ابن تیمیہ کا خط اپنی ماں کے نام

ابوعکاشہ نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏فروری 24, 2021 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    ابن تیمیہ کا خط اپنی ماں کے نام

    شیخ الاسلام ابن تیمیہ کو اپنی ماں سے غیر معمولی محبت تھی، جیل سے نکلنے کے بعد جب انہوں نے مصر میں کچھ عرصہ تک کے لئے اقامت (رکنے) کا فیصلہ کیا، تو دل میں یہ بات کھٹکی کہ اس فیصلہ سے حرماں نصیب ماں کے بے قرار دل کو دکھ پہنچے گا، کیونکہ وہ اپنے بچہ کو دیکھنے اور اس سے ملنے کے لئے بیتاب ہو رہی ہوگی، چنانچہ انہوں نے والدہ محترمہ کو اس ارادہ کی اطلاع دی، اور ان سے اجازت طلب کی، اور یہ اثر انگیز خط اپنی ماں کو لکھا. (خط کا خلاصہ پیش خدمت ہے، اصل خط عربی میں ہے اس کو میں نے یہاں ٹانگ دیا ہے اس کو دیکھ لیں):
    1 - ابن تیمیہ کا خط اپنی ماں کے نام :
    "حمد وصلوۃ کے بعد واضح ہو کہ اس سرزمین میں ہمارا قیام فی الحال ضروری امور کے لئے ہے، اگر ان کی سرانجام دہی میں سستی کریں تو امور دینی ودنیوی میں اختلال کا اندیشہ ہے.
    خدا کی قسم آپ سے دوری ہمارے بس کی بات نہیں ہے، ہماری آرزو ہے کہ پرندے ہمیں اڑا کر آپ کے پاس پہنچا دیں، اگر آپ کو حقیقتِ حال کا علم ہوتا تو یقیناً آپ وہی راہ اختیار کرتیں جو ہم نے اختیار کر رکھی ہے.
    اللہ تعالیٰ نے ہم پر خیر ورحمت اور برکت وہدایت کے ایسے دروازے کھول دیئے جو ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھے، ورنہ یہ آپ کو کبھی خیال نہیں ہونا چاہیے کہ ہم دنیا کے کسی معاملے کو آپ کے قرب پر ترجیح دیتے ہیں.
    ہماری بہتری کے لئے دعا کی جائے، اللہ صاحبِ قدرت اور عالمِ غیب ہے، اور ہم محض بےبس ہیں.
    آنحضرت - صلی اللہ علیہ وسلم - نے فرمایا ہے کہ
    ‏"إنَّ مِن سعادةِ ابن آدم استخارة الله ورِضاهُ بما قضَى الله، وإنَّ مِن شَقاوَةِ ابن آدم تَرْك استخارةِ الله، وسَخَطه بما قضَى الله تعالى".
    "یعنی ابن آدم کی سعادت اللہ سے توفیق خیر طلب کرنے میں ہے جو کچھ پیش آئے، انسان اس پر راضی رہے، اور ابن آدم کی بدبختی یہ ہے کہ وہ خیر طلبی چھوڑ دے اور ناسازگار واقعات میں گھبرا اٹھے" .
    جس تاجر کو پردیس میں مال کے ضائع ہو جانے کا ڈر ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مال کو سنبھالنے تک ٹھہرے.
    جو مہم اس وقت درپیش ہے، اس کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں، بس سب سہارا اور آسرا اللہ تعالیٰ ہی کا ہے.
    والسلام علیکم ورحمۃ اللہ، تمام اہل بیت، ہمسایوں، بزرگوں اور دوستوں کو فرداً فرداً سلام ".
    2 - مکتوب بالا کے بعض اہم پہلو :
    أ - پہلی توجہ طلب عبارت :
    "من أحمد بن تيمية إلى الوالدة السعيدة، أقر الله عينها بنعمه، وأسبغ عليها جزيل كرمه، وجعلها من خيار إمائه وخدمه".
    "یعنی احمد بن تیمیہ کی طرف سے اپنی سراپا شفقت ومحبت ماں کے نام، اپنی نعمتوں سے اللہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رکھے، ان پر اپنی بیش از بیش رحمتیں نازل کرے، اور انہیں اپنی باندیوں میں شامل کرے".
    دنیا کی ہر ماں اس طرح کی بات سننے کے لئے ترستی ہے!
    ب - دوسری توجہ طلب عبارت :
    "کتابي إليكم عن نعم من الله عظيمة، ومنن كريمة، وآلاء جسيمة، نشكر الله عليها، ونسأله المزيد من فضله، ونعم الله كما جاءت في نموٍّ وازدياد، وأياديه جَلَّتْ عن التعداد" -
    "یعنی میں عریضہ آپ کی خدمت میں لکھ رہا ہوں، اور حالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے اوپر بڑی نعمتیں، بڑے انعامات اور بڑے عظیم الشان عطیے پاتا ہوں، جن پر اس کی بارگاہ میں شکر گزار اور مزید کا طلب گار ہوں، اللہ تعالیٰ کی نعمتیں روز افزوں، اور اس کے احسانات لاتعداد ہیں ".
    تذکروں کے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے یہ خط مصر کے قید خانے سے یا جیل سے نکلنے کے فوراً بعد لکھا ہے، اس کے باوجود ان کی زبان پر کوئی شکایت نہیں!.
    ج - تیسری توجہ طلب عبارت :
    "ولسنا والله مختارين للبعد عنكم، ولو حملتْنا الطيورُ لسرنا إليكم".
    "اللہ کی قسم! ہم اپنے اختیار اور خواہش سے یہاں ٹھہرے ہوئے نہیں ہیں اور ہم نے آپ سے دوری خود اختیار نہیں کی ہے (اپنے جذبہ اور شوق کا حال تو یہ ہے کہ ) جی چاہتا ہے کہ پر لگ جائیں اور ہم اڑ کر آپ کے پاس پہنچ جائیں".
    اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جیل سے نکلنے کے بعد امام موصوف نے مصر میں جو قیام کیا تھا وہ عارضی تھا ورنہ ان کا دل شام ہی میں اٹکا ہوا تھا، جو ان کا وطن تھا، اور جہاں ان کی ماں رہتی تھیں.
    د - چوتھی توجہ طلب عبارت :
    "ونحن في كل وقت مهتمون في السفر، مستخيرون الله، فلا يظن الظان أننا نؤثر على قربكم شيئا من أمور الدنيا قط، بل ولا نؤثر من أمور الدين ما يكون قربكم أرجح منه".
    "یعنی مجھے تو بس ایک ہی دھن ہے، یہ کہ اللہ سروسامانِ سفر مہیا کرے اور میں آپ کی خدمت میں پہنچوں، دنیا کی کوئی چیز میرے لیے ایسی نہیں ہے جو آپ کے قرب کی نعمت کے مقابلہ میں زیادہ ہو، بلکہ بعض دینی چیزیں (یعنی فرائض کے علاوہ) بھی آپ کے مقابلہ میں ترجیح نہیں رکھتیں ".
    ھ - پانچویں توجہ طلب عبارت :
    "ولكن ثَمّ أمور كبار نخاف الضرر الخاص والعام من إهمالها" - "کچھ ایسے اہم امور ہیں جنہیں یونہی چھوڑ کر چلے آنے میں خاص وعام کو ضرر پہنچ جانے کا اندیشہ ہے".
    ظاہر ہے یہ امور مہمہ، امور دین ہی ہو سکتے ہیں، ان کے ضرر کا عام پہلو عوام کی گمراہی تھا اور خاص پہلو یہ تھا کہ کوئی عالم ایسی بات مان لے جو دلیل وبرہان سے ثابت نہ ہوتی ہو، پھر ضررِ خاص کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ امام صاحب مصر میں جب تشریف لائے تو ان پر کئی طرح کے اتہام لگائے جا رہے تھے، پس انہیں حق تھا کہ ان اتہامات کو اپنے سے زائل کریں، اور مصر سے اس حال میں روانہ ہوں کہ اپنے آپ کو عوام وخواص کی نگاہ میں بری ثابت کر چکے ہوں.
    ز - چھٹی توجہ طلب چیز:
    ایک اور توجہ طلب امر اس خط میں یہ ہے کہ انہوں نے اس میں لفظ "اللہ" کا استعمال کثرت سے کیا ہے اور بار بار اس سے خیر کے لئے دعا کیا ہے، والله إني لأعجب من التعلّق الشديد هذا!.
    3 - مذکورہ خط پر بعض علما کے آرا :
    أ - مولانا غلام رسول مہر مرحوم نے کیا خوب لکھا ہے:

    "غور فرمائیے کہ اس مختصر مکتوب میں سیرت ابن تیمیہ کے مختلف پہلو کس طرح آشکارا ہیں والدہ ماجدہ سے انتہائی محبت ہے ان کے قرب وخدمت کے مقابلے میں دنیا کے بڑے سے بڑے کاموں کو چھوڑ دینے کا سچا ولولہ ہے، لیکن امور دینی کا سرانجام اس محبوب تریں خونی رشتے پر مقدم ہے پھر اس جہاد سے بوجہ احسن عہدہ بر آ ہونے کے باوجود اپنی قربانیوں کا احساس تک نہیں بلکہ ہر نتیجہ کو صرف اللہ کی رحمت کا کرشمہ قرار دیتے ہیں اور بار بار خیر کے لئے دعا کرتے ہیں".
    ب - مولانا علی میاں ندوی اس خط پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
    "یہ خط لطیف جذبات، پاک محبت، فرزندانہ سعادت مندی اور مردانہ حوصلہ مندی اور اولوالعزمی کا آئینہ ہے، اور بے ساختہ اور بے تکلف زبان میں لکھا گیا ہے".
    ج - ڈاکٹر ابوزہرہ نے لکھا ہے :
    "یہ ہے امام موصوف کا وہ مکتوب گرامی جس کا لفظ لفظ جہاں ایک طرف ماں سے بے پناہ محبت کا اظہار ہے، وہاں دوسری طرف فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے ایک خاص چیز ہے".

    بشکریہ:ابو تقي الدين رحيمي
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں