مساجد میں ترک جماعت سے متعلق شیخ احمد کوری موریتانی کے مضمون کا تجزیہ

مقبول احمد سلفی نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏مارچ 19, 2020 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    871
    مساجد میں ترک جماعت سے متعلق شیخ احمد کوری موریتانی کے مضمون کا تجزیہ

    تجزیہ نگار : مقبول احمد سلفی
    اسلامک دعوۃ سنٹر شمالی طائف – مسرہ –سعودی عرب

    میرے پاس "کروناوائرس کے ڈر سے ترک جماعت کا حکم" کے نام سے شیخ احمد کوری موریتانی کی ایک تحریر آئی ہے جس میں دس دلائل پیش کئے گئے ہیں اور یہ بتلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کروناوائرس کے ڈر سے مسجد میں جماعت سے نماز نہ پڑھنا جائز نہیں ہے ۔چونکہ میں نے اس حوالے سے ایک مستقل مضمون لکھا ہے کہ کرونا کے خوف سے غیرمامون علاقے والے مسجد کی بجائے گھر پہ نماز ادا کرسکتے ہیں اس لئے تجزیہ میں اختصار سے کام لوں گا ۔

    پہلی دلیل: جہاد کے وقت دشمن کے خوف سے جماعت ساقط نہیں ہوئی تو بیماری کے وہم کے ڈر سے جماعت کیسے ساقط ہوگی ؟
    جواب : کرونا وائرس کے خوف اور جہاد میں دشمن کےخوف کے درمیان بڑا واضح فرق ہے اس لئے جہادپراس کوقیاس کرنا صحیح نہیں ہے ۔ ذرا غور کریں کہ جہاد کے وقت جان کا خطرہ ہوتے ہوئے بھی رسول اللہ نے وقت پرجماعت سے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے جبکہ شدید بارش کے وقت جانی نقصان کا خطرہ نہیں ہے محض مشقت ہے پھر بھی گھروں میں نماز ادا کرنے کا حکم دیا ، دونوں حکم نبوی ہے ۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کا خوف ایسی علت ہے جو بارش والی حدیث سے مماثلث کھاتی ہے اس لئے جس طرح شدید بارش کی وجہ سے گھروں میں نماز پڑھنا جائز ہے اسی طرح کرونا کے ڈر سے بھی گھر میں نماز ادا کرسکتے ہیں ۔ دونوں میں مماثل علت ہے بارش میں علت ظاہری کیچڑ ہے جبکہ کرونا میں علت باطنی خوف ہے ۔

    دوسری دلیل : وبائی مرض اور بیماریوں کا اصل سبب گناہ ومعاصی ہے ، اس کا علاج رجوع الی اللہ ، توبہ واستغفار ، تلاوت ونماز اور دعا ہے یعنی بیماری کا علاج جمعہ اور جماعت ترک کرنے میں نہیں ہے ۔
    جواب : بیماری اور وبا کا سبب گناہ بھی ہوسکتا ہے اور آزمائش بھی اور علاج کے بارے میں بتائی گئیں سب باتیں درست ہیں مگر یہ بات محل نظر ہے کہ بیماری یا وباء کی حالت میں جماعت ترک نہیں کی جاسکتی ہے ۔ انفرادی طور پر بیمارولاغر شخص جماعت ترک کرسکتا ہے اور وبائی مرض کے بارے میں اوپر ذکر کیا ہوں ، تفصیل کے ساتھ اس پر مستقل مضمون بھی ہے کہ کروناوائرس کو بارش والی حدیث اور ان تمام دلائل پر قیاس کرتے ہوئے جن میں ہلاکت ونقصان سے بچنے اور وبائی مریض سے دور ی اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے مسجد میں جماعت سے نماز ترک کرکے اپنے اپنے گھروں میں پڑھنا جائز ہے ۔

    تیسری دلیل: بیماری اللہ کا فیصلہ اور تقدیر ہے لہذا اللہ پر توکل اختیار کرنا چاہئے اور بیماری کے خوف سے جمعہ اور جماعت ترک نہیں کرنی چاہئے ۔
    جواب : بلاشبہ بیماری اللہ کی طرف سے ہے ، یہ تقدیر کا حصہ ہے ہمارا اس پر ایمان ہے مگر تمام بیماریوں کا حکم یکساں نہیں ہے ،بعض بیماریوں کے متعلق اسلام کے احکام مختلف ہیں ،ان میں سےکوڑھ اور طاعون ہے ۔ایسے مریض سے اختلاط ممنوع ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑھی سے ہاتھ نہیں ملایا ، اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ آپ کا یہ عمل توکل کے منافی یا تقدیر کے خلاف ہے۔ جمعہ اور جماعت میں اختلاط پایا جاتا ہے جو انتشار کرونا کا سبب ہے اس وجہ سے ایسے حالات میں ترک جمعہ اور جماعات پر حرج نہیں ہے ۔

    چوتھی دلیل: کیا نبی کے ارشاد میں یہ موجود ہے کہ طاعون کے سبب مسجد بند یا جماعت ترک کردی جائے ؟
    جواب: نبی کے زمانے میں کبھی طاعون پھیلا ہی نہیں پھر آپ مسجد بند کرنے کا حکم کیوں کر دیتے ، طاعون کا پہلا حادثہ عہد فاروقی میں شام کے علاقہ میں پیش آیا ۔آپ نے اصل چیز کی ممانعت کردی وہ ہے اختلاط لہذا اگر مریض کی تشخیص ہوجائے تو اس کو مسجد سے دور کیا جائے گا لیکن مریض کی تشخیص نہ ہوسکے تو اختلاط سے بچا جائے گا ۔ کرونا کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ ابتدا میں چودہ دن تک مریض میں علامت ظاہر نہیں ہوتی گوکہ وہ مریض ہوتا ہے ایسے عالم میں اس مریض سے انجانے میں کس قدر خطرہ بڑھنے کا امکان ہے ؟۔

    پانچویں دلیل : عہد عمر میں طاعون عمواس پھیلا تو آپ نے ترک جماعت کا حکم نہیں دیا۔
    جواب : عہد عمر میں مدینہ میں طاعون نہیں پھیلا تھا بلکہ مدینہ سے بہت دور شام کے علاقہ میں پھیلا تھا۔ پھر طاعون کے انتشار اور کرونا کے انتشار میں بھی فرق ہے ۔ کرونا اختلاط سے پھیلتا ہے لہذا اختلاط سے بچا جائے گا۔

    چھٹی دلیل : اللہ نے صبر اور نماز سے مدد طلب کا حکم دیا ہے تو کیا مدد طلب کرنا مسجد میں نماز قائم کرنے سے ہوگا یا جمعہ اور جماعتوں کو چھوڑنے سے ؟
    جواب : یہ دلیل بہت ہی کمزور ہے اور استدلال باطل ہے ۔ ترک جماعت سے نماز کا ترک کرنا کہاں ہوتا ہے ؟ اللہ نے نماز سے مدد طلب کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے ۔ہمارے لئے اللہ نے پوری سرزمین کو مسجد بنا دیا ہے ۔

    ساتویں دلیل : نبی کا فرمان ہے جس نے صبح کی نماز جماعت سے پڑھی وہ اللہ کے ذمہ میں ہے تو کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ ہم اللہ کے ذمہ میں ہیں ؟
    جواب : مذکورہ دلیل سے استدلال بھی سراسر باطل ہے ، اگر اسی طرح استدلال کیا جائے تو نبی کی تعلیم کوڑھ سے دوری اختیار کرنااور آپ کا کوڑھی سے ہاتھ نہ ملانا کس معنی میں ہوگا؟ بلاشبہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے اورجائز اسباب اختیار کرنا بھی اسلام ہی کی تعلیم ہے ۔کیا صاحب تحریر اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے فجر کی نماز پڑھ کر کسی کرونا وائرس کے مریض سے ملاقات کرسکتا ہے ؟ اگر وہ یا ان کے کوئی موید ا س بات کے لئے تیار ہیں تو مجھے اس بارے میں فون پر اطلاع دیں اور ایسا نہیں کرسکتے تو براہ کرم غلط پیغام امت کو نہ دیں ۔

    آٹھویں دلیل: مدینہ میں ایک نابینا صحابی کو جماعت سے پیچھے رہنے کی نبی نے اجازت نہیں دی تو صحیح سالم حضرات کے لئے جماعت میں شریک نہ ہونے کی اجازت کیسے ہوگی؟
    جواب : صحیح بخاری(۶۶۷)میں ایک نابینا عتبان بن مالک کا واقعہ مذکور ہے جو اپنی قوم کے امام تھے انہوں نے نبی سے عرض کی کہ یا رسول اللہ اندھیری اور سیلاب کی راتیں ہوتی ہیں اس لئے آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ لیجئے تاکہ وہیں میں اپنی نماز کی جگہ بنالوں ۔
    اس حدیث میں صریح دلیل ہے کہ شرعی عذر کی بنیاد پر نماز گھر میں ادا کی جاسکتی ہے ، یہ نابینا اپنی قوم کے امام تھے ،امام کا گھر میں نماز پڑھنا گویا سب لوگوں کا اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھنا ہے ۔

    نویں دلیل : نبی کو جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو فورا آپ نماز کی طرف متوجہ ہوتے ، آج جب کرونا وائرس کی بیماری آپڑی ہے تو کیا سنت نبوی کی مخالفت کرتے ہوئے جمعہ اور جماعت ترک کردیں ؟
    جواب : مذکورہ حدیث نہ تو مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے سے متعلق ہے اور نہ ہی شرعی عذرکرونا وائرس کےڈر سے فرائض اپنے گھروں میں ادا کرنے سے سنت کی مخالفت ہوتی ہے ۔ حدیث میں مذکور نمازعام ہے جو کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے وہ بھی بغیر جماعت کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ویسے بھی نوافل عموما گھرمیں ادا کرتے تھے ۔ جو حدیث نماز باجماعت کی دلیل نہیں ہے اس سے جماعت والی نماز پر استدلال کرنا کارعبث ہے۔

    دسویں دلیل: کیا پوری تاریخ اسلامی میں علمائے مسلمین میں سے کسی ایک نے بھی وباء اور طاعون جیسی مہلک بیماریوں کے پھیلنے کی وجہ سے مساجد کو بند کرنے کا فتوی دیا؟
    جواب : بالکل تاریخ اسلامی ایسا واقعہ پیش آیا ہے ، علامہ ذہبی نے سیراعلام النبلاء (۱۸/۳۱۱)میں ۴۴۸ ہجری کا واقعہ ذکر کیا ہے جس میں مذکور ہے کہ مصر او ر اندلس میں ایسی وباء پھیلی کے مساجد بغیر مصلیوں کے بند پڑی رہیں ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں