کورونا وائرس کے پیش نظرقربانی کا مسئلہ

مقبول احمد سلفی نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏جولائی 12, 2020 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    871
    کورونا وائرس کے پیش نظرقربانی کا مسئلہ

    تحریر: مقبول احمد سلفی
    اسلامک دعوۃ سنٹر ، مسرہ ۔ طائف

    کوروناوائرس کے پیداکردہ سنگین مسائل میں ایک مسئلہ لوگوں کی محتاجگی میں شدید اضافہ ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں لوگ وبائی مرض کا شکار ہوکر بڑی تعداد میں دم توڑ رہے ہیں وہیں کثرت اموات بھوک وتنگی کی وجہ سے ہورہی ہیں ۔ یہ اس وقت کا انتہائی سنگین مسئلہ ہے ، سماجی اور انفرادی طور پر خدمت خلق کا فریضہ دیا جارہاہے تاکہ کورونا متاثرین اوربھوک سے مرنے والوں پرقابو پایا جاسکے ۔ اللہ تعالی ہرطرح سے ہماری حفاظت فرمائے اور صاحب ثروت کو رضاکارانہ خدمات کی مزید توفیق بخشے ۔ آمین
    ہم نے رمضان کی مبارک ساعات لاک ڈاون میں گزاری ، اب عیدالاضحی کی نمازوقربانی کا مسئلہ درپیش ہے ۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی مومنوں پر رحمت برسائے گا اور عیدالاضحی کی نماز ایک ساتھ عید گاہ میں ادا کرنے کی سعادت نصیب فرمائےگا، ان شاء اللہ ۔ قربانی کے تعلق سے بریلوی مکتب کے ادارے "جامعہ نظامیہ ، حیدرآباد کا ایک فتوی ان دنوں سوشل میڈیا پر بڑی تیزی سے وائرل ہے ، تصدیق کے لئے میرے پاس بھی یہ فتوی کافی مرتبہ بھیجا ، جواب جواب دیتے دیتے تھک گیا بالآخر مختصر تحریری جواب دینے پر مجبور ہونا پڑا جبکہ میں ان دنوں گھریلو کام کی وجہ سے کافی الجھن کا شکار ہوں ۔
    مذکورہ فتوی کا خلاصہ یہ ہے کہ قربانی کے دنوں میں قربانی کرنا ہی بہتر ہے لیکن اگر آپ قربانی کے دنوں میں قربانی نہ کرسکیں تو اس کے بعد قربانی کا جانور یا اس کی قیمت فقراء ومساکین پر صدقہ کردیں ۔ دراصل اس فتوی سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ان دنوں لاک ڈاون کی وجہ سے محتاجگی زیادہ ہے اس لئے قربانی کی بجائے اس کی قیمت محتاجوں پر صدقہ کردی جائے حالانکہ فتوی میں یہ بات نہیں ہے ۔ فتوی میں بارہ ذوالحجہ (احناف کے یہاں تین دن اور قرآن وحدیث کی روشنی میں چار دن قربانی جائز ہے) قربانی کے اسباب نہ بن پڑیں تب قیمت صدقہ کرنےکی بات کہی گئی ہے ۔ ان حالات کے تناظر میں اس قسم کا فتوی دارالعلوم دیوبند کا بھی ہے ۔
    فتوی سے ہٹ کر یہ بحث لوگوں میں بھی عام ہے کہ ان دنوں قربانی کی جگہ اس کی قیمت محتاجوں پر صدقہ کرنا کیسا ہے ؟
    قربانی کا دوسرا کوئی بدل نہیں ہے ، متعین وقت میں مشروع طریقے پرجانور ذبح کرکے اس سے اللہ کا تقرب حاصل کرنا قربانی کہلاتی ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :
    لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ(الحج:37)
    ترجمہ:اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے اسی طرح اللہ نے جانوروں کو تمہارا مطیع کردیا ہے کہ تم اس کی راہنمائی کے شکریئے میں اس کی بڑائیاں بیان کرو، اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔
    اس آیت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا مقصد جانور ذبح کرکے اللہ کا تقرب حاصل کرنا اور اپنے اندر پرہیزگاری پیدا کرنا ہے ۔ اس آیت سے تین آیت پہلے اللہ نے یہ بھی کہا ہے "وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا" کہ ہم نے ہر امت میں منسک(قربانی) مقرر کئے اور منسک کہتے ہیں اللہ کے تقرب کے لئے جانور ذبح کرنا اسی لئے آگے چویایوں (بهيمة الأنعام) کا ذکرہے ۔
    قربانی عبادت ہے اور عبادت توقیفی ہوتی ہے ، اس میں اپنی طرف سے قیاس کا کوئی دخل نہیں ہے ، اس لئے قربانی اسی شکل میں انجام دی جائے گی جس طرح اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں تعلیم دی ہے ۔ قربانی کا جانور وہی ہونا چاہئے جو منصوص ہے ، قربانی میں دوسرا جانور نہیں چلے گا حتی کہ جانور کے صفات بھی متعین ہیں اوراسی وقت قربانی کرنا جائز ہے جو شریعت کی طرف سے متعین ہے ، اپنی طرف سے آگے پیچھے بھی نہیں کرسکتے ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
    مَن صَلَّى صَلَاتَنَا، ونَسَكَ نُسُكَنَا، فقَدْ أصَابَ النُّسُكَ، ومَن نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فإنَّه قَبْلَ الصَّلَاةِ ولَا نُسُكَ له(صحيح البخاري:955)
    ترجمہ: جس شخص نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی اس کی قربانی صحیح ہوئی لیکن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کرے وہ نماز سے پہلے ہی گوشت کھاتا ہے مگر وہ قربانی نہیں۔
    اس حدیث نے بالکل واضح کردیا کہ قربانی اسی صورت میں پیش کی جائے گی اور اللہ کے یہاں مقبول ہوگی جو رسول اللہ کی سنت کے مطابق ہوگی ، ورنہ وہ قربانی نہیں جانور کا گوشت ہے جیساکہ ایک صحابی نے نمازعید سے پہلے قربانی کرلی تو آ پ نے کہا :" شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ" کہ تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی ۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ قربانی میں جب معمولی وقت کی تقدیم وتاخیر نہیں کرسکتے ہیں تو اس کی قیمت ادا کرنا قربانی کیسے کہلائے گی ؟ کورونا وائرس جیسے محتاجگی کے وقت بھی قربانی کی قیمت ادا کرنا قربانی نہیں ہوگی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی تنگی کا موقع آیا لیکن آپ نے قربانی کے موقع پر اس کی قیمت صدقہ کرنے کو نہیں کہا ، صحیح بخاری کی اس حدیث سے اندازہ لگائیں ۔
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    مَن ضَحَّى مِنكُم فلا يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثالِثَةٍ وبَقِيَ في بَيْتِهِ منه شيءٌ فَلَمَّا كانَ العامُ المُقْبِلُ، قالوا: يا رَسولَ اللَّهِ، نَفْعَلُ كما فَعَلْنا عامَ الماضِي؟ قالَ: كُلُوا وأَطْعِمُوا وادَّخِرُوا، فإنَّ ذلكَ العامَ كانَ بالنَّاسِ جَهْدٌ، فأرَدْتُ أنْ تُعِينُوا فيها(صحيح البخاري:5569)
    ترجمہ:جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا(کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کرو۔ پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔

    خلاصہ کلام یہ ہے کہ قربانی میں جانور ذبح کرنا ہی مقصود ہے لہذا جن کو اللہ نے قربانی کی وسعت دی ہے وہ سنت کے مطابق جانور کی قربانی کریں ۔ جہاں تک کورونا وائرس کے مسائل کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں ۔

    *پہلےجو لوگ ایک فیملی کی طرف سے کئی کئی قربانی کرتے تھے وہ امسال پورے گھرانہ کی طرف سے ایک ہی جانور کی قربانی کریں، یہ سب کی طرف سے کفایت کرجائے گا اور بقیہ پیسوں کو محتاجوں پر صدقہ کردیں ۔ ایک جانور کی قربانی پورے گھرانہ کی طرف سے امسال کے لئے نہیں ہمیشہ کے لئے مشروع ہے۔

    *کچھ لوگ بڑے جانور میں کئی کئی حصے لیتے ہیں وہ امسال ایک ہی حصہ گھر کے سرپرست کی طرف سے لیں اور باقی پیسوں کو صدقہ کردیں ۔

    *میت کی طرف سے قربانی مشروع نہیں ہے پھر بھی بہت سے لوگ میت کی طرف سے قربانی کرتے ہیں ان لوگوں سے گزارش ہے کہ میت کی طرف سے مالی صدقہ کریں اور کورونا سے متاثر افراد کی مدد کریں ۔

    *اگر آپ قربانی کرکے اس کا سارا گوشت محتاجوں میں تقسیم کردیتے ہیں تو بھی آپ کی قربانی صحیح ہے حتی کہ آپ اپنی قربانی دوسرے محتاج کو دے سکتے ہیں یا دوسری جگہوں میں بھی بھیج سکتے ہیں تاکہ وہ آپ کی قربانی کے گوشت سے فائدہ اٹھا سکیں خصوصا جب آپ کے یہاں ذبح پر پابندی یا قانونی دشواری ہو۔

    *جو لوگ ہرسال قربانی کرتے تھے مگر امسال قربانی دینے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں انہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ، اللہ کا فضل عام ہے اور اس کے فضل سے کوئی محروم نہیں ہوسکتا۔ نیت کا پایا جانا حصول ثواب کے لئے کافی ہے جبکہ اس عمل کی استطاعت نہ ہو۔ ساتھ ہی جو لوگ ایک ذوالحجہ سے نماز عید تک اپنے بال وناخن نہ کاٹیں انہیں بھی قربانی کا اجر ملتا ہے ۔

    *وقتی محتاج اس محتاجگی کے دور میں قرض لیکر قربانی کرسکتے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ قرض کی ادائیگی آسان ہو۔

    *محتاجوں کی مدد کرنا ایک الگ چیز ہے اور قربانی کرنا ایک الگ چیز ہے۔ قربانی کے ذریعہ بھی ہم محتاجوں کی مد د کرسکتے ہیں جن کا ذکر اوپر کیا ہوں اور نفلی وواجبی صدقات کے ذریعہ بھی مدد کرسکتے ہیں لیکن تعاون کے لئے قربانی کی صورت بدل نہیں سکتے ہیں ۔

    اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اس عالمی وبا سے نجات دے،ہمارے رزق میں کشادگی اور برکت دے اورہرقسم کی عبادات کی ادائیگی میں ہمارے لئے آسانیاں پیدا فرمائے ۔ آمین
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
    • متفق متفق x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں