معافی اور درگزر!

سعیدہ شیخ نے 'مثالی معاشرہ' میں ‏ستمبر 3, 2022 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. سعیدہ شیخ

    سعیدہ شیخ محسن

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2018
    پیغامات:
    82
    اس دنیا میں کوئی بھی انسان کامل اور مکمل نہیں ہو سکتا۔ غلطی انسان سے ہی سرزد ہوجاتی ہے جو کہ اس کی سرگزشت میں شامل ہے۔ اسی لئے کبھی اپنے ساتھ یا لوگوں سے زیادتی کر جاتا ہے۔ اس لئے کہ انسان کا انسان سے رشتہ ناگزیر ہے۔ خاندانی تعلقات میں، شوہر، بیوی، بچوں اور والدین کو ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرنا پڑتا ہے یہاں تک کہ کام کی جگہ پر یا تعلیمی اداروں جیسے اسکول، کالج اور دوسری جگہوں پر جہاں تعلقات نا گزیر ہے۔ رشتے دو طرفہ ہوتے ہیں۔ ہم لوگوں یا دوستوں سے بچ سکتے ہیں لیکن رشتہ داروں سے ہم نہیں بچ سکتے، یہ اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ ہے کیونکہ ہم اپنے دوستوں کا انتخاب کر سکتے ہیں، لیکن ہم اپنے خاندان کا انتخاب نہیں کر سکتے۔ بہرحال کبھی کبھی، ہمیں کسی نہ کسی وجہ سے ایک دوسرے سے تکلیف اور دکھ پہنچتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم ناراض ہوں۔


    دراصل منفی جذبات کی چنگاری ہماری تخلیقی صلاحیتوں اور شخصیت کو متاثر کر سکتی ہے۔
    زندگی ہمیں کس بھی طرح لے جائے۔ ہمیں ہر وقت ہماری شخصیت کو اچھائی کی طرف لے جانا چاہئے ۔ لوگوں کو معافی کا رویہ اپنائیں رنجشوں اور تلخیوں کو چھوڑ دیں۔

    “لوگوں کو معاف کر دو۔ اس لیے نہیں کہ وہ آپ کی معافی کے مستحق ہیں بلکہ اس لیے کہ آپ امن کے مستحق ہیں”۔

    بہر حال، لوگوں کو معاف کرنا بہت ضروری ہے اور اس سے ہماری زندگیوں میں بہت فرق پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ آگ میں مزید ایندھن ڈالیں گے تو آگ خود بجھ نہیں پائے گی بلکہ شعلے پورے ماحول کو تباہ کر دیں گے۔ اسی طرح اگر ہم کسی سے زیادہ دیر تک دشمنی رکھیں تو اس سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ معافی ناراضگی یا غصے کی رہائی ہے۔ یاد رکھیں ! معافی کے معنی مفاہمت کے نہیں ہے۔ جو لوگ آپ کو ایذا پہنچاتے ہیں ایسے لوگوں سے دور رہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ کوشش کریں ان لوگوں کے ساتھ رہیں جو خدا ترس، مثبت سوچ اور خوش مزاج ہوں اور خود غرض، منفی، تنقیدی ذہن اور گھمنڈی لوگوں سے بچیں کیونکہ اس طرح کے لوگوں سے زیادہ تعلق ہماری ذہنیت کو متاثر کرے گی۔۔

    اگر ہم معافی کو اپنائیں گے تو ہی ہمیں ایک دوسرے سے شکایات اور مایوسی کم ہوگی۔ نفسیاتی ریسرچ بتاتی ہے کہ جو افراد معاف کرنے کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیتے ہیں وہ خوش و خرم رہتے ہیں۔ ان کے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے۔ وہ بلڈ پریشر، کولیسٹرول، امراض ِ قلب اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں، تو معاف کرنا خود کے لئے ہی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔جو آپ کے دماغ کو مثبت سوچ کی طرف لے جاتی ہے۔

    ہماری صحت اور روحانی بقا کے لیے معافی بہت ہی موثر ہتھیار ہے۔ جس سے ہماری جسمانی اور روحانی ترقی بحال رہتی ہے۔ جب ہم مثبت سوچ رکھتے ہیں تو آخرکار ہم سب کے ساتھ ایک صحت مند رشتہ استوار کرتے ہیں۔ معافی ہمارے دماغ اور دل کے لیے شفا بخش طاقت کے طور پر کام کرتی ہے۔

    رحمۃ للعالمینؐ کے ساتھ پیش آنے والے چند دل سوز حادثات پر نظر ڈالتے ہیں اور آپؐ کا ردعمل بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان حالات میں نبی کریمؐ نے کیسے صبر و تحمل کا اظہار فرمایا اور دشمنوں کو بھی اپنے مبارک سینے کے ساتھ لگایا۔ کیوں کہ اصل طاقت برداشت کرنے میں ہے انتقام لینے میں نہیں۔

    قاتلِ حضرتِ زینبؓ ،ہبار بن اسود

    رسول کریمؐ کی نورِ نظر، راحتِ قلب و جگر حضرت زینبؓ اونٹ پر سوار ہوکر مدینہ کی طرف ہجرت فرما رہی تھیں۔ راستے میں ہبار بن اسود نے حضرت زینبؓ پر نیزہ اس شدت سے مارا کہ وہ کجاوے سے گرگئیں، جس کی وجہ سے آپؓ کا حمل بھی ساقط ہوگیا اور اسی حادثے ہی کی وجہ سے آپؓ اﷲ کو پیاری ہوگئیں۔ جب مشفق والد مکرم محسنِ امتؐ تک یہ اندوہ ناک خبر پہنچی تو آپ انتہائی رنجیدہ ہوئے۔ اس کے بعد جب بھی حضرت زینبؓ کی یاد آتی، آپؐ کا رخِ انور سرخ ہوجاتا۔ لیکن جب قاتلِِ زینبؓ ہبار بن اسود نے اسلام قبول کرلیا اور آپؐ سے معافی مانگی تو آپؐ نے فراخ دلی سے اسے معاف فرما دیا۔

    قاتلِِ حضرت حمزہؓ ،وحشی بن حرب

    اسلامی تاریخ کا ایک بد ترین حادثہ سیدالشُہدا حضرت حمزہؓ کی شہادت ہے۔ وحشی بن حرب نے آپؐ کے سب سے چہیتے چچا حضرت حمزہؓ کو شہید کرڈالا تھا۔ یہی وحشی بن حرب جب مشرف بہ اسلام ہوئے تو وہ اپنے وحشیانہ عمل کی معافی کے لیے دربار نبوتؐ میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ مجھے معاف کردیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا، وحشی! پہلے بتاؤ! میرے چچا کو کس طرح تم نے شہید کیا تھا۔۔۔ ؟ جب وحشی نے واقعہ سنایا تو آپؐ کی آنکھیں نم اور چہرہ سرخ ہوگیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا، وحشی تمہارا قصور معاف ہے، لیکن تم میرے سامنے نہ آیا کرو، تمہیں دیکھ کر میرے پیارے چچا جان یاد آجاتے ہیں۔

    اہلِ طائف کی سنگ دلی

    طائف کی سنگلاخ زمین میں آپؐ دین اسلام کے پُھول کھلانے کے لیے تشریف لے گئے تو مشرکین و کفار نے آپؐ پر اتنے پتھر برسائے کہ نعلینِ مبارک خون سے تر بہ تر ہوگئے، آپؐ کے لیے چلنا دشوار ہو رہا تھا، بالاخر فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کی، یارسول اﷲ ﷺ! اگر حکم ہو تو ان دونوں پہاڑوں کو ملادوں اور ان ناہنجاروں کو صفحۂ ہستی سے مٹادوں۔ آپؐ نے فرمایا، مجھے امید ہے ان کی آئندہ نسلوں میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو خالص اﷲ کی عبادت کریں گے، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ (بخاری و مسلم)

    جادو کرنے والا اور زہر دینے والی

    لبید بن اعصم نے آپؐ پر جادو سے وار کیا۔ آپؐ کو اﷲ نے سب کچھ بتادیا، مگر آپؐ نے اس کی گرفت نہیں کی۔ اسی طرح خیبر میں ایک یہودن نے آپؐ کو زہر دے کر مارنے کی کوشش کی، مگر آپ نے اس سے انتقام نہیں لیا۔

    یومِ فتح مکہ اور درگزر کا بے مثال کارنامہ

    فتح مکہ کے دن وہ سارے مجرمین آپؐ کے سامنے سرنگوں ہیں جنہوں نے آپؐ کو، آپؐ کے اہل خانہ کو ، صحابہ کرامؓ کو اور کم زور مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھائے تھے۔ وہ ابوسفیان بھی ہے جس نے غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق کی لڑائیوں میں کفار و مشرکین کی قیادت کی تھی، اور نہ جانے آپؐ کو کتنی ہی مرتبہ تہہ تیغ کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی۔ آپؐ چاہتے تو ہر مجرم سے بدلہ لے سکتے تھے، اگر چاہتے تو مکہ کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہادیتے، مگر قربان جائیے کہ آپؐ نے فرمایا، جاؤ! آج تم سب آزاد ہو، آج کسی سے کسی طرح کا بدلہ نہیں لیا جائے گا، جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے گا آج اس کو بھی امن، جو ہتھیار ڈالے گا اس کو بھی امن اور جو دروازہ بند کر لے گا اس کو بھی امان ہے۔

    ان تمام واقعات و حادثات کو دیکھیں کہ آپؐ میں عفو و تحمل کی کتنی قوت تھی۔ ہمیں اللہ کی خاطر دوسروں کو معاف کرنے کی جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ وہ انسان زیادہ تکیف میں رہتا جو رنجش اور ناراضگی کو تھامے رہتا ہے۔ ہم بھی اکثر غلطیاں کرتے ہیں تو جب دوسرے کرتے ہیں تو رحم کیوں نہیں کرتے؟ معاف کرنے سے ہمارے دماغ اور روح کو سکون ملتا ہے، اور اللہ سے امید رکھے کہ اللہ بھی ہمارے غلط کاموں اور گناہوں کو معاف کر دے گا۔

    اللہ تعالٰی ہمیں شیطان کی اکساہٹ سے محفوظ رکھے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں