تفسیر سورہ الانعام - فہم القرآن

ابوعکاشہ نے 'ماہِ رمضان المبارک' میں ‏اپریل 4, 2023 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,966
    تفسیر سورہ انعام- فہم القرآن

    اس مبارک سورت کے نام:
    الانعام، الحجہ

    وجہ تسمیہ:
    الانعام: چونکہ چوپائے عربوں کے نزدیک کھانے پینے کا مصدر اور بنیادی سورس، ذریعہ معاش اور ذرائع حمل ونقل کیلئے بہت اہم ہوتے تھے، بلکہ وہی انکی کل پونجی ہوتی تھی، جس کی وجہ سے انکے نزدیک انکا ایک خاص مقام تھا، اسلئے کہ وہی انکی زندگی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے، عبودیت اور بندگی کے دوڑ میں وہ ان چوپایوں کو شامل نہیں کرتے تھے اس لیے کہ ان کا خیال تھا کہ اموال میں تصرف کی آزادی عبادت کے ساتھ متعارض نہیں ہے، اسی وجہ سے اس سورت کا نام چوپایوں کی نشانی کے طور پر آیا تاکہ یہ ایک عام رہنمائی بن جائے ہر اس شخص کیلئے جس کا عمل اسکے اعتقاد کے مخالف ہو۔
    الحجہ: اللہ کی وحدانیت پر کثرت سے دلائل وبراہین پیش کئے گئے ہیں نیز مشرکین ومنکرین پر بھی حجت قائم کئے گئے ہیں؛ اسی لئے اسے الحجہ بھی کہا جاتا ہے۔

    سورت کی فضیلت:
    -سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (من أخذ السبع الأول من القرآن فهو حبر)" ترجمہ: جس نے قرآن مجید کی پہلی سات سورتیں سیکھ لیں وہ عالم ہے۔“ (سلسلہ صحیحہ: ۲۳۰۵)۔
    سات سورتوں سے مراد بقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف اور التوبہ ہیں۔

    سورت کے آغاز و اختتام میں مطابقت:
    - سورت کا آغاز مشرکین پر نکیر کے ذریعے ہوا ہے کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کی پرستش کی طرف مائل کیسے ہوتے ہیں جبکہ زمین وآسمان کا خالق اللہ ہے اور اسی نے تاریکیوں اور روشنی کو بنایا ہے؟!
    - اس سورت کا اختتام بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اسی چیز پر نکیر کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے-قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ) ترجمہ:آپ فرما دیجئے کہ کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو رب بنانے کے لئے تلاش کروں حاﻻنکہ وه مالک ہے ہر چیز کا اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے وه اسی پر رہتا ہے اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ پھر تم سب کو اپنے رب کے پاس جانا ہوگا۔ پھر وه تم کو جتلائے گا جس جس چیز میں تم اختلاف کرتے تھے۔ (الانعام: ۱۶۴)۔
    یعنی جو زمین وآسمان اور ساری کائنات کا رب ہے اسے چھوڑ کر میں دوسرے کی پرستش کیسے کر سکتا ہوں؟!
    - اس کے اندر اس بات کی تاکید ہے کہ اللہ تعالی ساری چیزوں میں اکیلا ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔

    سورت کا مرکزی نکتہ:
    توحید باری تعالی اور اعتقاد وعمل ہر اعتبار سے اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔

    سورت کے موضوعات:
    اس مبارک سورت کے اندر تین طرح کے لوگوں کو خطاب کیا گیا ہے:
    پہلی قسم: ملحدین اور مادہ پرست جو وجود باری تعالی کے منکر ہیں۔
    دوسری قسم: اصنام پرست۔
    تیسری قسم: وہ لوگ جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں مگر سلوک وعمل کے میدان میں اسے نافذ نہیں کرتے ہیں۔
    اور یہ اس بات کی تاکید کیلئے ہے کہ توحید کامل ہے اسے اعتقاد وعمل ہر میدان میں نافذ کیا جا سکتا ہے۔
    - دوسری مکی سورتوں کی طرح اس سورت کے اندر بھی اصول دعوت پر بحث موجود ہے جیسے توحید الوہیت، وحی، رسالت اور آخرت کی یاد،
    مگر اس سورت میں دو نئے اور نایاب اسلوب ایسے موجود ہیں جو دوسری مکی سورتوں میں نہیں ہیں:
    ۱- اسلوب التقریر، یعنی اپنی بات ثابت کرنے کا طریقہ اور اسلوب ۔
    ۲- اسلوب تلقین۔

    1-اسلوب التقریر:
    کائنات کی عظمت اور اس میں پائی جانے والی مخلوقات، اللہ کی قدرت کاملہ اور اسکے تصرف مطلق میں غور و فکر کرنے کے طریقے سے وجود باری تعالی پر دلائل پیش کئے گئے ہیں، اس اسلوب کے اندر (ھو) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تاکہ قاری یا سامع کو خالق کی عظمت اور اسکی قدرت کا احساس ہو، ایسا لگے کہ کائنات کی نشانیاں اس کی آنکھوں کے ساتھ حرکت کر رہی ہیں اور وہ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، اور اس لفظ (ھو) کا تکرار اس سورت کے اندر ۲۸/ بار آیا ہے۔
    ارشاد باری تعالی ہے - هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ طِينٍ ثُمَّ قَضَى أَجَلًا وَأَجَلٌ مُسَمًّى عِنْدَهُ ثُمَّ أَنْتُمْ تَمْتَرُونَ) ترجمہ: وہی ہے جس نے تمھیں حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک مدت مقرر کی اور ایک اور مدت اس کے ہاں مقرر ہے، پھر (بھی) تم شک کرتے ہو۔ (الانعام: ۲)۔
    مزید ارشاد باری تعالی ہے- وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ) ترجمہ: اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وه تمہارے پوشیده احوال کو بھی اور تمہارے ﻇاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے۔( الانعام: ۳)۔
    مزید ارشاد باری تعالی ہے- وَلَهُ مَا سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ[13] قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ) ترجمہ: اور اللہ ہی کی ملک ہیں وه سب کچھ جو رات میں اور دن میں رہتی ہیں اور وہی بڑا سننے واﻻ بڑا جاننے واﻻ ہے [13] آپ کہیے کہ کیا اللہ کے سوا، جو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے واﻻ ہے اور جو کہ کھانے کو دیتا ہے اور اس کو کوئی کھانے کو نہیں دیتا، اور کسی کو معبود قرار دوں، آپ فرما دیجئے کہ مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے میں اسلام قبول کروں اور تو مشرکین میں ہرگز نہ ہونا۔ (الانعام: ۱۴)۔
    مزید ارشاد باری تعالی ہے-وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) ترجمہ: اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تجھے کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ (الانعام: ۱۷)۔
    اسکے علاوہ مزید ان آیتوں میں دیکھ سکتے ہیں: (۱۸، ۱۹، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۲، ۶۵، ۶۶، ۷۳، ۹۷، ۹۸، ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۳، ۱۰۶، ۱۱۵، ۱۱۷، ۱۲۷، ۱۴۱، ۱۶۴، ۱۶۴)۔

    2-اسلوب التلقین:
    یہ حجت کی تلقین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہے، تاکہ آپ مخالف کے سامنے اپنی حجت رکھیں بایں طور کہ اسے خلاصی ممکن نہ ہو، اور اس اسلوب کو (قل) کے ذریعے استعمال کیا گیا ہے، اور تقریبا ۴۲/ بار اس کا تکرار آیا ہے۔
    ارشاد باری تعالی ہے - قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ) ترجمہ: آپ فرما دیجئے کہ ذرا زمین میں چلو پھرو پھر دیکھ لو کہ تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔ (الانعام: ۱۱)۔
    مزید ارشاد باری تعالی ہے- قُلْ لِمَنْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلْ لِلَّهِ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ) ترجمہ: آپ کہئے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجود ہے یہ سب کس کی ملکیت ہے، آپ کہہ دیجئے کہ سب اللہ ہی کی ملکیت ہے، اللہ نے مہربانی فرمانا اپنے اوپر ﻻزم فرما لیا ہے تم کو اللہ قیامت کے روز جمع کرے گا، اس میں کوئی شک نہیں، جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈاﻻ ہے سو وه ایمان نہیں ﻻئیں گے۔ (الانعام: ۱۲)۔
    مزید ارشاد باری تعالی ہے- قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ) ترجمہ: آپ کہیے کہ کیا اللہ کے سوا، جو کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے واﻻ ہے اور جو کہ کھانے کو دیتا ہے اور اس کو کوئی کھانے کو نہیں دیتا، اور کسی کو معبود قرار دوں، آپ فرما دیجئے کہ مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے میں اسلام قبول کروں اور تو مشرکین میں ہرگز نہ ہونا۔ (الانعام: ۱۴)۔
    مزید ارشاد باری تعالی ہے- قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ) ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ میں اگر اپنے رب کا کہنا نہ مانوں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (الانعام: ۱۵)۔
    مزید ارشاد باری تعالی ہے- قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلِ اللَّهُ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَى قُلْ لَا أَشْهَدُ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ) ترجمہ: آپ کہئے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے، آپ کہئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواه ہے اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعے سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں کیا تم سچ مچ یہی گواہی دو گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں تو گواہی نہیں دیتا۔ آپ فرما دیجئے کہ بس وه تو ایک ہی معبود ہے اور بےشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ (الانعام: ۱۹)۔
    اسکے علاوہ بھی بہت ساری آیتیں ہیں- ۳۷، ۴۰، ۴۶، ۴۷، ۵۰، ۵۴، ۵۶، ۵۷، ۵۸، ۶۳- ۶۶، ۷۱، ۹۰، ۹۱، ۱۰۶، ۱۳۵، ۱۴۳- ۱۴۵، ۱۴۷- ۱۴۹، ۱۵۰، ۱۵۱، ۱۵۸، ۱۶۱، ۱۶۲، ۱۶۴)۔
    - اس سورت نے مشرکین سے مناقشہ کرنے اور انکے خلاف حجت قائم کرنے میں بہترین مثال پیش کی ہے، جیسے کہ ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی قوم کا واقعہ، اس کے لئے دیکھیں آیت نمبر ۷۴ سے لیکر آیت نمبر ۸۳ تک۔
    - سورت نے یہ کھول کر بیان کردیا ہے کہ اللہ کی نشانیاں بالکل واضح ہیں، ہر صاحب بصیرت انہیں دیکھ سکتا ہے، مگر جس کا دل اندھا ہو چکا ہو اسکی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں، بلکہ وہ دل سے بھی ان کا انکار کرے گا۔ اسکے لئے دیکھیں آیت نمبر ۱۰۴۔
    - سورت کے آخر میں دس وصیتیں محکم آیات میں وارد ہوئی ہیں، جو ایک عام منہج پیش کر رہی ہیں، جو انکی پابندی کرے گا وہ کامیاب ہوگا اس کے لئے دیکھیں ان آیات کو: (۱۵۱، ۱۵۲، ۱۵۳)۔
    - سورت کے آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک انسان کی بڑی قیمت ہے کیونکہ اسے بلند مقصد اور عظیم حکمت کیلئے پیدا کیا گیا ہے یعنی اللہ کے منہج کے مطابق کائنات کی تعمیر کیلئے، گویا کہ اللہ کی طرف سے یہ عام پیغام ہے کہ اپنے رب کو ہر چیز میں اکیلا جانو وہ تمہیں زمین کا مالک اور اسکا جانشین بنائے گا۔ (۱۶۵)۔

    فوائد اور اہم نکات:
    ۱- رات میں سونا اور دن میں کام کرنا ہی فطرت ہے، اور یہی انسان کیلئے مناسب اور بہتر بھی ہے، دیکھیں آیت نمبر(۹۶)۔
    ۲- جو اللہ کیلئے توحید خالص کو پورا کرے گا اللہ اسے دنیا اور آخرت دونوں جگہ امان دے گا، دیکھیں آیت نمبر(۸۲)۔
    ۳- کثرت حق کیلئے دلیل کبھی نہیں ہو سکتی، دیکھیں آیت نمبر(۱۱۶)۔
    بعض سلف نے کہا ہے کہ ہدایت کی راہ پر چلتے رہیں، قلت کو دیکھ کر نہ گھبرائیں، گمراہی کی راہ سے دور رہیں اور گمراہوں کی کثرت دیکھ کر دھوکہ نہ کھائیں۔
    ۴- قیامت کی بڑی نشانیاں جب تک ظاہر نہیں ہو جاتیں تب تک بندوں کی طرف سے ایمان اور توبہ قبول کئے جائیں گے، بڑی نشانیوں کے آنے کے بعد توبہ اور ایمان کا دروازہ بند ہوجائے گا، اس وقت نہ کسی کا توبہ قبول ہوگا اور نہ ہی ایمان، جیسا کہ حدیث کے اندر وارد ہوا ہے:
    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآهَا النَّاسُ، آمَنُوا أَجْمَعُونَ فَذَلِكَ حِينَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلَانِ ثَوْبَهُمَا بَيْنَهُمَا، فَلَا يَتَبَايَعَانِهِ وَلَا يَطْوِيَانِهِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِهِ فَلَا يَطْعَمُهُ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَهُوَ يَلِيطُ حَوْضَهُ فَلَا يَسْقِي فِيهِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَقَدْ رَفَعَ أَحَدُكُمْ أُكْلَتَهُ إِلَى فِيهِ فَلَا يَطْعَمُهَا".
    ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک سورج مغرب سے نہ نکلے گا۔ جب سورج مغرب سے نکلے گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے، یہی وہ وقت ہو گا جب کسی کو اس کا ایمان نفع نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو گا یا جس نے ایمان کے بعد عمل خیر نہ کیا ہو۔ پس قیامت آ جائے گی اور دو آدمی کپڑا درمیان میں (خرید و فروخت کے لیے) پھیلائے ہوئے ہوں گے۔ ابھی خرید و فروخت بھی نہیں ہوئی ہو گی اور نہ انہوں نے اسے لپیٹا ہی ہو گا (کہ قیامت قائم ہو جائے گی) اور قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر آ رہا ہو گا اور اسے پی بھی نہیں سکے گا اور قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنا حوض تیار کرا رہا ہو گا اور اس کا پانی بھی نہ پی پائے گا۔ قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور اسے کھانے بھی نہ پائے گا۔“ (صحیح بخاری: ۶۵۰۶)۔
    اور ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی- فهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا قُلِ انْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ) ترجمہ: کیا یہ لوگ صرف اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس آپ کا رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی آئے؟ جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی، کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا۔ یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو۔ آپ فرما دیجئے کہ تم منتظر رہو، ہم بھی منتظر ہیں۔ (الانعام: ۱۵۸)۔
    ۵- عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا رَأَيْتَ اللَّهَ يُعْطِي الْعَبْدَ مِنْ الدُّنْيَا عَلَى مَعَاصِيهِ مَا يُحِبُّ فَإِنَّمَا هُوَ اسْتِدْرَاجٌ ثُمَّ تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ)۔
    ترجمہ: سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی نافرمانیوں کے باوجود دنیا میں اسے وہ کچھ عطاء فرما رہا ہے جو وہ چاہتا ہے تو یہ استدراج ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ جب انہوں نے ان چیزوں کو فراموش کردیا جن کے ذریعے انہیں نصیحت کی گئی تھی، تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے، حتی کہ جب وہ خود کو ملنے والی نعمتوں پر اترانے لگے تو ہم نے اچانک انہیں پکڑ لیا اور وہ ناامید ہو کر رہ گئے۔ (مسند احمد، الصحیحہ: ۴۱۳)۔

    بشکریہ/ اجمل منظور مدنی
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں