امتِ مسلمہ کے جملہ مسائل کی جڑ، حاکمیتِ شریعت قائم نہ ہونا

اسرار حسین الوھابی نے 'حالاتِ حاضرہ' میں ‏نومبر 7, 2022 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اسرار حسین الوھابی

    اسرار حسین الوھابی رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2020
    پیغامات:
    46
    امتِ مسلمہ کے جملہ مسائل کی جڑ، حاکمیتِ شریعت قائم نہ ہونا

    امت مسلمہ پر شب وروز ٹوٹنے والے مصائب و آلام اور پے در پے نازل ہونے والی مشکلات کے اسباب پر غور کرنے سے ہی وجہ سامنے آتی ہے کہ تمام مسلم علاقوں سے شریعت کی حکمرانی غائب ہو چکی ہے اور کفار کے افکار و قوانین اور ان کے سیاسی و معاشی نظام ہر سمت رائج ہیں۔

    امت مسلمہ اپنی عزیز اور کامل شریعت کو چھوڑ کر تجھی ہوئی نگاہوں سے کبھی مشرق کی طرف دیکھتی ہے اور کبھی مغرب کی کاسہ لیسی اختیار کرتی ہے، خود کو اقوام کفر کی تہذیب و ثقافت میں ڈھالنے کے لئے کوشاں اور ان کی پامال راہوں پر چلنے کے لئے بے تاب محسوس ہوتی ہے اور اپنے محور دین اسلام سے ہٹ جانے کے بعد اس خلا کو پر کرنے کے لئے سرابوں کے پیچھے سرپٹ دوڑتی نظر آتی ہے۔

    لیکن جوں جوں یہ سفر لمبا ہو رہا ہے توں توں پیاس بجھنے کے بجائے بڑھتی جارہی ہے، مسائل ہیں کہ حل ہونے کی بجائے مزید پھیل رہے ہیں، جاہلیت کی جڑیں مضبوط تر ہورہی ہیں اور اس راہ ضلالت پر اٹھنے والا ہر قدم اس امت کو حق سے دور اور گمراہی سے قریب تر کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

    اللہ کی نازل کردہ شریت سے پہلو تہی کرنے والے تمام افراد و اقوام کا یہی انجام ہوا کرتا ہے۔ حیرت و اضطراب، بدحالی وعذاب، مصائب و آلام، در بدری و خواری، تنگی و بدبختی، تکلیف و پریشانی... جہاں نگاہ اٹھائیں آپ کو ہی سب نظر آئے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

    وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ (طه: ۱۲۴)
    اور جس نے بھی میری یاد سے منہ پھیرا تو یقینا اس کی زندگی تنگ ہوگی اور روز قیامت ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔

    اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    أي : خالف أمري ، وما أنزلته على رسولي ، أعرض عنه وتناساه وأخذ من غيره هداه ( فإن له معيشة ضنكا ) أي : في الدنيا ، فلا طمأنينة له ، ولا انشراح لصدره ، بل صدره [ ضيق ] حرج لضلاله ، وإن تنعم ظاهره ، ولبس ما شاء وأكل ما شاء ، وسكن حيث شاء ، فإن قلبه ما لم يخلص إلى اليقين والهدى ، فهو في قلق وحيرة وشك ، فلا يزال في ريبة يتردد . فهذا من ضنك المعيشة.

    یعنی (اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ) جو شخص میرے حکم کی مخالفت کرے ، اس شریعت کو فراموش کرے جو میں نے اپنے رسول پر نازل کی ، اس سے منہ پھیرے، اسے بھلا دے اور اسے چھوڑ کر دوسرے طریقوں کو اپنا لے (تو اس کی زندگی تنگ ہو جاتی ہے).... اور زندگی تنگ ہو جانے کا معنی یہ ہے کہ اسے اطمینان قلب نصیب نہیں ہوتا اور اس کے دل میں کشادگی نہیں ہوتی بلکہ گمراہی میں گرفتار رہنے کی وجہ سے اس کا دل تنگ ہو جاتا ہے، گرچہ بظاہر وہ ناز و نعم میں رہے، جو چاہے پہنے، جو چاہے کھائے ، جہاں چاہے رہے مگر جب تک اس کا دل یقین و ہدایت کی منزل تک نہیں پہنچتا تب تک وہ حیرت و اضطراب تنگی و عذاب اور شکوک و شبہات میں پھنسا رہتا ہے۔ زندگی تنگ ہو جانے کا یہی مطلب ہے۔

    [تفسیر ابن کثیر ؛ سورة طه، آیة ۱۲۴]

    یہ بدحالی اور عذاب جس طرح انفرادی سطح پر حق سے منہ پھیرنے والوں کا مقدر ہوتا ہے، اسی طرح معاشروں اور حکومتوں کی سطح پر بھی اگر اسلامی شریعت سے اعراض و انحراف کیا جائے اور ہلاکت و بربادی اور اتباع نفس کی راہ اختیار کی جائے، تو اس کا نتیجہ بھی تنگی و عذاب اور ذلت و انحطاط کی صورت میں ہی ظاہر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب آپ آسمان و زمین کے خالق اور عالم الغيب جل جلالہ کی نازل کردہ شریعت کو چھوڑ کر لاعلم و جابل انسان کے بنائے ہوئے قوانین و نظام رائج کریں گے تو زمین میں فساد ہی برپا ہو گا۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں