عمرہ کا مسنون طریقہ اور اس کے مسائل

مقبول احمد سلفی نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏فروری 5, 2023 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    882
    عمرہ کا مسنون طریقہ اور اس کے مسائل
    تحریر: مقبول احمد سلفی
    جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ ، سعودی عرب

    عمرہ ایک عظیم اور بڑے اجر والی عبادت ہے جس کا کوئی وقت متعین نہیں ہے ، سا ل میں کسی بھی وقت ادا کرسکتے ہیں لہذا جس مرد یا عورت کو اللہ نے عمرہ کرنے کی طاقت و سہولت دی ہے اسے مکہ پہنچ کر عمرہ کی سعادت حاصل کرنا چاہئے ۔گوکہ عمرہ کے حکم کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ واجب کہ نہیں لیکن صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ حج کی طرح عمرہ بھی زندگی میں ایک بار استطاعت رکھنے والے مرد اور استطاعت رکھنے والی عورت پر واجب ہے۔
    عمرہ کا طریقہ بہت آسان ہے پھربھی لوگ جہالت کی وجہ سے عمرہ کی ادائیگی میں بہت غلطیاں کرتے ہیں اس لئے میں آسان طریقے سے عمرہ کا مسنون طریقہ بیان کرتا ہوں ساتھ ہی احکام ومسائل کے ساتھ عوام کی غلطیوں پر بھی تنبیہ کروں گا۔
    عمرہ کی ادائیگی میں محض چار کام ہیں ۔ پہلا کام میقات سے احرام باندھنا ، دوسرا کام مکہ پہنچ کر کعبہ کا سات چکر طواف کرنا (ساتھ میں دوگانہ نماز طواف پڑھنا)، تیسرا کام صفا ومروہ کی سات چکر سعی کرنا اور چوتھا و آخری کام سر کا بال کٹانا۔ ان چار کاموں کے احکام جاننے سے قبل عمرہ کے ارکان ، واجبات اور سنن کو جاننا ضروری ہے تاکہ اس بات کا یقین کیا جاسکے کہ آپ نے واقعی سنت کے مطابق عمرہ کیا ہے، اس میں نہ کوئی رکن چھوٹا، نہ کوئی واجب ترک کیا اورسنت چھوٹ جانے سے عمرہ کی صحت پر اثر نہیں پڑتا پھربھی سنت کو بغیرعذر کے نہیں چھوڑنا چاہئے۔

    عمرہ کے تین ارکان ہیں ۔
    (1)احرام باندھنا(2) طواف کرنا(3) سعی کرنا

    عمرہ کے دو واجبات ہیں ۔
    (1)میقات سے احرام باندھنا(اہل مکہ حدودحرم سے باہرنکل کراحرام باندھیں گے اور میقات کے اندر والے مثلا جدہ والے اپنی رہائش سے احرام باندھیں گے )
    (2)مردوں کے حق میں بال منڈوانا یا پورے سر سے بال چھوٹا کروانا اور عورتوں کے حق میں انگلی کے ایک پوربرابر بال کاٹنا۔

    عمرہ کی سنتیں متعدد ہیں ۔
    ارکان اور واجبات کے علاوہ جو بھی اعمال عمرہ ہیں وہ سنت میں داخل ہیں جیسے احرام کے وقت غسل کرنا(عورت و مرد سب کے لئے حتی کہ حائضہ و نفساء کے حق میں بھی)،جسم میں خوشبو لگانا، احرام کا لباس سفید پہننا(مردوں کے لئے)، احرام باندھ کر تلبیہ پکارنا، طواف میں اضطباع(دایاں کندھا کھلا) کرنا، طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل (تیزتیزچلنا) کرنا، رکن یمانی کا استلام کرنا، حجراسود کا بوسہ یا اشارہ یا استلام کرنا، سعی میں مردوں کا ہری بتی کے درمیان دوڑنا، دوران عمرہ طواف و سعی میں ذکر اور دعا میں مشغول رہنا بطور خاص رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان "ربناآتنا۔۔۔الخ "پڑھنا اور صفا و مروہ پر دعا کرنا۔وغیرہ

    ترک اعمال عمرہ سے متعلق احکام
    ٭اگر کسی نے عمرہ میں کوئی رکن چھوڑدیا تو اس کا عمرہ نہیں ہوگا۔
    ٭ اگر کسی نے عمرہ میں کوئی واجب چھوڑدیا تو دم دینے سے عمرہ صحیح ہوجائے گا۔
    ٭ اور کوئی کوئی سنت چھوٹ جائے تو عمرہ صحیح ہے پھربھی کوشش یہ ہو کہ مکمل سنت کے مطابق عمرہ کریں ۔

    ممنوعات احرام
    حالت احرام میں دس کام ممنوع ہیں جنہیں محظورات احرام کہاجاتاہے ۔ (1)بال کاٹنا(2)ناخن کاٹنا(3)مردکاسلاہواکپڑا پہننا (4)خوشبولگانا (5)مردکاسرڈھانپنا(6)عورت کے لئے دستانہ اور برقع ونقاب لگانا(منع ہے تاہم اجنبی مردوں سے دوپٹہ کے ذریعہ اپنے ہاتھ و چہرہ کا پردہ کرےگی)(7)بیوی کو شہوت سے چمٹنا(8)عقد نکاح کرنا(9) جماع کرنا(10) اور شکار کرنا۔

    ارتکاب ممنوعات کا حکم
    ایک سے لے کر سات ممنوعات کا حکم یہ ہے کہ جو لاعلمی (انجانے) میں ان سات ممنوعات میں سے کسی کا بھی ارتکاب کرلے تو اس پر کچھ بھی نہیں ہے لیکن اگر عمدا(جان بوجھ کر) کسی کا ارتکاب کیا توفدیہ دینا ہوگا۔فدیہ میں یا تو تین روزہ رکھنا ہے یا مکہ میں ایک ذبیحہ دینا ہے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔
    عقد نکاح میں کوئی فدیہ نہیں ہے لیکن دوران عمرہ یعنی احرام کی حالت میں جماع کرنے سے عمرہ فاسد ہوجاتا ہے، وہ فی الحال اپنا عمرہ مکمل کرے گا بعد میں اس عمرہ کی قضا کرے گا اور ایک بکری ذبح کرے گا۔شکار کرنے کی صورت میں اسی کے مثل جانور ذبح کرناہوگا۔

    مناسک عمرہ کا طریقہ
    اب آپ کے سامنے عمرہ کا طریقہ بیان کرتے ہیں ۔ آپ کو مختصرا یہ معلوم ہوگیا ہے کہ عمرہ چار کاموں پر مشتمل ہے احرام ، طواف ، سعی اور حلق یا قصر۔ ان چار کاموں کو یعنی عمرہ کے طریقہ کو تفصیلا نیچے بیان کیا جاتا ہے ۔

    عمرہ کا پہلا کام :میقات سے احرام باندھنا
    پہلے احرام سمجھ لیں پھر میقات سے احرام باندھنے کا طریقہ جانیں۔ احرام کہتے ہیں حج یا عمرہ کی نیت کرنا جیسے کوئی میقات پر غسل کرکے احرام کی چادر لگاکر اپنی زبان سے کہے "لبیک عمرۃ"۔ یہ الفاظ کہتے ہی احرام میں داخل ہوجائے گااور وہ محرم کہلائے گا اور احرام کی ممنوعات سے پرہیزکرے گا۔
    میقات سے احرام باندھنے کا طریقہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےدنیا بھر سے حج و عمرہ کے واسطے آنے والوں کے لئے مکہ کے چاروں طرف پانچ میقات متعین فرمائی ہے ، حج یا عمرہ کرنے والا ان میقات میں سے جو اس کے لئے قریب میقات ہے وہاں سے احرام باندھے گا۔ان پانچوں میقات کی تفصیل آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں ۔
    (1)یلملم: یہ انڈیا، پاکستان ، چین ، یمن اور ان لوگوں کے لئے ہے جو اس راستے سے گزرے ، یہ جدہ سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔
    (2)ذوالحلیفہ: یہ مدینہ سے تقریبا نو کلو میٹرکے قریب ہےاور یہ اہل مدینہ اور اس راستے سے گزرنے والوں کی میقات ہے ۔مدینہ سے مکہ کے لئے ٹرین بھی آتی ہے ، احرام باندھ کر ٹرین سے بھی مکہ آسکتے ہیں کیونکہ میقات قریب ہے۔
    (3)ذات عرق: یہ عراق اور اس جانب سے آنے والوں کی میقات ہے ۔
    (4)جحفہ(رابغ): یہ شام ، مصر اور دیار مغرب والوں کی میقات ہے ۔
    (5)قرن المنازل(السیل الکبیر):یہ طائف میں واقع ہے اور یہ اہل نجد اور اس جانب سے گزرنے والوں کی میقات ہے۔ طائف والے، قصیم کے علاقہ والے، ریاض والے ، دمام والے ، خبروالے ، جبیل والے، احساء اور قطیف والے سب یہیں سے احرام باندھیں گے ۔
    احرام باندھنے کا طریقہ : ان پانچ مواقیت میں سے جو آپ کی قریبی میقات ہے وہاں پہنچ کر غسل کریں ، اعضائے بدن پر خوشبولگائیں (احرام کی چادر پر نہیں) اور سفید و صاف ستھری دو بغیرسلی ہوئی چادر پہن لیں اور زبان سے کہیں "لبیک عمرۃ" ۔ اب آپ احرام میں داخل ہوگئے۔ عورتیں غسل کرکے اپنا لباس بدل لیں جو پہننا چاہیں تاہم دستانہ اور نقاب نہ استعمال کریں ، عبایا کے ساتھ ایک بڑی اوڑھنی استعمال کریں جس سے چہرہ اور ہاتھ بھی ڈھک سکیں اور پھر زبان سے کہیں "لبیک عمرۃ"۔اب آپ عورتیں بھی احرام میں داخل ہوگئیں۔
    جن کے لئے میقات پرغسل کرنا اور احرام کی چادرپہننا کسی سبب مشکل ہے وہ اپنے گھر سے غسل کرکے احرام کی چادر پہن کر میقات سے گزرتے وقت زبان سے نیت کرلیں یعنی لبیک عمرہ کہہ لیں، احرام میں داخل ہوجائں گے اور اسی طرح جو لوگ کسی دوسرے ملک یا دوسرے شہرسے بذریعہ فلائٹ (جہاز) عمرہ کے لئے آرہے ہیں وہ اپنے گھر میں ہی غسل کرکے احرام کی چادر لگالیں اور جب آپ کی فلائٹ(جہاز) میقات کے قریب آئے تو اپنی زبان سے "لبیک عمرۃ" کہیں ۔
    احرام سے قبل غیرضروری بالوں کی صفائی اور ناخن کاٹنا ضروری نہیں ہے ، ضرورت ہوتو ان کی صفائی کریں اور غسل کرنا بھی ضروری نہیں ہے مسنون ہے ، کوئی عذر ہو تو غسل چھوڑ سکتے ہیں ۔احرام کی کوئی مخصوص نماز نہیں ہے تاہم آپ نے غسل کیا ہے اوروضو بھی کیا ہے تو وضو کی دو رکعت سنت اسی جگہ اور اسی وقت اداکرلیں ۔
    احرام باندھ لینے کے بعد ممنوعات احرام سے بچتے رہیں گے اور میقات سے لے کر مکہ پہنچنے تک بلند آواز سے تلبیہ پکارتے رہیں گے ، عورتیں آہستہ تلبیہ پکاریں ۔ تلبیہ کے الفاظ اس طرح ہیں۔
    لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ(حاضر ہوں اے اللہ! حاضر ہوں میں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ حاضر ہوں، تمام حمد تیرے ہی لیے ہے اور تمام نعمتیں تیری ہی طرف سے ہیں، بادشاہت تیری ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں)
    عمرہ کا ارادہ کرنے والی کسی عورت کو میقات پر یا اس سے قبل حیض ونفاس آجائے تو وہ بھی غسل کرکے احرام باندھ سکتی ہے اور پاک ہونے تک احرام میں باقی رہے گی، جب پاک ہوجائے تو غسل کرکے عمرہ کرے گی ،اسے میقات پر جانے اور دوبارہ احرام باندھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے سے ہی احرام کی حالت میں ہے اور حالت حیض ونفاس میں ذکر ودعا ممنوع نہیں ہے لہذا تلبیہ پکارنے اور ذکر و دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
    جس مردیا عورت کو کسی قسم کا خدشہ اور ادائیگی عمرہ میں کوئی رکاوٹ محسوس ہو تو وہ احرام باندھتے وقت یہ شرط لگالے :"إِنْ حَبَسِنِيْ حَابِسٌ فَمَحَلِّيْ حَيْثُ حَبَسْتَنِيْ" (اگر مجھے کوئی روکنے والا روک دے تو میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہو گی جہاں تو مجھے روک دے گا) ۔ بعض عورتیں حیض روکنے کے لئے گولی کھاتی ہیں ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہتر ہے کہ مذکورہ شرط لگالےکیونکہ گولی کھانے سے بسا اوقات نقصان ہوتا ہے اور حیض میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔
    اس شرط کے لگانے کا فائدہ یہ ہوگا کہ احرام باندھنے کے بعد آگے عمرہ کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ آجائے گی تو عمرہ کرنے والے مرد یا عورت احرام کھول کر حلال ہوجائیں گے، اس پر نہ کوئی فدیہ ہوگا، نہ عمرہ مکمل کرنا ضروری ہوگا ، نہ عمرہ کی قضا کرنا ہوگا اور نہ ہی بال کٹانا ہوگا۔

    عمرہ کا دوسرا کام: بیت اللہ کا طواف کرنا
    راستہ بھر تلبیہ پکارتے احرام کی حالت میں ہم مکہ مکرمہ پہنچ گئے ، اب تلبیہ بند کردینا ہے اور بیت اللہ میں داخل ہوکر عمرہ کا دوسرا کام یعنی طواف کرنا شروع کردینا ہے ۔ اگر اس وقت کوئی فرض نماز ہورہی ہو تو آپ فرض نماز ادا کرلیں لیکن اگر نماز کا وقت نہ ہو یا نماز میں ابھی وقت ہو تو آپ فوراطواف شروع کردیں گے ۔
    یہاں یہ بات جان لیں کہ طواف کے لئے وضو ضروری ہے ، وضو ٹوٹ جائے تو پھر سے وضو کرنا ہوگا اور وضو کے بعد وہیں طواف شروع کریں جہاں سے چھوڑے تھے اور وضو سے پہلے والا چکر بھی شمار کریں گے۔
    طواف کا طریقہ کیا ہے ؟آپ اوپر والی چادر کو اضطباع کی شکل میں کرلیں یعنی دایاں کندھا کھول لیں اور چادر کے دائیں سرے کو دائیں ہاتھ کے بغل سے نکال کربائیں کندھے پر ڈال لیں ، اس طرح دایاں کندھا کھلا اور بایاں کندھا ڈھکا ہوگا۔ پھر حجر اسود کے پاس آجائیں اور یہاں سے طواف شروع کریں ۔ طواف شروع کرتے وقت حجراسود کی طرف دایاں ہاتھ اٹھا کر اشارہ کریں اور زبان سے ایک مرتبہ "بسم اللہ اللہ اکبر"کہیں۔عورتیں بھی اسی طرح حجراسود کے پاس دایاں ہاتھ اٹھاکر زبان سے آہستہ "بسم اللہ اللہ اکبر" کہیں ۔
    حجر اسود سے لے کے حجر اسود تک ایک چکر ہوتا ہے اور ہمیں اس طرح سات چکر پورا کرنا ہے ، ہرچکر میں حجراسود کے پاس دایاں ہاتھ اٹھاکر"بسم اللہ اللہ اکبر" کہنا ہے اور حجر اسود سے پہلے والا کونہ جسے رکن یمانی کہتے ہیں ، اس کو ہرچکر میں چھوسکیں(استلام کرسکیں) تو ٹھیک ہے اور نہ چھوسکیں تو کوئی بات نہیں ہے تاہم اس رکن یمانی سے لے کر حجراسود تک یہ دعا باربارپڑھیں:رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔(اے ہمارے رب ہمیں دنیا اورآخرت میں خیروبھلائي عطا فرما اورہمیں آگ کے عذاب سے نجات عطا فرما)
    بقیہ جگہوں پر کوئی بھی دعا، ذکر اور تلاوت کرتے رہیں اور یاد رہے کہ ہرچکر کی الگ الگ مخصوص دعا جو عوام میں مشہور ہے وہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔ نیز طواف وسعی کے دوران مسنون دعاؤں کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعا کرسکتے ہیں ۔
    سات چکر طواف مکمل کرنے کے بعد مقام ابراہیم کے پاس یا حرم شریف میں جہاں جگہ ملے وہاں طواف کی دوگانہ ادا کریں ۔ نماز شروع کرنے سے پہلے مردحضرات دایاں کندھا ڈھک لیں جو طواف میں کھول رکھے تھےکیونکہ کندھا ڈھکنا نماز کی شرائط میں سے ہے ‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کاندھے پر کچھ نہ ہو۔(صحيح مسلم:516)
    پھر دو رکعت اس طرح پڑھیں ، پہلی رکعت میں الحمد للہ کے بعد قل یاایھاالکافرون کی تلاوت کریں اور دوسری رکعت میں الحمدللہ کے بعد قل ھواللہ احد پڑھیں ۔

    عمرہ کا تیسرا کام: صفاو مروہ کی سعی کرنا
    طواف اور دورکعت نماز پڑھنے کے بعد صفا پہاڑ پر جائیں اور کعبہ کی طرف چہرہ کرکے پہلے یہ آیت تلاوت کریں:إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّهِ [البقرة:158].
    پھرتین مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر تین مرتبہ یہ دعا پڑھیں۔
    "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِي وَ یُمِیتُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیرٌ، لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ أنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہٗ"۔(اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبو نہیں وہ یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اقتدار اسی کا حق ہے، حمد و شکر کا وہی مستحق ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس نے تنہا تمام کافر گروہوں کو شکست دی)۔
    پھر ہاتھ اٹھا کر جو چاہیں اللہ سے دعا کریں ، دعا میں کعبہ کی طرف ہی چہرہ رکھیں ۔
    صفا سے اتر کر مروہ کی طرف عمومی چال میں چلیں اور چپ نہ رہیں طواف کی طرح یہاں بھی ذکر و دعا اور تلاوت وغیرہ پڑھتے رہیں ، ہری بتی کے درمیان مردوں کو چاہئے کہ وہ دوڑ لگائیں اور ہر چکر میں لگائیں لیکن عورتیں عام چال چلیں اور بوڑھا،بیمار، کمزور یامعذور جو دوڑ نہ سکے وہ بھی عام چل چلے۔
    مردہ پر پہنچ کر قبلہ رخ ہوکر وہی مذکورہ دعا (لاالہ الااللہ وحدہ ۔۔۔۔۔الخ)تین بار پڑھیں اور پھر ہاتھ اٹھاکر جو چاہیں دعا کریں ۔صفا سے مروہ ایک چکر اور مروہ سے صفا دوسرا چکر ہوتاہے ، اس طرح سات چکر پورے کرنے ہیں۔
    سعی کے سات چکروں کی الگ الگ مخصوص دعا نہیں ہے ، صفا اور مروہ پر وہی دعا ہے جو اوپر بتایا ہوں جسے چھ چکر تک پڑھنا ہے، صفا و مروہ کے درمیان کوئی دعا اور کوئی بھی ذکر کرسکتے ہیں ، لوگوں میں مشہور ہے کہ سعی کےساتویں چکر میں مردہ پر دعا نہیں کریں گے(یہ شیخ ابن عثیمین ؒ کی رائے ہے)، اس کی کوئی خاص دلیل نہیں ہےاس لئے ساتویں چکر میں بھی دعا کی جائے ۔ سعی کے لئے وضو شرط نہیں ہے ، اگر دسعی کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو سعی مکمل کرسکتے ہیں ۔
    دوسری بات یہ ہے کہ سعی میں اگر آپ تھکان محسوس کرتے ہیں اور کچھ دیربیٹھ کر آرام کرنا چاہتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے ، کچھ دیر بیٹھ کر آرام کرلیں ، زمزم پی کرمزید تازہ دم ہوجائیں اور وہیں سعی مکمل کریں ۔

    عمرہ کا چوتھا اور آخری کام: حلق یا قصر کروانا
    جب آپ صفاو مروہ کی سعی کرلیتے ہیں تو اب آپ کے ذمہ آخری کام اپنے سر کو منڈانا یا کٹانا رہ جاتا ہے یعنی چاہے تو آپ بال منڈوالیں یا پورے سر سے بال چھوٹا کروالیں ۔ عورتیں انگلی کے ایک پور کے برابر سر کا بال جمع کرکے اس میں سے کاٹ لیں ، وہ خود سے بھی اپنا بال کاٹ سکتی ہیں اور دوسرے کا بھی کاٹ سکتی ہیں ، عورت نے اپنا بال کاٹنے سے پہلے دوسری عورت کا بال کاٹ دیا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح بال کٹانے کے بعد عمرہ مکمل ہوگیا ۔ اب احرام کی چادر اتار دیں اور جو پابندی احرام کی وجہ سے تھی وہ سب ختم ہوگئیں ۔ سعودی عرب میں رہنے والا اگر کسی وجہ سے مکہ میں بال نہ کٹاسکے تو راستے میں یا اپنے شہر میں جاکر بال کٹاسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اسے احرام میں باقی رہنا ہوگا، جب اپنا بال کٹالیں پھر احرام کھول لیں ۔

    عمرہ سے متعلق مزید چند مسائل وتنبیہات
    (1) عمرہ کرنے والوں میں ایک ٹرینڈ چلنے لگاہے باربار عمرہ کرنے کا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وطن واپس ہونے پر فخریہ بیان کیاجاتا ہے کہ میں نے اتنا عمرہ کیا؟ یاد رہے ، ایک سفر میں ایک عمرہ کافی ہے ، یہی نبی ﷺ اور آپ کے پیارے اصحاب کاطریقہ رہا ہے ۔ آپ ﷺ فتح مکہ کے موقع پر انیس دن مکہ میں ٹھہرے ، آپ نے باربار عمر ہ نہیں کیا، اسی طرح عمرۃ القضا کے موقع سے تین دن مکہ میں ٹھہرے آپ نے روزانہ یا ایک دن میں کئی کئی عمرے نہیں کئے ۔کوئی مکہ میں ہفتہ دس دن یا کچھ دن ٹھہرکر مدینہ چلاگیا ، وہاں سےپھر مکہ آرہاہے تو یہ ایک دوسرا سفر شمارہوگا، اس دوسرے سفر میں میقات سے دوسرے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کرسکتا ہے۔

    (2) میت کی طرف سے عمرہ کرنا جائز ہے اور میت کی طرف سے عمرہ کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنا عمرہ کرچکا ہو۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے ملک سےآیا ہے اس نے اپنا عمرہ کرلیا ہے اور دوبارہ اسےمکہ آنے کی امید نہیں ہے اور اگر اپنے وفات یافتہ والد یا والدہ کی طرف سے عمرہ کرنا چاہے تو اسی سفر میں وفات یافتہ والد یا وفات یافتہ والدہ کی طرف سے عمرہ کرسکتا ہے لیکن دوبارہ آنے کی امید یا استطاعت ہو تو وہ اس سفر سے لوٹ کر پھر کبھی وفات یافتہ والد یا وفات یافتہ والدہ کی طرف سےمکہ کا سفر کرے اور میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کرے ۔بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ چند دنوں کے فرق کے ساتھ ایک سفر میں ایک سے زائد عمرہ کرسکتے ہیں مگر جلدی جلدی اورباربار عمرہ کرنا بہرحال غلط اور سنت کی خلاف ورزی ہے۔ایک سفر میں دوسرا عمرہ کرتے وقت مکہ میں مقیم آفاقی شخص حل جاکر یعنی حدود حرم سے باہر جاکر مثلا مسجد عائشہ سے احرام باندھے گا ۔میت سے متعلق عمرہ کی مزید تفصیل جاننے کے لئے میرے بلاگ پر مضمون"میت کی طرف سے عمرہ کا حکم" مطالعہ کریں۔

    (3)مقروض شخص کے عمرہ کی تین شکلیں بنتی ہیں ۔پہلی شکل تو یہ ہے کہ وہ مقروض ہے اور اپنے پیسے سے عمرہ کررہا ہے تو ایسی صورت میں قرض دینے والا مہلت دے رہا ہوتو عمرہ کرنے میں حرج نہیں ہے لیکن قرض دینے والا قرض کا مطالبہ کررہا ہومگر اسے قرض نہ دے کر عمرہ کرنا چاہتا ہو تو اس کا یہ عمرہ کرنا صحیح نہیں ہے وہ پہلے قرض ادا کرے ۔ دوسری شکل یہ ہے کہ مقروض شخص کو دوسرا آدمی اپنے پیسے سے عمرہ کرارہاہو تو ایسا عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ تیسری شکل یہ ہے کہ عمرہ کرنے کے لئے پیسہ نہ ہو وہ کسی سے قرض لے کر عمرہ کرنا چاہتا ہو تو دیکھا جائے گا کہ وہ قرض ادا کرنے کی حیثیت رکھتا ہے یا نہیں ؟ اگر بآسانی قرض ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو قرض لے کر عمرہ کرسکتا ہے لیکن قرض ادا کرنادشوار و مشکل ہو تو قرض لے کر عمرہ نہ کرے ، جب استطاعت ہوجائے تب عمرہ کرے ۔

    (4) بچہ بھی عمرہ کرسکتا ہے، اس کواس عمرہ کا اجر ملے گا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ بچے کو غسل کراکراحرام کا لباس لگادیں اور میقات پر جیسے سب عمرہ کی نیت کرتے ہیں بچے کو بھی نیت کے الفاظ کہنے کو کہیں بطور خاص بچے کا سرپرست بچہ کی طرف سے احرام کی نیت کرلے اور اس کو ممنوعات احرام سے بچائے ، غلطی سے کسی مانع کاارتکاب کرلے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ مکہ پہنچ کر سرپرست طواف وسعی میں ساتھ رکھےیعنی اپنے طواف و سعی کے ساتھ اس کو بھی طواف وسعی کروائے ، پھر اس کابال کاٹ دے ،بچے کا عمرہ ہوگیا۔

    (5)کوئی شخص کسی کام و ضرورت سے مکہ آیا اور یہاں آکر اسے عمرہ کرنے کی خواہش ہوئی تو وہ حدود حرم سے باہر جاکر مثلا مسجد عائشہ جاکر وہاں سےاحرام باندھ کر عمرہ کرسکتا ہے ۔ اور اگر کوئی جدہ کسی غرض سے آئے یہاں آنے کے بعد عمرہ کا ارادہ ہوجائے تو اپنی رہائش سے ہی احرام باندھ کر عمرہ کرسکتا ہے ۔

    (6)انڈیا ، پاکستان ، نیپال اور کسی دوسرے ملک سے عمرہ کے ارادے سے جدہ آنے والے اور اسی طرح سعودی عرب کے کسی دوسرے شہر سے عمرہ کا ارادہ کرکے جدہ آنے والے، اگر جدہ آکر احرام باندھتے ہیں تو بغیر احرام کے میقات تجاوز کرنے کی وجہ سے دم دینا پڑے گا اس لئے اس بات کا خیال رکھیں اور اپنی میقات پر ہی احرام باندھ لیں یعنی عمرہ کی نیت کرلیں ۔

    (7) کسی دوسرے ملک یا شہر سے احرام باندھ کر مکہ یا جدہ آنے والے تھکے ہوں اورہوٹل میں آرام کرنا چاہتے ہوں یا سونا چاہتے ہوں تو احرام میں رہتے ہوئے آپ آرام کرسکتے ہیں یا سو سکتے ہیں ، نہانا چاہیں نہاسکتے ہیں ، احرام کا کپڑا دھونا یا بدلنا چاہیں تو دھو اور بدل سکتے ہیں اور جب تازہ دم ہوجائیں تو حرم جاکر عمرہ کرلیں۔یاد رہے محرم مرد کوسوتے جاگتے کسی وقت سر نہیں ڈھکنا ہے ، غلطی سے سرڈھک جائے تو یاد آتے ہی کھول لیں ۔ غسل میں عورت ومرد دونوں کو خوشبووالے صابن وشیمپوسے بچنا ہے اور بال نہ ٹوٹے اس کا بھی خیال کرنا ہے۔ آپ خود بال گرجائے یا ناخن ٹوٹ جائے تو کوئی حرج نہیں ہےاور بدن میں کہیں سےخون نکل آئے تو اس سے نہ وضو ٹوٹے گا اور نہ اس سے کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔

    (8)لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کہ حائضہ و نفساء احرام نہیں باندھ سکتی ہے ، سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ذوالحلیفہ کی میقات پرتوالد کی وجہ سے نفاس میں تھیں تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا: غسل کرو، لنگوٹ باندھ لو اور احرام کی نیت کرلو(مسلم:1218) اس لئے حالت حیض و نفاس میں عورت احرام باندھ سکتی ہے ، تفصیل کے لئے میرا مضمون"حیض والی عورت کاعمرہ" میرے بلاگ پر پڑھیں ۔

    (9) عوام الناس میں خصوصا عورتوں میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ حج و عمرہ میں عورتوں کے لئے چہرے کا پردہ نہیں ہے، یہ غلط بات ہے ، صحیح بات یہ ہے عورتوں کے لئے چہرے کا پردہ جیسے حج وعمرہ سے پہلے تھاویسےہی حج وعمرہ کے دوران بھی ہے اور حج وعمرہ کے بعد بھی رہے گا، کبھی بھی عورت کے لئے چہرے کا پردہ منع نہیں ہے ، صحابیات احرام کی حالت میں چہرے کا پردہ کیا کرتی تھیں۔ شیخ البانی نے ارواء الغلیل میں ایک اثر ذکر کیا ہے اور اس کی سند کوصحیح کہا ہے۔
    عن فاطمةَ بنتِ المنذرِ أنها قالت كنا نُخمِّرُ وجوهَنا ونحن مُحرماتٌ ونحن مع أسماءَ بنتِ أبِي بكرٍ الصدِّيقِ۔(إرواء الغليل: 4/212)
    ترجمہ: فاطمہ بنت منذر سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم عورتیں احرام کی حالت میں اپنے چہروں کا پردہ کیا کرتی تھیں اور ہم اسماء بنت ابی بکر کے ساتھ ہوتی تھیں۔
    احرام میں عورتوں کے لئے نقاب و برقع منع ہےاس کا یہ مطلب نہیں کہ چہرہ نہیں ڈھکنا ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ نقاب کے علاوہ دوسرا کپڑا مثلا دوپٹہ سے چہرہ ڈھکنا ہے۔

    (10) یہ ضروری نہیں ہے کہ عمرہ کرتے وقت کوئی محرم اس کے ساتھ ہو لیکن یہ ضروری ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرنے کے لئے آتے اور آجاتے دونوں طرف کوئی محرم ساتھ ہو۔جس عورت نے بغیر محرم کے سفر کرکے عمرہ کرلیا تو عمرہ اپنی جگہ صحیح ہے لیکن بغیر محرم کے سفر کرنے کی وجہ سے وہ گنہگار ہوگی اس کے لئے اسے توبہ کرنا چاہئے اور محرم کے ساتھ ہی عمرہ کا سفر کرنا چاہئے۔

    (11)احرام کی حالت میں عورت کے لئے کان ، ناک ، گلا اور ہاتھ وپیر کی زینت کو پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے ، لباس میں برقع و نقاب اور دستانہ پہننا منع ہے تاہم پیر میں موزہ اور جوتا پہننے میں حرج نہیں ہے ۔ مردوں کے لئے انگوٹھی، گھڑی اورعینک لگانے میں حرج نہیں ہے لیکن چڈی، بنیان، موزہ اور جوتا نہیں پہننا ہے البتہ بیماری کی وجہ سے گھٹنے میں پیڈ لگا ہو یا جسم میں کہیں پٹی وغیرہ ہو تو عذر کی وجہ سے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔

    (12) لوگوں میں جو یہ خیال مشہور ہے کہ میت کی طرف سے عمرہ ہوتا ہے اور زندہ کی طرف سے طواف ہوتا ہے غلط ہے ۔ میت کی طرف سے عمرہ والی بات صحیح ہے مگر زندوں کی طرف سے طواف والی بات غلط ہے ۔ زندہ بدنی طوپرعاجز شخص (جس کی شفایابی کی امید نہ ہو)کی طرف سے عمرہ کرسکتے ہیں مگر تندرست شخص کی طرف سے نہ طواف کرسکتے ہیں اور نہ ہی عمرہ ۔

    (13) بعض لوگ حجر اسود کے پاس دونوں ہاتھ اٹھاتے ہیں اور بعض لوگ بار بار ہاتھ اٹھاتے ہیں پھر ہاتھوں کو چومتے ہیں ، یہ عمل صحیح نہیں ہے، صحیح عمل یہ ہے کہ حجراسود کے پاس، اس کی طرف اشارہ کرکے صرف دائیں ہاتھ اٹھاکربسم اللہ اللہ اکبر کہیں گے اور ہاتھ کو نہیں چومیں گے ۔حجراسود کا بوسہ لینا ہےیا استلام (چھونا)کرنا ہے یا پھراشارہ کرناہےیعنی ان تین میں سے کوئی ایک عمل کرنا ہے جبکہ آج کل عموما اشارہ ہی ممکن ہے اس لئے میں نے اشارہ کا ہی ذکر کیا ہے۔

    (14) برکت اور شفا کی نیت سے مقام ابراہیم ، غلاف یا دیوار کعبہ چھونا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ نے اس کی تعلیم نہیں دی ہے ۔

    (15) لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے وقت جو دعا کی جاتی ہے وہ قبول ہوتی ہے ، اور پہلی نظر کی دعا بھی بیان کی جاتی ہے :" اللهم زد هذا البيت تشريفاً وتكريماً وتعظيماً ومهابة، وزد من شرفه وكرمه ممن حجه أو اعتمره تشريفاً وتكريماً وتعظيماً وبراً" آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ لوگوں کا مذکورہ اعتقاد بھی غلط ہے اور یہ دعا بھی ضعیف ہے اس لئے اس غلط اعتقاد کا خاتمہ کیجئے ۔اور یہ عقیدہ بنائیے کہ حج وعمرہ کرنے والا اللہ کا مہمان ہے، اس کی ہردعا قبول ہوتی ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے : الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللَّهِ، دَعَاهُمْ فَأَجَابُوهُ، وَسَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ(صحيح ابن ماجه:2357)
    ترجمہ:اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بلایا تو انہوں نے حاضری دی، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تو اس نے انہیں عطا کیا۔

    (16) لوگ غلاف کعبہ پکڑ کر اور اس کا واسطہ دے کر دعا کرنا افضل سمجھتے ہیں ، یہ صحیح عمل نہیں ہے تاہم ملتزم(کعبہ کے دروازہ اور حجر اسود کی درمیانی جگہ) میں دعا کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ۔ اس جگہ پہ نبی ﷺ سے دعا کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے البتہ بعض صحابہ کرام مثلا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ وغیرہماسے ثابت ہے ۔اس لئے اگر کوئی ملتزم میں دعا کرنا چاہے تو کرسکتا ہے اور یہاں دعا کرنے کے لئے کوئی خاص وقت نہیں ہے ، آپ طواف کے شروع میں یا آخر میں جب سہولت ہو دعا کرلیں اور اس جگہ کی کوئی مخصوص دعا بھی نہیں ہے۔

    (17) بسا اوقات طواف کرتے وقت شک ہوجاتا ہے کہ کتنا چکر ہوا، ایسے میں جس چکر میں شک ہواس کو شمار نہ کریں ، اس سے کم کو بنیاد بناکر طواف مکمل کریں مثلا کسی کو شک ہوا کہ تین چکر ہوا یا چار تو چار کو شمار نہ کرے ، تین کو بنیاد بنائےاور بقیہ چکر پورا کرے ۔

    (18) یہ تو آپ جان چکے ہیں کہ طواف یا سعی میں ہرچکر کی الگ الگ مخصوص دعا ثابت نہیں ہے ، اسی طرح یہ بھی جان لیں کہ بعض لوگ نماز کی طرح طواف اور سعی کی بدعتی نیت کرتےہیں ۔طواف کی نیت کرتے ہوئے کہتے ہیں :(اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اُرِيْدَ طَوَافَ بَيْتِکَ الْحَرَامِ فَيَسِّرْهُ لِیْ وَتَقَبَّلْهُ مِنِّیْ سَبْعَة اَشْوَاطٍ ِﷲ تَعَالٰی عزّوجل)اور سعی کی نیت کرتے ہوئے کہتے ہیں:(اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اُرِيْدُ السَّعْیَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْ وَة سَبْعَة اَشْوَاطِ لِّوَجْهِکَ الْکَرِيْمِ فَيَسّرْهُ لِیْ وَتَقَبَّلْهُ مِنِّیْ)
    طواف و سعی کے لئے ایسی نیت کرنا حدیث سے ثابت نہیں ہے ، یہ بدعتی عمل ہے اس سے باز رہا جائے۔

    (19) اضطباع صرف طواف میں ہے اس لئے سعی کرتے وقت اضطباع نہیں کرنا ہے لیکن بہت سارے لوگوں کو سعی میں بھی اضطباع کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے ، ہوسکے تو آپ ایسے لوگوں کو صحیح بات بتائیں ۔

    (20) طاقت رکھنے والوں کو چاہئے کہ اپنے قدموں سے چل کر عمرہ کے ارکان وواجبات پورا کریں لیکن اگر عذر کی وجہ سے ویل چیئر(سواری) پر طواف یا سعی کرنے کی ضرورت ہو تو آپ سواری کا استعمال کرسکتے ہیں ۔

    (21)عمرہ میں بال کے تعلق سے لوگوں میں مختلف قسم کی غلطیاں پائی جاتی ہیں ۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ کتنے سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمرہ میں بال کٹاےیا نہ کٹائے کوئی مسئلہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد جن میں عورتیں بھی ہیں عمرہ کے سارے کام کرکے بال کٹائے بغیر احرام کھول دیتے ہیں اور واپس آجاتے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہت سارے لوگ عمرہ میں بال کٹاتے وقت سر میں کہیں کہیں سے چند بال کاٹ کر احرام کھول لیتے ہیں ۔تیسری بات یہ ہے کہ لوگوں میں یہ خیال بھی عام ہے کہ پہلی بار عمرہ کرنے پر بال منڈوانا ضروری ہے اور اس کے بعدبال منڈوانا ضروری نہیں ہے ۔
    انہی باتوں کی وجہ سے شروع میں عمرہ کے ارکان، واجبات اور سنن کا ذکر کیا ہوں تاکہ آپ کے لئے عمرہ کے مسائل سمجھنا آسان ر ہے ۔ عمرہ میں حلق(بال منڈوانا) یا قصر (چھوٹاکرنا)کروانا واجب ہے ، جو اس واجب کو ترک کرتا ہے تو اس کے ذمہ مکہ میں ایک بکری ذبح کرنا واجب ہے ۔جو لوگ کہیں کہیں سے سر سے چند بال کاٹ لیتے ہیں اس نے بھی ایک واجب ترک کیا اور جس نے بال کٹایا ہی نہیں وہ تو واجب کا تارک ہے ہی ، ان دونوں آدمیوں کے ذمہ دم دینا ہے ۔اگر کوئی غلطی سے بال کٹانے سے پہلے ہی احرام کا لباس اتاردے پھر کچھ دیر بعد یاد آئے کہ غلطی ہوگئی تو وہ دوبارہ احرام کا لباس لگالے اور پھر بال کٹائے اس میں کوئی دم یا فدیہ نہیں ہے ۔
    عمرہ پہلا ہو یا دوسرا تیسرا بال منڈوانا افضل ہے لیکن آپ بال کٹاتے ہیں تو یہ عمل بھی جائز ہے، اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے تاہم اس بات کا خیال رکھیں کہ پورے سر سے بال چھوٹا کرناہے ، کہیں کہیں سے نہیں ۔ اسی طرح عورتیں بھی پورے سر کے بال کو ایک جگہ جمع کرے اس میں سے انگلی کے ایک پور کے برابر بال کاٹ لے ۔

    (22)عمرہ کے چار کام ہیں ، ان کو مکمل طورپر انجام دینے کے بعد آپ کا عمرہ پورا ہوجاتا ہے لیکن بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ عمرہ کرکے مدینہ نہیں گئے تو عمرہ نہیں ہوگا۔ یہ خیال غلط ہے، عمرہ کا مدینہ جانے سے تعلق نہیں ہے ، عمرہ ایک الگ عبادت ہے اور مسجد نبوی کی زیارت ایک الگ عمل ہے ۔ آپ نے عمرہ کا کام مکمل کرلیا ہے تو آپ کا عمرہ ہوگیا ، مدینہ جانا آپ کے لئے ضروری نہیں ہے ۔ہاں آپ مسجد نبوی کی زیارت کرنا چاہتے ہیں تو یہ بھی نیکی کاکام ہے مگر اس کا عمرہ سے تعلق نہیں ہے۔

    (23) عمرہ کرنے کے بعد آپ کے پاس مزید ایام ہیں جو مکہ میں گزارناچاہتے ہیں تو ان ایام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پنچ وقتہ نمازیں حرم میں پڑھیں، وہاں تلاوت، ذکرودعا کا کثرت سے اہتمام کریں اور نفلی طواف(مع دوگانہ) ادا کریں ۔ بعض لوگ اپنے ہوٹل میں رہتے ہوئے امام حرم کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں ،یہ صحیح نہیں ہے ۔ کسی بھی مسجد کے امام کی اقتداء مسجد میں کی جائے گی اس طرح کہ صفیں امام سے متصل ہوں ، مسجد سے باہر اپنے گھروں میں امام کی اقتداء صحیح نہیں ہے ۔

    (24) حدود حرم میں جتنی مساجد ہیں ان میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نماز کے برابر ہے حتی کہ عورتیں حدود حرم میں اپنی رہائش پر بھی نماز پڑھیں گی تو ایک لاکھ اجر ملے گا لیکن یاد رہے کہ بیت اللہ میں جاکر امام حرم کے پیچھے نماز پڑھنا افضل ہے۔

    (25) اگر کوئی کسی جگہ کا سفر کرے اور وہاں چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تووہ اس جگہ پہنچ کر اول دن سے مقیم کے حکم میں ہے ، وہ مکمل نماز پڑھے گا لیکن اگر چار دن یا اس سے کم کسی جگہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو وہ مسافر کے حکم میں ہے ، اپنی نماز قصر کے ساتھ ادا کرے گااور مسافر اگر مقیم کی اقتداء میں نماز پڑھے گا تو مقیم کی طرح مکمل نماز پڑھے گا۔

    (26) بعض لوگ جب مکہ سے واپس جاتے ہیں تو کفن کو زمزم سے دھوکر لے جاتے ہیں ، یہ بدعتی عمل ہےاور اس سے میت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ میت کواس کا اپنا عمل فائدہ پہنچائے گالہذا کسی مسلمان بھائی یا بہن کو زمزم سے کفن دھوکر نہیں لے جانا چاہئے ، اگر کسی کو ایسا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اسے منع کریں ۔

    (27) جب آپ اپنے ساتھ زمزم کا پانی لے جاتے ہیں تو غیرمسلم بھی مانگنے آتے ہیں، آپ غیرمسلم کو زمزم کا پانی دے سکتے ہیں ، زمزم کم ہو تو اس میں عام پانی ملاکر لوگوں کو دے سکتے ہیں اور کسی مریض کو شفایابی کے لئے پلاسکتے ہیں ۔ زمزم بھی ایک قسم کا پانی ہے اسے بیٹھ کر پئیں ، اس کی کوئی مخصوص دعا ثابت نہیں ہے اور جو دعا عوام میں مشہور ہے(اللَّهمَّ إنِّي أسألُكَ عِلمًا نافعًا ورزقًا واسعًا وشفاءً من كلِّ داءٍ) یہ ضعیف ہے ۔

    (28) بعض لوگ رجب میں عمرہ کرنے کو افضل سمجھتے ہیں ، یہ لوگوں کی جہالت ہے اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے ، آپ کبھی بھی عمرہ کرسکتے ہیں ، رجب کی تخصیص صحیح نہیں ہے البتہ رمضان المبارک میں عمرہ کرنا افضل ہے(رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرنے جیسا اجر ہے)اس لئے موقع ملے تو رمضان میں عمرہ کریں ورنہ کبھی بھی عمرہ کرسکتے ہیں ۔

    آپ کو کیسے معلوم ہوگاکہ آپ کا عمرہ قبول ہوا کہ نہیں ؟
    آپ کاایمان و عقیدہ صحیح ہو(یعنی آپ دیندار ہیں اورشرک و بدعت کرنے والوں میں سے نہیں ہیں)، آپ نے کسی کی حق تلفی نہ کی ہو، آپ نے حلال پیسے سے اللہ کے گھر کا سفر کیا ہو، آپ نے اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے عمرہ کیا ہو(اس عمرہ میں لوگوں کے لئے دکھاوا، دنیا طلبی اور شہرت نہ ہو) ، آپ نے سنت کے مطابق جیسے اوپر بیان کیاگیا ہے عمرہ کیا ہو تو اپنے رب پر یقین رکھیئے کہ وہ آپ کا عمرہ قبول کرلیا ہے لیکن اگر ان باتوں میں کہیں آپ سے غلطی ہوئی ہے تو اس کی اصلاح کرکے پھر سے کامل طورپرعمرہ کریں ، بے شک اللہ قبول کرے گا۔
    آج کل لوگ عمرہ پر نکلنے سے قبل عمرہ کا پرچار کرتے ہیں، دعوت پہ دعوت کھاتے ہیں، گھوم گھوم کر سب سے ملاقات کرتے ہیں ، لوگوں سے رسماًمعافی پہ معافی مانگتے ہیں ، عمرہ پہ جاتےوقت ملاقاتیوں کا بڑا ہجوم لگارہتا ہے جو مالا پہناپہناکررخصت کرتا ہے ، واپسی پراسی طرح قطاروں میں کھڑے لوگ مالا لئے استقبال میں حاضر رہتے ہیں ۔ کیا اس طرح کا عمل ونمونہ عہد رسول اور اسلاف کی سیرت میں ملتا ہے ؟ عمرہ ایک عظیم الشان عبادت ہے، اس کا تقاضہ ہے کہ بغیرہنگامہ کئے چپ چاپ اللہ کی رضا کے لئے عمرہ کریں تاکہ اللہ ہماری عبادت قبول کرے ۔ کیا آپ کو صحیح مسلم(1905) کی وہ حدیث یاد نہیں ہے جس میں مذکور ہےکہ شہرت کی وجہ سے جہاد کرنے والے ، علم حاصل کرنے والے اور مال خرچ کرنے والے کو جہنم میں گھسیٹ کر پھینک دیا جائے گا۔ تو جو شہرت کے لئے عمرہ کرے گا اس کا بھی یہی حشر ہوگا، اسے بھی گھسیٹ کر جہنم میں پھینکا جائے گا اس لئے ہمیں عمرہ کی انجام دہی میں ایسے رسم و رواج اور اعمال سے بچنا چاہئے جو شہرت کے قبیل سے ہوں اور عبادت کے اخلاص کو ختم کرنے والے ہوں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. حافظ عبد الکریم

    حافظ عبد الکریم محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 12, 2016
    پیغامات:
    592
    جزاک اللہ خیرا
     
  3. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    882
  4. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    882
    بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:32)
    جواب از : مقبول احمد سلفی
    جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ ، سعودی عرب
    13/02/2023
    سوال(1): ایک عورت جو صاحب استطاعت ہے، اس کا شوہر حج نہیں کررہا ہے کیا وہ اپنے بھائی کے ساتھ حج کرسکتی ہے یا شوہر ہی بیوی کو حج کرائے گا جیساکہ ہمارے یہاں کا ماحول ہے ، شوہر حج نہ کرائے تو بیوی حج نہیں کرسکتی ہے ۔اور کیا صاحب استطاعت بیوی شوہر کو چھوڑ کراپنے بھائی کے ساتھ حج کرتی ہے ، تو وہ گنہگارہوگی؟
    جواب:اللہ نے فرمایا ہے کہ جو اس کے گھر کی طرف جانے کی طاقت رکھتا ہو اس پر حج فرض ہے ۔ اس فرمان الہی کی روشنی میں اگر بیوی کو بیت اللہ تک جانے کی مالی اور جسمانی استطاعت ہے تو اس پر حج فرض ہے اس عورت کو بلاتاخیرحج کرنا پڑے گا اور حج کے سفر کے لئے عورت کو محرم چاہئے ، محرم کے طور پر عورت شوہر کو یا بھائی کو یا بیٹا کویا باپ کو، ان میں سے کسی کو اپنےساتھ لے جاسکتی ہے یعنی ضروری نہیں ہےکہ بیوی شوہر کے ساتھ ہی حج کے لئے سفر کرے وہ کسی بھی محرم کے ساتھ حج پہ جاسکتی ہے اور وہ گنہگار نہیں ہوگی کیونکہ یہ فریضہ ہے جو بیوی کے ذمہ ہے، نہ کہ شوہر کے ذمہ ۔
    اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ شوہر ہی بیوی کو حج کرائے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر شوہر بیوی کو اپنے پیسے سے حج کرادے تویہ اس کا احسان ہے مگر شوہر کے ذمہ بیوی کا حج کرانا نہیں ہے اور جس بیوی پر حج فرض ہوجائے وہ شوہر کےساتھ یا شوہر کے علاوہ کسی اور محرم کے ساتھ حج کرسکتی ہے۔

    سوال(2):ایک بہن کو بہت دنوں سے درد کی شکایت ہے اور وہ دردناف کے نیچے نجاست کی جگہ پر ہے کیا وہ اس جگہ پر دم کرسکتی ہے ؟
    جواب:اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ بہن مسنون اذکار پڑھ کر جہاں درد ہورہا ہووہاں پھونک مارے ، پڑھنا تو زبان سے ہی ہے ، درد والی جگہ صرف پھونکنا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ عثمان بن ابی العاص ثقفی سے روایت ہے، انہوں نے شکوہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک درد کا اپنے بدن میں جو پیدا ہو گیا تھا جب سے وہ مسلمان ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ضَعْ يَدَكَ عَلَى الَّذِي تَأَلَّمَ مِنْ جَسَدِكَ، وَقُلْ بِاسْمِ اللَّهِ ثَلَاثًا، وَقُلْ سَبْعَ مَرَّاتٍ أَعُوذُ بِاللَّهِ، وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ (صحیح مسلم:5737)
    ترجمہ:تم اپنا ہاتھ درد کی جگہ پر رکھو اور کہو: «بسم الله» تین بار، اس کے بعد سات بار کہو «أَعُوذُ بِاللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِر» ۔ یعنی میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ کی برائی سے اس چیز کی جس کو پاتا ہوں میں اور جس سے ڈرتا ہوں۔
    اسی طرح یہ بھی صحیح ہے کہ مسنون اذکار پڑھ کر ہاتھ پر پھونک مارلیں اور اپنے ہاتھ کو چہرہ ، بدن اور درد والی جگہ پر پھیر لیں نیز پانی پر دم کرکے بھی پینا جائز ہے ۔

    سوال(3):ایک بہن کو سفر پہ جانا ضروری ہے مگر اس کا کوئی محرم نہیں ہے تو کیا ایک دوسری بہن کو اس کا ساتھ دینا چاہئے یا اپنے گھر میں رہنا چاہئے ؟
    جواب:جس بہن کو سفر کے لئے محرم نہیں ہے اور سفر کرنا ضروری ہے تو مجبوری میں بغیر محرم کے اکیلی سفر کرسکتی ہے ، رہا مسئلہ ایک دوسری بہن کا اس کے ساتھ ہونا تو چونکہ عورت کسی عورت کا محرم نہیں بن سکتی ہے اس لئے شرعا تو فائدہ نہیں ہے لیکن سفر میں بھی اس بہن کو کسی کی سخت ضرورت ہو تو احسان وسلوک کے طور پر ساتھ دینا جانا جائز ہے اور دوسری بہن بھی عذرکے سبب بغیر محرم کے سفر کرنے کی وجہ سے گنہگار نہیں ہوگی ۔
    یہاں پر ایک اور بات جان لی جائے کہ جو ضرورت اپنے شہر میں پوری ہوسکتی ہو اس کے لئے دوسرے شہر جانا جائز نہیں ہے اور سامان وغیرہ کی خرید وفروخت آج کل آن لائن ہونے کی وجہ سے سہولت ہوگئی ہے اس لئے ناگزیر ضرورت کے تحت ہی سفر کرے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہت ساری عورتوں کا کوئی نہ کوئی محرم موجود ہوتا ہے مگر آپسی تعلقات اچھے نہیں ہونے کی وجہ سے ان سے بات چیت بند کربیٹھتی ہے حتی کہ کتنی عورت کا شوہر موجود ہوتا ہے مگر آپسی رنجش میں شوہر کے بغیر سفر کرتی ہے ایسی صورت کو عورت کو اپنے اختلاف بھول کر میل جول اورتعلقات استوار کرلیناچاہئےکیونکہ قطع تعلق گناہ کبیرہ ہے پھر محرم کے ساتھ سفر کرنا چاہئے۔

    سوال(4): ایک عورت کا انتقال ہواہے، اس کا ترکہ جو زیور اور نقدی کی شکل میں تھا تقسیم ہوگیا ہے۔میت کا ایک گھر بھی ہے، اس میں گھر کے لوگ اورشوہر رہتے ہیں، باپ کی وجہ سے بیٹے گھرتقسیم نہیں کرنا چاہتے کہ کیا بیٹوں کایہ فیصلہ صحیح ہے ؟
    جواب:میت کے انتقال کے بعد اس کی وراثت کو تدفین کے بعد فورا تقسیم کردیا جائے گا کیونکہ حقوق کا معاملہ ہے ، ہمارے یہاں عموما تقسیم وراثت میں تاخیر کی جاتی ہے جو شریعت سے غفلت اور حقوق میں لاپرواہی کے سبب ہے یا مجبوری میں مشترکہ فیملی سسٹم کے سبب ۔ عورت کے انتقال پرجب اس کے زیورات اور نقدی تقسیم کئے گئے اسی وقت گھر بھی تقسیم ہوجانا تھا۔میت کے ترکہ کو تقسیم کرتے وقت اس کےتمام ترکہ کو جمع کرکے وراثت کے نظام کے تحت وارثوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
    مذکورہ مسئلہ میں گھر کی تقسیم میں باپ کی وجہ سے جو تاخیر کی جارہی ہے وہ بالکل صحیح نہیں ہے ۔ تقسیم وراثت میں باپ کا گھر میں رہنے یا نہ رہنے سے تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ ترکہ ہے جو باپ کی نہیں بیوی کی ملکیت تھی ۔اس وجہ سے یہاں باپ کا خیال کرنا اہم نہیں ہے بلکہ وقت پر وارثوں کے درمیان میت کی جائیداد کی منصفانہ تقسیم اہم ہے ۔ وراثت کی تقسیم کا مطلب ہی یہ ہے کہ میت کی جائیداد اس کی تدفین کے بعد تقسیم کردی جائے تاکہ حقداروں کو وقت پر اور صحیح سے حق مل جائے ۔ آج مکان صحیح سالم ہے اوراس کی مالیت زیادہ ہےلیکن کل یہی مکان گر جائے ، ٹوٹ جائے یا کسی فتنہ اورحادثہ کاشکارہوجائے اور تمام وارثوں کو اس کا حق نہ مل سکے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اس لئے بلاخیر اس گھرکو بھی تقسیم کردیا جائے اور باپ اپنے حصے کی جگہ میں رہے گا یا جگہ نہ ہو تو بیٹے کے ساتھ رہے گا ۔

    سوال(5):رمضان کے فرض روزے جو حیض یا نفاس کی وجہ سے چھوٹ گئے تھے کیا رجب میں ان روزوں کی قضا کرناممنوع ہے اور اس ماہ میں ایام بیض کی نیت سے روزہ رکھ سکتے ہیں؟
    جواب:کسی عذر کی وجہ سےجس سے رمضان کا روزہ چھوٹ جائے وہ اگلا رمضان آنے سے قبل کبھی بھی اور کسی ماہ میں اس کی قضا کرسکتا ہے ، رجب میں بھی اور شعبان میں بھی قضا کرسکتا ہے ، کسی ماہ میں روزہ قضا کرنے کی ممانعت نہیں ہے، صرف بعض ایام میں روزہ رکھنے کی ممانعت ہے جیسے جمعہ کا اکیلاروزہ رکھنا منع ہے ، عیدین اور ایام تشریق میں بھی روزہ رکھنا منع ہے۔ اور جو بھائی یا بہن ایام بیض کا روزہ پہلے سے رکھتے آرہے ہیں وہ اس ماہ رجب میں بھی ایام بیض کا روزہ رکھیں گے لیکن اگر کوئی اس مہینہ میں روزہ رکھنے کو افضل سمجھ کر صرف اسی ماہ میں ایام بیض کا روزہ رکھے تو غلط ہے ۔

    سوال(6):کیا بیٹی کو صدقہ دینے کی فضیلت میں یہ حدیث صحیح ہے ؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا میں تم کو افضل صدقہ نہ بتا دوں؟ اپنی بیٹی کو صدقہ دو جو (شوہر کی موت یا طلاق کی وجہ سے )تمہارے پاس آ گئی ہو اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا بھی نہ ہو۔(سنن ابن ماجہ:3667)
    جواب:ابن ماجہ میں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے:
    عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَفْضَلِ الصَّدَقَةِ؟ ابْنَتُكَ مَرْدُودَةً إِلَيْكَ لَيْسَ لَهَا كَاسِبٌ غَيْرُكَ.
    ترجمہ:سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تم کو افضل صدقہ نہ بتا دوں؟ اپنی بیٹی کو صدقہ دو، جو تمہارے پاس آ گئی ہو، اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا بھی نہ ہو۔
    اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ (حوالہ کے لئے دیکھیں ضعیف ابن ماجہ :3667)
    گویا بیٹی کی فضیلت میں یہ حدیث ثابت نہیں ہے لیکن چونکہ وہ مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب محتاج و نادار ہے اور اس کے بچےبھی ہوں تو بچے یتیم کہلائیں گے ایسے میں ان یتیموں اور ضرورت مند بیٹی پر خرچ کرنا بڑے اجر کا کام ہے ۔

    سوال(7): کیا سونے کے وقت حیض والی عورت وضو کرسکتی ہے ؟
    جواب:صحیح بخاری(282) و مسلم(305) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اگر جنابت میں ہوتے تو کھانے سے پہلے یا سونے سے پہلے نماز کی طرح وضو کرتے ، اس حدیث پر قیاس کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ حائضہ بھی وضو کرسکتی ہے ۔ سونے کے وقت وضو کرکے سونا اجر کا باعث ہے تو حائضہ بھی وضو کرکے سو سکتی ہے۔شیخ عبدالرحمن بن عبداللہ السحیم رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا حائضہ عورت وضو کرکے اپنے مصلی میں بیٹھ سکتی تاکہ ذکرکرے اور اسی طرح قیام اللیل کے وقت حائضہ کا وضو کرنا اوراپنے مصلی میں ذکر کے لئے بیٹھنا جائز ہے تو شیخ نے جنبی والی روایت سے استدلال کرتے ہوئے جائز کہا ہے اور بطور استشہاد فتوی کے آخر میں سنن دارمی کے تین آثارجوحکم بن عتیبہ، عطاء اور مکحول سے مروی ہیں بیان کئے جن میں مذکور ہے کہ حائضہ عورت ہرنماز کے وقت وضو کرسکتی ہے تاکہ وہ اللہ کا ذکر اور دعاکرے ۔شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا حائضہ عورت کے لئے سونے کے وقت وضو کرنا مستحب ہے تو شیخ نے جواب دیا کہ ہاں ،جب جنبی اور حائضہ سونے کا ارادہ کرے تومستحب ہے کہ کم ازکم وضو کرے کیونکہ وضو سے حدث(ناپاکی) میں تخفیف ہوتی ہے۔
    بہرکیف! حائضہ عورت سونے کے وقت وضو کرکے سوسکتی ہے اور اسی طرح نماز کے وقت بھی وضو کرکے اپنے مصلی میں بیٹھ کر ذکرودعا کرے تو جائز ہے تاہم وضو ضروری نہیں ہے ، بغیر وضو کے بھی اذکار ودعا کا اہتمام کرسکتی ہے۔

    سوال(8):کہیں کہیں عورتوں کے اعتکاف کے لئے مساجد میں اس طرح پردہ لٹکائے جاتے ہیں جس سے الگ الگ گھر یا خیمہ کی طرح بن جاتا ہے اور کہیں تو کوئی پردہ نہیں ہوتا ، اعتکاف کرنے والی عورتیں سب ایک دوسرے کے سامنے چہرہ کھولے رکھتی ہیں جبکہ میں نے سنا ہے کہ اعتکاف میں چہرہ دکھانا منع ہے اور اعتکاف میں تنہائی ضروری ہے،ان باتوں کی حقیقت بتائیں۔
    جواب: عورتوں کا اعتکاف بھی مسجد میں ہی ہوگا، گھر میں اعتکاف جائز نہیں ہے اور عورت کا عورت سے چہرے کا پردہ نہیں ہے خواہ عورت اعتکاف میں ہی کیوں نہ ہویعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ اعتکاف کی حالت میں ایک عورت دوسری عورت سے اپنا چہرہ چھپائے ۔ عورت کے اعتکاف کے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ مسجد میں مردوں سے الگ تھلگ عورتوں کا مخصوص حصہ ہو جہاں وہ اعتکاف کرے ، اس مخصوص حصے میں اعتکاف کرنے والی عورتیں چاہیں تو الگ الگ اپنے لئے کپڑ ااور پردہ وغیرہ سے خیمہ کی شکل بنالیں جیسے ازواج مطہرات مسجد نبوی میں اپنا اپنا خیمہ لگالیا کرتی تھیں ۔نبی ﷺ کے متعلق بھی آتا ہے کہ آپ کا بھی خیمہ ہوتا تھا مگر یہ ضروری امر نہیں ہے، مسجد میں ٹھہرنا ہی تنہائی ہے کیونکہ مسجد میں ٹھہرنے والا بستی اور لوگوں سے الگ ہوتا ہے ۔ اگر خیمہ لگانے میں آسانی ہو تو خیمہ لگانا چاہئے تاکہ مزید تنہائی حاصل ہوجائے عبادت کے لئے لیکن مسجد میں خیمہ لگانے سے نمازیوں کے لئے مشکل پیدا ہو تو خیمہ نہیں لگانا چاہئے ۔مسجد کے کسی گوشے میں بیٹھ کر عبادت ، تلاوت اور ذکر و اذکار کرسکتے ہیں، یہی کافی ہے یعنی خیمہ ضروری نہیں ہے۔مسجد میں جب پانچ اوقات اور تراویح کی نمازہوتی ہے تو سارے نمازی بشمول معتکف ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں اور جمعہ کے دن تو بستی کے سارے لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں جس سے تنہائی نہیں رہتی اور اس سے اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے کیونکہ اعتکاف کی اصل عبادت کی نیت سے مسجد میں وقوف کرنا ہےاور یہی کافی ہے۔

    سوال(9): ہروقت عورتوں کے لئے کوئی نہ کوئی کام ہوتا ہے ، صبح کے وقت بھی شوہرکو آفس اور بچوں کو سکول بھیجنے کی تیاری اور دیگرمشاغل تو کیا عورتیں فجر کی نماز کے بعد ان کاموں سے فارغ ہوکراشراق کی نماز ادا کرے تو اشراق کی فضیلت حاصل ہوگی؟
    جواب:اشراق کی خاص فضیلت اسی شکل میں حاصل ہوگی جیسے حدیث میں بیان کی گئی ہے، جماعت سے نماز نہ پڑھنا، یا نماز کی جگہ چھوڑ دینا یا ذکر میں مشغول نہ رہنا ، یہ سب اشراق کی فضلیت کو منقطع کردیتےہیں ۔ مختصریہ کہ جو جماعت سے فجر کی نماز پڑھے خواہ مرد ہو یا عورت ، وہ اسی جگہ بیٹھے ذکر میں مشغول رہے اور پھر سورج نکلنے کے بعد یعنی جو اشراق کا وقت ہوتا ہے اس سے دس پندرہ منٹ بعد دو رکعت ادا کرے وہ اشراق کی نماز ہے اس سے حج و عمرہ کا اجر ملے گا۔جن عورتوں کو صبح میں مشغولیت نہیں رہتی ہے یا آپ کے لئے بھی جب کبھی مشغولیت نہ رہے تو آپ فجر کی نماز پڑھ کراپنے مصلی پر بیٹھی ذکر کرتی رہیں اور جب سورج نکل کرکچھ بلند ہوجائے تو اشراق کی نیت سے دو رکعت ادا کرلیں، اللہ نیت و دل دیکھتا ہے اور بہتر اجر دینے والا ہے۔

    سوال(10): ایک عورت نے ٹسٹ ٹیوب بیبی ( ivf )کا علاج کرایا ہے ، اس کے لئے جسم پر پانی بہانا توصحیح ہے مگر سر پر پانی نہیں بہا سکتی ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ رحم میں انجکشن کے ذریعہ جو منی رکھی گئی ہے اس کی وجہ سے غسل کرنا پڑے گا اور کیسے غسل کرے گی ؟
    جواب:ایک مسلمان عورت کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی رحم میں صرف اپنے شوہر کی منی ہی رکھی جانی چاہئے ، شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کی منی رکھنا حرام ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ منی حکما پاک ہے گویا کہ ایک پاک چیز رحم میں داخل کی جارہی ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ بغیر جماع کے انجکش کے ذریعہ مرد کی منی بیوی کے رحم میں رکھنے سے غسل واجب نہیں ہوتاحتی کہ اس سے نہ روزہ پر اثر پڑے گا اور نہ ہی وضو پریعنی اس عمل سے نہ روزہ ٹوٹے گا اور نہ ہی وضو ٹوٹے گاپھرغسل کی بدرجہ اولی حاجت نہیں ہے۔

    سوال(11): عورت حمل میں پیٹ پر کالا دھاگہ باندھتی ہے کیا یہ جائز ہے؟
    جواب: نظر بد سے حفاظت اور حمل کو نقصان نہ پہنچے اس نیت سے حاملہ عورت اپنے پیٹ پر کالا دھاگہ باندھتی ہوگی ۔ یہ جہالت اور بے دینی کی وجہ سےہے، اسلام میں برکت کے حصول یا شفا کی نیت سے بدن پر کچھ لٹکانا جائز نہیں ہے ۔اس طرح کی کوئی چیز جسم پر کہیں بھی لٹکائی جائے یا پہنی جائے وہ تعویذ میں شمار کی جائے گی اور تعویذلٹکانا شرک ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے: مَن عَلَّق تميمةً فقد أشرَكَ(صحيح الجامع:6394)
    ترجمہ:جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔
    اس تعویذ میں مروجہ تعویذجو عموما گردن میں لٹکایا جاتا ہے وہ اور اس جیسی کوئی چیز دھاگہ، کڑا، چھلہ سب شامل ہیں۔

    سوال(12):چند عورت مل کر گھر میں جماعت سے نماز پڑھے تو اشراق کی نیت سے نماز پڑھ سکتی ہے؟
    جواب: اصل جماعت والی نماز وہ ہے جو مسجد میں ادا کی جاتی ہے ، کسی عورت کے لئے آسانی ہو تو وہ مسجد میں حاضرہوکر جماعت سے نماز پڑھ سکتی ہے ، ورنہ اپنے گھر میں اکیلی پڑھے اور اور عورت کی نماز گھر میں افضل ہے ۔ گھر میں چند عورتیں ہوں اور وہ جماعت بناکر فجر کی نماز اور دیگر نمازیں ادا کرے تو اچھی بات ہے ، عورت بھی جماعت بناکر نماز پڑھ سکتی ہے اس کا جواز ملتا ہے ۔جہاں تک فجر کی جماعت اور اشراق کا مسئلہ ہے تو عورت چاہے اکیلی فجر کی نماز پڑھے یا چند عورتیں مل کرجماعت سے نماز پڑھے پھر اس جگہ بیٹھی اللہ کا ذکر کرتی رہے یہاں تک کہ سورج نکل آئے اور کچھ بلند ہوجائے تو دورکعت ادا کرے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اللہ بہتر بدلہ دینے والا ہے ۔

    سوال(13): بیوی سو رہی ہو اور شوہر پاس آکر ڈس چارج کرلے اور بیوی پہ منی کا ایک قطرہ بھی نہ گرے تو کیا بیوی کو غسل کرنا پڑے گا؟
    جواب:اگر بیوی نیند میں ہو، شوہر بیوی کے جسم سے فائدہ اٹھا کر منی خارج کرلے لیکن بیوی کی شرمگاہ میں دخول نہ کرے تو بیوی پر غسل نہیں ہوگا، صرف شوہر پر غسل ہوگاتاہم شوہر کو چاہئے کہ شہوت کی تکمیل مشروع طریقے سے کرے یعنی جماع کے ذریعہ ۔

    سوال(14):اگر کسی عورت کو برص کی بیماری ہو تو اس کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھا سکتے ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم برص ، دیوانگی اور کوڑھ جیسے مرض سے پناہ مانگتے تھے؟
    جواب:یہ بات صحیح ہے کہ برص ایک بیماری ہے ، رسول اللہ ﷺ نے اس سے پناہ طلب کی ہے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من البرص، والجنون، والجذام، ومن سيئ الأسقام» ترجمہ:اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں برص، دیوانگی، کوڑھ اور تمام بری بیماریوں سے۔ (ابوداؤد:1554،قال الشيخ الألباني: صحيح)
    اس حدیث کی روشنی میں کوئی شک نہیں ہے کہ برص بری بیماری ہے جو متعدی بھی مانی جاتی ہے اور عموما لوگ ایسے مریض سے تنفر اختیار کرتے ہیں لیکن نبی ﷺ نے کوڑھ کی طرح برص والوں سے دور بھاگنے کی تعلیم نہیں دی ہے۔ ساتھ ہی ایک مسلمان کا عقیدہ ہے کہ کوئی بیماری آپ خود کسی کو منتقل نہیں ہوتی ہے ، ہاں متعدی امراض سے احتیاطی تدبیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ برص کی بیماری میں مبتلا عورت کے ہاتھ کا بناہوا کھاناکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس کے ساتھ بیٹھنے اور کھانے پینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ، ہاں برص والی لڑکی سے شادی میں احتیاط کرتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ برص لاعلاج بھی نہیں ہے اس کا علاج ہوتا ہے اور مریض کو شفا ملتی ہے اس لئے اس کا بہتر علاج کرایا جائےاور اس سے شادی بھی کی جاسکتی ہے ۔

    سوال(15):آج کی میڈیکل سائنس یہ کہتی ہیکہ اپنی فرسٹ کزن سے شادی کرنا بچوں کیلئے نقصان دہ ہے یعنی بچے اپاہچ وغیرہ پیدا ہوتے ہیں اور یہ بات عام مشاہدے میں بھی آتی ہے،اس بارے میں اسلام کا حکم کیا ہے؟
    جواب:شادی کے معاملے میں ہمیں اسلام دیکھنا ہے، اللہ نے ہمیں جو حکم دیا ہے وہ حکم انسانی مصلحت ، حکمت اور ضرر سے خالی فائدے پر منحصر ہے۔ میڈیکل سائنس کی یہ بات اس معاملے میں قابل قبول نہیں ہے کیونکہ وہ ظن وگمان ہے۔ بہت سارے کیس میں ڈاکٹر ماں کے پیٹ کے بچہ کو گرانے کا مشورہ دیتے ہیں کہ یہ بچہ ناقص پیدا ہوگا ، یا بچے کو دماغ نہیں ہوگا وغیرہ مگر اس کے برعکس ہوتا ہے۔اس لئےکزن سے شادی کو نقصان دہ ماننامحض گمان ہے ، ہمیں اللہ کے حکم پر عمل کرنا ہے جو علم یقین ہے۔ اگر بسا اوقات کہیں کزن سے شادی پربچوں میں عذریا موروثی بیماری نظر آتی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے، وہ جس کو جیسے چاہے پیدا کرےاور یہ خیال نہیں کرنا ہےکہ اپنے کزن سے شادی کی اس لئے ایسا ہوا ۔
    صحت اور بیماری اللہ کی طرف سے ہے وہ جسے چاہتا ہے کامل صحت کے ساتھ پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے معذور مثل اندھا، کانا، گونگا، لنگڑااور دیوانہ بناکر پیداکرتا ہے، اس میں اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے آزمائش ہے اور یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے ۔ ایک مسلمان لڑکا دین وایمان کی بنیاد پر کسی بھی لڑکی سے شادی کرسکتا ہے جس سے اس کا نکاح کرنا حلال ہے خواہ وہ خاندان کی لڑکی ہو یا خاندان سے باہر کی لڑکی ہو۔ مذکورہ ظنی سائنسی فکرکی وجہ سےکزن یا فرسٹ کزن سے شادی نہ کرنے کا تصور غیراسلامی ہے اس تصور کا خاتمہ ہونا چاہئے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں