصوصیات، میں یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت سے تنگی ، بوجھ اور سابقہ امتوں والی پابندیوں کو دور کر دیا ہے ۔
    چنانچہ اس دین کے قوانین و احکامات بہت آسان ہیں نہ ان میں سختی ، غلو اور اسراف ہے، نہ ہی اعتدال و میانہ روی کی حد سے تجاوز ہے ۔
    چنانچہ اس کے ذریعے مبالغہ اور تکلف کے دروازے اور ان تک پہنچانے والی راہوں کو بند کر دیا گیا، اور اس کا باعث بننے والے اسباب سے خبردار کر دیا گیا ہے۔
    تاکہ انسان اپنے نفس کو اس کام میں نہ لگائے ،جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا اور نہ نبی ﷺ نے مشروع قرار دیا ہے۔
    اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ایک وسیع چیز کو محصور ، کشادہ کو تنگ اور آسان کو مشکل بنا لے گا۔
    کتنے ہی ایسے مقام ہمارے رب کے قرآن اور ہمارے نبی ﷺ کی سنت میں موجود ہیں کہ امت سے تنگی کو دور کیا گیا اور آسانی شریعت میں شامل کی گئی ہے، انہی کی بدولت شریعت پر عمل پیرا لوگ سب سے زیادہ خوش بخت اور ہدایت یافتہ بن جاتے ہیں۔
    چنانچہ حدث اصغر اور اکبر کے احکامات کے ضمن میں، پانی کے استعمال سے معذور ، اور اس کے نہ ملنے کے وقت تیمم کی مشروعیت کی طرف رہنمائی کی گئی ۔ پس مکلفین پر زیادہ آسانی پیدا کرنے ، تنگی دور کرنے اور پریشانی کے وقت رخصت کی طرف رہنمائی کے لئے اللہ عزوجل کا یہ فرمان ہے۔
    {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ } [المائدة: 6]
    اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک (دھو لو) اور اگر جنبی ہو تو غسل کر لو اور اگر تم بیمار ہو، یا کسی سفر پر، یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو، یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو، پھر کوئی پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو، پس اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے اور لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور تاکہ وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرے، تاکہ تم شکر کرو۔
    جس تنگی کو دور اور آسانی کو پیدا کرنے کا ذکر اس آیت میں آیا ہے، وہ صرف اس میں وارد ہونے والے احکام کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے، بلکہ وہ عام ہے اور دین کے تمام احکام کو شامل ہے۔ جیسے کہ اللہ سبحانہ کا فرمان ہے:
    {هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ} [الحج: 78]
    اس نے تمہیں (اپنے دین کے کام کے لئے) چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔
    اللہ کے بندو! یہ دونوں آیات مسلمان کے جذبات کو چھونے والی ، اس کے دل میں سرور ، اور طبیعت میں خوشگواری پیدا کر دیتی ہیں نیز اسے احساس دلاتی ہیں کہ اس پر اس کے رب کا عظیم فضل، کرم ، رحمت اور خوبصورت احسان ہے کہ اس کے لیے سعادت کے راستے کو سایہ دار ، اور نجات کے راستے کی ہدایات ہے۔
    اس راستے پر چلنا مسلمان کو مشکل میں نہیں ڈالتا، برعکس بنی اسرائیل کے۔ کہ جن کے کندھوں کو ان پابندیوں نے بوجھل بنا دیا تھا ،جو ان پر ان کی شریعت میں تھیں۔ جیسے غنیمت کا مال کھانے کی حرمت، توبہ کے لئے گناہ گار کو قتل کرنا، کپڑے کے نجاست والے حصے کو کاٹنا، یہ صرف اس رحم کردہ امت کی فضیلت ہے ،کہ اللہ تعالی نے اس کو تمام امتوں سے بہتر بنایا ہے۔
    جیسے کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
    { وَ كَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا} [البقرة: 143]
    اور اسی طرح ہم نے تمھیں سب سے بہتر امت بنایا، تاکہ تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر شہادت دینے والا بنے۔
    آیت کے عربی لفظ وسط سے مراد سب سے بہتر اور عمدہ ہے ، جیسے کہ علامہ حافظ ابن کثیر (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں ۔
    جیسے کہا جاتا ہے کہ عرب میں قریش نسب اور مقام دونوں اعتبار سے اوسط ہیں ، یعنی ان میں سب سے بہتر ہیں،اسی طرح نبی ﷺ اپنی قوم میں وسط تھے، یعنی ان میں سب سے اعلی نسب کے تھے ۔
    اور اسی سے صلاۃ الوسطی ہے۔ جو سب سے افضل نماز یعنی عصر کی نماز ہے ، جیسے کہ صحاح وغیرہ میں ثابت ہے ،کہ جب اللہ نے اس امت کو امت وسط بنایا تو اسے خصوصی طور پر کامل ترین شریعت، درست ترین منہج اور واضح ترین راستہ عنایت فرمایا۔( ابن کثیر کا (رحمہ اللہ تعالی) کلام ختم ہوا۔)
    اللہ کے بندو !
    امت مسلمہ سے تنگی کا خاتمہ ؛امت کی فضیلت ، عدلِ شریعت، اور نبی آخر الزماں ﷺ کو ملنے والی آخری رسالت کے لائق ہے، اسی طرح یہ اس دین کے سرمدی اور تمام ادیان پر غالب رہنے کا تقاضا بھی ہے۔
    جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: { هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ } [التوبة: 33]
    وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو سب ادیان پر غالب کردے۔ خواہ یہ بات مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو۔
    اس لئے کہ یہ وہ منہج ربانی ہے جو عام، اور تمام انسانوں کے لئے موزوں ہے۔ چاہے ان کے مناصب میں فرق ہو، یا ان کے تہذیبی مراتب مختلف ہوں، یہ ایک ایسا منہج ہے کہ جس کے راستے نہ دشوار ، اور نہ ہی راہیں ٹیڑھی ہیں۔ اللہ تعالی نے اس راہ کی پیروی امت کے لئے آسان بنائی ، اور سنگ میل واضح رکھے ہیں۔
    دین سے تنگی دور کرنے کے دلائل و شواہد واضح ہیں، ان میں سے پانی نہ ملنے یا بیماری میں پانی سے نقصان کے وقت تیمم کی اجازت ہے۔
    جو کھڑا نہیں ہو سکتا ہے اس کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔
    اسی طرح مسافر ،مریض، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کے لئے رمضان کے مہینے میں افطار کی اجازت ہے ۔
    نیز مسافر کے لئے چار رکعت کی نماز کو قصر کرنے اور دو نمازوں کو اکٹھے کرنے کی اجازت ہے۔
    حائضہ اور نفاس والی عورت سے نماز ساقط ہے۔ اور استطاعت نہ ہونے کی صورت میں حج واجب نہیں۔
    جسے اتنی بھوک لگی ہو کہ مرنے کا خدشہ ہو جائے اور اس کے پاس مردار کے علاوہ اور کچھ بھی نہ ہو تو وہ زندگی بچانے کے لئے مردار بھی کھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی دلائل ہیں، جو امت سے تنگی دور کرنے اور آسانی پیدا کرنے پر شاہد ہیں۔
    چنانچہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں کو دی گئی رخصت پر چل کر ، تنگی دور ،اور تکلیف ختم ہوتی ہے ۔
    یہ ایسا عام قاعدہ اور اصول ہے جس کے تحت عبادات و معاملات کی بہت سی اقسام آتی ہیں ۔ یہ سب کی سب تنگی دور کرنے اور آسانی کے راستے پر چلنے میں شامل ہیں؛ ان راستوں کا انتخاب اللہ نے اپنے بندوں کے لئے کیا ہے، اس لیے ان کا استعمال جائز ، اور انہیں پسند بھی فرمایا ۔
    اللہ سبحانہ کا فرمان ہے:
    { يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ} [البقرة: 185]
    اللہ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔
    نبی ﷺ نے امت کو اس اصل کی پیروی کرنے کی رہنمائی دی اور فرمایا:
    عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا.»
    حضرت انس ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’(دین میں) آسانی کرو، سختی نہ کرو اور لوگوں کو خوشخبری سناؤ، انہیں (ڈرا ڈرا کر) متنفر نہ کرو۔‘‘ (صحيح البخاري 69)
    جب کبھی دو معاملے آپ ﷺ کو پیش کیے جاتے جن میں سے ایک تنگی اور دوسرا آسانی والا ہوتا تو آپ ﷺ آسانی کے معاملے کو منتخب فرماتے، بشرطیکہ وہ گناہوں سے پاک ، محفوظ اور دور ہوتا ، جیسے کہ صحیحین میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں۔
    عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا قَالَتْ: «مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا، فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ،
    حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے ،انھوں نے کہا: جب بھی رسول اللہ ﷺ کو دو کاموں میں سے(ایک کا ) انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ان دونوں میں سے زیادہ آسان کو منتخب فرماتے۔ بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہوتا اگر وہ گناہ کا کام ہوتا تو آپ سب لوگوں سے بڑھ کر اس سے دور ہوتے۔
    آپ ﷺ نے بتایا کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر جو احسانات کیے ان میں یہ بھی ہے کہ دین کو آسان بنایا ؛تنگی ، مشقت اور تکالیف والا نہیں بنایا، بلکہ مکلف کہ لئے ، سہل اور قابل عمل ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:
    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ (‌صحيح البخاري 39)
    حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’بےشک دین اسلام بہت آسان ہے۔ اور جو شخص دین میں سختی کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا،
    غالب آنے سے مراد جیسے کہ حافظ ابن حجر (رحمہ اللہ تعالی) نے فرمایا: کہ کوئی بھی شخص دینی افعال میں شرعی رخصتوں کو چھوڑ کر سختی اپنائے تو آخر کار عاجز ہوجاتا ہے ، اور عمل ترک کر کے مغلوب بن جاتا ہے ۔
    یہاں کامل ترین انداز میں عبادت کرنا مراد نہیں کیونکہ ،بیشک یہ تو قابل تعریف عمل ہے۔ بلکہ ایسے افراط کی ممانعت ہے جو ملال کی طرف لے جائے۔، یا نوافل میں مبالغہ کہ جس کی وجہ سے افضل چھوٹ جائے۔ یا فرض نماز کا وقت نکل جائے۔
    یا اس طرح کہ کوئی پوری رات نماز پڑھتے ہوئے گزارے ، یہاں تک کہ رات کہ آخری حصے میں نیند اس کی آنکھوں پر غالب آجائے، اور سویا رہے ،اور فجر کی نماز جماعت سے ادا نہ کرے، یا نماز کا وقت نکل جائے، یا سورج نکل آئے اور مقررہ وقت ختم ہو جائے۔
    انہوں نے فرمایا : پتا یہ چلا کہ اس میں شرعی رخصت کو اختیار کرنے کی رہنمائی ہے۔ کیونکہ رخصت کی جگہ عزیمت کو اختیار کرنا تکلف ہے، جیسے کوئی پانی کے استعمال سے معذور آدمی تیمم نہ کرے تو پانی کا استعمال اس کے لیے نقصان کا باعث ہو گا، (بن حجر کا قول مکمل ہو۔ (رحمہ اللہ تعالی) ۔)
    جس تنگی سے آسانی حاصل کرنے کی اجازت ہے اور اس کی تحدید کے لئے شرعی ضابطے ہیں، انہیں ملحوظ رکھنا واجب ہے۔ اس لئے کہ ہر پریشانی مشقت نہیں ، اور ہر مرض یہ اجازت نہیں دیتا کہ روزہ توڑنے کی رخصت لی جائے ، ہر بھوک یہ اجازت نہیں دیتی کی مردار کا گوشت کھایا جائے، بلکہ تنگی کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم جو معمول میں شامل ہیں ۔ایسی پریشانی جسے عرف میں پریشانی نہیں سمجھا جاتا، جیسے حالت روزہ میں مزدور کا دن میں محنت کرنا ، طبیعت کی سرسری خرابی جو قابل برداشت ہو۔ یا مشکل وقت میں عارضی بھوک جو موت کے قریب نہ کرے ۔ چنانچہ ان تمام مثالوں میں رخصت معتبر نہ ہو گی، اور تنگی دور کرنے کے نام پر رخصتوں پر عمل نہیں کیا جائےگا ۔
    یہ ہی وجہ ہے کہ اس قسم کی معمولی تنگی کو دور کرنا شارع کا مقصد نہیں ، اس لئے کہ ضروریات زندگی ، کھانا پینا ، وغیرہ اور کوئی بھی کام تنگی سے خالی نہیں ہوتا۔
    دوسری قسم وہ مشقت جو معمول سے زیادہ ہو۔ یہ ایسی مشقت ہے جس کی وجہ سے سینہ تنگ اور کوششیں پوری طرح ناکام ہو جائیں ، اور اس کا برا اثر انسان کے نفس اور مال پر ہو، بسا اوقات یہ پریشانیاں بہت سے مفید اعمال سے دور کر دیتی ہیں، کہ جن سے اعمال میں عمدگی آتی ہے، اور مختلف شکلوں میں اس کی بھلائیوں کا سرمایہ بڑھتا ہے۔
    یہ ہی وہ پریشانی ہے کہ جس کو اللہ نے امت پر آسانی ، رحمت اور تخفیف فرماتے ہوئے دور کر کے احسان کیا، اور یہ ہی چیز کتاب و سنت کی نصوص میں مقصود ہیں۔
    اللہ کے بندو! یہاں بنیادی بات وہ درد بھرے جذبات ہیں جو مسلمان کے احساسات کو قابو میں کر کے اسے رب کریم کی جانب متوجہ کر دیں۔
    اللہ تعالیٰ ان کی تربیت شریعت کی روشنی اسی طرح فرماتا ہے جیسے متنوع رخصتوں پر مشتمل شرعی احکام کے ذریعے فرماتا ہے۔ چنانچہ وہ ان کے لئے ایسی شریعت کو مشروع کرتا ہے، جو آسانی کے مختلف رنگوں، اور پریشانی دور کرنے کی مختلف شکلوں پر مشتمل ہے۔
    نیز یہ چیز ان بندوں کے دلوں میں اللہ سبحانہ کی محبت اور اس کے دین، کتاب اور رسول ﷺ کی محبت بوتی ہے۔
    اور یہ ہی وہ محبت ہے جو ان کو کمال خضوع اور اللہ سبحانہ کی جناب میں انابت کی توفیق ،نیز اس کے احکام و نواہی کی پوری طرح تعظیم ، اسی طرح اس کی اطاعت ، ذکر و شکر اور حسن عبادت کے ذریعے اہتمام کرنے اور اس کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے کا جذبہ عطا کرتی ہے،
    مسلمانو! اسلام میں تنگی کو دور کرنا اس دین کے واضح ترین خصائص میں سے ایک خصوصیت ، عظیم فضائل میں سے ایک فضیلت ، اعلی مقاصد میں سے ایک مقصد ہے ، اس لئے خیر کے داعیوں ، ہدایت کے علمبرداروں ، حق کے مددگاروں ، اور انبیاء کے وارثین کو چاہیے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ہدایت کے معاملات میں سے اس عظیم معاملے کے بیان میں بڑی کوشش اور محنت کریں ،
    تاکہ وضاحت و بیان کا وہ فرض ادا ہو جسے اللہ نے اہل علم پر فرض قرار دیا ہے ۔
    اس دین کی حدود و احکامات کا دفاع ہو ، یہاں تک کہ یہ دین ویسے ہی اندھیرے میں چلنے والے کے لئے منارہ ، راہ گیروں کے لئے روشنی اور حیرت زدہ لوگوں کے لئے رہنما ہو۔ جیسے کہ اللہ نے چاہا، اور تاکہ اس دین کو اپنا کر تنگی بوجھ اور پابندیاں ختم ہوں ، اور آسان حنیفیت کے اثرات قائم کیے جا سکیں ۔
    اللہ تعالی نے سچ فرمایا:
    { وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ} [الحج: 78]
    اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمہیں (اپنے دین کے کام کے لئے) چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے۔ اللہ نے اس سے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی (مسلم ہی رکھا ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ لہذا نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اس (کے دین) کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ وہی تمہارا کارساز ہے وہ کیسا اچھا کارساز ہے اور کیسا اچھا مدد گار ہے۔
    اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن اور نبی ﷺ کی سنت سے ہدایت دے ، میں اسی بات ہر اکتفا کرتا ہوں ۔ اور اللہ عظمت اور جلالت والے سے اپنے لئے ،آپ سب کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے تمام گناہوں کی استغفار کرتا ہوں ۔ بے شک وہ بہت زیادہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔

    دوسرا خطبہ!
    تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں ، ایسی تعریف جو ہمیں اس کی رضا تک پہنچا دے، میں اللہ سبحانہ کی تعریف بیان کرتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی رب اور معبود نہیں ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔
    میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، اور اللہ کی تمام مخلوق میں بہتر اور چنے ہوئے ہیں ۔
    اے اللہ اپنے بندے اور رسول محمد ، آپ کی آل ، صحابہ پر سلامتی اور برکتیں نازل فرما ۔نیز آپ ﷺ کی سنت کو مضبوطی سے تھامنے اور آپ کے طریقے پر چلنے والوں پر بھی ۔
    اما بعد! اللہ کے بندو
    اللہ نے جو رخصت بندوں کو عطا کی ، اور جس کے ذریعے ان کو فضیلت دی اس کو اختیار کرنا صرف ان سے تنگی دور کرنے اور امت کی آسانی کے لئے نہیں ، بلکہ اس کو اپنانا اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے ۔
    جیسے کہ وہ حدیث ، جس کو امام احمد نے مسند میں ، ابن خزیمۃ اور ابن حبان نے اپنی اپنی صحیح میں اور بیہقی نے اپنی شعب الایمان میں صحیح سند کے ساتھ عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے ذکر کیا ہے ۔ اور انہوں نے اللہ کے رسول سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
    عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ أَنْ تُؤْتَى رُخَصُهُ، كَمَا يَكْرَهُ أَنْ تُؤْتَى مَعْصِيَتُهُ "
    سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالی رخصتوں پر عمل کرنے کو اس طرح پسند کرتا ہے، جیسے وہ نافرمانیوں کو ناپسند کرتا ہے۔
    اور ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اپنی اپنی صحیح میں اور بیہقی نے سنن الکبریٰ میں صحیح سند کے ساتھ اسی طرح ابن عمر (رضی اللہ عنہ) سے ذکر کیا ہے ۔ وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :
    إن الله يحب أن تؤتى رخصه كما يحب أن تؤتى عزائمه"
    ‎اللہ تعالی رخصت پر عمل کرنے کو اس ہی طرح پسند فرماتا ہے، جس طرح زیادہ اجر والے کاموں پر عمل کو پسند کرتا ہے۔
    اللہ کے بندو !
    نبی ﷺ کے اس پیارے فرمان میں ، اس وہم کا ازالہ ہے کہ اللہ کی طرف سے بندوں کو عطا کردہ رخصت پر عمل نقص ،اور عیب سے متصف اور اللہ کے پسندیدہ طریقے پر واجب ادا نہ کرنے کی نشانی ہے ۔
    آپ ﷺ نے واضح بیان کے ذریعے بتا دیا ، کہ رخصت پر عمل کرنا عزائم پر عمل کرنے جیسا ہے جب تک کہ یہ دونوں اصولوں کی پابندی کے ساتھ اپنی جگہ پر استعمال ہوتے رہیں ،
    اللہ کا تقوی اختیار کرو اے بندو ! آسانی اپنانے اور تنگی دور کرنے کے اس راستے کو اختیار کرو جسے اللہ نے تمہارے لئے پسند فرمایا ہے اور عطا کیا ۔ اس کی نوازش کو قبول کرو اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو ، اور اپنے حصہ کی رحمت حاصل کرو .

    اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کو سب سے بہتر بشر نبی ﷺ پر درود و سلام کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے سب سے سچی بات ، اور احسان الکلام (قرآن ) میں فرمایا:
    {إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} [الأحزاب: 56]
    اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود اور خوب سلام بھیجا کرو۔
    (اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ)
    یا اللہ! محمد اور آل محمد پر درود نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر درود نازل کیا ، بیشک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔ یا اللہ! محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکت نازل کی، بیشک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔
    یا اللہ چاروں خلفاء ، ابوبکر ، عمر ، عثمان علی، آپ ﷺ کی ساری آل ، صحابہ ، تابعین اور قیامت تک اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والو ں سے راضی ہو جا ۔ اور ان کے ساتھ اپنے کرم اور معافی ، کا معاملہ فرما ۔ یا اکرم الاکرمین !
    یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔
    یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ اور دین کی حدود کی حفاظت فرما ۔ نیز دین کے دشمنوں، حد سے بڑھنے والوں اور مفسدین کو ہلاک کر دے ۔
    یا اللہ مسلمانوں کے دلوں کو باہم جوڑ دے ، ان کی صفوں کو ایک کر دے ، اور ان کی قیادت کی اصلاح فرما اور ان کو کلمہ حق پر جمع فرما۔ یا رب العالمین!
    یا اللہ! اپنے دین ، کتاب، نبی ﷺ کی سنت ، اور اپنے نیک ، سچے ، مجاہد بندوں کی نصرت فرما۔
    یا اللہ ! ہمیں ہمارے ممالک میں امن عطا فرما ، اور ہمارے آئمہ اور ولی الامر کے اصلاح فرما۔
    یا اللہ ! ہمارے امام ، خادم الحرمین الشریفین کی حق کے ساتھ مدد فرما۔ اور ان کے نیک جانشین فرما، اور ان کو اپنی محبت اور رضا والے کوموں کی توفیق عطا فرما۔ یا سمیع الدعاء!
    یا اللہ ! ان کو اور ان کے ولی عہد کو اسلام اور مسلمانوں کے لئے خیر کے کاموں کی توفیق عطا فرما۔ نیز بندوں اور ممالک کے لئے بھی خیر کی توفیق عطا فرما۔ یا من الیہ مرجع یوم المعاد!
    یا اللہ! ہمارے دلوں کو تقوی دے، ان کو پاکیزہ کر دے ، تو ہی ان کو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے۔
    یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے۔ اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، نیز ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر میں اضافے کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے۔
    یا اللہ !ہم تجھ سے بھلائی کرنے، برائی چھوڑنے اور مسکینوں سے محبت کا سوال کرتے ہیں ، اور یہ کہ تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما ، اور تو جب کسی قوم میں فتنہ برپا کرنے کا ارادہ کرے تو ہمیں اس فتنہ میں مبتلا کیے بغیر فوت کر دینا۔
    یا اللہ !تیری نعمتوں کے زوال، تیری عافیت کے ہٹ جانے، تیری ناگہانی سزا اور تیری ہر طرح کی ناراضی سے ہم تیری پناہ چاہتے ہیں۔
    یا اللہ !ہمارے تمام امور میں ہمارے انجام کو اچھا کر دے اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے پناہ میں رکھنا، اے اللہ تو اپنے اور ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں ہمیں کافی ہو جا۔
    یا اللہ !ہم تجھے ان کے بالمقابل کرتے ہیں اور ان کی برائیوں سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں۔
    یا اللہ ! جنوبی حدود اور تمام حدود پر ہمارے فوجی دستوں کی حفاظت فرما۔
    یا اللہ ! ان کے آگے ، پیچھے ، دائیں ، بائیں جا نب اور اوپر سے ان کی حفاظت فرما۔ نیز ہم تیری پناہ میں آتے ہیں کہ ان کو نیچے سے اچک لے۔
    یا اللہ ! ان کی غالب مدد فرما ۔ یا اللہ ! ان سے اپنے دین کی نصرت اور اپنے کلمے کی بلندی فرما۔
    یا اللہ ! ان سے اپنے دین کی نصرت اور اپنے کلمے کی بلندی فرما۔
    یا اللہ ! ان سے اپنے دین کی نصرت اور اپنے کلمے کی بلندی فرما۔
    یا اللہ ! ان میں سے جو قتل ہو گئے ان کے لئے شہادت کا اجر لکھ دے ۔ یا اللہ ! ان میں سے جو قتل ہو گئے ان کے لئے شہادت کا اجر لکھ دے ۔
    یا اللہ ! ان میں سے جو قتل ہو گئے ان کے لئے شہادت کا اجر لکھ دے ۔ اور ان کے زخمیوں کو شفا عطا فرما۔
    یا اللہ ! ان کے زخمیوں کو شفا عطا فرما۔ یا اللہ ! ان کے زخمیوں کو شفا عطا فرما۔ یا رب العالمین !
    رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ۔
    اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
    یا اللہ ! ہمارے بیماروں کو شفایاب فرما ، اور فوت شدگان کو معاف فرما۔ اور ہمیں اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اور نیک باقی رہنے والے اعمال کے ساتھ ہمارا خاتمہ فرمانا۔
    {رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201]
    ''اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔''
    یا اللہ ! ہمارے نبی محمد ﷺ پر آپ کی آل ، اور تمام صحابہ پر سلامتی نازل فرما ۔
    والحمدللہ رب العالمین!
    خطہ کی آڈیو سننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
    https://drive.google.com/file/d/15GtP4P3QJL0bGH0gRltIsv9hFLo-lamz/view?usp=drivesdk
    عربی خطبہ کی ویڈیو دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
    • مفید مفید x 1
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا شیخ!
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں